رات کے بے شمار آنسو ایک ایک کرکے صبح کے کشکول میں ٹپک رہے تھے اور دور آسمان کے قدموں سے زمین کو علیحدہ کرتے ہوئے درختوں کے ذخیرے میں گھوک سوئی ہوئی صبح کو پرندے ابھی جگانے نہیں آئے تھے۔ اس لیے دن کی پہلی کرن متروکہ کنویں میں خون بن کر نہیں گھلی تھی جس کی ادھ منڈیر پربیٹھے سجوارے کے دل کو حلق میں دھڑکتے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔
سجوارے کی نظریں بڑی بے قراری سے ذخیرے پر پھسلتی ہوئی آکر اس کے پیروں تلے تاریک کنویں میں اترگئیں اور ایک بار پھر کنویں کا غار ایسا دہانا سرگوشی میں قہقہے لگاتا محسوس ہوا۔
’’اول تو وہ آئے گی نہیں سجوارے۔ جن کنواریوں کے دل ڈھولک کی تال پر ناچنے لگیں وہ اپنے پیروں میں پڑی پھولوں کی زنجیر کو نہیں توڑ سکتی۔‘‘ سجوارے نے کنویں کی گھورتی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’وہ یقیناً آئے گی ہمیشہ کی طرح۔۔۔ وہی سرخ دوپٹہ اوڑھ کر جو میں اس کے لیے شہر سے لایا تھا۔‘‘
اس کا اتنا مہربان دوست، یہ کنواں جس کی منڈیریں ان دونوں کے پیار کے لیے ماں کی گود واتھیں آج سوتیلی ماں کی طنز بن کر رہ گئی تھی۔
اور آکے تمہارے سینے پر سر رکھ کر کہے گی، ’’۔۔۔ سوہنے سجواریا، چنا، میں سوہنی ہوں، کچی گاگر پر بھی کھڑجاؤں گی۔‘‘ کنویں کے ہلکے سے قہقہے نے پھر تیز درانتی کی طرح اس کا دل چیرا۔ ’’دوست، یوں پڑی پھولوں کی زنجیریں پیار کی آگ سے بھی نہیں پگھلا کرتیں ایسے میں سوہنیاں خود کچا گھڑا بن جایا کرتی ہیں۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ سجوارے کی چیخ رندھے ہوئے گلے میں اٹک گئی۔ ’’اسی لیے اسے اب آجانا چاہیے۔ میں اس کچے گھڑے کو۔۔۔‘‘
’’اونہوں، تم دل والے ہو تم میں اتنی ہمت کہاں۔ جب وہ تمہارے سرخ دوپٹے کا گھونگھٹ کاڑھ کے آئے گی اور اس کی کلائیوں میں دہکتے ہوئے گجرے تمہیں پگھلادیں گے اور صرف پیار کے جادو میں بندھے اس کا گھونگھٹ اٹھاکر کہو گے۔۔۔ جنتی، چاند جل چکا ہے، روشنی چاہیے دنیا کو۔ تب وہ شرمیلی مسکراہٹ کو اپنی باہنوں میں چھپائے گی اور تمہاری درانتی میرے دل میں اترنے لگے گی گہری۔ تم میری اذیت کو برداشت کرسکو گے؟ آں؟ بتاؤنا۔ تم مجھے اتنا تنہا دیکھ سکو گے؟ اپنے آپ کو؟‘‘
کنویں کی سوالیہ نظریں اس کے دل کو چھلنی چھلنی کرنے لگیں اور غصے میں پاگل کردینے والے دھیمے قہقہے کو مل ہوا کے مرہم کو چاٹنے لگے۔ اس نے ادھ گری منڈیر سے ایک اینٹ اٹھاکر دیوانوں کی طرح اپنی پوری قوت سے کنویں کے دل میں دے ماری۔ گہرائیوں کی سسکیوں نے چھینٹوں کو سجوارے کے دامن تک پہنچنے سے پہلے ہی جکڑ لیا اور اس نے کنویں کو یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’دیکھ لینا دوست۔ ابھی کیا ہوتا ہے۔‘‘
اور منڈیر کے ساتھ ہی اینٹوں کے نیچے چھپائی ہوئی درانتی نکال کر استرے کی طرح جیسے ہاتھ پر تیز کرنے لگا۔
دن کی پہلی کرن ابھی تک کنویں میں لہو نہیں بنی تھی۔ ذخیرے پر روشنی کا سرمئی غبار دور گاؤں کے اوپر بجھتے ہوئے چاند کی راکھ بن کر آسمان سے گر رہاتھا۔ ابھی تھوڑی دیر میں پرندے صبح کے رخ سے خاموشی کاآنچل ہٹادیں گے اور سجوارے کی زندگی سوکھی ہوئی شاخ بن کر دن کی پہلی انگڑائی میں ٹوٹ جائے گی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھیتوں میں ہل چلانے والوں کی ٹھوکریں کھاتی رہے گی، ڈھولک کی تال پر جنتی کادل، نچانے والے کے پیروں میں رلتی رہے گی۔ تب وہ اس تڑپ کو برداشت کر سکے گا؟ تب وہ زندہ رہ سکے گا؟
’’ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ اسے آنا ہی چاہیے، ورنہ میں اس کے گھر جاکر اس درانتی کی پیاس بجھاؤں گا۔‘‘ درانتی اس کے ہاتھوں میں بجھتے ہوئے چاند کاعکس لیے مسکرانے لگی۔ ’’رجو اس کو لے کر یقیناً آئے گی۔‘‘
کل شام اتنی مصروفیت کے باوجود جب رجو، لالو سائیں کو روٹی دینے کے بعد اپنے رحیم بخش رحیمے کے سلسلے میں اپنے باپ کادل موم کرنے کے لیے دعا کرواکے اور تعویذ لے کر آرہی تھی تو سجوارا سراپا التجا بن گیا تھا۔
’’رجو تم میری بہن ہونا۔ کسی طرح جنتی سے ملوادو۔۔۔ آخری بار۔‘‘
’’تم کیسی سودائیوں والی باتیں کرتے ہو ویر۔ پرسوں اس کی ڈولی ہے۔ ایسے میں کوئی شریف لڑکی گھر سے نکل سکتی ہے؟‘‘
’’تم بھی بدل گئی رجو؟ تم تو جانتی ہو پیار کیاہوتا ہے۔‘‘
رجو نے امید بھری نظروں سے اپنے رحیم بخش رحیمے کے گھر کی طرف دیکھ کر شرماتے ہوئے کہا، ’’میں جانتی ہوں۔ پر وہ تو بندھی بیٹھی ہے ویر۔‘‘
’’تم نے اور تمہارے رحیم بخش رحیمے نے آج تک میرے پیار کی حفاظت کی ہے۔‘‘
جانے کیا وجہ تھی کہ وہ رحیمے کو نہ صرف خود اس کے پورے نام کے ساتھ چھوٹا نام لگاکر پکارتی تھی بلکہ دوسروں سے بھی یہی اصرار کرتی تھی۔ رحیم بخش رحیما۔ وہ ایک بار پھر شرما گئی کہ سجوارے نے ان کے حوالے سے پیار کی حفاظت کاذکر اپنی زبان میں ان دنوں کا پورا احساس سمیٹتے ہوئے کیا تھاجب وہاور جنتی منڈیر پر بیٹھے، دن کادل موم کرنے کے لیے ہر نئی صبح کاسواگت کرتے تھے اور جو اس کنویں اور گاؤں کے درمیان کیکرکے ٹھنٹھ کے پاس بیٹھی اپنے رحیم بخش رحیمے کو آنکھوں میں سموئے ان دونوں کی حفاظت کیا کرتی تھی مبادا صبح کو رشوت دیتے ہوئے انہیں کوئی دیکھ لے۔
’’اب تو بہت مشکل ہے ویر۔ اب تو وہ پرائی ہوگئی ہے۔‘‘
جب رجو نے سجوارے کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ اپنی سہیلی کی تمام مجبوریاں بھول کر صرف وہ عورت بن گئی جس کے دامن سے لپٹا بچہ گھگو گھوڑوں کے لیے رو رو کر ضد کر رہاہو۔ اس نے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ جنتی کو لے کر ضرور آئے گی۔
’’اس سے کہنا کہ میرے والا سرخ دوپٹہ لے کر آئے، جانے وہ پھر اسے اوڑھنا مناسب سمجھے نہ سمجھے۔ اور، اور موتیے کے گجرے بھی پہن کر آئے۔‘‘
رجو نے وعدہ تو پکا کیا تھا۔ لیکن ابھی تک سرخ دوپٹہ تو کیا اس کا سایہ تک نہیں لہرایا تھا۔ کنویں نے ہلکے سے قہقہے میں پھر سرگوشی کی۔
’’سایہ تو روشنی سے ہوتا ہے اور اس کے پیار کا چراغ بجھ گیا ہے۔ وہ خود تاریکی بن کرچھاگئی ہے اور اندھیرا ایک ایسا سایہ ہے جس کے ہاتھ گجروں کی خوشبو کا بھی گلاگھونٹ دیتے ہیں۔ تم بھی تو جنتی کی کلائیوں میں پڑے ہوئے گجروں کی خوشبو ہو۔‘‘
’’ناممکن۔ یہ ناممکن ہے۔‘‘ سجوارا روہانسا ہوگیا۔ اس سے پیشتر کہ اندھیرے کے ہاتھ میرے گلے تک پہنچیں، میں یہ ہاتھ کاٹ دوں گا۔
کل شام تک اس کا ایمان تھا کہ پیار کی دنیا میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا لیکن جب سے وہ رجو سے مل کر آیا تھا اور اس کے کانوں میں کنویں کی آواز بار بار گونجنے لگی تھی، وہ پرائی ہوگئی، اب وہ پرائی ہے، تو دو بہت خوبصورت، مہندی لگے ہاتھ اس سورج کو رفتہ رفتہ جدائی کی کال کوٹھری میں دھکیلنے لگے تھے۔
اب وہ مجھ سے کبھی نہیں ملے گی؟ اس حقیقت کااحساس اسے پرسوں شام نہیں ہوا تھا جب وہ جنتی کے گھر میں ڈھولک کی آوازسن کر حیران رہ گیا تھا۔ اس نے ڈگمگاتے قدموں سے اس کے گھر کے پھیرے لگاتے ہوئے کئی مرتبہ پوچھنے کی کوشش کی تھی، ادھر آتے جاتے لوگوں سے، لیکن ایک انجانے خوف نے اس کے ہونٹ سی دیے تھے۔ اور وہ گلی کی نکڑ پر کھڑا اپنے آپ کو تسلیاں دیتا رہاتھا۔۔۔ نہیں، یہ کس طرح ہوسکتاہے۔ اگرایسی کوئی بات ہوئی تو جنتی ضرور مجھ سے کہتی۔
پھر رجو اپنے ہاتھ میں ایک بڑا سا کٹورا لیے جنتی کے گھر کی طرف جاتی اس کے قریب سے گزری تھی اور لفظ خود بخود ہونٹوں سے آزاد ہوگئے تھے۔
’’رجو، بات سنو۔‘‘
رجو نے بڑی ترحم بھری نظروں سے سجوارے کو دیکھنے کے بعد جانے کے لیے قدم بڑھایا ہی تھا کہ سجوارے نے اس کے سامنے آکر پوچھا،
’’کیا بات ہے؟ تم۔۔۔‘‘
رجو کے ہونٹوں کی سدابہارمسکراہٹ مرجھا گئی تھی اور اس نے سرجھکاکر ہاتھ میں پکڑا ہواتانبے کاکٹورا اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔ کٹورے میں مہندی تھی، زہر تھا۔
’’لیکن کس کے لیے؟‘‘ سجوارے نے زہر خوردہ آنکھوں سے پوچھا۔
’’جنتی۔‘‘
سجوارے نے ہنس کر مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ تلاش کی۔
’’بتاؤنا رجو۔۔۔ ایسی مشکری اچھی نہیں۔‘‘
’’سچی۔ ویرا۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ کس طرح ہو۔۔۔‘‘
’’مجھے جانے دو۔۔۔ وہاں مہندی۔۔۔‘‘
’’مجھے بتاؤ۔ میں نہیں جانے دوں گا۔‘‘
رجو نے اس کو جلدی جلدی بتایا تھا کہ دراصل جنتی کو بچپن ہی میں اس کوکرم آباد والی ماسی نے اپنے لڑکے کے لیے مانگ لیا تھا۔ لیکن بات صرف اس لیے نہیں بڑھی تھی کہ جنتی کے ماں پے لڑکے کو گھر جوائی بنانے پر بضد تھے، کیونکہ جنتی کی ڈولی کے بعد ان کا گھر بالکل ویران ہوجاتا۔ اب چونکہ جنتی کی ماسی بیمار سی رہنے لگی تھی اور اسے اپنی زندگی پر اعتبار نہیں تھا اور جنتی ایسی بہو ملنا بہت مشکل تھی اس لیے اس نے ان لوگوں کی ضد مان لی تھی، رجو نے نظریں جھکاکر سجوارے سے کہا، کہ وہ خواہ مخواہ کے احساس جرم سے دبی جارہی تھی۔
’’سچی ہمیں پتا نہیں تھا ورنہ میں ہی تمھیں بتادیتی۔ اچھا ویرا اب مجھے جانے دو، دیر ہوگئی ہے۔‘‘
رجو چلی گئی تھی اور سجوارے کو اپنے دل میں دھڑکتے ہوئے انجانے خوف کے باوجود اعتبار نہیں آیا تھا۔ اس نے گھر آتے ہوئے سوچا تھا کہ رجو کی مذاق کرنے کی عادت بہت بری ہے۔ اتنی سنجیدگی سے اتنے خوفناک مذاق کرتی ہے کہ انسان کا دل دہل جاتا ہے۔ پھر اس کی آنکھوں میں رجو کے ایسے کئی مذاق گھوم گئے جب اس کے ہونٹوں کی سدابہار مسکراہٹ بالکل آج ہی کی طرح غائب ہوگئی تھی اور بعد میں وہ بے طرح ہنستے ہوئے کہتی۔۔۔ ویر، مجھے تمہیں ستانے میں بہت مزہ آتا ہے۔۔۔ سجوارا جنتی سے شکایت کرتا تو وہ بھی رجوکا ساتھ دیتی ہوئی کہتی۔۔۔ اب ویر بنے ہو تو سہو سب کچھ۔
وہ آج تک رجو کے مذاق سہتا آیا تھا لیکن اب تو اس نے حد کردی تھی۔ اس نے سوچا، کل جب جنتی کنویں پر آئے گی تو وہ اور کچھ کہے بغیر اسے ساتھ لے کر سیدھا کیکر کے ٹھنٹھ کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھی رجو کے پاس جائے گا اور اس کی گت سے اس کو پھانسی دیتے ہوئے کہے گا۔۔۔ اب کرے گی مذاق چڑیل، یہ د یکھ۔ اگر رات کو جنتی کے ہاتھ پیلے ہوگئے ہوتے تو اسے میرے پاس کون آنے دیتا۔۔۔ ہائے، چھوڑدے ویرا، میرا گلا۔۔۔ معافی مانگ، آیندہ تو پھر کبھی ایسا بے ہودہ مذاق نہیں کرے گی۔۔۔ وے میں مرگئی ویر، وے میری توبہ۔۔۔ چھوڑنا ویر۔ پھر وہ بے طرح ہنسے گی اور کہے گی۔۔۔ اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ وہ دیکھو سویر ہوگئی ہے ویر۔ اور وہ جنتی کو اپنے بازوؤں میں لپیٹ کر کنویں پر آجائے گااور ہر روز کی طرح وہاں سویر کاسواگت کرے گا۔
سجوارا چارپائی پر لیٹ کر دل ہی دل میں مسکرانے لگا تھا لیکن ڈھولک پر تھرکتے ہوئے گیت ابھی نہیں سوئے تھے اور جانے کیوں اس کی مسکراہٹ اس کے دل میں دھڑکتے ہوئے ان جانے خوف میں پھر کیوں گم ہوگئی۔۔۔ وہ، وہ مہندی کاکٹورا، نہیں آج چاند کی چودھویں ہے اور ترنجن، لیکن ترنجن تو گھروں میں نہیں ہوا کرتا اور اسے رنگ کے لیے مہندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تو پھر کہیں واقعی۔ نہیں۔ جنتی ان گزرے ہوئے اتنے برسوں کو ایک لمحے پر کس طرح قربان کرسکتی ہے۔ رجو اپنے مذاق میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لیے اتنا بڑا ناٹک نہ کھیلے تو پھر اسے رجو کون کہے۔ رجو کی بچی، مرجانی۔ اب اس سے ساری عمرنہیں بولوں گا، صبح آلے سہی۔
وہ کنویں کی منڈیر پر بیٹھا رہا۔
زخمی سورج کی رینگتی ہوئی بے جان کرنیں آنسو بن کر سجوارے کی آنکھوں سے چھلک آئی تھیں اور اس نے تنہا، بے نور صبح کو آنے والے دنوں کی لاشوں سمیت نہلاتے ہوئے سوچا تھا۔۔۔ اگر رجو کی بات سچ نہ ہوتی تو وہ ضرورآتی۔ جنتی کو پتا ہے اس قسم کے مذاق جان لے لیا کرتے ہیں۔
سجوارے کی آنکھوں میں تیرتی ہوئی تاریک کرنیں، اداس کنویں کی گھورتی ہوئی اندھی آنکھ میں اتر گئیں۔
’’اگر یہ سچ ہوا تو۔۔۔؟‘‘
’’تو؟‘‘ کنویں نے فکر مندہوکر پوچھا۔
’’تو کیا ہوگا؟‘‘
سجوارے نے چہارسو پوچھا۔ ساری زندگی، ساری دنیا سوال بن کر رہ گئی تھی اور اس سوالیہ نشان کی درانتی اس کی گردن پر پھرنے لگی تھی۔
’’یہ نہیں ہوسکتا۔ جنتی میری ہے۔ اس کے سینے میں میرا دل ہے۔ اس کابیاہ۔۔۔‘‘
’’یہ سچ ہے۔ تم نے ٹھیک سنا ہے۔‘‘
گاؤں میں ہر ایک نے اس سے یہی کہا تھا۔ تو یہ رجو کانہیں بلکہ جنتی کا پہلا اور آخری مذاق تھا۔
وہ سارا دن زخمی پرندے کی طرح کبھی اس پیلی میں، اس درخت کے نیچے اور کبھی اس کنویں پر اور پھر کسی پیلی میں رینگتا ہوا سوچتا رہاتھا۔۔۔ کیوں؟ اتنے قول و قرار کے باوجود وہ کسی اور کی ہوگئی؟ لڑکیوں کے قول و قرار سوت کے دھاگے ہوتے ہیں، ذرا کسی نے کھینچا تو ٹوٹ گئے؟
’’صبر، سجوارے صبر کرو۔‘‘ رحیم بخش رحیما، رجو کے تصور سے خود بھی اداس ہوگیا تھا۔ ’’اگر وہ کسی اور کی ڈولی میں بیٹھ گئی تو کیا ہوا۔۔۔ تمہیں اس کے د ل سے تو کوئی نہیں نکال سکے گا۔‘‘
اور شام تک سجوارے نے ان تسلیوں کو سینے سے لگائے رکھا تھالیکن جب وہ جنتی سے ملنے کے لیے رجو سے التجا کرکے آیا تھا اور رجو کے الفاظ کنکھجورے بن گئے تھے۔۔۔ اب تو وہ پرائی ہوگئی ہے ویرا، اب وہ کس طرح آسکتی ہے۔۔۔ تو اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا تھا کہ اول تو لڑکیاں کچے گھڑے پر بیٹھ کر پیار کے دریا میں کھر جایا کرتی ہیں ورنہ اگر وہ کسی غیر کی ڈولی میں بیٹھ جائیں تو پھر ڈولی کی کوکھ سے نئے ہی چراغ لینے کو اتراکرتی ہیں۔۔۔ لیکن اس نے تومیرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم میں سے کسی ایک کو کسی نے چھیننا چاہا تو ہم دونوں اس کنویں میں چھلانگ لگادیں گے۔ اس کے وعدے واقعی سوت تھے؟ پتا چلنے کے بعد اسے فوراً آکر مجھے بتانا چاہیے تھا کہ وہ بچپن ہی میں اپنی ماسی کے لڑکے کی ہوگئی تھی۔ میں اسے ساتھ لے کر اس گاؤں سے کہیں اور چلا جاتا اور اگر کچھ بھی ممکن نہ ہوتا تو کنواں تو ہے ہی۔ اس کے کانوں میں رحیم بخش رحیمے کی آواز گونجی۔ ’’نیک شریف لڑکیاں اپنے ماں باپ کی خواہش پر قربان ہوجایا کرتی ہیں۔‘‘
’’اگر لڑکیوں نے اپنی شرافت اور نیکی اسی طور ثابت کرنی ہوتی ہے تو وہ اپنے سینے میں کسی کادل کیوں رکھ لیتی ہیں اور اس کی دھڑکن کو سناٹوں کے حوالے کیوں کردیتی ہیں۔‘‘ اس نے چاروں طرف سے اپنی روح کو چیرتے ہوئے سناٹوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ’’کیوں؟‘‘
سناٹے ڈھولک کی آواز منہ میں لیے ہنس دیے اور جنتی کے گھر سے بہتے ہوئے گیتوں کا لاوا سجوارے کے ویران آنگن میں بھرنے لگا۔۔۔ وہ ان گیتوں پر بہتی ہوئی کسی اور کے گھر چلی جائے گی اور میں اپنے گھر میں جمع لاوے میں جلتا رہوں گا۔ تڑپتا ہی رہوں گا؟ وہ رتے کپڑے پہن کر، بانہوں میں لال چوڑا چڑھاکے میرے سامنے گھونگھٹ کاڑھ کر اجنبی ہوجائے گی اور۔۔۔ جب اس کے ہاتھ، ہل چلاکر دن بھر کے تھکے ہوئے شوہر کے جسم سے تکان چوس رہے ہوں گے تو میں جنتی کے کومل لمس کے لیے ترستا رہوں گااور دماغ کے شکنجے میں میرا لوں لوں تڑپتا رہے گا؟ پھر میں تو پوری طرح مر بھی نہیں سکوں گا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رات کے جسم پر گدگدی بن کر چھاجائے گی اور اس کا پرچھاواں اس کے وجود سے الگ ہوکر میرے آنگن میں ناچ ناچ کر مجھے پاگل کردے گا اور میں اس پر چھانویں سے بہتی ہوئی سرخی کے آگے بھاگتا ہلکایا ہوا پیلیوں میں پھروں گا اور اندھیرے کے مہندی رنگے ہاتھ میری گردن پر اپنی گرفت کو اور بھی سخت کردیں گے کیوں؟ ایسا کیوں ہوگا؟
رات ’اس کیوں‘ کو بالوں میں ٹانگ کر ڈھولک کی تال پر ناچتی ہوئی مہندی بن کر جنتی کے ہاتھوں کو چومتی رہی اور سرخ ہیولا سجوارے کی آنکھوں میں نیند جلاکر اس کے کانوں میں قہقہے لگاتا ہوااسے رات کے بیابانوں میں لیے لیے پھرتا رہا۔۔۔ نہیں۔ نہیں۔۔۔ وہ اکتاکر چیخا۔۔۔ میری جان سے کھیلنے کا حق کسی کو نہیں۔ وہ یوں مجھ پر مسکرا نہیں سکتی۔ نوچ لوں گا میں یہ مسکراہٹ۔ کاٹ دوں گا وہ ہاتھ جنتی مجھے انگاروں پر پھینک کر خود پھولوں پر نہیں سوسکتی۔ ڈولی میں بیٹھنے سے پہلے اسے میرے پیار کی قیمت دینی پڑے گی۔ میں یہ پھول جلادوں گا، جلادوں گا یہ پھول۔‘‘
سجوارے نے دیوانوں کی طرح، سامنے کھڑکی میں لالٹین کے پاس پڑی درانتی اٹھالی۔۔۔ ہنہ، سوہنی کی بیٹی۔
وہ درانتی کو کھیس میں چھپاکر باہر نکل آیا۔ جنتی کی رات، ناچ ناچ کر تھک چکی تھی۔ سوچکی تھی۔ سجوارے نے ذخیرے کی طرف دیکھا۔ سجوارے کی رات، کے بے شمار آنسو ایک ایک کرکے صبح کے ستارے کے کشکول میں ٹپکنا شروع ہوگئے تھے۔
اور ابھی تک پہلی کرن کالہو کنویں میں نہیں ٹپکا تھا۔
چاند بجھ چکاتھا۔ دور پیلیوں میں اکادکالوگ چیونٹیوں کی طرح رینگتے نظر آرہے تھے۔ سجواراایک دم چونک اٹھا اور درانتی اس کے ہاتھ میں اس کی کنپٹیوں کی طرح پھڑکنے لگی۔ اس نے دور گاؤں سے کیکر کے ٹھنٹھ کی طرف آتے ہوئے دوداغ دیکھے جن میں سے ایک سرخ تھا۔ سجوارے نے کنویں میں جھانکتے ہوئے کہا، ’’وہ دیکھو جنتی آرہی ہے۔ تم کہتے تھے کہ نہیں آئے گی۔‘‘
کنواں واقعی سوتیلی ماں کی طنز بن گیا تھا۔ ’’آتو رہی ہے لیکن دیکھتے ہیں تم کیا کرتے ہو۔‘‘
’’دیکھ لینا میرے دوست۔ دیکھ لینا۔ اگر سمجھتے ہو کہ اس کی کلائیوں میں دمکتے گجرے دیکھتے ہی میں پگھل جاؤں گا تو۔۔۔‘‘
سجوارے نے بے طرح دھڑکتے دل اور جسم سے بہتے ہوئے پسینے کے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی، درانتی اور بھی سختی سے پکڑلی اور اپنی آنکھوں میں سارے جسم کاخون بھر کے کیکرکے ٹھنٹھ کی طرف دیکھنے لگا۔ رجو حسب معمول وہاں رک گئی تھی اور رتا پر چھاواں ہلکی ہلکی ہوامیں کنویں کی طرف تیرنے لگا تھا۔
’’تو جنتی آہی گئی اپنے سجوارے کے پاس پھولوں کی زنجیر توڑکر! تم تو کہتے تھے۔‘‘
’’نہیں۔ نہیں تو۔۔۔‘‘
اگراس کے ہاتھ میں درانتی کے بجائے کسی کا ہاتھ ہوتا تو اس کی سنبھلتی ہوئی گرفت سے پھسل جاتا۔ تب اس کی آنکھوں میں خون کے بادل سرخ دوپٹے کی فضاؤں میں تحلیل ہونے لگے۔۔۔ اگر جنتی کا دل اپنی خوشی سے ڈھولک پر ناچ رہاہوتا وہ کبھی نہ آتی۔ اگر اس وقت اسے کوئی دیکھ لے تو؟ وہ میری خاطر ساری دنیا میں بدنامی کاخطرہ مول لے کر آئی ہے۔ میری سوہنی! اگر اس کا باپ دیکھ لے تو گنڈاسا۔۔۔
اس کے دل میں جنتی کی آواز گونجی جیسے گہرے، بہت گہرے کنویں سے۔۔۔ چنا میں قول قرار کی پکی ہوں۔ دیکھ میں آگئی۔ تو سوچتا ہوگاکہ میں بک گئی۔ جھلے، ڈولی میں میرا پنڈا جائے گا۔ میری روح تو ہمیشہ ترے پاس رہے گی۔ جب تو مجھ سے ملنا چاہے گا تو مجھے رات کی آنکھوں سے چھلکتی اوس میں دیکھ لیا کرنا۔ میں صبح کی پہلی کرن میں چھپی تیرے پاس آیا کروں گی۔ میں نے تجھے فریب نہیں دیا۔ چنا! تیری قسم، مجھے پتا نہیں تھا۔
جنتی کاسرخ سایہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھ رہاتھا۔۔۔ جنتی۔ جنتی! آؤ یہاں سے چلے جائیں۔
جنتی نے ایک بار پھر اس کے بازو سے سراٹھاکر اس کے ہونٹوں پر اپنا پیارا سا ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔ نہ چنا۔ ایسی بات نہیں کرتے۔ اچھی لڑکیاں اپنے باپ کی پگڑی کو مٹی میں رول کر اپنے سجواروں کا تاج نہیں بنایا کرتیں۔ میں کچھ کھاکر سو رہوں گی۔۔۔ نہ جنتی، نہ، نہ۔ میں تمہیں کس طرح کچھ کھاکے سوتا دیکھ سکتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے؟ جب تمہیں ایک مرتبہ تاپ چڑھا تھا تو میں فکر میں کس طرح گھل گیا تھا ار تم نے ہنستے ہوئے کہا تھا، تاپ مجھے چڑھا تھا یا تمہیں؟ اور میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ پیار میں دونوں جی ایک ہوجایا کرتے ہیں، کوئی فرق نہیں رہتا۔
وہ کیکر اور کنویں کے عین درمیان آگئی تھی۔ سجوارے کی طرف رفتہ رفتہ بڑھ رہی تھی اور اس کاذہن گہنا رہاتھا۔۔۔ اگر دونوں جی ایک ایک ہوجایا کرتے ہیں تو تم یہ درانتی لے کر کیوں آئے ہو؟ رات تمہیں کیا ہوگیا تھا؟ تمہارا خیال ہے کہ میں تمہارے ہاتھ میں درانتی دیکھ کر گھبراجاؤں گی؟ نہیں چنا۔ میں تمہاری ہوں۔ لو۔ اٹھاؤ ہاتھ۔
سجوارے کے سامنے سانولی لانبی سی گردن آگئی جس پر سجے ہوئے مکھڑے پر دو بڑی بڑی آنکھوں میں ساتھ گزرا ہوا وقت اور وعدوں کی گونج بند تھی، جن میں اس کا پیار محفوظ تھا۔ وہ ان آنکھوں کو دیکھتا ہی رہااور اس کے ہاتھوں میں درانتی لرزتی ہی رہی۔۔۔ کرونا، وار، چنا۔ دیکھتے کیا ہو؟
’’دیکھتے کیا ہو؟‘‘ کنواں غرایا، ’’وہ پرائی ہوگئی ہے۔‘‘
دھیمی دھیمی ہوامیں لہراتے ہوئے سرخ دوپٹے کی با نہیں اس کی طرف بڑھ رہی تھیں اور اب گجرے اسے صاف نظر آرہے تھے۔
’’جاؤنا۔‘‘ کنویں نے کہا۔
’’مجھ سے ہلانہیں جاتا۔ میں کیا کروں؟‘‘ اس کاگلا رندھ گیا۔
’’تم گجرے کی آگ سے پگھل کر زمین میں جذب ہوگئے ہو۔‘‘
’’پیار کی آگ کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ لمحہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ تم جنتی کو دور ہی دور سے دیکھتے جلتے رہو گے ہر دم مرتے رہو گے۔ پیار کے دوزخ میں موت نہیں آتی۔‘‘
’’میں اپنی یادوں کو دفن کردوں گا۔‘‘
’’مردوں کی قبروں پر تو وقت کی مٹی جمتی رہتی ہے لیکن زخمی دلوں میں زندوں کی قبریں سدا کھلی رہتی ہیں۔‘‘
’’میں کیا کروں؟ کیا کروں؟‘‘
’’درانتی پیاسی ہے۔‘‘ کنویں نے چیخ کر اسے احساس دلایا۔
اس سے چند قدم کے فاصلے پر جنتی نے پلکیں اٹھائیں۔ اس کی آنکھوں میں گیلی گیلی سرخی تھی۔ سجوارے نے لرزتا درانتی والا ہاتھ اٹھایا۔
’’اب وار کر بھی دو۔‘‘ کنویں نے کہا۔
’’کیسے؟ کیسے وار کردوں؟‘‘
’’تو پھر میری ایک اور بات مان لو۔‘‘
’’جلدی۔ جلدی بولو۔‘‘
’’میرے دل میں آجاؤ میرے دوست۔۔۔ تمام اذیتوں سے نجات مل جائے گی۔‘‘
سجوارے نے جنتی سے نظریں ہٹاکر کنویں میں بڑی حیرانی سے دیکھا۔ پھر جنتی کو۔ جنتی کو۔۔۔
اس کے ہونٹ صرف لرز ہی سکے۔
’’آجاؤ۔ آجاؤ سجوارے میرے دل میں، میں تمہارادوست ہوں۔‘‘
اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو پلکوں کے جال سے چھڑایا اور درانتی کو جنتی کے پیروں میں پھینک کر کنویں کے دل میں اتر گیا، گہرے۔۔۔ بہت ہی گہرے کنویں میں، دل میں۔
تب دن کی پہلی کرن کا لہو جنتی کی مانگ سے بہہ کر کنویں میں گھلنے لگا۔
گھلتا رہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.