رجّو
ابا اجابت سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک ہاتھ میں پیتل کا بھاری لوٹا اور دوسرے ہاتھ سے ناڑہ تھامے، جوش جذبات میں یوں ہی باہر چلے آئے، ’’ارے نکال باہر کرو حرامزادی کو۔‘‘ اماں اور تائی نے منہ دوسری طرف کو کرلیا، لیکن ابا کے صبر کا پیمانہ آج لبریز ہوہی چکا تھا۔ ’’نہ باپ کا پتہ، نہ ماں کا۔ ہندو کہیں کی۔ بغیر چھانے پھٹکے تم نے یوں ہی گھر میں ڈال لیا؟ کل میں مغرب پڑھ کر نکلا۔۔۔ یہ فراٹے کی گالیاں بکتی جارہی تھی، یہ آپ کی لاڈلی رجّو۔‘‘ ابا کلمہ پڑھ کر خشوع و خضوع سے نل پر بیٹھے وضو کرنے لگے۔ بھولی گڑیا جیسی تائی بولیں، ’’اے کونسی گالیاں بھیا؟‘‘ ابا تائی اماں کی بات سن کر بولے، ’’لاحول ولا قوۃ! اب میں وہ رذیل اور گندی گالیاں گھر میں دُہرائوں گا؟ واہ! وضو ٹوٹ جانے کا ڈر نہ ہوتا تو دُہرا بھی دیتا۔‘‘ درود شریف کا ورد کرتے ہوئے پاک صاف نورانی ابا مسجد کو جاتے جاتے بولے، ’’کہے دیتا ہوں، واپس آکر اس حرافہ کی صورت گھر میں نظر آئی تو میں خود گھر چھوڑ جائوںگا۔‘‘ یہ کہا اور طیش کے عالم میں باہر نکل گئے۔
اماں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ مزے سے تائی کے ساتھ مل کر دھان چنتی رہیں۔ تائی بولیں، ’’اے گھر چھوڑ جانے کا کہہ رہے ہیں بھیا۔‘‘ یہ سن کر اماں بولیں، ’’رہنے دو، بوا! مردوں کا غصہ بس یونہی ولایتی شیمپو جیسا ہوتا ہے۔ پل میں جھاگ کا پہاڑ بنا اور پل بھر میں پانی۔‘‘ تائی بولیں، ’’مگر رجّو کلموہی اچھال چھکا کو دفع کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔‘‘ اماں بھی تڑخ کر رجّو کی حمایت کرتے ہوئے بولیں، ’’اے لو بوا! خوب کہی یہ بھی۔ رکابیوں، ڈونگوں، دیگچیوں کا ایک پہاڑ پلک جھپکنے میں دھو ڈالتی ہے۔ میاں جی کے یہ سفید جھک، کلف دار کرتے پاجامے؟ رجّو ہی کا دم ہے جو روز کے روز یہ کرتی ہے۔ پھر یہ کچا آنگن جھاڑنا، کمروں کی جھاڑ پونچھ، ادرک لہسن چھیلنا، مسالے کوٹنا، لونڈوں کے کمرے درست کرنا۔ کس کا جگر گردہ ہے جو یہ سب کرے، ہیں؟‘‘ تائی بولیں، ’’ہاں! میرے پاندان کی صفائی بھی تو وہی مردار کرسکتی ہے۔ پھر ساڑیو ںکی استری اور نہاتے ہوئے پیٹھ کس سے ملوائوں گی؟ سر میں سرسوں کے تیل کی مالش، یہ سب بھی تو رجّو ہی کرے ہے۔‘‘ اماں بولیں، ’’میاں گھر چھوڑتے ہیں سو بسم اللہ! میں تو رجّو کو کہیں نہ جانے دوں۔ اَے پان تو کھلائو بوا، منہ پھیکا ہورہا ہے۔ قوام کم لگانا ذرا۔‘‘
ادھر اپنی تعریفوں کے پل بندھتے دیکھ کر رجّو اور بھی لجا گئی۔ میں اناڑی گھڑ سوار اُن دِنوں رجو کے زیر تربیت تھا۔ میرا ہاتھ جو اس وقت اس کی پنڈلیوں پر تھا، جوش مستی میں اسے ذرا اوپر تک لے گئی۔ رجّو سے میں کم از کم پندرہ سال چھوٹا تھا۔ ابھی مَسیں بھی نہ بھیگی تھیں، دودھ کے دانت جھڑے ہی تھے کہ یہ مرغ مسلم ہاتھ لگ گیا۔ چھ کمرے، دو ہال، دو غسل خانے، دو پاخانے، ایک دالان، صحن اور باغ پر ہمارا مکان مشتمل تھا اور پھر یہ کالی کوٹھری جو میرے لیے کسی شیش محل سے کم نہ تھی۔ سالوں ہی میں کوئی بھولے سے یہاں بھٹکے آتا تھا۔ میں رجّو اور یہ کال کوٹھری میرے تو وارے نیارے ہوگئے۔ ہر روز دوپہر، اس کال کوٹھری کے اندر میں شہزادہ سلیم ہوتا اور رجّو میری انار کلی۔
اسکول کا کام ختم کرتے ہی میں مولوی صاحب سے سبق لینے کے لیے بے چین ہوجاتا۔ اماں اس بات پر میری بلائیں لیتے نہ تھکتی تھیں۔ مسجد میں بے دلی سے سبق لے کر، پچھلے دروازے سے میں تیر کی طرح کوٹھری میں دبے پائوں داخل ہوجاتا۔ رجّو وہاں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہوتی۔ ہم بات چیت میں وقت ضائع کرنے کے قائل ہی نہ تھے، کام عین عبادت ہے۔ تو بس اس ایک گھنٹے میں، میں عابد ہوتا تھا اور وہ معبود۔
اماں کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔ عشاء کے بعد ابا حسب معمول پان چباتے گھر آگئے اور صبح والے ہنگامے کو بھول بھی گئے۔ میں نے سکون کی سانس لی۔ رجّو کے جانے سے اماں کی سلطنت تو ہل جاتی، سو ہل جاتی، مگر میری اٹھتی جوانی کا کون پرسان حال ہوتا۔ خاندان میں کہنے کو تو ماموں زاد، پھوپھی زاد ہزاروں کے حساب سے تھیں مگر آخ تھو! سوکھی، سڑی، آگے پیچھے دونوں طرف سے چپٹی، سخت، جیسے کہ ابا کا تخت، یا اماں کی نماز کی چوکی۔ دو ایک سے کوشش بھی فرمائی میں نے، مگر ان چوزیوں کو تو بوسے کا مطلب تک پتہ نہیں تھا۔ اور پھر ان کی ہائے اللہ، اوئی اللہ۔ مزہ تو تب ہوتا ہے جب عورت پہل کرے اور عورت ہی آخر!
ادھر رجّو کا تو یہ حال تھا کہ بوسے کے نام پر میرے ہونٹ چوس کر بالکل ہی انھیںسوکھی گنڈیریوں جیسا کر چھوڑتی تھی۔ پھر اس کے وہ مخروطی اعضا، وہ گولائیاں اور پھر اس کے کم بخت دل آویز خطوط! ساری جیومیٹری اس کے رسیلے بدن پر ہی تو سمجھی جاسکتی تھی۔ جیومیٹری کے پیریڈ میں، جب میں پرکار سے چار انچ قطر کا دائرہ بناتا تو رجّو بے طرح یاد آتی۔ باقی زاویے، خم اور تکون تمام کے تمام رجّو کے بدن کو نگاہ میں رکھ کر بآسانی سمجھ میں آجاتے تھے۔ موسم سرما میں اماں خاص پکوان بنایا کرتیں جیسے کہ نہاری، پائے، مچھلی اور اخروٹ بادام کا حلوہ۔ ویسے تو یہ پکوان خاص ابا کے لیے بنائے جاتے، مگر ان کو کھاکر بے چارے ابا لوٹا لیے پاخانے کی طرف دوڑا کرتے۔ یہی کھانے پھر اماں ہمیں کھلا ڈالتیں کہ بڑھتے جسم ہیں، لیکن ان کو کھاکر مجھے رجّو کی طلب اور بھی بڑھ جاتی۔ اور وہ کٹیلی بھی میرے، ’’فریضۂ محبت کے طویل معرکوں‘‘ کے خوب مزے لیتی۔ گرم سانسوں کے تبادلے کے دوران آہستہ سے پوچھتی، ’’کیا کھاکر آئے ہو منّے میاں۔ دم لینے نہیں دے رہے۔‘‘ اور میرے لب اس کے منہ کو سی کر جملے کو ادا ہونے سے روک دیتے۔
دو چار دن ہوگئے تھے۔ میں، ’’روزِ وصل کے بجائے شبِ فراق‘‘ زیادہ کاٹ رہا تھا۔ دس دس مرتبہ کوٹھری کے چکر لگائے وہ ندارد۔ آتے جاتے اسے چٹکیاں کاٹیں۔ اس نے آنکھ اٹھاکر نہ دیکھا۔ دشمنوں کی نظرِ بد آخر لگ ہی گئی۔ انگنائی میں آیا تو دیکھا وہ کولہوں پر سوتی ساڑی کسے، ڈنڈے سے کوٹ کوٹ کر کپڑے دھو رہی تھی اور ادھر میرا دل ا سے انجان دیکھ کر، ٹکڑے ٹکڑے ہورہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی کنکریاں میں اسکول سے آتے جھولی بھرلے آیا کرتا تھا۔ تاک تاک کر وہ کنکریاں، میں ہمیشہ اس کے گہرے بلاوز سے جھلکتے دو چاندوں پر دے مارتا، مگر آج اس نے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں۔ چپ چاپ کنکریاں دو چاندوں کے درمیان سے نکالیں اور ایک طرف کو رکھ دیں۔ میرے دل میں شک آگیا۔ کہ ہو نہ ہو مردار، بے حیا کسی اور کے پہلو کو گرما رہی ہے۔ ادھرادھر جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ بھائی بہت کھلکھلاتے پائے گئے۔ جب دیکھو رفیع کے رومانوی گیت گنگنا رہے ہیں، ’’ابھی نہ جائو چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں۔‘‘ یہاں تک کہ سوتے میں بھی مسکرایا جارہا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں کا کمرہ سانجھا تھا اور وہ مجھ سے کم از کم چھ سال بڑے تھے۔ ایک دم لٹھ مار کے کیسے پوچھ لیتا کہ بھائی ! آج کل جو آپ اس قدر خوش ہیں تو انگیٹھی کے بجائے کہیں میری رجّو سے تو بستر گرم نہیں فرمارہے؟ الٹا رات کو بھائی کے پیر دبا کر خدمت کی اور بولا، ’’بھائی ! یہ آپ کا ملاز مائوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ کیسی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ رجّو اپنی رجّو۔ کیا ان سے محبت ہوسکتی ہے؟‘‘ بھائی نے اٹھ کر اُگل دان میں تھوکا اور بولے، ’’لاحول ولا۔ غلیظ اور بے حیا رنڈیوں کا نام محبت سے جوڑتے، تمھیں شرم نہیں آئی میاں؟ کہاں یہ اور کہاں محبت۔ محبت تو قرآنِ پاک کی طرح پاک صاف اور مقدس شے کا نام ہے۔‘‘ ایک کاغذ نکال کر پوری غزل پڑھنے بیٹھ گئے، جو ان کی ہم جماعت غفورن بانو کی مدح سرائی میں تھی۔ میرا دل پرسکون ہوگیا۔ میں نے فرطِ مسرت سے بھائی کا ماتھا چوم لیا اور پوچھا، ’’بھائی، بس ایک سوال اور۔‘‘ بھائی بولے، ’’ہاں ہاں پوچھو۔‘‘ میں بولا، ’’بھائی محبت، یعنی کہ سچی محبت میں کیا ایک دوسرے کو ہاتھ لگانا جائز ہے؟‘‘ بھائی زور سے بولے، ’’بالکل نہیں۔ سچی محبت تو پاکیزہ ہوتی ہے۔ پوجا کرتے وقت کیا دیوی کو ہاتھ لگاتے ہیں؟ ہیں؟ بس دور سے اس کی پوجا کی، زبان سے اس کی حمدو ثنا بیان کی اور دعا کے بعد چل پڑے کام پر۔‘‘ میں بولا، ’’اچھا! پھر شب بخیر۔‘‘
ہونہہ! بھائی ابھی بچے ہیں کاہے کی دیوی، کہاں کی پوتر پوجا۔ یہاں تو خود دیوی جی مجھے چیر پھاڑ کر، نوالے بناکھاجاتی ہیں دیور یہ حضرت بات کرتے ہیں۔ خیر، بے چاری رجّو، چہ چہ چہ! پیدائشی یتیم یسیر سنتے ہیں۔ ایک ہندو عورت نے اس کو پالا پوسا اور پھر ہمارے ہاں کام کرنے بھیج دیا۔ بدلے میں ابا سال کے سال اناج اور اماں دو نئے جوڑے، دو وقت کا کھانا اور بے حساب اترن دے دیا کرتی تھیں۔
تاریخ کے استاد نے آج بنگال کے قحط کے بارے میں پڑھایا، کہ کس طرح وہاں کے لوگ بھوک کے مارے سوکھ گئے تھے۔ میں نے باورچی خانے سے کچھ کھانا چرایا، باہر سے مٹھائی لایا، چھپ چھپاکر رجّو کو دے آیا کہ بے چاری کھاپی لے۔ اگر رجّو کا رسیلا بدن سوکھ گیا تو پھر میں کیا کروںگا۔ میں نے بتایا ناں سوکھے ڈھانچے جیسے بدن مجھے زہر لگتے ہیں۔ میں رجّو کی بے نیازی کا سبب تلاش کر ہی رہا تھا کہ اس دن ایک اور ہنگامہ ہوا۔
ابا فجر کی نماز پڑھ کر آئے اور گھر میں ایک مرتبہ پھر غل غپاڑہ مچا دیا کہ نکالو اس حرامزادی کو۔ ہندو، اچھوت کو، برسبیل تذکرہ بات یہ ہے کہ جب بھی امام صاحب کوئی درس دیتے، ابا پر اس طرح کی رقت اور مسلمانی کیفیت چڑھ جاتی۔ اس دن تک تو اماں نے رجّو کی پروموشن بھی کردی تھی۔ خواہ مخواہ ہی بھنگی، سارا صحن الانگ کر اُسے پلید کرتا ہوا پاخانے تک جاتا تھا اور فضلہ لے کر جاتا تھا۔ تو کھڈیاں صاف کرنے کی ذمہ داری بھی اماں نے رجّو ہی کو دے دی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ ابا بولے، ’’نکالو اس حرامزادی، اچھو ت ہندو کو گھر سے۔ ورنہ میں یہ گھر چھوڑ دوںگا۔‘‘ اُس دن ابا نے اماں کو ڈرانے کے لیے ایک گھڑا اور ایک صراحی بھی توڑ دی او رکام پر چلے گئے۔ اماں اور تائی سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔
میں اسکول سے گھر آنے لگا تو گھر میں اگربتیاں اور لوبان جلنے کی بو کلو حلوائی کی دکان تک آرہی تھی۔ مسجد کے امام صاحب بھی گھر کے اندر جارہے تھے۔ میں دوڑا کہ الٰہی خیر! کیا ماجرا ہے۔ کہیں دادی یا تائی تو۔۔۔ اندر پہنچا تو میری معصوم، بھولی جان جگر رجّو دلہن کی طرح شرمائی بیٹھی تھی۔ نئی سوتی ساڑی، سر پر پلو اور وہی گہرے گلے کا بلائوز۔ دل چاہا کہ امام صاحب کی ٹپکتی رال کو صاف کرنے کے بجائے رجّو کو موٹی چادر سے ڈھک دوں۔ مگر میں بے بس تھا۔ آگے آیا تو سب بیبیاں سر پر آنچل ڈالے انتہائی مقدس ماحول طاری کیے بیٹھی نظر آئیں۔ امام صاحب نے کلمۂ طیبہ کا ورد کیا اور رجّو اُسے دہراتی چلی گئی۔ پتہ چلا کہ آج رجّو کو مسلمان کردیا گیا تھا۔ اب اُس کا اسلامی نام مریم رکھ دیا گیا۔
میں ایک دم سے اُداس ہوگیا۔ رجّو مسلمان ہوگئی ہے۔ رجّو سے مریم۔ اب وہ مجھے کیا گھاس ڈالے گی۔ اُسے تو کوئی مسلمان دولہا مل جائے گا۔ میں ایسے ہی پہلی محبت کا ماتم کرتا رہ جائوںگا۔ خاندان کی سوکھی سڑی ڈھانچہ نما خالہ زاد، ماموں زاد پر غور بھی کرنے لگا کہ۔۔۔کچھ عجیب سا ہوا۔ اگلے ہی دن میں منہ لٹکائے مدرسے سے آیا۔ رحل اور قاعدہ رکھ ہی رہا تھا کہ کنکری آکر لگی۔ پلٹ کر دیکھا تو رجّو کال کوٹھری کی طرف بلا رہی تھی۔اُس دن یہ بھی پتہ چلا کہ دنیا کے تمام محبت کرنے والوں کا مذہب ایک ہے اور عبادت کا طریقہ بھی زیادہ مختلف نہیں۔ اسی پاکیزہ محبت والے انداز سے، بے حجابانہ، اس دن ہم دونوں نے خوب تجدید محبت کی۔
دو برس ہوئے اماں نے اپنا کمرہ علٰحدہ کرلیا تھا۔ تائی کے ساتھ مچھر دانی میں سوتی تھیں۔ بے چارے ابا پر الزام تھا کہ وہ خراٹے بہت زور سے لیتے ہیں اور چورن کھانے کی وجہ سے کمرے میں بدبودار ریاحی گیس کا راج رہتا ہے۔ اماں چنبیلی اور موگرے کے پھول، بستر اور تکیے میں ڈال کر سوتی تھیں۔ اب بے چارے ابا مرتے کیا نہ کرتے، خدا سے لو لگا بیٹھے۔ اُن کا تو یہ عالم تھا کہ نماز، روزہ، تہجد سب کے پابند ہوگئے اور ہم دونوں بھائیوں کو بھی آتے جاتے نماز کی تلقین کرنے لگے، لیکن انھیں کیا پتہ کہ جوانی میں تو بس ایک ہی عبادت پر ایمان لایا جاتا ہے، جس میں ناغہ کرنے کو دل کبھی نہیں چاہتا۔ اماں نے ویسے کمرہ ضرور علٰیحدہ کرلیا تھا مگر ابا پر شیرنی کی نظر رکھتی تھیں۔ مجال ہے جو پورے خاندان میں سے کوئی جوان عورت ابا سے دو منٹ بھی بات کرلے۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں وہ ابا کو کولہے سے لگائے رکھتی تھیں، کہ ابا کا قدم نہ لڑکھڑا جائے کسی پرانی محبت کو دیکھ کر۔ ساری خواتین بزرگ و جوان پر اماں یہ ظاہر کرتیں جیسے کہ اب بھی ہر صبح وہ غسل خاص کرتی ہیں، جب کہ ایسا نہیں تھا۔
رجّو اب مریم ہوچکی تھی۔ بھائی غفوراً بانو کے پاکیزہ عشق میں سرتاپا بھیگے پورا دیوان لکھ چکے تھے اور ابا تہجد گزار نمازی ہوگئے تھے۔ گھر میں اس حرامزادی کو نکالو والے جھگڑے ختم ہوچکے تھے۔ اماں نے اس مسئلے کا کیا خوب سد باب کیا تھا، کہ رضیہ سلطان کی بصیرت ان کے آگے پانی بھرتی نظر آتی تھی۔ دو چار دن سے اماں، دادی اور تائی تینوں ابا کے لائے افیون سے شوق فرما رہی تھیں۔ اماں ساری رات گھوڑے بیچ کر سویا کرتیں اور دن بھر بھی اونگھا کرتیں۔ میں نے اس رات پکا سوچ رکھا تھا کہ بھائی سے ضرور افیون کے فوائد کے بارے میںپوچھوںگا۔ شاید اسے کھاکر، ’’اظہار محبت‘‘ میں زیادہ اور دیر تک لطف آتا ہو۔ بستر میں پڑا رجّو کی جیومیٹری کے سبق کو یاد ہی کر رہا تھا کہ صحن میں ایک سایہ سا گزرتا نظر آیا۔ پھر کنکر گرنے کی آواز ہوئی۔ ارے یہ تو ابا ہیں۔ شاید تہجد کے لیے اٹھے ہوںگے۔ چلو ان کو گرم پانی دے آئوں۔ دو قدم چلا ہی تھا کہ ابا غسل خانے کے بجائے غڑاب کالی کوٹھری میں گھس گئے اور صرف دو ہی لمحے بعد رجّو اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ برآمد ہوئی اور کالی کوٹھری میں غروب ہوگئی۔ میں نے جاکر دیوار سے کان لگادیے۔ آوازوں، آہٹوں، سسکیوں سے یقین ہوگیا کہ اندر واقعی عبادت ہورہی تھی۔ معبود تو ایک ہی تھا۔ آج عابد بدل گیا تھا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.