روشندان
صغریٰ حیران رہ گئی۔ اپنوں کے رویے حالات کے چاک پر ایسی گھڑتیں بھی تبدیل کر لیتے ہیں کیا؟ابھی ابھی جو اس کے گرد بیں ڈالتی اور اسے پلوتے دیتی ہوئی باہر نکلی تھی وہ اس کی اپنی ماں تھی جو اسے بیٹوں کی طرح باسی روٹی کے ساتھ کھانے کو دہی کا پاؤ بھر دیتی اور چپڑی ہوئی روٹیوں کے چھابے میں سے سب سے نچلی روٹی نکال کر اس کی چنگیر میں رکھتی۔ کئی بار تو لیری کا پچھلا تھن بھرا چھوڑ آتی اور بھابیوں سے آنکھ بچا کر اسے اشارہ کرتی ’’جادھاریں لے لے‘‘ اسی لیے تو اس کے گالوں سے مکھن کے تار چھٹتے۔ آنکھوں سے چکنی چکنی لو پھوٹتی جیسے دیسی گھی کے چراغ جلتے ہوں، کلائیوں پر ملائی سی ملی ہوتی جس میں شہد گھلا ہو اور بالوں کی چمک میں دِیئے جھلملاتے۔ اڑوس پڑوس والیاں ناک کی پھنک پر شہادت کی پور رکھ کرم خوردہ دانتوں پر چادر کا پلو کھینچتیں۔
’’ہائے نی بیٹوں کی طرح پال رہی ہے، جیسے اسی نے ہل پنجالی اٹھانی ہو۔‘‘
آج یہی ماں ابھی ابھی اس پر ایسے جھپٹی تھی جیسے پرانے شمشان گھاٹ پر تاریک راتوں میں گھومتی خوبصورت عورتیں بھولے بھٹکے راہی کو دیکھ کر یکدم چڑیل بن جاتی ہیں۔ صغریٰ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اپنی سیاہ چادر کی بکل میں سمٹ کر کس بل میں اتر جائے۔ کوئی تو گوکھڑا ہو جس میں وہ تیلا کھائے پھٹی جیسے وجود کو بند کر دے اور جسے ریوڑ چر جائے۔
گاؤں کی تاریخ میں ایسی دوچار مٹیاریں ہی ہوئی ہوں گی جو سنی کے بوٹے کی کیسری چھمکوں کی طرح ساری فصلوں میں الگ لہراتی نظر آتیں اور نرمے کی عنابی گڈی جیسے لب جب وا ہوتے تو لوسن برسیم اور سبھی پھولوں کی کٹوریوں میں سے مدھو مکھیاں گھونٹ بھرتیں کڑیالے سانپ قدموں کے نشانات پر لہریئے بناتے اور سپیرے راہوں میں بین بجاتے پھرتے۔
وہ سیانے جو ہوا کی تاثیر سے موسم کا پتہ بتاتے ہیں ستاروں کے طلوع سے پانی کی باریوں کا تعین کرتے ہیں اور فصل کی اٹھان سے باردانے کا تخمینہ لگاتے ہیں وہ کانوں کان خبر دیتے پھر رہے تھے کہ بہت جلد اس ڈھوک کی مٹی انسانی خون سے سیراب ہونے والی ہے۔
صغریٰ کسی وٹ، بنے سے گزرتی تو پیاسی گرد مورنی سی پیلیں ڈالتی۔ نرمے کماد کے اونچے لمبے بوٹے جھن جھن جھانجھریں بجاتے۔ مکئی کے بھٹے پردوں میں سے چھپ چھپ جھانکتے اور بال بکھیرے دھمالیں ڈالتے، جیسے اس کے وجود سے ہنگامے پھوٹ پڑے ہوں۔ صغریٰ اور محتاط ہو گئی۔ یوں چلتی کہ چاپ پیاسی مٹی چوس لے جائے لیکن پیر جتنا پولا پڑتا مٹی کا سانس اتنا ہی گھٹتا، نگاہیں جس قدر جھکاتی آنکھ اتنی ہی چیرویں ہو جاتی۔ آنچل جتنا کستی خطوط اتنے ہی تیکھے ہو جاتے۔ اب صغریٰ بیچاری خود کو کہاں چھپا لے جائے کہ اس کے وجود سے کوئی حادثہ نہ پھوٹ سکے، لیکن سیانو کا خیال تھا کہ وہ کئی حادثات اپنے وجود کے اندر اٹھائے پھرتی ہے۔ بس ذرا ٹکرانے کو کوئی آسمان درکار ہے۔ یہ پیشین گوئیاں کرنے والے بزرگ ایسی کالی زبان والے تھے کہ آج ایک قتل صغریٰ کے نام آخر لگ ہی گیا۔ اب اس چبڑ کے منہ والے اکرمو کو اس کے وجود میں پلنے والے کسی حادثے نے تو نہیں کہلا بھیجا تھا کہ وہ ریڈیو ہاتھ میں پکڑے ’’ذرا رُخ نوں ایدھر موڑ‘‘ گانا بجاتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے دو مربعے کے پند تک کھرے پہ کھرا دھرتا چلا آئے۔ اُس نے بہتیرا اپنی رفتار کبھی بڑھائی کبھی کم کی کہ کم بخت آگے نکل جائے یا پھر پیچھے رہ جائے لیکن وہ جو مہینوں سے اُس کی راہ میں بیٹھا ٹھنڈی آہوں کی بین بجایا کرتا آج اس جوگن کے پیچھے پیچھے لہریا ناگ سا لہرانے لگا، جب صغریٰ غصے سے مڑ کر کھڑی ہوئی تو اس نے ایسا فحش مذاق کیا کہ صغریٰ کی چیخ نکل گئی۔ اس نسوانی چیخ کے منتظر بہت سے کان اردگرد کی پیلیوں میں بہت دنوں سے پورے قد کے ساتھ کھڑے تھے۔ سب یوں لپکے کہ پل بھر میں قتل کے سارے سامان اکٹھے ہو گئے۔
چار مربعوں کے فاصلے پر کھیتوں کو پانی باندھے ہوئے صغریٰ کے بھائی حمید تک کانوں کان اڑتی ہوئی جب خبر پہنچی تو یوں پہنچی کہ جٹوں کے لڑکے نے صغریٰ کی بانہہ پکڑی اور قریبی کماد میں گھسیٹ کر لے گیا۔ حمید قدآدم فصلوں کو جھکڑ سا چیرتا ہوا جھولا سا جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو اکرما بھاگ چکا تھا اور اس کا چھوٹا بھائی اصغر صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش میں ہونق سا صغریٰ کے سامنے کھڑا تھا۔ حمید کا درانتی والا ہاتھ اک ہیجانی نعرے کے ساتھ فضا میں بلند ہوا اور اصغرے کا سر گردان سے اڑ کر قریبی کھال میں یوں جا گرا جیسے نرمے کی ٹہنی سے گوکھڑا ٹوٹ کر گرتا ہے۔ جیسے کماد کی پوری ٹوکے سے ٹکراتی ہے۔ کھال کے پانی میں لہو کی کئی دھاریاں چل نکلیں جو بنا سر والے گردن کے نرگٹ میں سے ابلتی تھیں، جیسے کوئی موگھا ٹوٹ گیا ہو کہ نہر کا بند کھل گیا ہو۔
اس وقت اصغرے کی لاش نمبردار کے ڈیرے پر رکھی تھی۔ سرگردن سے جوڑ دیا گیا تھا لیکن تڑپتی ہوئی نسیں ابھی تازہ خون کے گرم گرم گھونٹ اگل رہی تھیں اور چارپائی کے نیچے نسواری مٹی کیچڑ بن رہی تھی اور جٹوں کی عورتیں میت کے گرداگرد چادریں سروں سے باندھے شہادت کی انگلیاں فضا میں لہراتی ماتم کرتے ہوئے قاتل کو نہیں قتل کی وجہ کو بینوں کے تکلوں میں پرو رہی تھیں۔
’’ہائے نی یہ گوری چڑیل ہمارے ویرے کا لہو پینے کے لیے کیا جنی تھی۔ ہائے نی تیری نشیلی آنکھوں کے پیالوں میں مرچیں گھوٹ دوں، ہائے نی تیرے لمبے قد کو ٹاہلی سے لٹکا کر پھانسی دوں۔‘‘
قاتل و مقتول کی لواحقین عورتیں کم از کم اس نکتے پر متفق تھیں کہ قتل کی اصل جڑ دراصل صغریٰ ہے۔
مقتول کی بہن بین اٹھاتی ’’ہائے نی تو نے گورے رنگ سے پنڈ کی گلیوں میں فساد مچایا اور میرے وِیرے کا قتل کروایا۔۔۔‘‘
قاتل کی بہن جوابی بین دیتی۔
’’ہائے نی! میں نے تیرے گورے بوتھے پر تیزاب کیوں نہ پھینک دیا۔۔۔‘‘
گاؤں کے دیگر آنگنوں سے اُٹھنے والے بینوں کا ہدف بھی موئی صغریٰ کی ٹٹ پینی حسین جوانی تھی۔
مقتول کی رشتہ دار فضا میں دونوں ہاتھ لہراتیں ’’ہائے نی لچیاں پہلے یار بناتی ہیں پھر قتل کرواتی ہیں۔۔۔‘‘
قاتل کی ماں جوابی بین میں اپنا سینہ دو ہتڑوں سے کوٹ ڈالتی۔
’’مجھے پتہ ہوتا ہائے پتہ ہوتا میں پیدا ہوتی کا گلا گھونٹ دیتی ہائے سپنی کو اپنی چھاتیوں سے دودھ کبھی نہ پلاتی۔ ہائے دودھ مکھن کھلا کبھی نہ پالتی۔‘‘ مقتول کی بہن ماتھا پیٹتی۔
’’ہائے پتہ ہوتا،ہائی مجھے پتہ ہوتا، اس کا حسن میرے وِیرے پر موت بن کر گرنا ہے تو میں اس کا منہ لیدپھوسی سے لیپ دیتی۔۔۔‘‘
قاتل کی بیوی اپنی دونوں رانوں پر تاڑ تاڑ چانٹے مارتی۔
’’ہائے نی میں تیرا کلیجہ چبا جاؤں۔ تیرے زہری ہونٹوں میں نمک کھور ڈالوں ہائے نی میں تیرے۔۔۔‘‘
صغریٰ اگلی کوٹھری میں سیاہ چادر میں خود کو یوں لپیٹے ہوئے تھی جیسے اپنے حسن و جوانی کی لعنت کو پنڈ میں باندھ کر دور کسی ویرانے میں پھینکنے کو پوٹلی بنا رکھا ہو۔ بس میں نہیں ورنہ اپنی پور پور کاٹ پھانٹ کر کسی گھڑے میں ڈال راوی میں بہا آتی۔ وہ خود بھی اپنے حسن و جوانی کی اتنی ہی دشمن تھی جتنی کہ باہر گاؤں بھرمیں اسے کوستی ہوئی عورتیں، جو مقتول کے گھر اس کا سیاپا کرنے کے بعد اسے یوں دیکھنے چلی آتیں۔ گویا اب تک اُس کی جون بدل گئی ہوگی۔ کوٹھا بھڑولوں، مکئی جوار کی بوریوں کی امس سے بھرا تھا۔ کوٹھے کی ایک نکڑ میں چکی کے پڑوں میں مرچوں کے بیج دھنسے تھے، جن کی کڑواہٹ ناک گلے کو چڑھ رہی تھی۔
صغریٰ اس کوٹھڑی کے پنجرے میں لہو لہو بہتی تھی، جب بغلی روشندان پر اُنگلی کی دستک ہوئی اور طاقی کھل گئی۔ اندھیری کوٹھری میں سورج کی کرنوں کا جالا سا ابھرا اور ترچھا ہوکر چکی کے پڑوں سے جڑ گیا جس کے پتھریلے دندانوں میں مرچوں کا سفوف جما تھا۔۔۔ وہ میر حسن تھا۔
’’اٹھ صغریٰ نکل چل، ٹیکسی پچھواڑے کھڑی ہے۔‘‘
صغریٰ اٹھی اسے اس موئے حسن و جوانی کی پنڈ کو کہیں تو پھینکنا تھا کیوں نہ میرحسن کے کندھوں پر لاد دے کہ لے جا جس کوڑے دان میں چاہے جا پھینک دے۔ لیکن کوٹھڑی جس قدر تاریک اور راز داں تھی۔ سورج اتنا ہی روشن اور ننگا ننگا تھا۔ روشن دان میں رکھا ہوا پیر کھسک گیا۔ اپنے وجود کے اس فتنے کو ٹھکانے لگانے کا حق بھی اسے حاصل نہیں تھا۔ سزا کے انتخاب میں مجرم کی پسندیدگی کا کوئی اختیار نہیں ہوا کرتا۔
’’اٹھ صغریٰ میں تجھے بتا رہا ہوں تو ماری جائے گی تیرے گھر والے خود تیری موت کا سودا کریں گے۔‘‘
موت کا خوف صغریٰ کی ہڈیوں میں سینک سا بن کر اٹھا، کھسکا ہوا پیر پھر طاقی میں پڑا سورج کے پھکے آنکھوں کو چندھیا گئے۔ سورج زمین نہیں ہے کہ اپنے سینے میں را زکو چھپا رکھے۔
’’ چل ہمت کر دیر نہ کر آج اپنا پرایا سب تیرے ویری ہیں اٹھ صغریٰ اٹھ۔۔۔‘‘ آج ساری دنیا اس کے سراپے کی ویری تھی۔ اب اس نے تو رب سے نہیں کہا تھا کہ اس کا قد پھلاہی کی پھنکوں سے مِلا دے اور گالوں میں زردانے بھردے کہ آج اس ناکر دہ جرم میں وہ اپنے وجود کی پنڈ کو بابل کے ویڑھے سے چوری کے سائے میں خود رخصت کرے پھر طاقی سے نیچے کھسکا۔
’’مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی‘‘
’’ماواں دھیاں انج ملیاں چارے کندھاں نے چوبارے دیاں ہلیاں۔‘‘ ہائے کیا وہ اس سیاہ چادر میں گناہوں کی پوٹ لپیٹ رُخصت ہو جائےگی اور وہ لال جوڑے کا چاہ۔۔۔ بابل کے ویڑھے کے وچھوڑے کے گیت اس کے کلیچے میں سولیں چبھو گئے۔ پیر اتنے وزنی ہو گئے کہ روشن دان کا سوراخ چھوٹا پڑ گیا۔
’’صغریٰ دیر نہ کر ٹائم تھوڑا ہے۔‘‘
میر حسن اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا لیکن سورج کی چندھیا دینے والی روشنی اسے پسپا کر گئی۔ یہ سورج اتنا ننگا اتنا اتھلا کیوں ہے۔ پل بھر میں ہر کسی کی مٹھی میں اتر آتا ہے۔ باہر ہوہوکار مچی پولیس ملزموں کو ہتھکڑیاں لگا کر لے جا رہی تھی۔ مقتول کی رِشتہ دار عورتوں کی نسبت کہیں شدت کے ساتھ خود صغریٰ کے خاندان کی عورتیں دو ہتڑوں سے سینہ اور رانیں کوٹتی اس کی چارپائی کے گرداگرد ماتم کرتی تھیں۔ کھلی طاقی بند ہو گئی تھی اور میر حسن باہر ہی کہیں ننگے سورج میں لپٹ گیا تھا۔ تبھی گاؤں کی خونی فضاؤں میں سے صغریٰ اور میرحسن کے عشق کا قصہ یوں اٹھا، جیسے شام پڑے تنوروں کے سینے سے دھواں اٹھتا ہے جیسے چرواہوں کی واپسی پر کچی سڑکوں پر دھول اٹھ دھمال ڈالتی ہے۔ حالانکہ صغریٰ کا میرحسن سے اتنا سا ہی تعلق تھا کہ اسے دیکھ کر جب پورے گاؤں کے مرد ڈیلے نکال کر پپوٹوں کے اُوپر دھر لیتے تو صغریٰ کا جی چاہتا کہ اِن میں تکلے پرو کر اوپر سوت کی اٹیاں لپیٹ دے ایک میرحسن ہی تھا کہ جس کی آنکھوں میں سے چھٹتا سنہری تار سا صغریٰ کے دل کی چرخی سے جڑ جاتا۔ اس کا جی کرتا کہ وہ پونی پونی لمبے لمبے دھاگے کاتتی چلی جائے۔ پیروں تلے زمین بھربھری ہو جاتی وہ قدم اٹھانا چاہتی تو اسے زور لگانا پڑتا،جیسے اس کی چال اپنے ہی ارادے سے بغاوت کر گئی ہو۔
صغریٰ نے اناج کی امس بھری اندھی کوٹھڑی یوں خود پر لپیٹ لی جیسے وہ میر حسن کے بچے کی ماں بننے والی ہو اور ناجائز پیٹ چھپائے نہ چھپتا ہو۔ وہ طعنوں مہنوں کے تکلوں اور سولوں میں پروئی گاؤں بھر کی سرگرمی کا مرکز تھی۔ جیسے گاؤں کی خشک اُجاڑ زندگی میں اصغرے کے خون نے گرم گرم آبیاری کر دی ہو، جس میں میرحسن اور صغریٰ کے عشق کی فصل لہلہاتی ہو۔ بہکوں نے کتھا کہی، چوپالوں میں مقال آئی چرواہوں نے گیت الاپے عورتوں نے قصے گھڑے۔
اگلی تفتیش کے لیے جب پولیس گاؤں پہنچی تو اے ایس پی خود ہمراہ تھا۔ جس نے آتے ہی مدعا پیش کرنے کا حکم دیا۔ یعنی وہ عورت جو قتل کا باعث بنی تفتیش کا آغاز اسی سے ہونا تھا۔
ان دنوں ماگھ کا پالا ہر شے کو سکیڑ رہا تھا۔ درختوں کے پتے زرد تھے۔ کیکروں کے تنوں کے سیاہ چھال اکھڑ رہے تھے۔ ٹیڑھے میڑھے ون اوکاں کے کھکھلوں میں گوہ لومڑ سردی سے مچڑے پڑے تھے اور گندم کے انگوری پودے کہرے کی برف میں کملا گئے تھے۔ صغریٰ ساری ریزگیوں میں لپٹی جب نمبردار کے ڈیرے پر پہنچی تو عورتوں نے ماتھے پیٹے اور بکلوں میں منہ چھپا بین کھینچے۔
’’ہائے ایسی کالکیں مائیں جنتے ہی گل گھوٹو کیوں نہیں دے دیتیں۔ ہائے بستیوں میں فساد مچانے اور بیٹے قتل کروانے کو کیوں پال لیتی ہیں۔‘‘
مردوں نے پگڑیوں کے لڑ سے آنکھیں ڈھانپ لیں جیسے اس گناہ کی پوٹ پر نظر پڑ گئی تو نگاہیں گنہگار ہو جائیں گی۔ چرواہوں نے گیت الاپے۔
صغراں چڑھی کچہری تے مرداں نے منہ ڈھک لے
صغراں دتیاں گواہیاں تے وکیلاں دے منہ پھر گئے
جب پولیس افسر نے صغریٰ سے ننگے ننگے سوال پوچھنے شروع کیے تو صغریٰ کے باپ اور دیگر رِشتہ دار مردوں کی کھردری ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئیں، جیسے صغریٰ کا پھلاہی سا قد کپڑوں سے باہر نکل آیا ہو اور گالوں کے زردانے پولیس والوں کی ہتھیلیوں پر جھڑ گئے ہوں۔ ہر ایک نے یوں ہتھیلیاں آپس میں رگڑیں جیسے اُس کے زہری حسن کو مسل مسل میل بناکر پھینک رہے ہوں۔
نمبردار صغریٰ کے باپ کو ایک طرف لے گیا اور کان میں کہا ’’جب تک لڑکی یہ بیان نہیں دیتی کہ اصغرے نے اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا، کیس ہمارے حق میں نہ جائےگا۔‘‘
یہ دس ایکڑ کا جٹ زمیندار پہلے تھرایا، زہری ناگ سا پھنکارا جس کے زہروالی تھیلی سپیرے کے ہاتھ میں تھی۔ کنڈل کھا کر نرخرے سے جو آواز نکلی وہ شوکار جیسی لرزہ خیز تھی۔
’’لیکن چودھری جی! ایسا نہیں ہوا اور پھر پولیس ڈاکٹری رپورٹ بھی تو مانگےگی جب کہ لڑکی اللہ کے فضل سے کنج کنواری ہے۔‘‘
’’رپورٹ کی تم فکر نہ کرو MS سے اپنی دوستی پرانی ہے بس تم بیان دلاؤ۔‘‘
ٹالیوں کی خشک پھلیاں کھن کھن شاخوں سے اڑ کر کسانوں کی سفید پگڑیوں میں کھلکھلانے لگیں۔ چرواہوں کی سانگلوں نے سارے درخت مچھ دیئے تھے۔ گندم کے پودوں کی نوکیلی زبانیں تیز ہواؤں میں لہرانے لگیں۔
صغریٰ کے دادا نے صغریٰ کے باپ کے چہرے سے جھڑتے تیلے کو اپنی بوڑھی آنکھوں میں بھگویا اور سفید پگڑی کے لڑ میں کھانسا۔
’’چودھری جی! یہ بےعزتی ہم سے برداشت نہ ہوگی۔ چاہے لڑکا پھاہے لگ جائے۔۔۔ ہاں تم ان سے صلح کی بات کرو۔ دس ایکڑ میں سے دو ایکڑ ہم عزت کی میل سمجھ کر انھیں دے دیں گے۔ بک کر بھی تو مقدمے پر لگ ہی جانے ہیں نا۔۔۔‘‘
پھاگن چیت کے جھولے پورے گاؤں کا چہرہ گرد کی تہوں سے ڈھک گئے تھے۔ مرد پنچائیت میں بیٹھے تھے۔ ہل خاموش تھے اور ٹیوب ویل بند، کماند کے پاندوں سے زہری ناگ لپیٹتے تھے اور سور مکئی کے دودھی بھٹے چباتے تھے۔تندور ٹھنڈے پڑے تھے۔ عورتیں میلوٹی بکلوں میں ایک دوجی کے کانوں سے چپکی تھیں۔ چودھری نے تھانیدار کے حضور انتہائی ادب سے درخواست گزاری۔
’’جناب والا! فریقین صلح کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس لیے لڑکی کو گھر جانے کی اجازت دی جائے۔‘‘
سپاہیوں کی فورس سمیت اے ایس آئی نے صغریٰ پر یکبارگی تفتیشی نگاہیں ڈالیں جو ملی دلی چادر کی بکل میں سے سورج سی پھوٹی پڑتی تھی اور پھولوں بھری بیل کی طرح کسی سہارے سے لپٹنے کو ڈھے چلی جا رہی تھی۔ اے ایس پی کا جی چاہا اسے ابھی نقص امن کی شق کے تحت تھانہ صدر کی حوالات میں بند کرنے کے آرڈر جاری کر دے کیونکہ مقامی حوالات اس کی شاخوں اور پھولوں کے پھیلاؤ کے سامنے کم پڑ جائےگی۔
بھوکے مویشی منہ اٹھا کر ڈکرانے لگے تھے، جنھیں آج چارہ ڈالنے کی بھی کسی کو فرصت نہ ملی تھی۔ بچے ماؤں کی خشک چھاتیاں چوستے جنھیں صبح سے اب تک تنور تپا کر روٹیاں لگانے کی ہوش بھی نہ پھری تھی۔
مرغیاں گند پھرولتی تھیں انھیں کسی نے بھورے نہ ڈالے تھے۔ پورا گاؤں کسی ان دیکھے طوفان کے انتظار میں دم سادھے تھا۔
مقتول کا باپ بان کی چارپائی سے اٹھا تو تماشائیوں کی فصل چار قدم مزید آگے بڑھ آئی۔
’’تھانیدار صاحب! یہ اپنی پوری زمین بھی ہمارے نام کر دیں تو بھی میں اپنے بچے کے سر کی قیمت وصول نہ کروں گا۔۔۔‘‘
اکرما یکبارگی ٹاپیں جھاڑتا ہوا اٹھا اور لگامیں تڑا منہ زور گھوڑا سا بھیڑ میں گھسا۔
’’جاؤ جاؤ اپنے اپنے گھروں کو جاؤ یہاں کیا مداری لگا ہے۔۔۔‘‘
وہ دبکے مار مار لوگوں کو بھگانے اور ان کے پیچھے دوڑنے بھاگنے لگا۔
’’تھانیدار جی! ہم صلح کے لیے تیار ہیں لیکن ہماری شرطیں کچھ اور ہیں۔‘‘
پیچھے ہٹنے والے پھر دیوار بنا کر جم گئے۔
صغریٰ نے اکرمے کے عزائم کو چادر کی اوٹ میں سے بھانپا۔
’’یہ آج میرا ہمدرد کیسے بن گیا۔۔۔‘‘
کتے روڑیوں پر گند سونگھتے تھے۔ گدھ رات کے مرے ہوئے ڈھور پر نیچی اڑانین بھرتے تھے جن کے وحشی پروں سے سورج بھرا آسمان سیاہ پڑ گیا تھا۔
چودھری نے صغریٰ کو گھر لے جانے کا اشارہ دیا۔ اس کے خاندان کی عورتیں صغریٰ کی پنڈ کو میلی چادر میں پوٹلی سی لپیٹ واپس سمیٹ لائیں اور کسی اطلاع کے انتظار میں بیٹھ دھک دھک بجنے لگیں۔ صغریٰ اناج کی اُمس بھری کوٹھڑی میں پھر اکیلی تھی۔ باہر صحن میں عورتوں کی ٹولیاں بکلوں میں سرگوشیاں لپیٹے اِک دُوجی میں گھس رہی تھیں۔ صغریٰ کی بھابھی کوٹھڑی میں آئی تو اسے حیرت ہوئی کہ نہ اس نے صغریٰ کو بینوں میں بلویا نہ ہی اُس کے گرد ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر دو ہتڑوں سے سینہ کوٹا۔ گڑ کی بھیلیاں پلو میں بھر تیزی سے باہر نکل گئی۔ اس کی رفتار میں کامیابی کا جوش بھرا تھا۔ اب اُس کی چھوٹی بہن چودہ پندرہ برس کی زرینہ کوٹھڑی میں آئی اور ڈھیر سے چائے کے کپ پرچھتی سے اُتار کر لے گئی۔ یعنی گھر آنے والی عورتوں کو چائے پلائی جا رہی تھی لیکن صغریٰ کو اس ضیافت میں شامل کرنا مناسب نہ سمجھا گیا تھا اور نہ ہی وہ زرینہ سے کچھ پوچھ سکی تھی کیونکہ اصغرے کے قتل کے بعد سے آج تک اس کے گھر کی عورتوں نے اس سے بات چیت بند کر رکھی تھی۔ وہیں کوٹھڑی میں صبح و شام اس کے سامنے روٹی کا چھابا پھینک جاتیں، جیسے اس کی زنجیر کھل گئی تو وہ انھیں کاٹ کھائے گی۔ باہر عورتوں کی سرگوشیوں میں لڑکیوں کی ہنسی کی کھنک تھی، جیسے کوری جھجھریاں بھرتی ہوں کہ رنگ بدلتے سٹوں کے آبو بھنتے ہوں۔ صغریٰ محسوس کر رہی تھی کہ گھر کی فضا میں اِک خوشگوار تبدیلی آ رہی ہے۔ اُس کا جی چاہا اس تبدیلی میں اُسے بھی قبول کر لیا جائے وہ بھی دنوں کی تنہائی، دھتکار، نفرت اور لعنت ملامت اور جرم کے احساس کو سب میں گھل مل کر اتار پھینکے منوں منہ بوجھ تلے سے نکل کر ہلکی سی ہو جائے وہ بھی کورے گھڑے کا پانی پیئے اور اَدھ بھنے آبو کھائے۔ تبھی کوٹھڑی کی پچھلی طاقی پر بجنے والی انگلی کی دستک میں اک عجب ہیجانیت تھی۔
’’اٹھ صغریٰ اٹھ۔ آج دیر نہ کرنا ورنہ یک لنگھ جائیں گے۔‘‘
میر حسن ایک بد رنگ سی چادر اٹھائے صغریٰ کی پوٹ کو سمیٹنے آیا تھا۔ صغریٰ کے وجود کا کھلیان جھکڑوں کی زد میں بکھرنے لگا۔ وہ حوصلے کی گرہ لگا اسے باندھتی تو روشندان سے ساڑ ساڑ کرتا لوکیت کا چابک سا برستا۔’’ لوگ کیا کہیں گے۔‘‘
’’تھی ہی بدکار اسی لیے تو قتل کروایا اور خود منہ کالا کر گئی۔‘‘
میر حسن اسے اکساتا رہا۔ کوٹھڑی سے باہر نکلنے کے واحد راستے روشن دان پر اس نے بارہا پیر رکھا ہر بار سورج کا لال بھبھوکا چہرہ واپس پلٹا دیتا۔ میر حسن کا ہاتھ اسے باہر کھینچنے کو روشن دان سے لٹکا رہ گیا۔ اُس سے پھر دیر ہو گئی۔ عورتیں لال گوٹے والا دوپٹہ اُٹھائے بین کی لے میں سہاگ کے گیت گاتی ہوئیں کوٹھڑی میں بھر آئیں۔
ہو سانولی تیرے مضر پراندا
بھلا ہو سانولی رب رانجھے نوں آندا
ہو سانولی تیرے بوہے تے جنڈ اے
بھلا ہو سانولی رانجھا مست ملنگ اے
لال عروسی دوپٹے میں لپٹی صغریٰ کی پوٹ جب پنچائت کے رو برو پیش ہوئی تو نکاح خواں کئی آیتیں پڑھ چکا تھا اور گاؤں بھر کے مرد دُعائے خیر کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ دھول بھری گلیوں کو رولیٹ کتوں نے پنجوں سے کرید دیا تھا، جو کت پر آئی کتیا کے پیچھے لگے تھے۔ کتیا کھالے، بنے، دیواریں، کوٹھے، ٹاپتی اپنے وجود میں اُگ آئی نمو کی آگ سے خود کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ مولوی نے آیات قرآنی مکمل کرنے کے بعد چودھری سے سوال کیا۔
’’چودھری جی! صغریٰ دختر اللہ داد جٹ کس کے عقد میں دی جائے گی۔‘‘ اس سوال کا جواب صرف پنجائیت کے مدعیان کے پاس تھا۔ تاوان میں بھری گئی عورت کے لواحقین کا اب اس کے مستقبل سے کوئی سروکار نہ تھا۔
پتھر ڈھیلے مارنے والے بچوں سے بچنے کے لیے کتیا تنور کے گھورے میں کود گئی تھی۔ بدن راکھ میں دھنسائے اپنے ہی وجود میں سے نکلتی آتش میں بھسم ہوتی تھی اور زہریلے مواد کو ہانپتی ہوئی اپنی ہی زبان سے چاٹتی تھی۔
مقتول کے باپ نے بڑھ کر نکاح خواں کی داڑھی چھوئی۔ ایک بالشت اور ایک مٹھی لمبی داڑھی میں سفید اور سیاہ بالوں کے لہریے بنے تھے۔ سیاہ اور سفید دھاریوں والا صافہ پٹوں کو سمیٹے تھا۔ مکہ مدینے والے سرمے کی دھاریوں نے لال ڈوروں والی آنکھوں کا جلالی رنگ تیز کر دیا تھا اور صفا چٹ مونچھوں والے لبوں سے آیاتِ قرآنی کا ورد جاری تھا۔
’’مولبی جی! آپ کو تو پتہ ہے میں پچھلے آٹھ مہینے سے رنڈوا مجرد ہوں اور دوسرے نکاح کی خواہش رکھتا ہوں اور نکاح سنتِ نبویﷺ ہے۔‘‘
تنور کے گھورے میں پناہ لینے والی کتیا کے پیچھے کئی کتوں نے چھلانگیں لگا دی تھیں اور اب باہر نہ نکل پا رہے تھے بچوں نے ڈھیلوں پتھروں سے تنور بھر دیا تھا۔ تنور کی مالکن نے گالیاں بکتے جھکتے ہوئے کڈنیاں مار مار انھیں باہر نکالا تنور پلید ہو گیا تھا۔ لوسن کی مٹھ بھر تنور کی اندرونی سطح پر مارنے لگی اور کلمے پڑھ پڑھ پھونکنے لگی۔
ابھی ابھی اکرما گھر سے تلے والا کھسہ اور کلف لگا کرتا پہن کر پنچائیت میں پہنچا تھا اور پھنکارتا ہوا غیر متعلقہ افراد پر شو کرانے لگا، وہ دس پندرہ قدم چاروں اطراف تماشائیوں کے پیچھے بھاگا اور اُنھیں دُور دھکیل آیا۔ کت والی کتیا کے پیچھے لگے کتوں کے جھرمٹ بھاگتے ہانپتے پنچائیت میں گھسے چارپائیوں کے نیچے کمریں گھسیڑ گھسیڑ پنجوں سے مٹی اڑانے لگے۔
’’در در دفع۔‘‘
لوگوں نے ڈھیلے روڑے اٹھا اٹھا کر پٹخے بچوں نے قہقہے لگائے۔ سب سے برق رفتار کتے نے اپنے ہی بدن کی مجبوری سے بے بس کتیا کو جکڑ لیا وہ اسے گھسیٹ رہا تھا اور گاؤں بھر کے بچے انھیں پتھر ،لاتیں ،مکے مارتے تھے اور محظوظ ہوتے تھے لیکن تمامتر دھتکار اور مار کوٹ کے باوجود ایک دوجے سے الگ ہونا اب اُن دونوں کے بس میں نہ رہا تھا۔
اکرما ہنکارنے اور تھوکنے لگا، آواز نرگٹ سے ٹکراتی مونچھوں سے الجھی۔
’’مولبی جی! آپ خود سمجھدار ہو جوڑ میرا ہے۔ نکاح میرا ہو گا۔ ایک پچاس سال کے بوڑھے کا اِک اٹھارہ سال کی صحت مند لڑکی سے نکاح دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔۔۔ شرع اس کی اجازت نہیں دیتی آپ خود دینِ اسلام کی باتیں جانتے ہو، مولبی جی۔۔۔‘‘
نکاح خواں نے ٹخنوں تک چڑھے پائنچے مزید اوپر کھینچے جو کتوں کی اڑائی دھول سے ناپاک ہو رہے تھے۔
اکرمے نے اپنی ہمدردانہ منطق کی پنچائیت کے اراکین سے داد چاہی، جو معاملے کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گئے تھے اور کسی بھی صورت اپنی کئی روز کی محنت کو ضائع نہ کرنا چاہتے تھے۔ مسئلہ تو جھگڑے کا پرامن تصفیہ تھا۔تاوان میں بھری گئی بانہہ کے حقوق کا مسئلہ نہ تھا۔
چودھری نے باپ بیٹے دونوں کو ایک طرف لے جا کر سمجھایا بجھایا لیکن باپ بیٹے کے درمیان تیکھی نگاہوں چڑھی تیوریوں، گھرکیوں اور گرم جملوں میں ملکیت کا جھگڑا برپا ہو گیا۔
جھکڑ دھول کے ترنگل بھر بھر سفید صافوں اور اکڑی ہوئی مونچھوں پر بچھانے لگے، کتے روڑیوں پر لوٹتے رہے اور بھوکے مویشی اپنے ہی فضلے کو سونگھنے اور چاٹنے لگے اور کاگے کھیہ پھرولتے رہے۔
چودھری کی چارپائی کی بغل میں کچی زمین پر بیٹھی صغریٰ کو دھرتی کے اندر موجزن سارے پانیوں ساری یخ بستگیوں، تاریکیوں نے کسی گہرے کھوہ میں منجمد کر دیا تھا۔ جوڑ جوڑ کو کافور چڑھ رہا تھا۔ برف کی سیلیں پگھل رہی تھیں جو اَب پور پور لہو میں جم گئی تھیں۔
چودھری نے پنچایت کی ناکامی کے تصور سے گلا کھنگار کر گھرکا۔
’’جس طرح مردے کو مٹی کے حوالے کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح جھگڑے والی عورت کے نکاح میں بھی دیر نہیں ہونی چاہیے۔۔۔‘‘
تبھی اکرمے کے باپ نے پگڑی اتار کر جھاڑی کئی زرد، ہرے پتے اڑے اور مویشیوں کی کھرلیوں میں ٹپک گئے۔ رات کے مردہ ڈھور سے گدھ حرام چونچیں بھر دیوانہ وار گاؤں کی فضاؤں میں منڈلانے لگے۔ سورج دھندلا گیا۔
’’سرکار اصغرے کا خون اتنا سستا نہیں ہے کہ ہم اسے اتنا سولا معاف کر دیں ہمیں ایک نہیں دو بانہیں چاہئیں۔‘‘ جھکڑوں کے چابک ساڑ ساڑ گلیوں میں برسے اور روڑگیٹے۔ مویشیوں کے بالوں میں الجھ گئے، جن کی خشک جلد کو کوے ٹھونگتے تھے۔تماشائیوں کا دائرہ ایک دو قدم اور آگے کھسک آیا نوعمر لڑکے بھیڑ کا دھکا کھا کر منہ کے بل گرے اکرمے نے اٹھ کر ان پر ٹھڈوں کی بارش کر دی۔
صغریٰ کے خاندان کے مردوں میں اس ناانصافی پر شور مچا اور پنچائیت چھوڑ کر اٹھنے لگے۔ ثالث اس نئے تقاضے پر ہڑبڑا گئے۔ تماش بین مزید قتل و غارت کے تصور سے پر جوش ہو ڈھوکوں بہنیوں پر خبر سنانے کو چلے۔ صغریٰ کی نسوں رگوں میں برف کا کانچ تیز دھار ہو گیا۔ سر پر دھری گنہگار وجود کی پنڈ اِتنی وزنی ہو گئی کہ زمین دھنستی چلی گئی۔
صغریٰ کی ماں نے بین الاپا۔
’’مائیں بیٹیاں بیٹوں پر وارنے کے لیے جنتی ہیں، جہاں ایک گئی وہاں دوسری بھی واری۔۔۔ ہائے میرا حمید۔۔۔ ہائے حمید چھٹ کر نہ آئے تو میں مرتی ہوں۔۔۔‘‘
صغریٰ کی بھابھی نے بین کا سرا جوڑا۔
’’شام پڑنے سے پہلے حمید چھٹ کر گھر نہ پہنچے تو میں تیل چھڑک جل مروں۔۔۔ ہائے اس موئی کے کرنوں کی میں کیوں بھگتوں۔۔۔‘‘
مجمع چھٹتے چھٹتے پھر اکٹھا ہو گیا۔ مردوں کے بیچ جھگڑا ابھی جاری تھا کہ صغریٰ کی ماں اپنی چھوٹی بیٹی زرینہ کو لال دوپٹہ اڑھا پنچائیت میں لے آئی۔ پنچائیت پھر سج گئی، فیصلے کی سانگل مردوں کے ہاتھ سے نکل کر عورتوں کی بکل میں چلی گئی تھی۔
گاؤں کے بزرگ اپنی کامیابی پرخوش تھے کہ گاؤں کی پیاسی مٹی خون کی سیرابی سے بچ گئی اور صغریٰ کا فتنہ بھی ٹھکانے لگا۔زرینہ کے ساتھ تھوڑی زیادتی ضرور ہوئی لیکن خون کا جھگڑا مٹانے کو اگر اس کی کم عمری کام آ گئی تو کیا برا۔
گاؤں بھر کی عورتوں نے سکون کا ہوکارا بھرا اب ان کے مرد محفوظ ہوں گے اور اپنی توانائیاں گلیوں کی نکڑوں میں انتظار کی آنکھیں بن کر ضائع کرنے کی بجائے کھیتوں میں پسینہ بناکر بہائیں گے۔
بچوں نے پتھر ڈھیلے مار مار کر کتیا کو کتے کی گرفت سے چھڑا دیا تھا۔ اب وہ اپنے زخمی وجود کو بھٹی کے گھورے میں سینک رہی تھی اور ناکام کتے ایک دوسرے پر بھونک بھونک تھک گئے تھے اڑوڑی میں تھوتھنیاں دھنسائے اُونگھ رہے تھے۔ گیہوں کا ناڑ خشک ہو گیا تھا اور اس میں درانتی پڑنے والی تھی۔
وہی رات صغریٰ پر ایسے پڑی جیسے اصغرے کی گردن کٹنے کے بعد تادیر اس کے بدن کی پور پور تڑپتی پھڑکتی رہی تھی۔ ہر عضو باری باری مرا تھا۔ پہلے پیر زرد ہوئے پھر ٹانگیں بے جان ہوئیں، پھر دھڑ کی جان نکلی۔ آخر کٹے ہوئے نرگٹ سے لہو کے فوارے کے ساتھ آخری تڑپ پھڑک گھگھک کی آواز کے ساتھ بےحس ہو گئی تھی وہ بھی رات بھر اَدھ کٹی گردن کے ساتھ اکرمے کے تیر بھالوں کی زد میں رہی۔ وہ اپنے بھائی کے خون کا بدلہ اپنی بے عزتی اور نفرت کا انتقام اُس کے بدن کی نوچ کھسوٹ سے چکا رہا تھا۔ ہر ہر عضو پر پل پل حملہ آور ہوتا تھا۔
’’یہ آنکھیں یہی شربت کے پیالے آنکھیں مجھے پیاسا رکھتے اور میرحسن پر چھلک چھلک پڑتے، آج یہ میرے اختیار میں ہیں۔ چاہے ان میں ہونٹوں کے تکلے پرو دوں کہ ہاتھ ڈال ڈیلے باہر کھینچ نکالوں۔‘‘
’’یہ ہونٹ جو مجھ پر تھوکتے اور میر حسن پر کلیاں بن بن کر کھلتے آج چاہوں تو انھیں گھسوٹ کر مسل پھینکوں یہ ناگن گت جو مجھے زہر بن بن ڈستی اور میر حسن کی بین پرمست ہو لہراتی۔ چاہوں تو کھتی سے پکڑ کر چک پھیریاں دوں اور زہر کی تھیلیاں کاٹ پھینکوں۔‘‘
اصغرے کی بہنیں بھابیاں انتقام کی اس آسودگی کی منتظر تھیں۔ جب صغریٰ کے حسن کے سنہری ناگ کی کینچلی ادھڑ جائےگی، جب آنکھوں کے روغنی پیالے نیر بہا بہا کر بےنور گڑھے ہو جائیں گے، جب بدن کے شاداب نشیب و فراز تپ دق کی سولی پر چڑھ کر مسمار ہو جائیں گے تو پھر اصغرے کا خون بہا وصول ہو جائےگا۔
گیہوں کے کھیتوں میں بھریاں جم رہی تھیں۔ چھو لیا رنگ بدل رہا تھا۔ عورتیں تنوروں کو نئے مٹھ لگاتی تھیں اور کورے تنوروں میں لوسن کی ساول مَل مَل کر ان کی سطح ہموار اور پکی بنا رہی تھیں۔ راجباہ کے پانیوں کے سینے سے گرم آہوں جیسی بھاپ اٹھنے لگی تھی اور واڈی بیٹھے کسان درانتوں کی دھاریں تیز کروا رہے تھے۔ انھی بدلتے موسموں کی حدت میں صغریٰ شب بھر اکرمے کی کتلیوں سے زخمی ہوتی تو دن بھر زرینہ کی نوچ کھسوٹ میں رہتی یہ پندرہ برس کی لڑکی لپک جھپک اس کی ساس کی عمر کو پہنچ گئی تھی۔ وہ بوڑھے شوہر کی تو خدمت گزار بیوی بن گئی لیکن اس زیادتی کا بدلہ صغریٰ سے چکانے لگی۔اُسے چولہے چوکے دودھ سالن کو ہاتھ نہ لگانے دیتی گڑ کی بھیلی بھی نکالتی تو دونوں بازو لہراتی زبان کالٹھ ساڑ ساڑ برساتی۔
’’اری پلید گندی، ہر ویلے ایک ہی کام اور نہانا کہیں مہینے بعد، کم ذات، خبردار جو کسی کھانے کی شے کو پلید کیا۔۔۔‘‘
اس کے حلق میں سے نکلتی دھاڑ میں جیسے اس کی کم سنی کے ارمانوں کا چھید چھید لہو ٹپکتا ہو، جیسے زرینہ کے نہانے کی باریاں بھی صغریٰ نے اچک لی ہوں۔
ڈھارے میں لیٹا سسرا نوعمر بیوی سے نئی توانائی کشید کرتا اور وجود کی بوسیدگی میں کھانستا۔
’’زرینہ میری جان! کیوں سرکھپاتی ہے اس گدھی سے۔۔۔ ٹوکری دے کر بھیج اسے باڑے میں گوہا پھوسی ہونجے اسی قابل ہے۔ روٹی آٹے کو ہاتھ نہ لگانے دینا، پلید کو۔‘‘
جیسے اس کے بھربھرے بدن میں صغریٰ نے ہی خمیر ملا دیا ہو اور اب وہ نوعمر بیوی کے امتحان میں ناکامی کی ذمہ داری صغریٰ کی نفرت میں کھوج رہا ہو۔
پرلے اوٹے سے بڑی نند ہراہرا پھنکارتی۔
’’اوٹے میں پیر نہ رکھنے دیا کر ناپاک کو گھر سے رِزق کی برکت اٹھ جائےگی۔‘‘زرینہ اپنے ہنسنے کھیلنے کے دن ایک چھلانگ میں ٹاپتی، اٹھارہ ایکڑ کی زمیندارنی بن گئی تھی اور گاؤں کی عورتیں اسے چھوٹی چودھرانی کہنے لگی تھیں۔
اناج پھٹی دودھ گھی کی مالک شوہر کی لاڈلی۔اپنی سوتیلی بیٹیوں کی چھوٹی بہن اکرمے کا چھوٹا بھائی زرینہ سے سال دو سال بڑا ہونے کے باوجود اسے ماں جی کہنے لگا تھا اور صغریٰ کو صغریٰ کہہ کر بلاتا تھا۔ خود اُس کے وجود میں سوئی عمر کو پختگی اور سنجیدگی نے ایڑ لگا دی تھی۔ وہ چادر کی بکل مارے ریڑکے کی دستیاں ہلاتی وڈوڈیری پچاس سالہ شوہر سے بس ایک قدم ہی پیچھے رہ گئی تھی۔ اپنے ماں بننے کی خبر گاؤں بھر میں یوں نشر کی جیسے پچاس سالہ لا ولد شوہر کو منتوں مرادوں کے بعد صاحبِ اولاد ہونے کی خوشخبری دی ہو۔ یہ اٹھارہ ایکڑ کا پچاس سالہ زمیندار اپنی پندرہ سولہ برس کی دلہن کے سامنے یوں دھنسا پھنسا رہتا، جیسے بیٹے کے خون کے عوض اسے نہ خریدا ہو بلکہ خود فروخت ہو گیا ہو۔ وہ جتنی بھرپور ہوتی چلی جا رہی تھی۔ وہ اتنا ہی کمزور اور بوڑھا جیسے وہ اسی کے خون سے پھل پھول رہی ہو۔ شہر کے بڑے ہسپتال میں اٹھارہ ایکڑ کا وارث پیدا کیا تو چالیس ہزار کا خرچہ ہوا اور دس ہزار کی پورے شریکے برادری کی دعوت کی گئی۔ لڑکے کی شباہت بالکل باپ پر گئی تھی۔ زرینہ اُسے صغریٰ سے چھپا چھپا کر رکھتی جیسے اس کی نظر پڑ گئی تو اٹھارہ ایکڑ کی زمینداری لا وارث رہ جائے گی۔ بچے کو گود میں چھپائے حکموں، گھرکیوں اور طعنوں کے لٹھ سے اسے رگیدتی رہتی۔
’’کم ذات پتیلے کے تلے پر کالک چھوڑ دی تیرے اپنے منہ پر جو ملی ہے یہ کالک۔۔۔ سارا گھٹا اڑا کر چو دھری عبداللہ پر ڈال دیا۔ غریب سوتے میں بلک بلک کر رویا۔ اری تجھے کیا پورے خاندان کی عزت پر جو گھٹا ڈال آئی ہے۔۔۔‘
صغریٰ طنبورہ سا بڑھتا ہوا پیٹ چھپائے زرینہ کے احکامات کی بجا آوری میں ہانپتی، جیسے یہ پیٹ بھی اکرمے کا نہ ہو میرحسن کا بھلیکھا پڑ گیا ہو۔ جس نے اس کا سارا وجود ناجائز کر دیا ہو جسے اس گاؤں کی مٹی قبولنے کو تیار ہی نہ تھی۔ وہ میرحسن کے طعنوں میں پور پور پروئی گئی تھی۔ وہ اس کے ساتھ بھاگ جاتی تو شاید یوں اس میں رچ بس نہ پاتی۔ جتنا گاؤں والوں نے میرحسن کے نام کو اس کی نس نس میں طعنہ و طنز کے نشتر لگا لگا گھول دیا تھا۔ بعض اوقات تو اسے اکرما بھی میرحسن لگنے لگتا وہ آنکھیں کھول کر دیکھتی تو ہڑبڑا کر اکرمے کو پرے دھکیل دیتی تو وہ زیادہ شدت سے اس پر حملہ آور ہوتا۔
’’کیوں یار کا بھُلیکھا پڑا تھا جو تجھے روشندان سے نکالنے آیا تھا۔‘‘ وہ ایک ایک اعضا پر یوں ٹوٹ ٹوٹ کر پڑتا جیسے اس کے وجود کے نشیب و فراز میں میرحسن گھسا بیٹھا ہو اور وہ اس کے قدموں کے نشانات کو چن چن کے کوٹ پھانٹ رہا ہو، لیکن جن دھاڑتا رہتا’’ نہیں جاؤں گا نہیں جاؤں گا۔‘‘جن والی عورت عامل کی مار کھا کھا کر ادھ موئی ہو جاتی۔لیکن جن نہ نکل پاتا۔
صغریٰ کے سروٹے جیسے بال جنڈ کی جٹائیں بن بکھر گئے۔ نرمے کی گڈی جیسے لب خشک کھوکھریوں سے بد رنگ ہو گئے، جن کے سینے میں پھٹی کرنڈ ہو جاتی ہے۔
گاؤں کی عورتوں کو عجب آسودگی کا جھولا سا ملتا۔
’’ہائے نی میرا عبدالرحمن جیون جوگا، راتوں کو اٹھ اٹھ دُہائی دیتا۔اس کے سروٹے جیسے بال مجھے پھاہی دیتے ہیں، آٹھوں پہر اسی کا چہرہ نظروں میں رہتا ہے۔ لگتا ہے دانتوں کی لڑیاں زہر کے قطرے بن بن مجھ پر ٹپکتے ہیں۔‘‘
’’ہائے سوداں بی بی! میرے اسلم کو تو مالیخولیا ہو گیا۔ سوتے میں بھی صغراں صغراں پکارتا نرا سودائی۔۔۔‘‘
’’ہائے نی میرا بندہ۔۔۔ نکھتری نے ایسا جادو ڈالا شام پڑے منہ سر لپیٹ سوتا بن جاتا نہ مجھے دیکھے نہ بلائے ہائے نی نرا جوگی۔۔۔‘‘ اللہ نے سنی ہائے اللہ پاک نے انصاف کیا گھل گھل کے مر رہی ہے۔‘‘
’’اڑیو کہاں گئے وہ سونا رنگے گال اور ہیرے کی کنی سے نین۔۔۔‘‘
’’ہائے نی اپنے لشکاروں سے ساڑ ساڑ ہمیں سواہ کرتی آج آپ سواہ ہو گلیوں میں اڑتی ہے۔۔۔ ہائے چندری۔۔۔ ہائے چندری۔۔۔‘‘
عورتوں نے گھٹنوں پر تاڑ تاڑ ہتھیلیاں ماریں۔
صغریٰ نے بیٹی کو یوں جنم دیا جیسے دِن پورے ہونے کا بس انتظار ہی کر رہی تھی۔ دائی ابھی چوکھٹ پر پہنچی تھی کہ رونے کی آواز اس نے باہر ہی سن لی۔ ناڑا کاٹنے کو درانتی لینے ڈھارے کو پلٹی کہ صغریٰ پر جن آ گیا۔ وہ بچی پریوں حملہ آور ہوئی جیسے اکرما اس پر پل پل کے پڑتا تھا۔
بچی کی ناف کھینچتے ہوئے چڑیل سی چیختی تھی۔
’’نہ تجھے اس گندی دُنیا میں آنے کی اتنی جلدی کیا تھی۔ پیٹ میں نہ مری تو پیدا ہوتے تو مر جاتی۔ اس نکھتی دنیا کا تجھے کیا دیکھنا جو میں نے نہ دیکھا۔۔۔‘‘
دائی نے صغریٰ کے جن کو چارپائی سے نیچے دھکیلا۔ اَدھ موئی بچی کو پرانے کپڑے کی دھجی میں لپیٹا۔ بچی صغریٰ کا کوئی نقش بھی چھوڑ کر نہ آئی تھی۔ پورے گاؤں میں ہوک سی پڑی۔ عورتوں نے اک دوجی کے چپے دِیئے۔
’’اڑیو دیہاڑے گنو اک اور قتل کے، بچا کے رکھونی اپنے لال سپنی ڈنک مارنے کو پیدا ہوئی۔۔۔‘‘
زرینہ چادر میں ڈھک ڈھک بیٹے کو دودھ پلاتی۔
’’ہائے نی کہیں چڑیل کی نظر ہی نہ لگ جائے۔ بدبخت کے دُودھ بھی نہ اترا۔ اڑیو میرے تو پوری مہنیں جتنا حوانا ہے۔۔۔‘‘
وہ دودھ کی دھاریں گیہوں رنگے، پیٹ پر نچوڑتی، عورتیں بکلوں میں کریڑی زرہ دانت چھپا کھڑکھڑ ہنستیں۔
’’اڑیو دودھ کہاں زہر ہو گا قاتلی کے تھنوں میں پرسنپولی کہاں مرے۔‘‘
اکرمے نے لڑکی کو ایک نظر دیکھا اور کہیں کو نکل گیا۔ نری صغریٰ جیسے اکرمے کا تو کوئی حصہ ہی نہ ڈلا ہو جیسے ماں کی طرح بیٹی نے بھی اسے دھتکار دیا ہو۔ وہ دنوں میر حسن کی شبیہ گلیوں، بہکوں میں ڈھونڈتا پھرا اور اس روز لوٹ کے آیا جس روز لڑکی کی موت کی خبر ملی۔
بچی صغریٰ کی نفرتوں اور اکرمے کے شبے کے بوجھ کو نہ جھیل سکی چوتھے پانچویں روز نرمے کی گڈی سی مرجھا گئی۔ ماؤں نے نومولود بیٹوں کو سینے سے چمٹا سکھ کا سانس لیا۔
’’ہائے نی اللہ نے انصاف کیا نر بچے سپنی سے بچائے۔‘‘
صغریٰ بچی کی میت سے لپٹ کر یوں ٹوٹ کر روئی کہ سارے گاؤں کی عورتوں کے جگر پھٹ گئے۔ برس بھر کے جمع سارے آنسو، سارے بین ،دکھ کرودھ، دھتکار، نفرتیں جیسے حلق پھاڑ یکبارگی باہر ابل پڑے ہوں۔ عورتوں نے بین اٹھایا۔
’’ہائے نی آپ لیکھوں سڑی کو ڈولی چڑھنا نصیب نہ ہوا بیٹی کی ڈولی سجا رہی ہے۔ آپ دُلہن بننا منظور نہ ہوا بیٹی کو گوٹے تلے میں سجا دلہن بنا رہی ہے۔ ہائے نی اپنی ریجھاں اتار رہی ہے۔‘‘
بچی کا میّت بینوں، دھاڑوں، آہوں،کراہوں میں سجا یوں اٹھوایا کہ اصغرے کا جنازہ بھی ایسے شاندار ماتم کے جلو میں نہ اٹھا تھا۔ اصغرے کی تو ماں نہ تھی کہ جوان بیٹے کے ماتم کی دھول گلیوں میں پھرولتی پھرتی لیکن صغریٰ بیٹی کے غم میں گھلتے گھلتے تانت سی رہ گئی جیسے سنی کی خشک چھمک سے ریشہ ادھیڑ لیا گیا ہو، جو زرد پھولوں کے گچھوں سے کبھی لدی کھنکتی تھی۔ لیکن اب جلانے کے قابل بھی نہ رہی تھی۔ تنور میں جھونکو تو دھواں چھوڑ دے، چولہے میں ڈالو تو بھڑک مچا دے۔
یہ صغریٰ کی نحوست تھی کہ زرینہ کی بددعا اس کے بعد گاؤں میں پیدا ہونے والی ہر لڑکی، دوسرے چوتھے روز مر جاتی لیکن لڑکے جیتے رہتے، ملانے چلے کاٹے۔ پیروں نے تعویذ لکھے، عاملوں نے حساب لگایا۔ بزرگوں نے دعائیں مانگیں۔ لیکن کوئی شیطانی نقش تھا جو بڑا سخت تھا۔ ہر بچی کی میّت پر صغریٰ بینوں کے سوز پر یوں پورے گاؤں کو رلا رلا آنسوؤں میں بہا دیتی کہ ایسا تو جوان بیٹوں کی موت پر مائیں بھی کبھی نہ رو پائی تھیں۔ دنوں ان ننھی منی قبروں کو جنگلی پھولوں اور سبز کونپلوں سے سجاتی اور پانی کا چھڑکاؤ کرتی رہتی جیسے ان ذرا ذرا قبروں کی مجاور ہو۔
یہ تو لوگوں کو بہت بعد میں احساس ہوا کہ صغریٰ ہر اس گھر میں جاتی ہے، جہاں کوئی لڑکی جنم لیتی ہے لیکن لڑکوں والے گھر چھوڑ جاتی ہے اور جہاں جاتی ہے منحوس کے واپس آتے ہی لڑکی کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ پچھل پیری کا سایہ ہے کہ کوئی زہر کی چٹکی چکھا آتی ہے۔
لوگ زچہ بچہ کو اس کے سائے سے بچانے لگے۔ پیٹھ پیچھے چاہے وہ چڑیل جادوگرنی، ڈائن سہی لیکن جس گلی سے گزر جاتی عورتیں راہ چھوڑ دیتیں اور کلمہ شریف کا ورد کرتیں اور یوں ڈرتیں جیسے یہ صغریٰ نہ ہو اِس گاؤں پر کوئی بھاری وقت آیا ہو پتہ نہیں کب پتھروں کی بارش شروع ہو جائے اور ان کے بچے مرنے لگیں۔
میر حسن کے ہاں بیٹی ہوئی تو اس کی بیوی نے خاص خیال رکھا کہ کہیں عورتوں میں مل کر صغریٰ بچی دیکھنے کے بہانے چلی نہ آئے۔ رات بار بار ٹٹول کر کنڈی دیکھتی کہیں کھلی تو نہیں رہ گئی۔ سینے سے چمٹا بچی کی سانسیں محسوس کرتی۔ دن بھر آنکھ نہ جھپکتی کہیں ہونی نہ آ جائے۔
لیکن ایک اندھیری رات جب سوکھا سڑا ہاتھ روشندان کی جھیت میں سے اندر لہرایا تو میر حسن کی بیوی بےخبر سو رہی تھی۔ اسے تو احساس ہی نہ ہوا کہ کب سوئی ہوئی بچی کے نرگٹ میں بھاری انگوٹھا دھنسا اور میرحسن نے تاریکی کی اوٹ میں سے اتنی طاقت سے کلائی پکڑی کہ ہاتھ کی حرکت ڈھیلی پڑ گئی۔ صغریٰ کا جن میر حسن سے بھڑ گیا۔
’’اسے مر جانے دے کیا لینا اس نے جی کر اس گندی دنیا سے جو میں نے نہ لیا۔۔۔ مر جانے دے اسے۔۔۔‘‘
میرحسن نے دونوں ہاتھوں کی گرفت سے صغریٰ کے جن کو بوتل میں بند کر دیا وہ بھڑتے بھڑتے ڈھیلی پڑ گئی۔
’’میں جانتا تھا تو ضرور آئےگی۔۔۔
میں جانتا تھا تو چڑیل بھی ہے تیرے اندر جن بھی آتا ہے تجھ پر بد روحوں کا سایہ بھی ہے اور تو گاؤں میں کسی بچی کو جیتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی۔ میں کئی روز سے تیرے انتظار میں جاگ رہا تھا۔۔۔‘‘
صغریٰ پس بھرے پھوڑے کی طرح پھٹ گئی۔ کھرنڈ اینٹوں کے فرش پر آنسوؤں کا لہو اور پیپ درد چھوڑتے لوتھڑوں کی طرح بہنے لگا۔
میر حسن نے کمرے کی طاقی کھول دی۔ یخ ہوا کا جھونکا صغریٰ کے مواد بھرے وجود پر تلوار سا برسا۔
’’صغریٰ جس ہاتھ بھر کے روشندان کو تونہ ٹاپ سکی اس امید پر اسے جینے دے کہ وہ روشن دان اس کے لیے پورا کھلا ہوگا۔ ورنہ اپنے ہی وجود میں کھولتے پس بھرے مواد کے زہر سے تو مر جائےگی۔۔۔‘‘
صغریٰ تاریک روشندان کے قدموں میں اوندھی پڑی تھی۔ اس کے اندر پس بھرے مواد کا سیلابی ریلا آنکھوں اور حلق کے سارے بند توڑتا بہہ نکلا تھا اور خالی خولی وجود کھرنڈ اینٹوں کے فرش پر پڑا رہ گیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.