Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریت کے محل

عوض سعید

ریت کے محل

عوض سعید

MORE BYعوض سعید

    وہ عجیب آدمی تھا۔

    اس کے جسم کے سارے کل پرزے مضحکہ خیز حد تک بگڑے ہوئے تھے، موٹی موٹی ابھری ابھری سی آنکھیں باہر یوں نکل آئی تھیں جیسے کسی نے اس کا گلا دبا کر چھوڑ دیا ہو۔ کدو کی طرح لمبوترا سر، دبی دبی سی پیشانی، چپٹی سی ناک، ہونٹ بھی عجیب طرح کے، نچلا ہونٹ جتنا باریک اور خوبصورت تھا اوپر کا ہونٹ اتنا ہی موٹا اور بھدّا۔ عموماً نچلا ہونٹ اوپر کے ہونٹ کی بہ نسبت کچھ موٹا سا ہوتا ہے لیکن اس کے ہاں بات ہی برعکس تھی۔ پھر طرفہ یہ کہ اس کا قد بھی ناٹا سا تھا۔ ان تمام ’’خوبیوں‘‘ نے مل کر اُسے اچھا خاصا کارٹون بنا دیا تھا، گویا وہ آدمی بنتے بنتے رہ گیا تھا۔ ناٹے قد کا ہونے کے باعث لوگ اسے دیکھ کر مسکرا دیتے،وہ بھی خواہ مخواہ مسکرا دیتا۔

    پہلے پہل جب لوگوں نے اس کے ناٹے قد پر پھبتیاں کسیں تو اس کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی تھی، لیکن رفتہ رفتہ وہ ان باتوں کا عادی سا ہو گیا تھا، اب تو اسے یہ بھی یاد نہ رہا تھا کہ وہ ایک بیہودہ انسان ہے۔

    میں نے اسے پہلی بار کنگز وے کے ایک بک اسٹال پر کھڑا دیکھا تھا، اس وقت اس کے ہاتھ میں ’’امپرنٹ‘‘ کا تازہ پرچہ تھا میں۔ میں نے بک اسٹال پر چند پرچے الٹ پلٹ کیے۔ میری اس عادت سے سکندرآباد کا ہر دوکاندار واقف ہے لیکن اس کے ساتھ میں کبھی کبھار ایک آدھ پرچہ خرید بھی لیتا۔ ناٹے قد کے اس بد شکل آدمی کے ہاتھ میں ’’امپرنٹ‘‘ کا تازہ پرچہ دیکھ کر میرے احساس کے آبگینے پر ایک چوٹ سی لگی۔ اس نے مجھے کنکھیوں سے دیکھا اور میں نے نفرت سے اس پر بھرپور نگاہ ڈالی۔ وہ آہستہ دوکان سے کھسک کر بس اسٹاپ کے پاس آ کھڑا ہوا، پھر بس آتے ہی وہ رینگتا ہوا بس میں سوار ہو گیا۔ میں نے دوسری بس کیچ کی اور چمن پر اتر گیا۔

    چمن اس راستے کا نام ہے جو افضل گنج سے ہوتا ہوا چار مینار سے جا ملتا ہے۔

    پھر عابد روڈ کے چورا ہے پر میں نے اسے رات کے کوئی دس بجے کسی شخص سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ اب اس کے ہاتھ میں ’’امپرنٹ‘’ کے علاوہ دو ایک پرچے اور بھی تھے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ کیا ایک ناٹے قد کا بدشکل انسان بھی ادب اور اخبار بینی کا اتنا نتھرا ستھرا ذوق رکھ سکتا ہے۔

    پھر میں نے اسے چھ آٹھ ماہ تک کہیں نہیں دیکھا، چمن میں رہ کر بھی پھولوں کی خوشبو سے محروم تھا، ایک چھوٹا سا فلیٹ میرا ڈرائنگ روم، غسل خانہ سب ہی کچھ تھا اور مجھے اس گندے فلیٹ سے نفرت سی ہونے لگی تھی، اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ ایک صاف ستھرا مکان لیا جائے، پھر میں نے مکان کی تلاش شروع کر دی۔

    آج صبح آفس میں میرے ایک ساتھی نے کہا۔ حمایت نگر میں ایک مکان خالی ہوا ہے، پٹرول پمپ کے قریب ہی اور میں آفس سے لوٹتے ہوئے حمایت نگر کے بتائے ہوئے پتے پر آ کر ٹھہر گیا، پھر میں نے ایک آدمی سے خالی مکان کا پتہ پوچھا، اس نے کہا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یہاں کوئی مکان خالی نہیں ہے۔ ’’ہاں اس طرف ایک مکان شاید کرائے پر اٹھنے والا ہے‘‘۔

    میں نے اس شخص کا رسماً شکریہ ادا کیا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگا۔ چند منٹ بعد ہی TO LET'' کے بڑے حروف پر آکر میری نگاہیں جم گئیں، میں نے زور سے پھاٹک کے دروازے کو ہاتھ سے مارا، پڑوس کے مکان کی کھڑکی کھلی اور بند ہو گئی۔ میں نے دو منٹ کے وقفے سے پھر پھاٹک کے قریب آ کر دستک دی۔

    ’’آپ بے کھٹکے مکان کے اندر چلے جائیے‘‘ ایک بہت ہی خوبصورت نسوانی آواز فضا میں گونجی۔

    ’’جی شکریہ‘‘ کہتا ہوا میں مکان کے اندر داخل ہوا، اندر جا کر سارا مکان دیکھا۔ مکان صاف ستھرا تھا، دو خوبصورت کشادہ کمرے، ڈرائنگ روم، غسل خانہ سب ہی کچھ تھا جو ایک متوسط طبقے کے شائستہ آدمی کے لیے ضروری ہے۔

    جب میں پھاٹک کے قریب آیا تو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ان محترمہ نے کہا۔ ’’کیا آپ کو پسند آیا ہمارا مکان؟‘‘

    ’’تو ذرا ٹھہریے، میں انھیں ابھی جگاتی ہوں۔‘‘ اس نے نہایت نرمی سے کہا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ کنواری یا دوشیزہ نہیں بلکہ شادی شدہ عورت ہے۔ پھر ایک شخص آنکھیں ملتا ہوا باہر آیا۔ میں نے دیکھا یہ وہی شخص تھا جسے میں نے کنگز وے کے بک اسٹال پر دیکھا تھا۔

    ’’میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔‘‘ میں نے یوں ہی فضا خوشگوار کرنے کی خاطر کہا۔

    ’’ہاں صاحب دیکھا ہو گا۔ کچھ ہماری شخصیت ہی ایسی ہے کہ لوگ دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے طنز آمیز لہجے میں یوں کہا جیسے وہ اپنے خالق سے گلہ کر رہا ہو۔

    ’’کیا کرایہ ہے اس مکان کا؟‘‘

    ’’پندرہ سو روپے۔ اگر آپ دو ماہ کا کرایہ پیشگی دے دیں تو آج ہی مکان آپ کی تحویل میں دے دوں گا۔‘‘

    دوسرے دن فلیٹ بدل چکا تھا، صبح جب صاف ستھرے کپڑے پہن کر دفتر جاتا تو کھڑکی کا پٹ آہستہ سے کھلتا ہوا مجھے دکھائی دیتا اور میں نے ہار ہا اسے برآمدے میں ٹہلتے ہوے دیکھا۔

    آج صبح میں آئینے کے سامنے کھڑا شیو بنا رہا تھا کہ وہ آ دھمکا۔

    ’’آج ہماری سالگرہ ہے اس لیے آج رات کا کھانا ہمارے ہاں کھائیے۔‘‘

    جب کچھ تامل کے بعد اس کے اصرار کرنے پر راضی ہو گیا۔ جب وہ چلا گیا تو میری زبان سے بے ساختہ نکلا ’’کارٹون کا بچہ بڑا آیا سال گرہ منا نے۔‘‘ شام کو جب میں نے اس کے دروازے پر دستک دی تو وہ مسکراتا ہوا باہر نکل آیا اور بڑے ہی خلوص سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر لے گیا۔

    ’’یہ میری بیوی ہے۔‘‘ اس نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔

    میں نے چور نگاہوں سے اس کے خد و خال کا جائزہ لیا۔ وہ واقعی حسین و جمیل لڑکی تھی، زیادہ سے زیادہ بیس یا انیس کی ہوگی لیکن اس کے خد و خال میں ایک بانکپن تھا، ایک کشش تھی، اس کی آواز میں کنواری لڑکی کا سا لوچ تھا۔

    مجھے اس ناٹے قد کے بد شکل انسان کی آزاد خیالی پر حیرت اور خوشی ہوئی جس نے بغیر کسی بےجا شرم و حیا کے اپنی بیوی سے تعارف کرانے میں بھی ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی۔ پھر کچھ دنوں بعد میں نے انھیں دعوت دی۔ چونکہ میں تنہا تھا اس لیے میں نے ڈنر کا سارا انتظام ہوٹل سے کروایا تھا۔ جب وہ دونوں میرے گھر آئے تو میں نے خوشی سے ان دونوں کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد رات دیر گئے تک وہ دونوں مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کی بیوی ایک تعلیم یافتہ خاتون ہے اور اس کا شوہر ملک کا ایک مشہور کارٹونسٹ۔

    وہ مجھ سے بہت جلد ہل مل گئے جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں، کبھی میں ان کے ہاں جایا کرتا اور کبھی وہ میرے ہاں چلے آتے لیکن کبھی میں نے اسے اپنی بیوی کو شام میں اکیلا چھوڑ جاتے نہیں دیکھا تھا اور وہ ہمیشہ اپنی بیوی کے ساتھ نکلا کرتا، لیکن ایک شام جب میں اس سے ملنے گیا تو وہ گھر پہ نہیں تھا۔ اس کی بیوی نے مجھے آتے دیکھا تو بہت تپاک سے اور مسکراتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا۔ آج پہلی بار میں اس کے شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے گھر گیا تھا۔

    ’’رات میں نے دہی بڑے بنائے تھے۔‘‘ اس نے شرماتے ہوئے کہا۔

    ’’میں آپ کے لیے لے آتی ہوں۔‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کر باورچی خانے میں گئی اور ایک پیالے میں دہی بڑے لے آئی۔ میں نے انھیں چکھا۔

    ’’بہت لذیذ بناتی ہیں آپ‘‘ میں نے اس کی تعریف کی۔

    ’’ہاں کچھ ان کا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ وہ بولی۔

    میں نے گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے کچھ انٹرویو کے سے انداز میں پوچھا :

    ’’کیا لائٹ میوزک سے بھی آپ کو دلچسپی ہے ؟‘‘

    ’’کیوں نہیں، بہت زیادہ ہے، انھیں بھی تو میوزک سے بہت زیادہ لگاؤ ہے۔‘‘

    مجھے کوفت ہو رہی تھی کہ وہ ہر بات میں خواہ مخواہ اپنے شوہر کا حوالہ دیتی ہے۔

    ’’اردو افسانے سے بھی آپ کو کچھ دلچسپی ہے؟‘‘ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔

    ’’منٹو میرا فیوریٹ رائٹر ہے، میرا خیال ہے منٹوسے اچھا افسانہ نگار ہند و پاک نے پیدا نہیں کیا۔‘‘

    پھر میں نے گفتگو کا پہلو بدلتے ہوئے پیالے میں رکھے ہوئے دہی بڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’سفید دہی میں یہ بڑے کتنے پیارے معلوم ہوتے ہیں، اگر دہی کی جگہ انھیں سالن میں ڈال دیا جائے تو کتنے برے معلوم ہوں گے۔‘‘

    میں نے دیکھا میرے اس سوال پر اس کا پھول سا کومل چہرہ کچھ اتر سا گیا تھا۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر اس نے ایک فراخ انگڑائی کے ساتھ جماہی لی جیسے اب وہ سونا چاہتی ہو، مجھے احساس ہوا کہ میں زیادہ دیر بیٹھ گیا ہوں۔

    ’’اچھا اب اجازت دیجیے، آپ تھک گئی ہوں گی۔‘‘

    ’’جی نہیں مجھے تو آپ سے باتیں کرنے میں بڑی دلچسپی محسوس ہو رہی ہے۔‘‘

    دیوار پر ٹنگی ہوئی بڑی گھڑی نے زور و شور کے ساتھ رات کے دس بجائے۔

    ’’اوہ دس بج گئے وہ ابھی تک نہیں آئے۔‘‘

    اور میں چاہ رہا تھا کہ اس کا شوہر ابھی نہ آئے تاکہ جی بھر کر میں اس سے باتیں کر سکوں، لیکن دوسرے ہی لمحے کسی کے قدموں کی دبی سی چاپ میرے پیچھے آئی، میں پلٹ کر دیکھا، میرا کارٹونسٹ دوست مسکراتا کھڑا تھا۔

    کیا میں آ سکتا ہوں۔ اس نے کہا۔

    ’’آئیے تشریف لائیے۔‘‘ میں نے اس انداز میں کہا جیسے یہ میرا گھر تھا اور وہ میری طرح پڑوسی۔ آج رات آپ کو بہت دیر ہو گئی، اس کی بیوی نے تشویش کے انداز میں پوچھا۔

    ہوا یہ کہ ’’بھاشا‘‘ کے مدیر مدراس سے آ گئے تھے، و ہ زبردستی مجھے گھر کھینچ کر لے گئے اور وہاں مجھے ان کے شدید اصرار پر کھانا کھانا ہی پڑا۔ میں نے لاکھ کہا کہ بھئی میں اپنی بیوی کے بغیر کھانا کھا نہیں سکتا کیونکہ وہ کھانے پر میرا انتظار کر رہی ہو گی لیکن انھوں نے نہیں مانا اور کہا اب تو کھا بھی لو، شریمتی جی کے ساتھ کل پھر آپ کی دعوت رہےگی۔

    ’’تم نے کھا لیا؟‘‘ کارٹونسٹ نے اپنی بیوی سے پوچھا۔

    ’’جی نہیں میں آپ کے بغیر کیسے کھا سکتی ہوں،میں نے آپ کے لیے آج دہی بڑے بنائے تھے۔‘‘

    اور پھر تو بڑا ستم ہوا، اب کھانے کی گنجائش بھی تو نہیں، خیر کچھ لا ہی دو، ہم دونوں ایک دو بڑے چکھ ہی لیں گے۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’میں نے ابھی کھایا ہے۔‘‘ میں نے اپنے کارٹونسٹ دوست سے معذرت چاہی۔

    ’’اوہ آپ نے کھا لیا؟‘‘

    پھر اس نے کھسیانا ہو کر کہا۔ ’’اور کھائیے دہی بڑے ہی تو ہیں۔‘‘

    رات زیادہ ہو چکی تھی، اس لیے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اب گھر چلنا چاہیے۔ میں گھر آ کر بسترپر دراز ہو گیا، کسی کروٹ نیند نہ آئی۔ خیالات جاڑے کے آوارہ بادلوں کی طرح منتشر ہو رہے تھے، میرے دماغ پر کارٹونسٹ کی بیوی چھائی ہوئی تھی۔ کتنی حسین و جمیل ہے وہ، گلاب کے کومل پھول کی طرح تازہ و شاداب۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کارٹونسٹ نے میرے سپنوں کی اپسرا کو مجھ سے چھین لیا ہو۔ ایک بد شکل آدمی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ایک پھول کی طرح نازک دوشیزہ کو اپنی شریکِ حیات بنائے۔ نہ جانے کم بخت نے اس پر کیا جادو ٹونے کیے ہیں جو وہ اسی کی ہو کر رہ گئی ہے ورنہ میرے سامنے یہ پہلی مثال تھی۔

    رات بھر میرے خوابوں میں اس کا حسین و جمیل چہرہ رقص کرتا رہا، صبح جب میں اٹھا تو میری آنکھیں بوجھل تھیں۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے آفس چلا گیا اور جب آفس سے لوٹا تو اپنے گھر جانے سے پہلے کارٹونسٹ کے گھر آواز دی، لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ کہیں میرے دوست نے برا تو نہیں مانا کیونکہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی بیوی سے بات چیت کی تھی، لیکن دوسرے ہی لمحے میرا شک رفع ہو گیا جب میں نے پھاٹک پر پڑے ہوئے تالے کو دیکھا۔ شاید وہ دونوں مدراسی ایڈیٹر کے ہاں دعوت میں گئے ہوں۔

    دوسرے دن صبح وہ میرے گھر آیا، وہ بہت عجلت میں تھا۔

    آج میں ’’بھاشا‘‘ کے ایڈیٹر کے ساتھ ضروری کام سے مدراس جا رہا ہوں، چار دن میں لوٹ آؤں گا، تم مکان کا ذرا خیال رکھنا۔ آشا بے حد حساس ہے، تنہائی سے بہت گھبراتی ہے، مجھے امید ہے کہ تم میرے آنے تک آشا کا دل بہلاتے رہوگے۔ وہ مجھ سے ہاتھ ملاتا ہوا چلا گیا۔

    وہ چلا گیا لیکن اب میں سوچنے لگا، کتنا عجیب آدمی ہے۔

    کوئی اپنی بیوی کو غیرمرد کے بھروسے اس طرح چھوڑ جاتا ہے، پھر وہ بھی ایک بیچلر کے رحم و کرم پر، ہو سکتا ہے میری ہی نیت ڈانوا ڈول ہو جائے۔ آخر میں بھی تو ایک انسان ہی ہوں، یہ اور بات ہے کہ میری رگوں میں شریفوں کا خون ہے۔

    میں نے دبے پاؤں اس کے گھر میں قدم رکھا، یہ جاننے کے لیے کہ وہ آخر اکیلے گھر میں کیا کر رہی ہے۔ میں نے دیکھا وہ قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی بالوں میں کنگھی کر رہی تھی، آئینے میں میرے عکس کو دیکھ کر اس نے کہا۔ ’’آ جائیے‘‘

    پھر جب پلٹ کر اس نے میری طرف دیکھا تو میرا دل دھک سا ہو کر رہ گیا۔ وہ آج نیلے رنگ کی ساری میں یوں نظر آ رہی تھی جیسے بارش کے بعد دھنک نکل آئی ہو۔ وہ مسکرائی، اس کے گالوں پر حیا کی ایک ہلکی سی لہر دوڑ گئی، پھر اس نے کہا :

    ’’آج موسم کتنا سلونا ہے، ٹینک بنڈ چلیے بڑا مزہ رہےگا۔‘‘

    ’’لیکن مشکل یہ ہے کہ میں آپ کا ساتھ اس وقت نہ دے سکوں گا۔‘‘ میرے اس غیر متوقع جواب پر اس کا چہرہ کچھ اتر سا گیا۔

    ’’آخر کیوں نہ چلیں گے آپ؟ اس نے حاکمانہ انداز میں پوچھا۔‘‘

    ’’کون آپ کے ساتھ چل کر خواہ مخواہ لوگوں سے جھگڑا مول لے۔‘‘ وہ شرما سی گئی، اس کی پیشانی پر غرور و مسرت کی ایک چمک پیدا ہوئی۔ چلیے بھی چھوڑئیے مذاق۔ خوب بنتے ہیں آپ!

    دیر گئے تک ہم ٹینک بنڈ پر بیٹھے مختلف باتیں کرتے رہے اور میں جانے کیا کیا سوچنے لگا لیکن جب لوٹتے ہوئے پھر اس نے اپنے شوہر کی محبت کی قصّے چھیڑ دئیے تو مجھ پر سے خوش فہمی کا بھوت اتر گیا۔

    رات جب ہم گھر لوٹے تو گیارہ بج چکے تھے، میں آشا کو اس کے گھر تک پہنچا آیا۔ جب میں نے آشا کے کمرے کی لائٹ جلائی تو میرا کارٹونسٹ دوست خّراٹے لیتا ہوا سو رہا تھا۔ میں اپنے دوست کو دیکھ کر سہم سا گیا، جیسے میں نے کسی بھوت کو دیکھ لے ہو، اس کا منہ چھوٹے بچوں کی طرح کھلا ہوا تھا اور ہونٹوں کے کنارے تھوک بہہ کر تکیے پر جم گیا تھا۔

    صبح جب میں دیر سے اٹھا تو میری آنکھیں رات کی یادوں کے خمار سے بوجھل تھیں، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میری پلکوں میں گذشتہ رات کے جیتے جاگتے خواب کے ٹکڑے اٹک گئے ہوں۔

    میں بڑی دیر تک آشا کے بارے میں سوچتا رہا اور اس محویت میں مجھے آفس کا بھی خیال نہ رہا، چنانچہ میں آفس دیر سے پہنچا۔ تین دن تک آشا اور کارٹونسٹ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ میرے دل میں گمان پرورش پا رہے تھے کہ شاید کارٹونسٹ نے میری اس حرکت کا برا مانا ہے اور شاید یہی خوف مجھے اس کے گھر تک پہنچنے میں مانع تھا۔

    چوتھے دن شام کو کارٹونسٹ میرے گھر آیا اور اس نے بڑی فراخ دلی سے گذشتہ دنوں کی غیرحاضری کا سبب دریافت کیا، مجھے اس کے رویے سے بڑی طمانیت ہوئی۔

    ’’سنا کہ اس دن خوب باتیں رہیں۔‘‘ میں جواب دینے ہی کو تھا کہ اس نے کہا۔ ’’چلو ہمارے گھر آشا تمھیں یاد کر رہی ہے۔‘‘

    آشا کا نام سنتے ہی میرا دل جیسے حلق میں پھنس کر رہ گیا، میں چپ چاپ اس کے ساتھ ہو گیا۔ دوران گفتگو اس نے بتایا کہ اس کا مدراس جانے کا پروگرام کس طرح ٹھپ ہوا اور کس طرح ٹرین تک پہنچنے میں دیر ہوئی۔ غرض کارٹونسٹ اپنی کہے جا رہا تھا اور مجھے آشا کو دیکھنے کے خیال ہی سے کچھ شعلے سے دل میں لپٹے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ میں اور کارٹونسٹ جب گھر میں داخل ہوئے تو آشا نے فوراً کہا۔ ’’شکر ہے آپ کو ہماری یاد بھی آئی ورنہ میں نے تو سمجھا تھا کہ آپ ہمیں بھول گئے ہیں۔‘‘

    ’’میں بھلا آپ کو کیسے بھلا سکتا ہوں۔‘‘ میرا گلا جذبات سے رْندھ گیا، مجھے نہ جانے کیوں اس وقت کارٹونسٹ زہر لگ رہا تھا۔ میں خواہ مخواہ اس کے خلاف بھرا بیٹھا تھا اور وہ مسخرا بچھا جا رہا تھا۔

    مجھے آشا اور کارٹونسٹ کے اصرار پر رات کے کھانے پر ٹھہرنا پڑا، کھانے کے بعد باتیں شروع ہوئیں۔ ادب، آرٹ، سیاست غرض کہ ہر موضوع پر ہم لوگوں نے اظہار خیال کیا۔ فنِ تعمیر پر بات چل نکلی تو اجنتا، ایلورہ کی گپھاؤں سے ہوتی ہوئی یونان کے مجسموں تک جا پہنچی۔ تصویر کا ذکر چھڑا تو لیونارڈو کے موقلم سے پکا سو تک۔ شاعری موضوع بحث بنی تو چار سر سے ایلیٹ اور الفروڈ نوائس تک تقریباً سب ہی شاعر ہماری بحث کی زد میں آتے رہے۔ میری مسرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے قدم قدم پر یہ محسوس کیا کہ آشا میرے ساتھ ہے۔ اس کے خیالات میرے ساتھ ہیں۔ اس کا شوہر مجھے کسی کہسار کے تن تنہا پودے کی طرح نظر آنے لگا۔

    ادھر نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ آشا دن بہ دن میرے قریب آتی جا رہی ہے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ یہ خیال میرے ذہن میں کس طرح جڑ پکڑ گیا کہ آشا کو اپنے شوہر سے ضرور نفرت ہی ہونی چاہیے۔ بھلا ایک ٹھگنے آدمی سے بھی کوئی محبت کر سکتا ہے۔ آشا کے قرب سے میں اپنے شب و روز میں ایک ٹھنڈک، ایک طراوٹ سی محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ آشا مجھے ضرور چاہتی ہے، میرے خیالات کو پسند کرتی ہے اور ان میں اپنی محبت تلاش کرتی ہے۔

    ایک دن ہماری گفتگو کا موضوع کارٹون کشی تھی۔ میں نے از راہ مذاق کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ جو مصور اپنے فن میں نا پختہ رہ جاتا ہے۔ وہ کارٹونسٹ بن جاتا ہے۔‘‘ اس پر آشا نے ہنسی کی جھانجھنیں چھنکا دیں اور کارٹونسٹ خفیف سا ہو کر رہ گیا۔ آشا جو اس وقت پھول کاڑھ رہی تھی چہرے سے بے حد شگفتہ دکھائی دے رہی تھی، میں اس شگفتگی سے خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اور اس کے شوہر کو اپنے مذاق کا ہدف بنا کر اس کا جی بہلانا چاہتا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اس پر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ ایک ایسے آدمی کے لیے بنائی گئی ہے جسے محفل میں مذاق کا جواب تک دینے کا سلیقہ نہیں۔

    اس کا مجھے اعتراف ہے کہ میں نے گفتگو میں مذاق سے کہیں زیادہ ذاتیات کو جگہ دے دی، ہوا یوں کہ میری کرسی کے آگے ایک قد آدم آئینہ رکھا تھا جس کے برابر ہی لکھنے کی میز تھی۔

    میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’آرٹسٹ جی! کہیں کارٹون بناتے ہوئے آئینہ نہ دیکھیے ورنہ کارٹون شاہکار بن جائےگا۔‘‘ میرے اس جملے پر آرٹسٹ جی تو ہنسنے لگے لیکن آشا نے خلاف توقع کوئی نوٹس نہیں لیا اور برابر سنجیدگی سے پھول کاڑھتی رہی۔ مجھے قدرے نا امیدی ہوئی۔ میں نے اپنے ترکش سے دوسرا تیر نکالا اور چلا دیا ’’قبلہ آرٹسٹ جی! میرا خیال تو یہی ہے کہ ایک بلند قامت آرٹسٹ ہی اونچے درجے کی تخلیق کر سکتا ہے۔ یہی دیکھیے نا۔۔۔‘‘

    یہ کہہ کر جب میں نے داد طلب نگاہوں سے آشا کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا اور اس کے ہاتھ سے سوئی گر چکی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے