Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریت پر تیرتے جزیرے

رفعت ناہید سجاد

ریت پر تیرتے جزیرے

رفعت ناہید سجاد

MORE BYرفعت ناہید سجاد

    ’’انگریز بہادر بڑا مہربان رہا تھا تمہارے آغا جی کے دادا حضور پر اور کیوں نہ ہوتا بھئی۔ وہ بھی آڑے وقتوں میں انگریز کے بڑے کام آئے تھے۔ سن ستاون میں جب انگریز کا بوریا بستر گول ہوتا نظر آ رہا تھا تو تمہارے پڑدادا نے ان کی بڑی مدد کی۔ غدر کے موقع پر چھوٹے لاٹ صاحب کو فسادیوں سے بچا کر اپنے گھر میں پناہ دی۔ بس جب فسادات ختم ہوئے تو انہوں نے اپنی مہربانی کے عوض بخشش کی طلب کی۔ کیا بات ہے انگریز کی بھی جناب۔ بڑے دیالو لوگ تھے۔ انہوں نے کہا، یہاں سے جہاں تک تم چلے جاؤ، وہاں کی زمین بھی تمہاری راج بھی تمہارا۔‘‘

    بڑی امی نے اونی ٹوپی بنتے بنتے سلائیاں چھوڑ کر خود ہی مسکراتے ہوئے ماضی میں جھانکا۔ وہ ابھی تک اپنے سسر کو لمبے لمبے ڈگ بھرتے دیکھ رہی تھیں۔

    تازہ مالٹوں کا سرخ رس، چرائیتے کی طرح اس کا حلق کڑوا کر گیا۔ بےساختگی میں خوف زدہ ہوکر اس کی نگاہ سامنے لمبی دیوار پر آویزاں اس سورما پر پڑی جس کی بڑی بڑی مونچھیں، آنکھوں سے ٹپکتی خشونت اور ایک رعونت بھرا چہرہ سنہرے قیمتی فریم کے شکنجے میں قید تھا۔ صد شکر کہ اب وہ تصویر سے باہر نکل کر چل نہیں سکتے، ورنہ اس گھر میں بھی یہاں سے وہاں تک انہی کا راج ہوتا اور صد افسوس کہ وہ اس کے اس قدر مہربان باپ کے دادا رہ چکے تھے، جن کی عزت و احترام اس پر واجب تھی۔

    ’’یہ تاریخ جغرافیہ بھی کس قدر مذاق ہے۔ جو تاریخ بنی تھی، وہ تحریر نہیں ہوئی۔ جو جغرافیہ درکار تھا، وہ مکمل نہیں ہوا۔‘‘

    سر کمال تاریخ کے لیکچر میں بڑی مہارت سے لفظوں سے کھیلنے لگتے تھے۔ تاریخ کے ساتھ وہ بہت تہذیب سے پیش آتے۔ محتاط الفاظ۔ سنبھلی ہوئی ترکیبیں۔ انہیں ہتھکڑیوں سے ڈر لگتا تھا لیکن اپنے پیشے سے دیانت کے مدّنظر وہ طالب علموں کو گمراہ کن تاریخوں میں بھی بھٹکانا نہیں چاہتے تھے۔

    ’’پنجاب کا جاگیردار ہمیشہ وفا شعار رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ محبت نبھائی۔ اس نے مغلوں کی بھی پذیرائی کی، سکھوں سے بھی وفا کی اور آخری دَم تک انگریزوں کا بھی ساتھ دیا۔‘‘

    بڑے ہال میں اترنے والی سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ دیوار پر اس کے خاندان کا شجرۂ نسب زینہ زینہ نیچے اتر رہا تھا۔ ہر کوئی تصویروں کی صورت شیشوں میں قید اپنے اپنے کارناموں کے ساتھ ساتھ دفن، اپنے حصے کی تاریخ بنا گیا تھا۔ یہاں سے وہاں تک جا بہ جا مؤرخ نے اوراق بکھیر دئیے تھے۔

    وقت بےوقت ایک کہانی امی بھی سنایا کرتی تھیں۔ یہ کہانی کونے والے کمرے میں دفن تھی۔ آتش دان کے اوپر رکھی تصویر میں جڑی۔ دو موٹی موٹی چوٹیاں دائیں بائیں کندھے پر جھولتیں اور اس کی سیاہ آنکھیں کیمرے کو دیکھ کر مسکراتے بھی جن میں انتظار کے دیے روشن تھے۔ آنے والے اچھے وقتوں کا انتظار۔ جب سب کے حساب چکائے جائیں گے۔

    امی دراصل گھر بھر کی چھوٹی امی تھیں۔ بڑی امی زیادہ تر گاؤں والے گھر میں رہتی تھیں۔ وہ جاگیر سے۔ اپنے اور اپنی سوکن کے بچوں سے بےتحاشا پیار کرتی تھیں۔ ہر طرف ان کی چلتی تھی۔ ان کے جسم پر ہر طرف پیلا پیلا سونا لدا رہتا تھا۔ جب وہ بہت خوش ہوتیں اور کسی کے پاس واس ہونے پر کوئی انعام دینا چاہتیں تو جسم پر لدا کوئی بھاری بھرکم ٹکڑا اتار کر اس کے حوالے کر دیتیں۔ پھر بھی بھری رہتیں۔ کلائی سے کہنی تک چوڑیاں، کڑے، کنگن، ہر قسم کابازو والا زیور۔ کانوں کے سوراخ ڈھیلے ہو کر لٹک جاتے پھر وہ دوسرا سوراخ کر کے مزید تام جھام لٹکا لیتیں۔ ان کے کپڑوں سے کھٹی لسی کی بساند آتی تھی۔

    وہ جب بھی گاؤں جاتی انہیں ملازم عورتوں کے جمگھٹے میں گھرا دیکھتی۔ ان کی بیٹی عابدہ بھی تھی۔ اس کی ہم زاد، اس کی بے حد گہری دوست، جس کو پڑ دادا کے زمانے میں Half Sister کہا جاتا تھا۔ لوگ سوتیلی بہن کہتے تھے لیکن فارا مصطفی کی جان، عابدہ مصطفی کے توتے میں بند تھی۔ بڑی امّی اپنے کام کیے جاتیں، کبھی گندم تلوا کر تقسیم ہو رہی ہے، کبھی کسی کو جہیز دینے کے لیے برسوں کے زنگ آلود صندوق کھل رہے ہیں اور عابدہ قلم اور رائٹنگ پیڈ ہاتھ میں لیے ان کے پیچھے پیچھے۔ اپنے سوتن کے بیٹوں کو لمبے لمبے خط لکھوانا بھی ان کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ ان کے بچے چیف کالج سے نکل کر آکسفورڈ میں پڑھتے تھے۔ وہاں سے واپس آ کر جاگیرداری کا کام سنبھالتے تھے۔

    آغا کے شہر والے گھر کا ماحول گاؤں والے گھر سے بالکل مختلف تھا۔ آغا دونوں جگہوں پر ایک سے فٹ بیٹھتے تھے۔ حویلی میں بیٹھے مزارعوں کے مسائل سنتے وہ بالکل دیہاتی لگتے تھے۔ شہر میں روشن خیالی اور فراخ دلی سے جیتے وہ بالکل ’’ماڈرن مین‘‘ نظر آتے تھے۔

    بڑی امی کو چھوٹی امّی کے آنے کا ذرا بھی قلق نہیں ہوابلکہ انہوں نے فراخ دلی سے سونے کی آدھی صندوقچی حساب سے چھوٹی امّی کے حوالے کر دی۔ چھوٹی امی کو سونا جمع کرنے کا شوق تھا، پہننے کا نہیں۔ چھوٹی امی کی آغا سے شادی ہوئی تو وہ کالج میں پڑھاتی تھیں۔ ان کی کولیگز نے پہلے سے شادی شدہ اور وہ بھی جاگیردار سے شادی کرنے سے بہت خوف زدہ کیا۔ سب نے مخالفت کی۔ سوائے بڑی امّی کے۔ وہ کہتی تھیں،’’آغا بہت پڑھے لکھے ہیں۔ لائق فائق، قابل، انہیں زندگی گزارنے کے لیے کسی اپنے برابر ہی قابل آدمی کی ضرورت تھی۔ اچھا کیا انہوں نے سے شادی کر لی۔‘‘

    چھوٹی امی نے کیا سوچ کر ان کے گھر آنا قبول کیا۔ یہ اس کی پیدائش سے قبل کا واقعہ ہے اور تاریخ کے صفحات یہاں بند ملتے ہیں۔ اس کا کوئی مستند راوی بھی موجود نہیں۔

    خاندان خوشیوں سے معمور تھا۔ جب روٹی پیٹ بھر ملتی ہو، زندگی کی ضرورتیں آسائشوں کی حد تک آملتی ہوں اور پوری ہو جاتی ہوں اور آپ کی تربیت بھی اس انداز میں ہوئی ہو کہ آپ کو دکھوں سے دُور رکھ کر پالا جائے تو پریشانیاں آپ کے پاس بھی نہیں پھٹکتیں۔ ہاں البتہ بچپن میں ایک حادثہ ہوا تھا اس گھر میں۔ گھر کی فضا میں کچھ عرصے کے لیے تناؤ بھی رہا۔ پھوپی فاخرہ کو سزا کے طور پر ایک کمرے میں بند کر دیا گیا تھا۔

    جرم کیا تھا۔ مصنف کون تھا۔ جیلر کے فرائض کس کو سونپے گئے۔ اس واقعے کا ذکر بھی گھر میں اس طرح حرام تھا جیسے بعض لوگ حرام جانور کا نام لینے کو بھی حرام سمجھے ہیں۔ البتہ جب سزا کی میعاد ختم ہوئی اور کمرا کھولا گیا تو وہ مردہ پائی گئی تھیں۔ انہیں اپنے لیے تجویز کردہ سزا زیادہ قابل قبول تھی۔

    انہوں نے ڈاکٹر گوئبلز کی طرح کلائی کی رگیں کاٹ کر باتھ روم کے ٹب میں جان دے دی تھی۔ جس کے لیے انہوں نے زندگی سے کھیلا، وہ کوئی شاعر، ادیب یا جرنلسٹ قسم کی چیز تھا۔ بڑی امی کو ٹھیک سے معلوم نہیں۔ وہ کیمبرج میں پڑھانے والے اپنے بیٹے کو بھی ماسٹر کہتی تھیں۔ ہاں یہ پتا تھا کہ وہ ہاتھ میں قلم پکڑنے والا آدمی تھا۔ اگر اس کے ہاتھ میں قلم نہ ہوتا تو کب کا اس کا سر قلم ہو چکا ہوتا۔ اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے عورتوں کی تعلیم کا سلسلہ موقوف رہا۔

    پھر آغاجی کی تاریخ شروع ہو گئی۔ زمانہ بدل گیا تھا۔ وہ بدلے خیالات کے روشن دماغ آدمی تھے۔ دوسرے وہ شروع سے آدمی ہی کچھ مختلف قسم کے تھے اور ان کی دوسری شادی بھی تعلیم کے شعبے میں ہوئی تھی۔ لہٰذا فارا مصطفی اور عابدہ وغیرہ کو ان رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو اس خاندان کی باتی عورتوں کا مقدر رہی تھیں۔

    فارا مصطفی نے گھر کے وسیع و عریض لان میں کھلنے والی ٹیرس سے جھانک کر دیکھا۔ فوارے کے اچھلتے پانی کے پاس رنگ برنگی ربڑ کی کرسیوں پر زندگی رواں دواں تھی۔ آغا ان دنوں شہر والے گھر میں تھے۔ پتا نہیں اس کی فطرت میں کس کا خمیر شامل تھاکہ وہ زندگی کی ان گہماگہمیوں سے اکتا جاتی تھی۔ اس کی ہم عمر پھوپی زاد، چچا زاد شام کے اہتمام میں خوب بن ٹھن کر لان میں آتیں اور نخوت بھرے انداز میں گردن اٹھا کر اِدھر ادھر دیکھا کرتی تھیں۔ دو تین سفید کپڑوں والے ملازم ٹرے ہاتھ میں اٹھائے ادھر سے ادھر اس طرح بھاگتے نظر آتے جیسے یہ آغا مصطفی کا گھر نہ ہو کوئی فائیو سٹار ہو جہاں روم سروس چوبیس گھنٹے موجود رہتی ہے۔ دن بھر مختلف کمروں کی گھنٹیاں باورچی خانے کے اطراف میں روشن ہوتیں اور وہاں سے مستعد اور چوکس ملازم جائے وقوع پر الٰہ دین کے جن کی طرح لپکتے جھپکتے پہنچتے رہتے۔

    اس نے اپنے بکھرے بال ہاتھ سے ترتیب دئیے۔ وہ دوپہر کو دیر تک سوئی رہی تھی۔ اب اگراس سوئے سوئے حلیے میں وہ اپنی صاف شفاف بہنوں اور کزن لوگوں کے درمیان جا بیٹھےگی تو خوب ہی اپنی گت بنوائےگی۔ پھر امّی بھی وہیں پاس آغا جی کے گرد، وہ بھی اس کو خوب گھور گھور کر دیکھیں گی اور نہ گئی تو گھر کی اس روایت کو توڑنے کی پاداش میں لمبی چوڑی وضاحت کی سزاوار ہوگی، جس پر کوئی اعتبار بھی نہیں کرےگا، سوائے اس کے کہ دماغ میں خناس ہے، وہ روایتیں توڑتی ہے، بغاوتیں کرتی ہے۔ اسی لیے باغیوں کے انجام کا قصہ اسے انگریز کے زمانے سے لے کر پھوپی فاخرہ تک نہایت تفصیل سے سنایا جاتا تھا۔ اس نے الماری کھول کر ہینگر میں لٹکے کوئی سے بھی کپڑے ہاتھ بڑھا کر نکال لیے، منہ دھویا اور جب وہ شگفتہ چہرا لیے لوگوں کے درمیان آئی تو کسی کو اس سے کوئی شکایت ہونی نہیں چاہیے تھی۔

    ’’اوہو۔ آج تو فارا نے بھی کپڑے پہنے ہیں۔‘‘

    اتنی تیاری کے باوجود فارا جھنجلا گئی، جیسے وہ ہمیشہ کپڑوں میں نہیں ہوتی تھی۔ لوگوں کے پاس لفظوں کی کس قدر کمی ہے۔ عالیہ کے ہر انداز میں طنز ہوتا تھا۔ وہ کہیں سے بھی بڑی امی کی بیٹی نہیں لگتی تھی۔ اس کی تربیت میں زیادہ عمل دخل چھوٹی امی کا ہی رہا تھا۔ وہ اپنی ماں سے زیادہ ان کو آئیڈیلائز کرتی تھی۔ وہ اس قدر اہتمام سے تیار ہونے کے باوجود سب سے پیچھے رہ گئی۔

    آغا جی کی برابر والی شوخ رنگ کرسی اتفاق سے خالی تھی، ورنہ تو وہ ہر وقت دائیں بائیں ہر طرف سے گھرے ہی ملتے تھے۔ اس کے سادہ کپڑے، کرسیوں، سبزے اور پھولوں کو بہتات کے تضاد میں شامل ہو گئے۔

    آغا سے پھوٹتی قیمتی کولون کی مہک فضا پرچھائی ہوئی تھی۔ کس قدر ہینڈ سم تھے اس کے بابا۔ دیکھو تو رشک آئے۔ ان کے پاس بےشمار کپڑے تھے۔ انہیں پہننے کا شوق بھی تھا اور تمیز بھی۔

    ’’دیر تک سوئی تھیں آج۔‘‘ آغا کی نرم مہربان مسکراہٹ نے کتنی دیر کے لیے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ یہ آغا ہی تھے جنہوں نے اس کی کسی بڑی سے چھوٹی بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہیں اس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا تھا اور وہی تھے جن کے دم سے گھر گھر ہی لگتا تھا۔ وہ بہت دِنوں سے باہر ٹور پر گئے ہوئے تھے۔ وہ پاکستان سے باہر جاتے یا گھر سے باہر ہوتے تو ا س کے گرد پابندیوں کا حلقہ تنگ ہونے لگتا۔ وہ آ جاتے تو لگتا سر پر تنا آسمان ذرا پرے ہو گیا ہے۔

    ’’جواب تو دو۔‘‘ امی نے جھڑکا۔ انہیں آغا کا چمچہ بننے کا بڑا شوق تھا۔

    آغا نے ایک نظر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔

    ’’کس چیز کا جواب دے وہ۔ میں نے کوئی سوال تو نہیں کیا۔‘‘ دفاع کے لیے بھی وہی آئے تھے۔

    اس قدر پرسکون اور آئیڈیل دکھائی دئیے جانے والے گھر میں اگر کسی کا دَم الجھتا تھا تو صرف اسی کا۔ اور کسی کو کہیں کوئی گھٹن محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ان کو ہر طرح کی آزادی تھی۔ ساری شام وہ لبرٹی کے برآمدوں میں گھومتیں۔ ایک انگلی اٹھا کر چیز پسند کرتیں اور خرید لیتیں۔ دوسری بڑی تفریح گاہ ان کے درزی تھے۔ تیسری تفریح، کلب سے متعلقہ رات کے کھانے، بوفے یا باربی کیو۔ یہاں وہ ہمیشہ چچا تایا زاد کی حفاظت میں اپنی کی گئی بےشمار خریداری سے خراج وصول کرتی تھیں۔ وہاں شہر کی Elite اکٹھی ہوتی تھی۔ مشہور و معروف معزز اور نامور لوگ اور سب کے سب آغا سے واقف۔ اسمبلی کی رکنیت کے بعد تو آغا لوگوں کے کام بھی بہت آتے تھے۔ لوگ انہیں گھیرے میں لیے رکھتے۔ کتنا اچھا لگتا تھا سب لوگوں کو اپنی ولدیت پر فخر کرنا۔

    وہ جاتی تو اسٹک اور چھری سے کھیلتی رہتی۔

    ’’کھانا اچھا نہیں ہے؟‘‘

    نعمان اس کا کزن بھی تھا اور اس بات کے امکانات بھی تھے کہ وہی اس کا منگیتر بنےگا۔ گو اس کی عادتیں بھی باقی ماندہ خاندان والوں سے مختلف نہیں تھیں۔ جیپوں میں گھومنا، راہ میں آئی چیزوں کو کچل کر گزر جانا، اپنے خاندانی نسب پر نازاں ہونا اور چچا کے عہدے سے ناجائز فائدے اٹھانا۔

    وہ اس کا خیال بس فرائض منصبی میں داخل سمجھ کر ادا کرتا رہتا تھا۔ ذہنی ہم آہنگی، لگاؤ، پیار محبت، ان ساری اصطلاحات پر قہقہے مارے جاتے تھے۔ سب شاعرانہ باتیں ہیں، ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔

    عورت کو خوب، خوب صورت ہونا چاہیے۔ سجا بنا، چاہیں تو کسی شیلف میں سجانے کے لیے رکھ چھوڑیں۔ بیوی گھر میں ہونی چاہیے۔ مرد کا کیا ہے۔ اس کی تو شان اسی میں ہے کہ وہ کہیں بھی عارضی رشتے ہموار کر لیں۔ شاعر ان عارضی ناتوں میں ساری عمر کے لیے الجھ جاتا ہے اور جاگیردار پلٹ کر گھر واپس آ جاتا ہے۔ بس یہی مرتبہ ہے بیوی کا اور بہت بڑا اعزاز ہے اس کے لیے۔

    ’’اس کا کوئی استاد ہے۔ پتا نہیں کیا نام بتاتی ہے اس کا۔ وہ اس کے دماغ میں خنّاس بھرتا رہتا ہے۔‘‘ امی، آغا سے شکوہ کرتیں۔ وہ بےانتہا ادق اور گنجلک کتابوں سے سر اٹھاتے۔

    ’’بچی ہے۔ سنبھل جائےگی۔‘‘

    ’’بچی ہے؟‘‘ امی جھنجلا جاتیں،’’ صرف وہی بچی ہے۔ اس کے ساتھ کے باقی تو بڑے ہو گئے ہیں۔‘‘

    ’’اب ہر ایک کا اپنا رنگ ہوتا ہے۔‘‘ وہ بائی فوکل ناک پر ٹکاکر اوپر سے جھانکتے،’’ میں دیکھ رہا ہوں تم اس پر بہت زیادہ تنقید کرتی ہو۔‘‘

    ’’اب اس کی اصلاح بھی نہ کروں؟ شتر بے مہار چھوڑ دوں۔‘‘ امی مزید جھنجلا جاتیں۔

    ’’کیا حرج ہے۔ گنجائش نکالا کرو۔ زور زبردستی سے تم اپنا مطلب پورا نہیں کر سکتیں۔ پڑھی لکھی عورت ہو تم، جانتی ہو دبانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔‘‘

    امّی سہم کر نرم پڑ جاتیں۔ تاریخ کا بوسیدہ صفحہ پھر سے پھڑ پھڑانے لگتا۔

    ’’اسی بات سے تو ڈرتی ہوں۔ آپ نے دیکھا نہیں ہو بہو اسی پر گئی ہے۔‘‘

    ’’یہ کس قسم کا ڈر ہے کہ اسے اور بھڑکا رہی ہو۔ بہرکیف وہ بات بالکل اور تھی۔ چھوڑ دو اسے۔ وقت گزر جائے گا تو وہ بھی تمہاری طرح سوچنے لگےگی۔ مجھے یہ کتاب ختم کرنی ہے اور کافی میں اپنے کمرے میں پیوں گا۔‘‘

    وہ بات نامکمل چھوڑکر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے اور امّی اپنے کمرے کی طرف جاتے اسے برآمدے کی تاریک سیڑھیوں پر بیٹھے دیکھ کر جھنجلاتی رہیں۔

    ’’کون آدمی ہے یہ سرکمال؟ یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے فارا کو۔‘‘

    وہ کوئی مناسب موقع دیکھ کر اپنے دیور کا دھیان خاندان کے معاملات کی طرف الجھاتیں۔

    ’’معلوم نہیں۔ پتا کرتا ہوں۔ خیریت تو ہے ناں؟‘‘

    ’’پتا کٹواؤ اس کا۔ نکلواؤ کم بخت کو نوکری سے۔ کہیں کھڈے لائن لگاؤ۔ دماغ خراب کر رہا ہے نئی نسل کا۔‘‘ وہ سخت نفرت سے زہر اگلتیں۔

    چچا ایک چھچھلتی نظر نوکروں کے بچوں سے کوکلا جمال کھیلتی اپنی بھتیجی کی طرف ڈالتے کتنی دیر کے لیے خیالوں میں گم ہو گئے۔ پرانے خاندان میں نئی روایتیں پسند نہیں کی جاتیں۔ یہ تو وہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ان کی یہ بھتیجی بالکل بے سروپا قسم کی لڑکی ہے اور ان کی بیوی کے بقول کچھ کچھ پاگل سی بھی۔ ان کا خیال تھا، اس عمر میں خود کو نمایاں کرنے کے لیے اس طرح کے کام بھی کرتے رہتے ہیں جو اور لوگ نہ کریں۔

    ان کی بیوی نے انہیں یہ بھی منع کیا تھا کہ دونوں جٹھانیاں چلتا پرزہ ہیں۔ ان کے معاملات میں کبھی غلطی سے بھی دخل نہ دینا اور کوئی باضابطہ شکایت بھی تو ہو۔ آخر وہ دخل دیں اور بھائی کو سمجھائیں بھی تو کیا۔ یا فارا کو بھی کیا سمجھائیں کہ یہ نہ کرو، وہ کرو۔ مگر وہ کچھ ہو بھی۔

    وہ شکایت ادھوری چھوڑکر اپنے کسی ذاتی کام سے لندن چلے گئے۔ وہ کچھ اور ہی سمجھے تھے۔ حالاں کہ اس قصے میں تو سرے سے جان ہی نہیں تھی۔

    پھر جیسے واقعی کوئی مصیبت آنے والی تھی۔ اس کا مقدمہ بڑی امّی کی عدالت میں چلا گیا۔ حالاں کہ امی کو بڑی امّی سے شدید قسم کی نفرت تھی لیکن وہ جانتی تھیں اس جہالت اور اجڈپنے کے باوجود اگر کوئی شخص آغا کو رائے تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے تو وہ بڑی امی ہی تھیں۔ آغا کوبھی بڑی امّی، بڑی امّی ہی لگتی تھیں۔ وہ ان کا اس قدر احترام کرتے، خاندان کی عورتوں کے قضیے سلجھانے میں ان کا مرتبہ عقل کل کا تھا۔ لہٰذا آغا کو قائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بڑی امّی کو قائل کیا جائے۔

    انہیں گاؤں سے بلوا کر بڑے احترام سے رکھا گیا۔ چھوٹی امّی نے صحیح معنوں میں انہیں تخت پر بٹھا دیا اور ان کی خدمت میں دن رات ایک کر دئیے۔ چھوٹی امّی کی وہ اولاد تھی۔ صرف انہی کو اس کے عبرت ناک انجام سے خوف آتا تھا۔ وہ کیا دیکھ رہی ہیں، وہ کسی کو سمجھا بھی نہیں سکتی تھیں۔ ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہی سسٹم میں فٹ ہو، ورنہ وہ پاگل قرار دیا جاتا ہے۔ لوگ اس پر پتھر مارتے ہیں۔ انسانی ہمدردی، محبت، نیکی سب بہت ضروری باتیں ہیں اور جب خدا نے دیا ہے توکیوں نہ مدد کریں لوگوں کی۔ لیکن جذباتی طور پر ڈوب جانا اور یہ سمجھنا کہ میں غلط جگہ پیدا ہو گئی ہوں۔ یہ کنگلے قسم کے شاعر ادیب ہوتے ہیں، جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔

    شاعروں، ادیبوں سے ان کی نفرت ختم ہوکر نہیں دیتی تھی۔ بڑی امّی منہ کھولے ان کی تقریر سنتی رہیں۔ ان کے پلے ایک لفظ بھی نہیں پڑا۔

    ’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے سادگی سے پوچھا، ’’کیا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’آپا! میں ماں ہوں۔ جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں آپ کی نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘ ان کے لہجے میں تلخی آ گئی، ’’باپ نے ویسے ہی کان بند کر رکھے ہیں۔ میں چاہتی ہوں، اس کی پڑھائی ختم کروا کے اس کی شادی کر دیں۔ میں دیکھ رہی ہوں، وہ بطور خاص نعمان کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھتی۔‘‘

    ’’ارے بےچاری۔‘‘ انہوں نے تاسف سے کہا، ’’اس قدر تو بے زبان ہے غریب۔ گائے کی طرح۔ نہ کبھی منہ کھولا نہ شکایت کی۔‘‘

    امّی چڑ گئیں۔ بڑی امّی کے سارے محاورے گائے بھینسوں کے گرد ہی گھومتے تھے۔ وہ خود بھی بے چاری کب سے کیا کر رہی تھیں۔ بھینس کے آگے بین ہی بجا رہی تھیں۔

    ’’شکایت کس چیز کی کرے گی۔ کیا کمی ہے؟‘‘ امی منہ پھیر کر بڑبڑانے لگیں۔

    ’’کیا ہوا تمہیں؟‘‘ ندا نے سیڑھیاں اترتے اس کا چہرہ لمحے بھر کے لیے دیکھا۔ وہ بہت ذہین قسم کی لڑکی تھی، اوپر اوپر بھی تیرتی تو موتی نکال لاتی تھی۔

    ’’پھر کوئی مسئلہ ہو گیا ہے گھر میں؟‘‘

    ’’ہاں۔ مسئلہ میں ہوں گھر بھر کے لیے۔‘‘ اس نے تھکے تھکے لہجے میں کہا، ’’امی کا خیال ہے میری شادی کر دینی چاہیے۔‘‘

    ’’شادی؟ لیکن ابھی تو تمہارا فائنل پڑا ہے۔‘‘

    ’’ایم اے کرنے سے کیا ہوتا ہے، یہ تو یونہی ہوتا ہے بے کار۔ ہمارے خاندان کی بیشتر لڑکیاں پڑھائی ادھوری چھوڑ کر ہی شادی کرتی ہیں۔‘‘

    ’’یہ بھی کوئی شرط ہے؟‘‘

    ’’اور میں تو ویسے بھی خراب ہو رہی ہوں۔‘‘

    ’’ارے تمہارے خراب نہ ہونے کا ہی تو گلِہ ہے ہم سب کو۔ اچھا آؤ، یہاں بیٹھو۔‘‘وہ گھاس پر پھسکڑا مار کر بیٹھتے ہوئے بولی، ’’کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ تم کسی ایک طرف کیوں نہیں ہو جاتیں؟ کیوں لٹکی ہو بیچ میں؟ جس سسٹم کا تم حصہ ہو، اس سے کٹی ہوئی ہو۔ تمہیں اپنے ڈی کلاس ہونے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ اِس طرف یا اس طرف۔ کسی ایک طرف تو ہو جاؤ۔ تمہاری خوشیاں بھی ادھوری ہیں اور غم بھی یا مکمل طور پر خوشی حاصل کر لو یا خود کو بالکل ہی غم کے راستے پر چلا ڈالو۔ تم اصل میں ادھورا انسان ہو۔ تم جن لوگوں کے درمیان رہتی ہو، ان کی طرح سوچتی نہیں اور جن کی طرح سوچتی ہو، ان کے درمیان رہنے کی جرأت نہیں تمہارے اندر۔‘‘

    ندا تاسف سے اس کو گاڑی ریورس کر کے جاتے دیکھتی رہی۔ پتا نہیں اس نے کیا سوچا ہے اور کیا کرےگی۔

    ’’یہ جس سوسائٹی کا حصہ ہے وہاں اسی طرح ہوتا ہے۔‘‘ سر کمال نے ندا سے سارا قصہ سن کر کہا تھا، ’’یہ لوگ اپنی بیٹیوں کو ہر طرح کی آزادی دیتے ہیں۔ عیش کریں۔ گھومیں پھریں۔ تفریحات کریں۔ گاڑیاں چلائیں اور ان کے عین ناک کے نیچے جس سے جی چاہے فلرٹ کریں۔ لیکن شادی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتیں۔ اس کے لیے انہیں ٹائپ پر پلٹنا پڑتا ہے۔ تم افسوس نہ کرو۔ میں دیکھ رہا ہوں، ایک دن وہ بھی اپنے ٹائپ پر لوٹ جائےگی اور اپنی پڑھی لکھی ماں کی طرح وہ بھی اپنی بیٹی کی زندگی اسی طرح اجیرن کرےگی۔ ارے بھئی ان کے بچے بھی گندم کی فصل ہوتے ہیں۔ یہ نہ بوتے نہ کاٹتے ہیں۔ صرف اپنا حق جتانے آ جاتے ہیں۔‘‘

    پھر گروپ میں ہلچل سی مچ گئی۔ ’’کیا واقعی فارا مصطفی ایسے کرےگی۔ غریب خود کو ہر طرح سے ڈی کلاس تو کر چکی ہے۔ کیا کرے گی بےچاری۔‘‘

    اس کے دوست روزگار کی چکی میں پستے تھے۔ نوکری کے لیے جوتیاں چٹخاتے۔ ماں باپ کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے اپنے اپنے کمپلیکسز میں گرفتار۔ ہر شخص اپنا طبقہ چھوڑکر دوسرے طبقے میں جا ملنے کے لیے ہراسا ں تھا۔ فارا مصطفی کی مصیبتیں ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ لیکن ان کی عادت تھی، وہ بحث کرتے رہتے تھے۔ لہٰذا فارا کا مسئلہ بہ زبانی ندا ان تک پہنچا بھی، زیربحث بھی آیا اور پھر ان کو اپنی اپنی الجھنوں نے گھیر لیا اور فارا کا مسئلہ چوں کہ معمولی سی نوعیت کا تھا جن کو ان کی زبان میں پیٹی (Petty) کہا جاتا تھا لہٰذا وہ رد کر دیا گیا۔

    چھوٹی امی کی چھٹی حِس اس قدر قابلِ اعتبار نہیں گردانی گئی کہ اس کو مفروضہ بنا کر فساد اٹھایا جاتا۔ کوئی قابلِ گرفت بات تھی بھی نہیں۔ پکڑ ہوتی تو کس چیز پر؟ کسی نے ان کے اندیشوں کو قابل اعتنا نہیں گردانا۔ وہ پیر پٹختی رہ گئیں۔

    کیا کر رہی تھی وہ؟ ایک خاص ماحول میں ایک عام زندگی گزار رہی تھی۔ اپنی اچھی اچھی کزنز اور پیاری پیاری بہنیں چھوڑ کر نوکروں کے بچوں سے بہناپا جوڑتی۔ شام میں جس وقت ان کا لان ہر طرح کی چہکار سے گونج رہا ہوتا۔ وہ نوکروں کے کوارٹروں کے پیچھے ان کے بچوں کو پڑھانے چلی جاتی۔ اس کی آمد سے لوگ سہم جاتے۔ وہ اپنا مقام بھول گئی تھی لیکن انہیں اپنی اوقات یاد رکھنے کی عادت تھی۔ وہ جتنی دیران کی طرف رہتی، بچوں کی مائیں خوف زدہ سی سہمی سہمی اس کے جانے کی دعائیں مانگتی رہتیں۔ جیسے کوئی خون آشام بلا، شام پڑے ہر روز ان کی بستی میں خون پینے آ جاتی ہو۔

    البتہ بچے ان تفکرات سے آزاد تھے۔ انہیں اس کی آمد دہشت زدہ کرنے کی بجائے سرشار کر دیا کرتی تھی۔ پھر اس کے سبق بھی بہت عجیب تھے۔ وہ آتے ہی سنگی بنچ پر بیٹھ جاتی۔ بچے اس کے سامنے گھاس پر چوکڑی مار کر کاپیاں کتابیں کھول لیتے۔ اردو کی کتابوں میں لکھے نصیحت آموز سبق وہ گھول گھول کر پلا ڈالتی۔

    ’’سب انسان برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں۔‘‘

    ’’حق کا بول بالا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔‘‘

    ’’خدمت میں عظمت ہے۔‘‘

    ’’تقویٰ کیا ہوتا ہے باجی۔ برابری کیسے کی جاتی ہے؟ برتری کس کو حاصل ہوتی ہے؟ کیا سچا آدمی ہمیشہ جیت جاتا ہے؟‘‘ ایک، دو، تین، وہ سب سوالوں کے اپنی بساط اور ان کی سمجھ کے مطابق جواب دیتی جاتی۔

    اس دن اچانک اس نے محسوس کیا کہ نزدیکی کیاریوں میں کام کرتے کرتے مالی نے کھرپی روک دی تھی۔ وہ دور دوزانو بیٹھا بڑی دلچسپی سے اس کا سبق سن رہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ پچھلے دو تین روز سے اسی طرح ہو رہا تھا۔ وہ جب بھی پڑھانے آتی، وہ اس کے آس پاس ہی کہیں کام کرتا ملتا۔ کبھی کام چھوڑکر وہ اپنا سارا دھیان اس کے سبق پر لگا دیتا۔ کبھی اس کی توجہ اس طرف بے دھیانی میں پڑتی تو جلدی جلدی مٹی کھودنے لگتا۔ لیکن اس کے کان جیسے اس طرف ہی لگے رہتے تھے۔

    ’’کیا بات ہے مالی؟‘‘ اس نے کتاب بند کرکے اسے ٹوکا۔

    ’’کوئی بات نہیں جی!‘‘ اس نے گڑبڑاکر سر پودوں میں دے لیا۔

    ’’پڑھنا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’نہیں جی، نہیں۔‘‘ وہ جلدی جلدی تردید کرنے لگا۔

    ’’پڑھنا کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ اگر پڑھنا ہے تو ان کے ساتھ آکر بیٹھ جاؤ اور نہیں پڑھنا تو دھیان سے اپنا کام کرو۔ دو طرف توجہ دینے سے کام ایک بھی نہیں ہوتا۔‘‘

    وہ شوق سے کھرپی پھینک کر بچوں کے درمیان آبیٹھا۔

    ’’چلو ماجد۔ تم اپنا قاعدہ مالی بھائی کو دے دو۔ کیا نام ہے مالی تمہارا؟‘‘

    ’’ولی جی۔ عبدالولی۔‘‘

    ’’شوق ہے تمہیں پڑھنے کا، عبدالولی؟‘‘

    ’’بےحد جی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ اس وقت میں ان سب بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ تم بھی آجایا کرو۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ اس نے ہنستے بچوں کو زور سے جھڑکا، ’’پڑھائی لکھائی ہنسنے کی بات ہے کیا؟ تھوڑا بہت پڑھنا آتا ہے تمہیں عبدالولی؟‘‘ اب وہ مالی کی طرف متوجہ تھی۔

    ’’جی، میں نے میٹرک کیا ہے۔‘‘

    وہ ٹھٹک سی گئی۔

    ’’پھر آگے کیوں نہیں پڑھا، جب تمہیں شوق بھی تھا؟‘‘

    ’’میرے ابا کہتے تھے، پڑھائی بےکار ہے۔ دماغ خراب کر دیتی ہے۔‘‘

    ’’دماغ تمہارے ابا کا خراب ہے۔ پڑھائی نے بھی کبھی کسی کو خراب کیا ہے۔‘‘

    ’’وہ کہتے تھے ایف اے کروگے، بی اے کرو گے، پھر کلرک لگ جاؤگے۔ آپ کے علم میں نہیں ہے شاید، لیکن کلرک کی تنخواہ آپ کے مالی سے آدھی ہوتی ہے۔‘‘

    ’’تمہارے خیال میں تنخواہ ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ ذہنی شعور۔ عقل۔ فہم و فراست۔‘‘

    ’’ان سب کی آپ کو ضرورت ہے بی بی! ہمیں تو تنخواہ چاہیے۔ روٹی کھانے کے لیے۔‘‘

    باوجود آزاد خیالی کے ایک سرد لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی کو یخ کرتی گزر گئی۔ غنیمت ہوا کہ اطراف میں اس کے ماحول کا کوئی آدمی نہیں تھا۔ ورنہ مالکوں کی لڑکی سے اس گستاخی سے بولنے پر اس کا کیا انجام ہوتا۔ وہ کانپ کر رہ گئی۔

    ’’بات سنو۔‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا، ’’یہ بچے بہت چھوٹے ہیں اور ابھی ابتدائی جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں۔ میں انہیں چھے بجے تک پڑھاتی ہوں۔ تم اس کے بعد میرے پاس آجایا کرو۔ گھڑی ہے تمہارے پاس۔‘‘

    ’’آپ کے گھر میں چپے چپے پر گھڑیاں لگی ہیں۔ کہیں بھی وقت دیکھ لوں گا۔‘‘

    ’’اب تم وقت دیکھنے کے لیے کمروں میں بھاگتے پھروگے۔‘‘ اس نے استاد انہ اختیارات سنبھالتے ہی اسے جھڑکا۔

    ’’یہ لو۔‘‘ اس نے اپنی کلائی سے گھڑی اتارتے ہوئے کہا، ’’ہے تو یہ عورتوں والی۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں بی بی! مردوں کو بھی یہ وہی وقت بتائےگی جو عورتوں کو بتاتی ہے۔‘‘

    وہ اس کی گھڑی تھام کر کپڑے جھاڑتا اس کو ہکا بکا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’اور ہاں۔‘‘ اس نے جاتے جاتے اسے ٹوکا، ’’آج سے نہیں کل سے۔ چھے بجے۔‘‘

    کل تک اس کو وقت درکار تھا، اپنی ذہنی جھاڑ پونچھ کے لیے۔ اس کے حالات تلخ رہے تھے غالباً اور تلخی کا یہ زہر اس کی زبان بھی بار بار اگلتی تھی۔ اسے خود پر قابو پانا سکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر اس تلخی کے معمولی چھینٹے بھی اس کی بجائے کسی اور پر جا گرے، تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ یہ سب لوگ ان کے نوکر ہیں اور ان کے باپ دادا، آقاؤں کے باپ دادا کے نوکر رہے تھے۔ کون کہتا ہے، دور غلامی ختم ہو گیا۔

    سر کمال کہا کرتے تھے، راستہ مل جائے تو بھولا بھٹکا منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ان بھول بھلیوں میں راستوں کی تلاش ہی تو اصل بکھیڑا ہے۔ کہاں ہے درست سمت۔ کتنی مدت بعد اسے سبجیکٹ ملا تھا اور تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کا سنہری موقع۔ وہ خود بھی تو راستوں کی تلاش میں تھی۔ منزل نہ سہی کوئی نشان تو ملے۔

    پھر اگلی شام گاؤں سے عابدہ اور بڑی امی آ گئے۔ عابدہ کی شادی کے دن قریب تھے۔ وہ عموماً اپنے کزن کم منگیتر کے ساتھ ہی خریداری کرتی پھرتی تھی اور شہر آنا بھی کسی ضروری خریداری کے سلسلے میں ہوتا تھا۔ لیکن فاراکو اس کی آمد شاد آباد کر دیتی۔ اس نے ساری زندگی فارا سے نہیں کہا تھا، ’’یہ تم نے غلط کیا ہے۔ تم نے ایسے کیوں کیا؟‘‘

    اسے کسی کیوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اسے فارا پر عجیب و غریب قسم کا اعتبار تھا۔ جس بات کو ساری دنیا نے مل کر رَد کر دیا ہو، اگر فارا کو قبول ہے تو پھر وہ بات غلط ہو ہی نہیں سکتی۔ اس زمانے میں بھی جب حویلی کا ہر بچہ ہم جولیوں کو مار کر گھر آتا تھا۔ وہ ان کے ساتھ قابلِ احترام طریقے سے کھیلا کرتی تھی۔ کسی کو اجازت نہیں تھی دوڑ میں حویلی کے بچوں سے آگے نکلے یا ان کی مار کے جواب میں ہاتھ اٹھانا تو درکنار حرف شکایت بھی زبان پر لائیں۔ اس مصنوعی ماحول سے نکل کر جب وہ شہر میں آتے تو انہیں مقابلے کی آگ میں جھلسنا پڑتا تھا۔ اسی لیے وہ گھر میں بند ہو کر رہ جاتے۔ ان کی شہروں میں دوستیاں کم کم ہی ہوتی تھیں۔ عابدہ خود چھڑی اٹھا کر مارتی رہی لیکن اس نے فارا کو کبھی مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ بھی مارے۔ اس میں فارا کے لیے ممتا سی پائی جاتی تھی۔

    عابدہ بہت خوش تھی۔ ضیا بھائی بھی بہت اچھلتے پھر رہے تھے۔ ممانی نے ضیا بھائی سے کہا تھا، ’’اس کو اس کی مرضی کی خریداری کروا لاؤ۔‘‘ اور وہ اپنی مرضی چلاتے پھر رہے تھے۔

    ’’ساڑھیاں مت خریدو۔ بہت بری لگتی ہیں۔ آخر کس قدر غرارے خریدوگی؟‘‘

    وہ بہت خوش تھے، اس لیے تھوڑا بہت اِترانے کا حق تو انہیں بھی تھا۔ وہ باقی چیزیں خریدنے دوبارہ باہر نکلے تو رات ہو چکی تھی۔ وہ مکتب پہنچی تو سات بج رہے تھے۔ بچے تو اس کی آمد سے مایوس ہوکر جا چکے تھے۔ لیکن نیم ملگجے اندھیرے میں وہ سر جھکائے جیسے ابھی تک اس کی آمد سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ زنانہ سنہری ڈائل کی نازک سی گھڑی باندھے وہ بنچ کے ایک کونے میں بیٹھا کس قدر مسخرہ سا لگ رہا تھا۔

    ’’مہمان آ گئے تھے۔ دیر ہو گئی، سوری۔‘‘ پہل اس نے ہی کی۔

    ’’اور میں سوچ رہا تھا گھڑی تو آپ نے مجھے دے دی۔ شاید وقت نہیں دیکھ سکیں۔‘‘

    اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ سر جھکائے سنہرے ڈائل کی ننھی منی گھڑی سے کھیل رہا تھا۔ اس کا سر اس قدر نیچے تھا کہ اسے پتا ہی نہیں چل سکا، وہ تمسخر فرما رہا تھا یا حسب عادت تلخ کلامی کے موڈ میں تھا۔

    ’’اندھیرا ہو گیا۔ اب کیسے پڑھیں گے؟‘‘ فارا نے خاموشی سے ہتھیار پھینک دئیے۔

    ’’پڑھیں گے کیا، ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں۔‘‘

    ’’معلوم کیوں نہیں۔ اس سال تمہیں ایف اے کا امتحان دینا ہے۔‘‘ اس نے حتمی لہجے میں کہا۔

    ’’اس سے اگلے سال بی اے کا۔ پھر اس سے اگلے سال ایم اے کا۔ میں دو ہی سالوں میں آپ کے برابر آجاؤں گا۔ یقین کیجئے میں بہت ذہین آدمی ہوں۔‘‘

    ’’ایم اے، بی اے اس طرح نہیں ہوتے سال کے سال۔ پڑھائی کرنے میں اور مٹی کھودنے میں بہت فرق ہے۔‘‘

    وہ بلا وجہ ہی اس کی برابری پر اتری تھی۔ کبھی کبھی جاگیردارانہ بیک گراؤنڈ اس پر حاوی ہو جاتی تھی، وہ شرمندہ بھی ہوئی۔ دراصل اسے ا س کی بےلگام زبان سے خوف آنے لگا تھا۔ لیکن وہ تو بےساختہ ہی مسکرا دیا۔

    اس کا خیال تھا، وہ گزشتہ روز کی طرح دولت کے بارے میں عجیب و غریب خیالات کا اظہار کرےگا۔ لیکن اس کی کھلتی ہوئی مسکراہٹ نے جیسے اس کے چاروں طرف اجالے بکھیر دئیے۔

    ’’دراصل آپ چاہتی نہیں ہیں کہ آپ کے برابر آ جاؤں۔ حالاں کہ اس کی ابتدا میں نے کر دی ہے، آپ کے برابر اس بنچ پر بیٹھ کر۔ آپ حکم دیں تو نیچے بیٹھ جاؤں۔‘‘

    اس کا جی تو چاہا اسے حکم دینے کو۔ لیکن پھر اسے لگا ا س کی تربیت سے زیادہ اس کو خود اپنی تربیت کی ضرورت تھی۔

    ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم بچے تو نہیں ہو جو نیچے بیٹھوگے۔‘‘ وہ خجل ہونے لگی تھی۔

    ’’اور ہاں کل سے تم ایف اے کی کتابیں لے آؤ۔ پڑھائی شروع کر دو۔ یہ ذہانت کے مظاہرے مجھ پر آزمانے کی بجائے کورس پر آزماؤ۔ میٹرک میں تمہارے پاس کیا تھا، سائنس کہ آرٹس؟‘‘

    ’’ہمارے سکول میں صرف آرٹس ہی پڑھایا جاتا تھا۔ ‘‘فارا نے لمحہ بھر کے لیے اس کی طرف دیکھا حالاں کہ اس لمبے فقرے کی بجائے لفظ ’’آرٹس‘‘ بھی اس قدر مکمل جواب تھا لیکن وہ باتونی آدمی ہر سیدھی اور آسان بات کو کس قدر گھما کر بیان کرتا تھا۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے استادانہ سختی اختیار کرتے کہا، ’’میں بھی تمہیں صرف آرٹس ہی پڑھا سکتی ہوں۔ ہسٹری میرا اپنا مضمون ہے۔ باقی دو بھی سیدھے سادے مضمون رکھ ڈالو۔ باقاعدہ ٹائم ٹیبل بناکر پڑھائی شروع کرنی ہے۔ کوئی ناغہ نہیں۔ کوئی کام چوری نہیں۔ میں تمہیں کامیاب انسان دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

    وہ دفعتاً اٹھ کر اندر چلی گئی۔ آسمان سے اندھیرا برسنے لگا تھا۔ کتابیں موجود بھی ہوتیں تو پڑھانا مشکل تھا اور یوں بھی غالباً اس کو پڑھانا ایک مشکل کڑی ثابت ہوگی۔

    زاہدہ کی منگنی ہوئی تھی۔ اس نے سب دوستوں کو کیتھے میں سوپ کی دعوت دی۔ باہر بارش چھم چھم برس رہی تھی۔ فارا کے دل میں بےسبب اداسی اتر آئی۔ اس نے شیشے کے نزدیک ہونے کی و جہ سے باہر کے ماحول پر آنکھیں جما دیں۔ بچے بارش میں شور مچاتے پھر رہے تھے۔ اچھے اچھے صاف کپڑوں والے پیدل چلتے لوگ گاڑی کے چھینٹوں سے خود کو کتنی مشکل سے بچاتے اپنے اپنے راستوں پر اپنی اپنی منزل کی سمت دوڑ رہے تھے۔

    اندر کسی بات پر زور سے قہقہہ پڑا۔ اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا، وہ کبھی کسی بات پر جی بھر کر خوش نہیں ہو سکتی۔ اس کے آس پاس کہیں کوئی بے ساختہ مسکراہٹ اور کھلے دل موہ لینے والے قہقہے نہیں ہیں۔ پھر اس کی ذہنی رَوبھٹکی۔ جیسے کسی خیال سے کوئی دوسرا خیال بے ساختہ ذہن میں آتا ہے۔

    ’’فارا غائب دماغی سے بیٹھی ہے۔ اس پر پھر دورہ پڑا ہے۔‘‘ لوگ ہنس رہے تھے۔

    ’’میں آتی ہوں۔‘‘ وہ دفعتاً اٹھی اور دو قدم دور کتابوں کی سب سے شان دار دکان میں گھس گئی۔

    نصاب کے ریک میں رکھی ایف اے کی کتابیں وہ ترتیب سے جمع کرتی رہی۔ جتنی ممکنہ چیزیں اس کے ذہن میں آ سکتی تھیں۔ اس نے سب خرید ڈالیں۔ بہت ساری پینسلیں، بال پین، قلم، کاغذ، کاپیاں۔ پھر ایک لفافہ خرید کر اس میں کچھ پیسے ڈالے اور تھیلا ہاتھ میں اٹھائے وہ ہنستی مسکراتی اپنے مجمعے میں واپس آ ملی۔

    ہنگامہ ابھی زندہ تھا۔ لوگ اس ہنگامے سے خوش ہوکر بھی جی لیتے ہیں، جس کی عمر عارضی اور مدت مختصر ہو اور جو موجودہ لمحے میں آپ کے سامنے سے گزر رہا ہو، اسے خوش رہنے کے لیے ٹھوس حقیقت کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسی ترازو کو ہاتھ میں پکڑے وہ محرومی سے دونوں پاٹوں کی طرف دیکھتی رہ جاتی۔ کبھی جنس کم رہ جاتی کبھی وزن۔ اسی لیے وہ ان خوشیوں سے قطعی محروم تھی، جو ان سب کو سوپ کے ایک پیالے کے عوض حاصل تھیں اور وہ سب کے سب اس پر بھاری بھرکم اصطلاحات کا بوجھ لادے ڈال رہے تھے۔

    ’’تمہیں زندگی کے سامنے ہتھیار ڈال دینے چاہئیں۔ تمہیں اپنی شکست قبول کر لینی چاہیے۔ فرار اختیار کرنے سے مسائل کے حل نہیں ملتے۔ حقیقت کا سامنا کرو۔‘‘

    گویا ان کے ہاتھ ایک تجربہ گاہ آ گئی تھی۔ بودے خیالات اور کمزور سوچوں والے لوگ اپنی تمام علمیت اس پر الٹ کر ہی سرشاری محسوس کرتے تھے۔ بڑا اچھا لگتا ہے کسی کو اس بری طرح تنقید کا نشانہ بنانا، جب وہ اپنی الجھنوں میں ڈوبا خاموشی سے آپ کو سنتا بھی رہتا ہو۔ حقیقتیں کسی کو خوشیاں نہیں دے سکتیں۔ اس وقت کی سب سے بڑی حقیقت یہ گدلے مٹیالے رنگ کا رقیق سیال ہی رہ گیا تھا۔

    ’’چلو بھئی، جس جس کو جہاں جہاں جانا ہے۔‘‘

    اپنی ذاتی ذمےداری سمجھتے ہوئے اس نے کار اور چابی دونوں سنبھال لیں۔ ایک ایک کو ان کے گھر اتارتی، وہ ان سب سے کامیاب زندگی گزارنے کے گر سیکھتی چلی آ رہی تھی۔ ہم کتنی آسانی سے لوگوں کو کچھ نہ کچھ سکھاتے رہتے ہیں۔

    ’’سنو مراد۔‘‘ اس نے برآمدے میں اپنے چھوٹے بھائی کو پکڑ لیا، ’’یہاں ایک مالی کام کرتا ہے عبدالولی۔ وہ عموماً بیک یارڈ میں ہوتا ہے نوکروں والے کوارٹر کی طرف۔ یہ کتابیں اس کو دے دینا۔‘‘

    ’’اوہو۔‘‘ عالیہ کو بےسبب ہنسی کا دورہ پڑ گیا،’’ اب تم نے تعلیم بالغاں بھی شروع کر دی۔‘‘

    ’’میری بیٹی کا دل بہت بڑا ہے۔ وہ ہمیشہ بانٹ کر کھاتی ہے۔‘‘ بڑی امّی نے کھٹی لسی والے سینے میں اسے چھپا لیا۔

    ’’اور اپنی پڑھائی۔ اپنی پڑھائی کی کوئی فکر ہے، چاہے فیل ہو جائے۔‘‘ چھوٹی امی بڑبڑائیں۔

    وہ چھے بجنے سے پہلے اپنا بستہ لے کر آموجود ہوا۔ جب تک بچے پڑھتے رہے، وہ اچھے بچوں کی طرح خاموش بیٹھا اپنی باری کا انتظار کرتا رہا۔ بچے چلے گئے تو اس نے اپنا پولی تھین کا وہ لفافہ کھول لیا جو آج ہی اسے موصول ہوا تھا۔ اس میں اس کی نئی کتابیں تھیں۔ نئی کتابوں کی خوشی اس کے چہرے پر پہلی جماعت میں پاس ہونے والے بچے کی طرح بکھری ہوئی تھی۔ اس میں ہی وہ لفافہ بھی پڑا تھا جس میں اس نے چپکے سے پیسے ڈال کر گوند سے بند کر دیا تھا۔ اس نے دیکھا لفافہ کھول لیا گیا تھا۔ اس نے غور سے نہیں دیکھا۔ لفافے میں پیسے تھے یا نہیں۔ اسے اس کی یہ خودداری بہ یک وقت اچھی بھی لگی اور بری بھی۔ جیسے ان سب چیزوں پر اس کا حق تھا۔ اس نے بغیر شکریہ ادا کیے ہر چیز اپنے اختیار میں کر لی تھی۔

    کتاب ہاتھ سے لیتے ہوئے اس کی نگاہ بےاختیار اس کے ہاتھوں کی طرف گئی۔ اس کے کپڑے اپنے باقی ماندہ قبیل کے لوگوں کی طرح کیچڑ مٹی میں اٹے ہوئے تھے لیکن ہاتھ بالکل صاف ستھرے تھے۔ ناخن صاف ستھرے ترشے ہوئے اور ان کے کونوں میں مٹی کیچڑ یا میل بھی پھنسی ہوئی نہیں تھی۔ صرف ہاتھ ہی دیکھو تو لگتا تھا کسی بڑے گھر میں پیدا ہوتا تو خوب نام کماتا۔

    ’’کیا کرتے ہیں تمہارے ابا؟‘‘ وہ اسی طرح اچانک سوال اچھال دیا کرتی تھی۔ سب کچھ دل میں سوچ کر کہیں درمیان سے فقرہ بول دیتی۔

    ’’سکول ٹیچر ہیں۔‘‘

    ’’تب بھی کہتے ہیں، پڑھائی بےکار ہے۔‘‘

    ’’تبھی تو کہتے ہیں۔‘‘ اس نے ذرا سے توقف سے سر اٹھایا۔

    ’’ان کے پڑھائے ہوئے بدشوق طالب علم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ وہ وہی ہیں، ماسٹر کے ماسٹر بلکہ اگلے سال تو وہ ریٹائر بھی ہو رہے ہیں، اسی پوسٹ سے جہاں سے انہوں نے نوکری شروع کی تھی۔‘‘

    اسے پہلی دفعہ اندازہ ہوا، دل پر گھونسا کیسے مارا جاتا ہے۔

    ’’بہرکیف۔‘‘ اس نے لمحہ بھر کے لیے دنیا کی بے رحمیوں سے آنکھیں بند رکھنا چاہیں، ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پڑھائی بند کرا دی جائے۔ کیا عمر ہے تمہاری؟‘‘

    ’’پتا نہیں۔ میرا قومی شناختی کارڈ آپ کے والد کی تحویل میں ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’پتا نہیں کیوں؟ وہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتے، اسی لیے سب کے کارڈ ضبط کر لیتے ہیں۔ میں تو خیر نیا آدمی ہوں جن کے باپ دادا بھی یہاں غلام رہے ہیں، وہ ان کے کارڈ بھی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ شاید ان کو ڈر ہے ہم لوگ کچھ چراکر بھاگ نہ جائیں حالاں کہ جو چور ہوتے ہیں، وہ سینہ زور بھی ہوتے ہیں۔ خیر آپ تو اطمینان رکھیے اور پڑھائیے۔‘‘

    ’’میرا پوچھنے سے مطلب تھا، تمہیں میٹرک کیے کتنے سال ہو گئے ہوں گے؟‘‘

    ’’دس بارہ سال۔ اب خدا کے واسطے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ تم پڑھ نہیں سکتے۔‘‘

    ’’تم پڑھ نہیں سکتے، کیوں کہ تم بک بک بہت کرتے ہو۔‘‘

    ’’نہیں نہیں پلیز۔ آپ پڑھانا نہ چھوڑئیےگا۔ میں بک بک کرنا بند کر دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا۔ کل ایک مضمون لکھ کر لانا، ’’تعلیم کی اہمیت‘‘۔ چاہے حق میں لکھو چاہے خلاف۔ مضمون مکمل ہو اور مدلل۔‘‘

    ’’مجھے انگریزی نہیں آتی۔‘‘ اس نے بے پروائی سے کہا۔

    ’’اردو میں لکھ لینا۔‘‘

    ’’میری تحریر دیکھ کر آپ پریشان ہو جائیں گی۔‘‘

    ’’نخرے مت کرو۔‘‘ اس نے جھڑکا، ’’پڑھنے آئے ہو یا ادائیں دکھانے آئے ہو۔‘‘

    فارا نے دیکھا وہ فرشتے والی کہانی کی طرح جب مسکراتا تھا چاروں طرف اجالے بکھیر دیتا تھا۔ حالاں کہ کم کم ہی مسکراتا تھا۔

    بڑی بےساختگی ہی میں وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہنس دیتا۔ پھر جب مسکراہٹ ضبط بھی کر لیتا تو اس کی احتراماً جھکی ہوئیں آنکھیں دیر تک اس فقرے کا لطف لیتی رہتیں۔

    انہی دنوں میں رضا بھائی کی شادی کی تاریخ رکھی گئی تھی۔ ان کی منگیتر گاؤں میں تھی۔ بی اے کرنے کے بعد مزید ڈگریاں حاصل کرنے کا شوق نہ ہونے کی وجہ سے وہ بڑی امی کی تحویل میں چلی گئی تھی۔ اسے شو بزنس سے بے حد دلچسپی تھی اور ہیروئن بننے کی بچپن سے خواہش تھی لیکن باوجود ہر طرح کی آزاد خیالی کے بڑی امی نے ابھی تک اس شوق سے کمپرومائز نہیں کیا۔ گو وہ ہر روز کا ڈراما بڑے اہتمام سے دیکھتیں، ہر کام کرنے والی فنکارہ کا نام بھی ان کو زبانی یاد ہوتا تھا لیکن بینا کو ایک آدھ ڈرامے میں چھوٹا موٹا شوقیہ رول کرنے کے بعدقطعی اجازت نہیں ملی۔ حالاں کہ اس نے ایکٹنگ بھی کوئی خاص نہیں کی اور اس کا رول بھی قطعی غیر اہم سا تھا، اس کے باوجود اسے کس قدر ملال رہا کہ چھوٹی سکرین نے ایک گنج ہائے گراں مایہ ضائع کر دیا۔

    اس خاندان میں مردوں کو ڈگریاں اکٹھی کرنے کا بےحد شوق تھا۔ جیسے خواتین سونا جمع کرتی تھیں، لڑکے دنیا کے چپے چپے سے ڈگریاں لے کر آ رہے تھے۔ لہٰذا رضا بھائی بھی جب تک خاندانی رسومات کو مدنظر رکھتے ڈگریاں لیتے رہے، بینا مختلف کورسز کرتی رہی۔ شارٹ ہینڈ کورس، فرنچ سیکھنے اور انٹیرئیر ڈیکوریشن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اپنی شادی کا انتظار کرنے لگی۔ لہٰذا رضا بھائی جب لاء کی ممکنہ ڈگریاں لے کر واپس آئے تو خاندان کے باقی ماندہ افراد کی طرح یہ ڈگریاں بھی کافور کے صندوق میں بند کر کے رکھ دی گئیں اور اپنی جاگیر پر وہ اسی ٹھسے سے آ بیٹھے۔

    فارا نے دیکھا ان کی آنکھوں میں ایسی ہی پر غرور رعونت تھی جو ان کے پڑدادا سے انہیں ورثے میں ملی تھی۔ وہ بڑی سہولت سے انسانوں کو ٹھوکر مار کر بات کرتے۔ کسی بھی معمولی قصور پر یا بالکل ہی بے قصور وہ اپنے نوکروں کو بند کروا دیتے اور بہ ظاہر بڑی حساس نظر آنے والی بینا، ناخنوں پر لگی پالش پھونکیں مار مارکر سکھاتی رہتی، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

    خاندان کی لڑکیوں کو عموماً گھر میں رکھے فرنیچر اور دیوار پر لٹکی تصویروں سے ذرا ہی زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ بس ان کا خیال رکھا جائے۔ یہ خراب نہ ہو جائیں۔ دل میں کیسے دراڑیں پڑتی ہیں اور شیشہ کیسے چکناچور ہوتا ہے، ان کو جاننے کی ضرورت نہ تھی۔ ان کی ذاتی رائے، ذہنی آزادی اور اس قسم کی دیگر بکواس تو بالکل بےمعنی اور لغو بات تھی۔ عورتوں کو ان کے منصب سے گمراہ کر کے بغاوت کے راستے پر لے جانے کی کوشش۔

    انہیں اپنی بیوی اور فارا کے مراسم پسند نہیں تھے لیکن ابا کا خاندان میں اہم مقام ہونے کی وجہ سے ان کے اعتراضات بےمعنی سے تھے۔ خود رضا بھائی ہمہ صفت موصوف تھے۔ آغا جی کو پسند بھی بہت تھے۔ اس قدر exotic accent کے ساتھ منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولتے۔ وہ بہترین ٹوسٹ تجویز کر سکتے تھے۔ ایک سے ایک اعلیٰ کاک ٹیل پہچان لیتے اور کھیتوں میں چلتے مزارعوں کو پنجابی میں منہ بھر بھر کر گالیاں بھی دے ڈالتے۔

    ان میں تو خیر تھیں ہی بے شمار خوبیاں۔ وہ بہت سال بعد آئے تھے مگر فارا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ پتا نہیں کس نے اجازت دی تھی اسے اس قدر منہ زوری دکھانے کی اور من مانیاں کرنے کی۔ وہ شادی میں شریک ہونے آئی تھی، مہمان تھی۔ اس کے ساتھ کی عابدہ خوف زدہ ہو کے گھر بیٹھی رہتی۔ وہ ہر اصول پر قانون کی نفی کرتی، لوگوں کی لاشوں سے دندناتی گزر جاتی۔

    ان کا خیال تھا، اس قدر بگڑی اور لاڈلی فارا کو جوتے مار کر درست کر دینا چاہیے۔ جب بھی اس کا خیال آتا اس کی ڈھنڈیا پڑتی۔ وہ کسی کمّی کمین کے گھر روٹی پر دال رکھے چوکڑی مارے کھاتی ملتی۔ پتا نہیں کیوں تھی وہ اس قدر ابنارمل؟ رضا بھائی اسے گھور گھور کر اپنی آنکھیں تھکا ڈالتے لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوتا۔ پھر عابدہ اسے کہنی مارتی۔ اسے رضا بھائی کی خوں خوار نظروں سے بچائے بچائے پھرتی۔ وہ دیکھ رہے تھے، وہ ان کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھ رہی تھی۔ اس کے اپنے پروگرام تھے۔ نہ کسی کی مرضی معلوم کرنی نہ اجازت لینی۔

    ’’میں تو اس قدر افراتفری میں آئی ہوں کہ یونیورسٹی اطلاع بھی نہ دے سکی۔ چلو آؤ ڈاک خانے خط پوسٹ کر آئیں۔‘‘

    ’’چلو آؤ رجب کی بیوی کے پاس چلیں۔ اس نے اتنا اچھا چنے کا ساگ بنایا ہے۔‘‘

    ’’چلو چلو کہیں چلو۔‘‘ وہ عابدہ کے سہمنے سے فکرمند ہی نہ ہوتی۔

    اور کس قدر عزت اچھالنے والا تصور، ’’چلو کسّی میں پاؤں دے کر بیٹھیں۔‘‘

    ’’ارے چھوڑو بھئی فارا کا شکوہ!‘‘ بڑی امی بے اعتنائی سے کہتیں، ’’وہ تو بےچاری فقیر ہے۔ اللہ لوک ہے۔‘‘

    اس کو بےچاری بینا کی فکر لاحق تھی۔ اس کا کیا بنےگا۔ لیکن خود بینا کو اپنی زندگی کی مطلق فکر نہیں تھی۔ وہ عورتوں کے درمیان پلی بڑھی تھی۔ وہ سارے داؤ پیچ، سارے گر آزمانا جانتی تھی۔ ہارنا اس کا مقدّر نہیں تھا۔

    وہ ہفتہ بھر گاؤں میں گزار کر واپس آئی تو صحت و شادابی اپنے چہرے پر سمیٹ لائی تھی۔ حالاں کہ گاؤں میں اس کا سارا وقت حالتِ جنگ ہی میں گزرا تھا۔ پہلا دن اس نے سو سو کر شادی کے رت جگوں کی تھکن اتاری۔ اگلے دن ہی اس نے یونیورسٹی میں ہونے والی ساری پڑھائی کے ازالے کے لیے ایک دن بھی ضائع نہ کرنے کا سوچتے گاڑی نکالی، اس کا پہلا ہی سامنا مالی سے ہو گیا۔

    ’’ارے!‘‘ اس کے منہ سے بےساختہ نکلا، ’’ تمہیں تو میں بھول ہی گئی تھی۔‘‘

    اور یہ حقیقت تھی ان آٹھ دنوں میں لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے ذہن میں اس کی تعلیم کے نقصان کا خیال نہیں آیا تھا۔ وہ جو یونیورسٹی اور بورڈ کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر ہر سال ایک ڈگری لینے کے درپے تھا۔

    ’’اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے آپ سے۔ میں ہر شام آپ کا انتظار کرتا رہا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘ اس نے جھڑک کر کہا، ’’تمہیں پتا نہیں تھا سب گاؤں گئے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’میں سب کا نہیں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘

    وہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے ٹھٹک سی گئی۔ اسے کوئی بات قابل اعتراض لگی تھی۔ لہجہ،الفاظ کا چناؤ یا برہمی کے اظہار کا حق؟ ایک مرتبہ عابدہ نے کہا تھا، اس کی آنکھوں میں ایک گستاخی ہے، وہ احتراماً جھکنا نہیں جانتیں۔

    ’’پاگل سا تو ہے بےچارہ۔‘‘ اس نے اس دن اس کو اور آج خود کو تسلی دی تھی۔ بغیر سوچے سمجھے منہ کھول دیتا ہے۔ ہمیں عادت نہیں ہے نوکروں کی اس منہ زوری کی، اس لیے چبھتی ہے ورنہ صرف جی حضوری کرنا ہی تو اصلی خدمت نہیں ہے۔

    ’’اچھا چلو ناراضگی تھوک دو۔‘‘ اس نے جیسے پیچھا چھڑانے والے انداز میں کہا تھا۔

    ’’مضمون تو لکھ لیا ہے ناں تم نے۔ کیا عنوان بتایا تھا بھلا میں نے؟‘‘ وہ غائب دماغی سے گاڑی نکال کر لے گئی۔

    اور اچھا ہی ہوا، وہ چار پہیوں پر سوار تھی جو لمحہ بھر میں ہی اس مشکل گھڑی سے اسے نکال لے گئے۔ اس پورے ہفتے میں اسے رضا بھائی سے وہ خوف محسوس نہیں ہوا تھا، جو ایک سیکنڈ میں مالی بے چارے نے اس پر طاری کر دیا تھا۔

    وہ بڑی فراخ دلی سے اس کا نفسیاتی تجزیہ کرنے اور خطائیں معاف کرنے کے موڈ میں آ کر بھی ناراض ہونے اور منہ چلانے کا حق اسے دینے پر آمادہ نہیں تھی۔

    ’’چلو خیر۔‘‘ شام میں اس نے بچوں کو دیر تک پڑھایا تھا، ’’کبھی اصلاح اور درستی کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے۔‘‘ پھر اس نے بچوں کو پڑھاتے دیر تک اس کو صبر آزما قسم کے انتظار میں بٹھائے رکھا۔ پھر خشک لہجے میں خالص استادانہ انداز میں اس کی بازپرس شروع کر دی۔

    ’’ہاں دکھاؤ۔ کہاں ہے مضمون؟‘‘

    ’’نہیں لکھا میں نے۔‘‘ اس کا روٹھا لہجہ اس کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔

    ’’نہیں لکھا تو منہ اٹھاکر کیا کرنے چلے آئے ہو۔ دوڑ جاؤ یہاں سے۔‘‘ اس نے سرخ پینسل ہاتھ گھما کر دور لان میں اچھال دی اور ایک لمحہ رکے بغیر اٹھ کر اندر آ گئی۔

    کتنی دیر تک مارے غصّے کے خون کی حدت ا س کے چہرے پر چمکتی رہی۔ وہ جو امی وغیرہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ منہ کو آنے لگتے ہیں۔ یہ غلط بات ہے۔ اس نے خود کو فرصت سے نصیحت کی۔ وہ عموماً لوگوں کو یہ اختیار دے ڈالتی تھی کہ وہ اس کے سر پر چڑھ کر کر دندنائیں۔ اس کے دوست، اس کے خاندان والے اور یہاں تک کہ اب شاگرد حضرات بھی۔ کتنی دیر وہ اپنی اس کمزوری پر خود سے الجھتی رہی۔ پھر الجھ الجھ کر جیسے ساری گتھیاں سلجھ گئیں۔

    غلطی اس کی اپنی تھی۔ وہ شخص جو اس دنیا میں دوڑ کر آگے نکلنے کا خواہش مند ہو۔ آپ اس کی انگلی پکڑ لیں اور اسے چلائیں بھی نہ تو اتنا واویلا تو پھر اس کا حق بن ہی جاتا ہے۔ اس کے لیے تو ہر دن کا نقصان بڑا نقصان ہے اور وہ اس قدر ذہین ضرور ہے کہ ان آٹھ دس دنوں میں آدھا چوتھائی نہیں تو کچھ کورس تو مکمل کر ہی ڈالتا۔

    کیا ضرورت تھی ایک غریب آدمی سے اس قدر پیڈسٹل سے بات کرنے کی۔ مقابلہ کرنے کے لیے دنیا پڑی ہے، ذرا یہ طنطنہ رضا بھائی کو دکھایا ہوتا۔ وہ غریب آدمی جو پہلے ہی ٹھوکروں میں پڑا ہوا ہے، اسے مزید دھتکارنے سے حاصل۔ اس نے بھی کیا کیا۔ اپنے طبقے کا مخصوص نمائندہ بن کر اپنے زیر دست لوگوں پر ہی آنکھیں نکالیں۔

    اگلے روز وہ نہایت تابعداری سے بچوں کو فارغ کر کے بنچ پر آبیٹھی۔ اسے اندازہ تھا اور وہ درست بھی نکلا۔ وہ رات تک پڑھنے نہیں آیا۔ اسے غصے کی بجائے ہنسی آ گئی۔ کیا بچوں والا نخرہ تھا اس کا بھی۔

    ’’چلو بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں آٹھ دن ہم بھی۔ دیکھیں کیسی کوفت ہوتی ہے۔‘‘ اس نے اگلے دن پھر اسی مستعدی سے بنچ سنبھالتے سوچا۔ ابھی وہ بچوں میں منہمک ہی تھی کہ وہ چپ چاپ اس کے برابر آ بیٹھا۔ اس نے یونہی گردن گھماکر اس کی طرف دیکھا۔ وہ ہاتھ گود میں دھرے نہایت فرماں برداری سے سر جھکائے بیٹھا تھا لیکن اس کا چہرہ شرارت سے چمک رہا تھا۔

    ’’تو بدلہ لے لیا تم نے۔ اچھا کیا۔ شاباش۔ ہونہار شاگرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ و ہ بچوں سے فارغ ہوتے ہی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

    ’’بدلہ ایسے لیا جاتا ہے۔ آپ تو آدھا گھنٹہ ہی بیٹھ کر اٹھ گئی تھیں۔ میں تو رات کے بارہ بجے تک بیٹھا رہتا تھا۔‘‘

    ’’بڑے عقل والے ہو۔ تمہارا خیال تھا، میں بارہ بجے آؤں گی۔‘‘

    ’’جی نہیں۔ اتنا خوش فہم بھی نہیں ہوں۔‘‘

    ’’دھم۔‘‘ اس کے دل پر کوئی چیز پوری ضرب سے آکر لگی۔

    ’’یہ مضمون۔‘‘ مزید پکڑ دھکڑ میں مبتلا ہونے سے پہلے اس نے اپنے صفحات اس کے سامنے کر دئیے۔

    ’’تم نے لکھا ہے یہ؟ تمہاری لکھائی ہے؟‘‘ وہ ہکا بکا رہ گئی۔

    ’’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا آپ پریشان ہو جائیں گی میری لکھائی دیکھ کر۔‘‘

    ’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘ وہ گڑبڑائی، ’’میں سمجھی تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ بڑی پختہ تحریر ہے تمہاری۔ ایسے تو میری ابا لکھتے ہیں۔‘‘

    ’’میرے بھی ایک ابا ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے اور انہوں نے بھی مجھے لکھنا سکھایا ہے۔‘‘

    ’’مضمون میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یونہی انٹ شنٹ لکھاہے۔‘‘ وہ صفحوں میں غرق ہو گئی۔

    ’’اس کا کیا مطلب ہے؟بنچ پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے سے۔‘‘ وہ مضمون سے آنکھیں اٹھاکر گھورنے لگی۔

    ’’آپ بہت ڈانٹتی ہیں۔ اس طرح ڈانٹیں گی تو میں نہیں پڑھوں گا آپ سے۔‘‘ اس نے اس کی گھورتی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ وہ لمحہ بھر کو لرز گئی۔

    ’’یہ تو تم بڑا احسان کرو گے مجھ پر۔‘‘ وہ اگلے صفحے میں محو ہو گئی۔

    ’’مضمون اتنے طویل نہیں ہوتے۔ بس دو تین صفحے کافی ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’میرا مضمون دو تین صفحوں میں بیان نہیں ہوتا۔ مجھے داستان چاہیے سنانے کے لیے۔‘‘

    اس نے دفعتاً پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ درختوں کے پیچھے غروب ہوتے سورج کو بڑے اہتمام سے دیکھ رہا تھا۔ یہ بات اتنی ہلکی پھلکی نہیں تھی، اسے خود بھی اندازہ تھا اور یوں بےنیاز بن کر وہ خود کو احمق بھی ثابت نہیں کر پا رہا تھا۔

    اس کو اس کی کلائی پر زور سے پینسل مار کر اس کی توجہ حاصل کرنی پڑی، ’’کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں تمہاری بات نہیں سمجھی۔‘‘

    ’’مجھے تو پہلے ہی شک تھا۔ آپ لڑکی تو بہت اچھی ہیں مگر سمجھ دار ہرگز نہیں۔‘‘

    وہ اب نیچے گھاس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیسے اب بھی اس نے کوئی معنی خیز بات نہیں کی تھی۔

    اس نے اکتا کر اسے جھنجھوڑ ڈالا، ’’بند کرو یہ ڈرامہ بازی۔ پتا ہے تمہیں، کیا بک رہے ہو تم۔‘‘

    ’’ہاں، حالاں کہ میں جنون میں ہرگز نہیں ہوں۔‘‘

    وہ اب آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا نہ گھاس کی طرف۔ سیدھا اس کی آنکھوں میں جھانکتے، اس نے دیکھا جنون کے آثار اس کے چہرے سے ہی نہیں، آنکھوں سے بھی برس رہے تھے۔ باوجود پاگل پن سے انکاری ہونے کے۔

    ’’اپنی طرف سے تو اظہار عشق کر رہے ہو۔ اپنی اوقات دیکھی ہے تم نے۔‘‘ اتنے سخت الفاظ کے ہوتے بھی اس نے اب کے رسان سے پوچھا تھا۔

    ’’میرا خیال تھا، آپ اس فرق پر یقین نہیں رکھتیں۔‘‘ اس نے بغیر آتش پا ہوئے اسی کے سے ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا تھا، ’’اور یوں بھی حیثیتوں کا یہ فرق خدا کی دین ہے۔ اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں۔‘‘

    فارا نے اسے حیرت سے دیکھا۔ عام حالت میں تو وہ بپھرا رہتا تھا۔ لیکن اس قدر توہین آمیز الفاظ کے باوجود اس نے اپنی کوئی ہتک محسوس نہیں کی تھی۔

    ’’صرف یہی ہے ناں کہ مالی ہوں اور بس۔‘‘ کس قدر بے کسی تھی اس کی آواز میں۔

    ’’مالی ہونے کو چھوڑو۔‘‘ وہ دفعتاً اس معاشی تفاوت سے خوف زدہ ہو گئی۔ ’’اور بھی بہت سے فرق ہیں۔ ابھی تو تم نے میٹرک کیا ہے۔ ابھی تم کو بہت آگے تک جانا ہے۔ اگر اسی طرح پھسلتے رہے راستے میں تو عمر بھر منزل تک نہیں پہنچ سکوگے۔ سنا تم نے۔ تمہیں ایم اے کرنا ہے ہر حال میں۔‘‘

    ’’مالی کو آپ نے چھوڑ ہی دیا تو فرق کہاں رہ گیا۔ رہا ایم اے۔ تو ایک دن میں وہ بھی کر لوں گا اور کیا واقعی ڈگریاں آدمی اس لیے لیتا ہے کہ وقت بے وقت ان پر غرور کیا کرے۔ مجھے علم ہوتا تو پہلے ہی کر آتا کہ۔۔۔ یہی شرط ہے وصل لیلیٰ کے لیے۔‘‘

    ’’شٹ اَپ!‘‘ وہ اپنی ساری نرم خوئی چھوڑ کر ہتھے سے اکھڑ گئی، ’’تم بہت بےہودہ آدمی ہو۔ کون سکھاتا ہے تمہیں ایسے گھٹیا گھٹیا اشعار۔‘‘

    ’’خدا سے ڈرئیے بی بی۔‘‘ اس نے زبان دانتوں تلے داب لی، ’’استادوں کے اشعار کو گھٹیا سمجھنے والے میں اور آپ کون۔‘‘

    ’’اصل میں شعر گھٹیا نہیں ہوتے۔۔۔‘‘

    ’’پڑھنے والے گھٹیا ہوتے ہیں۔ دیکھئے میں نے آپ کا فقرہ مکمل کر کے آپ کو کس زحمت سے بچا لیا۔ تشریف رکھیے۔ پلیز۔ آپ ناراض ہوکر چلی گئیں تو میں اپنی بات کی وضاحت نہیں کر سکوں گا۔‘‘

    ’’اس خوش فہمی میں مت رہنا۔ میں کہیں نہیں جا رہی۔‘‘ وہ جاتے جاتے تڑخ کر بولی، ’’میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں اور میں نے تہیہ کر لیا ہے تمہیں پڑھا کر دم لوں گی۔ میں اتنی آسانی سے ہار جاتی تو آج اپنے گھر والوں سے بھی ہار گئی ہوتی۔ ہر روز ایک سبق یاد کر کے آؤ اور مجھے سناؤ۔ رات بھر پڑھا کرو تاکہ خالی ذہن میں جو خناس بھر گیا ہے، وہ نکل جائے۔ میں جا رہی ہوں، اس لیے نہیں کہ تم سے خوف زدہ ہو گئی ہوں۔ میرا اپنا ٹیسٹ ہے کل۔‘‘

    ’’بات سنیے۔‘‘ اس نے اس کو پلٹ کر جاتے جاتے روک کر آواز دی۔

    ‘‘ہاں؟ اب کیا مصیبت پڑ گئی ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ پھر فراخ دلی سے مسکرایا، ’’آپ میری باتوں کو سنجیدگی سے مت لیجئےگا۔ میں آپ کا حوصلہ آزما رہا تھا۔ میں آپ کی تعریف کرنا تو نہیں چاہتا لیکن آپ معمولی لڑکی نہیں ہیں۔ تھینک یو ویری مچ۔‘‘

    وہ کتاب میز پر رکھے، کرسی پر بیٹھے، خالی خالی آنکھوں سے نیچے دیکھتی رہی۔ کتنی دیر تک باربار پڑھنے کے باوجود اسے لگا، اس کا ذہن کچھ نہیں سمجھ رہا، وہ محض لفظوں پر نگاہیں گھما رہی ہے۔

    کبھی کوئی اچھا شخص آپ کو کہاں ملتا ہے جہاں اسے بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ بےساختگی میں ادا کیے تیز نوکیلے فقرے، مہربان چہرے پر نرمی سے پھیلی مسکراہٹ۔ لیکن وہ وہ نہیں جو دراصل اسے ہونا چاہیے۔ کتنی عجیب بات ہے، اس کے خاندان میں اس قدر بھاری بھرکم ڈگریوں سے لدے وجود میں ایک بھی ایسی بے ساختہ ذہانت نہیں ہے۔

    کاش وہ پڑھ لکھ جائے۔ وہاں اس آخری حد تک جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔ اس نے بجلی بجھاکر بستر پر اوندھے لیٹے سوچا حالاں کہ اس سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوگا۔ لیکن اس قدر بھی بہت ہے کہ ایک اچھا آدمی اپنے صحیح مقام تک پہنچ جائے اور اتنا تو ہو گا کہ ایک بڑا ذہن بکھرنے سے بچ جائےگا۔

    اسے رات بھر نیند نہیں آئی۔ پوری کوشش کے باوجود اس کے اعصاب شل رہے۔ کروٹیں بدل بدل کر بھی وہ سو نہیں سکی۔ گو اپنی شخصیت کی کمزوری اور بودا پن اسے بھلا بھی نہیں لگا۔ حالاں کہ یہ کوئی بڑی کمزوری بھی نہیں۔ کبھی کوئی شخص آپ کو اچھا لگتا ہے اور یہ اچھا لگنا کوئی ایسی معیوب بات بھی نہیں کہ آپ اس طرح ڈسٹرب ہو جائیں۔

    ایک دن سب کچھ نارمل اور ٹھیک ٹھاک ہو جاتا ہے۔ پھر آپ اپنی حماقتوں پر بیٹھ کر ہنستے بھی ہیں۔ پھر انجام کار نیند کی تمام تر کوششوں سے مایوس ہوکر اس نے سونے کا ارادہ قطعی ترک کر دیا۔ کوئی ضروری بھی نہیں کہ ہر روز سویا ہی جائے۔ اس نے اٹھ کر کھڑکی کے پٹ پورے کھول دئیے۔ تازہ ہوا اور چاند کی پگھلی ہوئی چاندنی تھکے ہوئے ذہن کو ضرور راحت دینے کا سبب بنےگی۔

    لان کی مدھم روشنی میں اس کی نظر آغا پر پڑی۔ وہ دونوں ہاتھ پیچھے باندھے کسی آدمی سے محوِگفتگو تھے۔ بات کرتے کرتے وہ ٹہل کر دوسری طرف چلے گئے اور جب وہ بلب کی مدھم روشنی میں واپس آتے دکھائی دئیے تو وہ تنہا ہی تھے۔

    لمحہ بھر کر وہ لرز گئی۔ یہ آغا ہی تھے ناں؟ا س نے دیوار پر خاموشی سے حرکت کرتی سوئیوں کی طرف دیکھا۔ اتنی رات گئے، جب تمام افراد اپنی اپنی نیند اور اپنی اپنی مرضی کے خواب دیکھ رہے تھے، آغا کو کیا پریشانی ہو سکتی تھی بھلا!

    وہ تیزی سے چپل پاؤں میں ڈال کر باہر نکل آئی۔ سیڑھیاں اترتی وہ لان میں گئی تو آغا کہیں بھی نہیں تھے۔ اس نے چاروں طرف نگاہ ڈالی اور ابھی مایوس ہو کر پلٹ ہی رہی تھی کہ کسی خوش کن خیال نے جیسے اس کے پاؤں روک لیے۔ ہاں وہ مالی ہی تھا اور بڑی خاموشی سے بلب کی مدھم روشنی میں کتاب کھولے سبق یاد کرنے میں گم تھا۔ وہ اس کے سر پر جا کھڑی ہوئی اور وہ تب بھی نہیں چونکا۔ اس کا مطلب، وہ اس کی وہاں موجودگی سے بےخبر نہیں تھا۔

    ’’ابھی تم تھے آغا کے ساتھ؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے کتاب سے دھیان ہٹائے بغیر ہی جواب دیا۔

    ’’پھر کون تھا؟‘‘

    ’’معلوم نہیں۔‘‘ وہ اس وقت کسی چونچالی کے موڈ میں نہیں تھا اور اس سے تو شاید گفتگو کا بھی روادار نہیں ہو رہا تھا۔ تبھی اس نے سر اٹھا کر ایک برہم سی نظر اس پر ڈالی۔

    ’’اس وقت جب ساری دنیا سو رہی ہے، آپ کہاں پھر رہی ہیں؟‘‘

    وہ جھنجلا گئی۔ اس کی بات مان کر رات بھر جاگ کر پڑھنے کی شاباش دینے کا ارادہ ہی اس نے بدل ڈالا۔ بھاڑ میں جائے۔ اس کا مزاج ہمیشہ شاہ زادوں والا ہی ملا۔

    آغا عموماً رات کو دیر تک پڑھتے یا کام کرتے رہتے تھے اور پھر کسی کو تنگ کرنے کی بجائے خود ہی چائے وغیرہ بنا لیا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ تازہ بنی چائے پسند کرتے تھے اور اپنے کمرے میں بھی انہوں نے کبھی چائے کے سلسلے کا پھیلاوا نہیں بکھیرا تھا۔ اس نے کچن میں جھانکا۔ گہرے سکوت میں ڈوبا کچن جیسے کسی نے اسے برسوں سے چھوا بھی نہیں تھا۔ بےساختگی میں ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی آغا کے کمرے کی طرف گئی۔ بڑی احتیاط سے ہینڈل گھماکر اس نے ان کے کمرے میں جھانکا، وہ کروٹ لیے گہری نیند سو رہے تھے۔

    ’’میں نے رات آپ کو دیکھا تھا آغا۔ آپ لان میں ٹہل رہے تھے۔ میں نے سوچا، آپ کی طبیعت خراب ہے۔ میں آپ کے پیچھے آئی تو آپ وہاں نہیں تھے بلکہ آپ کہیں بھی نہیں تھے۔‘‘

    ان کی پیالی میں چائے انڈیلتے اس نے لمحہ بھر کے لیے ان کا چہرہ دیکھا۔ وہ ابھی تک تفکرات کے جال سے اٹا ہوا تھا۔

    ’’رات میں؟ کس وقت؟ کل تو میں بہت جلدی سو گیا تھا۔‘‘

    انہوں نے اپنے سامنے اخبار پھیلا رکھا تھا۔ وہ صرف پیالی سے گھونٹ بھرنے کے لیے سامنے سے اخبار ہٹاتے تو پریشانی سے پرچہرہ اس کے سامنے آ جاتا۔ پھر وہ اخبار کی اوٹ میں ہو جاتے۔

    اس کو واہموں کا عارضہ نہیں تھا۔ آغا کو سوتے میں چلنے کی بیماری نہیں تھی۔ ایک تیسری شہادت بھی موجود تھی۔ لیکن کیا ضرورت تھی گواہیاں لا کر باپ کو جھوٹا بنانے کی۔

    پھر وہ لوگوں کی فوج اپنے ہمراہ لیے، موبائیل کان سے لگائے، نقرئی رنگ کی چمکتی جیپ میں بیٹھ کر کاموں پر روانہ ہوئے، تو ان کا یہ خالص جاگیردارانہ انداز ان سے میچ کھاتا نہیں لگا۔ ان دنوں سیشن ہو رہا تھا اور وہ بہت مصروف نظر آتے تھے۔

    اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔ رضا بھائی اپنی قیامتوں سمیت اس شہر والے گھر میں بھی آموجود ہوں گے۔ وہ بینا باجی کو لے کر معلوم نہیں کہاں کی تفریح کے لیے نکلے تھے۔ یونہی راستے میں آغا کو سلام کرنے اتر گئے۔ آغا کا یہ گھر خاندان بھر کے لیے درباربنا ہوا تھا۔ مجال ہے جو کوئی در پر حاضری دئیے بغیر نکل جائے۔

    انہوں نے اسے بنچ پر مالی کے برابر بیٹھ کر اسے پڑھاتے دیکھ لیا۔ فوری طور پر اس کی طلبی ہوئی۔ وہ اپنے آپے میں نہیں تھے۔ پتا نہیں انہوں نے ایسی کیا انہونی دیکھ لی تھی کہ انہیں اپنی آنکھوں پر اعتبار جاتا رہا۔

    ’’کیا تم نے قسم ہی کھا لی ہے، دنیا بھر کی ہر چھچھوری حرکت کر ڈالنے کی۔ کس نے کہا ہے تم سے ان نیچ لوگوں کے درمیان بیٹھ کر ان کے برابر آ جاؤ۔‘‘

    ’’کسی نے نہیں کہا رضا بھائی۔‘‘ اس نے سکون سے کہا، ’’میں اپنے معاملات میں خود مختار ہوں۔ آپ اپنا رعب بینا باجی تک رکھیے اور نوٹ کر لیجئے، میں اس قسم کی زبان کی عادی نہیں ہوں۔‘‘

    رضا بھائی تلملاتے پھرے۔

    ’’دیکھا، کیسے بدتمیزی کرتی ہے یہ۔ بہت سر چڑھ گئی ہے۔‘‘ چھوٹی امی بڑبڑائیں۔

    انہیں رضا بھائی جیسے لوگ بہت پسند تھے۔ فاصلے رکھنے والے۔ اپنا مرتبہ پہچان کر دوسروں سے ان کی حیثیت کے مطابق بات کرنے والے۔ لہٰذا ان کی ہاں میں ہاں ملانا وہ اپنا فرض سمجھتی تھیں۔

    ’’اور اس کے باپ سے تو بات کرو۔ کیسی ایک سے ایک دلیل موجود ہے، بیٹی کے حق میں۔‘‘

    آغا کمرے کے وسط میں ٹہل رہے تھے۔ وہ اس وقت خود کو خاندان کے کسی حقیر معاملے میں الجھانے کے موڈ میں نہیں تھے۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے دونوں ہاتھ پشت پر رکھے، چھوٹی امی اور رضا بھائی کی شکایت بہت سکون سے سنتے رہے، پھر وہ ٹھہر گئے۔ باری باری انہوں نے دونوں کی طرف ایک قہر بھری نظر ڈالی۔

    ’’اتنی سی لڑکی کے خلاف تم لوگ ایسے شکایتیں لے کر آئے ہو جیسے دشمن ملک کے لشکر نے حملہ کر دیا ہے۔ ہر شخص اپنی جوانی میں ایسے ہی انقلابی خیالات رکھتا ہے۔ اگر آپ نہیں رکھتے رضا میاں تو یہ آپ کی کند ذہنی ہے۔‘‘

    اس کے بعد انہوں نے اپنے کمرے کا دروازہ پاٹوں پاٹ کھول دیا، جس کا مطلب تھا اب آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔

    اس ساری بحث و تمحیص کے باوجود رات میں اس کی طلبی ہوئی۔ چھوٹی امّی نے آموختہ دہرایا اور اپنے برے بھلے انجام کی ذمےداری خود اسی پر عائد ہونے کی دھمکی بھی دی۔

    ’’کیا بات ہے۔ آج چراغ بجھے بجھے سے ہیں۔‘‘ کتنے دن سے وہ تابعداری کا عہد نبھا رہا تھا۔ وہ آ کر بیٹھی تو اس کی زبان پھر کھجلانے لگی۔

    ’’چپ چاپ بیٹھو۔ ایک تو تم وقت بہت ضائع کرتے ہو۔‘‘

    اس نے اس کی ڈپٹ کا کوئی اثر نہیں لیا۔‘‘ کسی نے کچھ کہہ دیا ہے؟‘‘

    ’’اگر میں کہوں ہاں کہہ دیا ہے، تو تم کیا بگاڑ لوگے اس کا؟‘‘ وہ اس سے لڑنے پر تل گئی۔

    ’’بگاڑ تو بہت کچھ سکتا ہوں۔ حلیہ بگاڑ سکتا ہوں۔ اب اس کا انحصار آپ پر ہے۔ ہو سکتا ہے بگاڑنا چاہوں، بگاڑ بھی لوں اور آپ بگاڑنے نہ دیں۔‘‘

    ’’بڑے ہیرو بنتے ہو۔ خدا تمہیں بولنے کا بہانہ دے۔‘‘ اس نے اس کے یک لخت سنجیدہ ہوتے چہرے سے نظریں چرا لیں۔

    ’’لاؤ دکھاؤ کل کا کام۔‘‘

    ’’کس نے کہا ہے؟ ہوں؟ اور کیا کہا ہے؟ اس قدر ٹالنے سے لگتا ہے، بات ضرور میری بابت ہے۔‘‘

    اس کے ہاتھ سے اس کی کاپیاں چھوٹ کر نیچے گر گئیں۔ یہ کس قسم کی مخلوق ہے۔ بلا ہے یا بھوت۔

    ’’بات دراصل یہ ہے بی بی! کہ آپ دکھ اٹھاتی ہیں کیوں کہ آپ باقی لوگوں سے مختلف ہیں حالاں کہ ایک دن آپ بھی اپنے ٹائپ کی طرف لوٹ جائیں گی۔ میں اپنی چشم بینا سے دیکھ رہا ہوں ایک موٹی۔۔۔ بھدی سی چمکیلے کپڑوں والی جاگیردارنی، حقارت سے لوگوں کو جھڑکتی، تحقیر سے پیش آتی، نفرتیں پھیلاتی۔‘‘

    ’’اونہہ! تم مجھے کیا جانتے ہو؟‘‘

    ’’چلئے چھوڑئیے، میں آپ کو چیلنج نہیں کرتا کیوں کہ آپ ہار جائیں گی اور میں نہیں چاہتا آپ ہاریں۔ کتابیں بند کر دیجئے اور بتائیے کیا مسئلہ ہے؟‘‘

    ’’کتابیں بند مت کرو ولی۔‘‘ اس نے خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھ، ’’وہ تمہیں ماردیں گے۔‘‘

    اس نے اس کی بھیگی بھیگی آنکھوں میں لمحہ بھر کے لیے جھانکا۔

    ’’میری فکر مت کیجئے۔ میں موت سے کھیلنے کا عادی ہوں۔ آپ صرف اپنا دھیان رکھیے۔‘‘

    اس نے آنسو پونچھ لیے۔ اب وہ کیسے سمجھائے کسی کو۔ اس تفاوت کا اسے خود بھی اچھی طرح احساس ہے۔ وہ اس کے برابر کا نہیں ہے۔ لیکن وہ اس کا بہت عجیب سا دوست تھا جس کے قریب بیٹھ کر سارے دکھ خود بخود جھڑنے لگتے تھے۔

    رات اس نے آغا کو چھوٹی امی سے کہتے سنا تھا۔

    ’’میں خود زمانۂ طالب علمی میں ایسے ہی خیالات رکھتا تھا بلکہ میں تو باقاعدہ کمیونسٹ ہوتا تھا۔ اپنے باپ کے نظریات کے خلاف پہلی بغاوت میں نے کی تھی۔ اسے اپنے شوق پورے کرنے دو۔ وقت کے ساتھ سب کو عقل آ جاتی ہے اور کس قدر پڑھ لےگا وہ مالی کا لڑکا۔ حد سے حد بدصورت سی شکستہ تحریر میں دستخط کرنا سیکھ لےگا۔ بس۔ ختم کرو یہ قصّہ۔ نکال باہر کرو اس مالی کو۔‘‘

    ’’بات مالی کی نہیں ہے۔‘‘ چھوٹی امی نے الجھ کر کہا، ’’بات ان خیالات کی ہے جو اس کے دماغ میں پل رہے ہیں۔ ایک ان کا استاد بھی ہے یونیورسٹی میں۔ بہت بدنام آدمی ہے۔ سنا ہے سوشلسٹ ہے۔ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔‘‘

    نکالے جانے کی ہامی بھری گئی تو امّی نے اپنی لسٹ پیش کر دی۔

    لیکن غنیمت یہ ہوا کہ مالی کو یا پھر سر کمال کو ملازمت سے برطرف کیے بغیر ہی آغا کو کسی اشد ضروری کام سے آناً فاناً کہیں جانا پڑ گیا۔ وہ چوں کہ حکومت کے آدمی تھے اور ان کی تمام تر ذمےداریاں خاندان والوں کے علم میں آنا ضروری بھی نہیں تھیں، اس لیے کسی کو علم بھی نہیں ہوتا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ اب تو لوگوں نے پوچھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔

    اور چوں کہ وہ برطرف نہیں ہوا تھا، اس لیے پھر کاپی کتابوں کے بغیر آن موجود ہوا۔

    ’’کہاں ہیں کتابیں تمہاری؟ بڑے بدشوق آدمی ہو، نری باتیں ہیں، تم کچھ بننا وننا نہیں چاہتے۔‘‘

    ’’میں آج پڑھنے نہیں آیا۔ آپ کا انٹرویو کرنے آیا ہوں۔ کھڑے کھڑے ایک دو سوالات کرکے چلا جاؤں گا۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘ اس نے بڑی دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا، ’’شروع کرو۔‘‘

    ’’اگر میرے طبقے کا کوئی آدمی آپ سے شادی کا خواہش مند ہو تو آپ کیا کریں گی؟‘‘

    وہ دنگ رہ گئی۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے سے سارا خون خشک ہو گیا۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا، اس قدر عزت اور تہذیب کا مظاہرہ کرتے کرتے ایک دن وہ اس ڈھٹائی پر اتر آئےگا۔

    ’’پھر تمہارے دماغ میں کیڑا رینگا۔‘‘ اس نے بڑبڑاکر کہا۔

    ’’یہ تو ٹالنے والی بات ہوئی ناں۔ کیا حرج ہے آپ صاف جواب دے ڈالیے۔ نہ کہہ دیجئے۔‘‘

    اس نے بیٹھے بیٹھے سر بلند کر کے اس کی طرف دیکھا۔ اتنا سنجیدہ وہ اسے کبھی نہیں ملا تھا اور سنجیدگی اس پر کس قدر سجتی تھی۔ اس نے کتنی دیر کے لیے سر ایک طرف گھمائے گھاس پر اچھلنے والے ٹڈوں کی طرف دیکھا لیکن جواب شاید ضروری تھا۔ وہ اس کے سامنے سے ٹلا نہیں۔

    ’’طبقہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ کوئی مجھ سے بلند ذہنی سطح کا آدمی، اپنی دماغی صلاحیتوں سے روزگار کمانے والا اور مجھے برا بھی نہ لگتا ہو۔‘‘

    ’’اور بالفرض میں کسی نہ کسی طرح اس بلند ذہنی سطح تک پہنچنے کی کوشش کروں۔ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔‘‘

    ’’میں تمہارا دل نہیں توڑنا چاہتی ولی! تمہاری تعلیم! تم جہاں تک دو چار سال میں پہنچنے کی کوشش کر رہے ہو۔ عملی زندگی میں وہ بیس سال میں بھی ممکن نہیں۔‘‘

    ’’بات فرض کرنے کی ہے۔‘‘

    ’’فرض تو انسان بہت کچھ کر سکتا ہے ولی صاحب! تم دوست تو بہت اچھے ہو لیکن۔۔۔‘‘

    ’’کوئی لیکن نہیں پلیز۔‘‘ بے ساختگی میں اس نے اس کا ہاتھ تھپتھپا کر چھوڑ دیا۔

    ’’آپ کا راستہ بہت دشوار ہے فارابی بی۔ خداآپ کو ثابت قدم رکھے۔ لیکن مجھے لگتا ہے آپ وہی ہیں جو اپنا کٹا ہوا سر ہاتھوں میں اٹھا کر سیڑھیاں طے کرتے ہیں۔ ایک، دو، تین۔ پھر اتنی ہی مرتبہ شہر اجڑتے ہیں۔ خدا میرا شہر اجڑنے سے محفوظ رکھے۔‘‘ وہ ایک جھپا کے سے غائب ہو گیا۔

    اور پھر صبح ہی صبح جب وہ یونیورسٹی جانے کے لیے گیٹ سے نکلی تو وہ خودکشی کرنے والے انداز میں اس کی کار کے عین سامنے آ گیا۔

    ’’انتہائی ضروری بات ہے اور بڑی عجلت میں کرنی ہے۔ سن لیں گی آپ؟‘‘

    ’’جلدی کرو۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے اپنا لہجہ حتی الامکان خشک کر لیا تھا۔ کل رات اس سے بڑی حماقت ہوئی۔ وہ تو پاگلوں جیسی باتیں کر ہی رہا تھا، اس کو کیا آن پڑی تھی، جو اپنے پھینکے ہوئے ہتھیار اسی کے سامنے لا ڈالے۔

    ’’بات یہ ہے کہ آج آپ سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ گیارہ بجے؟‘‘

    ’’پاگل ہو گئے ہو؟ میں ملاقاتیں کرتی پھرتی ہوں؟ میں یونیورسٹی جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’پلیز! تھوڑی دیر کے لیے آ جائیے۔ پھر فوراً چلی جائیےگا۔‘‘

    ’’اب کیا بات ہے؟ کھل کر کہو۔‘‘

    ’’کھل کر ہی تو کہنا ہے۔ یہاں نہیں کر سکتا۔ کبھی کسی کی مجبوری سمجھ بھی لیا کریں۔‘‘ اس نے اس کے ڈیش بورڈ پر ایک ایڈریس گرانے والے انداز میں اچھال دیا۔

    ’’ہم چائے پئیں گے اور ایک بہت ضروری بات آپ کو بتاؤں گا۔‘‘

    اس نے ایک چھچھلتی نظر کارڈ پر ڈالی۔ ’’یہاں پلاؤگے چائے؟ پیسہ فالتو آ گیا ہے؟ برباد کرنے پر تلے ہو۔‘‘

    ’’آپ پر کچھ برباد نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’بہت فلمیں دیکھتے ہو ناں۔ کوئی تم لوگوں کی کل شکایت کر رہا تھا۔ ساری رات وی سی آر پر فلمیں چلتی ہیں۔‘‘

    ’’میں انتظار کروں گا۔‘‘

    ’’میں نے تم سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔‘‘

    ’’مجھے پتا ہے۔ چائے کی پیالیوں پر وعدے ہوا بھی نہیں کرتے۔‘‘

    ’’اچھا ہٹو سامنے سے۔ میں گاڑی تمہارے اوپر سے گزار دوں گی۔‘‘

    گاڑی تو وہ اس کو بچا کر نکال ہی لائی۔ مگر کتنی دیر سب سے چھپ کر لائبریری میں بیٹھی خود سے جھگڑتی رہی۔

    ہوٹل کا کارڈ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اپنے آپ سے الجھتی وہ جب سے کارڈ سے ہی کھیل رہی تھی۔ اس کی گھڑی بڑی تیزی سے آگے کی طرف جا رہی تھی۔ اتنی تیزی سے وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ پتا نہیں وہ اس کی بات ماننے پر خود کو اس قدر مجبور کیوں پا رہی تھی کہ وہاں جانے کے فیصلے کے خلاف وہ مسلسل خود سے برسر پیکار تھی۔ کتنی مرتبہ اس نے اٹھنے کے لیے کرسی پیچھے کی اور اٹھنے کی بجائے گھسیٹ کر پھر بیٹھ گئی۔ سامنے بیٹھا پڑھاکو لڑکا اس کی اٹھا پٹخ سے ڈسٹرب ہو رہا تھا۔ وہ تو غنیمت ہوا پاکستان موومنٹ کی کلاس شروع ہوئی اور سر صدیق کے پیچھے پیچھے سب نکل گئے۔ گیارہ بجے ہی یہ پیریڈ شروع ہوتا تھا۔ وہ بھی تابعداری سے اٹھی اور کلاس روم کی طرف رواں لوگوں کے حلقے میں شامل ہو گئی۔

    وہ کہاں جا رہی تھی؟ یہ راستے کس طرف نکلتے تھے؟ وہ گاڑی میں کیسے آ بیٹھی؟ ہوٹل کی پارکنگ میں اس نے گاڑی کھڑی کی تو اسے شدید ملال ہوا۔ وہ اپنی تمام تر جدوجہد میں اپنے خلاف جنگ ہار گئی تھی۔ دروازہ کھول کر اترتے بھی وہ کشمکش سے آزاد نہیں ہوئی تھی۔

    ’’یہاں کیوں بلایا ہے اس نے؟‘‘ اس نے چاروں طر ف نگاہ گھمائی، ’’اور اب کہاں جا چھپا ہے؟ کیا بتانا چاہتا ہے؟‘‘

    یونہی نگاہ گھماتے اسے لگا اجنبی چہروں کے سمندر میں ایک شناسا چہرہ بھی دکھائی دیا تھا۔ پھر جیسے زمین آسمان آپس میں گڈمڈ ہو گئے۔ اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئی تھیں۔ اجنبی لوگوں کے درمیان سے راستہ نکالتا وہ آہستہ آہستہ اسی کی طرف آ رہا تھا۔

    وہ عبدالولی سے ملتا جلتا ضرور تھا لیکن عبدالولی ہرگز نہیں تھا۔ جسم پر اٹھتا ہوا بہترین سلائی والا سوٹ، قرینے سے بنے بال اور جب اس نے قریب آکر مسکراکر اس کا خیرمقدم کیا تو اس کو لگا وہ چاروں طرف سے گہرے بادلوں میں گھری ہے، گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، گہری کھائیاں ہیں کہ بلند پہاڑ۔

    ’’آئیے!‘‘ فارا اپنے حواسوں میں کہاں تھی۔ وہ جیسے دھوئیں کے راستے پر چلتی باہر نکل آئی۔ گاڑی سے چابی بھی ولی نے نکالی۔ دروازہ لاک بھی اسی نے کیا۔ وہ اس کے قدموں کے ساتھ ساتھ ہپناٹائز ہوئے معمول کی طرح گھسٹتی چلی جا رہی تھی جیسے اس کا یہ حواس باختہ کر دینے والا ردعمل غیر متوقع تھا۔ وہ اس کے برابر چلتے پلٹ پلٹ کر اس کی طرف دیکھ بھی رہا تھا۔ کمرے کے دروازے کے نزدیک کھڑے یونیفارم میں ملبوس دوسرے شخص نے سلیوٹ کیا تو اسے پتا چلا یہ سب خواب نہیں تھا۔

    اور یہ سب کچھ غیرمتوقع بھی نہیں تھا۔ اس کو اسی طرح ہونا چاہیے تھا۔ اس کو معلوم بھی تھا پھر بھی اس نے کسی خود فریبی میں کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لی تھیں۔

    کتنی دیر وہ چپ چاپ میز پر رکھے پیپرویٹ کو الٹتی پلٹتی رہی۔ کسی اور کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو وہ کس کس طرح مذاق نہ اڑاتی اور اس کو قطعی احمق قرار دے کر اپنی قابلیت کے زعم میں زمین آسمان ایک کر دیتی۔ لیکن اب تو یہ وہ خود تھی جو اس قدر صاف بےوقوف بنی تھی، کئی کئی گھنٹے اس کے ساتھ بیٹھ کر ہر قسم کی گفتگو کرکے بھی۔ وہ کتنی دیر چپ چاپ نگاہیں جھکائے بیٹھی رہی۔ اسے اس بات کا ملال نہیں تھا کہ اسے بے وقوف کیوں بنایا گیا۔ پیپر ویٹ چھوڑ کر اس نے یونہی نگاہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس کے عین سامنے کھڑا اس کی ہر حرکت کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ وہ بلاوجہ سرخ پڑ گئی۔

    ’’میں معافی کا طلبگار ہوں اور ہر قسم کی سزا کا منتظر۔‘‘

    ’’تو مالی نہیں ہیں آپ؟‘‘

    ’’آئی ایم سوری۔‘‘

    ’’پولیس میں ہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’سپیشل برانچ۔‘‘

    وہ چپ ہی رہا۔

    ’’سول سروس؟‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’اور اس فینسی ڈریس میں ہمارے گھر کیا کر رہے تھے؟‘‘

    وہ بےساختہ ہنس پڑا۔ اس نے سر جھکا لیا تھا۔ وہ اجالوں سے محروم ہی رہی۔

    ’’دیکھا۔ ذہین لڑکی کے ساتھ کا یہ فائدہ ہوتا ہے۔ ساری رات تمہارے سامنے تقریر کرنے کی ریہرسل کی تھی اور تم نے مجھے ہر زحمت سے بچا لیا۔ صرف دو عدد ہاں اور ایک خاموشی۔‘‘

    ’’میں نے پوچھا ہے ہمارے گھر میں تم۔۔۔‘‘ وہ جس تیزی سے بولی تھی، اسی شدت سے خاموش ہو گئی۔ ’’میرا مطلب، آپ۔۔۔‘‘

    ’’چھوڑو، تم آپ کی الجھنوں میں مت پڑو۔ میں نے تمہاری دہشت میں سانس روک رکھا ہے جوجی چاہتا ہے کہہ ڈالو۔ پھر مجھے اجازت دو کہ میں اپنی داستان امیر حمزہ سنا سکوں۔‘‘

    ’’اب ان داستانوں پر کون یقین کرےگا۔‘‘

    ’’کون نہیں کرےگا اور کیسے نہیں کرےگا۔‘‘ اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کی دھمکی اسے اپنی خفگی کے باوجود بڑی اپنائیت بھری لگی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز ہو گئیں۔ اس کا خیال تھا، وہ اس کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوگا لیکن وہ بے ساختگی میں میز پر کہنیوں کا بوجھ ڈالتے اس پر جھک آیا۔ وہ اس سے انچوں کے فاصلے ہی پر تو تھی۔ سر جھکائے آنسو پیتی۔ سرخ چہرے سے ضبط کرتی۔

    ’’میں نے جان بوجھ کر یہ سب نہیں کیا۔ یقین کرو، میں ڈیوٹی پر تھا اور مجھے گمان بھی نہیں تھا یہاں ایک ایسی لڑکی مل جائےگی جس کے روبرو مجھے کردہ ناکردہ سب گناہ قبول کرنے ہوں گے۔‘‘

    ’’بہرکیف۔‘‘ اس نے ضدّی سے لہجے میں کہا، ’’یہ بات پہلے بھی بتائی جا سکتی تھی۔‘‘

    وہ اس کے رخساروں پر بکھرے آنسو انگلی کی پوروں پر چننا چاہتا تھا، لیکن رک گیا۔

    ’’بھلا تمہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کون ہوں اور اس طرح تو میں تمہاری گرد کو بھی نہیں پا سکتا تھا۔ مالی بن کر یہ۔۔۔‘‘

    اس نے تیزی سے بات کاٹ دی۔

    ’’اور اب میں تیسری دفعہ پوچھ رہی ہوں، اس بھیس میں ہمارے گھر کیا کر رہے تھے؟‘‘

    ’’اب کیا بتاؤں بی بی! آپ کے بقول اس فینسی ڈریس میں، میں ایک پاکستان دشمن آدمی کے پیچھے ہوں۔‘‘

    ’’اور وہ ہمارے گھر چھپا ہوا ہے۔ اونہہ، ناممکن۔ ہمارے سب ملازم بہت پرانے ہیں۔ ہم ان کو ان کے آباؤ اجداد کے زمانے سے جانتے ہیں۔‘‘

    ’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ وہ گہری سانس لے کر چپ ہو گیا، ’’مجھے اپنا کام کرنے دو۔ کیا حرج ہے۔ میرا اندازہ غلط ہوا تو ناکام ہی ہو جاؤں گا ناں اور خدا کے واسطے یوں روتی دھوتی تم فارا مصطفی نہیں لگتی ہو۔ آنسو پونچھو، ڈانٹو، غصہ کرو اور پینسلیں اٹھا اٹھا کر پھینکو اور مجھے کچھ کھانے دو۔ سخت بھوگ لگ رہی ہے۔ میں نے رات سے تمہاری دہشت میں کچھ بھی نہیں کھایا۔‘‘

    ڈائننگ ہال میں اس کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اسے لگا، تکمیل کی گھڑی یہی ہے۔

    خوشی کے اس بھرپور لمحے کا اسے عمر بھر سے انتظار تھا اور یہ لمحہ بغیر احساس دلائے آبھی گیا تھا۔ وہ شخص جو اس کے سامنے بیٹھا سرشاری کی کیفیت میں دمکتی رنگت لیے اس کے آس پاس ہونے کو محسوس کر رہا تھا۔ اس کی موجودگی سے نازاں، اسے کبھی ہنسا رہا تھا، کبھی فقرے اچھال رہا تھا اور کبھی اسے چھونے کی کوشش، جو وہ مسلسل ناکام بنائے دے رہی تھی۔

    ’’زندگی میں مجھ سے کبھی بدگمان نہیں ہونا۔ اگر اتفاق سے دیر ہو جائے یا دوری آجائے تو کسی کے بہکائے میں مت آنا۔ اگر فوری طور پر اس وقت میری آئی جی کے ساتھ میٹنگ نہ ہوتی تو میں اس دیری اور دوری دونوں کا مزا چکھا کر جاتا۔ کتنا وقت ضائع کیا تم نے آج میرا۔ اتنی دیر سے آئی تھیں۔‘‘

    خوشی کے یہ مکمل لمحے اس کی گرفت میں تھے اور پہلے کبھی ہاتھ نہیں آئے تھے اور اس کو کس قدر شرم آ رہی تھی اس سے۔ حالاں کہ اسے شرمانا لجانا بڑا معیوب اور مصنوعی مصنوعی لگتا تھا۔

    یہ زندگی کا کتنا عجیب تجربہ تھا۔ ساری رات اس کے بستر کے آس پاس خوشیوں کی پھوار برستی رہی۔ ننھی ننھی نادیدہ بوندیں اس کے جسم کو بھگو کر مست کرتی رہیں۔ وہ سونا نہیں چاہتی تھی، اگر سو گئی تو یہ طلسم کدہ خاک ہو جائےگا۔ وہ کچھ دیر اور اڑتے قالینوں پر آسمان کی سیر کرنا چاہتی تھی۔ ایک تواتر سے اس کا بھیگا ہوا شرارت سے بھرپور مخمور لہجہ اس کے آس پاس برستا رہا۔ اس کے اردگرد اس کے فقروں کی بازگشت گونجتی رہی۔ اور وہ جاگتی رہی۔

    چھوٹی امی۔ رضا بھائی۔ اس کے اپنے بہن بھائی۔ یہ کیسا خوشگوار دن تھا۔ آج اسے ان میں سے کسی سے بھی کوئی اختلاف نہیں رہا تھا۔ سارا دن بستر پر پڑی کروٹیں بدلتی رہی۔ کل اس نے بتایا تھا، وہ اپنی میٹنگ سے لیٹ فارغ ہوگا اور آج اس کا سامنا کرنا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسے کس قدر ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے یونیورسٹی بھی گول کی، کھانا بھی نہیں کھایا، بلاوجہ سوالوں کے جواب دئیے، لوگوں کی اپنے خلاف تقریریں سنیں اور اپنی صحت کے سلسلے میں چاہنے والوں کی تشویش رفع کی۔

    پھر جب وہ بچوں کو اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی پڑھا رہی تھی تو اسے بار بار لگا، وہ ہواؤں میں تیر رہی ہے، نرم نرم پھوار جیسی مہربان بارش اس پر رحمت کی طرح برس رہی ہے۔ اس کے سینے میں کتنا بڑا راز دفن تھا جو اس کے ساتھ رہتے بھی کوئی نہیں جان سکتا۔ وہ عموماً بچوں کو پڑھانے کے دوران ہی چپ چاپ آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ بلاو جہ اپنی کتابوں کے ورق پلٹتا جیسے بےصبری سے وہ منتظر ہی رہتا تھا۔ آج اس نے بچوں کو روزمرہ سے زیادہ وقت دیا لیکن پتا نہیں وہ کیوں نہیں آیا۔ حالاں کہ ابھی خود اس نے کل ہی یہ طے کیا تھا کہ کچھ دن اور پڑھائی کا یہ سلسلہ جاری رہےگا۔ حالاں کہ فارا کو یہ ڈرامے بازی اچھی بھی نہیں لگ رہی تھی۔ اب جب کہ درمیان کے پردے ہٹ گئے تھے، سارے راز فاش ہو گئے تھے، تو کیا ضرور ت تھی، ’’علم کی اہمیت‘‘ پر مضمون لکھوا کر فسادات کروانے کی۔

    بچوں کے جانے کے بعد بھی اس نے خود کو بے سبب ایک دو کاموں میں مصروف کیا۔ بلاوجہ فوارے کے پاس جمی ہوئی کائی کے سلسلے میں غلام محمد کی پڑتال کی۔ فیوز شدہ بلب تبدیل نہ کرنے پر رفیق کو جھاڑا۔ پھر جیسے کسی فکر نے اسے گھیر لیا۔ کیا ہوا۔ کہاں مصروف ہو گیا۔ آیا کیوں نہیں اور جتنا بھی مصروف تھا، کیا بھاگتے بھاگتے یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ آج نہیں آ سکتا۔

    وہ اس سے غائبانہ ہی روٹھ کر اٹھ رہی تھی کہ چوکیدار کی بیٹی نے بھاگ کر اسے پکڑ لیا۔

    ’’باجی! آپ ولی بھائی کا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘ اس کا دل زور سے دھڑک کر رک گیا۔

    اس کو ننھی سی بچی کے فقرے کا ذومعنی پن بہت اچھا لگا۔ بات اتنی پرانی تو نہیں ہوئی تھی جتنی عام ہو گئی تھی۔

    ’’وہ آج پڑھنے نہیں آئیں گے۔‘‘ اس نے باجی کے جواب کا انتظار کیے بغیر کہا، ’’بلکہ وہ کبھی بھی پڑھنے نہیں آئیں گے۔ چاچا کہہ رہا ہے، وہ راتوں رات اپنا سامان اٹھا کر بھاگ گئے ہیں۔ چاچا کہتا ہے، ولی بھائی خطرناک آدمی تھے۔‘‘

    ’’چھن۔‘‘ اسے لگا اس کا دل کرسٹل کی طرح کرچی کرچی ہو کر ڈھیر ہو گیا ہے۔

    راتوں رات؟ حالاں کہ اس رات سے پہلے تو ایسا کوئی پروگرام نہیں تھا اور اگر تھا تو کم از کم اس کو لاعلم رکھا گیا۔ باوجود شدید یاددہانیوں کے اس کادل بدگمانیوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ ابھی کل ہی تو وہ ہواؤں میں اڑی تھی۔ بادلوں کے ساتھ ساتھ نیلی نیلی فضاؤں میں سفر کیا تھا۔ پھر جیسے کسی بے ربط خواب کی طرح دھپ کر کے گری اور آنکھ کھلنے پر سوائے تاریکی کے کچھ بھی نہیں تھا۔

    ’’اگر ایسے کرنا تھا تو بتا کر ہی کیا ہوتا۔‘‘ اس نے واپس اندر جاتے جھنجلا کر سوچا، ’’اچھا بچو اب تم پلٹو تو سہی، میں کیسی تمہاری خبر لیتی ہوں۔‘‘ پھر وہ فون کے مختلف کنکشن کے آس پاس منڈلانے لگی۔ ہر بجتی گھنٹی پر وہ ایک امید سے اٹھتی۔ وہ اس کو اس غیر ذمّے داری کا نتیجہ اچھی طرح سمجھا دےگی۔

    لیکن ہوا یہ کہ نہ صرف وہ دن گزر گیا بلکہ اگلا دن بھی اور اس سے اگلا دن۔ سب دن جیسے ناقابلِ یقین واردات کی طرح گزرتے چلے گئے اور اب تو وہ واردات جلی حروف میں اس کے چہرے پر بھی لکھی نظر آرہی تھی۔ ’’کیا ہوا ہو گا بھلا‘‘ سے ’’کچھ بھی نہیں ہوا ہو گا‘‘ تک اندیشے، خوف، بدگمانیاں، خوش گمانیاں،جیسے دائرہ دائرہ اس کی ذات کو اپنی لپیٹ میں لیتی رہیں۔ آہستہ آہستہ اس پر وحشت سوار ہونے لگی۔ ہر چیز سے اسے اکتاہٹ ہونے لگی۔ حتیٰ کہ ہنستی مسکراتی خوش مزاج فارا، لوگوں سے پرے پرے رہنے لگی اور جب عابدہ اور بڑی امی شہر والے گھر آئے تو عابدہ اس کو دیکھ کر دنگ سی رہ گئی۔ ہر وقت کی مایوسی نے اس کے چہرے سے ساری بشاشت چھین لی تھی۔ وہ عابدہ سے بھی بےنیاز، زیادہ وقت اپنی پڑھنے والی میز پر دونوں بازوؤں میں سر دئیے الجھی الجھی ملتی یا کتاب سامنے کھولے خلاؤں میں نابود ہوتی۔

    کتنی مرتبہ سے لگا اس کی آنکھیں بار بار چھلک جاتی ہیں لیکن پوچھنے پروہ صاف مکر جاتی۔

    اس دن عابدہ نے دیکھا، وہ قالین پر ڈھیر سارے کشنز کے انبار میں دھنسی زاروقطار رو رہی تھی۔

    ’’کیا ہوا فارا؟‘‘ وہ گھٹنوں کے بل جھکی نرم آواز میں پوچھ رہی تھی، ’’سب خیریت تو ہے ناں؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ اس نے نظریں بچاکر آنکھیں خشک کر لیں حالاں کہ اس کے گال ابھی تک گیلے تھے اور آستین پر آنسو پونچھنے کے دھبے بھی نمایاں تھے۔

    ’’تم رو رہی تھیں۔‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘ اس نے تمام داغوں کی نفی کر دی۔

    ’’حد ہو گئی ہے فارا۔‘‘ اس نے تاسف سے اسے دیکھا، ’’ایسی کون سی چھپانے والی بات ہے،جو مجھ سے بھی چھپائی جا رہی ہے۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میں اس قدر بےاعتباری دوست ہوں۔‘‘

    اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ کس قدر پریشانی نمایاں تھی اس کے چہرے کے تمام تر تاثرات پر۔ اب کیا بتائے۔ پہلے پوچھا ہوتا، اس دن تو بات بھی تھی۔ اب تو صرف شکستوں کے باب ہیں اور انہیں رقم کرنا آسان نہیں۔ عابدہ چپ چاپ سامنے بیٹھ گئی۔ شاید سر کمال۔ کوئی کلاس فیلو۔ اس کی دوستوں کا کوئی بھائی۔ وہ بتانے پر آمادہ نظر آ رہی تھی۔ کتنی دیر اس نے مناسب لفظ تلاش کرنے میں صرف کر دئیے۔ عابدہ منتظر ہی رہی۔

    ’’وہ جو مالی تھا ناں۔ ولی۔‘‘ اس کی آواز جیسے گہرے کنویں میں ڈوبی ہوئی نکلی تھی۔

    ’’مالی؟‘‘ عابدہ حیرت سے گنگ اس کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ اس کو عادت نہیں تھی مسائل میں گھرے شخص کو نصیحتوں کے بوجھ تلے دبانے کی، برا بھلا کہنے کی، غلط اور درست کا فیصلہ کرنے کی۔ اس خاندان میں رہتے تو وہ کوئی شخص بھی ہوتا، مشکل ہی ہوتا۔ یہ تو بالکل ناممکن تھا اور کس قدر گری ہوئی بات۔ وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکی۔ اسے پہلی مرتبہ فاراپر غصہ آیا۔ کس قدر احمق لڑکی ہے یہ بھی۔ نرمی کا سلوک، ہمدردی، مہربانی، اسے اس کے کسی رویّے پر کبھی اعتراض نہیں ہوا تھا لیکن یہ تو حد ہو گئی تھی۔

    ’’تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے فارا! تم کیا فیوڈلز کی گھر بیٹھی فرسٹیٹڈ لڑکیوں کی طرح ڈرائیور مالی کے ساتھ فرار کے منصوبے بنا رہی ہو۔‘‘

    ’’وہ صرف مالی نہیں تھا عابدہ۔‘‘ آنسو ایک تواتر سے اس کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔

    ’’کون تھا پھر؟ آسمان سے اتری کوئی مخلوق۔ میں تمہیں شرمندہ نہیں کرنا چاہتی فارا! لیکن تم بہت قابل لڑکی ہو۔ یونیورسٹی جاتی ہو۔ اتنی کتابیں پڑھتی ہو۔ ہر روز تمہارا سامنا ایک سے ایک اعلیٰ انسان سے ہوتا ہے۔ یوں تو تم ان لوگوں سے محبت کر کے بھی کچھ حاصل نہ کر سکتیں۔ لیکن سوچو تم متاثر بھی ہوئی ہو تو کس سے۔ تم خود ایک دن اپنی حماقت پر بہت شرمندہ ہوگی۔‘‘

    ’’وہ مالی نہیں تھا۔‘‘ اس نے پھر اکتاہٹ سے اس کی بات کاٹ دی، ’’وہ بہت پڑھا لکھا آدمی تھا۔ بارتبہ۔ یونہی مالی بنا ہوا تھا۔‘‘

    ’’یونہی مالی بنا ہوا تھا؟‘‘ اس بے وقوفی پر اصرار کرنے پر اسے جھنجلاہٹ ہونے لگی۔ ’’اور کوئی کام نہیں ملا اسے پڑھ لکھ کر۔ اسی کو با رُتبہ ہونا کہتے ہیں۔ معاف کرنا، ہو گا وہ پڑھا لکھا۔ ڈگریوں کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔‘‘

    ’’کیا آدمی ڈگریاں اس لیے لیتا ہے کہ وقت بے وقت ان پر غرور کیا کرے۔‘‘ بےساختگی میں اس کے منہ سے اس کی کسی وقت کی کہی ہوئی بات پھسلی۔ کتنا اچھا لگا اس کو جیسے وہ کہیں نہیں گیا، یہیں کہیں ہے اس کے آس پاس۔ اس کا چہرہ مایوسی میں بھی روشن سا ہو گیا۔

    عابدہ کو اچھا نہیں لگا کہ اس کے ذکر اور اس کے تصور سے اس کا چہرہ چمک اٹھے۔ فارا نے کچھ دیر کے لیے اس کا چہرہ دیکھا پھر وہ اس کو پہلے دن سے آخری دن کی بات تفصیل سے بتانے لگی۔ عابدہ دیکھ رہی تھی۔ یہ سب سناتے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں جھلملاتی سی، جیسے ٹھہرے ہوئے پانی میں رنگ برنگے بلبوں کا عکس پڑتا ہو۔ ہنسی سے قطعی ناراض ہونٹ جیسے آہستہ آہستہ مسکراہٹ آشنا ہو رہے تھے۔

    قصہ ختم ہو گیا اور وہ چپ ہو گئی تھی۔ قصے یونہی ختم ہو جاتے ہیں۔ کسی دن آثار بھی باقی نہیں رہتے۔ اس کا چہرہ ابھی تک رنگوں، روشنیوں سے منور تھا۔

    ’’ہمارے گھر کس نیت سے آیا تھا وہ؟‘‘ کتنی دیر کے گہرے سکوت کے بعد عابدہ کچھ بولنے کے قابل ہو سکی تھی۔

    ’’وہ کہتا تھا، وہ، ہمارے ہاں کوئی دشمن ہے۔ چھپا ہوا۔‘‘

    ’’کون دشمن؟‘‘

    ’’یہ تو ابھی اس نے بتایا بھی نہیں۔‘‘

    عابدہ نے ایک گہری سانس لی،’’ کس قدر غیر محفوظ گھر میں رہتے ہیں ہم، یہاں چور بھی ہیں اور سپاہی بھی۔ حالاں کہ ہمیں دوست کی پہچان ہے نہ دشمن کی۔ پھر وہ چلا کیوں گیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ اس کی آنکھیں پھر سے بوجھل ہو گئیں، ’’وہ چلا کیوں گیا؟ کہاں چلا گیا؟‘‘

    کتنا بڑا بوجھ لاد دیا تھا فارا نے اس پر۔ لاعلمیت میں ہی عافیت تھی۔ گھر کے باقی ماندہ افراد اس کے خود بخود دفع ہو جانے پر اطمینان کا اظہار کر رہے تھے۔ اس کے غائب ہونے کے سلسلے میں جو ہنگامہ اٹھا تھا، اب تو وہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ اپنی گھڑیاں دیکھو، نقدی گنو، زیور پورا ہے کہ نہیں۔ اب تو یہ بھی ختم ہو چکا تھا۔

    آغا ٹور سے واپس آئے تو پیر پٹختے پھرے حالاں کہ نوکر کا ملنا یا غائب ہو جانا کوئی ایسا سنجیدہ مسئلہ نہیں تھا۔خدا جانے وہ اس سلسلے میں اس قدر سنجیدہ کیوں تھے۔ وہ اپنے گھر کے مطلق العنان رہنما تھے۔ غالباً انہیں کسی کا اس طرح غائب ہو جانا غلامی کے اصولوں کی نفی لگتا تھا۔ ان کی آقائیت پر ضرب پڑی تھی۔ انہوں نے بڑی امّی کو جھڑکا تھا کیوں کہ یہ پہلا موقع تھا جو کسی باہر کے آدمی کو کسی ضمانت کے بغیر بڑی امی کی سفارش پر رکھا گیا تھا۔ چھوٹی امّی نے بھی آغا سے جھاڑ کھائی جنہیں اپنی سنگھار پٹی کے سوا کسی کا ہوش ہی نہیں تھا۔ کون آیا، کون گیا، بیگم صاحبہ کی ذمےداری ہی نہیں۔

    ’’حالاں کہ اس نے کچھ چرایا بھی نہیں۔‘‘ بڑی امّی سادگی سے کہہ رہی تھیں۔ اس نے غیرمحسوس طریقے پر نگاہیں جھکا لیں۔

    ’’پتا نہیں تمہارے باپ کا پارہ کیوں چڑھا ہوا ہے!‘‘

    ’’ارے بھئی، یہ لوگ اسی طرح نوکریاں کرتے ہیں۔ چار پیسے جمع ہو گئے تو اڑانے کے لیے نکل گئے۔‘‘ بڑی امی آغا کے غصے کو ذرا منہ نہیں لگا رہی تھیں، ’’کل کو پھر آجائےگا، معافی مانگتا۔‘‘

    لوگ اس کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آئے تھے۔

    ’’ آج کل تعلیم بالغاں کا سلسلہ موقوف ہے۔‘‘

    ’’بے چاری کا طالب علم اس کی گھڑی چرا کر بھاگ گیا۔‘‘

    ’’سچ پھوپھو میں نے کل مانگی تھی، وہ گھڑی اب اس کے پاس نہیں ہے۔‘‘

    یہ تو غنیمت ہوا لوگ اس کے چہرے پر بکھرے ملال کو احساسِ شرمندگی سے معنون کرتے رہے۔

    چیونٹیوں کی ایک قطار کی طرح سوالات اس کے ذہن میں رینگتے رہتے۔ کبھی کبھی کچھ مخصوص لوگوں کی طرف سے ہماری خواہش ہوتی ہے کوئی بری خبر ہی آ جائے۔ آئے تو سہی۔ کہاں ہوگا۔ کس حال میں ہوگا۔ زندہ بھی ہوگا کہ نہیں۔ پھر اس کا دل دھڑکنے جیسا خود اختیاری عمل ترک کر دیتا حالاں کہ یوں زندگی اور موت کی ہر گھڑی میں اس نے اپنے ہونے کا وعدہ بھی نہیں کیا تھا۔ بعض چیزیں خود بخود ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی کوئی وعدے قسمیں، تھا ہی کیا درمیان میں؟ صرف ایک شام جس کے سہارے آخر وہ کس قدر مغرور ہو سکتی تھی اور کب تک؟ انسان اپنے زندہ رہنے کے لیے کیسے کیسے خودساختہ گمان پیدا کر لیتا ہے اور اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ فاصلوں سے اس قدر یاد آئےگا کہ آتی جاتی سانس میں بھی پھانس کی طرح اٹک کر کھٹکتا رہےگا۔

    لیٹنا بے کار تھا۔ نیند بالکل نہیں آرہی تھی۔ پڑے پڑے چھت کو دیکھتے وحشت نے مزید گھیر لیا تھا۔ دن بھر وہ لوگوں کی تحقیر سے بچتی پناہوں کی تلاش میں رہتی تھی۔ رات اس کی اپنی تھی اور دن میں ایک مرتبہ گھومتے گھومتے یونہی اتفاقاً فواروں اور کوارٹروں کے نزدیک لگی گھاس پر ننگے پیر پھرنے سے اسے بہت آسودگی ملتی تھی۔ ان ہی جگہوں پر آس پاس کہیں وہ صدائیں بھی سنائی دیتی ہیں کہ وہ ان سے بچتی بھی تھی اور ان کی طرف بھاگتی بھی تھی۔ ہر انسان اپنا اپنا کوہ ندا پیٹھ پر لادے پھر رہا ہے۔

    سامنے ہی لان میں آغا تھے۔ اپنا بوجھ خود اٹھائے، اٹھا ہوا سر، لیکن جھکے ہوئے کندھے۔ دو بیویوں اور بےشمار اولادوں کے باوجود، وہ اسی تاریک تنہائی کے مسافر تھے۔ اسے لگا وہ تنہا نہیں ہیں اور وہ خود بھی اکیلی نہیں رہ گئی۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے دور تک نکل گئے تھے۔ وہ خاموشی سے ان کی واپسی کے سفر کا انتظار کرتی رہی۔ وہ پلٹے تو ان کی پیشانی لان کے مدھم بلب میں تفکرات سے الجھی ہوئی تھی۔ وہ شاید ہار گئے تھے کیوں کہ ان کے کندھے جھکے ہوئے تھے لیکن انہوں نے شکست تسلیم نہیں کی تھی کیوں کہ ان کا سر ابھی تک سیدھا اور تنا ہوا تھا۔ انہوں نے اسے دیکھا بھی تھا۔ لیکن کوئی سوال جواب نہیں کیے۔ چھوٹی امّی کہتی تھیں آغا کو اپنی اس بیٹی سے خوف آتا ہے۔ ان کا خیال ہے، یہ وہ واحد ہستی ہے جو کسی دن بھی ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جائےگی۔ وہ ناحق کو حق نہیں سنتی۔

    فارا اس قسم کے بے ہودہ تجزیوں سے بے نیاز چپ چاپ ان کے اٹھتے قدموں کے ساتھ قدم ملا کر ٹہلنے لگی۔ انہوں نے ایک نظر پلٹ کر ا س کی طرف دیکھا اور اپنا سفر جاری رکھا اور یہ بھی حقیقت ہے جس قدر وہ اس سے خوف زدہ تھے، اتنی ہی وہ بھی ان سے لرزاں رہتی تھی۔ اس لیے پہلے چار چکروں میں دونوں نے ہی ایک دوسرے سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔

    پہلے ہمت فارا کی ختم ہوئی اور پتا نہیں یہ حوصلے کا قصور تھا یا نیت کا۔ وہ راہ میں پڑی بنچ پر جیسے یونہی سستانے بیٹھ گئی تھی۔ گو اسے اس مڈل کلاس حماقت سے بڑی کوفت ہوتی تھی، لیکن وہ اس بنچ پر بیٹھ کر جانے کون کون سے جہانوں کی سیر نہیں کر آتی تھی۔ وہ ٹھہر گئی تھی اور آغا اس سے چند قدم کے فاصلے پر۔

    کتنی دیر اسے لگا، وہ اس کا سر سے پاؤں تک مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ وہ ان کی نظروں کی براہِ راست زد میں نہ رہتی تو اٹھ کر بھاگ ہی لیتی۔ کس قدر تنقیدی، جانچی پرکھتی نظریں اس پر کھبی ہوئی تھیں۔

    ’’تم مالی کو پڑھاتی تھیں؟‘‘

    لمحہ بھر کے لیے وہ کان کی لوؤں تک تپ گئی۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا اور وہ روشنی کے احاطے میں بھی نہیں تھی۔جیسے اسے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ ساری دنیا اس کی سمت دیکھ رہی تھی۔ ہم کبھی کبھی خود ہی گمان کر لیتے ہیں کہ ساری دنیا اندھی بہری ہو گئی ہے۔ آس پاس بسنے والے لوگ نہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، نہ سن رہے ہیں اور عجیب ڈراما ہے صرف ہم ہی ایسا نہیں سوچتے۔ وہ بھی اپنا اندھا بہرہ رول بڑی خوبی سے نبھا کر ہٹ جاتے ہیں۔ پتا چلتا ہے تب، جب آپ چاروں طرف سے روشنیوں اور آوازوں کے حصار میں گھِر جائیں۔ اس کے کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی۔ ان کے فقرے میں قابلِ ذکر ’’تم‘‘ تھا۔ اس نے کچھ اور سمجھا، خود کو خود ہی ہتھکڑیوں میں محبوس کر دیا۔ کتنی دیر بعد اس نے بغیر جواب دئیے سر اٹھایا۔ آغا نے جلدی جواب مانگنے پر اصرار بھی نہیں کیا اور اس دیر کی صورت میں ہونے والی گستاخی اورناخلفی پر اسے عاق بھی نہیں کیا۔

    ’’جی۔‘‘ اس کے منہ سے گھٹی ہوئی آواز نکلی تھی۔

    ’’اس نے کبھی اپنے بارے میں کچھ بتایا تھا یا تم نے کوئی تجزیہ کیا ہو خود سے؟‘‘

    اس کی طویل خاموشی آغا کو بے صبر بنا رہی تھی۔ انہوں نے ذرا ہی وقفے کے بعد ایک پاؤں کا بوجھ دوسرے پاؤں پر منتقل کرتے ایک بے صبری کاہنکارا بھی بھرا تھا۔ غالباً وہ بہت کچھ جانتے ہیں۔ وہ بے خبر نہیں۔ لیکن اس قدر متجسس کیوں؟ لوگوں کے معاملات سے انہیں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

    ’’بہت زیادہ نہیں۔‘‘ اس نے سوچا بھی نہیں تھاکہ اپنی زندگی میں کبھی وہ اس قدر ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرے گی اور کس کے سامنے؟ جس نے دنیا کو رنگ رنگ سے دیکھ رکھا ہو۔ جانے یہ جھوٹ تھا یا اخفا۔

    ’’اور تمہارا اپنا کیا خیال تھا، اس کے بارے میں؟‘‘ اس نے ان کے سوال کے پہلے حصے کا جواب دیا تھا، وہ دوسرے حصے پر اصرار کر رہے تھے۔ وہ کہاں جاتی؟ راہ فرار ممکن ہی نہیں تھی۔

    ’’میرا خیال تھا، وہ بہت بھلا آدمی ہے۔‘‘

    آغا دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ پتا نہیں انہوں نے اعتبار کر لیا تھا یا انکار۔

    ’’صبح تمہیں یونیورسٹی نہیں جانا؟‘‘

    ’’جی جانا ہے۔‘‘

    ’’پھر سوؤ جاکر۔‘‘ ان کی آواز میں ہلکی سی برہمی تھی۔ وہ اس لہجے کی عادی نہیں تھی۔ سخت سراسیمگی میں وہ اٹھ گئی۔

    پھر جب اس کی گاڑی سڑک پر خراب ہو گئی تھی اور اس کے احباب اس کے سرمایہ دارانہ مزاج کی تضحیک کرکے فارغ بھی ہو چکے تھے تو سر کمال نے بتایا اس کے لیے ان کے کمرے میں فون ہے۔ اس نے آتے ہی گاڑی کی خرابی کی اطلاع دی تھی۔ انہوں نے دوسری گاڑی کی روانگی کی خبر سنا بھی دی تھی۔ یہ فون یقیناًمعذرت کے سلسلے میں ہوگا۔ اس نے کوفت سے سوچا۔ امی فیتہ کاٹنے گئی ہوں گی اوربہنیں اپنے طور پر بازاروں کو لوٹتی پھر رہی ہوں تو ایک ایسے معذرت والے فون کی آمد ضروری بھی تھی۔

    ’’ہیلو!‘‘ اس نے ناگواری سے ریسیور کانوں سے لگایا اور لمحہ بھر کے لیے جیسے اس کے ہوش اڑ گئے۔ اب جب کہ وہ سارے صحرا پار کرکے ریت پر برہنہ پا چلتی اس آزمائش سے سرخ رُو ہو کر نکلنے کی کوشش کر ہی رہی تھی تو وہ سراب کی طرح پھر آموجود ہوا۔ رسائی سے بہت دُور لیکن اس کے آس پاس ہی بھیگتا برستا۔

    ’’کیا ہوا؟ سانپ سونگھ گیا؟‘‘ وہ چونچالی کے موڈ میں تھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس میں اس سے ناراض ہونے کی حِس ہو نہ جسارت۔ اتنے دنوں سے وہ کس قدر الجھ رہی تھی۔ اس کو ساری ناراضیاں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔

    ’’بات تو کرو بھئی۔ خفا ہو؟‘‘ پتا نہیں ایسا کیوں تھا کہ اس کی روح کھنچ کر حلق میں آ گئی۔ اس کا ذہن متواتر بدگمانیوں میں اڑتا، لڑکھڑاتا کسی راہ پر بھی تو نہیں پہنچ پایا تھا اور وہ کس قدر ٹھہرے ہوئے لہجے میں اس کے شبہات کی دھجیاں اڑا رہا تھا۔

    ’’ہوا اصل میں یہ کہ آدھے گھنٹے کے نوٹس پر مجھے یہاں سے پانچ سو کلو میٹر دُور جانا پڑا۔ جاتے ہوئے تمہیں اطلاع دینا ممکن ہی نہیں تھا۔‘‘

    ’’کیا پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پر فون کام کرنا بند کر دیتے ہیں؟‘‘ کتنے دن بعد اس نے اچانک آکر اسے پھر اس قدر اہم بنا ڈالا تھا۔

    وہ زور سے ہنس پڑا۔ ’’یہ ہوئی ناں بات۔ تم پر یہی سٹائل سوٹ کرتا ہے، لڑنے جھگڑنے والا۔ کچھ اور تمہاری شخصیت کے ساتھ جچتا بھی نہیں۔ اچھا بات سنو۔ میں تھوڑی دیر کے لیے ہوں۔ تم بھاگتی ہوئی میرے پاس آ جاؤ۔‘‘

    ’’جی؟‘‘ وہ اس فرمائش پر ہکا بکا سی رہ گئی تھی۔

    ’’اچھا پھر مجھے اجازت دو، میں تمہارے پاس آ جاتا ہوں۔‘‘ اس نے لمحہ بھر میں ہی ترمیم کر لی۔

    ’’جی نہیں۔‘‘ اس نے حتمی لہجے میں کہا، ’’یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ آپ بلا ئیں تو بھاگتی آ جاؤں۔ نہ بلائیں تو بیٹھی روتی رہوں۔‘‘ اس نے بے سوچے سمجھے بلا ارادہ غصہ نکالا تھا۔

    کچھ دیر کے لیے فون جیسے خاموش ہو گیا۔

    ’’کاش۔‘‘ وہ بہت دیر بعد آہستہ سے بولا تھا، ’’میرے پاس اتنے اختیارات ہوتے اور اتنی حیثیت کہ میں فرصت سے بیٹھ کر آپ کے فقرے سے لطف لیتا۔ ویسے تو رو کر آپ ظلم ہی کریں گی خود پر اور مجھ پر بھی۔نہ آنا بھی اسی ضد کے سلسلے کی کڑی ہے؟‘‘

    ’’میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔‘‘

    ’’بس میں آ جاؤ۔ میں آ جاتا ہوں۔‘‘

    ’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے شرمساری سے کہا، ’’وہ بات اور تھی، اب اور بات ہے۔‘‘

    اس طرف دوسری مرتبہ سکتہ طاری ہوا تھا۔ ’’اور بات کا اعتراف ہی مجھے مدتوں سرشار رکھےگا۔ دیکھو میری بات غور سے سنو۔ بعض اوقات سو فیصد سچ بھی سچ نہیں ہوتا۔ آنکھیں اس قدر قابل اعتبار شے بھی نہیں ہیں۔ میرے معاملے میں صرف دل کی گواہی کا اعتبار کرنا۔ کسی کے بہکاوے میں مت آنا۔ جب بھی تمہیں محسوس ہو، مجھے تمہارے مقابل کھڑا کر دیا گیا ہے، تو انصاف کرنا۔‘‘

    وہ کانپ سی گئی۔ وہ یہ سب باتیں کیوں کر رہا تھا کیا روز محشر آ گیا ہے۔

    ’’تم ایک غیرمعمولی لڑکی ہو اور مجھے امید ہے تمہارے سارے ری ایکشن اسی طرح ہوں گے۔‘‘

    اتنی مدت بعد، اس کی آواز سن کر وہ کیسے کھل اٹھی تھی اور وہ اب اس کو رلانے پر آمادہ نظر آرہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پانی ٹھہر گیا۔

    ’’میری خواہش تھی ہم مل لیتے۔ اب پتا نہیں کب ملیں گے، کن حالات میں ملیں گے اور مل بھی پائیں گے کہ نہیں۔ اپنا دھیان رکھنا اچھی لڑکی۔‘‘

    اس نے فون رکھ دیا۔ ابھی اس کی آنکھوں سے آنسو بھی خشک نہیں ہوئے تھے۔ اس نے اپنی گمشدگی کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا اور اپنی غیرموجودگی کے سلسلے میں ہونے والے ہنگامے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا۔

    اس نے صرف اندیشوں کی بات کی تھی۔ کسی بھی امید افزا خیال کی ہر طرح سے نفی کر دی تھی۔ وہ اتنے دن کہاں رہا، اس وقت کہاں تھا اور آئندہ زندگی میں اس کے کہاں ہونے کے امکانات تھے؟ ان تمام سوالات کی تفصیلات میں جانے کی اس نے ضرورت بھی گوار انہیں کی تھی۔ جدائی کی گھڑیوں کی داستان تھی نہ ملن کی خوش خبریاں۔ یہ کس قسم کی محبت تھی جس میں کسی قسم کے خواب دیکھنے کی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی۔ وہ اس مقام پر اس جگہ کب تک کھڑی رہےگی؟ اور آیا وہ کھڑی بھی رہے یا کسی سمت روانہ ہو جائے؟ ہر دو حالتوں میں وہ کسی ایک طرف بھی نہیں تھا۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ سر نے پائپ اور پاؤچ میز پر رکھتے ا س کو یوں اجڑی حالت میں میز کے کنارے سے ماتھا ٹکائے دل گرفتہ سا بیٹھے دیکھا، ’’کس کا فون تھا؟‘‘

    ’’ہمارے مالی کا۔‘‘ اس نے کرسی گھسیٹ کر باہر جاتے ہوئے سر کو حیران وششدر چھوڑ دیا۔

    عابدہ کئی دفعہ اس کے سامنے سے گزری۔ وہ قالین پر کشن میں دھنسی دونوں بازوؤں کے حلقے میں ٹھوڑی ٹکائے ٹی وی دیکھنے میں محو تھی۔ اس نے اس کی نگاہوں کو صرف ایک جگہ ساکت دیکھ کر محسوس کیا، وہ کہیں نہیں دیکھ رہی تھی۔ ڈش لگانے کی انہیں اجازت نہیں تھی۔ تبصروں اور خبرناموں میں ان لوگوں کی دلچسپی صرف اس حد تک تھی کہ جب ان میں ان کے باپ کی تصویر آتی ہو۔ حکومت وقت کی لن ترانیاں سننے میں آخر اس کو کیا مزہ آ سکتا تھا۔ وہ اس کے پاس آ بیٹھی۔

    ’’کوئی خبر ملی؟‘‘

    عابدہ نے دیکھا اس سوال پر اس کا چہرہ مسرت سے دمکنے کی بجائے بجھ سا گیا تھا۔

    ’’ہاں۔ فون کیا تھا اس نے۔‘‘

    ’’کیا کہتا تھا؟‘‘ کوئی دلچسپی نہ ہونے کے باوجود عابدہ نے کس قدر اشتیاق سے پوچھا تھا۔

    ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘

    عابدہ کو غصہ آ گیا۔ ’’میں پہلے ہی کہتی تھی، فراڈ ہے وہ آدمی۔ بھلا بتاؤ، اس کا فرض نہیں بنتا کہ تمہیں بتائے کہ کہاں غائب رہا تھا، کب آئےگا اور تمہارے بارے میں اس نے کیا سوچا ہے۔‘‘ پھر وہ چپ ہو گئی، ’’کہیں ایسا تو نہیں فارا! ایسا کچھ بھی نہ ہو اور سب تم نے خود ہی فرض کر لیا ہو۔‘‘

    خود اس نے ہزاروں مرتبہ سوچا تھا لیکن کسی اور کے منہ سے اپنی شکست سننا اسے کس قدر ہتک آمیز لگا۔ شاید ایسا ہی تھا۔ محبت کی قسمیں کھائی گئیں نہ عمر بھر ساتھ نبھانے کے وعدے ہوئے۔ ان حالات میں قسمیں وعدے ہوئے بھی ہوتے تو سب رائیگاں ہی جاتے۔ نعمان کی پڑھائی ختم ہونے والی تھی۔ کوئی آسمان سے سچ مچ کا فرشتہ بھی اتر آتا تو اس کو نعمان کے گھر ہی جانا پڑتا۔

    کتنی مرتبہ اس نے راتوں کو بے تاب ہو کر ٹہلتے آغا کو دیکھا۔ اس کی تو نیندیں اڑی ہی تھیں، ان کی پتا نہیں کیوں اڑ گئیں۔

    اور یہ ’’پتا نہیں کیوں‘‘ بہت طویل عرصے پر حاوی نہیں رہا۔ کیسے جرأت کی تھی محکمہ پولیس نے لیکن ان کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر کر آغا کو گرفتار کر لیا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے اندر آئے اور بہت متفکر تھے۔ حالاں کہ یہ گرفتاری پہلی دفعہ عمل میں نہیں آئی تھی۔ زمانۂ طالب علمی سے لے کر اپوزیشن کے دور تک وہ بارہا جیل گئے تھے۔ مارشل لاء کے زمانوں میں بھی انہوں نے جیلیں بھگتی تھیں۔ لیکن ایسی تشویش ان کے چہرے پر کبھی نہیں آئی۔

    گھر میں ایک طوفان سا مچ گیا۔ انہوں نے اپنی قیمتی اشیاء اتار کر گھر والوں کے سپرد کیں۔ رضا بھائی اور اسلم بھائی کو ضروری ہدایات دیں اور شور مچانے والوں کو ڈپٹ کر، پولیس کی جیپ میں جا بیٹھے۔ رضا بھائی اور اسلم بھائی فون کے گرد بیٹھ کر ان کے دئیے نمبرز گھمانے میں مشغول ہو گئے۔

    حکومت سے آغا کے سیاسی اختلافات نہیں تھے۔ گو وہ کسی وزارت پر فائز نہیں تھے لیکن پارٹی میں ان کی حیثیت مستحکم تھی اور بہ ظاہر کسی کی جرأت بھی نہیں تھی کہ ان پر ہاتھ ڈالے۔

    ’’میں ابھی واپس آجاتا ہوں۔‘‘ انہوں نے جاتے ہوئے اعتماد سے کہا تھا۔

    گھر کا ہر فرد دم بخود سا ایک ہی کمرے اکٹھا ہو گیا تھا۔ الگ الگ پریشانی میں مبتلا ہونے کی بجائے سب گرفتارِ ابتلا مل جائیں تو دکھ کا بوجھ کم لگنے لگتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ہاٹ لائن پر بات ممکن نہیں ہو رہی تھی اور ان دونوں بھائیوں نے خود کو باقی ماندہ افراد سے کاٹ کر الگ بھی کر لیا تھا۔

    صبح ہونے سے پہلے ڈرائیو وے پر پجیرو اور لینڈ کروزر کی قطار بندھ گئی تھی۔ ساری رات بڑی امی اس کے کمرے کی کھڑکی میں بیٹھی پڑھ پڑھ کر خلاؤں میں پھونکتی رہیں۔ اس نے پردے سرکا کر باہر جھانکا۔ باہر ہنگامہ سرد نہیں ہوا تھا۔ لوگ اتنی ہی تیزی سے آ جا رہے تھے۔

    اسلم بھائی نے امّی کو جھڑکا، ’’پردہ گرا دیں۔ باہر سے سب نظر آتا ہے۔ عورتوں کا اس مسئلے سے کیا تعلق، آپ گھر بیٹھیں۔‘‘

    ’’ارے واہ! عورتوں کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘ بڑی امّی نے تلملاکر چھوٹی امی کو گلے لگا لیا۔ صحافی، امی تک پہنچ نہیں پا رہے تھے۔ لیکن انہوں نے بال بنا لیے تھے اور لپ اسٹک لگا لی تھی۔ سارے سیاسی بیان اب ان ہی کو تو جاری کرنے تھے۔

    صرف ایک دن درمیان میں آتا ہے اور انسان ’’سب کچھ‘‘ سے ’’کچھ بھی نہیں‘‘ رہتا۔ کل تک کا سرمایہ آج مٹی میں رُل گیا تھا۔ وہ چپ چاپ عابدہ کے ساتھ بیٹھی اپنے بستر پر غیر مرئی لکیریں کھینچتی رہی۔ نیند کس کو آرہی تھی۔ سیاست کس قسم کا کھیل ہے۔ آپ پسندیدہ ہیں تو ہیرو ہیں۔ ناپسند کر دئیے جائیں تو گھر سے جیل ہی جا پہنچتے ہیں۔ آپ کی جیل سے واپسی عوام کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ پھر آپ انسان نہیں رہتے۔ آپ سے کسی کا کوئی رشتہ نہیں رہ جاتا ہے۔ آپ کا نام ’’زندہ باد‘‘ ہوتا ہے یا ’’مردہ باد۔‘‘

    صبح کا اخبار کس قدر خوف زدہ کر رہا تھا۔ لوگوں نے اسے پڑھ کر پھینک دیا تھا۔ لیکن وہ دُور ریک میں رکھا، ایسے لگ رہا تھا جیسے سانپ کا جوڑا کنڈلی مار کے بیٹھا ہو۔ ہاتھ لگاتے تو خوف آتا ہی تھا نزدیک جاتے بھی ڈر لگتا۔ مایوسی کی یہ کالے سفید لفظوں میں لکھی سیاہ داستان اپنی آنکھوں سے پڑھنا آسان نہیں تھا لیکن یہ اس قدر دشوار ثابت ہوگا، اخباروں پر ایک نظر ڈالنے سے پہلے اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔

    وہ کمزور اعصاب کی لڑکی نہیں تھی۔ اس کو شکست دےکر گرا دینا اور اپنا ہاتھ بلند کر لینا بھی اتنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ ا س کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس کے قدم لڑکھڑائے اور گھومتے سر کے ساتھ وہ نیچے آ رہی۔ اس کے چاروں طرف اعصاب شکن شور تھا۔ لوگوں کے بھاگنے دوڑنے اور پکارنے کی آوازیں۔ کل سے جو سکتہ طاری تھا، فارا مصطفی بےہوش ہو کر انجام کار اس سکوت کوتوڑنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔

    اندھیرے غاروں سے روشنی تک کا سفر اس کے لیے زیادہ خوش گوار ثابت نہیں ہوا۔ وہ شہزادیوں کی طرح پٹ سے گر کر بےہوش ہوئی تھی اور لخلخہ سنگھائے بغیر ہوش میں بھی آ گئی تھی۔ ہوش سے بے ہوشی کی طرف اور پھر واپس حواسوں کی طرف سفر کرتے بھی دونوں تصویریں اور دونوں نام اس کی بصارت پر ٹھہر گئے تھے، جیسے کوئی متحرک تصویر ساکت کر کے دیکھتا ہو۔

    مجرموں کی فہرست میں اس کے باپ کا نام تھا اور فردِ جرم عائد کرنے والوں میں ابو بن ادھم کی طرح فہرست میں سب سے اوپر مسکراہٹوں سے اجالے بکھیرتی وہ تصویر تھی جس نے اس کے چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے پھیلا دئیے تھے۔ اس کے سر میں درد کی شدید لہر اٹھی تھی۔ بڑی امّی اب اس پر پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں اور چھوٹی امی کو غصہ آ رہا تھا۔

    ’’اگر اس طرح مصیبت کے وقت ہاتھ پاؤں چھوڑنے لگو تو پڑھے لکھے ہونے کا فائدہ۔ تم بھی کیا گنوار لڑکیوں کی طرح کوئی مشکل گھڑی آئی اور دھپ سے گر کر بےہوش ہو گئیں۔‘‘

    پڑھے لکھے ہونے کے فائدے ابھی تک اس کی سمجھ میں نہیں آئے تھے لیکن نقصانات کی ایک لمبی فہرست تھی۔

    جوس کا ذائقہ غیر معمولی طور پر کھٹا تھا یا اس کا حلق کڑوا ہو رہا تھا۔

    اس کا اپنا نام احمقوں کے زمرے میں شامل کیا جا رہا تھا۔ اس نے ایک غدار کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ بڑوں کے منع کرنے سے باز نہ آنے کا انجام دیکھ لیا تھا اور اپنے باپ کی گرفتاری میں اس کا ہاتھ بٹایا۔ سو طے پایا کہ وہ بےوقوف ثابت ہوئی، لہٰذا آئندہ اس کی عقل اور فیصلوں پر بہ یک وقت قطعی بھروسا نہ کیا جائے۔

    بڑی امی اس کو اس طرح سخت سست کہنے کے خلاف تھیں۔ اس نے یہ سب نیک نیتی سے کیا تھا ورنہ کیا وہ اپنے باپ کی دشمن تھی۔ اس کے باپ پر بے شمار الزامات لگائے گئے تھے۔ وہ وطن دشمن تھا، ایک غیر ملکی طاقت کا آلۂ کار اور بین الاقوامی خفیہ سرگرمیاں نوٹ کرنے والی انجمن کا سرگرم رکن۔ اس پر ہاتھ ڈالنا مذاق نہیں تھا۔ اس نے جان جوکھوں میں ڈال کر ثبوت پیش کیے تھے۔ وہ سب ثبوت پولیس کی تحویل میں تھے۔ اگر اسی طرح کی مزید گرفتاریاں عمل میں آئیں تو ملک پاکستان دشمن عناصر سے پاک ہو جائےگا۔

    بڑی امی کوئی خاص خوف زدہ نہیں تھیں۔ ان کا اور آغا کا چالیس برس کا ساتھ تھا۔ وہ دیکھ رہی تھیں، وہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ کاروبارِ حکومت ان کے بغیر جام ہوتا ہے۔ وہ جیل جاتے ہیں تو اور بڑے آدمی بن کر باہر آتے ہیں۔ گرفتاریوں کے مسلسل عمل سے ان کا ووٹ بینک گھٹتا نہیں، بڑھتا ہے۔ ان کو پہلے سے بہتر وزارت مل جاتی ہے اور جلنے والے کا منہ کالا ہوتا ہے۔

    ’’اور کیا تھا وہ مالی۔ کیا نام تھا اس کا۔ جس تھالی میں کھایا، اسی میں چھید کیا۔ احسان فراموش کہیں کا۔ اس کی تو نسلیں ہماری نسلوں کی غلام رہی ہیں۔ ایسی رگڑی اس کو دی جائےگی کہ بچو کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔‘‘

    ’’ہمارے خاندان میں تو ہتھکڑیاں مرد کا زیور ہوتی ہیں۔‘‘

    واقعی یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ آغا کو جیل ہوئی تھی وہ خاندان کے پہلے فرد بھی نہیں تھے۔ لیکن ان کو جیل تک پہنچانے کا ذمہ دار تو اس کی زندگی میں آنے والا پہلا شخص تھا۔ پھر جاہل عورتوں سے بالا بالا خاندان کے مردوں میں مشورے ہوتے رہے اور واقعی ناقابل ضمانت جرم کے باوجود آغا اگلی شام کے سورج ڈھلنے کے ساتھ ساتھ گھر آ گئے۔ وہ ہمیشہ کی طرح پھولوں کے ہاروں میں لدے تھے نہ لوگ ان کو کندھوں پر اٹھائے ان کا جلوس لے کر نکلے تھے۔

    وہ خاموشی سے گھر آ گئے۔ حالاں کہ ریکارڈ میں وہ ابھی تک پولیس کی تحویل میں تھے اور ان کے خلاف تفتیش ہو رہی تھی۔ اس میں بابا کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ ابھی تک ان کے فون بند نہیں ہوئے تھے، فیکس بھی چل رہا تھا۔ وہ ای میل پر رات گئے تک پیغام رسانی کرتے رہے۔ فارا کو بلوا کر برا بھلا کہنے کی انہیں فرصت نہیں تھی۔

    انہوں نے حال ہی میں اپنی پارٹی بدلی تھی۔ تین قطعی مختلف نظامِ حکومت اور نظریات حکومت رکھنے والوں کے ساتھ وہ باری باری شامل ہو کر دیکھ چکے تھے، اب وہ اپوزیشن میں جانے کی سوچ رہے تھے مع اپنے ساتھیوں کے۔ یہ فیصلہ ساتھیوں نے مل کر کیا تھا۔ اگر حکومت نے مقدمات واپس نہ لیے تو وہ ان لوگوں کے کچے چٹھے بھی کھول دیں گے جو اپنے حساب سے بڑے نیک نام رہے ہیں۔ یہ اس قسم کا حمام ہے جس میں سبھی بےلباس ہیں۔ بادشاہ بھی اپنی کروفر والی سواری کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ کوئی نادان بچہ اس جلوس میں شامل نہیں جو بڑھ کر انگلی اٹھائے۔

    اس کے باپ کا بت جیل جانے سے اس طرح نہیں ٹوٹا تھا جس طرح واپس آکر پاش پاش ہو گیا۔

    کتنے روز سے وہ یونیورسٹی نہیں گئی تھی۔ خبر تو خوب اڑی تھی۔ پتا نہیں اب لوگ اس کے بارے میں کس طرح سوچتے ہوں گے۔ اس کے دوست۔ اس کے پسندیدہ استاد۔ اسے معلوم تھا اس قسم کی خبروں پر خوداس کے اپنے سمیت لوگ کیسے منہ کھول کر تبصرے کرتے ہیں۔

    اس کے دوست مہربان رہے ہیں اور بہت بامروت۔ ہو سکتا ہے وہ اس کے سامنے کچھ بھی نہ کہیں لیکن جو کچھ انہوں نے پیچھے کہا ہوگا، وہ اس تک پہنچےگا نہیں، پھر بھی وہ یہ تضحیک کیسے برداشت کرےگی۔

    اس پر کام کرنے والے تمام افراد کو ہنکا ہنکاکر ان کے کاموں کی طرف بھیجا جا رہا تھا۔

    ’’تم بھی جاؤ یونیورسٹی۔‘‘

    اس کو بھی حکم سنا دیا گیا تھا۔ خاندان کی پالیسی یہی تھی کہ ایسے زندگی گزارو جیسے سب نارمل ہو۔ مجرموں کی طرح منہ چھپا کر گھر میں نہ بیٹھ جاؤ۔

    مجرم پتا نہیں کون ہوتے ہیں؟ وہ تو گھر والوں سے بھی منہ چھپائے پھر رہی تھی۔

    ان کے فون ٹیپ کیے جا رہے تھے۔ موبائل پر فون کرنا حماقت تھی۔ اس کے گھر والے تو خود رات گئے موبائل کے فون ٹریس کر کے لوگوں کی باتیں سننے کے عادی تھے۔ اس کے باوجود آغا کا غیرملکی دنیا سے رابطہ بحال تھا اور انہوں نے چچا کو بتایا تھا ان کی گرفتاری مشکل نہیں، ناممکن ہے۔ ان پر ہاتھ ڈالنے سے بڑے بڑے قد آور ایوان ہل جائیں گے۔ عبدالولی کی شکل میں ایک حماقت جو اس گھرانے سے سرزد ہوئی، اس کا ازالہ تو نہیں لیکن تدارک تو ہو سکتا ہے۔

    اس نے پہلی مرتبہ غور سے دیکھا۔ آغا کی شکل کس قدر تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ مسکراتا مہربان چہرہ، فریموں میں جکڑے اپنے خاندان کے باقی بزرگوں کی طرح ظالم ظالم سا لگنے لگا تھا۔ بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ کریہہ اور کرخت تاثر۔

    یہ چہرہ انگریز کے زمانے سے ایسا ہی چلا آ رہا ہے، صرف سیڑھیوں کے اوپر تصویروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اب ان تصویروں میں شیشے میں قید ایک نئی تصویر کا اضافہ ہو جائےگا۔ پھر ہم ہی میں سے کوئی شخص بڑی امی بن جائےگا اور اپنے آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف کے کارناموں کے قصے سنائے گا اور کون جانے جو آنے والی نسلیں اپنے حساب بے باق کر ڈالیں!

    یونیورسٹی میں دن گزارنا، گھر میں دن گزارنے سے بھی زیادہ قیامت خیز ثابت ہوا۔ اس کا دل ساری دنیا سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ اپنی ذات پر گزری اس واردات میں اس نے کسی کو اپنا شریک بھی نہیں بنایا تھا۔ کسی ایک آدمی کی ٹوٹ پھوٹ سے دنیا کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ اسی طرح جاری وساری رہتی ہے، خوش باش، ہنستے کھیلتے، قہقہے لگاتے۔ صرف اسی کا دل ہر طرف سے اٹھ گیا تھا۔ ہاں البتہ سر کمال کے کمرے میں بجنے والی گھنٹیاں آج بھی اس کے قدم روک لیتی تھیں۔ لوگ بے گانہ ہوتے ہیں۔ کبھی بھی کسی کو اس کے اٹھتے اور رکتے قدموں سے دلچسپی نہیں رہی۔ کام جاری و ساری رہتے ہیں۔ سر کمال کے کمرے سے چپڑاسی باہر نکلتا تو ایسے لگتا، وہ کہےگا کہ سر کے کمرے میں آپ کے لیے فون ہے۔ لیکن وہ قریب آکر رک جاتا،’’سر کہہ رہے ہیں، وہ میٹنگ میں ہیں۔ آج کلاس نہیں ہوگی۔‘‘

    سر کمال کا پائپ اور چائے دونوں میز پر پڑے پڑے سرد ہو گئے تھے۔ وہ حیرت زدہ نظروں سے ایک ٹک اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کا مطالعہ کتنا عجیب تھا۔ پرانے زمانوں میں مطالبوں پر کولہو میں پلوا دیا جاتا تھا۔ اب کولہوؤں کا راج ختم ہو گیا تھا لیکن پلوانے کا رواج تو باقی ہے۔

    ’’اور میں تو یہ کہوں گا۔‘‘ انہوں نے اپنی توجہ کمبی نیشن سے کھیلنے میں صرف کرتے کہا، ’’ملنے کی جدوجہد اسے کرنی چاہیے، آپ کو نہیں۔ حالاں کہ یہ بھی آپ کے حق میں اچھا نہیں ہوگا اور شاید اسی لیے وہ کترا بھی رہا ہو۔‘‘

    ’’بہر کیف۔‘‘ اس نے پرعزم لہجے میں کہا، ’’میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘

    ’’آپ کے گھر والے آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

    ’’اب تو زندہ رہنے کو دل بھی نہیں چاہتا۔‘‘

    ’’یہ فلمی دنیا نہیں، زندہ تو بہر کیف آپ ہیں۔ اب زندہ درگور ہونا چاہتی ہیں۔‘‘

    اس نے پہلو بدلا۔ وہ تمام افراد جو معاشرے کی غلط روایات سے بغاوت کا سبق سکھاتے ہیں، وقت آنے پر کس طرح بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ سر کمال ہیں، لفظوں کے بادشاہ۔ ہزاروں سال پرانی تاریخ میں کیڑے نکالتے ہوئے اور آج کی تاریخ میں خود کو بے اختیار محسوس کر رہے ہیں۔

    ’’اچھا یہ بتاؤ، تم اس کو کہوگی کیا؟‘‘

    اس نے جواب دینے کی بجائے سر جھکائے رکھا تھا۔

    ’’یہی ناں کہ تم اس سے محبت کرتی ہو وغیرہ۔ وہ میرا خیال ہے اس کے علم میں ہے، کہہ دینے سے لفظوں کی خوب صورتی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ بڑے بے معنی سے ہو جاتے ہیں۔‘‘

    اسے سر کمال کے فلسفۂ محبت سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ محض اسے ٹال ہی رہے تھے۔ انہوں نے اسے خود سے مایوس ہو کر اٹھ کے جاتے دیکھا۔

    ’’اچھا ٹھہرو۔ رکو۔ میں پتا کرتا ہوں۔‘‘ اس کو چہرے کی سرخی پر قابو پانے میں بہت دقت پیش آئی تھی۔

    ان کی سمجھ میں آگیا، وہ اسے روک نہیں سکیں گے اور ان کے لیے یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں تھا، ہر اہم محکمہ ان کے طالب علموں سے بھرا ہوا تھا۔ محض آٹھ دس فون گھماکر ہی وہ اس کا ٹھکانا تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور جب تحریر شدہ پتے کا کاغذ انہوں نے اس کے سامنے رکھا تو اسے اپنے دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔

    ’’میں آپ کے ساتھ چلوں؟‘‘ وہ خلوص سے بولے تھے۔

    ’’نہیں سر! تھینک یو۔‘‘

    ’’آپ کا اکیلے جانا مناسب نہیں۔ یہ پولیس والے ہیں بھئی۔‘‘

    ’’تھینک یو سر۔ اس وقت یہ واحد آدمی ہے جس سے مجھے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

    ’’اور ہاں سنیے۔‘‘ انہوں نے جاتے جاتے اسے پکارا، ’’بےدھڑک اندر مت چلی جائیےگا۔ اسے کہیےگا خود باہر آئے۔‘‘

    ابھی ذرا ہی دیر پہلے وہ سر کے شدید خلاف ہو گئی تھی اور اب ان کا اس طرح دھیان رکھنا کتنا اچھا لگ رہا تھا۔

    سڑکوں پر بےتکان گاڑی چلاتے چلاتے جب وہ قطعی مایوس ہو چلی تھی تو سامنے ہی منزل آگئی۔ یہ گھر بڑی عجیب جگہ پر واقع تھا۔ چاروں طرف سے مکانوں میں گھرا ہوا، اس قدر خستہ حال کہ لگتا تھا، یہاں مدت سے کوئی رہا بھی نہیں۔ گلی کے کنارے بہ ظاہر اپنے ہی کسی کام میں مصروف ایک آدمی نے اس کو اندر جاتے دیکھ کر لہک کر روک لیا۔

    ’’کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘ وہ گلی کی مرمت چھوڑ کر اس کے اندر جانے کے راستے میں مزاحم تھا۔

    ’’ولی صاحب۔‘‘

    ’’کون ولی صاحب؟ آپ کا کیا نام ہے؟‘‘

    ’’فارا مصطفی۔‘‘

    ’’یہاں کوئی ولی صاحب نہیں رہتے۔‘‘ اس نے قطعیت سے کہا،’’ یہ تو میرا گھر ہے۔‘‘

    مایو س ہو کر پلٹنے سے پہلے اس نے ایک نظر غور سے اس کی طرف دیکھا، ’’آپ کا مطلب میں سکیورٹی کلیئرڈ نہیں ہوں۔ آپ ان کو میرا نام بتا دیجئے۔ اگر وہ مجھ سے ملنا نہ چاہیں تو میں اصرار نہیں کروں گی۔‘‘ یہ بات اس نے دعوے سے کی تھی۔ واقعی اس کے بعد اصرار کرنے کا تو جواز بھی نہیں بنتا۔

    ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کوئی۔‘‘ وہ اسی تن دہی سے اپنے بیان پر اڑا ہوا تھا، ’’اندر میرے بیوی بچے رہتے ہیں۔ میں تو اپنی گلی کی نالی درست کر رہا تھا کہ آپ۔۔۔‘‘

    اس کے انداز کے یقین نے اسے مایوس کر دیا۔ شاید وہی غلط جگہ آگئی تھی۔ وہ مایوس ضرور ہوئی تھی لیکن اس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ یہ جنگلی بطخ کا تعاقب سہی لیکن وہ کوشش جاری رکھےگی۔ وہ پلٹ ہی رہی تھی کہ وہ خود بخود گھر سے باہر نکل آیا۔ اسے اپنے عملے کے آدمی سے الجھا دیکھ کر وہ ششدر سا رہ گیا۔

    وہ تھکا تھکا سا تھا جیسے ایک مدّت سے گھر سے باہر نہیں آیا۔ بال الجھے ہوئے، شکن آلود کپڑے، اس کو وہاں دیکھ کر اس نے کوئی بے پایاں مسرت کا اظہار بھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اس کے پیچھے بھاگ بھاگ کر پہنچنا اسے بے معنی لگنے لگا۔

    ’’آؤ۔‘‘ کتنے مختصر الفاظ تھے اس کے پاس اس کے لیے۔

    حالاں کہ وہ اسے بہت طویل کہانی سنانے آئی تھی۔ گلی مرمت کرنے والا پھر سے اپنے کام میں منہمک ہو گیا۔

    ’’اپنی طرف سے تو انہوں نے مجھے آپ لوگوں سے چھپا کر ہی یہاں رکھا ہوا تھا۔ دیکھ لیجئے، ہم کس قدر غیر محفوظ ہیں۔ جہاں کوئی نہیں پہنچ سکتا،وہاں آپ لوگ پہنچ جاتے ہیں۔‘‘

    لوگ؟ وہ اسے لوگوں میں بریکٹ کر رہا تھا۔ کتنی شدید مایوسی سے اس نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی، ’’شاید آپ تک پہنچنے کے لیے میری جتنی لگن بھی کسی نے نہیں دکھائی ہوگی۔‘‘

    ’’جملہ تو بڑا خوب صورت ہے۔‘‘ وہ چلتے چلتے ٹھٹک کر رک گیا، ’’لیکن انداز بڑا روکھا پھیکا ہے۔ کم از کم اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ بدگمان نہیں ہو۔ آؤ!‘‘

    اس نے اپنے کمرے کا دروازہ اس کے لیے وا کر دیا۔

    کیا معلوم یہ دروازہ اس پر کھلا تھا اور کون کون سے دروازے اس پر بند ہو گئے تھے۔ وہ باہر کی دنیا سے کٹ کر اندر آ گئی۔

    وہ کمرے کے وسط میں اس کے مقابل کھڑی کتنی دیر کے لیے ساکت وجامدرہ گئی۔ وہ بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا یا اس کے پس منظر میں کچھ اور دیکھ رہا تھا۔ کون جانے۔

    ’’یہ قصہ کچھ ہنسنے والا نہیں ہے فارابی بی۔‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا، ’’اب دیکھو کس قدر ڈرامائی سچویشن ہے۔ اگر تم یہ نہ ہوتیں، کچھ اور ہوتیں تو زندگی کس قدر خوشگوار لگتی۔‘‘

    وہ اس بے سروپا منطق کے بعد کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس کے کندھے کے پیچھے کسی غیر مرئی چیز کو گھورتے اس نے جیسے خود سے کہا تھا۔

    ’’پاکستان بڑی محنت سے بنایا گیا تھا، اس لیے نہیں کہ اسے ٹکے سیر بیچ کر کھا جایا جائے۔‘‘

    خفت سے اس کا منہ لال ہو گیا۔

    ’’تمہیں شرمندہ کرنا میرا مقصد نہیں ہے۔ میں اپنی وضاحت کر رہا ہوں۔ تم سے تو میں خود شرمندہ ہوں، تمہارا یہاں موجود ہونا ہی اس بات کی علامت ہے کہ جوا دائیگی تم نے کی ہے، وہ حق میں ادا نہیں کر سکا۔ میں تو نوکری کر رہا ہوں، کمال تو تم نے کیا ہے۔‘‘

    وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا کس قدر ممنون ہو رہا تھا۔

    ’’ویسے تو بڑی بامروت لڑکی ہو لیکن ان اخلاقیات کو چھوڑو اور سچ سچ بتاؤ۔ میرے اس عمل پر مجھ سے ناراض تو نہیں ہو؟‘‘

    ’’سچ سچ بتایا تو پتا نہیں کون کس سے ناراض ہو جائےگا۔‘‘ اس نے خوف زدہ ہو کر اس کی آنکھوں میں دیکھا، ’’لیکن میں سچ بتانے ہی آئی ہوں ولی۔‘‘

    اس نے سرگوشی سے بھی ہلکی آواز میں کہا تھا، ’’ہمارے لوگ آپ کے گھر والوں کو ختم کر دیں گے۔ میں نے خود سنا ہے۔‘‘

    اس کی آنکھوں کی چمک دفعتاً ماند پڑ گئی جیسے ستاروں بھرے آسمان کو ایک تاریک بدلی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو۔ اس نے تکلیف وہ سوالات نہیں کیے۔ غیرضروری تفصیلات بھی نہیں پوچھیں۔ کتنی دیر تک وہ بے تاثر سے انداز میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔

    ’’یہ تو ہوگا۔ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔‘‘

    اس نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔ ’’تم اپنی گاڑی میں آئی ہو؟‘‘

    ’’ہوں!‘‘

    ’’اور کہاں روکی ہے گاڑی؟ یہیں کہیں آس پاس۔‘‘

    ’’نہیں تو۔ اس گلی میں تو آ نہیں سکتی تھی۔ بہت پیچھے ہے۔‘‘

    ’’اچھا میری بات سنو۔‘‘ اس کا لہجہ فیصلہ کن سا تھا۔ وہ سہم گئی۔

    ’’آئندہ مجھ تک پہنچنے کے لیے تم کوئی جدوجہد نہیں کروگی۔ تمہارے گھر والوں کے جاسوس بھی کچھ کم سرگرم نہیں ہوں گے۔ انہیں اپنے ناموس کے لیے تمہیں بھی ذبح کر دینے میں کوئی عار نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’شٹ اپ۔‘‘ اس نے اس کے منہ کھول کر کچھ کہنے سے پہلے ہی اسے ٹوک دیا، ’’میں جانتا ہوں تمہیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔ جس گلی میں تمہاری گاڑی نہیں آ سکتی، وہاں زندگی گزارنا مذاق نہیں ہوتا۔ بلاوجہ مجھے کمزور نہ کرو۔ جاؤ، خدا حافظ۔ مجھے افسوس ہے تمہیں خدا حافظ کہنے میں باہر نہیں آ سکتا۔‘‘

    پتا نہیں یہ سب وہ اپنے فائدے کے لیے سوچ رہا تھا یا اس کے۔ اس کا دماغ اس طرح سن تھا کہ اپنے حق میں غلط اور درست کے فیصلوں سے بھی عاجز تھا۔ چہرے پر ایک مصمم سختی لیے کس قدر سنگ دلانہ انداز میں وہ اس سے مخاطب تھا۔ لوگوں میں سے ایک اس کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ اسے انتقام کی بھینٹ چڑھاکر وہ بڑا نیکی کا پرچار کر رہا تھا۔

    کتنی شدت سے اس کا جی چاہا، وہ اس کے سامنے بے کسی سے آنسو نہ بہائے۔ لیکن وہ اس کی آنکھوں میں تیرتے اور گالوں پر بہتے آنسوؤں سے قطعی لاتعلق تھا جیسے ان آنسوؤں میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو۔ وہ کسی تیسرے فرد کے لیے بہائے جا رہے تھے۔

    سامنے کے سارے مناظر دھندلے ہو گئے۔ کس قدر ہتک آمیز انداز میں وہ اسے دھتکار کر پنجے چھڑا بیٹھا تھا اور اپنے فرض کی ادائیگی پر کس قدر مغرور ہو رہا تھا، جیسے بھاگا ہوا مجرم اس کے قدموں میں اس کے رحم و کرم پر پڑا ہو۔ حالاں کہ فرض تو وہ خود بھی ادا کر چکی تھی، بے شک کوئی میڈل اس کا منتظر نہیں تھا۔

    اس نے بیگ کا تسمہ کندھے پر لٹکایا۔ اس کی طرف پلٹے یا دیکھے بغیر وہ بےحد مضبوط قدم اٹھاتی باوقار اندازمیں باہر آ گئی۔ اس نے گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ایک دفعہ بھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔ دیکھتی بھی تو کسے، اسے پکارا بھی کس نے تھا۔ تیز تیز قدم اٹھاتے اس نے گلی پار کی۔ بہت بہادری سے اس نے سٹیئرنگ سنبھالا۔ اس نے کسی قسم کی الزام تراشیاں نہیں کی تھیں۔ پرانے دنوں کی یاد دہانی کرائی تھی نہ اپنی ذات پر اس کی یقین دہانیوں کودہرا کر شرمندہ کیا تھا۔ ان سب کی اب ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ جب صفحے پھاڑ دئیے جائیں تو ان پر لکھے نوشتے کسی کے لیے قابلِ اعتبار نہیں ہوتے۔

    سڑک دور دور تک سنسان تھی۔ نہ کوئی آدم نہ آدم زاد۔ وہ خوامخواہ لوگوں کو ’’آدم بو! آدم بو!‘‘ سے ڈراتا پھر رہا تھا۔ اسے بہر کیف یہ راستہ بھی اور زندگی کے باقی ماندہ راستوں پر بھی واپسی کا سفر کرنا تھا۔ ہم آگے بھاگتے کبھی نہیں سوچتے کہ ہمیں اتنا ہی واپس بھی آنا پڑےگا۔

    گھر کی فضا ویسی ہی تھی، جیسے چند گھنٹوں پہلے اس نے چھوڑی تھی۔ سہمی ہوئی، خوف زدہ اور چپ چپ لیکن اپنے خود ساختہ گمانوں کے غرور میں دنیا کو پیروں تلے حقیر کیڑے کی طرح مسل دینے کی خواہش میں مبتلا۔ جیسے زہریلے سانپ کو کسی نے چھیڑ دیا تھا اور اب وہ تلملاتا پھر رہا تھا۔ ڈس لینے کی خواہش میں مبتلا۔ اپنا زہر لوگوں پر اگل کر انتقام لینے کی ازلی کوشش۔

    وہ جب تاریخی زینہ قدم قدم پار کر رہی تھی تو اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے اور سر نامعلوم بوجھ سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔ کوریڈور کی ریلنگ کے اس طرف چھوٹی امی کھڑی تھیں، اس کو ہارے ہوئے شکستہ قدموں سے چور چور اوپر آتا دیکھنے کے لیے۔ وہ چل رہی تھی کہ لڑکھڑا رہی تھی۔ امی کو غصہ آ گیا۔ شکست تسلیم کرنا اور بات ہے، شکست طاری کر لینا اور بات۔ یہ تو اپنے دشمنوں کو ہنسنے کا موقع دینے کی ایک کوشش ہی ہوگی ناں۔

    ’’یونیورسٹی سے آ رہی ہو؟‘‘ وہ ان کے برابر پہنچی تو ان سے برداشت نہیں ہوا، ’’ایسی ہی شکل لے کر گئی تھیں؟ اس سے تو اچھا ہے مت جایا کرو۔‘‘

    وہ ان کو جواب دئیے بنا خاموشی سے نکل جانا چاہتی تھی۔

    ’’اور یونیورسٹی کے لوگوں سے تو تم نے اپنے ابا کی بات نہیں کی؟ یہ ایسے ہی ہوتے ہیں خردماغ۔ سوائے ڈگریوں اور چار کتابوں کے ان کے پاس ہوتا بھی کیا ہے۔ بات سنو!‘‘ انہوں نے اس کو دل گرفتہ دیکھ کر روک لیا، ’’تم فکرنہ کرو۔ نعمان اور رضا بتا رہے تھے تمہارے ابا کا بال تک بیکا نہیں ہو سکتا۔ ان کے خلاف کیس بنانے والے کی تو نسلیں پچھتائیں گی۔ ہاں بےشک تم نے غلطی کی تھی لیکن اس کو دل پر مت لو۔‘‘

    ان دنوں اس نے اپنا کمرا تبدیل کر لیا تھا۔ یہ جگہ جائے امن تھی۔ لوگ اس کمرے کے سابقہ مکینوں سے تو نفرت کرتے ہی تھے، موجودہ مکین سے بھی ان کے تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ بار بار ’’کچھ چاہیے‘‘ پوچھنے آنے والوں کو تو اس نے جھڑک کر نکال دیا تھا۔ جن کو جھڑکا نہیں جا سکتا تھا انہیں یہاں آنے کی مطلق خواہش نہیں تھی۔ مینٹل پیس پر رکھی ہوئی فاخرہ کے سامنے کشن بچھا کر وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتی۔

    ہر روز پھوپی فاخرہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ کبھی امید، کبھی آس، کہیں شدید مایوسی اور غضب کی ناامیدی۔ پھر اچھے دنوں کی آس میں خوشگوار سا انتظار، روز محشر کا، جب حساب چکائے جائیں گے۔ ان کے اپنے کھاتے بھی ادھورے رہ گئے تھے۔ وہ اس کے لیے ایک مکمل ساتھی تھیں۔ کبھی اسے لگتا اچانک انہوں نے پلکیں جھپکی ہیں، سر ہلاکر موٹی موٹی چوٹیوں کو جنبش دی ہے۔ پھر وہ بے چین روح کی طرح ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھرتی تو اسے لگتا تصویر اس کے ساتھ ساتھ گردن گھما رہی ہے۔

    اس جھوٹ، منافقت اور سازش کے ماحول میں کم از کم ایک انسان تو اس ریاکاری سے ماورا تھا، اداس آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں سے امید دلاتا چہرہ۔

    وقت آگے آ گیا تھا۔ لیکن بدلا نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں بدلتا، لوگ، وقت، زمانہ، جگہیں، نام۔ صرف جن پر واردات بیتتی ہے، ان کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔ بڑی دیر سے وہ ہر موضوع پر سوچ رہی تھی، سوائے کچھ دیر پہلے گزرنے والی واردات کے۔

    کتنے دن سے اس کی اس خود ساختہ قید تنہائی کو احساسِ جرم سے منسلک کیا جا رہا تھا۔ اس کو بتاؤ، اس کو سمجھاؤ۔ اکڑی ہوئی گردن اور تنی ہوئی بھنووں والے لوگ اس کے نام پیغام بھیجتے تھے: ’’تم نے اپنی سی ضد کر کے اور ہمارا کہا نہ مان کر انجام دیکھ لیا۔ لیکن سن لو ہم ایسے گئے گزرے بھی نہیں۔ اس خاندان پر انگلی اٹھانے والے کی انگلی کٹوائی جاتی ہے اور سر اٹھانے والے کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک ہوتا ہے۔ لہٰذا مطلق فکر نہ کرو۔ ہم جو ہیں، تمہاری پھیلائی ہوئی مصیبتیں سمیٹنے والے۔‘‘ وہ دل جوئی بھی کرتے تھے تو آسمانوں تک بلند ہوکر۔

    عابدہ ہر قسم کے پیغام لانے اور لے جانے کی عادی تھی۔ وہ فارا کو گھٹنوں میں منہ ڈبو کر سوگوار بیٹھا دیکتی تو لمحہ بھرکے لیے اس کی خود بھی سمجھ میں نہ آتا، دشمن کس طرف ہے، کس کو وہ منہ بھر بھر کر بددعائیں دے؟ عبدالولی؟ اپنا خاندان؟ یہ اتفاقات کی لڑی؟ وہ فارا کے ساتھ اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کر سکتی تھی۔’’کچھ اور سوچو فارا، کسی اور کی بابت، کسی بھی اور شخص کے بارے میں۔‘‘

    اس کی طرف سے اس کو نہ وضاحتیں ملتی تھیں نہ سوالوں کے جواب۔ وہ خود ہی اندازے لگاتی۔ خود ہی بک جھک کر اس کے برابر چپ چاپ بیٹھ جاتی۔

    ’’ایسا لگتا ہے فارا! اس نے تم سے محبت کا ڈراما کیا تھا جان بوجھ کر، تاکہ تم کو تمہارے باپ کے خلاف استعمال کر سکے۔ وہ تو شکر کرو کسی کو اس واقعے کی بھاپ بھی نہیں ملی ورنہ تمہارا کیا حشر ہوتا،اور اس کا کیا بگڑتا، کچھ بھی نہیں۔‘‘

    پھر وہ دوسری طرف نکل جاتی، ’’کیا محبت اپنے آپ ہو جاتی ہے؟ خود بخود؟ انسان بے بس ہو جاتا ہے، جیسے تیرنا نہ آتا ہو اور دریا میں پاؤں رکھ دے۔ لیکن فارا! آپ پانی پر چلیں گے تو ڈوبیں گے ہی ناں۔ جب اسے دونوں طبقوں کی دشمنی کا علم تھا، اس نے یہ سلسلہ شروع ہی کیوں کیا۔ لاعلم تو تم تھیں۔ وہ تو ہر چیز سے آگاہ تھا اور کیا اسے بھی محبت ہو گئی تھی خود بخود؟‘‘

    پھر کسی دن وہ اس کے قطعی خلاف ہو جاتی۔

    ’’اس نے تم سے وعدے کیے تھے۔ اس کو ان کا ذرا پاس نہیں۔ وہ بھی جھوٹا ہے اور ایک جھوٹے، مکار، فریبی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے فریب پر انگلی اٹھائے۔ کیا ضرورت تھی اس کو وہ وعدے کرنے کی جن کو پورا کرنے کا اس کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا۔‘‘

    پھر وہ خاموشی سے نعمان کے نام کی انگوٹھی اپنی انگلی میں گھماتے کہتی، ’’چلو اب تم ہی بتاؤ۔ جب یہ انگوٹھی میری انگلی میں موجود تھی تو مجھے بھی اس کو آس دلانے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘

    پھر جیسے سوئے ہوئے محل میں زندگی کے آثار نمودار ہونے شروع ہوئے۔ آج کا اخبار دو اہم خبریں لایا تھا۔ اخبار سے قطع تعلقی اور خبروں کے حامل افراد سے قطعی لاتعلقی اختیار کیے گو اس کو بہت عرصہ نہیں گزرا تھا۔ لیکن یہ خبریں تو جیسے زمانوں کے پار سے آ رہی تھیں۔

    پہلی اور اہم خبر آغا مصطفی کے بارے میں تھی۔ ان کو وزارت کا اہم پورٹ فولیو دیا گیا تھا۔ پہلا صفحہ ان کے بیانات سے بھرا ہوا تھا۔

    دوسری اور قطعی غیر اہم خبر،اخبار کے کسی کونے میں کسی اہمیت کے بغیر لگی ہوئی تھی۔ سرکاری افسر عبدالولی نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لاکھوں روپے خردبرد کر دئیے۔ وہ جیل میں ہے اور اس کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

    وہ گم صم رہ گئی۔ ایک مدت ہوئی ہنسنا تو وہ بھولی ہی تھی، اب تو رونا بھی بھول گئی تھی۔ دستانوں میں چھپے ہونے کے باوجود اس کے ہاتھ لہو سے رنگے ہوئے تھے۔ کون دنیا میں اتنی جرأت کرےگا جو اسے بتائے کہ تمہارا خون ہماری گردن پر ہے۔ ہاں مگر اس کے سوا۔

    اسے پتا بھی نہیں چلا، اتنا بڑا دلیرانہ قدم اس نے کیسے اٹھایا۔ حق، ناحق، سچ اور جھوٹ کی ان شہادتوں میں کہیں کوئی شخص تو ہو جو اسے اپنے ہونے کا یقین دلائے۔ باوجود ان صدموں کے جو آخری قدموں پر اس نے اس کے دروازے سے اٹھائے تھے۔ اگر وہ منسٹر کی بیٹی نہ ہوتی تو لوہے کی سلاخوں کے اس پار با حوصلہ لیکن دل گرفتہ عبدالولی کو کبھی نہ دیکھ پاتی۔ وہ اس کے آنسو خشک کرتے کرتے تھک گیا لیکن وہ بہاتے بہاتے نہیں تھکی تھی۔ آج کا اہم اخبار مع دونوں خبروں کے اس کے ہاتھ میں تھا۔

    ’’میں نے ایک دن تم سے کہا تھا فارا! تم اپنا کٹا ہوا سر ہاتھوں میں اٹھا کر سیڑھیاں چڑھو گی۔ میں آج ہی کے دن سے خوف زدہ تھا۔

    میرا خیال تھا فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے اور ظالم اوندھے منہ گرتا ہے۔ اپنی جنگ میں تمہیں اپنے جیسا دیکھ کر ناحق گھسیٹ لیا۔ سچ بولنے کی سزا میں نے تو پالی ہے اور میری دعا تھی، تم اس عذاب سے محفوظ ہی رہو۔ اسی لیے جب تمہارے گھر والے، میرے گھر حملہ کرنے کی نیت سے داخل ہو رہے تھے تو میں نے تمہیں مایوس لوٹا دیا تھا۔ وہ تمہارا سراغ پا لیتے تو تمہیں ذبح کرنے میں لمحہ ضائع نہ کرتے۔

    فارا مصطفی!یہ زندگی ہے کانٹے دار جھاڑیوں سے اٹی ہوئی۔ آپ کو الجھنے سے بچنا ہے تو اپنا دامن بچا کر چلنا ہوگا اور ہاں بہت سی احمقانہ باتیں جو ہم تم کبھی کیا کرتے تھے، جھاڑ پھینکو۔ نئی زندگی کا آغاز کرو۔ تمہارا ماضی صرف خاردار جھاڑیاں ہیں۔ کوئی بھلی امید نہ رکھو۔ ہمارا زمانہ کبھی آئےگا بھی نہیں، فارا مصطفی۔ لوگ بدل جائیں گے، نئے لوگ آ جائیں گے اور آنے والے زمانوں میں بھی ہم جیسوں کے لیے بس یہی فیصلے کیے جائیں گے۔‘‘

    ’’ایک دن اور بھی آئےگا، ولی۔ ابھی ہمیں یوم حساب کا انتظار ہے۔ اسی دن ہم سب اور تصویر کے فریم میں جکڑی ایک صورت ان سب سے اپنا اپنا حساب مانگےگی۔‘‘

    وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے آنسو خشک کر ڈالے تھے۔

    اس کے عملے کے لوگ اس کو اندر لے کر جار ہے تھے اور باہر اس کے ابا کے آدمی اس کو لینے آپہنچے تھے۔ ہوا کے تیز جھونکے اور پولیس کے بھاری قدموں تلے آج کا اخبار روندا گیا تھا۔

    زندگی کو تہس نہس ہوتے دیکھنے سے پہلے اس نے بھیگی آنکھوں سے ورق ورق ہو کر بکھرتے اخبار کی طرف دیکھا۔

    آغا کی تصویر کے ساتھ ان کے بیانات چھپے ہوئے تھے۔

    ’’ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ملک کو چوروں، رشوت خوروں اور وطن دشمن عناصر سے پاک کر کے دم لیں گے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے