رمزمحبت
اس نے ڈاکٹر مارتھا کے کلینک سے باہر نکل کر ایک نظر ہر طرف بچھی برف کی سفید چادر پر ڈالی اور تیز تیز قدم اٹھاتی سڑک پہ چلتے اجنبی ہجو م کا حصہ بن گئی!
پردیس کی فضاؤں میں گھلی اجنبیت اور ان سرد ہواؤں میں لپٹا، وجود کو تھپکتا تنہائی کا دکھ۔۔۔ جب اسے لگا کہ لوگوں کی اجبنیت سے زیادہ تکلیف دہ ،اپنی ذات کی اجنبیت ہوتی ہے تو اس نے خود ساختہ گُم ہونے کی کوشش کو ترک کیا، خاموشی کو اپنے سست ہوتے قدموں سے باندھا اور اپنے لانگ کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے، روز کی طرح تنہائی کی بیساکھی تھامے وہ سٹودیو چلی آئی جہاں وہ پچھلے کچھ عرصے سے سیم کے ساتھ اسکیچ سیکھنے آتی تھی۔دراصل یہ شوق بھی اسے اب نہیں رہا تھا مگر ڈاکٹر مارتھا کی ہدایت کے مطابق خود کو مصروف رکھنے اور اپنا فارغ وقت گزارنے کے لئے وہ فائن آرٹ کے اس سٹوڈیو چلی آیا کرتی تھی جس کے دروازے ہر خاص وعام کے لئے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں آنے والے کثیر تعداد میں ہوتے تھے۔ وہ خاموشی سے سب سے کونے والے بینچ پہ بیٹھ کر کورے کاغذ پہ مگن سی اسکیچ بناتی رہتی یا پھر آس پاس کے لوگوں کو خاموش نظروں سے دیکھتی رہتی۔ ان نظروں میں لوگوں کو جاننے یا ان کے چہرے پڑھنے کی کوئی جستجو نہیں ہوتی تھی۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی تیز رفتاری سے گزرتی ٹرین کو بغیر کسی مقصد کے بہت دور تک دیکھتا ہے! اس کے باوجود ان سب انجان لوگوں میں ایک چہرہ ایسا تھا جو بار بار اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی ظاہری سحر انگیز شخصیت نہیں بلکہ اس کی مہربان مسکراہٹ تھی جو اکثر اسے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پہ بکھر جاتی تھی۔ اس مسکراہٹ میں ویسا ہی اپنا پن تھا جیسے کسی روتے ہوئے کو اپنے ہونے کا یقین دلایا جاتا ہے۔ لگتا تھا جیسے اس کے سپاٹ چہرے کے پیچھے جا بجا کھینچی ہوئی اداسی کی لکیروں کو صرف وہ ٹھیک ٹھیک پڑھتا تھا!
آج سٹوڈیو میں آنے والے لو گوں کی تعداد کافی کم تھی۔ وہ کچھ دیر کھڑی کچھ سوچتی رہی اور پھر اپنی پینٹنگ میں الجھے اسی مہربان مسکراہٹ والے درمیانی عمر کے شخص کے پاس جا کر اسے مخاطب ہوئی۔
اس پینٹنگ کا عمومی تاثر اس طرح ابھر کر سامنے نہیں آ رہا جیسا آپ دکھانا چاہ رہے ہیں۔۔۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں رنگوں کا امتزاج گہرا ہونا چائیے تھا وہاں آپ نے ہلکے رنگ استعمال کئے ہیں!
اس شخص نے پلٹ کر گندم کی بالی جیسی سنہری اور شام کی آخری ساعتوں کی طرح اداس اور تنہا نظر آنے والی اس بیس بائیس سالہ لڑکی کی طرف دیکھا۔ایک سرسری سی نظراس پر ڈالنے کے بعد وہ دوبارہ اپنی پینٹنگ کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ انداز یوں تھا جیسے اس کے نزدیک اس کی بات کی کوئی اہمیت نہ ہو!
میں ٹھیک کہہ رہی ہوں سر!۔۔۔ میں پچھلے کئی دنوں سے آپکو اس پینٹنگ کے ساتھ مختلف تجربات کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔۔۔آج رہا نہیں گیا تو بول پڑی جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں مگر یقین کریں آپ اس پینٹنگ کو مکمل کر بھی لیں گے تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ کچھ روز بعد ہونے والے تصویری مقابلے میں کوئی انعام جیت سکے!
اس لڑکی نے مدھم لہجے میں کہتے ہوئے بھی اپنی بات پہ زور دیا اور پھر اسے مسلسل مگن پا کر کرمایوسی سے مڑ کر جانے لگی تو وہ شخص اس سے گویا ہوا۔
مجھے علی میر کہتے ہیں۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ میں بھی پچھلے کئی دنوں سے آپ کو سب سے الگ تھلگ خاموش بیٹھے ہوئے دیکھ کر سوچتا تھا کہ اگر اداسی کی کوئی شکل ہوتی تو وہ بالکل آپ جیسی ہوتی۔۔۔ اداسی بول سکتی تو اُس کا لہجہ بالکل آپ جیسا ہوتا۔۔۔ پینٹنگ پر اپنی رائے دینے کا شکریہ مگر جینی کو یقین ہے کہ یہ اس نمائش کی سب سے بہترین تصویر قرار پائےگی۔۔۔ بالفرض نہ بھی ہو تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ میرے لئے جینی کی خوشی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔۔۔ ہاں رنگوں والی بات پہ غور کیا جا سکتا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ یہ تصویر ہر لحاظ سے مکمل ہو۔۔۔ دراصل آج کل جینی کی طبیعت کچھ ناساز ہے اس لئے میں پوری یکسوئی سے اپنے کام پہ توجہ نہیں دے پا رہا ہوں اور مجھے جلد از جلد اسے مکمل کر کے شو آگنائزر کو دینا ہے۔۔۔ اس کے فون پہ فون آ رہے ہیں اور میں ہوں کہ۔۔۔۔! خیر ویسے تو میرا تجربہ آپ کی عمر کے لگ بھگ ہی ہوگا مگر میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر چیز کسی نہ کسی کے وسیلے کی منتظر ہوتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ جس وسیلے سے ہم ملے ہیں یہ ضرور کسی اور بات کا وسیلہ بنےگا۔۔۔ یہ بات بھی جینی نے ہی بتائی تھی اور۔۔۔''
''یہ جینی کون ہے؟'' اس کی بلا تکان گفتگو سے بچنے کے لئے اس کی بات کو کاٹنا ہی اسے واحد حل لگا تھا۔اگر اسے اندازہ ہوتا کہ یہ آدمی بولنے کا اتنا شوقین ہے تو وہ اسے مخاطب کرنے کی غلطی ہرگز نہ کرتی!
''جس نام کی گردان بار بار کی جائے ظاہر ہے وہ کوئی عام وجود تو ہو نہیں سکتا۔۔۔ جینی میری خوبصورت اور عزیز ترین بیوی کا نام ہے!'' جینی کے نام پہ علی میر کی آنکھوں میں ابھرتی چمک دیکھ کر نجانے کیوں اسے اندھیری رات میں تاروں بھرا روشن آسمان یاد آ گیا!
''ویسےتم نےاپنا نام تو بتایا نہیں۔۔۔ میں گھر جاکر جینی کو کیا بتاؤں گا کہ آج کس سے ملا؟‘‘علی میر نے اپنی چیزوں کو سمیٹے ہوئے کہا۔ شام ڈھل چکی تھی اور لاؤنج کی کھڑکی کے پاس موجود آتشدان کے پاس رکھی کرسی پہ منتظر جینی اسے صاف نظر آ رہی تھی جو وال کلاک کی سوئیوں کی ٹک ٹک کو گن گن کراس کےانتظار کو شمار کر رہی تھی۔ علی میر کو جینی کا، اس کے انتظار میں ہر پل آس اور یاس کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے بالکل پسند نہیں تھا۔ اس لئے وہ ہمیشہ اپنے مقرر وقت پر سب کام ادھورے چھوڑ کر گھر کی راہ لیتا تھا!
''نورالعین۔۔۔!'' لڑکی کے لہجے میں سرد ہواؤں جیسا روکھا پن عود آیا!
''بہت اچھا نام ہے۔۔۔ مگر تمہاری آنکھوں میں نور نہیں اماوس جھلکتی ہے۔۔۔ تمہیں روز دیکھتا ہوں اور ہمیشہ اداس پاتا ہوں۔۔۔ پہلی ملاقات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا اس لئے اور کچھ نہیں کہوں گا مگرتم سے مل کر بہت اچھا لگا نورالعین!
سٹوڈیو سے نکل کر وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے فٹ ہاتھ پر چلتے ہوئے جب تک اپنی اپنی گاڑیوں تک پہنچے ان کے درمیان اجنبیت کی پہلی دیوار گر چکی تھی!
اور پھر دونوں کی ملاقات اور گفتگو روز کا معمول بن گیا۔یہ راستے بھی عجیب ہوتے ہیں، کسی من پسند کا ساتھ ہو تو میلوں پھیلے فاصلے بھی لمحوں میں طے ہو جاتے ہیں۔ دل شکن تنہائی ہو تو چھوٹی سی ڈگر عبور کرنا کائنات کے دوسرے سرے تک پہنچنے کے مترادف لگنے لگتا ہے۔ روز کی گفتگو میں زیادہ تر حصہ علی میر ڈالتا اور اسے اپنا 'جینی نامہ' بہت محبت اور رغبت سے سناتا۔ اسے واقعی اپنی بیوی جینی سے بہت محبت تھی!
نورعین مجھے لگتا ہے مفلر لپیٹےلونگ کوٹ پہنے ایک شخص روز ہمارا تعاقب کرتا ہے!
’’ہمارا تعاقب؟‘‘ نورعین کا رنگ یوں فق ہوا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔ اب اس عمر میں کوئی میرے پیچھےآنے سے تو رہا۔۔۔ یہ جو بھی ہے تمہاری لئے یا تمہاری وجہ سے آ رہا ہے۔۔۔ مجھے تو ان راستوں کی خاک چھانتے ہوئے کافی سال گزر گئے ہیں۔۔۔ کبھی ایسا نہیں ہوا۔۔۔ ہو سکتا ہے کوئی تمہاری محبت میں مبتلا خود ہی کھنچا چلا آتا ہے!‘‘ علی میر کے لہجے میں بھر پور شرارت تھی۔
یہ بھی آپ کو جینی نے بتایا ہوگا؟‘‘ اس نے فوراً اپنے چہرے کا موسم کمال مہارت سے بدل ڈالا۔
''ہاں ٹھیک کہا تم نے۔۔۔ محبت کی ہر بات جینی سے ہی تو سیکھی ہے۔۔۔ تم جانتی ہو جینی کو پہلی بار دیکھتے ہی جو احساس شدت سے میرے دل میں جاگا تھا وہ اپنے ادھورے پن کا تھا اور جب کسی سے ملنے کے بعد اپنے ادھورے پن کا احساس شدت سے ہونے لگے تو مان لینا چائیے کہ وجود اپنی تکمیل کی منزلیں طے کرنے لگا ہے اور اس بات کا شعور اس وقت جاگتا ہے جب ایک روح کادوسری روح سے تال میل زمین پہ ظاہر ہونے لگتا ہے اور اس بات کا ادراک ہوتے ہی میں نے اظہار کرنے میں دیر نہیں کی تھی اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اپنی محبت کا ساتھ نصیب ہوا!''
''ویسے حیرت ہے آپ مرد ہو کر اپنی بیوی کی ہر بات کو سچ مان بھی لیتے ہیں اور اس پہ ایسا یقین بھی رکھتے ہیں جیسے یہ حرفِ آخر ہی ہو۔۔۔ آپ کی انا آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکتی؟'' نورالعین کے سوال پہ اس نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا مگر وہ پھر سے بے تاثر ہو چکا تھا۔ جیسا کہ اکثر ہوتا تھا وہ ایسی ہی تھی۔۔۔تہہ در تہہ خود کو چھپانے کی کوشش کرنے والی۔۔۔ ان لوگوں کے طرح جو ہمیشہ دوسروں سے چھپنے کے لئے دیواریں ڈھونڈتے رہتے ہیں!
''محبت میں انا کا کیا کام؟ ازدواجی زندگی میں خوشیاں کشید کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو جیسا ہے اسے سو فیصد ویسا ہی قبول کرے۔۔۔ خوبیوں اور خامیوں کے مکمل پیکیج کے ساتھ۔۔۔ اپنی مرضی اور پسند ایک دوسرے پہ مسلط کرنے کے بجائےایک دوسرے کی ذات کو اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اپنانامحبت کا آئین ہے۔۔۔ محبت ایک ایسا مقدس دائرہ ہے نور العین کہ اس دائرے میں آنے کے بعد ہر نامکمل شے کاملیت کے درجے پہ فائز ہونے لگتی ہے۔۔۔ جو اس نقطےکو نہیں سمجھتے وہ انا کے چھوٹے چھوٹے دو بےترتیب دائروں میں بٹ جاتے ہیں اور جلد بدیر ایک خطِ تنسیخ میں تبدیل ہو جاتے ہیں!''
''محبت میں کاملیت کا دائرہ۔۔۔ اونہوں!۔۔۔۔ مرد محبت کے بلند بانگ دعووں پر قائم رہے تب ہی کاملیت کا دائرہ بنتا ہے۔۔۔ یہ تو اتنا ہی نا ممکن ہے جتنا کسی کو آب حیات ملنا!
مایوسی نورعین کی آنکھوں سے اتر کر اس کے لہجے اور لفظوں میں زہر کی طرح پھیل رہی تھی!
''محبت دعوے سے نہیں، ہمارے عمل سے زندہ رہتی ہے اورمحبت کے آب حیات کا ذائقہ چکھنے والے سبھی لوگ محبت کی دنیا میں جاوداں زندگی ہی پاتے ہیں۔۔۔ اس میں جنس کی تفریق کیوں؟ اس طرح سوچنے والےمحبت کے اصل ذائقے سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔۔۔ یہ کوتاہی عورت کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ازدواجی زندگی میں محبت کو نبھا نہ سکے! جب دکھوں یا آزمائش کی تپش لمحہ بہ لمحہ بڑھتی تب ہی اس رشتے کی اصل پہچان ہوتی ہے اور جو اس مشکل میں ساتھ کھڑا رہے وہ ہی ہمارا حاصلِ زندگی ہوتا ہے علی میر اپنے مؤقف پر سختی سے قائم تھا!
''مرد صرف حاکمیت چاہتا ہے۔۔۔ عورت کے وجود سے لےکر اس کی روح تک۔۔۔ مرد کی اپنی خواہش نہ ہو تو اس پہ عورت کی کسی خوبی، قربانی، ایثار، محبت کا اثر نہیں ہوتا ہے۔۔۔ پھر ایسی عورت سونے کی ہو کر بھی، مردوں کے بازار میں پیتل کے بھاؤ ہی بکتی ہے! ہر بار عورت ہی کیوں مرد کے لئے قربانی دے، اسے بھی حق ہے اپنی مرضی سے جینے کا، تارہ ہوا میں سانس لینے کا۔‘‘ درد کی دبیز تہہ جب منہ زور ہو گئی تو رونے کی شدید خواہش اس کی آنکھوں میں ناراض ہو کر سرخی میں ڈھل گئی!
''عورت کی یہ خواہش ہی غلط ہے کہ وہ مرد کی نظر سے خود کو جانچے یا اپنے ہونے کایقین مانگے۔۔۔ عورت خود میں ایک پوری اور مکمل دنیا ہے۔۔۔ جتنے رنگ اس کی ذات میں پوشیدہ رکھے گئے ہیں وہ کسی اور چیز کو نہیں عطا ہوئے سوائے محبت کے۔۔۔ اس لئے تو عورت کسی روپ میں ہو وہ سجتی اور بنی ہی محبت کے لئے ہے مگر خامیوں سے مبرا وہ بھی نہیں ہے۔بات مرد یا عورت کی قربانی دینے کی نہیں ہے ۔بات اس رشتے کے احساس اور تقاضوں کی ہے اور یہ رمز بھی اس رشتے میں موجود محبت کی ہی مرہون منت ہی ہے۔ جس دن اس سچ کو مان لو گی خود کو پہچان لو گی اور یہ شکوے بھی خود بخود اپنی موت آپ مر جائیں گے!‘‘علی میر کے لہجے میں ہمیشہ کی طرح امید ہی تھی۔
''آپ بھی تو زندگی میں کاملیت کے قائل ہوئے ناں۔۔! سب کچھ ہے اسی لئے تو یہ دعوے ہیں آپ کے؟‘‘ نورعین کے لہجے میں طنز کی آمیزش تھی۔
''ہاں کاملیت کا قائل تو ہوں مگر زندگی، چیزوں، رشتوں یا لوگوں میں نہیں ۔۔۔ بلکہ صرف اور صرف محبت میں ۔۔۔ جو چیز فنا نہ ہو سکے وہ ہی کاملیت کے معیار پہ پوری اترتی ہے۔۔۔ یہ محبت کی کاملیت ہی ہوتی ہے جو ہماری ادھوری زندگیوں کو خود میں سمیٹ کر مکمل کرتی ہے اس لئے تو جن سے محبت ہو ان کے سب عیب بھی چھپ جاتے ہیں۔۔۔ میں جینی کے ساتھ اپنے رشتے کو کاملیت کی بنیاد پہ نہیں پرکھتا ہوں۔۔۔۔ اسی طرح جینی بھی میری شخصی خامیوں کو محبت کی بنیاد پہ نظرانداز کر دیتی ہے۔۔۔ہم دونوں نے اپنےادھورے وجود کو ایک دوسرے کے احساس اور محبت سے مکمل کر دیا ہے۔۔۔ خیر چھوڑو اس بحث کو، ھہ کسی کو بھی سمجھ، تحفے کے طور پر نہیں دے سکتے ہیں! میری پینٹنگ مکمل ہوگئی ہے اور کل جینی اسے دیکھ کر اوکے کرےگی تو میں اسے شو آگنائزر کو بھیج دوں گا۔۔۔ تم جینی سے ملوگی ناں؟‘‘ علی میر کے پوچھنے پہ اس نے بھیگی آنکھوں سے سر اثبات میں ہلا دیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی کیوں آئی تھی یہ علی نے نہیں پوچھا تھا۔۔۔ شائد وہ اس کا سبب جانتا تھا!
اگلے دن کا آغاز بھرپور گہما گہمی سے شروع ہوا۔ اس تصویری مقابلے میں بہت سے لوگ حصہ لے رہے تھے اور جیتنے والے کو بہت اچھی رقم انعام میں ملنی تھی۔ صائمہ عرف سیم بھی اس مقابلے میں حصہ لے رہی تھی۔ نوالعین کو کسی کی ہار جیت سے دلچسپی نہیں تھی سوائے علی میر کے۔۔وہ دل سے یہ چاہتی تھی کہ علی میر یہ مقابلہ جیت جائے اور انعام میں ملنے والی رقم سے وہ جینی کی برسوں پرانی خواہش کو پورا کر سکے اور اسے خوشبووٗں کے شہر پیرس کی سیر پر لے جا ئے۔علی میر اور جینی کی خوشگوار ازدواجی زندگی نے اس کے اندر آسیب بن کر بستی خواہشوں کے سائے بہت دور دور تک پھیلا دئے تھے۔آسیب کا سایہ جہاں بھی پڑا، ویرانی اور سناٹے کو اور بھی گہرا کرتا گیا۔ اس دن صبح سے ہی نورالعین کو بےچینی سے علی میر کی خوبصورت بیوی جینی سے ملنے کا انتظار تھا۔ جینی جس کی باتیں اور تعریفیں سن سن کر اس کے کان پک گئے تھے۔ اس سے ملنے کی خواہش اب اپنے عروج پہ تھی۔مگر اس دن ڈاکٹر مارتھا کے کلینک سے نکلتے ہوئے اسے بہت دیر ہو گئ۔ڈاکڑ مارتھا اس کی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے بہت خوش اور پرامید تھی اور اس کا برملا اظہار بھی انھوں نے نورالعین کے سامنے کیا۔
’’مجھے خوشی ہے کہ آہستہ آہستہ ہی سہی مگر تم زندگی کی گہماگہمی کی طرف لوٹ رہی ہو ویسے اس میں میری کونسلنگ سے زیادہ، اس مہربان شخص اور اس کی محبوب بیوی کا ہاتھ ہے جن کی خوشگوار ازدوجی زندگی میں رچے بسے محبت کے بے شمار رنگ دیکھ کر تمہیں اس رشتے کی مضبوطی اور خوبصورتی کا احساس پوری شدت سے ہو ریا ہے۔ دراصل یہ انسانی فطرت ہے ہم کسی بات یا چیز کو دیکھ کر یا تجربے سے گزر کر ہی زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے اور سیکھتے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر مارتھا یہ بات بہت تکلیف دہ بھی ہوتی ہے کہ جس چیز اور خوشی کی خواہش ہم نے کبھی بہت شدت سے کی ہو اور وہ کسی کو اتنی آسانی سے مل جائے۔شاید اسے ہی قسمت کہتے ہیں۔ کسی کی خاک کو بھی سونا بنا دے اور کسی کے سونے کو مٹی میں بدل دے۔‘‘ نورالعین نے تلخی سے کہا تھا۔
’’بات بہت آسان اور سادہ سی ہے نورالعین۔۔۔! ہم سب اپنی اپنی مرضی کے منظر دیکھنے اور سوچنے کے عادی لوگ ہیں۔ اگر غور کرو تو کسی کے لئے خاک بھی سونے سے بڑھ کر قیمتی ہے اور کسی کے لئے سونا بھی مٹی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ بات صرف اپنی نظر کے جال کو توڑنے کی ہے اور ویسے بھی جس کے پاس سچی محبت کا میٹھا پانی ہو، اسے زندگی کے تلخ ذائقوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
ڈاکٹر مارتھا نے نرمی سے مسکرا کر کہا تھا۔ نورالعین وہاں سے نکلی تو ذہنی طور پر کافی الھجی ہوئی تھی وہ جتنابھی اس بارے میں سوچتی، مزید الجھتی جاتی۔ اسے یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ غلط کہاں پر ہے؟
شام ڈھل رہی تھی جب وہ تیزی سے سٹوڈیو میں داخل ہوئی۔ اسے اندر آتا دیکھ کر علی میر تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور پاس آ کر پرجوش انداز میں کہنے لگا۔
’’تم نے آنے میں اتنی دیر کر دی ۔میں کب سے تمہیں ایک خوش خبری سنانے کے لئے بےتاب ہوں۔‘‘
’’کیا جینی نے پینٹنگ او کے کر دی ہے؟‘‘ نورالعین نے شرارت سے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’جینی میرے لئے خوش قستمی کا دوسرا نام ہے۔ دیکھو آج وہ میری پیٹینگ دیکھنے آئی ہے اور آج ہی کسی نے منہ مانگے داموں میری اس پینٹنگ کو خرید نے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور میں یہ پینٹنگ اسے دینے پہ راضی نہیں ہوں مگر جب اس نے درخواست کی کہ وہ یہ پینٹنگ کسی کو محبت کی اولین ساعتوں میں دیکھے خواب کی یاد دہانی کے طور پہ دینا چاہتا ہوں تو میں نے حامی بھر لی کسی کی آخری امید، ہمارے دیکھے خواب سے زیادہ اہم اور قیمتی ہوتی ہے۔ آؤ میں تمہیں جینی سے ملواتا ہوں۔‘‘
علی میر ایک طرف تیزی سے بڑھا اس کے پیچھے پیچھے نورالعین بھی تھی۔علی میر کی بنائی پینٹنگ کے پاس ایک عورت کھڑی تھی جس کی پشت ان کی طرف تھی۔ علی میر اس کے پاس جاکر کھڑا ہوا تو اسی وقت کوئی اور بھی پاس آکر ان سے کچھ کہنے لگا۔ نورالعین کی طرح اور بہت سے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے اسی وقت جینی نے رخ موڑا تھا۔۔۔علی میر کے ساتھ کھڑی عورت بظاہر بہت عام سی تھی مگر اس کے چہرے پہ محبت کے اتنے رنگ بکھرے ہوئے تھے کہ نورالعین چاہتے ہوئے بھی اس پر سے نگاہ نہیں ہٹا پا رہی تھی۔ علی میر نے اس شخص سے بات کرنے کے بعد ایکدم ہی جینی کو پکارا تھا اور بہت محبت سے بولا تھا۔
''جینی یہ ہماری پینٹنگ ہے۔۔۔ ہمارا وہ خواب جو وقت کی تیز آندھی میں ہم سے بچھڑ کر کہیں کھو گیا مگر ہماری محبت آج بھی اس خواب میں رنگ بھرتی ہے!‘‘ علی میر کے کہنے پہ کچھ دور کھڑی نورالعین نے بہت غور سےاس پینٹنگ کی طرف دیکھا۔ ڈوبتے سورج سے نارنجی ہوتا ہوا آسمان، ساحلِ سمندر اور اس پہ چلتے ایک بچے کا دونوں طرف سے ہاتھ تھامے ہوئے اس کے والدین۔۔۔! ایک مکمل خاندان کی عکاسی کرتی یہ تصویردل کو چھو رہی تھی ۔ایک ہوک سی اس کے دل میں بھی اٹھی تھی۔ بظاہر عام سی تصویر مگر خوابوں اور خواہشوں کے رنگوں سے بنی ہوئی۔ اسی وقت علی میر نے آہستہ سے جینی کے کان میں کچھ کہا تو جینی نم آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھی اور ٹٹولتے ہوئے جب اس نے بہت محبت اور نرمی کے ساتھ پینٹنگ پر اپنا ہاتھ پھیرا تو جیسے ایک چھناکا سا ہوا۔
او مائی گاڈ۔۔! نوالعین حیرت سے آنکھیں پھاڑے جینی کو دیکھ رہی تھی!
جینی اندھی تھی!!!
اسی وقت علی میر کی نظر اس پہ پڑی تھی اور وہ جینی کو اس سے متعارف کروانے کے لئے اس کی طرف بڑھا مگر نورالعین تو جیسے شدید صدمے و استعجاب کی حالت میں تھی۔ وہ نفی میں سر ہلاتی پیچھے ہٹی تھی۔ اسی وقت کوئی اس کے سامنے آ کھڑا ہوا، جس کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی نورالعین ساکت ہو گئی۔ کوئی ہر روز اس کا پیچھا کرتا ہے یہ جھوٹ نہیں تھا۔ یہ وہ سچ ہے۔ جو اُس کے محبت سے منکر نے کے باوجود ،ہر بار اس کا راستہ روک لیتا تھا۔ آج بھی وہ پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اپنے جسم پہ تیز رفتاری سے بڑھتی جلدی بیماری کے نشان سجائے نورالعین کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ سفیان کی اسی جلدی بیماری، نے ان کے رشتے کو کچے دھاگے میں تبدیل کر دیا تھا۔
’’نورالعین تم کب تک ہرسچ، ہر محبت ،ہر آئینے سے دور بھاگوگی؟‘‘
اس نے بہت مضبوط لہجے میں پوچھا تھا۔ اسے یہ مضبوطی محبت نے اور اس کی سچائی نے عطا کی تھی اس لئے تو آج تک وہ اپنی جگہ پہ کھڑاتھا، بھاگ تو نورالعین رہی تھی، سب سے، خود اپنے آپ سے۔
’’غور سے دیکھو ان دونوں کو ! جن کی محبت نے ان کے ادھورے وجود کو ایسے مکمل کیا ہے کہ انھیں کسی اور چیز سے غرض ہی نہیں رہی یے۔ علی میر جانتا ہے کہ جینی دیکھ نہیں سکتی مگر پھر بھی وہ اپنی ہر تخلیق ،سب سے پہلے اسے ہی دیکھاتا ہے؟ کیا تم جیسے عقل رکھنے والے محبت کی اس رمز کو سمجھ سکتے ہیں؟ وہ جینی کے ساتھ مل کر دیکھے ہر خواب میں اہنے ہنر سے رنگ بھر تا ہے، وہ جینی کی خواہش پہ اسے پیرس لے کر جانا چاہتا ہے، کیا ہوا اگر جینی دیکھ نہیں سکتی،علی میر تو دیکھ سکتا ہے نا! ان کی محبت تو بینائی رکھتی ہے نا۔۔۔!
چلو تم ہی بتاؤ۔۔۔! کبھی محبت کی دعویدار تم بھی تھی۔ مجھے بتاوٗ کہ اندھا کون ہے جو بینائی رکھتے ہوئے بھی محبت سے سینچے، سچے رشتوں کی پہچان نہ کر سکے یا وہ لوگ جو دنیاوی لحاظ سے اندھے کہلاتے ہیں مگر محبت کی عطا کی گئی نظر سے سب لفظوں اور آوازوں کے چہرے دیکھ لیتے ہیں۔۔! یہ بھی رمزِ محبت ہی ہے نور! جو اجسام کی فنا میں، بقا کا سفر تلاش کرتی ہے!‘‘ اس نے ایک نظر نورالعین کے زرد چہرے پہ ڈالی اور خاموشی سے تھکے قدموں کے ساتھ سٹوڈیو سے باہر نکل گیا۔ نور سے محبت اپنی جگہ مگر وہ اب مزید اس کے لئے آزمائش نہیں بننا چاہتا تھا۔ محبت زور زبردستی کا نہیں، دل کا معاملہ ہے اور اپنے اپنے دل کے ہاتھوں سب ہی مجبور ہوتے ہیں۔ جیسے کہ وہ تھا۔۔۔!
’’کیا تم اسے جانتی ہو؟ یہ ہی وہ شخص ہے جس نے اپنی محبوب بیوی کو منانے کے لئے یہ پینٹنگ خریدی ہے۔ نورالعین کیا یہ تمہاری وہ گمشدہ محبت ہے جس سے منکر ہو کر تم خود اپنی ذات کے لئے بھی اجنبی بن گئی ہو؟ اگر تم سچ میں اس شخص کو چھوڑنا چاہتی تو تمہیں کسی ماہرِ نفسیات سے علاج کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ چھوڑنے والے ان جھمیلوں میں نہیں پڑتے ہیں نورالعین۔۔۔!‘‘
علی میر کے کہینے پہ نورالعین پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’ہاں جانتی ہوں میں۔۔۔! ہوتے ہیں میرے جیسے کوتاہ نگاہ لوگ بھی جو اپنی محبت کو جانتے ہیں مگر اس کو مانتے نہیں ۔اس لئے کہ وہ آپ کی طرح، آپ کی جینی کی طرح محبت کی نگاہ نہیں رکھتے ہیں۔ میرے جیسے لوگ سب اچھا ہے کی بنیاد پہ محبت تو کر لیتے ہیں مگر جب اسے نبھانے کا وقت آتا یے تو سامنے والے پہ سب الزام رکھ کر فرار اختیار کر لیتے ہیں۔مگر محبت سے بھاگ کر جائیں بھی کہاں؟ آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔۔۔ ہر چیز کسی نہ کسی وسیلے کی منتظر ہوتی ہے۔۔۔ اللہ نے آپ کو میری مشکل کا وسیلہ بنا کر بھیجا۔۔۔ آپ کی وجہ سے آج مجھے محبت کی یہ رمز بھی سمجھ میں آئی ہے، آج سے پہلے میں صرف محبت کے صاف و شفاف جسم پہ جرام کے داغ دیکھتی اور اس سے کراہت محسوس کرتی تھی مگر آج میں نے محبت کو سب عیبوں سے پاک ہوتے دیکھا ہے۔ میاں، بیوی کا رشتہ ہمیشہ دکھ کی بھٹی جل کر ہی مضبوط ہو کر اپنی معراج کو پہنچتا ہے اب مجھے ہم دونوں کے ادھورے وجودوں کو ملا کر محبت کے دائرے میں قید ہو نا ہے۔۔۔ کاملیت کا دائرہ مکمل کرنے کے لئے۔۔۔ جو ازدواج کے مقدس رشتے کو مکمل کرتا ہے۔۔۔ اس لئے کہ وہ میرا علی میر ہے۔۔۔ اور میں اس کی آنکھیں رکھنے والی اندھی جینی!‘‘
نورالعین تیزی سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی سٹوڈیو سے باہر نکل گئی اسے یقین تھا کہ سفیان ابھی زیادہ دور نہیں گیا ہوگا اور یہ رمز بھی اسے محبت نے سکھائی تھی کہ محبت کو جب بھی آواز دو، وہ پلٹ کر جواب ضرور دیتی ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.