’’روشی۔ آج ڈاکٹر نے تم سے کیا کہا تھا؟ مجھے تو کچھ بتایا ہی نہیں۔‘‘
’’کچھ نہیں بھیا۔ کہتا تھا کہ آپ اب جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
’’یہ بات تو میرے سامنے بھی کہہ سکتا تھا۔‘‘
’’جج۔ جی بھیا۔ سچی، یہی کہا تھا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ روشی! مجھے کب تک آرام آ جائےگا۔‘‘
’’انشاء اللہ دو ایک ہی دن میں۔‘‘
’’انشاء اللہ۔۔۔ یہ انشاء اللہ بھی کتنا عجیب لفظ ہے۔ یعنی اگر خدا نے چاہا۔۔۔ تو۔۔۔‘‘
’’آپ ایسی باتیں نہ سوچا کیجیے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ یونہی سوچنے سے کیا فائدہ۔۔۔ مگر کیا کروں کم بخت دماغ تو نیند میں بھی نہیں سوتا۔‘‘
’’اچھا بس، اب آپ ریسٹ کیجیے۔ ورنہ میں آپ سے روٹھ جاؤں گی اور دماغ سے کہیے کہ وہ بھی سو جائے۔‘‘
’’ارے پگلی۔ اگر دماغ بھی سو گیا تو پھر میں دوبارہ کیسے جاگوں گا۔‘‘
’’بھیا۔ ایسی بات نہ کیجیے۔‘‘
’’میں تو مذاق کر رہا تھا۔‘‘
’’اچھا مذاق ہے۔‘‘
’’لو بھئی۔ آج سے مذاق بھی نہیں کروں گا۔‘‘
’’یہ آپ سے کون کہتا ہے بس ایسی بری باتیں نہ کیا کیجیے۔‘‘
’’روشی۔۔۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’ٹمی کہاں ہے۔۔۔‘‘
’’جج۔۔۔ جی۔۔۔ وہ۔۔۔ بھابی۔۔۔؟‘‘
’’تو اس گھر میں کسی اور کا نام بھی ٹمی ہے۔۔۔؟‘‘
’’آپ کی مذاق کی عادت ابھی نہیں گئی۔۔۔‘‘
’’میں اسی عادت کے سہارے تو زندہ ہوں۔ اگر تم کہو تو آئندہ کے لیے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔۔۔ میری توبہ۔۔۔ بس؟‘‘
’’چلیے۔۔۔ میں نہیں آپ سے بولتی۔‘‘
’’جائیے؟ کہاں جاؤں اور کیسے جاؤں؟ چارپائی سے ہلا تو جاتا نہیں اور پھر جانے کے لیے گھر سے بہتر کوئی جگہ نہیں اور اللہ کے فضل سے میں گھر ہی میں ہوں۔‘‘
’’آپ بہت شریر ہیں۔‘‘
’’تھا۔۔۔‘‘
’’میری ایک بات مانیے‘‘
’’ایک بات مان کر تو پچھتا رہا ہوں۔ اب دوسری۔۔۔‘‘
’’کون سی بات مان کر پچھتا رہے ہیں آپ؟‘‘
’’شادی کرکے۔‘‘
’’جی۔۔۔؟‘‘
’’کانوں سے میل صاف کراؤ۔‘‘
’’آپ بولے ہی بہت آہستہ تھے۔‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔ میں نے پوچھا تھا کہ کون سی بات مانوں۔‘‘
’’آپ آنکھیں بندکرکے خاموشی سے۔۔۔‘‘
’’جنت سدھار جاؤں۔‘‘
’’اچھا بابا لو۔ بس۔! میں نے اپنے منہ کو تالا لگا لیا ہے۔۔۔ یہ لو چابی۔‘‘
’’روشی۔!‘‘
’’جی۔‘‘
’’میں نے ٹمی کے متعلق پوچھا تھا۔‘‘
’’جی۔۔۔ وہ بےچاری تو دن رات جائے نماز پر ہی بیٹھی رہتی ہے۔ مغرب کے بعد سے اب تک نہیں اٹھیں۔‘‘
’’اچھا! بہت خوب۔‘‘
’’مجھے مائی جیواں نے آپ کی صحت کے لیے کل ایک وظیفہ بتایا تھا، وہی میں اور بھابی دونوں کر رہی ہیں۔ مجھے تو گھر کے دوسرے کاموں سے فرصت نہیں ملتی۔ بھابی ہی دن رات لگی رہتی ہیں۔‘‘
’’اللہ میاں کو منانے کے لیے؟‘‘
’’اگر وہ نہ مانیں تو۔۔۔؟‘‘
’’یہ کہہ کر آپ ہنس تو یوں رہے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا لطیفہ فرما دیا ہو۔‘‘
’’دراصل یہ زندگی ہی ایک بہت بڑا لطیفہ ہے اور موت اس لطیفے کی داد میں ایک قہقہہ۔‘‘
’’آپ مجھے مار کر ہی دم لیں گے۔‘‘
’’یہ بات سن کر میرا دم نہیں نکلا۔ مرنا تو آخر ایک دن ہے ہی۔‘‘
’’آپ چپ ہو جائیے، ورنہ میں چلی جاؤں گی۔‘‘
’’پھر میں اپنے آپ سے باتیں کروں گا۔ میراجی چاہتا ہے کہ اتنی باتیں کروں کہ آئندہ زندگی کا اسٹاک بھی ختم ہو جائے۔۔۔ روشی! ٹمی کیا واقعی میرے لیے اتنی عبادت کرتی ہے؟‘‘
’’یقین کیجیے بھیا۔ اب تو وہ اتنی بدل گئی ہیں کہ کیا کہوں۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آتا۔ وہ ٹمی جس کے قدم آج تک گھر میں نہیں ٹکے تھے اور جو مجھے اپنے ساتھ کلبوں میں گھسیٹے پھرتی تھی، وہ چوبیس گھنٹے گھر میں ہی ہے۔‘‘
’’اسے آپ کے ساتھ بڑی محبت ہے۔‘‘
’’اب شاید ہو گئی ہو۔ اگر پہلے ہوتی تو وہ کلب کے لوگوں کے مجبور کرنے کے باوجود کبھی ٹینس کا ٹورنامنٹ نہ کھیلتی۔۔۔ مجھے بچے کی کتنی خواہش تھی۔‘‘
’’وہ تو اس کا بچپنا تھا۔ توبہ! وہ اس کے بعد کتنا روئی تھی۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔۔۔ پھر اس کا دل دوستوں کی محفلوں اور کلب وغیرہ سے اچاٹ ہو گیا تھا۔۔۔ وہ تو میں ہی اس کو مجبور کر کے لے جاتا تھا کہ اس کا دل بہلا رہے۔‘‘
’’انہیں تو آپ کے ساتھ شروع ہی سے محبت ہے اگر نہ ہوتی تو آپ سے شادی کیوں کرتی۔‘‘
’’وہ تو تمہاری مہربانیوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔‘‘
’’پتہ ہے؟ میرے ساتھ ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتی رہتی تھی کہ تمہارے بھیا بےحد اسمارٹ ہیں۔ بڑے اچھے تیراک ہیں۔ Mass of Knowledge علم کا خزانہ ہیں۔ ان کے پسندیدہ رنگ کون سے ہیں؟ خوشبو کون سی استعمال کرتے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
’’میرے محبوب مصنف وغیرہ۔‘‘
’’آپ نے کبھی نوٹ نہیں کیا کہ شادی سے پہلے جب بھی وہ مجھ سے ملنے کے لیے آتی تو آپ ہی کے پسند کے رنگوں کی ساڑھی پہن کر اور خوشبو لگاکر۔۔۔‘‘
’’اسی خوشبو سے تو مجھے بھی زکام ہوا تھا۔ لیکن مجھے اس کا مکسڈپارٹیوں میں جانا قطعی پسند نہ تھا۔‘‘
’’وہ تو اس کاماحول ہی ایسا تھا۔۔۔ یوں تو وہ میری اتنی اچھی فرسٹ کلاس بھابی ہے۔‘‘
’’اسی لیے تو میں ڈرتا تھا کہ ہم انٹر کلاس کے لوگ اور وہ۔۔۔‘‘
’’دیکھ لیجیے وہ کس طرح ہمارے رنگ میں بس گئی ہیں۔۔۔‘‘
’’جانے کیسے۔۔۔؟‘‘
’’واہ۔۔۔ اپنے میاں کی مرضی کے خلاف بھی لڑکی کچھ کر سکتی ہے۔‘‘
’’ٹمی وغیرہ کے ہاں تو ہر ایک کی اپنی مرضی ہی چلتی ہے۔‘‘
’’تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’انتشار۔۔۔‘‘
’’بہرحال مجھے کچھ پتا نہیں۔۔۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ ٹمی اتنا کوئی لڑکی اپنے شوہر کو نہیں چاہ سکتی۔‘‘
’’اور مجھے کچھ پتا نہیں؟ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ ان لوگوں نے اپنے جذبات کو واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹس میں رکھا ہوتا ہے۔ کیسے اور کیوں؟ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
’’آپ ان سب چیزوں پر حاوی ہیں نا۔۔۔‘‘
’’شاید۔۔۔ روشی۔۔۔! تم بھی اسی طرح کی کیوں نہیں ہو گئیں تھیں؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ۔۔۔ وہ تمہاری بےحد عزیز سہیلی تھی نا۔۔۔‘‘
’’اور اب بھی ہیں۔۔۔ پتہ ہے میری اور ان کی دوستی کس طرح شروع ہوئی تھی؟ امتحانوں کے دنوں میں انہوں نے مجھے اکنامکس تیار کرانے کو کہا تھا۔ اس کے بعد ہمارے ہاں آپ کو دیکھنے کے بعد ہماری دوستی اور پکی ہو گئی۔۔۔ میں نے انہیں بہت سمجھانا چاہا کہ آپ کے اور ان کے خیالات بڑے متضاد ہیں تو کہنے لگیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’مجھے تو۔۔۔‘‘
’’اور پھر اللہ بخشے امی جی کی بھی تو یہی خواہش تھی کہ آپ کے لیے اعلیٰ خاندان کی چاند سی لڑکی لائیں گی۔۔۔ اور ٹمی۔۔۔‘‘
’’چاندسی۔۔۔! جانتی ہو کہ چاند کے کشکول میں روشنی کہاں سے آتی ہے؟ اور پھر سرمائے وغیرہ سے گھرانا اونچا ہوجاتا ہے کیا۔۔۔؟ پھر تو ہم لوگوں کا خاندان اچھا نہ ہوا۔۔۔‘‘
’’آپ پھر اپنے فلسفے کے بور سے لیکچر دینے پر اتر آئے ہیں۔۔۔ آخر کیا کمی ہے بھابی میں۔۔۔ ذرا سوشل ہیں تو کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
’’تو پھر تم بھی سوشل کیوں نہیں ہو جاتیں۔۔۔‘‘
’’ہائے۔۔۔ میں مرنہ جاؤں۔۔۔ مجھے تو۔‘‘
’’تم اس گھر میں رہتی ہوئی اپنے ملک میں رہتی ہو اور وہ لوگ یہاں رہتے ہوئے بھی مغرب میں رہتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر آپ نہ کرتے شادی۔۔۔ آپ ہی دیوانے ہوئے جا رہے تھے۔‘‘
’’اگر میں بیمار نہ ہوتا تو وہ کبھی نہ بدلتی ٹینس ٹورنامنٹ والے حادثے سے بھی وہ بہت کم وقت کے لیے متاثر ہوئی تھی۔ لیکن اب تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی انٹر کلاس کی مسافر۔۔۔ بیماری بڑے بڑوں کو سدھار دیتی ہے۔‘‘
’’انہیں آپ سے محبت ہے تو بدل گئی نا۔۔۔ ٹھیک راستے پر آنے کے لیے بھی تو کوئی بہانہ چاہیے۔۔۔ مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ آپ یونہی مجھے ستانے کے لیے بھابی کو باتیں بنا رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’تمہیں ستاکر مجھے بڑا لطف آتا ہے۔۔۔ یاد ہے نا بچپن میں تمہیں تنگ کرنے پر میری کتنی پٹائی ہوتی تھی۔۔۔ کیا تھا وہ واقعہ جب۔۔۔‘‘
’’اب بس کیجیے۔۔۔ آپ کتنے تھک گئے ہیں۔۔۔ گولیاں کھاکر سو جائیے۔‘‘
’’بھئی روشی! آج صبح سے تمہاری بھابی کے ہاتھ سے دوا نہیں کھائی اسے بلاؤ۔‘‘
’’جی۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ تو مصلے کو کبھی چھوڑتی نہیں۔۔۔ ٹمی۔۔۔ ٹم۔۔۔ می۔۔۔!‘‘
’’ہائے اللہ بھیا۔ آپ بھی حد کرتے ہیں۔ دیکھیے تو سانس پھول گیا ہے۔ ٹھہرئیے میں بلاکر لاتی ہوں۔۔۔‘‘
’’او۔۔۔ روشی۔۔۔ تم اپنے لیے کتنی اچھی بھابی لائی ہو۔۔۔ میری اس پندرہ دن کی بیماری نے اصلی ٹمی کو دریافت کیا ہے۔۔۔ میری اچھی ٹمی! آج سے پندرہ روز پہلے کے تمہارے بارے میں میں اپنے تمام خیالات واپس لیتا ہوں۔۔۔ کون کہتا ہے کہ ٹمی کی سماج کے لوگ اپنے پاؤں میں ڈالی ہوئی نقرئی زنجیریں نہیں توڑ سکتے۔۔۔ کون کہتا ہے کہ ان کے دلوں کی لاشیں ان کے ماحول میں گل رہی ہیں۔۔۔‘‘
’’بھ۔۔۔ بھیا۔۔۔! ٹمی بھابی داتا صاحب کے مزار پر گئی ہیں۔‘‘
’’آں۔‘‘
’’کیا سوچ رہا تھا کہ بہروپئیے پھر انسان بن کر انسان کے لیے انسانوں کی طرح سوچ سکتے ہیں۔‘‘
’’پھر وہی۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کا دماغ دبوادوں۔‘‘
’’ٹمی نہیں آئی۔۔۔؟‘‘
’’لیجیے دوا کھا لیجیے۔۔۔ میں نے کہا نا کہ داتا صاحب گئی ہیں۔‘‘
’’میری عمر بڑھانے۔۔۔؟ بھئی۔۔۔‘‘
’’اگر آپ نے آگے کچھ کہا، تو۔۔۔ جبھی تو آپ جلد صحت یاب نہیں ہوتے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ اب ٹمی کی دعاؤں سے جلد ہی اچھا ہو جاؤں گا۔ اب تو خود میرا جی مرنے کو نہیں چاہتا۔‘‘
’’ساڑھے نو بج گئے ہیں۔۔۔ اب آپ سوجائیے۔ زبان کو کافی ورزش کرا لی ہے۔۔۔‘‘
’’ارے۔۔۔ سنو تو کس کا فون ہے۔۔۔ اچھا رہنے دو عبدل سن لےگا۔۔۔ تم لوری گاؤ تاکہ میں سو جاؤں۔‘‘
’’تو پھر پہلے آپ کو جھولے میں لٹانا پڑےگا۔۔۔‘‘
’’اور میں انگوٹھا چوستا ہوا سو جاؤں گا۔‘‘
’’کون تھا، عبدل؟‘‘
’’بی بی جی۔۔۔ وہ جی۔۔۔ وہ بیگم صاحبہ کا فون تھا۔۔۔ کہتی تھیں کہ وہ صاحب کے لیے بڑا فکر کر رہی ہیں اور ان کا حال پوچھتی تھیں اور کہتی تھیں کہ آج انہیں کلب میں ذرا دیر ہو جائےگی۔۔۔ آپ لوگ انتظار نہ کیجیےگا۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.