Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رود خنزیر

صدیق عالم

رود خنزیر

صدیق عالم

MORE BYصدیق عالم

    کہانی کی کہانی

    یہ انسانی تاریخ کے لا متناہی ہجرت کی کہانی ہے۔ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی اپنے عروج پر تھی۔ پاکستان بس ٹوٹنے ہی والا تھا۔ اس کا باپ بندرگاہ میں اپنے سامان کے ساتھ جہاز کے عرشے پرکھڑا تھا۔ اس وقت اسے اور اس کی ماں کو پتہ نہ تھا کہ وہ آخری بار اسے دیکھ رہے تھے، کہ یہ شخص انھیں فریب دے کر وہاں سے بھاگ رہا ہے۔ بہت بعد میں، تقریباً نو برس بعد، بسترِ مرگ پر ماں نے اسے بتایا کہ وہ جس نے جہاز پر قدم رکھنے سے پہلے یقین دلایا تھا کہ کراچی پہنچ کر وہ جلد انھیں بلا لیں گے لیکن اس نے کبھی لوٹ کر ماں بیٹے کی خبر نہیں لی۔ وہ سات برس کا تھا جب ایک دن اس کی ماں اسے لے کر پھر سے ہندوستان واپس لوٹ آئی۔ پھر ایک دن ماں کی موت سے اسے کوئی حیرانی نہیں ہوئی جیسے ساری زندگی وہ اس موت کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اپنی زندگی جیتے ہوئے چلتے چلتے شہر سے دور ایک ایسے دریا کے کنارے پہنچ جاتا ہے جس میں سور کے مردے بڑی تعداد میں پانی کے ساتھ بہتے جا رہے تھے ۔ اس دریا کو دیکھ کر اسے حیرت ہوتی ہے کہ گرچہ اس نے دو بار اپنا ملک بدلا تھا، مگر وہ تو ساری زندگی اسی رودِ خنزیر کے کنارے چلتا رہا تھا۔

    میں ان دنوں گودی کے علاقے میں سامان اٹھانے کا کام کیا کرتا۔ شام کی طرف،جب میرے پاس کرنے کو کچھ نہ ہوتا، میں اپنے وقت کو دو حصوں میں بانٹ لیتا۔ سورج ڈوبنے سے قبل میں لوہے کے پل پر بیٹھا لوگوں کے جوتے پالش کیا کرتا۔ جب میرے پاس پالش کرنے کے لئے نہ ہوتا میں نیچے کھال میں کشتیوں کو چاند کی کشش کے زیر اثر کناروں پر چڑھتے دیکھتا رہتا۔ بانس اور لکڑی کے تختوں سے بنی یہ خستہ حال کشتیاں نائلن کی رسیوں سے ڈھلان پر کھڑے درختوں کے ساتھ بندھی ہوتیں۔ جلد سورج دریا پار دھندلے مکانوں کے اوپر کی کثافت میں غائب ہو جاتا۔ لیکن اس کے بعد بھی قدرتی روشنی کافی دیر تک قائم رہتی۔ آسمان اندھیرے میں دوب چکا ہوتا جب آئس کریم کی ٹرالی کو ڈھکیلتے ہوئے جس پر رنگین چھتری ڈول رہی ہوتی میں میدان کی طرف نکل جاتا جہاں درختوں کی آڑ میں بیٹھے رومانی جوڑوں کو میں اونچے داموں آئس کریم بیچا کرتا۔ ان دنوں میرے پاس بس یہی کام تھے اور اگر آپ مجھ سے دریافت کریں تو میں بتا سکتا ہوں یہ زندگی اتنی بری بھی نہیں تھی۔ میں خود سے کہا کرتا، تم یہ بھول نہیں سکتے کہ تم ایک ایسے آدمی ہو جس نے دو بار اپناملک بدلا ہے۔

    اور یہ اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے۔۔۔

    سورج آسمان پر ہمیشہ کی طرح اپنا فرض نبھا رہا تھا اور میرے والدمغربی پاکستان جانے کے لئے چٹاگانگ کی بندرگاہ میں اپنے دو چرمی سوٹ کیس، ایک ہولڈ آل اور ایک کوٹ کے ساتھ جہاز کے عرشے پر کھڑے ہماری طرف تاک رہے تھے۔ ماں کے برعکس جو سانولے رنگ کی ایک معمولی ناک نقشے والی بنگالی عورت تھی،ابا ایک لانبے قد کے گورے چٹے اور کافی وجیہ انسان تھے جن کے گھنے نفیس بال کسی فلمی ہیرو کی یاد دلاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب میری ماں نے ابھی ہندوستان واپس لوٹنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ دوسری طرف میں صرف سات برس کا تھا اور اس لائق نہیں تھا کہ اپنے بارے میں کوئی فیصلہ لے سکوں۔ مگر دیکھتے دیکھتے دو برس گذر گئے جب ایک دن اچانک ماں نے اعلان کیا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنا پیدائشی وطن واپس لوٹ جائیں۔ مجھے ماں کی بات سن کرحیرت ہوئی۔ اپنا وطن! مجھے تو اس کی یاد بھی نہیں ہے جب کہ اپنے باپ کے برعکس جو کبھی اس ملک کی زبان بول نہ پائے، ہم لوگ تو وہی زبان بولتے ہیں جو اس ملک میں بولی جاتی ہے۔

    بہت بعد میں، تقریباً نو برس بعد، بستر مرگ پر ماں نے مجھے بتایا، وہ میرے باپ کو کھونے کے صدمے سے کبھی ابھر نہیں پائی تھی۔ جہاز پر جانے کے لئے تختہ پر قدم رکھنے سے پہلے ابا نے ہمیں امید دلائی تھی کہ کراچی پہنچ کر وہ جلد ہمیں بلا لیں گے۔ مگر دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے گئے۔ سمندر میں غیر ملکی جہاز آتے جاتے رہے۔ انھوں نے کبھی لوٹ کر ہماری خبر نہیں لی۔

    ’’ارسلان، تم اپنے دل پر جبر مت لو۔‘‘ ماں نے کہا ۔پچھلے دو سال سے وقفے وقفے سے، جب جب ان پر درد کا شدید غلبہ ہوتا، انھیں اپنی پیٹھ کے نچلے حصے پر الاسٹک کے بریسیز پہننے ہوتے تھے۔ یہ بریسیز پہلے سے استعمال شدہ تھے اور جینیوں کے خیراتی اسپتال سے دئے گئے تھے جہاں ایک مارواڑی تاجر کی سفارش پر ان کی ریڑھ کی ہڈی کی مفت سرجری کی گئی تھی۔ اس تاجر کے گھر ماں نے کچھ دنوں کے لئے نوکری کی تھی۔ان کی ریڑھ کی ہڈی کا یہ درد سالوں سال صبح سے شام تک لگاتار لوگوں کے گھروں کو پوچھا لگانے اور بھاری گھریلو سامان ادھر ادھر کرنے کا نتیجہ تھا۔ ان وقتو ں میں جب ان کا درد اٹھتا وہ بالکل کام کرنے کے لائق نہ ہوتی اور زیادہ تر انھیں گھر میں پڑا رہنا پڑتا۔ جس کا مطلب تھا وہ ہماری فاقہ کشی کا دور ہوتا کیونکہ لگاتار چھٹی لینے کے سبب ان کا زیادہ تر کام چھوٹ جاتا۔مگر اس وقت ماں ایک سرکاری اسپتال میں ایک جان لیوا مرض کی شکار بن کر آئی تھی اور اس وقت جب کہ وہ مجھے دلاسا دے رہی تھی، اسپتال کے وارڈ کے اندربس اتنی بھر روشنی رہ گئی تھی کہ میلی کچیلی دیوار پر سائے کے نام پر ایک ہلکا سا دھبا بن سکے۔ماں نے میری دونوں مٹھیاں اپنی مٹھیوں میں تھام کر اپنے مرجھائے ہوئے سینے پر رکھ لیا تھا جیسے میری مٹھیاں وہ اپنے ساتھ دوسری دنیا میں لے جانے والی ہو۔ وہ جن آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی وہ میرے لئے بالکل نئی تھیں۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ اتنے سالوں تک انھوں نے ان آنکھوں کو کہاں چھپا رکھا تھا۔ ’’وعدہ کرو، تم کبھی اپنے باپ کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کروگے۔ خدا کا شکر ہے وہ ایک ایسے ملک میں جا بسے ہیں جس سے اس ملک کی دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ مگر وعدہ کرو۔‘‘

    ایک بار میرا جی چاہا کہ میں اپنے ہات کھینچ لوں۔ مگر ماں لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھیں اور میں ان کی موت کو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں انتظار کرتا رہا، ماں کی موت کا یا اس بات کا کہ ایسا کچھ ہو جائے کہ ماں کا موت کا ارادہ ٹل جائے۔ آج یہ بتانا مشکل ہے اس دن میں کس بات کا انتظار کر رہا تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ کچھ بھی ہو سکتا تھا جس پر اس وقت میرا کوئی بھی اختیار نہیں تھا۔

    رات دس بجے میں ٹرالی ڈھکیلتے ہوئے واپس لوٹتا تو ہوٹلوں کے علاوہ زیادہ تردکانیں بند ہو چکی ہوتیں۔ قریب ہی طوائفوں کا محلہ ہونے کے سبب ان ہوٹلوں میں آدھی رات تک رونق رہا کرتی۔ مجھے کسی بھی ہوٹل کے باہر رکنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ ہر ہوٹل کا اپنا آئس کریم کا کونا تھا جہاں کمسن طوائفیں گاہکوں کے ساتھ آئس کریم کی میز پر ہنسی ٹھٹھول کیا کرتیں۔ میں جب ٹرالی بچے کھچے آئس کریم کے ساتھ فیکٹری کے حوالے کرکے گھر لوٹتا تو یہ وقت سڑک چھاپ کتوں کا ہوتا جو میری بو سونگھ کر ہمیشہ مجھے رد کر دیا کرتے۔ دراصل اس مقصد کے لئے انھیں سڑک پر کوئی نہ کوئی پاگل یا بھکاری آسانی سے مل جاتا جس کا وہ اسٹریٹ لیمپ کی ناکافی روشنی میں دور تک پیچھا کیا کرتے۔

    ماں نے مرنے کے لئے مزید تین دن کیوں لگایا یہ آج بھی میری سمجھ سے باہر ہے۔ دراصل انھیں تو اسی دن مر جانا چاہئے تھا جس دن انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا۔ شاید ان کے لئے مرنا کوئی خاص واقعہ نہ ہو۔

    سچ بات تو یہ تھی کہ میں ان کے مرض کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ بس ایک دن ان پر شدید دورا پڑا اور وہ بدن اینٹھتے ہوئے بلبلا نے لگی۔بستر سے اٹھنے کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے بریسیز کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھی جنھیں میں نے انھیں پہننے میں مدد دی۔ مگر ان بریسیز کے باوجودوہ پھر کبھی بستر سے اٹھ نہیں پائی۔ وہ ساری رات کراہتی اور ٹھٹھرتی رہی جیسے سردی اپنے شباب پر ہو جب کہ پاس پڑوس کے تمام گھروں میں بجلی کے پنکھے چل رہے تھے۔ صبح میں نے دیکھا ان کے جسم میں جگہ جگہ نیلے گومڑ نکل آئے تھے۔ دو دن تک اسی طرح وہ بستر پر پڑے پڑے چھٹپٹاتی رہی جب محلے کے کچھ لوگ ترس کھا کراسے سرکاری اسپتال لے گئے جہاں ان پر پانی چڑھا دیا گیا۔ ان کے خون کی جانچ کی گئی اور سرکاری ڈاکٹر نے بتایا، یہ گومڑ کسی کتر کر کھانے والے میمل کے کاٹنے کا نتیجہ ہے ، مگر اصلی بیماری توکچھ اور ہے اوریہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے پیرا سائٹ خون کے راستے سیدھے انسان کے دماغ پر حملہ کرتے ہیں اور دیر ہو جانے پر ڈاکٹروں کے کرنے کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور میرے کان میں سرگوشی کی: بیٹا،تم بڑے ہو گئے ہو۔ بہتر ہوگا کہ تم اپنی ماں کی موت کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ۔

    جو میں اس دن بھی تیار تھا جب ماں چٹاگانگ کی بندرگاہ میں جیٹی سے کچھ دور ہٹ کر پانی کے بالکل قریب کھڑی تھی جہاں جانے کس امید میں ہم لوگ ہر مہینے ایک آدھ بار بس میں ایک لمبی مسافت طئے کرکے آ یا کرتے۔ اس دن آسمان پر کئی رنگ کھیل رہے تھے اور نیچے سمندر کے پانی میں خس و خاشاک ڈول رہے تھے جیسے سمندری مچھلیوں کی طرح ان کی بھی اپنی ایک الگ زندگی ہو۔ اس دن ماں بالکل خاموش تھی۔ شاید نا امیدی نے دھیرے دھیرے ان کے اندر گھر کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ جن نظروں سے سمندر کے پانی کو پشتے کی دیوار سے ٹکراتے دیکھ رہی تھی اس سے ایک پل کے لئے مجھے لگا ماں سمندر میں کود جانے کا ارادہ رکھتی ہو۔ میں نے سختی سے ان کی ساڑی کے کنارے کو اپنی انگلیوں سے پکڑ رکھا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ میر ے اس عمل کا نتیجہ ہو کہ ماں مزید نو برس زندہ رہی اور ایک ایسے اسپتال میں ان کا انتقال ہوا جہاں کے ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ ان کے رشتے داروں سے باتیں کرنے کے عادی تھے۔

    تمہیں یاد ہے ارسلان۔۔۔ ماں نے مرنے کے ایک دن قبل کہا ۔اس وقت وہ اسپتال میں لوہے کے پلنگ پر لیٹی ہوئی چھت کی چوبی بلیوں کی طرف تاک رہی تھی جن پر رکھی اینٹیں جگہ جگہ سے پلستر جھڑ جانے کے سبب ننگی ہو گئی تھیں۔۔۔تمہیں یاد ہے وہ دن جب ہم لوگ مجیب الرحمان کو دیکھنے گئے اور لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر تم پھولے نہیں سما رہے تھے۔ تم نے دوکافی بڑے غبارے تھام رکھے تھے جو ہوا میں اڑنا چاہ رہے تھے۔ تم کتنے خوفزدہ تھے کہ کہیں یہ غبارے تمہارے ہاتھ سے اڑ نہ جائیں! ان دنوں ہم لوگ ڈھاکہ میں تھے۔ اور تمہیں وہ دن بھی یاد ہوگا جب فوج نے لوگوں پر قہر ڈھا رکھا تھا اور ہم نے ایک دن ایک زخمی آدمی کو دیکھا جسے رضا کاروں نے ناریل کے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا اور کسی فوجی گاڑی کے گذرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ آدمی دشمن ملک کے اجینٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وہ آدمی اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا جب بھیڑ اپنے صبر کا دامن کھو بیٹھی اور کسی نے ایک اسکرو ڈرائیور نکال کر اس کے حلق میں پیوست کر دی۔ حملہ آور نے اسکریو ڈرائیور واپس باہر نکالنے کی کوشش کی تو اس کا لکڑی کا دستہ نکل کر اس کے ہاتھ میں رہ گیا اور شاید تمہیں یہ بھی یاد ہو کہ جب ملک آزاد ہو چکا تھا تو کس طرح ایک پبلک پارک میں جوان لڑکوں کو گھاس پر گرا کر ملیشیا ان کے سینوں میں بیونٹ گھونپ رہی تھی اور یہ ہماری طرح ہی ہندوستان سے بھاگ کر آئے ہوئے لوگ تھے فرق صرف یہ تھا کہ یہ تمہارے باپ کی زبان بولتے تھے۔ بعد میں ہمیں سرکاری ریڈیو سے پتہ چلا کہ ان لولوگوں نے جنگ آزادی کے خلاف پاکستانی فوج کو تعاون دیا تھا۔

    میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ مرنے سے قبل ماں نے کیوں ان نا خوشگوار واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ سچ بات تو یہ تھی کہ نہ تو مجھے کسی غبارے کی یاد تھی نہ ان واقعات کی جن کا ذکر ماں نے کیا تھا۔ وہ ہمارے بڑے ہی افراتفری کے دن تھے جب ہم لوگ ہمیشہ سفر پر رہا کرتے، کبھی ڈھاکہ، کبھی چٹاگانگ اور کبھی نواکھالی۔ نرس نے مجھ سے کہا کہ میری ماں پر ہذیانی کیفیت طاری تھی، کہ مجھے ان کی باتوں کا بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس حالت میں سنا اور دیکھا ہوا کا فرق بالکل مٹ جاتا ہے۔

    ابا کی روانگی کے بعد ہم لوگوں نے اپنی وفاداریاں بدل لی تھیں اور ہماری زبان کے سبب کوئی ہم پر انگلی اٹھا نہیں سکتا تھا۔ لیکن ماں نے بہت جلد فیصلہ کر لیا کہ ہمیں اپنا پیدائشی ملک واپس لوٹ جانا چاہئے۔ شاید وہ روز روز کے خون خرابے سے تنگ آ گئی تھی۔ شاید انھیں ڈر تھا کہ یہ ملک ہمیشہ انھیں میرے باپ کی یاد دلاتا رہےگا جس پر یہ الزام آسانی سے اور جائز طور پر لگایا جا سکتا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے مخبر تھے۔میری پڑھائی رک چکی تھی اور کسی نے میرے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ ہم تو بس اس نئے نویلے ملک میں تھوڑے دنوں کے مہمان تھے۔ مگر ماں کو یہ فیصلہ لینے میں دو سال لگ گئے۔ شاید کوئی بھی فیصلہ اکیلے لینے میں وقت لگ جاتا ہے۔ شاید اپنے دل کے کسی گوشے میں اب بھی انھیں اس سمندری ڈاک کا انتظار تھا جو ایک تیسرے ملک کا دروازہ ہمارے لئے کھولنے والا تھا اور وہ اپنے ٹھکانے سے ہٹنا نہیں چاہ رہی تھی۔لیکن آخر کار وہ دن آ ہی گیا۔ اور پھر ہزاروں لوگوں کی طرح جوچوری چھپے اپنا وطن واپس لوٹ رہے تھے جسے انھوں نے دہائی قبل چھوڑنے کی غلطی کی تھی ہمیں بھی غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’یاد رکھو ارسلان۔۔۔‘‘ ماں نے اسباب باندھتے ہوئے کہا۔’’..تم اپنا وطن واپس لوٹ رہے ہو۔ ایک مہاجر پرندے کی طرح جس کا وقت یہاں پر ختم ہو چکا ہے۔کوئی کچھ بھی کہہ لے، تم کوئی جرم نہیں کر رہے ہو۔اس بات کو دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے‘‘بہت بعد میں مجھے اس کا خیال آیا تھا کہ ماں نے شاید ٹھیک نہیں کہا تھا۔ مہاجر پرندے تو بار بار ایک ہی جگہ لوٹ آتے ہیں جب کہ ہمارا سفر یک طرفہ اور آخری تھا جہاں سے اب ہم کبھی واپس آنے والے نہیں تھے۔میں محلے میں جن لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتا انھیں جب ہمارے بارے میں پتہ چلا تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی۔ ہندوستان تم لوگوں کے لئے صحیح جگہ ہے، میرے ایک دوست نے کہا جو ہمارے پڑوس میں رہتا تھا، مجھ سے دگنی عمر کا تھا اور کسی پنسل کی طرح دبلا پتلا اور لمبا تھا۔ وہ طرح طرح کی کتابیں پڑھا کرتا اور اپنی ایک خاص سوچ رکھتا تھا۔ یہاں ہمیشہ تمہارے باپ کے سلسلے میں سوالات پوچھے جاتے رہینگے۔ یاد رکھو، اگر ہوا تمہارے خلاف بہنے لگی یا کسی نے تمہاری مخبری کر دی تو انھیں اس کی کوئی پرواہ نہ ہوگی کہ تمہارے باپ کے ساتھ تم لوگوں کے تعلقات ہمیشہ ہمشیہ کے لئے ختم ہوچکے ہیں اور تم اور تمہاری ماں اس ملک کی زبان بالکل مقامی لوگوں کی طرح بول سکتے ہو۔

    میں وہ سفر کبھی بھول نہیں سکتا۔ مگر میرے لئے بہتر ہے کہ اسے بھلا دوں۔ میں آج بھی اس کے لئے خود کو گناہ گار تصور کرتا ہوں۔ اس دن مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ ایک ہی آسمان کے نیچے زندگی گذارنے کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہوتے ہیں۔ سچ کہا جائے تو یہ سفر ایسا تھا کہ اس کے بعد میرے لئے دنیا میں حیران ہونے کے لئے بہت کم چیزیں رہ گئی تھیں۔ شاید یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اب میں بہت کم باتیں بول پاتا ہوں۔ دوسری طرف نہ میں بہت دیر تک بولتے رہنے والوں کو ٹھیک سے سمجھ پاتا ہوں نہ ان لوگوں کو جو پورے وقت خاموش رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے پہلے والے کے پاس کوئی کہانی سرے سے نہیں ہوتی شاید اسی لئے وہ اتنے سارے لفظوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں جب کہ دوسرے کے پاس ایک ایسی کہانی ہوتی ہے جسے اس کے لئے الفاظ کی شکل دینا نا ممکن ہوتا ہے۔ ہم جب اپنے پیدائشی وطن کے اسٹیشن میں اترے تو ماں کے چہرے پر ناخن کے کھرونچ کے دو گہرے نشان تھے جو پوری طرح سوکھے تونہ تھے مگر اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ماں کے ساتھ زندگی بھر رہ جانے والے تھے۔ سارا راستہ ماں کی دونوں آنکھوں میں ایک رقیق مادہ لرز تا رہا تھا لیکن آخر تک اس نے پانی بننے سے انکار کر دیا۔ ماں کو اپنے لوگوں کو ڈھونڈنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ شاید وہ ہر پل اس جگہ کو اپنے خواب میں دیکھتی آئی تھی۔

    یہ شہر کا بہت ہی گنجان علاقہ تھا جہاں ہر نکڑ پر لوہے کے ہائڈرنٹ کھڑے تھے جو گدلا پانی اگلا کرتے اور ٹرام ڈپو کے اندرسے ٹرام گاڑیاں بجلی کے تاروں میں نیلی چنگاریاں جگاتی ہوئی نکلا کرتیں۔ یہاں پر اب بھی پرانے زمانے کی بہت ساری عمارتیں کھڑی تھیں جن کے گنبدوں کے روشندانوں میں مختلف رنگ و نسل کی بلیاں کبوتروں کی تاک میں بیٹھی رہتیں اور اینٹ کی دیواروں پر لیمپ کے آہنی ڈھانچے لگے ہوئے تھے جن کا زمانہ گذر چکا تھا اور اب ان میں روشنیوں کا کوئی انتظام نہ تھا۔ وہاں ہمارے بچے کھچے رشتے داروں کو ہماری کہانی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک طرح سے یہ ٹھیک بھی تھا۔ میں دو سال کا تھا جب میرے نانا اپنے قریبی رشتے داروں کو کسی طرح کی بھنک دئے بغیر اپنے نقدی اور زیورا ت کے ساتھ راتو ں رات میری نانی، اما ں اور ابا کو لے کر مشرقی پاکستان کوچ کر گئے تھے۔ میری ماں ان کی اکلوتی اولاد تھی جس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ اب ہمیں لٹے لٹائے واپس آتے دیکھ کر کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ لوگ کس طرح سے ہمارا استقبال کریں۔ انھیں یہ بھی ڈر تھا کہ ہم کہیں نانا کی طرف سے اجمالی جائدا د پر دعویٰ نہ کر بیٹھیں۔ جہاں تک ماں کا تعلق تھا، یہ شہر ان کا اپنا تھا۔ اس کے آنگن اور دالانوں میں ان کا بچپن گذرا تھا، اس کے گلی کوچے ان کے جانے پہچانے تھے اور ان کے ذہن پر اس کے بازاروں اور پاٹھ شالاؤں کی یاد اب بھی تازہ تھی۔ لیکن میرے پاس تو سارا تجربہ ایک اور ہی ملک کا تھا جسکی پیدائش کو میں نے اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھا تھا، مگر جس کی شکل پوری طرح طئے ہو نے سے پہلے ہی ہم اسے خیرباد کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس نئے ملک کے لئے جس وفاداری کی ضرورت تھی کیا وہ میرے بس کی بات تھی؟ مگر اس سے زیادہ فرق پڑنے والا نہیں تھا۔ میں وہ تھا جس نے تاریخی واقعات کو اپنی آنکھوں کے سامنے پیش آتے دیکھا تھا اور ایسے انسان کے لئے اپنی وفاداری کو کوئی بھی شکل دینا آسان ہوتا ہے۔ آج بھی پْل پر بیٹھ کر جوتے چمکاتے وقت میں سوچا کرتا ہوں، میں تا عمر یہ کام نہیں کرنے والا، کہ میرے پاس دوسروں کے سلسلے میں تجربات زیادہ ہیں اور ایک دن میرے پاس کہنے کے لائق اتنی ساری باتیں ہوں گی کہ انھیں سن کر یہ دنیا اپنی نگلی دانتوں کے درمیان دبانے پر مجبور ہو جائےگی۔

    اپنے قریبی رشتے داروں کے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر آخرکار ماں نے ہمارے ایک دور کے رشتے دار کے گھر ایک کمرا کرایہ پر لے لیا تھا جو ہماری زبان ہی بولتے تھے۔ یہ جگہ ہمارے پشتینی مکان سے کافی دور دریا کے کنارے واقع تھی۔ ماں کو یہ جگہ پسند نہیں تھی۔وہ ہرہفتے بس میں بیٹھ کر اپنے حق کی لڑائی لڑنے پرانی جگہ جایا کرتی جہاں ہمارے پشتینی مکان کے سارے دروازے ہمارے لئے بند کر دیے گئے تھے۔ انھوں نے ایک وکیل سے بھی رجوع کیا تھا جس نے یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی ایک ایک پائی وصول کر دیں گے۔ ماں نے ایک بار مجھے باہر سے وہ کمرا دکھایا تھا جس کے اندر میں پیدا ہوا تھا۔ یہ کمرا کافی بڑا تھا جس میں کئی روشندان تھے اور اس کی دونوں کھڑکیاں دروازوں کی جسامت کی تھیں جن کی جھلملیاں برامدے کی طرف کھلی ہوئی تھیں۔ اس وقت اس کمرے میں میری عمر کا ایک لڑکا چھپر کھٹ پر بیٹھا اس کی دقیانوسی پوششوں کے نیچے سے میری طرف تاک رہا تھا۔ اس کی دونوں سوکھی ٹانگیں پلنگ سے اس طرح لٹک رہی تھیں جیسے وہ لکڑیوں کی بنی ہوں جن کے خاتمے پر چڑیوں کے پنجے لگے ہوئے ہوں۔میں نے محسوس کیا وہ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا۔ مگر اسے اس کا موقع نہیں ملا۔ اس کی ماں نے ہمیں دیکھ کردروازہ اندر سے بند کر لیا۔

    اب میں کبھی ماں کے ساتھ اس جگہ نہیں جاتا۔ ہمارے پرانے علاقے کے برعکس اس نئے علاقے کی گلیوں بازاروں میں ان لوگوں کی اکثریت تھی جو میرے باپ کی زبان بولتے تھے۔ یہ بڑے ہی اکھڑ قسم کے لوگ تھے، مگر بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ یہ ایک محنت کش قوم تھی۔ شاید ان پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ لیکن ہمارے دور کے رشتے دار انھیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ ان کے سلسلے میں ان کی رائے بالکل الگ تھی۔ ان کے خیال میں ہم ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کر سکتے تھے۔ شاید میرے باپ کے عمل نے اس بات کو تقویت پہنچائی تھی۔ خودمیں نے بازار میں ان چرب زبان پھل والوں کو دیکھا تھا جو کم تر درجہ کے پھل اچھے پھلوں کے ساتھ ملا کر چالاکی سے بیچ دیا کرتے۔ ان کے برعکس آلو پیاز بیچنے والے ملائم چہروں کے مالک تھے جو مجھے پسند آتے۔ وہ سامان والے پلڑے کو بٹکھرے والے پلڑے کے مقابلے کافی حد تک نیچے جھکا دیتے۔ مگر ہمارے رشتےداروں کا خیال تھا ان کے اس عمل سے مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں جب بھی اکیلا ہوتا وہ میری غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ’’تم نے کبھی غور نہیں کیا، ان ہندوستانیوں*کے چہروں کا رنگ کبھی نہیں بدلتا اور یہ اچھی بات نہیں۔ تم ایسے چہروں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔یہ ان کا ایک اور طرح کا فریب ہے۔ انگریزوں کے وقت سے وہ یہ کرتے آ رہے ہیں اور اب انھیں پکڑ پانا ممکن نہیں۔ کوئی نقصان کر کے سامان نہیں بیچتا۔‘‘ اس دن میں نے ایک اور بھی چیز جانی جب ایک پولس والے نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھ سے میری ماں کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے شاید میرے بارے میں بھی علم تھا۔

    ’’بچے تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ یقیناً تمہاری پیدائش اس ملک کی نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہ میرے باپ کی زبان بول رہا تھا۔ ماں نے اشارا کیا اور میں آنگن چھوڑ کر گلی میں آ گیا جہاں ایک بندر والا تماشہ شروع کرنے سے پہلے اپنی ڈگدگی بجا رہا تھا اور اکے دکے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ دس منٹ بعد وہ پولس والا گلی میں دکھائی دیا۔ میں نے تماشہ چھوڑ کر دور تک اس کا پیچھا بھی کیا۔ وہ بس چلتا گیا اور چلتے چلتے ایک جیپ کے پاس پہنچ گیا جو ایک ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔ جیپ کے اندر اور بھی کئی پولس والے بیٹھے تھے۔ جیپ دھول اڑاتی ہوئی سڑک کی بھیڑ میں غائب ہو گئی۔ میں واپس آ رہا تھا جب ماں کو میں نے گلی کے نکڑ پر دیکھا۔ وہ میری ہی طرف آ رہی تھی۔ انھوں نے اپنا سر اوڑھنی سے ڈھک رکھا تھا۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں وہی رقیق مادہ لرز رہا تھا جو ہمیشہ پانی بننے سے انکار کر دیتا۔ ’’میرے ساتھ آؤ ارسلان، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘ انھوں نے سختی سے میرا ہات تھام لیا۔ ہم ایک ساتھ چلتے ہوے ایک سنار کی دکان پر پہنچے جہاں ایک آدمی، جس کے چہرے پر برص نے ملک کا نقشہ بنا رکھا تھا، سلاخوں کے پیچھے بیٹھا تھا۔ وہ فوراً ماں کو پہچان گیا۔ شاید اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ اسی درمیان ہم نے دو بار اپنا وطن بدلا تھا۔ بعد میں ماں نے مجھے بتایا کہ وہ ہمارا خاندانی سنار تھا اور جب ان کی شادی نہیں ہوئی تھی وہ میری نانی کے ساتھ ہمیشہ اس دکان میں آیا کرتی۔

    ان دنوں اس دکان میں یہ سلاخیں نہیں ہوا کرتی تھیں نہ ہی اس کے چہرے پر برص کا یہ سفید نشان تھا۔ ماں نے اپنے دامن سے ایک کاغذ کی پوٹلی نکالی جسے انھوں نے اوڑھنی کے پلو سے باندھ رکھا تھا۔ اس میں سونے کی ایک ہار پڑی ہوئی تھی۔ اس شخص نے ہار لیتے ہوئے میری طرف مسکراکر دیکھا اور کہا۔ ’’بچے جلد بڑے ہو جاتے ہیں۔ تم نے کس اسکول میں اسے ڈالا ہے؟‘‘

    ’’ وہ دس برس کا ہو چکا ہے۔اب اس کی اسکول کی عمر نہیں رہی۔‘‘ ماں نے جواب دیا۔

    ’’کم از کم انسان کو زندہ رہنے کے لئے ایک کاغذ تو چاہئے۔‘‘ وہ احتیاط کے ساتھ ہار کاجائزہ لے رہا تھا جب ماں نے اسے یقین دلایا کہ یہ اسی کا ڈھالا ہوا ہے۔ وہ مسکرایا اور اس نے ہار کو پیتل کے ایک بالکل چھوٹے سے میزان کے پلڑے پرڈال دیا۔ اتنا چھوٹا میزان میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اس کے پیتل کے منحنی بٹکھرے اور لعل کے سرخ دانے مجھے کسی عجوبے کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دونوں پیسے کے بارے میں گفتگو کرنے لگے جس سے مجھے دلچسپی نہیں تھی۔میں تو شیشوں کے پیچھے کی چمکتی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس آدمی نے حساب کرنے کے بعد ایک لال پوتھی ماں کی طرف بڑھا دیا جس پر ماں نے فوراً دستخط کر دیا۔ ہم واپس لوٹ رہے تھے جب ماں نے مجھ سے کہا کہ میں کسی سے بھی اس بات کاتذکرہ نہ کروں۔ ’’یہ ہمارے رشتے داروں کا کمینہ پن ہے۔ انھوں نے پولس کو ہمارے پیچھے لگایا ہے۔ جانے وہ کیا چاہتے ہیں؟ مجھے ان سے یہ امید نہ تھی۔‘‘

    شام کو وہ پولس والا دوبارا دکھائی دیا۔اس بار وہ موٹر سائکل پر تھا جسے اس نے ہمارے گھر کے ٹھیک باہر روکا تھا۔ ماں نے اس کے لئے چائے بنائی۔ پولس والے نے چائے پیتے ہوئے میری طرف دلچسپی سے دیکھا۔ ’’کیا تم بیوقوف ہو؟‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔

    ’’وہ بس کم بولتا ہے۔‘‘ماں بولی اور جب وہ چلا گیا تو میں نے دیکھا ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ وہ اپنی مٹھی میں دبی ہوئی باقی رقم کو گھور رہی تھی۔’’ وہ میرا آخری گہنا تھا جسے مجھے گروی رکھنی پڑی۔ اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ مجھے شروع میں ہی سمجھ لینا چاہئے تھا۔ ہم لوگ ناگ کے گھونسلے میں لوٹ آئے ہیں۔‘‘

    ایک ماہ کے اندر اندر ہم لوگوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ ایک لوکل ٹرین میں بیٹھ کر ہم کئی گھنٹے سفر کرتے رہے جو مجھے ٹرین پر اپنے پچھلے سفر کی یاد دلا رہا تھا جب ہم سرحد سے گذر کر ایک اجاڑ سے اسٹیشن میں ایک ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔ یہ ٹرین جن پٹریوں پر دوڑ رہی تھی ان کے دونوں طرف لہلہاتے کھیتوں کی منڈیروں پر ناریل اور کیلے کے درخت کھڑے ہوا میں جھوم رہے تھے۔ آخر کار ہم ایک صاف ستھرے قصبے میں چلے آئے جہاں کھیتوں کے لامتناہی سلسلوں کے اس پار ایک بڑے شہر کی عمارتیں اور عبادت گاہیں نظر آ رہی تھیں۔ وہاں ماں نے مانگ میں سیندور سجایا اور ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ ماں نے مجھ سے کہا۔ ’’ارسلان، میں آخری بار تمہیں اس نام سے پکار رہی ہوں۔ تمہیں اپنا نام بھولنا ہوگا۔ میں نے تمہارے لئے ایک نیا نام اور ایک نیا اسکول چنا ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں کلاس میں تم سب سے بڑے لڑکے ہوگے مگرنئے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنا تمہیں اچھا لگے گا۔‘‘ دوسرے دن وہ مجھے ایک پاٹھ شالہ لے گئی جہاں مجھے پتہ چلا کہ مجھے ایک نیا نام دے دیا گیا ہے۔

    مجھے اس سے فرق نہیں پڑا تھا کہ میری ماں نے اپنا نام بدلا تھا یا نہیں۔ دراصل میں اسے جانتا ہی نہ تھا کہ ماں کا ایک نام بھی ہے۔ کلاس میں ایک دن کسی نے مجھ سے میرے باپ کے بارے میں پوچھا۔ جب میں نے اپنی عادت کے مطابق بتایا کہ وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں تو کسی کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ بات کلاس ٹیچر کے کان تک گئی تو اس نے مجھے الگ بلا کر میری سرزنش کی۔ انھوں نے کہا مجھے اپنے باپ کے سلسلے میں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے، وہ کیسے بھی انسان ہوں ایک بچے کو اپنے بزرگوں کے سلسلے میں احترام کا رویہ رکھنا چاہئے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی تھی کیونکہ میں نے وہی کہا تھا جو سرحد پار کرتے وقت ماں نے مجھے سکھا یا تھا۔ ماں سے جب میں نے اس واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے مسکراکر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور مجھے اپنے باپ کا نیا نام بتایا جسے داخلے کے وقت انھوں نے فارم پر بھرا تھا۔ وہ کافی تھکی ہوئی تھی اور ابھی ابھی میرے نانا کے شہر سے وکیل کے ساتھ مل کر لوٹی تھی جو ہر ماہ ان کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہڑپ جایا کرتا۔ ماں کے چہرے کی طرف تاکتے ہوئے مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ مجھے اپنے باپ کے اصلی نام کا تو پتہ ہی نہ تھا۔ ظاہر تھا اگر مجھ سے ان کا نام پوچھا جاتا تو بھی میرے پاس جھوٹ کہنے کے لئے کیا تھا؟

    گودی کے اس علاقے میں شام ہمیشہ ایسے اترتی ہے جیسے کسی نے کچے اپلوں کو آگ لگادی ہو۔ ان اداس اور دھندلی شاموں سے گذرتے ہوئے مجھے وہ برے دن یاد آ جاتے جب ہم ساری امیدیں ہار چکے تھے اور ڈھاکہ سے سینکڑوں میل دور ہم نے دریا کے کنارے ایک کچے گھر میں پناہ لے رکھی تھی جسے غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کے ٹھہرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ یہ دریا کافی کشادہ تھا اور اس کا سبز گھاس سے ڈھکا ہوا کنارا دریا پر بہت نیچے تک جھکا ہوا تھا جس میں جگہ جگہ ایسی بھیانک دراڑیں تھیں کہ انسان ان کے اندر گرکر ہمیشہ کے لئے غائب ہو جائے۔ ان کناروں پر ایسے اور بھی سینکڑوں کچے گھر بنے ہوئے تھے جن میں دوسرے لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ کچھ گھر ایسے بھی تھے جن کا آدھا یا ایک چوتھائی حصہ ٹوٹ کر دریا کے اندر چلا گیا تھا اور باقی حصہ رہ رہ کر ڈھ رہا تھا۔ یہ کنارے بالکل غیر محفوظ تھے، مگر ان میں ہر روز لوگوں کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس دن کہاسے نے شام غائب کر رکھی تھی۔ ہمارے پاس کوئی گھر تھا نہ کوئی وطن مگر ہمیں اس بات کا علم تھا کہ کسی بھی پل یا تو ایک نئے ملک کے دروازے ہمارے لئے کھل جائیں گے یا ایک نئی مصیبت ہمارے سر پر ٹوٹ پڑےگی۔ ہم نے ایک خاص جگہ جہاں پانی کم تھا، دریا کو چل کر پار کیا تھا۔ وہاں ماں کو اپنے نقدی کے ایک بڑے حصے سے محروم ہونا پڑا تھا۔ دریا پار کیے یہ ہمیں تیسرا دن ہو رہا تھا۔ ماں کو جس آدمی کا انتظار تھا دو دن سے اس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ہمارے پاس چینی کا ایک ڈبہ اور پاؤ روٹی کے تھوڑے سے ٹکڑے بچے تھے جو اب اتنے باسی ہو چکے تھے کہ چھوتے ہی چور ہو جاتے۔ ہمارے پاس ایک تھیلی چاول کی بھی تھی مگر اسے ابالنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اور پھر ہمیں سختی سے منع کیا گیا تھا کہ کسی جھونپڑی سے دھواں نہ نکل پائے۔ پانی کے لئے ماں مجھے کچی سڑک پر بھیجا کرتی جہاں ایک ہینڈ پمپ کے پیچھے بیرک کی چھت پر جو کبھی کسی زمیندار کی حویلی رہی ہوگی مگر اب فوج کی تحویل میں تھی، فوجی سگریٹ پیتے ہوئے، کندھوں سے رائفل لٹکائے پہرا دیا کرتے اور اور اپنی گردن سے لٹکتی دو چشمی دوربین سے دریا پار دیکھا کرتے جب کہ وہ جگہ ننگی آنکھوں سے بھی صاف نظر آتی تھی۔ کبھی کبھار جب میں ان کی نظروں میں آ جاتا تو وہ ہاتھ ہلا کر اشارا کرتے اور مسکراتے ہوئے کوئی ٹافی یاکاغذ میں لپٹا ہوا کیک کا ٹکڑا پھینک دیتے۔ ہمارا آدمی واپس لوٹا تو اس نے ایک سرخ ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر ایک سفید ستارا ٹنکا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر ماں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔’’اسے واپس رکھ لو۔ یہ پیسہ کافی نہیں ہے۔‘‘ اس نے ماں کو پیسے لوٹاتے ہوئے کہا۔’’تمہارے پاس کوئی گہنا وہنا نہیں ہے کیا؟‘‘

    ’’سارے لٹ لٹا گئے۔‘‘ ماں اس سے آنکھیں چرا رہی تھیں۔ پھر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے لگا وہ شاید اس آدمی کو دکھانا چاہتی تھیں کہ ان کے پاس اب بھی تھوڑے سے آنسو بچے ہیں۔ اس آدمی نے ٹوپی اتار کر اپنا سر کھجاتے ہوئے ماں کے سراپے کا جائزہ لیا۔ اس کے ننگے سر کو دیکھ کر مجھے بڑی کراہیت کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ نہ صرف اس کے سر پر بال برائے نام تھے بلکہ اس کی کھوپڑی کھجلیوں سے بھری ہوئی تھی جس سے مجھے اس کے ٹوپی پہننے کا راز سمجھ میں آ گیا۔’’تم مجھے ایسا کیوں دیکھ رہے ہو؟ تمہارا ارادہ کیا ہے؟‘‘ ماں نے اپنی پیشانی پر گر آئی لٹ کو انگلی سے واپس بالوں کے درمیان لوٹاتے ہوئے کہا۔ ’’تم کیوں نہ چل کر بیرک کے افسر سے خود بات کر لو۔‘‘اس آدمی نے ٹوپی واپس سر پر رکھ کر اپنی جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا۔’’تم اسے اپنی بات کہہ سکتی ہو۔ اگر کام بن گیا تو مجھے بھی پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    ’’تمہیں یقین ہے اس سے کام بن جائگا؟‘‘

    ’’یہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔مگر ایسا کئی بار ہو چکا ہے اور آخر میں کچھ لوگوں کے کام بنے تو ہیں۔‘‘

    میں آدھی رات تک اکیلا اپنی جگہ گٹھری اور سوٹ کیس کو تھامے بیٹھا رہا۔ کوٹھری کے باہر جھاڑیوں میں ہوا چپ تھی۔ کسی وجہ سے اس دن دریا میں پانی بہت کم تھا اور جگہ جگہ پانی سے ریت کے تودے اس طرح ابھرے ہوئے تھے جیسے دریا میں سینکڑوں گھڑیال آرام کر رہے ہوں۔ کبھی کبھار سفید بادلوں کو چیر کر چاند نکل آتاتو ریت کے گھڑیالوں کی آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ کہیں ماں کے آنے سے قبل ہی یہ کچا گھر اپنی کمزور زمین کے ساتھ ٹوٹ کر دریا برد نہ ہو جائے۔ مگر میں یہ جگہ چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ ماں نے سخت تاکید کی تھی کہ جب تک وہ لوٹ کر نہ آئے میں اس جگہ سے نہ ہلوں۔ میں تقریباً غنودگی کی حالت میں تھا اور اپنی آنکھوں کو کھلی رکھنے کی حتی المقدور کوشش کر رہا تھا جب ماں کی واپسی ہوئی۔ ان کے بال الجھے ہوئے تھے، قدم ٹھیک سے نہیں گر رہے تھے اور ان کے چہرے پر ناخن کے کھرونچ کے دو گہرے نشان تھے۔ یہ نشان مجھے روشنی میں اور بھی بڑے نظر آئے۔

    ’’تم ایسا میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟ اپنی آنکھیں واپس لو۔‘‘ ماں دھم سے میرے پہلومیں مٹی کے فرش پربیٹھ گئی۔ انھوں نے جھک کر پانی کی بوتل اٹھائی، کئی لمبے گھونٹ لئے اور لالٹین کی مدھم روشنی میں اپنا چہرا دھویا۔ پانی میں دھل کر اس کے چہرے کا گھاؤ جل اٹھا تھا۔ ان کی آنکھیں تلملا رہی تھیں۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھی سانسیں لیتی رہیں، پھر خاموش ہو گئیں۔ باہر چاندایک بار پھر بادلوں کے پیچھے چھپ چکا تھا جس کے سبب بادل بھی دکھنا بند ہو گئے تھے۔ ایک بار مجھے ایسا لگا جیسے نیچے دریا میں ریت کے گھڑیالوں میں سے کسی نے حرکت کی ہو۔ ماں بالکل بھی سانس نہیں لے رہی تھی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ گذر چکا تھا جب ماں نے گٹھری کھول کر اس کے اندر سے ایک کھرپی برامد کی، لالٹین کی لو دھیمی کی اور لالٹین اور کھرپی اٹھائے ایک سائے کی طرح برامدے سے اتر کر جھاڑی کے پاس گئی۔ میں نے برامدے پر کھڑے ہو کر دیکھا، وہ جھاڑی کے نیچے کی زمین کھود رہی تھی۔ گڈھا جب تھوڑا گہرا ہو گیا تو انھوں نے اس کے اندر سے کپڑے کی ایک چھوٹی سی تھیلی برامد کی جسے جانے کب میری لا علمی میں انھوں نے مٹی کے اندر چھپا دیا تھا۔ لرزتی انگلیوں سے تھیلی کو واپس گٹھری کے اندر رکھ کر جسے سفر کے دوران ماں ہمیشہ اپنی گود میں رکھا کرتی، انھوں نے اسے گرہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’کبھی اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔‘‘ انھوں نے پینچ گھما کر لالٹین بجا دی۔

    صبح سورج نکلنے سے پہلے وہ سرخ ٹوپی والا آدمی نمودار ہوا۔ ہم نے اپنے سامان سمیٹے اور دریا کے کنارے کنارے اس کے ساتھ چلنے لگے۔ جلد دریا پیچھے چھوٹ گیا۔ ہم تقریباً آدھا دن تک کھیتوں اور میدانوں میں چلتے رہے اور آخرکار ایک کچے راستے پر نکل آئے جس پر ہر سو دو سو گز کی دوری پر تارکول کے بچے کھچے ٹکڑے بتا رہے تھے کہ کبھی یہ ایک پکی سڑک رہی ہوگی۔ سرخ ٹوپی والے نے بتایا کہ کبھی یہ راستہ دونوں ملکوں کے بیچ آمدورفت کا واحد رذریعہ تھا، مگر اب ا س کی جگہ ایک اور بڑا راستہ نکال لیا گیا ہے جن پر اب سامان بردار ٹرک اور ملیٹری گاڑیاں دوڑا کرتی ہیں۔ اس متروک راستے پر چلتے ہوئے میں نے جو آسمان دیکھا اس جیسا روشن آسمان مجھے پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ ہم نے عجیب و غریب چڑیاں د یکھیں جو جھنڈ بناکر ہمارا پیچھا کر رہی تھیں۔ وہ رہ رہ کر جیسے ہوا سے نمودار ہوتیں اور پھر ہوا میں غائب ہو جاتیں۔ راستے میں ایک جگہ ماں کے ساتھ اس آدمی کی تکرار ہو گئی۔ اپنے چہرے کے دونوں زخموں سے رستے ہوئے رقیق مادے سے لا پرواہ ماں رندھے ہوئے گلے سے اس آدمی کا ہات تھام کر اسے زبردستی کچھ رقم تھماناچاہ رہی تھی جسے وہ لینے سے بار بار انکار کر رہا تھا۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ اتنے تھوڑے پیسے سے مطمئن نہ تھا۔ آخرکار دونوں کے درمیان کسی طرح کا فیصلہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دور تک ہمارے ساتھ چلا پھر ہمیں بتائے بغیر جانے کہاں غائب ہو گیا۔ ہم اکیلے ہی ویران راستے پر کئی کوس چلتے رہے۔ ہمیں جگہ جگہ آم کے درختوں کے جھنڈ دکھائی دے رہے تھے جن کے پیچھے ہر آدھے گھنٹے کے بعد کسی نہ کسی چھوٹے موٹے قلعے یا محل کی بوسیدہ فصیل نظر آ جاتی یا تاریخی مسجدوں کے کھنڈر دکھائی دینے لگتے۔ سناٹے میں ٹیلیگراف کے تار بج رہے تھے۔ سورج ڈوب رہا تھا جب ہمیں ایک اجاڑ ساریلوے اسٹیشن نظر آیا جس کے درختوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور پاس ہی کسی مندر میں گھنٹی بج رہی تھی۔ ہم لوگ اس کے پلیٹ فارم پر اپنی چرمی سوٹ کیس اور گٹھری کے ساتھ کھڑے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے جب صاف ستھرے لبا س میں ملبوس ایک جوڑے نے ہماری طرف دیکھا۔ وہ لوگ میرے باپ کی طرح اپنے ہولڈ آل اور سوٹ کیس کے ساتھ کھڑے تھے جیسے وہ بھی ایک ایسے سفر پر جانے والے ہوں جہاں سے کوئی نہیں لوٹتا۔

    ’’تم لوگ اس ملک کے نہیں لگتے۔‘‘ مرد نے کہا اور انگلی سے ہماری طرف اشارا کیا۔مگر عورت نے اسے آگے کہنے کا موقع نہیں دیا۔ ’’چپ بھی کرو۔‘‘ وہ بولی۔’’تمہیں کیا لینا۔ یہ ملک سب کا ہے۔ کسی کے ماتھے پر یہ لکھا نہیں ہوتا۔‘‘

    ٹرین کے اندر بہت دیر تک چپ بیٹھے رہنے کے بعد میں نے ماں سے پوچھا کہ رات وہ اتنی دیر تک کہاں رہ گئی تھی اور اس نے اس جگہ کیا دیکھا ،تو ماں نے مسکرا کر میرے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’اور کہاں جا سکتی تھی۔ سرحد کے داروغہ کے پاس ہی تو گئی تھی۔ کچھ کاغذات کی خانہ پری کرنے۔‘‘

    اس دن مجھے اس بات کا علم نہ تھا۔ مگر آج مجھے پتہ ہے وہ ناخن کے کھرونچ کے نشانات ان کے چہرے پر دائمی طور پر کیوں بن گئے تھے۔ ایک نئے ملک نے اپنے انداز سے ہمارا استقبال کیا تھا۔

    ’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ماں نے ٹرین کی کھڑکی سے چہرا موڑتے ہوئے کہا۔ انھوں نے اپنے حواس پر پوری طرح قابو پا لیا تھا۔

    ’’تم نے اس آدمی سے گہناکے بارے میں جھوٹ کیوں کہا تھا؟‘‘

    ’’یوں سمجھ لو میرا تمہیں جواب دینے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘ اور ماں نے چہرا کھڑکی کی طرف موڑ لیا جس کے باہر دھان کے لہلہاتے کھیت پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے اور ان کی منڈیروں پر کھڑے ناریل اور کیلے کے درخت ہو ا میں جھوم رہے تھے۔

    مجھے ایک بار پھر ماں کی موت کی طرف لوٹ جانا چاہئے۔ ایک عورت جس کے دماغ پر ملیریا کا حملہ ہو چکا ہو کیسے اتنی یاد داشت کے لائق ہو سکتی ہے۔ وہ شاید روشنی کے ہوتے ہوئے اندھیرے میں جینے لگی تھی اور پرچھائیوں کو دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی۔ تمہیں یہ سن کر دکھ ہوگا ارسلان، ماں نے بند آنکھوں کے ساتھ کہا تھا جیسے وہ اپنے اندر مجھے دیکھ رہی ہو۔ اب جو میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ تم تھے جس کے سبب تمہارے باپ نے پھر واپس لوٹنے کا نام نہیں لیا۔ ممکن ہے اس کے بعد بھی ماں نے اور بھی بہت سارے جملے کہے ہوں مگر اس جملے کو ہی میں بار بار کیوں یاد کر رہا تھا؟ اس لئے نہیں کہ اس سے میرے دل کو چوٹ پہنچی تھی۔ میں جانتا تھا ماں کا یہ ارادہ ہرگز نہ تھا۔ شاید ان کا کوئی ارادہ نہ تھا یا شاید ان کا ارادہ تھا کہ میرے دل میں اپنے باپ کے لئے کوئی گوشہ باقی نہ رہے۔ مگر یہ بیکار تھا۔ میں نے کبھی اپنے باپ کے بارے میں سوچا ہی نہ تھا۔ میری ماں میرے لئے اتنی زیادہ تھی، اتنی وافر تھی، انھوں نے چاروں طرف سے اس طرح مجھے گھیر رکھا تھا کہ میرے باپ کو اندر آنے کی اجازت ہی نہ تھی۔ میرے باپ کو شاید میری کم گوئی اور دھیمی حرکتوں سے مایوسی ہوئی تھی اور لڑائی نے انھیں ایک دوسری دنیا میں فرار ہونے کی سہولت عطا کی تھی۔ ماں اگر یہ بات مجھے نہ بھی بتاتی تو بھی میں اسے سمجھ سکتا تھا۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہ تھا۔ میں ہر حال میں اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر چکا تھا۔ خدا انھیں ایک نئے ملک میں خوش رکھے! اس دنیا میں ہر کوئی اپنی اپنی قسمت کے ساتھ جیتا ہے۔ مگر ماں نے اپنے دل کی آخری پھانس ابھی شاید نکالی نہ تھی۔ ’’مجھے افسوس ہے ارسلان۔۔۔‘‘ انھوں نے اپنی بڑی بڑی زرد آنکھوں کو پوری طرح کھول کر میری طرف آخری بار دیکھتے ہوئے کہا۔’’ میں تمہیں ایک اچھی دنیا میں چھوڑ کر نہیں جا رہی ہوں۔‘‘

    میرے دل نے کہا، شاید وہ یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ اچھی یا بری، مجھے اس دنیا کو اپنے طریقے سے جاننے کا حق ہے۔ ماں صرف یہ کہہ سکتی تھی کہ یہ دنیا اس کے لئے بری ثابت ہوئی، یا پھر یہ کہ اسے اس سے مایوسی ہوئی تھی یا اور کوئی جملہ جس سے انھیں تشفی ہوتی۔ مگر ان کی یہ کوشش کہ میری آخری روشنی بھی بجھ جائے میری سمجھ سے باہر تھی۔ ان کی موت کے بعد میں ان کے ٹھنڈے جسم کے سامنے جانے کب تک بیٹھا رہا۔ آس پاس کے بستروں میں اس بات کے سبب بڑی بے چینی تھی کہ مردہ کو ہٹانے میں اسپتال کے عملے کافی سستی سے کام لے رہے تھے۔ اسٹریچر پر منتقل کرنے سے پہلے نرس جب چادر سے میری ماں کے چہرے کو ڈھک رہی تھی تو اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا ’’تمہارے لوگ ڈاکٹر سے سرٹیفکٹ لینے گئے ہیں۔‘‘ وہ ایک پل کے لئے چپ ہو گئی۔ پھر اس نے میرے کان میں سرگوشی کی۔’’سرٹیفکیٹ لینا نہ بھولنا۔ کیا تم ان کی اکیلی اولاد ہو۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مجھے سمجھ لینا چاہئے تھا۔‘‘ نرس نے مجھے اسٹریچر کے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔محلے کے لوگ ماں کو کریہ کرم کے لئے جس دریا کے کنارے لے گئے وہ کوئی دریا نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دبیز گھاس سے ڈھکی ہوئی زمین اچانک پھٹ گئی ہو اور اس میں پانی بھر گیا ہو۔

    دریا کے کنارے ایک پتھر پر بٹھا کر جو شاید اسی مقصد سے اس جگہ لاکر رکھاگیا تھا کیونکہ اس کے نیچے کی زمین بالوں سے سیاہ ہو رہی تھی حجام نے میرا سر گھونٹا اور جب لوگوں نے میرے ہات سے ماں کے منہ میں آگ ڈلوائی تو میں رو پڑا۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں دنیا میں اکیلا ہو گیا ہوں۔ ماں، میں نے کہا، تم نے کیا کبھی سوچا ہوگا کہ مرنے کے بعد لوگ تمہارے ساتھ یہ حرکت بھی کریں گے؟ اس واقعے نے ایک طرح سے مجھے بدل دیا۔ میں نے ان کی چتا پر قسم کھائی کہ ایک دن میں اپنے باپ کو ڈھونڈ نکالونگا اور انھیں بتاؤنگا کہ کیسے ہم نے ایک فرضی نام کے اندر انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے۔ ماں کی موت کے بعد میرے لئے اب اس شہر کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی تھی۔ میں نے جب گھر چھوڑا تو میرے ساتھ وہی چرمی سوٹ کیس تھا جو اب بری طرح گھس چکا تھا۔ اس میں اور دوسرے سامان کے ساتھ کاغذ کا وہ ٹکڑا بھی تھا جس کی پیشانی پر اسکول کا نام درج تھا اور نیچے ہیڈ ماسٹر کے دستخط کے اوپر میرا اور میرے باپ کا فرضی نام، اس شہر کا ٹھکانہ اور پیدائشی تاریخ لکھی تھی۔ اس کاغذ پر مجھے اپنی ماں کا اصلی یا نقلی نام نہ دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ میں نے اپنی پہلی فرصت میں اسے جلا ڈالا۔ یوں بھی یہ ہر لحاظ سے ایک بیکار کاغذ تھا جس میں دو فرضی نام لکھے ہوئے تھے۔ میں نے ایک لوکل ٹرین پکڑی جو دھندلے تاروں کے نیچے ٹھنڈی ہوا کو چیرتی ہوئی واپس میرے نانا کے شہر کی طرف جا رہی تھی۔ کمپارٹمنٹ کے اندر بیٹھا میں دیکھ رہا تھا لوگوں کے چہرے کس قدر ستے ہوئے تھے، جیسے ہر کوئی اپنی کہانی دونوں جبڑوں کے درمیان دبائے بیٹھا ہو۔ اس دن میں نے فیصلہ کیا اس دنیا میں جہاں ہر کسی کی اپنی کہانی ہے، میں اپنی کہانی کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

    اس پرانے گھر کی سیڑھیاں کافی اونچی اور گھماؤ والی تھیں جن پر فرنیچر کو چڑھاتے وقت بار بار زاؤیہ بدلنا پڑرہا تھا۔چوتھی منزل تک پہنچتے پہنچتے ہم کتے کی طرح ہانپنے لگے۔ صوفہ کو اس کی مخصوص جگہ موزیک کے فرش پر رکھنے کے بعد میرے ساتھی نے انگوچھے سے اپنے چہرے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’ تو تم کہہ رہے تھے کہ تم مسلمان ہو اور تمہاری ماں ہندو تھی؟‘‘

    ’’نہیں، کیا میں نے ایسا کہا؟ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’وہ بھی مسلمان تھی۔ مگر مرنے کے بعد ان کی چتا کو آگ دی گئی اور جن لوگوں نے یہ کیا وہ برے لوگ نہ تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی وہی کام کرتا ہے جسے وہ اپنے طور پر اچھا سمجھتا ہے۔‘‘ مجھے اپنی بات پر حیرت ہوئی۔ میں کیسے اتنی لمبی بات کر پایا۔ کیا ماں کی موت کے ساتھ میری گویائی مجھے واپس مل گئی تھیں؟

    ’’تم بیوقوف تو نہیں ہو۔‘‘ میرے ساتھی نے کہا۔ ’’یا شاید مجھے بیوقوف سمجھتے ہو۔‘‘

    ہم دونوں ہر صبح سڑک پر ایک خاص جگہ بیٹھ کر کام کا انتظار کرتے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ایک ساتھ رہیں۔ ایسا کیوں تھا ہمیں اس کا علم نہ تھا۔ ایک بار ہم دونوں الگ الگ جگہ کام کرنے گئے تو سارادن مجھے بڑی ویرانی کا احساس ہوا۔ دوسرے دن اس نے بھی کچھ ایسی ہی بات بتائی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم دونوں کے درمیان باتیں کرنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ ہمارے درمیان زیادہ تر خاموشی کی حکمرانی ہوتی۔مگر دھیرے دھیرے مجھے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے، کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں کھلتا جا رہا ہوں اور اب ضروری ہو گیا ہے کہ میں اپنی جگہ بدل لوں۔ مگر وہاں پر جگہ بدلنے کے لئے نہیں تھی۔ دہائیوں سے یہ مزدوروں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اور پھر جس چینی دندان ساز کے مطب کے سامنے ہم بیٹھا کرتے وہ ہمارے لئے کافی سازگار بھی ثابت ہوئی تھی۔ تو کیا یہ میری اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ ایک دن وہ اور پھر نظر نہ آیا؟ اور جب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ہمشہ کے لئے غائب ہو گیا ہے تو مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ میرے اندر کبھی اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کی خواہش کیوں نہ پیدا ہوئی؟ مگر خود میں نے اسے اپنی ماں کی موت کے علاوہ اپنے بارے میں اور کچھ بتایا کیوں نہیں تھا؟ خود اس موت کے بارے میں میں نے بات ہی کیوں کی جب کہ اس میں بتانے کے لائق کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ یہ لوگوں کو اور بھی حیران کر سکتی تھی؟ آج مجھے یاد نہیں آتا کہ وہ کیا وجہ تھی کہ ہمارے بیچ ماں کی موت کا تذکرہ آ نکلا تھا۔

    جیسا کہ میں نے اپنی ماں کی چتا پر قسم کھائی تھی، مجھے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ مگر شایدمیں اپنی آزادی کا غلط استعمال کرنے لگا ہوں۔ ٹرین سے اترنے سے پہلے میں نے اپنا اصلی نام واپس حاصل کر لیا تھا۔ میں نے ایک اور بھی نام رکھ لیا تھا جس کا کوئی بھی مطلب نہیں نکلتا تھا۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ ایسے ایک نام سے کافی سہولت ہوتی ہے۔ سچ پوچھیں تو اس نام سے اگر لوگ مجھے ایک ماہ نہ پکاریں تو میں خود اسے بھول سکتا ہوں۔ مگر میری گلی میں ایک عورت ہے جو مجھ سے دس سال بڑی ہے۔ وہ نہ صرف میرے اصلی نام سے واقف ہے بلکہ اس نے میرے دونوں ناموں کو اچھی طرح سے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ یہ گلی جس میں میں کرایے پر رہتا ہوں دو کشادہ سڑکوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔ اس گلی کے ایک سرے پر جو سڑک ہے وہاں پولس کی چوکی سے بالکل قریب ہر رنگ و روغن کی طوائفیں کھڑی رہتی ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں دو منزلہ سہ منزلہ گھروں کے اندر بنی ہیں۔ یہ طوائفیں اپنے گاہکوں کے ساتھ ان گھروں میں لوٹتی ہیں جب کہ گلی کے دوسرے سرے پر کھپڑیل کے ایسے ہی گھروں کے بیچ ایک دو منزلہ مسجد واقع ہے جس کا پھاٹک ایک دوسری کشادہ سڑک پر کھلتا ہے جہاں گوشت کی دکانوں اور بیف ہوٹلوں کی بھرمار ہے اور لنگی کرتا پہنے، سر پر ٹوپی چپکائے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد آدھی رات تک کھڑی دکھائی دیتی ہے۔

    اس جگہ وہ نو جوان لڑکے بھی بھیڑ لگاتے ہیں جو کانوں میں بالیاں لٹکائے، کھینی گھستے ہوئے طرح طرح کی گالیاں ایجاد کیاکرتے ہیں اور دکان کے سامنے بینچوں پر بیٹھ کر یا فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر گذرتی عورتوں اور لڑکیوں پر اپنی عقابی نظریں ڈالتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس دنیا میں ان کے آنے کا بس یہی مقصد رہ گیا ہو۔ گرچہ اس عورت کا رنگ میری ماں کی طرح ساونلاہے مگر اس کا ناک نقشہ میری ماں کے مقابلے زیادہ پر کشش ہے۔ وہ طوائف والے سرے سے آئی ہے جہاں کچھ سال پہلے تک ا س کی اپنی ایک کوٹھری تھی اور وہ سڑک پر کھڑی گاہکوں کا انتظار کیا کرتی تھی۔ مگر اب اس نے اس مسجد کے قریب اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے جہاں وہ اپنے طوطوں کی دیکھ بھال کیا کرتی ہے یا جائے نماز پر بیٹھی تسبیح گنتی رہتی ہے یا پھر پیر فقیر کے مزاروں کی زیارت کرتی پھرتی ہے۔ اس نے اپنے دروازے پر ایک سبز جھنڈا لٹکا رکھا ہے جس پر صندل سے ہاتھ کا نشان بنا ہوا ہے۔ وہ ہر جمعہ اور ہر تہوار پر کسی نہ کسی مولوی کو بلاکر کسی پیر یا فقیر کے نام پر نیاز یا فاتحہ خوانی کرواتی ہے اور اپنے گھر سے لے کر نکڑ تک لوگوں میں شیرنی تقسیم کرتی ہے جو زیادہ تر چینی یا بتاسے پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسی بہانے اس نے مجھ سے بھی پہچان بنا لی ہے۔ ’’تمہیں ایک ایسی عورت کی ضرورت ہے جو عمر میں تم سے کافی بڑی ہو۔‘‘ اس نے ایک دن مجھ سے کہا۔ ’’کیا تم نے شادی کے بارے میں سوچا ہے؟ دن گذر جاتے ہیں۔ کیلے کے درخت میں دو بار پھول نہیں آتے۔‘‘

    مجھے اس کی بات سن کر کوئی حیرانی نہ ہوئی تھی ۔سچ کہا جائے تو ان دنوں میں ہر وقت شادی کے بارے میں سوچنے لگا ہوں۔ دراصل لا شعوری طور پر میں یہ سوچنے لگا ہوں کیا اپنے باپ کی طرح میں اپنے ہونے والے بچے سے پیچھا چھڑا سکتا ہوں؟ میں نے اس عورت کو ایک مرد کی نظر سے بھی دیکھا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے اس کا ناک نقشہ کافی پر کشش ہے۔ صرف اس کا پیٹ کافی بڑا ہے جیسے اس کے اندر کوئی ٹیومر پل رہا ہو۔ اس جیسی بڑے پیٹ والی عورتوں کے لئے ایک خاص طرح کے مردوں کے اندر کافی کشش ہوتی ہوگی، مگر میں وہ مرد نہیں تھا اور فالحال میں اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہا ہوں۔ میں تو صرف شادی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ نہیں میں شادی کے بارے

    میں نہیں سوچ رہا ہوں بلکہ اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ لیکن شاید میں اپنے ہونے والے بچے سے زیادہ یہ سوچ رہا ہوں کہ اس سے پیچھا چھڑانا کیسا رہےگا۔ میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ میں جو اتنا کچھ سوچتا ہوں اور اتنا کم بول پاتا ہوں کیا میں اس کا اہل بھی ہوں کہ مجھ سے کسی عورت کا حمل ٹھہر جائے، خاص طور پر ایک ایسی عورت کا جس کے پیٹ میں ٹیومر پل رہا ہو۔ کچھ دنوں سے وہ میرے لئے اچھی اچھی چیزیں پکا کر لانے لگی ہے کیونکہ میرے کمرے تک پہنچنے کے لئے اسے صرف گلی پار کرنی پڑتی ہے۔ اس کے گھر میں ایک چھوٹا سا آنگن ہے اور ایک برامدہ جہاں کئی لوہے کے پنجڑے جھپر کے کنڈوں سے لٹکتے رہتے ہیں۔ ان پنجڑوں کے اندر سبز رنگ کے طوطے بند ہیں جو رہ رہ کر کرخت آوازیں نکالنے کے عادی ہیں۔ باقی وقتوں میں یا تو وہ چپ کھڑے رہتے ہیں یا پانی اور چنے کے پیالوں میں چونچ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان طوطوں کے سبب نیچے کا فرش ہمیشہ گیلا رہتا ہے جسے صاف رکھنے کے لئے اسے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ ان طوطوں کو کبھی کوئی زبان نہیں سکھاتی۔’’میں نے ان کے کاروبار میں اچھا پیسہ بنایا ہے۔ یہ طوطے کرشمے دکھاتے ہیں۔‘‘ ایک دن اسنے مجھے بتایا۔ ’’میں نے بہت گناہوں بھری زندگی گذاری ہے۔ کیا سمجھتے ہو خدا مجھے معاف کرےگا؟ لیکن میں نے کافی دکھ بھی اٹھائے ہیں۔کیا میرے ساتھ انصاف ہوگا؟‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم خدا کیا سو چتا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    اس حقیقت سے میں انکار نہیں کرتا کہ خدا کو سمجھنے کے لئے میرے پاس کبھی مناسب وقت نہیں رہا۔ بس واقعات یکے بعد دیگے پیش آتے گئے۔ جنگیں چھڑیں، لوگوں کا قتلِ عام ہوا، سرحدیں پھر سے بنیں۔ جیل خانے بھرے گئے۔ لوگ سلاخوں کے آر پار ایک دوسرے کو دیکھنے کے عادی ہوتے گئے۔ آزادی کی تقریبات شروع ہوئیں، لیکن کسی کو پتہ نہ تھا وہ کس بات کی خوشی منا رہے تھے۔ لوگوں نے فینسی ڈریس کی رسم اپنائی۔ عجیب و غریب نقابوں کی روایت پڑی۔ کچھ لوگوں نے کہا، یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے۔ تمہیں اصلی دنیا کے لئے کچھ کرنا چاہئے، وہاں جہاں زمین کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جہاں کے پھل دائمی ہیں اور سایہ لا زوال ہے۔ وہاں تمہاری ہر طرح کی خواہشات کی تکمیل ہوگی جن پر دنیا میں روک لگا دی گئی ہے مگر اس سے پہلے تمہیں اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی پڑےگی۔ کچھ لوگوں نے کہا، تمہیں بائیں سمت چلنی چاہئے۔ سچائی صرف بائیں طرف ہے۔ مجھے معلوم نہیں وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے؟ میں نے کچھ عرصہ تک ان کا ساتھ بھی دیا یہ جانے بغیر کہ اس سے آسمان کے نیچے کیا تبدیلی آنے والی تھی۔ شروع کی طرف میں نے کام کی تلاش میں لوکل ٹرین میں دور دور تک سفر کیا مگر ہر بار یہ سفر کسی نہ کسی دریا کے کنارے ختم ہو جاتا، وہاں جہاں کشتیاں ندی پر اینٹ، ریت اور جانور ڈھویا کرتیں یا پھر دور آسمان کے نیچے فیکٹری کی چمنیاں آگ اور دھواں اگلا کرتیں یا پھر ایک آدھ بازار ایسا نکل آتا جس کے آس پاس کوئی نہ کوئی ریلوے پل ضرور ہوتا جس پر زیادہ تر مال بردار ٹرینیں دوڑا کرتیں اور پل کے نیچے طوائفیں کھڑی گاہکوں کا انتظار کرتیں۔

    ایسے ہی کسی سفر کے دوران میں نے اپنے ساتھی مسافروں سے کہا، کیا برا ہے اگر میں نے اپنے سارے دروازے کھول رکھے ہیں۔ مگر سب کی یہی رائے تھی کہ تم بیک وقت ہر کسی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ تمہیں چننا پڑتا ہے، تمہیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے، کہیں نہ کہیں اپنا لنگر ڈالنا پڑتا ہے۔ دوسرے وقتوں میں کسی نے مجھے رائے دی، تمہیں نئے شناختی کا غذات کی ضرورت ہے، ایسے کا غذات جن کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر نہ ہونے سے کافی فرق پڑ جاتا ہے۔لیکن میری کشتی کو رکنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ تھی۔ میرے سارے کنارے کٹ چکے تھے اور اپنے باپ کی طرح میں کسی فرضی نام کے ساتھ مرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ کیا آپ نے یہ کہانی بار بار نہیں سنی ہے؟

    اس عورت نے دھیرے دھیرے میری ساری کمزوریاں پڑھ لی ہیں۔ اس نے ا پنی دانشمند آنکھوں کا بھرپور استعمال کیا تھا جس کے بدولت وہ طوطوں کے کاروبار میں کافی کامیاب رہی تھی۔ میں اس کی آنکھوں میں جانے کیوں ہمیشہ ایک سرنارتھیوں سے بھرے جہاز کو دیکھا کرتا جس کے عرشے پر میرا باپ ہمیشہ اپنے سوٹ کیس اور کوٹ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے اور مجھے اس پر حیرت ہوتی کہ کتنا عرصہ گذر گیا ہے مگر آج بھی وہ اسی جگہ اسی حالت میں کھڑے ہیں۔ شاید نئے ملک میں انھوں نے اپنے لئے ایک نیا نام تجویز کر لیا ہو۔ کاش ایسے کسی جہاز سے اترے ہوئے کسی مسافر کا مجھے علم ہوتا۔ میں اس سے اس جہاز کے اندر پیش آنے والے واقعات کی جانکاری حاصل کرتا۔ مگر میرے لئے شاید کہیں پر کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔

    اس رات سب کچھ کسی طئے شدہ پروگرام کے تحت نہیں ہوا تھا۔ میں آئس کریم کی ٹرالی جمع کرکے واپس لوٹا تھا۔ واپسی پر ہر رات میں جس ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا اس کے باہر راکھ پر لوٹتے کتے ہمیشہ خود کو پرچھائیوں کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کیا کرتے۔ اس رات میں ہوٹل سے کھانا کھا کر باہر نکلا تو میں نے دیکھا کتے کسی وجہ سے بالکل چپ تھے بلکہ جو جہاں پر تھے اپنی جگہ بےحرکت کھڑے تھے۔ ان کتوں کی طرف تاکتے ہوئے جانے کیوں مجھے شدید اکیلے پن کا احساس ہوا اور واپسی پر میں نے اپنے گھر کی بجائے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بہت دیر تک دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب اس نے دروازہ نہیں کھولا تو میں مایوس ہو کر واپس لوٹنے کا ارادہ کر رہا تھا جب اس کی کھڑکی کھل گئی۔ وہ سلاخوں کو تھامے کھڑی تھی، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ متوحش آنکھوں سے میری طرف تاک رہی تھی۔ مجھ سے نظریں ملتے ہی اس نے پھر سے کھڑکی بند کر لی۔ دوسری صبح اس نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں کافی گہری نیند سے جاگا تھا۔ آج اس نے کافی صاف ستھرے لباس پہن رکھے تھے اور چہرے پر ہلکا سا میک اپ بھی چڑھا رکھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کسی مرد کا سامنا کئے ہوئے اسے ایک لمبا عرصہ بیت گیا ہے۔ دراصل میں اتنا اچانک وارد ہو گیا تھا کہ وہ خوفزدہ ہو گئی تھی۔ تم جہنم جا سکتی ہو، میں نے کہا۔ میں یہ جملہ کئی بار سن چکی ہوں، وہ ہنسی، مگر پہلی بار مجھے لگ رہا ہے کہ اس کا ایک مطلب بھی ہے۔ وہ چارپائی پر میرے پہلو میں بیٹھ گئی اور اس نے اپنا سر میرے ننگے سینے پر رکھ دیا۔ آج اس نے سرمہ لگا رکھا تھا جس کے سبب اس کی آنکھیں کافی بڑی نظر آ رہی تھیں اور اس کے بالوں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی جس نے میرے اندر نفسانی خواہش کو جاگنے پر مجبور کر دیا۔ میں اس کی ننگی گردن کو چوم رہا تھا، اس کی پشت کو سہلا رہا تھاجب۔۔۔تمہیں یہ خوشبو پسند ہے؟

    اس نے سر اٹھا کرکہا۔ ’’یہ تیل میں نے کیوڑے کے پھولوں سے خود بنایا ہے۔‘‘ اور اس نے خود کو مجھ سے الگ کر لیا۔میں دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ آج رات ہم سارے معاملات سلجھا لیں گے، اس نے کہا اور چلی گئی۔ اس رات اس نے پوری تیاری کر لی تھی۔ ہم دیر تک اس کے اندرونی برامدے میں کھڑے طوطوں سے باتیں کرتے رہے۔ رات گہری ہو چکی تھی اور چھپروں کے اوپر گرم ہوا چل رہی تھی جب وہ میرے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ آج اس کا کمرا کافی سجا ہوا تھا۔ اس نے کھڑکیوں پر نئے پردے ٹانگ رکھے تھے۔ ہم نے بستر پر بیٹھ کر دیر تک گفتگو کی جس کا کوئی سر پیر نہ تھا جیسے ہمارا مقصد صرف وقت کو پیچھے کی طرف ڈھکیلنا ہو۔مگر پھر ہماری گفتگو کے اندر کچھ بھی نہیں رہ گیا۔ اس دن میں نے کسی عورت کو پہلی بار اس کے اصلی روپ میں دیکھا۔ وہ ننگی ہوئی تو اس کا پیٹ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ اس کا پیٹ تو اتنا بڑا نہیں تھا جتنا کپڑا پہننے پر دکھائی دیتا ہے۔ اس نے ایک نئی عورت کی طرح میرا سامنا کیا۔ اسے کراہنے کا فن معلوم تھا۔ مگر میری طرف سے سب کچھ اتنی جلد ہو گیا کہ اسے تھوڑی سی مایوسی بھی ہوئی۔اس نے کہا، تم نے میری نئی چادر خراب کر دی۔ مجھے نہیں معلوم تھا اس معاملے میں تم بالکل اناڑی ہو۔ تمہیں پتہ ہے تم نے اپنی زندگی کے کتنے قیمتی سال کھو دیے ہیں؟ میں تمہیں ایسے لڑکوں کے بارے میں بتا سکتی ہوں جو تم سے آدھی عمر کے تھے، جن کی مسیں ابھی بھیگی بھی نہ تھیں، جو میرے پاس آیا کرتے۔ مجھے حیرت ہوئی۔ واقعی وہ ٹھیک کہہ رہی تھی، عورت، ہم اسے بستر پر جانے بغیر اس دنیا یا آخرت کے بارے میں کچھ بھی تو یقین سے نہیں کہہ سکتے۔

    بعد میں جب ہم ننگے لیٹے ہوئے چھپر کی طرف تاک رہے تھے تو اس نے مجھے بتایا، جس طرح تجربہ کے بغیر آدمی اناڑی ثابت ہوتا ہے، اسی طرح حد سے زیادہ تجربہ انسان کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ ہم اپنی سوچ کے غلام بن جاتے ہیں۔ شاید ہم نے جلدبازی کی تھی۔اتنے سالوں تک ایک فرضی نام کے ساتھ (اس نے اپنی بدنامی کے دنوں میں کئی بار نام بدلے تھے) بھانت بھانت کے مردوں کا سامنا کرنے کے بعد اسے کچھ اور وقت چاہئے تھا۔ میں خوفزدہ تھی، پہلے کی طرح تمہارے لئے صرف ایک گوشت پوست کا لوتھڑا نہ بن کر رہ جاؤں۔ اس لئے میں اب تمہیں اپنا اصلی نام بتانا چاہتی ہوں۔ کیا تم اسے جاننا چاہوگے؟ اور تم میرے کراہنے پر نہ جاؤ۔ یہ میری پرانی عادت ہے جس سے میں گاہکوں کو فریب دیا کرتی تھی۔ اس سے وہ جلدبازی سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے۔ میں ایسا کرنے پر مجبور تھی۔ مجھے کمرے کا کرایہ دینا پڑتا، دوسرے اور بھی اخراجات تھے اور پھر میری طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ مجھے اس پر قابو پانا ہوگا۔ میں چاہتی ہوں، جب بھی میں تمہارے پاس آؤں میں وہ بن جاؤں جو اس بدنامی کی زندگی سے پہلے تھی اور اس نے مجھے اپنا اصلی نام بتایا۔ مگر اس سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے کہا، تم کہنا کیا چاہتی ہو، ہمارے تجربات دھاگو ں کی طرح ہوتے ہیں جو آپس میں الجھ جاتے ہیں؟ایسا صرف اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ہم جیسوں کے پاس کبھی کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ ہم بس جیتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے، ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے ساری زندگی انسانیت کی خدمت کی۔ انھوں نے بھوکوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا، اپاہجوں کو بیساکھیاں بانٹیں،خدا کی طرف سے پیغامات نشر کئے جنھیں قبول نہ کرنے والوں کے لئے کوڑے مخصوص تھے، مگر آخر میں انھیں بھی اس بات کا پتہ چل گیا تھا کہ انھوں نے ایسے جہاز بنائے تھے جو بےوطنوں کو ان کے وطن پہنچانے والے تھے مگر یہ جہاز کبھی کنارے پہنچنے والے نہ تھے۔

    اس نے حامی بھرتے ہوئے کہا، میں جانتی ہوں، میں نے ایسے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل سے ثواب کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک بار ایک سینی ٹوریم میں داخلہ لیا تھا۔ میرے پھیپھڑوں پر داغ آ گئے تھے۔ میں مرتے مرتے بچی۔ مگروہاں مجھے اپنے پپھیپھڑوں کے بارے میں اتنا کچھ بتایا گیا کہ ان پر عمل کرنا مشکل تھا۔ وہاں میرا بہت سارا پیسہ برباد ہو گیا۔ تو میں نے صرف یہ کیا کہ پرانا دھندا چھوڑ دیا۔ اب پاک پنجتن کی عنایت سے میں روز نہیں مرتی۔ یہ تو اچھی بات ہے، میں نے کہا۔ اس سے سب کچھ وہی رہتے ہوئے بھی تمہاری دنیا آسان ہو گئی ہوگی۔ مگر تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہی ہو؟ مسعودہ، یہی نام بتایا ہے نا تم نے اپنا ؟میں نہیں جانتا، میں تمہارے اس نام کا کیا کرونگا؟ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم میری اصلیت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ دنیا بہت بڑی ہے۔ یہاں ہزاروں لاکھوں طاقتیں ہیں، جنھیں تم جانتے بھی نہیں، جوتمہارے خلاف کام کرتی رہتی ہیں اور تمہارے پاس اپنی شکست تسلیم کرنے کے علاوہ انھیں روکنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اپنی شکست تسلیم کر لو، کسی جگہ ٹھہر جاؤ۔ کسی کے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ تم میرے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ ہم دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے نکاح کر لیں گے۔ تم کہناکیا چاہتی ہو؟ میں نے کہا۔ کیا تم مجھے کسی خطرے سے بچانا چاہتی ہو؟ کیا تم نے ہمیشہ اس طرح کا کام کیا ہے؟ کیا تمہارے پاس بھی کوئی جہاز ہے؟اس نے جواب دیا، اسے شک ہے وہ ایسے کسی کام کی اہل بھی ہے۔ کیا ایک ایسی دنیا میں جہاں ایک چھدام کے لئے لوگ شور مچاتے ہوں، یہ ممکن ہے کہ آدمی اتنی آسانی سے کسی کی دنیا بدل دے، یا اپنے ماحول سے الگ ہو کر اپنے لئے ایک نئی دنیا بنا لے۔ ہمیں بس ڈھنگ سے کچھ سال جی لینے چاہئیں اور تم جس جہاز کی بات کر رہے ہو، وہ کبھی واپس نہیں لوٹتا۔ یہ دنیا بس اسی طرح ہے۔ تمہیں پانی پر بس ایک کوڑے کے ڈھیر کی طرح تیرتے رہنا ہے۔ ہو سکتا ہے اس پر مٹی جمتے جمتے کوئی پودا نکل آئے اور ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لے جیسا کہ میں نے اپنے گاؤں میں دیکھا ہے۔

    اس گلی میں ناریل کے کئی پیڑ تھے جو دھول سے اٹے ہوئے تھے اور چھپروں کے بیچ سے اس طرح نکلے ہوئے تھے جیسے خبیث اپنے بال بکھرائے کھڑے ہوں۔ ان کے پتوں میں پرندے کبھی کبھار رات کے وقت بلا وجہ واویلا مچایا کرتے جیسے ان کا کوئی خاندانی تنازع سامنے آ گیا ہو۔ مسجد کی طرف برگد کا ایک لحیم شحیم پیڑ تھا جس میں گرمی کے آتے ہی کوئلیں کوکنے لگتیں۔ وہ دن بھر بلا تکان کوکتیں۔ انھیں بس مسجد کے میناروں سے بندھے ہوئے لاؤد اسپیکر وں سے آتی اذان کی کرخت آواز ہی چپ کرا پاتی۔ مگر یہ دیرپا ثابت نہ ہوتا۔ کچھ ہی دیر کے بعد کوئلیں شد ہ مد کے ساتھ کوکنا شروع کر دیتیں۔ ہر رات مجھ سے لپٹ کر وہ چین کی نیند سو جاتی اور میں اس کے پھیپھروں کی آوازسنتا رہتا جیسے کوئی اس کے اندر کاغذ مروڑ رہا ہو۔ کبھی کبھار وہ اچانک غیرمتوقع طور پر خراٹے لینا شروع کر دیتی اور میں دیر تک جاگے رہنے پر مجبور ہو جاتا۔ مگر کسی کسی رات وہ چونک کر جاگ اٹھتی۔ اس وقت اسے اپنے کپڑوں کا بھی ہوش نہ رہتا۔ وہ اٹھ کر اندر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھول کر ننگی کھڑی ہو جاتی اور آنگن کی آوازوں کو سننے کی کوشش کرتی۔ کمرے کے اندھیرے میں ایسا لگتا جیسے وہ کل ملاکر ایک بڑا سا پیٹ ہو جس میں اس کی دونوں ٹانگیں اور ہات غلط سمت میں گتھے ہوئے ہوں۔ تم سن رہے ہو، وہ سرگوشی کرتی، رات کی اپنی ایک بہت ہی پراسرار دنیا ہوتی ہے۔ میں اس دنیا کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ میں پہاڑوں سے گھرے ہوئے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی۔ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جانور بن گیا ہوں جب کہ وہ ابھی بھی ایک عورت ہے اور میں کسی وحشی درندے کی طرح اپنی شہوانی خواہش پوری کر رہا ہوں۔ جانے یہ کتنی دیر تک چلتا ہے جب ہیجان شہوت سے میری نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں، وہ مجھ سے لپٹی ہوئی ہے اور خود بھی شہوانیت کے جذبے سے سرشار ہے۔ اس نے سرگوشی میں کہا، تم ایک حیرت انگیز انسان ہو۔ اگر میں تم سے نہ ملی ہوتی تو کبھی شہوت کے اس ہیجان کو جان نہ پاتی۔ مجھے لگ رہا ہے میں اپنے کنوارے دنوں میں لوٹ رہی ہوں جب میں گاؤں میں بڑی ہو رہی تھی اور ہم سہیلیاں ایک دوسرے کو اپنی ماہواری کے قصے سنایا کرتیں۔ اگر تم چاہو تو ہم ایک ساتھ اپنا گاؤں لوٹ سکتے ہیں۔ وہاں ہمارا پشتینی مکان ہے جس میں میرا ایک ذاتی کمرا ہے۔ میرے رشتے دار میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اس کمرے پر قبضہ جما سکیں۔ تمہیں دیکھ کر انھیں مایوسی ہوگی۔

    گاؤں! گرم تکیہ کے اندر اپنے دونوں کانوں تک دھنسا ہوا میں روئی کے اندر کے سناٹوں کو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیوں نہیں اور اس کے لئے ذاتی طور پر میں تمہار شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ اس واقعہ کے دو مہینے بعد اس نے مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں مزید جانکاری دی۔ اس نے کہا، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، اس کے پاس ایک بہت ہی کمزور پھیپھڑا ہے اور شہر کی آلودگی دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے، وہ اگر گاؤں لوٹ جائے تو شاید کچھ اور برس جی لے۔ میں نے کہا، کیا یہ ضرورت سے زیادہ چاہنے کی طرح نہیں ہے؟ نہیں، اس نے کہا، یہ زندہ رہنے کی ایک عام خواہش ہے جو ہر انسان کے اندر ہوتی ہے۔ میں نے اس گاؤں کو اپنے آخری وقت کے لئے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ ٹھیک ہے، میں نے کہا۔ پھر تو میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا، مگر شرط یہ ہے کہ جب تم اپنا گاؤں پہنچو تو میں اپنا منہ بند رکھونگا۔ ساری بات تم کروگی۔ تم اپنے لوگوں کو زیادہ اچھی طرح سے جانتی ہو۔ کیا ان کو تمہارے ماضی کے بارے میں پتہ ہے؟تمہیں یہ سوچ کر ڈر نہیں لگتا کہ جانے وہ تمہارے ساتھ کس طرح سے پیش آئیں گے۔ تمہیں خوامخواہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، وہ بولی۔ میں وہاں جاتی رہتی ہوں۔ وہاں سارے لوگ میرے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن وہ خود اس کا یقین کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن اب دنیا بدل چکی ہے اور پھر تمہیں میرے ساتھ دیکھ کر وہ اپنی زبان بند کر لیں گے۔ مجھے اس کا یقین ہے۔ میرا وہاں جانا ضروری ہے۔ ان دنوں میں موت کے فرشتے کو بار بار دیکھنے لگی ہوں۔ اس کے پر وں میں تلواروں کی سی دھار ہے جن سے خون ٹپکتے رہتے ہیں۔ میں کبھی کبھار بری طرح نروس ہو جاتی ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے، کہیں نیند کی حالت میں ہی میری موت نہ ہو جائے۔ کیا واقعی تم میرے ساتھ آ رہے ہو؟

    میں اس دریا کا ذکر قدرے تفصیل کے ساتھ کرنا چاہوں گا۔ اس کے دونوں کنارے کئی سنگلاخ پہاڑ ہیں جو بہت زیادہ اونچے نہیں اٹھتے۔ ان پہاڑوں میں ننگی چٹانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں، ان کے نیچے کے میدانوں میں کافی گہرے ڈھلان ہیں جن پر سال کے پرانے جنگلوں کے شانہ بہ شانہ یوکلپٹس کے پیڑ لہراتے رہتے ہیں جنھیں محکمہ جنگلات نے اگایا ہے۔ان ڈھلانوں سے گذر کر دریا جیسے جیسے نیچے کی طرف اترتا گیا ہے وہ کشادہ ہوتا گیا ہے، مگر اوپر کی طرف جہاں مسعودہ کا گاؤں واقع ہے اس کے پانی میں بھنور بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ مگر یہ اپنے آپ میں اتنا اہم نہیں جتنی یہ بات کہ اس کے دونوں کنارے کے ڈھلانوں پر سال کے درختوں کے بیچ کچھ پرانے مکانوں کے کھنڈر اب بھی کھڑے ہیں۔ ان گھروں کے یہاں بنانے کی کیا وجہ رہی ہوگی اور وہ کیا مجبوری رہی ہوگی کہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے؟ اس دریا کا پانی بہت زیادہ گہرا ہے، مگر کنارے کی طرف اس کا پانی کافی گاڑھا ہوکر کہیں کہیں رک سا گیا ہے جس میں طرح طرح کے رنگ تیرتے رہتے ہیں جنھوں نے پانی سے نکلی ہوئی چٹانوں کے زیریں حصوں میں عجیب طرح کی مصوری کر رکھی ہے۔ یہ رنگ شاید ان کل کارخانوں کی دین ہو ں جو پہاڑوں کے سبب نظر نہیں آتے یا شاید کسی تھرمل پاور اسٹیشن کا گندا مواد بہتا ہوا اس کے ساتھ مل گیا ہو۔ ان رنگین کناروں میں ناگ پھنی کے پودے دور تک چلے گئے ہیں۔ جگہ جگہ پانی سے فرن کے رنگین پتے بھی نکلے ہوئے ہیں جو، جیسا کہ مسعودہ نے بتایا، بارش کے دنوں میں پانی کے اندر ڈوب جاتے ہیں۔ آخر ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ اور تم ایک دریا سے کیا امید رکھتی ہو؟ میں نے اس سے پوچھا۔ تم اس کے پانی کو سمجھنے کی کوشش مت کرو، اس نے جواب دیا۔ میں اپنے بچپن سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتی آئی ہوں۔ یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس کا یہ جواب میری تشفی کے لئے کافی نہ تھا۔ اس کے گاؤں نے مجھے بہت زیادہ متاثر بھی نہیں کیا۔ اس میں نہ کوئی پچ کا راستہ تھا نہ کوئی سرکاری نل۔ ایسا لگتا ہے جیسے سرکار کے تمام ترقیاتی منصوبے یہاں آنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔

    زیادہ تر گھروں کی چھتیں ٹن کی تھیں۔ اس میں بجلی بس ایک دو گھنٹے کے لئے آتی جس کے لئے زیادہ تر لوگ ہک کا استعمال کرتے۔ اس کے اپنے گھر میں کم و بیش وہی حالات تھے جن سے اپنا پیدائشی وطن واپس لوٹنے پر میری ماں کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہم نے اوبڑ کھابڑ راستوں پر سرکاری بس کا ایک لمبا سفر طئے کیا تھا اور بہت دیر سے پہنچے تھے جب سورج کا خون ہو چکا تھا اور آسمان کی گہرائیوں سے اندھیرا اتر رہا تھا۔ مسعودہ کے کمرے کو کسی طرح رات گذارنے کے قابل بنا کر ہم نے اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا کھایا۔ دوسری صبح وہ سویرے سویرے جاگ گئی۔ گھر صاف کرنے میں اسے آدھا دن لگ گیا۔ اس کے کمرے میں پرانے دنوں کے کئی بھاری فرنیچر تھے جن کے پایوں اور لٹووں پر کی گئی کاریگری نے مجھے حیران کر دیا۔ کیا ان دنوں لوگوں کے پاس اتنی فرصت تھی؟ گھر کے دوسرے لوگوں نے ہم سے گفتگو کرنے سے احتراز کیا تھا۔ ہم اب بھی شہر سے لایا ہوا کھانا کھا رہے تھے۔ دن ختم ہو رہا تھا جب ہم کچھ ضروری سامان خریدنے بازار گئے۔ بازار ہمیں پسند آیا۔ وہ ایک کافی پرانی مسجد کے احاطے کے گرد بنا ہوا تھا۔ مسجد کے بیرونی برامدے پر درزی اپنی مشینوں پر بیٹھے کپڑے سی رہے تھے۔ برامدے کی کئی سیڑھیاں تھیں جن میں سے ایک پر ایک نانبائی کی دکان تھی۔ بازار میں ضرورت کے تقریباً سبھی سامان موجود تھے۔ دھیرے دھیرے گھر کے لوگوں کو میں پہچاننے لگا۔ ایک بوڑھی عورت تھی جس کا چہرا چھوارے کی طرح سوکھا ہوا تھا۔ اس کے بال کافی لانبے تھے جنھیں وہ چارپائی کے ادوائن پر بکھیر کر ہمیشہ ان سے جوئیں نکالا کرتی۔ میں نے ایک دن اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھے پتہ چلا وہ نپٹ بہری تھی۔ میں نے اس کے لئے ایک ساری خریدی۔ میں نے ایک تیرا چودا برس کی لڑکی کو دیکھا جو حمل کے آخری اسٹیج پر تھی اور ہمیشہ رنگین ساری پہنے رہتی۔ مجھے پتہ چلا گاؤں کے پچھلے پیش امام کے ساتھ اس کی شادی کر دی گئی تھی جو اس کے حمل کے ٹھہرنے کے بعد اچانک ایک دن لا پتہ ہو گیا تھا۔ مسعودہ نے بتایا کہ یہ اس پیش امام کا پرانا پیشہ تھا جس کا پتہ گاؤں والوں کو اس کے جانے کے بعد چلا تھا۔ باقی عورتیں مجھے دیکھتے ہی لمبے گھونگٹ نکال لیتیں۔ دھیرے دھیرے بچے میرے قریب آنے لگے۔

    میں ان کے لئے پلاسٹک کے سستے کھلونے اور بسکٹ لایا کرتا، اینٹ سجا کر ان کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتا۔ گھر کے زیادہ تر مرد شہروں میں کام کرتے تھے اور مہینہ میں ایک دو دن کے لئے گھر آتے تو سارا وقت اپنی بیوی کے پاس بیٹھے رہتے بلکہ دن میں بھی کمرے میں ایک آدھ بار بیوی کے ساتھ بند ہونے سے نہیں جھجکتے۔ انھوں نے ہمارے رشتے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا تھا، مگر یہ بات وہیں پر ختم ہو گئی تھی۔ میں نے بھی جان بوجھ کر ان سے دوری قائم رکھی۔ شروع شروع میں مسعودہ نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ پھر ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے کہا، میں ٹھیک نہیں کر رہا ہوں، مجھے ان بچوں سے دور رہنا چاہئے۔ اس سے پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔ وقت کاٹنے کے لئے میں گاؤں کے اندر اکیلا گھوما کرتا۔ مگر یہ گاؤں اتنا چھوٹا تھا کہ جدھر بھی جاؤ راستہ بہت جلد ختم ہو جاتا اور پھر چھوٹے موٹے تالاب نظر آنے لگتے یابانس کے جھنڈ جن کے بیچ سبزی کے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا جہاں پر دلچسپی کے لائق کچھ بھی نہ تھا سوائے پرانی شرٹ اور پتلون پہنے ہوئے ان بھچکاگ کے جو سر کی جگہ ہانڈیاں اٹھائے بانس پر کھڑے تھے مگر پرندے ان سے ڈرنے کی بجائے عین ان کے سروں پر بیٹھے رہتے۔ کبھی کبھار دریا کے کنارے کنارے چلتا ہوا میں سال کے جنگل میں چلا جاتا اور بوسیدہ گھروں کے کھنڈروں کے درمیان چکر لگایا کرتا۔ ان گھروں کی زیادہ تر دیواریں ڈھ چکی تھیں، چوکھٹ اور روشندان نکال لئے گئے تھے مگر ان کے باغیچوں کے اندر کھڑے پیڑ اب بھی گھنے تھے جن میں ایک پر میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا شہد کا چھتہ لٹکتے دیکھا۔ ان کھنڈروں کے اندر چینٹیوں نے مٹی کے کافی بڑے بڑے ٹیلے بنا رکھے تھے جن میں سے کسی کسی نے تو کسی پیڑ کے تنے کو نصف حصے تک ڈھک رکھا تھا۔ یہاں بھی ناگ پھنی کے پودے تھے مگر اب انھیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے انھیں کوڑھ کی بیماری ہو گئی ہو جن کے پھوڑوں سے پیب نکل رہی ہو۔ مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ کبھی ان کھنڈروں میں زندگی کی چہکاریں گونجا کرتی ہونگی۔بلکہ ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھے ایسا لگا جیسے میں ان آوازوں کو سن سکتا ہوں۔ مگر بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ یہ شہد مکھی کا ایک چھتہ تھا جہاں سے یہ آواز آ رہی تھی۔ یا پھر کون جانے یہ میرا تصور بھی ہو سکتا تھا۔ شاید کوئی ان دیکھا بھنورا آس پاس بھنبھنا رہا ہو۔ ایک دن میں نے مسعودہ سے کہا کہ میں اس دریا کو اور اس کے کنارے کے کھنڈروں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

    اس نے مجھے ایک بار پھر ہوشیار کیا کہ میں اس دریا سے دور رہوں تو بہتر ہے۔ اس میں ہر سال کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ میری سمجھ میں اس کی بات نہیں آئی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔ یہ ایک معمولی سا دریا ہی تو تھا، شاید ایک بڑا سا پہاڑی نالا جس میں پانی کا اچھا ذریعہ تھا اور جو کہیں کہیں چٹانوں کے بیچ کسی کنویں کی طرح گہرا ہو گیا تھا۔ مگر مجھے بہت جلد پتہ چل گیا کہ اس کا کہنا صحیح تھا۔ ہمیں وہاں آئے کئی ماہ ہو چکے تھے۔ رہ رہ کر وہ بیمار پڑنے لگی تھی اور گاؤں کے واحد ہومیوپیتھی ڈاکٹر کی دائمی مریض بن چکی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا،اس کا ٹیومر اپنا جلوہ دکھانے لگا ہے، مگر اسے زیادہ خطرہ اس کے پھیپھڑوں سے ہے جو کاغذ کی طرح سوکھ چکے ہیں۔ مگر وہ میری دوا سے ٹھیک ہو جائےگی۔ میں نے اس سے بھی خراب مریضوں کو ٹھیک کیا ہے۔ مجھے یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ پہلے وہ سائکل پر چوری کا کوئلہ ڈھویا کرتا تھا، لیکن کوئلے سے زیادہ اسے لوگوں کی بیماریوں سے دلچسپی ہو گئی۔ تو اس نے ہومیو پیتھی کی دوا کے بارے میں جاننا شروع کر دیا۔ اس نے کچھ دنوں تک ایک ہومیو پیتھ کے یہاں پڑیا باندھنے کا کام کیا اور پھر اس دور دراز گاؤں میں یہ پیشہ اختیار کر لیا۔ میں نے سوچا، اس کام کے لئے اس گاؤں کا انتخاب صحیح تھا۔ یہاں پر کوسوں دور تک کوئی تھانہ تھا نہ پولس کی چوکی اور پھرملک کے ہر گاؤں کی طرح اس گاؤں کو بھی ایک نیم حکیم کی ضرورت تھی۔یہ اس کا ایک بنیادی حق تھا۔

    مسعودہ ایک لمبی بیماری کے بعد کچھ دنوں سے کافی اچھا محسوس کر رہی تھی۔ گرمی کا موسم ختم ہو رہا تھا۔ اس دن دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم کافی گہری نیند سو ئے۔ میں جاگ کر باہری برامدے میں مٹی کے گھڑے کے ٹھنڈے پانی سے منہ دھو رہا تھا جب میں نے دیکھا گھر کے سارے دروازے بندپڑے تھے۔ میں آنگن میں آیا۔ گھرپر کوئی فرد نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف بوڑھی عورت اپنی چارپائی پر بیٹھی اپنے لمبے سن کی طرح سفید بالوں میں تیل لگا رہی تھی۔ یہ اس کی موت سے سات ماہ پہلے کا واقعہ تھا۔ وہ ابھی ابھی نہاکر اٹھی تھی۔ اس نے مسکرا کر مجھے اپنی ساری دکھائی جسے اس نے غسل کے بعد اپنے جسم پر لپیٹا تھا۔ یہ میری دی ہوئی ساری نہ تھی، مگر وہ شایدایسا ہی کچھ سمجھ رہی تھی۔ میں باہر آیا تو سامنے کا کچا راستہ اور اس کے کنارے کے اوکھ کے کھیت اور ٹن کے چھپروں والے اکے دکے گھر قبرستان کی طرح خاموش نظر آئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سارا گاؤں ہمیں اکیلا چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہو۔ میں نے مسعودہ کو نیند سے جگاکر جب اس واقعے کے بارے میں بتایا تو پہلے تو اس کا چہرافق پڑ گیا، پھر اس نے کہا، ہم اسے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔میری دوا ختم ہو چکی ہے۔ کیا تم میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلوگے؟ اس نے میرے لئے چائے بنائی۔ ہم نے کپڑے بدلے اور بازار کی طرف چل دئے۔ بازار میں زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ جو کھلی تھیں وہ سنسان پڑی تھیں۔ خود وہ ہومیو پیتھی کا جعلی ڈاکٹر بھی غائب تھا جب کہ اس کا مطب کھلا ہوا تھا جو مسجد کے ایک کمرے میں واقع تھا۔ اس کی سائکل باہر اپنی جگہ کھڑی تھی۔ ہم وہاں اس کا انتظار کر رہے تھے جب مسجد کا لکڑی کا پھاٹک کھول کر ایک دبلا پتلا آدمی باہر آیا جس کے سر پر ایک بھی بال نہ تھا۔ اس نے بتایا کہ تمام لوگ دریا کی طرف گئے ہوئے ہیں۔ جب ہم نے سبب جاننا چاہا تو اس نے آسمان کی طرف اشارا کیا جس میں چیل اور کوے اڑ رہے تھے۔ ہم نے آسمان سے نظریں ہٹائیں تو دیکھا وہ آدمی جا چکا تھا۔ چونکہ ہم دوا لئے بغیر واپس نہیں لوٹ سکتے تھے ہم بھی دریا کی طرف ہو لئے۔ ہم دریا سے تھوڑے فاصلے پر تھے جب ہم نے محسوس کیا آسمان میں چیل اور کوے اچھی خاصی تعداد میں اڑ رہے تھے جوان ویرانوں کے لئے حیرت کی بات تھی۔

    ہمیں دریا کے دونوں کنارے لوگوں کا بھاری ہجوم نظر آیا جیسے وہاں پر کوئی میلا لگا ہوا ہو۔ لوگ بہتے پانی پر نظریں ٹکائے کھڑے تھے اور وقفے وقفے سے شور مچارہے تھے۔ وہ رہ رہ کر انگلی سے دریا کی طرف اشارے بھی کرتے جاتے۔ اگلی بار شور اٹھا تولوگوں کی انگلیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہم نے دیکھا دریا کے پانی میں کوئی بھاری چیز بہتی ہوئی آ رہی تھی۔ یہ ایک جانور کا مردہ تھا۔ وہ عین ہمارے سامنے سے گذرا ۔یہ ایک سور تھا جس کا پیٹ اور ٹانگین اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھیں اور ایک کان پتوار کی طرح پانی کو تھپڑ ے لگاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ لوگوں میں ایک بار پھر شور پیدا ہوا۔ یہ ایک دوسرا سور کا مردہ تھا جو اس کے پیچھے پیچھے بہتا ہوا آ رہا تھا۔ اتنی دورسے وہ دریا کے جسم پر کسی پھوڑے کی مانند نظر آ رہا تھا۔ ’’وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے بہتے آ رہے ہیں۔‘‘ کسی نے ہمارے کان میں سرگوشی کی۔ہم دیر تک اپنی جگہ کھڑے رہے۔ واقعی دریا میں رہ رہ کر سور وں کے مردے بہتے آ رہے تھے بلکہ اب تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ مردے پانی پی پی کر پھول گئے تھے، ان میں سے زیادہ تر جانوروں کے بدن اس قدر سڑ گل چکے تھے کہ ہوا میں سڑاندھ پھیلنے لگی تھی۔ دیکھتے دیکھتے مردے تعداد میں اتنا زیادہ ہو گئے کہ لوگوں نے چلانا بند کر دیا اور دریا سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔انھوں نے بدبو سے بچنے کے لئے اپنی ناک پر کپڑا یا ہات رکھ لیا تھا اور اپنی جگہ خاموش کھڑے ان کی طرف تاک رہے تھے۔ مردے پانی میں چکر لگا رہے تھے، کناروں سے ٹکرا رہے تھے، ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، کبھی کبھار کوئی مردہ کسی چٹان سے ٹکرا کر رک جاتا، مگر پھرپیچھے سے پانی کا ایک زبردست ریلا آتا یا کوئی دوسرا مردہ آکر اسے ٹھوکر لگاتا اور وہ چٹان کے گرد چکرکاٹ کر دوبارا اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسیے اوپر کی طرف بستیوں میں سوروں کے اندر کوئی بھاری وبا پھیل گئی ہو۔

    ’’یہ سچ نہیں ہو سکتا۔‘‘ مسعودہ مجھ سے لپٹی ہوئی خوفزدہ نظروں سے سور کے مردوں کی طرف تاک رہی تھی جو کنارے کی کیچڑ یا ناگ پھنی کے پودوں سے اٹک گئے تھے یا فرن کے پتوں کے بیچ رنگین پانی میں ڈول رہے تھے۔ ان میں سے کسی کسی کی ایک یا دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، تھوتھنیوں کا رنگ عجیب گہرا گلا بی ہو گیا تھا جیسے ان کے اندر خون جم گیا ہو اور پانی سے نکلی ہوئی منحنی دمیں اس طرح ہل رہی تھیں جیسے جانور اب بھی زندہ ہوں جب کہ یہ اور کچھ نہیں بہتے ہوئے پانی کا کارنامہ تھا۔ ’’جیسا کہ میں نے کہا تھا، اس دریا میں ہر سال کوئی نہ کوئی حیرت انگیز واقعہ ہو جایا کرتا ہے۔‘‘ مسعودہ نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ اس نے ساڑی کے پلو سے اپنی ناک ڈھک رکھی تھی۔ ’’مگر یہ پہلی بار ہے کہ میں اتنے سارے مردہ سوروں کو اس میں بہتے دیکھ رہی ہوں اور یہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کہاں سے آ رہے ہیں یہ؟ کہاں جا رہے ہیں؟ تم چپ کیوں ہو؟ کیا میں خواب دیکھ رہوں؟ کیا موت کا فرشتہ میرے ساتھ کسی قسم کا کھیل کھیل رہا ہے؟‘‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ پہلی بار نہیں تھا کہ میں ایسے کسی دریا کو دیکھ رہا تھا۔ میں ساری زندگی اسی دریا کے کنارے ہی تو چلتا آ رہا ہوں۔

    سورج ڈوب چکا ہے۔ مشرق سے اندھیرا آسمان میں قدم بڑھانے لگا ہے۔ زیادہ تر لوگ دریا کے کنارے سے غائب ہوچکے ہیں۔ دریا سور کے مردوں سے اتنا بھر چکا ہے کہ اب وہ ایک دوسرے پر چڑھنے لگے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے مردے خود ہی ایک دوسرے کو ڈھکیلتے ہوئے نیچے کی طرف جا رہے ہوں۔ مغرب کی طرف جہاں آسمان میں اب بھی تھوڑی سی لالی بچی ہے دونوں سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ دریا کے سفید پانی پر سوروں کے مردے اس طرح نظر آ رہے تھے جیسے وہ زمین کے اندر سے ابل رہے ہوں۔

    اس رات جب ہم اپنی کوٹھری میں اکیلے ہوئے تو کھڑکی پر چڑیلیں بیٹھی کھسر پسر کر رہی تھیں۔

    مسعودہ نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ اس پر نیند کا شدید غلبہ تھا۔ شاید یہ دوا کا اثر تھا۔ اس کے پھیپھڑوں سے وہی خشک آواز نکل رہی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کے بند پپوٹوں کے نیچے حلقے اور بھی بڑے ہو گئے تھے۔ ان سے ایک عجیب دہشت ٹپک رہی تھی جیسے وہ موت کے فرشتے کو دیکھ رہی ہو۔

    ’’تم چین سے سو جاؤ۔‘‘ میں نے اس کے سر کو اپنے سینے سے ڈھکتے ہوئے کہا۔’’ تمہیں اس دریا کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے۔ تمہیں پتہ چلنا چاہئے، یہ دنیا تمہارے بغیر بھی ایک بری جگہ ہے۔‘‘

    (نوٹ: * مغربی بنگال میں بنگالی آج بھی اتر پردیش کے لوگوں کو ہندوستانی بلایا کرتے ہیں۔

    کبھی کبھار ایک ہی زبان بولنے کے سبب وہ بہاریوں کو ان کے ساتھ مخلوط کر بیٹھتے ہیں۔)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے