ریلوے اسٹیشن
’’جناب یہ ریل گاڑی یہاں کیوں رکی ہے؟‘‘ جب پانچ منٹ انتظار کے بعد گاڑی نہ چلی تو میں نے ریلوے اسٹیشن پہ اترتے ہی ایک ٹکٹ چیکر سے یہ سوال کیا تھا۔
’’او جناب پیچھے ایک جگہ مال گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے اب اس گاڑی کا انجن اسے لے کے اس اسٹیشن پہ آئےگا۔‘‘
’’کیا اس کے علاوہ اور کوئی متباد ل حل نہیں؟‘‘
’’نہیں جناب، یہی حل ہے‘‘
’’اچھا کتنا وقت لگےگا؟ ‘‘
’’دو گھنٹے تو کہیں نہیں گئے‘‘۔ ٹکٹ چیکر نے کہا
دو گھنٹے؟؟ میں نے پریشانی میں لفظ دہرائے۔۔۔
دوگھنٹے اب اس سٹیشن پر گزرانے تھے، مسافر اب گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے، کچھ چائے کا آرڈر دے رہے تھے، کچھ اور کھانے کا سامان خرید رہے تھے۔
راولپنڈی سے ملتان جاتے ہوئے راستے میں یہ ایک چھوٹا سا سٹیشن تھا، ایک عرصے بعد میں اس راستے سے گزرا تھا اور اس سٹیشن پر تو بہت ہی مدت بعد، شاید تیس سال بعد۔
مجھے گورڈن کالج کے وہ دن یاد آگئے جب میں صفدر اور احمد ملتان سے راولپنڈی پڑھنے آئے تھے ان دنوں جب ہم چھٹیوں میں گھر جاتے تو تقریبا ہر سٹیشن پر اترتے تھے۔ کیسے دن تھے نہ وقت کا پتہ چلتا نہ راستے کی کچھ خبر، ادھر راولپنڈی سے بیٹھے اور ادھر ملتان سٹیشن۔
میں جس بنچ پر آج بیٹھا ہوں عین ممکن ہے اب سے تیس برس قبل بھی بیٹھا ہوں ، ہوسکتا ہے بنچ تبدیل کر دیا گیا ہو مجھے ویسے ہی ایک خیال آیا میں نے عمارت کی طرف دیکھا یہ وہی پرانی عمارت ہے، میں نے یہ عمارت شاید پہلے دیکھ رکھی ہے۔ وقت کس تیزی سے گزرتا ہے آواز بھی نہیں ہوتی کسی بھی لمحے کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ میں کراچی میں محکمہ ڈاک میں ملازم ہوں، ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے ایک کام کے سلسلے میں راولپنڈی آیا تھا، اب ملتا ن جارہاہوں کچھ روز وہاں ٹھہرنے کا ارادہ تھا اس کے بعد ہی کراچی جاوں گا۔
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا، انجن کو گئے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے یہ وقت بھی عجیب ہے گزارنے پہ آو تو ایک پل بھی نہیں گزرتا اور گزرنے پہ آئے تو صدیاں گزر جائیں اور خبر بھی نہ ہو شاید انتظار وقت کو طویل کر دیتا ہے۔
’’جناب، تھوڑا ساتھ ہوکے بیٹھیں گے؟ میں نے بھی بیٹھنا ہے۔‘‘
ایک بزرگ ہاتھ میں عصا لیے کھڑے تھے، شاید میرے ہم عمر ہی ہونگے، مجھے کچھ ناگوار گزرا لیکن میں سکڑ کر بنچ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھاکہ وقت کے بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا، گزرے تو عمر گزرجائے نہ گزرے تو لمحہ صدیوں کی مثل ہو جائے۔
چائے والے کی دکان پر رش کم ہواتو مجھے بھی خیال آیا کہ اب چائے پینی چاہیے۔
’’سنیے محترم میری جگہ رکھیےگا میں چائے لے آوں۔‘‘ میں نے ان صاحب سے کہا۔
’’اچھا۔‘‘ جواب ملا
’’جناب ایک کپ چائے۔‘‘ میں نے چائے والے کو کہا
’’جی بہتر۔‘‘ دکاندار نے کہا
چائے والے کو پیسے دیتے ہوئے میں نے اسے غور سے دیکھا ایسا لگا کہ میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے، شاید اس کے والد یہ سٹال چلاتے ہوں اور میں نے انہیں دیکھا ہو۔
مجھے پوچھنا چاہیے اس کے والد کے بارے؟ میں نے سوچا لیکن نہیں پوچھااور میں چپ چاپ واپس بنچ پر آکے بیٹھ گیا۔
مجھے ہر چیز دیکھی دیکھی کیوں لگ رہی ہے۔
میں نے گھڑی کی جانب دیکھا، ابھی دو گھنٹے گزرنے میں ایک گھنٹہ رہتا تھا۔ میں چائے پیتے ہوئے ماضی کے صفحات الٹنے لگا۔
’’آپ کہیں جا رہے ہیں؟‘‘ ساتھ بیٹھے صاحب نے یادوں کے سلسلے کو روکا
’’جی ریلوے سٹیشن پر بیٹھے سب لوگ ہی کہیں نہ کہیں جا رہے ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا
’’نہیں سب لوگ تونہیں جارہے ہوتے۔‘‘ ان صاحب نے جواب دیا۔
’’اچھا۔‘‘ میں نے مختصر جواب دیا اور ماضی کی ورق گردانی شروع کر دی۔ میں نے عمارت پر لکھے سٹیشن کے نام کو بغور پڑھا یہ نام۔۔۔یہ نام کچھ سنا سنا سا تھا۔ سوچوں کا سلسلہ پھر گورڈن کالج کے طرف مڑ گیا۔
کیسے کیسے ہم جماعت تھے کبھی کبھی سارا سارا دن اکٹھے گھومنا اور اب یہ حالت کہ نام تک یاد نہیں شکلیں بھی جو یاد ہیں وہ بھی بس دھندلی دھندلی۔
میں، صفدر، احمد اور ایک اور دوست بھی تھا جو ہمارا ہوسٹل میں روم میٹ تھا، اوہ ہاں یاد آیا بشارت علی نام تھا اس کا۔۔۔اور یہ سٹیشن۔۔۔اب یہ گتھی سلجھی تھی، بشارت علی اسی سٹیشن پر اترا کرتا تھا میں بھی کہوں مجھے سب دیکھا دیکھا کیوں لگ رہا ہے اس سٹیشن کے پیچھے بنے ریلوے کوارٹرز میں اس کا گھر تھا۔
دماغ بھی عجیب ہے ابھی جس کا نام یاد نہیں آ رہا تھا اور ابھی اس سے جڑی کئی یادیں ایک ساتھ دماغ کے کواڑوں پہ دستک دینے لگی تھیں۔
’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ ان صاحب نے پھر سلسلہ منقطع کیا۔
’’ملتان‘‘ میرا جواب مختصر تھا میں ان سے کچھ پوچھ کر بات طویل نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب ہم چھٹیوں میں گھر واپسی کا سفر کرتے اور بشارت کا یہ سٹیشن پہلے آتا اور گاڑی یہاں پانچ منٹ کے لیے رکتی، تو ہم چاروں ایک ساتھ اترتے اور بھاگتے ہوئے بشارت کے گھر تک جاتے اور اسے اس کے گھر کے سامنے الوداع کہتے اور بھاگتے ہوئے واپس گاڑی تک آتے۔ بعض دفعہ گاڑی رینگنا شروع کر دیتی تھی، لیکن ہم کسی نہ کسی طرح گاڑی میں سوار ہونے میں کامیاب ہو ہی جاتے پھر بہت سے لوگ ہمیں ڈانٹتے کہ ایسا کرنا کتنا غلط تھا لیکن اگلی بار پھر یہی ہوتا۔
وقت کیسے بدل جاتا ہے اتنی تیزی سے، میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ابھی آدھا گھنٹہ مزید رہتا تھا۔
ہم تھرڈ ائیر میں تھے جب بشارت نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ معلوم نہیں ایسا اس نے کیوں کیا تھا وہ پڑھائی میں اچھا تھا پھر بھی جانے کیوں ایک روز اس نے ہم سب کو یہ فیصلہ سنا کر حیران کر دیا ، جانے اسے کون سی مجبوری نے آن گھیرا تھا، ہم نے اس سے اس وقت بھی نہیں پوچھا تھا اور بعد میں بھی نہ پوچھ سکے۔
ہم نے اس سے کہا کہ ہم اسے خط لکھا کریں گے اور گھر واپسی پر اس کے گھر ضرور بھاگتے ہوئے آیا کریں گے، اسے ضرور ہمارا انتظار کرنا چاہیے کہ ہم اچھے دوست ہیں، ہمارا ایسا کہنے سے اسے کچھ اطمینان ہوا تھا پھر اس کے بعد بشارت نے ہمیں اور ہم نے بشارت کو نہیں دیکھا۔
مجھے یاد ہے اس کے واپس جانے کے بعد کچھ دن ہم بہت اداس رہے تھے ۔ پھر ہم مصروف ہو گئے۔
ہم بشارت کو بھول گئے اور ہم نے اسے کبھی خط نہ لکھا اس کے بعد ہم کبھی بھی اس اسٹیشن پر نہ اترے اور نہ بھاگ کے اس کے گھر اس کی خیریت پوچھنے گئے۔
اگرچہ کہ ہم جا سکتے تھے لیکن معلوم نہیں ہم کیوں نہیں گئے۔
مجھے آج شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ تین سال کی دوستی کا اختتام ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا ہمیں ضرور اس سے اس کے حالات پوچھنے چاہیے تھے کیونکہ حالات اور وقت کے تناظر میں رویئے نہیں بدلنے چاہیے اچھے لوگ ہمہ وقت اچھے ہوتے ہیں۔ میں نے اسٹیشن سے پرے بنے ریلوے کواٹرز کو دیکھا سب دیکھا دیکھا تھا کیا اب بھی وہ یہاں رہتا ہوگا؟
کیا مجھے جانا چاہیے تیس سال بعد ویسے ہی بھاگتے ہوئے؟
’’آپ غالبا راولپنڈی سے آ رہے ہیں؟‘‘ سلسلہ پھر روک دیا گیا
’’جی ہاں میں راولپنڈی سے آ رہا ہوں، ملتان جانا ہے اور کراچی میں کام کرتا ہوں، ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے۔‘‘ میں نے ایک سانس میں ساری داستان کہہ سنائی تاکہ مزید کوئی سوال نہ ہو۔
’’آپ شاید میرے سوال پر برا بنا گئے ہیں؟‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے کہا اور گھڑی کی جانب دیکھا، وقت پورا تھا دور سے انجن کی آواز سنائی دی۔ انجن کے اسٹیشن پر پہنچنے اور اس گاڑی کے ساتھ منسلک ہونے میں پانچ منٹ تو لگ جانے تھے کیا مجھے بشارت کا پتہ کرنا چاہیے۔
میں اٹھ کھڑا ہوا۔
ہاں۔۔۔
لیکن نہیں۔۔۔میں اب بھاگ کے نہیں جا سکتا تھا۔۔۔
مجھے ہمیشہ افسوس رہےگا کہ میں بشارت سے اس کے حالات نہ پوچھ سکا، مجھے آج سے پہلے تو ایسا کبھی خیال نہیں آیا تھا اس اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا، دل کیسا افسردہ ہو گیا تھا۔
انجن گاڑی کے ساتھ منسلک ہو گیا تھا۔ لوگ آہستہ آہستہ گاڑی پر سوار ہونے لگے تھے میں رش کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
’’آئیں نا آپ بھی؟‘‘ میں نے ان صاحب سے کہا
’’نہیں میں نے کہیں نہیں جانا میں تو ویسے ہی ہر روز اس وقت گاڑی دیکھنے آتا ہوں، بس صاحب اب یہی ایک مصروفیت ہے۔‘‘
’’تو آپ یہیں کے رہنے والے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا
’’جی ہاں۔‘‘
’’اچھا تو آپ اس گاوں میں کسی بشارت علی کو جانتے ہیں؟ میرے اور آپ کے ہم عمر ہی ہونگے۔‘‘ میں نے سوال کیا کہ شاید یہ بشارت کو جانتے ہوں سو ان سے ہی بشارت کی خیریت پوچھ لوں۔
بزرگ نے غور سے میری طرف دیکھا۔
’’آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’یہ چھوڑیں آپ یہ بتائیں جانتے ہیں کیا؟‘‘
’’جی جانتا ہوں ۔‘‘
’’آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اب کیسے ہیں وہ میرے ساتھ پڑھتے تھے گورڈن کالج میں، میں نے ان سے پوچھنا تھا کہ انہوں نے پڑھنا کیوں چھوڑ دیا تھا۔ شاید حالات خراب ہوگئے ہوں، وہ اب کیسے ہیں؟‘‘ میں نے مڑکر گاڑی کی طرف دیکھا، ریل گاڑی آہستہ آہستہ سرکنے لگی تھی۔
’’ہم انہیں خط نہ لکھ سکے شاید انہوں نے ہمارا اور ہمارے خط کا انتظار کیا ہو، مجھے معذرت کرنی تھی ان سے۔‘‘
’’کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں؟؟؟‘‘
’’تم کمال احمد ہو شاید؟‘‘ ان صاحب نے میرے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا
’’جی جی میں کمال احمد ہوں لیکن آپ کیسے جانتے ہیں، کیا آپ بشارت ہیں؟‘‘
’’دیکھو گاڑی نکلنے والی ہے، طویل سوالوں کے جواب مختصر وقت میں نہیں دئیے جا سکتے۔‘‘
’’خدا حافظ‘‘
اور وہ صاحب اٹھے اور تیزی سے ریلوے سٹیشن سے باہر کے راستے پر چل دئیے۔
تیس سال بعد میں بھاگتے ہوئے ریل گاڑی میں سوار ہوا تھا۔۔۔ ایک افسردگی اور پریشانی کے ساتھ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.