جہاں کئی برس پہلے گاؤں تھا اور جہاں بیلوں کے تیل چپڑے بھورے کالے سینگ تھے، دوپہر کے جنگل میں پتوں کی گہری ہری خوشبو تھی اور کچے آم کی تازہ کٹی پھانک کے ساتھ نمک مرچ کاسواد تھا، دھان کے مہکتے ہرے کھیت تھے، جہاں اندھی بڑھیا مہراجن تھی، جس کی باڑی سے لڑکے کھیرا اور بھٹے چرالاتے تھے۔۔۔ رام سجیون کا بچپن وہیں پیچھے کہیں چھوٹ گیا تھا۔ پندرہ سال پیچھے۔
ان کا بچپن سنئی کے ان کھیتوں میں کہیں رہ گیا تھا جہاں وہ اسکول نہ جاکر چھپ جاتے تھے اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ گدھا چھاپ بیڑی کے سٹے کھینچتے تھے۔
برہمن گھرانا تھا۔ اوسط کسان طبقہ، ایک ایسا طبقہ جس کی گاؤں میں ناک نیچی نہیں رہتی۔ جو گاہے گاہے بڑے کسان یا زمیندار کو بھی چھوٹا موٹا قرض دے سکتا ہے یا پیشی کچہری میں ہزار دوہزارخرچ کرسکتا ہے۔ ہل واہوں یا بے زمینوں کو تو غلہ اناج وہ بیج بجہرا یا بیماری ناتوانی کے لیے سوایا ڈیوڑھا باڑھی پر دے ہی سکتا ہے۔
ایک ایسا کسان گھرانا جہاں گاؤں کے زمیندار کے گھر آیا ہوا پٹواری لوٹتے ہوئے ایک بار جھانک کر چائے پان لے جاتا ہے، تھوڑا بہت ہنسی ٹھٹھول بھی کرجاتاہے۔
رام سجیون پاس کے قصبے کے ہائی اسکول اور پاس کے شہر کے گورنمنٹ کالج کو فرسٹ ڈویژن میں لانگھتے ہوئے اب دلی کی اس یونیورسٹی تک آپہنچے تھے جو ملک ہی کی مانی ہوئی نہیں، کہا جاتا تھاکہ افریقا، جنوبی ایشیا کی تو کیا، پوری تیسری دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی۔ اس یونیورسٹی میں پرائم منسٹر کی بہو، ڈیفنس منسٹر کی نواسی، کرلوسکر جی کی بیٹی، باٹا جی کا بیٹا اور ملک کے سب سے بڑے ادیب کاسب سے بڑاسالا پڑھتا تھا۔
یہاں زیادہ تر لڑکے لڑکیوں کے رہن سہن اور مزاج کا اپنا ہی ڈھنگ تھا۔ وہ بڑے نرم و نازک، شفاف اور خاص لگتے۔ ہنستے تو اتنااجالا پھیلتا کہ گاؤں کی ہنسی، تمباکو اور کتھے میں لتھڑی، رونے پیٹنے کی طرح بدصورت دکھائی دیتی۔
اور لڑکیوں کا تو کہنا ہی کیا۔ ان کا تو الگ ہی ٹمپریچر اور الگ ہی روشنی تھی۔ وہ زیادہ تر جینز اور کھلی بانہوں والی ہوتیں۔ انہیں بہت صاف سفید آٹے کو گوندھ کر، اس میں تھوڑا مہاور(وہ سرخ رنگ جس سے عورتیں پیروں کو مہندی کی طرح رنگتی ہیں۔) ملاکر بنایا گیا تھا۔ کھلی بانہیں، باریک آوازیں، گھنٹیوں جیسی ہنسی کااتنا بڑا میلہ رام سجیون کو اپنی زندگی کی بابت ایک بار نئے سرے سے غور کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ وہ چاہے بس میں ہوں یا اپنے اکیلے کمرے میں، سانس بھی لیتے تو اس کے ساتھ اوڈویا اِنٹی میٹ کی مہک ان کے لہو تک پہنچتی۔ اس خوشبو میں کانونٹ کے پسینے کی بہت اجنبی لیکن اکسانے والی خوشبو گھلی ہوتی۔
لیکن رام سجیون کے اندر ایک گہری چڑ اور غصے نے بھی جگہ بنانی شروع کردی۔ اس بڑے، لق دق شہر میں، جہاں اتنی بڑی دکانوں، کوٹھیوں، کاروں کی چماچم دھوپ تھی، انہیں اپنے گاؤں کا بڑے سے بڑاکسان بھی قلی کباڑی دکھائی دیتا۔ اپنے ٹیریکاٹ کے کپڑے انہیں سستے، میلے اور پچھڑے ہوئے لگتے۔ اپنے چہرے میں گال کی ہڈیوں کا نکیلا ابھار، موٹے ہونٹ، دھوپ اور دھول کو جھیل کر زندہ اور چوکنی بنی آنکھیں، تل اور سرسوں کے تیل کو پی کر موٹے اور کالے پڑے بال۔۔۔ سب انہیں گنوارو لگتے۔ وہ کالے تو نہیں تھے، پھر بھی انہیں لگتا تھا کہ ان کے گیہویں رنگ سے گاؤں کا مٹیالا پن کبھی چھوٹ نہیں سکتا۔
دلّی ایک ایسا مہانگر تھا جہاں روپوں کی ندی کہاوت کے باہر بہتی تھی۔ دوسراکوئی اتنا بڑا شہر رام سجیون نے دیکھا بھی نہیں تھا۔ ایک بار، جب وہ بالکل نئے تھے، ایک لڑکے سے انہوں نے اس کے جوتے کی قیمت پوچھی۔ دوسواڑسٹھ روپے سن کر جوتا ایک کوئنٹل گیہوں کے بورے میں بدلتا دکھنے لگا۔ پھر تو ان کے دیکھنے کا یہ پوشیدہ طریقہ ہی ہوگیا۔ اکنامکس کے مال کے بدلے مال کے اصول کے مطابق وہ چیزوں کو کسی بھی اناج کی قیمت کے عدد میں بدل دیتے۔ انہیں بہت مزہ آتا۔ اس آدمی نے کل ملاکرتین کوئنٹل دھان پہن رکھا ہے۔ اس لڑکی نے پچاس کلو گرام اَلسی اپنی کلائی میں لپیٹ رکھی ہے۔ مکان کا کرایہ ساڑھے تین کوئنٹل گیہوں ماہانہ، بجلی پانی الگ، اور وہ دیکھو، وہ سالا ہیرو بیس ایکڑ کی کل پیداوار پر چڑھا ہوا، ہارن بجاتابھاگا جارہاہے۔
لیکن یہ سب ایک دلچسپ، تفریحی کھیل ہی نہیں تھا، یہ بہت گمبھیر اور دردناک تھا۔ گاؤں کا اوسط کسان طبقہ، شہر کے نچلے درمیانی طبقے سے بھی نیچی حیثیت کا ثابت ہو رہا تھا۔ کسی دفتر کا چھوٹا موٹا بابو بھی معیار زندگی اور رہن سہن کے لحاظ سے زیادہ خوش حال اور چمکدار دکھائی دیتا تھا۔
رام سجیون کے دماغ میں سماجی مساوات کے لیے ایک شدید خواہش جاگنے لگی۔ یہ سب ناانصافی ہے، اس دیش کی ستر فیصد جنتا کو زندہ رہنے کے لیے جتنی کیلوریز طاقت کی ضرورت ہے، اتنا بھی اناج نہیں کھاپاتی، اور دوسراساڑھے تین کوئنٹل گیہوں کی شراب ایک بیٹھک میں پی جاتا ہے! رام سجیون کو پرانی دلّی کے جامع مسجد والے علاقے کے فٹ پاتھوں پر، پلیا کے نیچے، اپنے گاؤں کے لوگ دکھائی دیتے۔۔۔ اتنے ہی غریب، اتنے ہی میلے، اتنے ہی بھوکے۔ ’’انقلاب کی ضرورت ہے۔ ’’بابو رام سجیون نے سوچا۔
یہ انہیں دنوں کی بات ہے، جب بنگال کے شمال مشرقی علاقے، جنوب میں آندھرا پردیش اور بہار اترپردیش کے بھوج پور علاقے میں بے زمین اور چھوٹے کسان مل کر تحریک شروع کرچکے تھے۔ انہیں پولیس مقابلوں میں مارا جارہا تھا، جیلوں میں بھرا جارہاتھا، سرعام ان کی آنکھیں پھوڑی جارہی تھیں اور اخباروں کے صفحوں میں ایسی خبریں بھری رہتی تھیں۔
رام سجیون کو لگا کہ ان کے دل میں بچپن ہی سے غریبوں اور بے چاروں کے لیے گہری ہمدردی رہی ہے۔ انہیں کئی واقعے ایسے یاد آئے جب وہ اپنے گھر سے مکئی اور چاول چراکر کولیوں کے گھر میں دے آتے تھے، جہاں کئی دنوں سے چولھا نہیں جلا ہوتا تھا۔ اپنے پرانے کپڑے تو وہ گاؤں کے لڑکوں کو دے ہی دیتے تھے۔
سوجھ بوجھ اور دانائی رام سجیون میں بہت تھی۔ انہوں نے سماج کو جاننے سمجھنے کے لیے طرح طرح کی کتابیں پڑھنی شروع کیں۔ ’’سرمایہ‘‘ پڑھ ڈالی، ’’اینٹنی ڈیو ہرنگ‘‘، ’’ایٹینتھ برومیر آف لوئی بونا پارٹ‘‘، ’’ہولی فیملی‘‘ سے لے کر لینن اور ماؤ کے خیالات تک کا مطالعہ کیا، اور دھیرے دھیرے سماج کا ایک خوب صاف نقشہ ان کے دماغ میں بننے لگا۔
لیکن گاؤں چھوڑے دس سال ہو رہے تھے۔ فیلوشپ ملتی تھی، اس لیے وہاں جانے کی ضرورت کبھی ہوئی نہیں، اور دھیرے دھیرے گاؤں کے لوگوں کے مٹیالے اور کرخت چہرے ان کے دماغ میں دھندلے اور بے شکل ہونے لگے۔ کھیت غائب ہوئے، چیزوں کو غلے میں بدل کر دیکھنے کاپرانا کسانی ڈھرا بسر گیا۔ ہلواہوں کے پسینے کی جانی پہچانی گندھ، بکریوں کی بو کے ساتھ پتا نہیں کہاں اڑگئی۔ اب ان کے دماغ میں سماج کی طبقاتی بناوٹ تو صاف تھی، لیکن لوگوں کے چہرے غائب ہوچکے تھے۔
یونیورسٹی کاہوسٹل تھا جس میں رام سجیون رہتے تھے۔ جینز پہنتے تھے، اس کے اوپر کرتا اور داڑھی۔ چشمہ لگانے لگے تھے۔ یونین میں فعال تھے اور یونین کے عہدے دار انہیں بہت بڑا مفکر اور ادیب مانتے تھے۔ رام سجیون تیسری دنیا کی سب سے ماڈرن یونیورسٹی میں رہتے ہوئے اودھ کی کسان تحریک پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔
رام سجیون کا کمرہ بھی دیکھنے لائق تھا۔ اس میں کبھی جھاڑو نہیں لگتی تھی، گرد اور مکڑی کے جالوں کے بیچ کچھ کتابیں اور اخبار بکھرے رہتے۔ رضائی پرانی تھی اور جب وہ سوتے تو اس کی روئی ان کی داڑھی اور بالوں میں الجھ جاتی۔ وہ بارہ بجے سو کر اٹھتے، کمرے ہی میں زیادہ تر رہتے اور سماج کے بارے میں مضمون وغیرہ لکھا کرتے۔ فیلو شپ اس دوران میعاد پوری ہوجانے کی وجہ سے بند ہوگئی تھی، اس لیے مالی رکاوٹ پڑنے لگی تھی۔ جتنی زیادہ مالی دشواری ہوتی، رام سجیون خون کو جنتا کے اور نزدیک پاتے۔ ان کے مضامین میں نابرابری کے خلاف آگ او رتیز ہو اٹھتی۔ انہوں نے ہوسٹل کے کمرے میں رہتے ہوئے جنتا سے جڑنے، تجربے اور آفاقیت کی سطح پر محنت کش طبقے میں خودکو جذب کرنے کے لیے ڈی کلاس ہونے کی ضرورت کے بارے میں لکھا۔
لیکن وہ محنت نہیں کرتے تھے، محنت کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ضرور تھے۔ مہینوں تک کپڑے نہیں دھوتے تھے۔ نہاتے نہیں تھے۔ داڑھی پر تو خیر مزدور طبقے کاعوامی پن لاگو ہو ہی چکا تھا۔ اپنے کمرے کی صفائی ستھرائی پر ان کادھیان نہیں جاتا تھا۔ انہیں دیکھ کر یہ ضرور لگتا تھاکہ وہ ڈی کلاس ہوچکے ہیں۔ اور تبھی تیسری دنیا کی اس سب سے بڑی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبا کے مطالبے کو دھیان میں رکھتے ہوئے، دوسری یونیورسٹیوں کے سامنے ایک آئیڈیل مثال پیش کی۔ کوایجوکیشن کے ساتھ ساتھ ’’کوڈویلنگ‘‘ (co-dwelling) کی مثال۔
جس ہوسٹل میں رام سجیون رہتے تھے، اس کا آدھا مغربی حصہ لڑکیوں کے رہنے کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ ہوسٹل انگریزی کے ایچ کی شکل کا بنا ہواتھا۔ جنوب کی طرف کی ڈنڈی میں لڑکوں کی تین منزلہ عمارت تھی، جس کی ہر منزل پر سو کمرے تھے، شمال والی ڈنڈی کے کمروں میں لڑکیاں رہتی تھیں اور دونوں کو جوڑنے والے بیچ کے ڈنڈے میں میس تھا، جہاں لڑکے لڑکیاں بریک فاسٹ، لنچ او رڈنر لیتے تھے۔ اس طرح بیل گاڑیوں اور اسی فیصد بھکڑوں کے دیش میں وہ یونیورسٹی سَسیکس کے کسی تعلیمی ادارے کی طرح ساتھ پڑھنے، ساتھ رہنے اور ساتھ کھانے کے ہوائی راستے پر اُڑچلی۔
یونیورسٹی کے زیادہ تر لڑکے لڑکیاں ہیلو ہائے والے طبقے سے آتے تھے، یعنی ایسے اونچے طبقے سے جہاں کانونٹ کے پس منظر کے علاوہ ناچ گانا اور ہنسنا رونا بھی اسی طرح کا ہوتا ہے۔ رام سجیون نے بڑی محنت، مشق اور لگن سے انگریزی کاعلم حاصل کیا تھالیکن وہ سمجھتے تو خوب تھے، بولنے میں ان کا خاص بہاری لہجہ آڑے آجاتا تھا۔ ’’اے بھیری گڈ ایبھننگ‘‘ (a very good evening) جیسے فقرے تو وہ بچالے جاتے، لیکن بچپن سے ’’و‘‘ کی جگہ ’’بھ‘‘ کی رٹائی ان کی جیبھوا کی تہذیب کی جڑوں تک بیٹھ چکی تھی۔ انہیں کبھی کبھی لگتا کہ تہذیب کچھ خاص معنوں میں شعور سے زیادہ جسم کو پکڑتی ہے۔ ان کا شعور سلائس کا تقاضا کرتا، لیکن جیبھ کڑھی مانگ بیٹھتی۔
ایچ کی جنوبی ڈنڈی کی سب سے اوپری منزل کے کمرہ نمبر تین سو آٹھ کی بالکنی میں رام سجیون کھڑے تھے۔ ایچ کی شمالی ڈنڈی کی سب سے اوپری منزل کے کمرہ نمبر تین سو سولہ کی بالکنی میں وہ لڑکی نکل آئی تھی جو ادھر رہتی تھی۔ دونوں بالکنیاں آمنے سامنے تھیں۔ رام سجیون نے آخر ادھر دیکھا۔ وہ لڑکی انہیں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں بڑے جسمانی انداز سے لگ بھگ ایک دوسرے کابدن سہلاتے ہوئے ملیں اور اس جسمانی لمس سے نکلتی حرارت سے رام سجیون اپنی بالکنی سے ہٹے تو نہیں، لیکن انہوں نے پھر اس لڑکی کی سمت نہیں دیکھا۔ ہاں، اس کی موجودگی کو وہ کبھی اپنی پیٹھ پر اور کبھی اپنی کنپٹی پر محسوس کرتے رہے۔ وہ لڑکی انہیں ایک اجلی ہری پر چھائیں کی طرح لگ رہی تھی جو اچانک بہت مانوس، گھریلو اور گہری ہو اٹھی تھی۔
دوپہر کو میس میں کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے چاروں طرف محتاط اور مشتاق آنکھیں دوڑائیں، لیکن کہیں کچھ نہیں۔ بہت سی لڑکیاں کھارہی تھیں لیکن معاملہ جادوئی بن گیا تھا۔ ایک نظر میں انہیں ساری لڑکیاں بالکنی کی لڑکی لگنے لگتیں اور دوسرے ہی پل ہر لڑکی کوئی اور ثابت ہوجاتی۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ یہ کھیل محو ہوکر کھیلتے رہے۔
رام سجیون کمرے ہی میں تھے جب ان کے من میں ایک سنگیت بھرے، میٹھے شبے نے آنکھیں کھولیں۔ وہ لڑکی اپنی بالکنی پر تھی اور یقینی طور پر رام سجیون کی بالکنی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں اندھیرا کرکے کھڑکی سے اسے پوری اپنائیت کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ رنگ خوب گورا، آٹے اور مہاور والابھی نہیں، مکھن اور گلاب والا۔ بہت ہلکا سفید بنیان جیسا ’’ٹاپ‘‘، کھلی بانہیں، نیچے تک کھلا ہوا گلا، جانگھوں پر فیڈ ہوئی جینز کی امپورٹڈ نیلی پینٹ۔ عمر بیس کے اِدھر اُدھر۔ انہیں لگا کہ جیسے اجنتا کی کسی یکشنی کو ماڈرن کپڑے پہنادیے گئے ہوں۔ اس لڑکی کے گلے میں آواز کیسی ہوگی اور ہندی کتنی بدل کر، اوڈو میں ڈوب کر نکلے گی!
وہ بالکنی میں نکلے۔ لڑکی غضب ہمت اور بے فکری سے ان کی طرف تاک رہی تھی۔ تہذیب کافرق ہے۔ محلے گاؤں کی ہوتی تو آنکھ نہ اٹھاتی یا نیچے والا پارک دیکھنے لگتی۔ آہ، یہ ایک لڑکی کی آنکھ تھی، بہت کچھ سمجھا دیا اس نگاہ نے، کتنے کتنے معنی اس میں تھے۔ یہ تعارف تھا۔۔۔ پہلا۔ بابو رام سجیون کو بچپن میں دیکھی رام لیلا کاجنک واٹکا(رام چندرجی کے پاس راجا جنک کاباغ۔) کا منظر یادآگیا اور پھر جے شنکر پرساد، میتھلی شرن گپت سے ہوتے ہوئے وہ شمشیر(ہندی شاعروں کے نام) تک پہنچے،
ہاں تم مجھ سے پیار کرو
جیسے ہوائیں میرے سینے سے کرتی ہیں
جس کو وہ گہرائی تک دبا نہیں پاتیں
جیسے مچھلیاں لہروں سے کرتی ہیں۔۔۔
تم مجھ سے پیار کرو
جیسے میں تم سے کرتا ہوں
آئینو، روشنائی میں گھل جاؤ
اور آسمان میں مجھے لکھو اور مجھے پڑھو
آئینو، مسکراؤ اور مجھے مارڈالو
آئینو، میں تمہاری زندگی ہوں
لڑکی جاچکی تھی اور اب وہ نیرودا میں کھوئے ہوئے تھے۔ Today I can write saddest lines
صبح کو انہوں نے ہوسٹل کی شمالی گیٹ کے چوکیدار کماؤنی دھیرج سنگھ نیگی سے پوچھا کہ کیا وہ کمرہ نمبر تین سوسولہ میں رہنے والی لڑکی کے بارے میں جانتا ہے، تو اس نے کہا، ’’اس کو کون نہیں جانتا۔ وہ تو لندن سے آئی ہوئی ٹھہری یہاں۔ پتا کینیا میں بڑی فیکٹری چلانے والے ہوئے۔ کہا، یہاں آنے کے پہلے بے بی لندن میں سات سال پڑھ کر آنے والی ہوئی۔ بڑا میٹھا سبھاؤ پایا اس نے۔ کہا، سی پی ایچ میں ریسرچ کرنے والی ہوئی۔‘‘
یہ تو ’’کسپ‘‘ نام کے ناول سے نکلا آدمی معلوم ہوتا ہے، رام سجیون نے سوچا۔
’’نام کیا ہے اس کا؟‘‘ انہوں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’پنڈت جی، تمہارا ارادہ تو نیک ہی دیکھے مجھے۔ نام اس کاہوا انیتا چاندی والا۔ گجرات کی ہوئی۔ پرگجراتی نہ جاننے والی ٹھہری۔ ہندی بولنے میں بھی جگہ جگہ رکنے والی ہوئی۔‘‘
پھر چوکیدار دھیرج نے ان کی طرف دیکھا۔ بیڑی کا گہرا سٹّا کھینچ کر دھواں نکالتے ہوئے ہنسنے لگا۔ کھانسی اور ہنسی کے بیچ اس نے بائیں آنکھ دبائی اور کہا، ’’مال لیکن اصلی پٹاخا ہوا ٹھہرا۔‘‘
لمپن (lumpen) ہے یہ، رام سجیون نے سوچا۔ مزدور طبقے کے ایسے لوگوں میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کے لیے ابھی بہت گہری تعلیم کی ضرورت ہے۔ بھارت کی کمیونسٹ پارٹیاں یہی کام نہیں کر رہی ہیں، اسی لیے تو مزدوروں، کسانوں اور چھوٹے ملازمین میں ان کااثر نہیں ہے۔ اب اس فورتھ کلاس کے ملازم چوکیدار ہی کو دیکھو، اس کی یہ سخت عورت دشمنی روایتی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سماج کے استحصالی نظام کی دین ہے۔
رام سجیون غصے میں وہاں سے چلے گئے۔ اس پیچیدہ مسئلے پر سوچتے ہوئے کہ ایسے لوگوں کے طرز عمل کاذمے دار ان کے معاشی اور سماجی پس منظر کو ٹھہرایا جائے یا ان کے ذاتی شعور، تہذیب، خیالات اور رویے کو۔
انیتا چاندی والا۔۔۔ اس پورے نام میں ایک سنگیت ہے۔ انیتا۔۔۔ اَنّی اَنّو، اَنو۔۔۔ اس کے کئی روپ ہوسکتے ہیں۔ ’’چاندی والا‘‘ سرنیم اس سپنے جیسے نام کو زمینی اور بھاری بھرکم بنادیتا ہے۔ اب رام سجیون کے دن کا زیادہ تر وقت سامنے کی بالکنی کو دیکھنے اور اس نام کو اکیلے میں بول کر اسے اپنے اندر تک محسوس کرنے میں گزرتا۔ وہ کمرے میں رضائی اوڑھ کر لیٹے لیٹے دھیرے سے بولتے جیسے سامنے بیٹھے کسی کو مخاطب کر رہے ہوں، ’’انی، تو اولیسس (Ulysses) کیسی لگی؟‘‘ پھر وہ خاموش ہوکر جیمز جوئس کے بارے میں اس کاجواب سنتے۔ جواب ہندی میں بھی ہوتا اور مشکل سے بنائی گئی انگریزی میں بھی۔
ایک دن انہوں نے کمرے میں رضائی کے اندر ہی اس سے ’’ہیٹ اینڈ ڈسٹ‘‘ اور ’’جوئل ان دَ کراؤن‘‘ فلموں کے بارے میں پوچھا۔ انیتا چاندی والانے انگریزوں کے ’’برٹش راج نو سٹیلجیا‘‘ کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اس نے بتایا کہ کس طرح انگلینڈ کے لوگ اپنے امپریلسٹ ماضی سے بے تحاشا پیار کرتے ہیں، انگوٹھے کے برابر سکڑ جانے کے باوجود اپنے ملک کو ’’گریٹ‘‘ برٹن کہتے ہیں اور بھارت کی تاریخ کو کیسے اپنی مرضی کے مطابق بدلتے توڑتے ہیں۔ پھر اس نے کہا، ’’فار ایگزامپل، دی لیٹسٹ فلم، ان پروسس آف پروڈکشن، ٹرانسفر آف پاور، پٹس دیٹ دی ویری کانسیپٹ آف ڈومینیکن اسٹے ٹس فار انڈین ری پبلک واز ناٹ ڈیمانڈ ڈبائی نیشلسٹس۔۔۔ نہروز، پٹیلس، ایٹ سیٹ را، ایٹ سیٹ را۔۔۔ بٹ اٹ واز آسجسچن بائی دی لاسٹ وائسرائے ماؤنٹ بیٹن۔۔۔‘‘
اس لڑکی کے خیالات میں بیداری بھی ہے اور اپنی تاریخ کو دیکھنے کاایک صحیح تناظر بھی۔ بس اگر اسے سماج کے موجودہ حالات کے بارے میں علمی طریقے سے سمجھادیاجائے اور جنتا سے جوڑ دیا جائے تو وہ یونین میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ رام سجیون اپنے پلنگ پر رضائی چھوڑ کر بیٹھ گئے اور بولے، ’’ابسولیوٹلی کریکٹ! بھاٹ (what) دے ہیوڈن، یوسی، دے ہیوٹرنڈ اور انیتا جی، سبھاش بوس انٹو اے پھنی(funny) پولیٹیکل جوکر۔۔۔‘‘
’’واٹ‘‘ کی جگہ’’بھاٹ‘‘ نکل کر جانے پر انہیں گہری ندامت ہوئی۔ انہوں نے پکا ارادہ کیا کہ آئندہ اپنی انگریزی پر ٹاٹ پٹی اسکول کی پرچھائیں تک نہیں پڑنے دیں گے۔
انیتا چاندی والا اب بھی اپنی بالکنی میں نکلتی، کبھی کبھی نہاکر اپنے بال سکھانے وہیں کھلی ہوا میں کھڑی ہوجاتی۔ کھلی بانہیں، بے فکری میں اٹھے ہوئے بازو، شیمپو کیے ہوئے سوکھتے اور الگ الگ اڑتے بال۔ سجیون اپنے کمرے میں اندھیرا کرکے چپ چاپ دیکھتے اور سرگوشیوں میں ان کی لمبی خودکلامی شروع ہوجاتی۔
ایک دن، بڑی ہمت اور لمبے انتظار کے بعد، آخری فیصلہ کرکے انہوں نے کہا، ’’انو، آئی لو یو!‘‘ پورا کمرہ دیر تک اس جملے کے سنگیت میں بجتا رہا۔ مانڈینیا اور انٹی میٹ کی خوشبو کمرے میں تیرتی رہی۔ بچپن کی بڑی گہری اور تیز کلکاری نے رام سجیون کے دل میں جنم لیا اور وہ گلے سے نکلتی نکلتی رکی اور اس نے ان کے پورے بدن کو کسی کمزور پیڑ کی طرح جھنجھوڑ دیا۔ وہ کانپ رہے تھے۔ بدن کادرجۂ حرارت بڑھ گیا تھا اور اس چھوٹے سے فقرے کو بولنے میں ہی انہیں اپنے بدن کی بہت ساری توانائی، سانس اور لہوداؤ پر لگانا پڑاتھا۔ لیکن ایک بار اسے بول جانے کے بعد وہ خود کو کافی آزاد اور ہلکا پھلکامحسوس کر رہے تھے۔ وہ بے تحاشا خوش تھے۔ وہ ہیمنت کمار کا گیت گانے لگے۔
خوشی انہیں دوہری تھی، اس لیے کہ انہوں نے اس فیصلہ کن، اور لمبے انتظار کے بعد زبان پر آنے والے فقرے میں ’’لبھ‘‘ کو ’’لو‘‘ کہہ دیا تھا، بے اختیار، بغیر کسی کوشش کے، اور یہ ایک کمال تھا۔ دیہاتی، لوئر مڈل کلاس، پسماندہ احساس کمتری کو انہوں نے ایک زوردار پٹخنی دے دی تھی اور وہ کمرے کے فرش پر چاروں شانے چت پڑا کراہ رہاتھا۔
ایک بار رام سجیون نے یہ محسوس کیا کہ وہ لڑکی بڑی دیر سے اپنی بالکنی میں کھڑی ہے اور ان کے انتظار میں ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔ اداس تھی اور شام کی ڈھلتی دھوپ کو دیکھ رہی تھی۔ رام سجیون کمرے سے نکل کر اپنی بالکنی میں آگئے۔ وہ لڑکی وہیں کھڑی رہی جیسے اس نے پوری اپنائیت اور خاموش ممنونیت کے ساتھ ان کے وجود کوقبول کرلیاہو۔ اپنی بالکنی کی لوہے کی گنگنی ریلنگ پر انہوں نے کہنیاں ٹیکیں اور جھک کر ٹک گئے۔ لڑکی پھر بھی وہیں رہی۔ تعلق گہرا ہوتا چلا گیا۔ ہوا میں ایک بہت معنی خیز اپنائیت اور قبولیت تھی۔ کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ یہ وہی لمحہ تھا جہاں زبان بے معنی ہوتی ہے۔ ’’مون مدھو ہوجائے۔۔۔‘‘ (خاموشی شراب ہوجائے) یہ مصرع ان کے دماغ میں تیرا۔ پھر سچدانند ہیرانند واتسیائن اگیے کی لائن ابھرنے لگی، ’’مون ہی بھاشا ہے۔‘‘ (خاموشی ہی زبان ہے)
رام سجیون نے خود کو کوسا کہ کیسے کیسے امپریشنسٹ شاعروں کی تخلیقات ان کے دماغ میں آرہی ہیں، لیکن بڑی کوششوں کے بعد بھی بابا ناگارجن اور آلوک دھنوا(ہندی کے دوترقی پسند شاعر) کی کوئی نظم یاد نہیں آرہی تھی۔ انہیں انقلابی محبت کی نظموں کے لیے یا تو غیرملکی انقلابی شاعروں کایادیسی امپریشنسٹ شاعروں کامحتاج ہونا پڑ رہاتھا۔ انہوں نے یاد کیا کہ ’’سلپنگ پرنسس‘‘ کے بارے میں لینن کاکیا کہناتھا۔ پریم اور خواب کولینن نے بھی انقلابیوں کے لیے ضروری قرار دیا تھااور اسی وقت رام سجیون نے فیصلہ کیا کہ وہ انقلابی محبت کی نظمیں لکھیں گے! ہندی میں اس کی کمی پوری ہونی چاہیے۔ آخر نیرودا، ناظم حکمت، لورکا، مایا کوفسکی وغیرہ بھی تو انقلابی تھے جنہوں نے اتنی اچھی لوپوئمز لکھیں۔ ہماری ہندی میں یہ کام دھرم ویر بھارتیوں، نوگیت کاروں اور نیر جوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ بنگلہ کے جیبن آنند داس جیسے شاعر تو نایاب ہی ہیں ہندی میں۔
صرف یونین ہی نہیں، یونین سے باہر کے واقف کار لڑکے بھی جان چکے تھے کہ رام سجیون کو آج کل پریم ہوگیا ہے۔ انہوں نے خود یہ بات سب کو بتائی تھی۔ وہ بہت سرل، سیدھے اور جذباتی تھے۔ جو ان کے خاص دوست تھے ان کے پاس وہ اکثر رات میں پہنچ جاتے اور اس پریم کی تازہ ڈویلپمنٹس کے بارے میں بتلاتے۔ انہوں نے اپنے دوست نوین ڈھونڈھیال کو بتلایاتھا کہ، ’’وہ لڑکی چاہتی ہے کہ میں کچھ بولوں، اس سے کچھ کہوں۔ کل شام ہم لوگ آدھے گھنٹے تک آمنے سامنے کی بالکنیوں میں چپ چاپ کھڑے رہے۔ تم لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے۔ یہ ایک انوکھے قسم کا پریم ہے۔ دیکھو، ابھی تک ہم نے ایک جملہ بھی نہیں بولا ہے، ایک دوسرے سے بات نہیں کی ہے، لیکن ہم لوگ اس اسٹیج تک پہنچ چکے ہیں جہاں تک معمولی، عام اور اناپرست لوگ مہینوں ساتھ ساتھ رہ کر، گھوم پھر کر پہنچتے ہیں۔ وہ وہاں کھڑی رہتی ہے چپ چاپ، میں یہاں کھڑا رہتا ہوں خاموش۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی موجودگی کو فیل کرتے ہیں۔‘‘
ایک شام انہوں نے اپنے دوسرے دوست شریش مشر کو بتلایا، ’’آج کل میں ایک خاص تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ لگتا ہے انیتا اس نان کمیونی کیشن سے اُوب رہی ہے۔ پھر اس کی عمر بھی تو میرے مقابلے میں کم از کم پانچ سات سال کم ہے۔ اتنی میچورٹی کہاں سے آسکتی ہے اتنی جلدی؟ بہت دن ہو بھی گئے ہیں اس طرح۔ ایک طرح کی مونوٹنی، ایک طرح کی تکرار اور یکسانیت پیدا ہوگئی ہے ہمارے تعلقات میں۔ آخر ہے تو وہ لڑکی ہی۔ اس سیکنڈ سیکس کی نفسیات بالکل الگ ہوتی ہے۔ پہل تو وہ صرف بمبیا فلموں ہی میں کرتی ہے۔ اس لیے ان کمرشل فلموں کو میں اینٹی فیمنسٹ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے دیکھنے والوں کے دماغ میں صرف غیرحقیقی فنٹیسی کی امیج ہی نہیں بٹھائی، بلکہ انہوں نے اتنے بڑے ماس میڈیم کے ذریعے ایک غیرحقیقی عورت کے کنسیپٹ کو بھی خوب پھیلایا ہے۔ نتیجہ دیکھ لو، ہر شہر اور قصبے کا مڈل کلاس چھوکر اخوب کنگھی ونگھی کرکے، سج دھج کے کسی ہیرو کو ڈپلی کیٹ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی بھی لڑکی اس پر مرمٹے گی اور گانا گانے لگے گی۔‘‘
رام سجیون نے نوین ڈھونڈھیال سے کہا، ’’اب سارا معاملہ بڑے کریٹیکل جنکچر تک پہنچ گیا ہے۔ میں نے مارک کیا ہے کہ میس میں کھانا کھاتے وقت کبھی کبھی وہ میری طرف جان بوجھ کر دیکھتی ہے۔ آج دوپہر لنچ میں اس نے اپنا چمچ زور سے فرش پر گرادیا تھا تاکہ میں اس کی طرف دیکھنے لگوں۔ دراصل اس وقت میں کہیں اور دیکھ رہا تھا۔‘‘
ایک بار وہ رات دس بجے پہنچے اورانہوں نے کسی گہرے راز کو پیاز کی طرح پرت پرت کھولتے ہوئے کہا، ’’تم نے انیتا کی ایک چیز پچھلے پانچ چھ دنوں میں نوٹ کی ہے؟ وہ آج کل اتنا زیادہ سلیولیس پہنتی ہے کہ صرف بانہیں ہی نہیں بغلوں کے نیچے کا کافی حصہ کھلا رہتا ہے۔ اور آج اس نے جو ٹاپ ہرے رنگ کا پہن رکھا تھا، اس کا گلا اتنا کھلا ہوا تھا، اتنا کھلا ہوا تھا، کہ سمجھ لو ماڈ لڑکیاں بھی ایسی دلیری نہیں کرسکتیں۔ تم اسے انیتا کی بے شرمی کہو گے؟ لیکن بندھو پیارے، ایسا ہے نہیں! یہ اس کاایک اشارہ ہے۔ یہ اس کی بے چینی اور رنج کااظہار ہے۔ اتنے اشتعال انگیز کپڑے پہن کر، اپنے بدن کو اتنا کھول کر، وہ مجھ سے کہنا چاہتی ہے کہ میں اپنی موجودہ indecisiveness کو توڑوں۔ اس سے صاف صاف بات کروں۔ آخر لڑکی اپنے بدن کے میڈیم ہی سے خاموشی کو زبان میں بدلتی ہے۔‘‘
کلیان کمار داس نے کہا، ’’یار، تم لڑکی سے سیدھے بات کیوں نہیں کرلیتے؟ جاکر اس سے کہہ دو کہ میں آپ سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتاہوں۔ تم خواہ مخواہ بیٹھے بیٹھے مکڑجال بنتے رہتے ہو۔‘‘
رام سجیون کو یہ سن کر چوٹ لگی۔ یہی بات انیتا نے کتنے انوکھے طریقے سے، اپنے سندر جوان بدن سے خاموشی کو زبان میں بدلتے ہوئے، کتنے رمزیہ انداز سے کہی تھی، اور وہی بات کلیان کمار داس کتنے بھونڈے اور پھوہڑ طریقے سے کہہ رہاتھا۔ آخر اس سرمایہ دارانہ سماجی نظام نے جس بازاری انبوہ کو پیدا کیا ہے، وہ ہر چیز کو ایک جنس، ایک کموڈِٹی ہی تو سمجھتا ہے۔ جیسے لڑکی بکنے کے لیے تیار بیٹھی ہو اور میں ایکسچینج کی بازاری زبان بول کر اس کابھاؤتاؤ کرڈالوں اور اسے پٹالوں۔
لیکن اوپر سے رام سجیون چپ ہی رہے۔ انہوں نے چلتے ہوئے کہا، ’’ہاں، بس صحیح وقت کے انتظار میں ہوں یار۔ ویسے بائی دی وے، ہمارے اس پریم کو تم جیسا سمجھتے ہو، وہ ویسا ہے نہیں۔ گرو! یہ ایک الگ اور عجب طرح کا کھیل ہے۔ اس کا بھید پہلے دھن آنند بھی جانتے تھے۔ یہاں کوئی کپٹ نہیں، کوئی چھپاؤ نہیں، ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بالکل ٹرانسپیرنٹ ہیں۔ ایک دوسرے سے ہمارا کچھ بھی چھپا نہیں۔ رہی بات آمنے سامنے بیٹھ کر، یا کھڑے ہوکر، یا لیٹ کر، یا چلتے چلتے بات کرنے کی، تو وہ کوئی ایسی بڑی توپ چیز نہیں۔ بندھو پیارے، ویٹ کرو۔ دیکھتے جاؤ۔ وہ بھی ہوجائے گا۔ جو جو تم سوچتے ہو سب ہوجائے گا۔‘‘
بیچ میں لڑکی دس دنوں کے لیے کہیں باہر چلی گئی تھی۔ اس کے کمرے کی پچھلی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی۔ رام سجیون چپ چاپ اپنے کمرے میں لیٹے لیٹے یا بالکنی میں کھڑے ہوکر اس طرف دیکھتے رہتے۔ لڑکی کی یہ غیرموجودگی اور اس کی پچھلی کھڑکی کا کھلا رہ جانا بھی انہیں کئی کئی معنوں سے بھرا ہوالگتا۔ آخر اپنے پریم کے لیے جیسی فارم انہوں نے چن رکھی تھی، اس میں زبان کے علاوہ باقی ہر چیز زبان تھی، اشارہ تھی، اس میں کئی کئی معنی تھے۔
انہوں نے شام کو انیتا کی کھڑکی کھلی رہ جانے کی بابت شریش کو بتلایا تو اس نے کہا، ’’رام سجیون جی، ہم کا تو اِی لگنے لگا ہے کی اب آپ پگلاجائیں گے۔ آپ کچھ کریں گے دھریں گے نہیں، کوٹھری میں دن رات گھسے اِہے سب سوچیں گے۔ رؤوا، ہم کا بتائی، اولڑکی آپ کا جانتی بوجھتی بھی ہے؟ جاکے پوچھ لیں اوسے کی کا آپ کوہمارنامو معلوم ہے کی نہیں، جائیں۔‘‘
رام سجیون کو پھر صدمہ ہوا۔ اندرونی چوٹ لگی۔ اتنی سیدھی او ربے حجاب باتیں انہیں ولگر لگتی تھیں۔ انہیں اس روحانی سچ پر پچھلے دنوں اچھی طرح یقین ہوگیا تھا کہ پریم کبھی بھی اتنا گہرا اور شدید ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ دونوں طرف برابر نہ ہو۔ انہیں پورا بھروسا تھا کہ جس طرح انہوں نے چوکیدار دھیرج سنگھ نیگی سے انیتا کے بارے میں پوچھا تھا، ویسے ہی انیتا نے ضرور اس سے ان کے بارے میں پوچھا ہوگا۔ یہ یقین اتنا ٹھوس اور اتنا سچا لگتا تھا کہ کسی بھی طرح سے اس کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ پھر انہیں ایسا کرتے ہوئے ایک عجیب سا ڈر بھی لگتا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہوا تو؟
سرمایہ داری فائن آرٹس کی سب سے بری اور سفاک دشمن ہوتی ہے۔ انہوں نے چالو دنیا دار ڈھرے کا پریم نہ کرکے ایک آرٹ فارم بنانے کی کوشش کی تھی۔ یہاں پریم ایک رشتہ نہیں ایک آرٹ تھا، ایک اعلیٰ آرٹسٹک تخلیق تھا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا یہ بھیانک ستم تھا کہ اپنے نزدیک سے نزدیک کے دوستوں سے بھی وہ کمیونٹی کیٹ نہیں کرپارہے تھے۔ ایلیئیشن تعلقات کے بیچ اجنبیت کے وِندھیاچل کھڑے کر رہا تھا۔ انہیں چیخوف کی کہانی ’’گریف‘‘ یاد آئی جس میں اپنے اندر کی پیڑا کو کہنے کے لیے ہیرو کو کوئی نہیں ملتا اور آخر میں وہ اپنے گھوڑے کے گلے سے لپٹ کر روتا ہے۔
رام سجیون کو کوئی گھوڑا نہیں ملا لیکن انہوں نے رات میں ایک نظم لکھی، ’’کھلی کھڑکی کے معنی‘‘، جس کی شروع کی لائنیں تھیں،
شریش مشر
تم نہیں جانتے کہ
تاریخ میں کھلی رہ گئی ایک اکیلی
کھڑکی کا کیا مطلب ہوتا ہے
لیکن میں جانتا ہوں
کھلی کھڑکی کاایک مستقبل ہوتا ہے
جس میں سے قول و قرار اور تمناؤں کی
روشنی پھوٹتی ہے۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔
ایک دن روپہر کو رام سجیون دوڑتے دوڑتے کلیان کمار داس کے کمرے میں پہنچے۔ نوین ڈھونڈھیال بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔
رام سجیون کے چہرے سے خوشی کے مضبوط اور گدرائے پیڑ کی پھننگیں باہر نکل کر ہل رہی تھیں۔ پھیپھڑوں میں ڈھیر سارے گڑھل اور کنیر کے پھول بھرے ہوئے لگ رہے تھے۔ لگتا تھا جیسے وہ خوشی کے کسی گیس کے غبارے کے ساتھ باندھ دیے گئے ہوں اور ان کے پیر زمین پر پڑتے ہوئے کوئی بار نہ ڈالتے ہوں، ہلکے سے دھرتی کو بس چھولیتے ہوں اوپر اوپر سے۔
رام سجیون نے ایک ہی سانس میں کہا، ’’آج غضب ہوگیا۔ اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ یہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں ساری چیزیں نئے سرے سے شروع ہوتی ہیں۔‘‘
’’ہوا کیا؟ کیا بات چیت ہوگئی؟‘‘ ڈھونڈھیال نے پوچھا۔
’’بات چیت کو تم لوگ اتنی اہمیت کیوں دیتے ہو؟ یہ سمجھ لو کہ میری اب تک کی ریڈنگ صحیح نکلی۔ آج میں بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ اس نے پوچھا، ایکسکیوز می پلیز، ویدر بس نمبر ٹرپل سکس از گان؟ میں نے کہا، اٹ از یَٹ ٹو کم۔ وہ مسکرائی، تھینک یو کہا، اور پھر اسٹاپ پر ہی کھڑی ہوگئی۔‘‘
کلیان کمار داس نے رام سجیون کو پوری ہمدردی سے دیکھااور پوچھا، ’’تو مہودے، اس میں آپ کا شعور کون سااشارہ ڈھونڈتا ہے؟‘‘
رام سجیون پھر دل برداشتہ ہوئے۔ ان کا چہرہ تمتما آیا، ’’ویسے تو یہ ساری باتیں ہی تم لوگوں کے لیے فضول ہیں، لیکن اگر تم سب اپنی ہی دلیلوں کے ذریعے ساری باتوں کو سمجھنا چاہتے ہو تو یہ بتاؤ کہ اس وقت بس اسٹاپ پر کم سے کم بیس اور لڑکے کھڑے تھے۔ انیتا نے یہ سوال مجھ سے، صرف مجھی سے کیوں کیا؟‘‘
اس سوال کا جواب نہ کلیان کمار داس کے پاس تھا نہ نوین ڈھونڈھیال کے پاس۔
ایک دن شام چھ بجے کے لگ بھگ رام سجیون نے دیکھا کہ انیتا نے اپنی بالکنی سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نیچے گرایا، ان کی طرف دیکھا، ذرا سا ٹھہری اور پھر اندر چلی گئی۔
سب سمجھ گئے رام سجیون۔ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچے۔ ہوا چل رہی تھی اور وہاں ہری گھاس پر ڈھیروں کاغذ کے ٹکڑے تھے۔ یہاں، وہاں، ہر طرف، دھیرے دھیرے کانپتے ہلتے۔ کچھ ایک دم چپ اور ساکت، جیسے مٹی میں جڑیں پکڑچکے ہوں۔
کون سا ہے وہ کاغذ؟ کیسے اسے پہچانیں؟ کیا لکھا ہوگا اس میں؟ رات آٹھ بجے تک لوگوں نے دیکھا، بابو رام سجیون اپنے کرتے کی اولی بناکر وہاں کے سارے کاغذوں کو بین رہے ہیں۔ وہ چلنے کو تیار ہوتے اور تب ہی کہیں کوئی چھوٹی سی چندی گھاس کے نیچے ہلتی دکھائی دے جاتی۔ وہ جوش میں کانپتے ہوئے اسے اٹھاتے۔
اس رات دو بج گئے، انہوں نے اپنے کمرے کی بتی جلائے رکھ کر، سارے پرزوں کو کھول کھول کر، اچھی طرح سے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ایک بار سب کو دیکھ چکنے کے بعد ان کے دل میں شک جاگا اور انہوں نے دوبارہ انہیں دیکھا۔ بیچ میں سونے کی کوشش کی لیکن پھر ایک تیز جوش و خروش، گہری امنگ اور سانس روک دینے والی بے قراری نے ان کی نیند اڑادی اور وہ لگاتار کئی کئی بار انہیں ایک ایک کرکے دیکھتے رہے۔ ان کے کمرے کے فرش پر، پلنگ پر چاروں طرف کاغذ کی ننھی ننھی تمام رنگوں کی چندیاں بکھری ہوئی تھیں اور رام سجیون ان کے بیچ بیٹھے تھے۔
رام سجیون نے پوچھا، ’’انو، تمہیں پتا ہے، گاؤوں میں لوگ کس طرح سے رہتے ہیں؟ بنجر زمین اور سوکھے آسمان سے لڑتے جوجھتے ان لوگوں کی ہڈیاں کیسے نکل آتی ہیں؟ جاگیردارانہ جبر اور مہاجنی استحصال کا ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا سلسلہ کیسے ان کے جیون کو کیڑے مکوڑوں سے بدتر بناڈالتا ہے۔۔۔‘‘
انیتا کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ رام سجیون نے رضائی سے اپنا سر ڈھانپ لیا او رپھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔۔۔ لگ بھگ تین گھنٹے۔
رام سجیون کی آنکھیں پھٹی پھٹی اور لال رہتیں۔ لگتا کہ ان کا لہو غالب کے مطابق صرف رگوں میں دوڑنے پھرنے کے قائل نہیں رہ گیا ہے بلکہ آنکھوں میں آکر ٹھہر گیا ہے۔ منھ کھلا تو کھلا ہی رہ جاتا۔ داڑھی کسی افریقی جنگل کی طرح بے ترتیب اور منتشر ہوچکی تھی۔ پتلون کے پائنچوں میں مٹی اور دھول لگی ہوتی۔
جب کوئی ان سے کچھ کہتا تو سمجھنے میں انہیں کافی وقت لگتا اور اکثر وہ کچھ اور سمجھ جاتے۔ پھر وہ بڑی اپنائیت، بے فکری اور ثابت قدمی سے اسے اپنے پریم کے بارے میں بتانے لگتے۔
اس دن بالکنی میں انیتا کے ساتھ ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی۔ کتھئی بارڈر کی سفید ساڑی پہنے۔ بالکل بگلے کے پر جیسے بال۔ پتلی سنہری کمانی کا چشمہ۔ وہ دونوں ان کی بالکنی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
رام سجیون نے ہفتوں بعد اپنا چہرہ دھویا۔ پانی کی ٹھنڈک سے ان کا من کھل اٹھا۔ انہوں نے دوسرا کرتا پہنا، بالکنی میں نکلے اور آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ پھر انہوں نے نیرودایا اور کسی بھی شاعر کی کوئی نظم یاد کرنی چاہی لیکن پتا نہیں کیوں بار بار ان کے دماغ میں بنکم چندر کا یہی مصرعہ گونجنے لگتا تھا، ’’شاسیہ شیام لم، سجلم، ماترم بندے ماترم!‘‘
رام سجیون نے انہیں دنوں ایک مضمون لکھا، ’’سماج کی حالیہ اقتصادی اور سیاسی صورت حال اور طبقاتی کشمکش کا موجودہ مرحلہ۔‘‘
یہ مضمون ان کی یونین میں، رات کو خاص طور پر بلائے گئے اجلاس میں پڑھا گیا۔ رام سجیون کی گہری نگاہ اور سماجی صورت حال کی بابت ان کی عالمانہ سمجھ بوجھ کی تعریف کی گئی۔
اس دن رام سجیون یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں دیر تک بیٹھے رہے۔ سامنے کچھ میزوں کو چھوڑ کر انیتا بیٹھی تھی۔ وہ اپنی نوٹ بک میں کچھ لکھ رہی تھی۔
رام سجیون اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ نوٹ بک میں کچھ لکھ نہیں رہی ہے، لکھنے کی صرف اداکاری کر رہی ہے، اور اگر وہ وہاں بیٹھی ہے تو صرف اس لیے کہ وہ وہاں بیٹھے ہیں۔
ان دنوں سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ کوئی ان سے ان کے پریم کے بارے میں کچھ سننا نہیں چاہتا تھا۔ اور ان کے پاس اس کے سوا تسکین کاکوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔
انسانی تعلقات کا خاتمہ ہوچکا تھا۔
ایک سبب یہ بھی تھا کہ رام سجیون اپنے پریم کے بارے میں جو کچھ بتلاتے، اس کی زبان اتنی الگ ہوتی تھی کہ اسے سمجھنا اور کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔ ان کے قریبی دوست بھی ان سے کتراتے۔ نوین ڈھونڈھیال نے ایک دن بتایاکہ رات میں قریب دو بجے رام سجیون اس کے کمرے میں آئے۔ ان کی آنکھیں چوڑی اور لال تھیں۔ کرتا پھٹاہوا اور میلا تھا۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے تک فرنچ جیسی کسی زبان میں بولتے رہے۔ بیچ بیچ میں ہکلاتے تھے، منھ سے رال بہنے لگتی تھی۔ پھر وہ دیر تک ہنستے رہے۔
نوین ڈھونڈھیال، اسلم اختر، شریش مشر، کلیان کمار داس، سب لوگ مل کر رام سجیون کے کمرے میں پہنچے۔ فیصلہ کیا گیا تھا کہ رام سجیون نے اپنے چاروں طرف جو کائنات بنالی ہے اسے توڑ کر، اسے تباہ و برباد کرکے ہی انہیں بچایا جاسکتا ہے۔ شریش نے کہا، انہیں شدید اسکتز و فرینیا ہے۔ ان کے فریب نظر کو اصلیت سے ٹکراکر توڑنا پڑے گا۔
’’ہم بالکل رحم نہیں کریں گے۔ بی ویر آف پٹی!‘‘ اسلم نے نعرہ لگایا۔
رام سجیون اپنے کمرے ہی میں تھے، رضائی میں گھسے ہوئے۔ شریش مشر نے بات شروع کی، ’’دیکھیے سجیون بابو، سچائی تو ای ہے کہ اُو لڑکی ابھی آپ کا نامو نہیں جانتی اور نہ ہی اسے پتا ہے کی آپ اوسے پیار کر رہے ہیں۔ مجنوں کی نائیں۔‘‘
’’اور یہ بھی سچ ہے کہ آپ بنا کچھ کیے، سوچتے ہی سوچتے پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ چلیے ہمارے ساتھ، ہم آپ کو انیتا چاندی والا سے ملوادیتے ہیں۔‘‘
’’لیکن رام سجیون بابو، ای بات آپ اچھی طرح سے جان لیں کی جون کلاس کی او لڑکی ہے، اوکا مقابلے میں رؤوا کی حالت چپراسیوں سے گئی گزری ہے۔ رؤوا کا پتا ہے کی نہیں، کی او لڑکی کاباپ کینیا میں فیکٹری چلارہا ہے اور انیتا چاندی والا کیمبرج میں پڑھ کے اِہاں آئی ہے؟‘‘
’’آپ ہاتھ منھ دھوئیے۔ اچھے کپڑے لتے پہنیے۔ داڑھی دُوڑھی بنائیے اور قاعدے سے رہیے۔ جب ایسی لڑکی سے پیار کیا ہے تو ذرا اس کے موافق بنیے۔‘‘
’’اور نہیں بن سکتے تو فوراً اپنی دنیا میں لوٹ آئیے۔ آنکھیں کھولیے۔ دھوپ کو دیکھیے۔ وہ لڑکی کسی اور سنسار کی ہے، آپ کسی اور دنیا کے باسی ہیں گرودیو! جو آپ کلاس کلاس کرتے رہتے ہیں وہ خیالی پلاؤ نہیں ایک ٹھوس سچائی ہے۔ اسے جانیے۔ کلاس اسٹرگل میں صرف جنگ ہی نہیں ہوتی، کویتائیں ہی نہیں لکھی جاتیں، جلوس اور نعرے ہی نہیں لگتے۔ پیار ویارجیسی کئی چیزیں بھی اس کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔‘‘
’’رام سجیون، ہوش میں آئیے۔‘‘
’’آپ ہوش میں نہیں آئیں گے تو پاگل ہوجائیں گے۔‘‘
وہ سب باری باری سے بولتے رہے۔ یہ سب کچھ پہلے سے تیارکرلیا گیا تھا۔ یہ سفاک تھیئٹر کا ایک کھیل تھا۔
رام سجیون ساکت پڑے تھے۔ اسی طرح۔ پھر انہوں نے زور زور سے گانا شروع کیا۔ ان کی آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے۔
لوگوں نے بعد میں جانا کہ یہ گیتا کا دوسرا ادھیائے تھا۔ تعجب یہ تھا کہ وہ بابو رام سجیون کو یاد تھا۔۔۔ پورا کا پورا۔
ایک دن ہوسٹل کے وارڈن نے نوین ڈھونڈھیال اور کلیان کمار داس کو اپنے آفس میں بلایا۔ وارڈن سدگوپال نے ان کے سامنے ایک خط رکھا، ’’اسے پڑھیے آپ لوگ اور بتائیے کہ کیا کیا جائے۔‘‘
وہ محبت نامہ تھا جسے بابو رام سجیون نے انیتا چاندی والا کو لکھا تھا اور اسے کمرہ نمبر 316کے پتے پر پوسٹ کردیا تھا۔ خط دوزبانوں میں تھا، انگریزی میں بھی اور ہندی میں بھی۔ اس میں جیبن آنند داس، لورکا، نیرودا اور ٹیگور کی لائنیں تھیں، اپنے دل کے گہرے پریم کا پیچیدہ اور مفصل بیان تھا۔ کلیان کمار داس کو وہ خط ادب عالیہ کا ایک نمونہ معلو ہوا۔
وارڈن سدگوپال نے کہا، ’’وہ لڑکی بہت ڈر گئی ہے۔ اس نے سیکورٹی پروٹیکشن کامطالبہ کیا ہے۔ آج صبح ہی اسے خط ملا۔ پہلے تو اسے پتا ہی نہیں لگا کہ کس نے لکھا ہے۔ پھر اس نے چوکیدار دھیرج سنگھ سے پوچھا۔ رام سجیون نے اپنا نام پتا صاف لکھ رکھا ہے۔‘‘
’’اس لڑکی نے کیا کہا ہے؟‘‘ ڈھونڈھیال نے پوچھا۔
’’وہ بہت ڈر گئی ہے۔‘‘ وارڈن نے بتلایا، ’’کہہ رہی تھی کہ پچھلے دنوں سے اسے ایسا ضرور لگنے لگا تھا کہ ایک پاگل سا آدمی لگاتار اسے گھورتا رہتا ہے، لیکن اس نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اب بات دوسری ہے۔ آپ لوگ کچھ کیجیے۔ ویسے میں نے اسے فی الحال سمجھادیا ہے، لیکن اچھا ہوگا کہ آپ لوگ رام سجیون کو کچھ دن کے لیے ان کے گاؤں بھیج دیں۔ یہاں سے باہر رہیں گے، ہوا بدل جائے گی تو شاید وہ ٹھیک ہوجائیں۔‘‘
رات کی گاڑی سے رام سجیون کو جبراً ان کے گاؤں بھیج دیا گیا۔ سب لوگ ان کے ساتھ اسٹیشن گئے۔ اسلم اختر کو تو ساتھ ساتھ گاؤں تک بھیجا گیا۔ وہ تیسرے دن انہیں پہنچاکر لوٹا۔ بابو رام سجیون کا کمرہ اس ہوسٹل سے بدل کر ایک ایسے ہوسٹل میں کردیا گیا جس میں صرف لڑکے رہتے تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں ان کاسارا سامان پہلے والے کمرے سے نکال کر نئے کمرے میں پہنچایا گیا۔
کچھ دنوں بعد وارڈن نے پھر کلیان کمار داس اور نوین ڈھونڈھیال کو بلایا اور ان کے سامنے خطوں کا ایک پلندا رکھ دیا۔ سب خط رام سجیون نے گاؤں سے انیتا چاندی والا کو بھیجے تھے۔ انیتا چاندی والانے ان خطوں کو کھولا بھی نہیں تھا اور چوکیدار دھیرج سنگھ نیگی کے ہاتھ وارڈن کے پاس بھیج دیا تھا۔
وہ خط میز پر رکھے تھے۔ ہوا میں دھیرے دھیرے کانپتے، بالکل بند۔ انہیں کسی نے بھی نہیں پڑھا تھا۔ کلیان کمار داس نے انہیں اٹھاکر اپنے جھولے میں ڈال لیا جس کے اندر گہرا اندھیرا تھا۔
رام سجیون اب پھر لوٹ آئے ہیں، ایک سال تک گاؤں میں رہنے کے بعد۔ انیتا چاندی والا ریسرچ ختم کرکے کینیا جاچکی ہے۔ کلیان کمار داس کو گوہاٹی کے کسی چائے کے باغ میں اچھی نوکری مل گئی ہے۔
رام سجیون کو پورا یقین ہے کہ انیتا چاندی والا اب بھی یہیں یونیورسٹی میں ہے۔ وہ انہیں دیکھ رہی ہے اور پرکھ رہی ہے۔ وہ کسی ان دیکھے امتحان سے گزر رہے ہیں۔
رام سجیون اب بھی سماج کی مادی صورت حال، فلسفے کی معروضی روایتوں اور طبقاتی کشمکش پر کبھی کبھی مضمون وغیرہ لکھا کرتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.