Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریلوے کراسنگ

محمد امین الدین

ریلوے کراسنگ

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    سرخ بتی روشن ہوتے ہی بڑی گاڑیاں رکنا شروع ہوگئیں۔ موٹر سائیکل سوار جلدی جلدی گزرنے لگے۔ فرنیچر سے لدی سوزوکی والے نے نکلنے کی کوشش کی، مگر لوہے اور لکڑی سے بنی ہوئی سرخ اور سفید دھاری دار علامتی رکاوٹ تیزی کے ساتھ بلندی سے زمین کی طرف آنے لگی۔ ڈرائیورنے بریک لگائے اوربڑبڑایا، شاید گالی بھی دی ۔

    موٹر سائیکل سوار جو تیزی سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے، اب ذرا فاصلے پردائیں طرف بنی ہوئی تنگ سی گزرگاہ میں لہراتے ہوئے پہلے دائیں پھر بائیں پھر دائیں اور پھر سیدھے نکل کر جانے لگے۔ گزرگاہ سے ذرا پیچھے کی طرف ڈھائی فٹ بلند اور آٹھ فٹ لمبی پختہ دیوار اٹھی ہوئی ہے۔ جس کے فوراً بعد ایک چھوٹا سا کمرہ بنا ہوا ہے۔ کمرے میں سیاہ لوہے کے بنے ہوئے سات آٹھ یا شاید نو، ٹریک بدلنے والے ہینڈل زمین میں مضبوطی سے گڑھے ہوئے ہیں۔ کمرے کی دیواریں کبھی سفید رہی ہوں گی، مگر اب مٹیالی ہیں۔ ایک دیوار پر کیل کی مدد سے یونیفارم لٹکا ہوا ہے۔ دوسری دیوار پر لکڑی کے ریک پر ٹرینوں کو راہ دکھانے والی لالٹین، پلاسٹک کا ٹفن ایک چھوٹا جیبی سائز کا ریڈیو جس پر FM100 یا پھر کرکٹ کمنٹری سنی جاتی ہے، رکھے ہوئے ہیں۔ داخلی راستے کے عین سامنے والی دیوار پر سب سے اوپر اخباری تراشا اقبال مہدی کا بنایا ہوا قائداعظم کا پورٹریٹ اور اس سے نیچے صدر ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، شاہ رخ خان، سنجے دت، سلمان خان، مادھوری ڈکشٹ، ممتا کلکرنی، ندیم، میرا، نیلی اور سب سے آخر میں مونیکا لیونسکی کا نیلے کوٹ والا فوٹو چسپاں ہے جس پر خشک مواد پایا گیا تھا۔ اس قدر مختلف النوع تصاویر سے یہاں تعینات شخص کی خوش ذوقی اور تنوّع کا پتا چلتا تھا۔

    اس کمرے سے باہر پختہ دیوار کے دوسری طرف طارق بالا کوٹی کا ٹھیلا کھڑا ہوا ہے۔ جس پر گنڈیریاں پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھری ہوئی ہیں اور وہ خود ایک اونچے اسٹول پر بیٹھا نسوار سے شغل کررہا ہے۔ قریب ہی زمین میں مضبوطی سے گڑھا ہوا بڑ کا تناور درخت اپنی شاخوں اورپتوں سے ٹھیلے، منڈیر، کمرے اور درخت کے عین نیچے بیٹھے موچی صنوبر خان پر سایہ کیے ہوئے ہے۔

    گاڑیوں کا رش بڑھتا جارہا ہے۔ زیادہ تعداد سامان ڈھونے والی سوزوکیوں کی ہے پیچھے کی آبادی میں لوگوں نے چھوٹے چھوٹے کارخانے لگا رکھے ہیں، جس میں فرنیچر بنانے کے کارخانے سب سے زیادہ ہیں۔ ریلوے کراسنگ کے اطراف ایک چھوٹا سا بازارہے جس میں علاقے کی ضروریات کا سامان مل جاتا ہے۔ بازار کے تمام لوگ ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انصاف ہوٹل کے حاجی انصاف، مشتاق حلوائی، سن شائن ڈرائی کلینر کا خیر الدین، شہزاد ویڈیو کیسٹ والا، صنوبر خان، رمضان چاچا، برکت علی ، سالار احمد فوٹوگرافر حتیٰ کہ عبدالقادر بھی۔

    عبدالقادر ریلوے کراسنگ کا گیٹ بند کرنے اور کھولنے کی ڈیوٹی پر تقریباً دس گیارہ برسوں سے یہاں پر تعینات ہے۔ اس کا اب یہاں سے ٹرانسفر ہونے والا ہے کیوں کہ آج صبح ہی یہاں بلدیہ کے محکمے کے بہت سارے لوگ جگہ کی پیمائش کرنےآئے تھے۔

    ان تمام لوگوں کی بھیڑ میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو کہ یہاں موجود ہونے کے باوجود پہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ گیٹ بند کرنے اور کانٹے بدلنے والے چھوٹے سے کمرے کی پختہ چھت پر سینکڑوں رنگین کپڑوں سے بنی ہوئی موٹی رلی اوڑھے گٹھری کی شکل میں پڑا ہوا مستانہ ہے۔ماضی کی بہت سی باتیں جو کہ بھول چکا ہے مگر اسے اب بھی بہت کچھ یاد ہے۔ یادیں اس کے دماغ پر دیوار سے چپکی چھپکلی کی طرح چپک کرمسلسل اسے چاٹ رہی تھیں۔

    چار سوا چار سال پہلے اپنے دوست شجاع کی شادی کے فنکشن پر خوبرو نوجوان فیروز اچانک اسٹیج پر آیا اور مائیک سنبھالتے ہوئے بولا۔

    ’’آج میں اپنے دوست کی شادی کی خوشی میں اسے ایک خاص تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ تحفہ ایک آئٹم کی شکل میں ہے‘‘۔

    چند لمحوں بعد وہ دوبارہ اسٹیج پر نمودار ہوا اور اسٹیج کے عین وسط میں سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔ پس منظر میں مشہور فلمی گیت ’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘کے بول سنائی دینے لگے۔

    فیروز گیت کے بولوں پر پرفارم کررہا تھا۔ کبھی وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرلیتا اور کبھی اضطراری انداز میں اسٹیج کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی طرف بے اختیار دوڑنے لگتا۔ اس کی قمیص کے بٹن ٹوٹ چکے تھے اور گریبان پھٹ گیا تھا۔ چہرے پر کھرونچوں کے نشان نمایاں تھے کہ اچانک اس کے دونوں ہاتھوں میں ٹیوب لائٹیں دکھائی دینے لگیں جو کہ شاید اسٹیج کے کونے پر پہلے ہی سے لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ گیت کے بول جاری تھے۔

    صحرا میں آکر بھی کوئی ٹھکانہ نہ ملا

    اور پھر جیسے ہی بول ’کیا سمجھوں اس سنسار کو‘ابھرے تو لوگوں نے دیکھا کہ فیروز نے وہ دونوں ٹیوب لائٹیں قدرے جھک کر اپنی رانوں پر ایک زور دار آواز کے ساتھ توڑدیں۔ گیت کے بول جاری تھے۔ شیشہ ٹوٹ کر قالین پر بکھر گیا ۔فیروز ننگے پیر دیوانہ وار دوڑرہا تھا۔ وہ کبھی ٹوٹی ہوئی ٹیوبوں کو اپنی ہتھیلیوں اور کبھی پیروں تلے دبا کر چکنا چور کردیتا۔ اسٹیج پر ٹیوب لائٹوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور دوسری طرف فیروز کے ہاتھوں، پیروں اور لباس پر خون کے دھبّے نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ لوگ حیرت سے فیروز کا یہ انوکھا اور جذباتی انداز دیکھنے میں محو تھے کہ اچانک گیت ختم ہوگیا۔ فیروز گھٹنوں کے بل جھکتا چلا گیا۔ پورا پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔

    ’’بھئی اپنے دوست کی شادی پر کیا زبردست تحفہ دیا ہے‘‘

    ’’ارے یار اس کو دیکھو تو سہی کچھ ہو ہوا تو نہیں گیا‘‘۔

    اس اثناء میں فیروز مسکراتا ہوا اٹھا اور ہاتھ لہراتا ہوا اسٹیج سے اتر کر چلا گیا۔ لیکن اگلی صف میں بیٹھی ہوئی محلے کے قاضی صاحب کی بڑی بیٹی کوثر کے دل کی دھڑکنیں اپنے پیروں لگے خون کے دھبوں میں لپیٹے ساتھ لے گیا۔

    پنڈال میں طرح طرح کے الفاظ اس کا پیچھا کررہے تھے۔ کسی نے اسے پاگل کسی نے دیوانہ اور کسی نے مستانہ کہا۔ دوسرے دن گلی سے گزرتے ہوئے فیروز مستانہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ مسکرایا۔ قاضی صاحب کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ کوئی کھڑکی میں کھڑا اسے دیکھ رہا ہے۔ ایک ہی محلے میں رہنے اور شناسا ہونے کے باوجود یہ کوثر سے اس کا پہلا تعارف تھا۔ اسے لگا جیسے اچانک وہ بہت اہم ہوگیا ہو۔ اسے شہرت اور چاہت ایک ساتھ ملی تھیں۔ اسے یہ سب اچھا لگا۔ کوثر کا مسکرا کر دیکھنا، اس کی راہ تکنا، اس بات کا اظہار تھا کہ وہ اسے پسند کرنے لگی ہے۔ قاضی صاحب کی بیٹی ہونے کے ناطے اس کے اظہار محبت میں شائستگی اور رکھ رکھاؤ موجود تھا۔ تاہم اپنے گھر کے مذہبی ماحول کے باوجود وہ خود کو محبت سے باز نہ رکھ سکی۔

    فیروز کی پرفارمنس کی شہرت رفتہ رفتہ محلے سے نکل کر پورے علاقے میں پھیل چکی تھی۔ اسے خاص طور پر پروگراموں میں بلوایا جاتا۔ وہ پہلے سے زیادہ منجھے انداز میں اسٹیج پر آتا۔ وہ جن گیتوں پر پرفارم کرتا وہ بھی اب تعداد میں بڑھتے جارہے تھے لیکن موضوعاتی اعتبار سے یہ تمام گیت دکھ، درد اور ہجر کے پیکر میں ڈھلے ہوتے۔

    فیروز اورکوثر کی محبت سرسبز پودے کی طرح دن بہ دن بڑھتی اور پھیلتی ہوئی کونپلوں کی مانند مسلسل پروان چڑھ رہی تھی مگر دونوں ہندوستان کے ایک ہی گاؤں سے ہجرت کرکے آنے والے دو خاندانوں کی ازلی نفرت سے واقف نہ تھے جو کہ فیروز کی مرحوم پھوپھی کو طلاق دلوانے میں قاضی صاحب کے مرکزی کردار کے بعد پروان چڑھی تھی۔

    پرانی باتیں کچھ لوگ بھول جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ناسور کی طرح اپنے سینے میں پالتے اور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ فیروز کے ابا بھی ایسی ہی نفرت کوپالتے چلے آرہے تھے۔ جب انہیں اپنے بیٹے کی کوثر سے محبت کا پتہ چلا تو وہ موقع میسّر آگیا۔ چنانچہ انہوں نے قاضی صاحب کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کرلیا۔

    قاضی صاحب کو کیا معلوم تھا کہ برسوں پہلے ایک نکمّے جواری اور اپنی بیوی سے غیر فطری فعل کرنے والے اذیت پسند شخص سے کسی معصوم لڑکی کو آزادی دلوانے کا غلط مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے۔

    قاضی صاحب بھول چکے تھے کہ نفاست حسین عرف بھورا پہلوان کا نکاح حسینہ بیگم کے ساتھ انہو ں نے پڑھایا تھااورشادی کے ایک ہفتے بعد ہی یہ بات برادری میں پھیل گئی کہ نفاست حسین عرف بھورا پہلوان اکھاڑے میں ان لونڈوں جن کی ابھی مونچھیں بھی نہیں بھیگی تھیں، کے ساتھ دھینگا مستی کرتے کرتے اب درحقیقت عورت کو صحیح طرح برتنے کے عادی نہیں رہے۔ انہیں یاد نہیں تھاکہجب برادری کے لوگوں نے بھورے کو سمجھایا کہ عورت کو لونڈوں کی طرح نہ برتنے اور تکلیف کے دنو ں میں تکلیف نہ دینے کی ذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے اور پھر برادری کی عورتوں نے فیروز کی پھوپھی کو سمجھا بجھا کر سسرال بھیج دیا تو صرف ایک ہفتے بعد وہ پھر ڈری اورسہمی ہوئی واپس آگئی۔ تب انہوں نے اذیت پسند بھورے پہلوان سے اس معصوم حسینہ بیگم کو ہمیشہ کے لیے نجات دلوادی۔ اس وقت سے ہی فیروز کے ابا نے اپنی بہن کی طلاق کو قاضی صاحب کا ذاتی فیصلہ سمجھتے ہوئے ہمیشہ کی نفرت اپنی گرہ میں باندھ لی۔ امام مسجد اپنے بیشتر فیصلوں اور اقدامات کی طرح برسوں پرانی باتیں بھی بھول چکے تھے۔ چنانچہ ایک شام فیروز کے گھر والوں کی طرف سے آئی ہوئی مٹھائی کو انہوں نے اپنی بیٹی کا نصیب سمجھتے ہوئے قبول کرلیا۔

    ’’قاضی صاحب میں منگنی ونگنی کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔ ادھر بات پکی ہوئی ادھر شادی، آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

    ’’جیسے آپ کی مرضی‘‘۔

    قاضی صاحب نے سر جھکا کر فیروز کے ابا سے کہا۔

    شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی دونوں گھر وں سے ڈھولک اور دف کی ملی جلی آوازیں گونجنے لگیں۔ محلے کی لڑکیاں فیروز کو دیکھ کر چھیڑتیں۔ ’’فیروز بھائی اپنی شادی پر بھی ہمیں اپنا آئٹم دکھانا‘‘

    ’’کیا پاگل ہوگئی ہو۔ اس خوشی کے موقع پر یہ درد بھرا گیت کیوں سنائے گا‘‘۔

    کونے میں بیٹھی ہوئی پڑوسن نے کہا۔ پھر تیسری طرف سے آواز آئی۔

    ’’یہ ٹیوب لائٹیں تورنے کے دن تھوڑا ہی ہیں۔ یہ تو ٹیوب لائٹیں جلانے کے دن ہیں‘‘

    ’’اے آپا! صحیح کہہ رہی ہو۔ آج کل کے لڑکے لڑکیاں لائٹ بندکرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ ابھی شجاع کی شادی پر ہی دیکھ لو۔ ساری رات اس کے کمرے کی لائٹ جلتی رہی۔ ان نگوڑے ماروں کو ذرا شرم نہیں آتی‘‘۔

    ’’بڑی آپا! اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ تم ساری رات ان کے کمرے کی طرف ٹک ٹک دیکھتی رہی ہو؟‘‘

    ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا۔

    ’’اے کم بختوں! کچھ شرم ، حیا، لحاظ ہے۔ بچیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ پڑوس والی بڑی آپا نے اپنا دوپٹہ درست کرتے ہوئے کہا۔ محلے میں چار دن تک مسلسل مایوں، مہندی اور بری کی رسموں کے بعد سامنے والے میدان میں شامیانوں کے بڑے سے پنڈال میں فیروز اورکوثر کا نکاح ہوگیا جو کہ قاضی صاحب نے خود پڑھایا تھا۔

    پیر کے تلوؤں سے نکلتے سرخ خون کو دیکھ کر شروع ہونے والی محبت کمرے کی مسحور کن اور خوشبوؤں سے بھری ہوئی فضا میں دھیمے اور سرگوشیوں میں گفتگو کرتے ہوئے ساری رات شمع دان میں رکھی شمع کی طرح جلتی بجھتی رہی۔ ابھی بدن کی شکنیں چادر کی سلوٹوں میں صحیح طرح مدغم نہ ہونے پائیں تھیں کہ اچانک سورج نکلتے ہی کڑک دار آواز میں فیروز کے ابا نے اسے کمرے سے باہر بلوایا۔

    نیند سے بوجھل آنکھیں لیے تکیہ پر سر رکھے لیٹی ہوئی کوثر کو محسوس ہوا کہ کمرے سے باہر دھیمی اور مدھم آواز میں شروع ہونے والی گفتگو میں تیزی آتی جارہی ہے اور پھر ایک غصیلہ جملہ سماعتوں کے راستے اس کی رگوں میں خنجر کی طرح اترتا چلا گیا۔

    ’’تو اسے ابھی اور اسی وقت طلاق دیتا ہے کہ نہیں؟‘‘

    یہ سن کر اس نے پھولوں بھری سیج سے تقریباً چھلانگ ہی لگائی تھی اور اس کوشش میں وہ گرتے گرتے بھی بچی۔ اسے اپنے لباس کی بے ترتیبی کا ذرا احساس نہ رہا اور وہ کانوں میں گونجتے بھاری لفظوں کا بوجھ اور دماغ کو شل کردینے والے ڈراؤنے خواب اٹھائے دروازہ کھول کر باہر چلی آئی۔

    ’’لڑکی تم اندر جاؤ‘‘۔

    ’’ابا جی میرا قصور کیا ہے؟‘‘

    ’’میں نے کہا تم اندر جاؤ‘‘۔

    فیروز کوثر کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آیا۔ اس کے ابا کی کرخت آواز دروازے تک پیچھا کرتی ہوئی آئی تھی۔ اس نے دروازہ بند کرلیا۔ آوازیں بند دروازے سے ٹکرا کر رہ گئیں۔ لیکن بوجھل کردینے والے لفظوں کا اثر ان دونوں کے ساتھ ہی کمرے میں چلا آیا۔

    ’’فیروز مجھے بھی تو بتاؤ یہ سب کیا ہے؟‘‘

    ’’ابا مجھے کہتے ہیں کہ تو میری مرضی کے بغیر ایک وقت کی روٹی نہ خود کھا سکتا ہے اور نہ اپنی بیوی کو کھلاسکتا ہے۔ تیرے پاس میرے حکم کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جیسا میں کہتا ہوں ویسا کر‘‘۔

    ’’تو کیا تم وہی کرو گے جو وہ کہہ رہے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں نہیں! میں ایسا کبھی نہیں کروں گا‘‘۔

    کوثر نے فیروز کے لہجے کی کمزوری کو بھانپ لیا۔ اسے اپنے شوہر کے نکمے پن پر غصہ آیا جو کہ محض سرجھکائے بڑبڑارہا تھا۔

    ’’ابا شروع سے ایسے ہی ہیں۔ اپنا حکم چلانے والے جب کبھی اماں ان کی مرضی کے خلاف کچھ کرلیتی ہیں تو وہ انہیں چمڑے کے بیلٹ سے پیٹ ڈالتے ہیں۔ میری تو حیثیت ہی کیا ہے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر میں بھی بہت پٹا ہوں لیکن میں ان کے ایسے ارادوں سے واقف ہی نہیں تھا‘‘۔

    ’’تم ابھی جاؤ اور میرے ابا کو بلا لاؤ۔ وہ سب سنبھال لیں گے‘‘۔

    ’’یہ کہیں نہیں جائے گا۔ اگر تو اپنے باپ کو بلوانا چاہتی ہے تو خود جا کر بلوالا۔ تیرے باپ کا اترا ہوا چہرہ دیکھنے کی میری بہت پرانی خواہش ہے‘‘۔

    یہ سن کر دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور بیچ دہلیز پر فیروز کے ابا اس احسا س سے بے خبر کھڑے ہوئے تھے کہ ابھی کچھ دیر پہلے ان دونوں نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا ہے۔

    ’’ٹھیک ہے میں ہی جاتی ہوں۔ ہم بچے کیا باتیں کریں گے۔ آپ جیسے بڑوں سے باتیں کرنے کے لیے وہاں سے بھی کسی بڑے کا ہونا ضروری ہے‘‘۔

    یہ کہہ کر کوثر نے چادر سنبھالی اور چپلیں پہنتی ہوئی دروازے سے نکل گئی۔ دروازے سے نکلتے ہوئے الجھے سوالات کی گتّھی بھی اس کے ساتھ چلی آئی، جسے وہ جتنا سلجھانے کی کوشش کرتی وہ گزری روشن رات کے الجھے بالوں کی طرح مزید الجھتی چلی جارہی تھی۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر ایک لمحے کو رکی۔ بڑی سی چادر میں سے جھانکتی آنکھوں میں سے آنسو اس کی چادر کو بھگورہے تھے۔ اس نے کنڈی کی طرف بڑھایا ہوا ہاتھ سمیٹ لیا۔

    اس کے کانوں میں رخصتی سے پہلے ابا کے کہے ہوئے الفاظ گونجنے لگے، جب ابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹی اب تم ہمارے لیے پرائی ہوگئی ہو۔ اپنے شوہر کی خدمت کرنا، اپنے ساس سسر کو اپنا ماں باپ سمجھنا، انہیں وہی احترام دینا جو تم نے مجھے یا اپنی ماں کو دیا۔ ہمارے ہاں جب بھی آنا خوشی اور ان کی رضا مندی سے آنا۔ کبھی ناراضگی میں مت آنا۔ کبھی ایسی صورت پیش آئے تو اپنی سمجھ بوجھ، میری دی ہوئی تعلیم و تربیت کے مطابق بہترین فیصلہ کرنا اور یوں سمجھنا جیسے ہم تمہارے لیے مرچکے ہوں۔

    جب کئی گھنٹے تک قاضی صاحب کے ہاں سے کوئی نہیں آیاتو انہوں نے گھر میں آئے ہوئے رشتہ داروں میں سے ایک بچے کو وہاں بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد بچے نے آکر بتایا کہ کوثر تو وہاں پہنچی ہی نہیں۔

    ’’پھر وہ کہاں گئی؟‘‘

    فیروز کے لیے یہ اطلاع کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ وہ تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا۔ جہاں ایک دن پہلے تک شادی کا ہنگامہ برپا تھا اب وہاں سب کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ بہت سارے رشتہ دار جو کئی روز پہلے سے وہاں آئے ہوئے تھے، فیروز کے ابا کے ارادے بھانپنے کے بعد خاموشی سے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ گھر میں اب صرف ایک ہی فرد رہ گیا تھا۔ خاموش، سہمی اورمرجھائی ہوئی نیم پاگل عورت، جسے فیروز اماں کہہ کر بلاتا تھا۔

    دوپہر تک کوثر کی گمشدگی کی اور اس کے جانے کے اسباب کے بارے میں پورے محلے کو پتا چل چکا تھا۔ اپنے گھر کے ضحن میں چارپائی پر دونوں ہاتھوں سر کو تھامے قاضی صاحب ظہرکی اذان کی آواز پر اپنی دھیمی اور مخصوص رفتار سے مسجد کی طرف چل دیئے۔ سنتوں کی ادائیگی کے بعد وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تو محلے کے بزرگ احتشام الدین صاحب قریب آئے اور بولے:

    ’’قاضی صاحب! بچی کا کچھ پتہ چلا؟‘‘

    قاضی صاحب کی آنکھوں سے پرسکون اور ٹھہرے سمندر میں اچانک اندرکہیں ابل پڑنے والے طوفان کی طرح آنسو نکل پڑے ۔

    انہوں نے کہا:

    ’’احتشام بھائی ! لگتا ہے مجھ سے کوئی بھول ہوگئی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اپنے بچوں کو کس طرح پالا ہے اور انہیں کیسی تعلیم دی ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ صبح ہوتے ہی وہ کہیں چلی گئی۔ اللہ کی ذات پر مجھے بھروسہ ہے کہ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے شرمندگی ہو‘‘۔

    ’’قاضی صاحب! خدا نہ کرے، مگر ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہو، یا اسے ان لوگوں نے زبردستی نکال دیا ہو‘‘۔

    ’’احتشام بھائی! اگر ایسا ہے تو پھر میں دعا کروں گا کہ اللہ اسے اپنی امان میں رکھے۔ کوثر بہت جذباتی لڑکی ہے۔ وہ غلط قدم نہیں اٹھاتی مگر فیصلہ کرنے میں دیر بھی نہیں کرتی۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اس نے جان نہ دے دی ہو‘‘۔

    ’’اللہ نہ کرے! کیسی باتیں کررہے ہیں آپ‘‘۔

    ’’احتشام بھائی! اگر میرے خدشات صحیح ہیں تو پھر آپ میرا ایک کام کریں، اپنے بچوں کو دوڑائیں۔ کسی ہسپتال ،کسی مردہ خانے میں جا کر ڈھونڈیں۔ اگر اس کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے تو شاید وہ پاگل اب تک جان دے چکی ہوگی‘‘۔

    اسی اثناء میں مؤذن کی اقامت کے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ نماز کے بعد احتشام الدین صاحب نے اپنے بچوں کو مختلف سمتوں میں دوڑایا۔ آخر کار وہ کوثر کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ سول اسپتال کے مردہ خانے میں دو ٹکڑوں میں بٹی کوثر کو ریلوے کالونی کے قریب ریلوے کراسنگ سے اٹھا کر لایا گیا تھا۔

    دور سے آتی ہوئی سیٹی کی آواز پر اس نے اپنے اوپر سے رلی ہٹائی۔ ویران آنکھوں، الجھی ہوئی گرد آلود داڑھی، بکھر ے ہوئے بال اور چہرے پر پھیلی ہوئی وحشت لیے مستانہ نے گردن اٹھائی۔ ویران آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر پھولوں والے ریشمی کپڑے سے بنے ہوئے تکیے پر سر رکھ دیا جو کسی دلہن کے خون آلودہ لباس سے بنایا گیا تھا۔

    ریلوے کراسنگ پر اس چھوٹے سے کمرے کی چھت پر لیٹے فیروز مستانہ سے یہاں کے سب لوگ محبت کرتے ہیں اور اس کے درد سے بھی واقف ہیں۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ کوثر کی موت کے بعد فیروز نے ایک بار جنون میں آکر اسٹیج پر پرفارم کرتے ہوئے بے شمار شیشے کے ٹکڑے اپنے سر میں چبھولیے اور دیوانوں کی طرح خون میں ڈوبا اسٹیج سے اتر کر بھاگتا چلا گیا ۔ کئی دن کے بعد وہ ایک اسپتال میں ملا، مگر نیم پاگل۔ جسے بہت کچھ یاد نہیں تھا۔ کچھ دن اس کے ابا نے اس کی وحشتوں کو برداشت کیا لیکن بہ یک وقت جب دو پاگل ایک گھر میں اکھٹے ہوگئے تو پھر انہوں نے سفاکی کا ایک حربہ استعمال کر ڈالا۔ ایک دن انہوں نے فیروز کے کمرے کا اور بیرونی دروازہ ،دونوں کھلے چھوڑدیئے تاکہ وہ جہاں چاہے نکل جائے ۔ وہ یادوں کے سہارے پوٹلی بغل میں دبائے یہاں سے نکل گیا۔ دو دن تک چلچلاتی دھوپ میں ریلوے کراسنگ کے قریب مٹی کے اونچے ڈھیر پر بھوکا پیاسا بیٹھا آتی جاتی ٹرینوں کو دیکھتے ہوئے وہ کبھی مسکرانے لگتا اور کبھی اداس ہوجاتا۔

    تیسرے دن عبدالقادر نے جب جا کر اسے مٹی کے ٹیلے سے اتارنا چاہا تو وہ خوفزدہ ہو کر بولا۔

    ’’نیچے اتروں گا تو ٹرین کاٹ ڈالے گی۔ دو ٹکڑے کردے گی‘‘۔

    بڑی مشکل سے صنوبر خان اور عبدالقادر نے مل کر اسے وہاں سے اتارا، کھانا کھلایا۔ روٹیاں نگلنے کے بعد اس نے چھوٹے سے کمرے کی چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’’میں اس کے اوپر بیٹھ جاؤں۔ پھر مجھے ٹرین نہیں کاٹے گی‘‘۔

    دن بھر بار بار بند ہوتے اور کھلتے پھاٹک کے دونو ں طرف رکتی ہوئی گاڑیوں ، گھسیٹتی موٹر سائیکلوں، سامان سے لدی سوزوکیوں کے آنے جانے کا منظر مستانہ چھت پر لیٹے ہوئے رلی میں سے سر اٹھا کر دیکھتا رہتا ہے۔ انصاف ہوٹل والے حاجی انصاف نے صبح کا ناشتہ اور دن میں دوبار کھانے کی ذمہ داری خود سنبھال لی ہے۔ طارق بالا کوٹلی روزانہ چند رسیلی گنڈیریاں اپنی روزی روٹی میں برکت کی نیت سے مستانہ کو ضرور دیتا ہے۔ عبدالقادر بھی کمرے کی چھت پر مستانہ کی موجودگی کو اپنے لیے باعث رحمت تصور کرتا ہے، کیونکہ جس سال مستانہ یہاں آیا تھا، اسی سال پانچ بیٹیوں کی ولادت کے بعد اس کے گھر لڑکا پیدا ہوا اور پھر اسی سال برسوں سے رکھے انعامی بونڈوں پرانعام بھی ملا۔ جس سے اس نے اپنی بیٹی کے جہیز کی کچھ چیزیں خرید کر رکھ لی تھیں۔

    لیکن آج اچانک بلدیہ کے محکمے کے لوگوں کو دیکھ کر عبدالقادر فکر مند ہوچلا تھا۔ کچھ دن پہلے اس کے بڑے افسر نے بتایا کہ تمہارا ٹرانسفر کہیں اور ہوجائے گا، کیونکہ بہت جلد اس ریلوے کراسنگ پر ایک پل کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے۔ البتہ اس نے اپنے صاحب سے درخواست کی تھی کہ صاحب میرا جس کراسنگ پر بھی ٹرانسفر کریں وہا ں ایک چھوٹا سا کمرہ ضرور ہونا چاہیے۔

    اس سے آگے اس نے کچھ نہیں کہا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں مستانے کا راز افشاء ہوجانے پر رحمتوں کا نزول بند نہ ہوجائے۔

    (۱۹۹۹ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے