Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روح کا سفر

رابعہ الرباء

روح کا سفر

رابعہ الرباء

MORE BYرابعہ الرباء

    آسمانی پردوں پر، رائل بلیو لہروں میں، سفید پتوں کی باتیں، جب نیلے بیڈ پہ بچھے ریشمی رائل بلیوبستر کے موتیا پھولوں سے ہوتیں تو وہ الماری کے قریب بچھی آسمانی رگ پہ آ بیٹھتی اور بلیو کشن سے ٹیک لگا کر ان کی چھیر چھاڑ سنتی اور دیکھتی رہتی۔ یہ سب باظاہر بےجان ہیں، مگر زندہ بھی ہیں۔

    وہ حیرت سے سوچتی۔

    سنسناتی سردیاں اپنے عروج پر تھیں۔ نیلے کمرے کی ہلکی نیلی روشنی میں اپنی الما ری کے قریب رکھی اکلوتی کرسی پر بیٹھے اس نے شال کو اپنے گرد لپیٹا، جس کا پلو کرسی کے بازو سے نیچے لٹک رہا تھا اور ٹانگیں بیڈ کی طرف پھیلا کر کرسی سے ٹیک لگائے سامنے دیوار پر لگے فریم اور شیشیوں کو نم نم آنکھو ں سے اس مدھم سی روشنی میں دیکھنے لگے۔

    رات تاریکی سے نور اور پھر حیرت و طلسم میں بدل رہی تھی۔ تخیل تخلیق کی آغوش میں سما رہا تھا۔

    منزل دل سے بند راستے آساں نکلے

    سارے مدحا میرے رات کے مہما ں نکلے

    وہ بھی آیا تو فقط فن سے بند تک آیا

    جس کے قدموں کے نشاں دل پہ فیروزاں نکلے

    میں زمیں دعوے وفاؤں کے سہا کرتی تھی

    سارے گردوں کی طرح مجھ سے گریزاں نکلے

    روح میں بےسروسامانی محبت کی ہے

    جب بھی نکلے تو ہوس کے سروساماں نکلے

    ہم تو باہوں کی پناہوں کے تھے خواہاں اے ربا

    کیا کریں باہوں کے حلقے سے جو زنداں نکلے

    اس نے تازہ غزل لکھ کر ڈائری اپنے سرہا نے رکھ دی، بہت دنوں بعد کوئی غزل ہوئی تھی اور بہت دنوں بعد اس کی روح کو قرار آیا تو اس کا بدن ہلکا پھلکا ہوا۔ جیسے کسی جبلت کے بعد سکون قرب و پرنم ہوا کرتا ہے۔

    پاس ہی رکھے میز پر، موبائل کی دھڑکن نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

    ’’اف نیٹ آن رہ گیا‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ سات سمندر پار سے سمندوں والے علم و حلم کا پیغام تھا۔ جس کا اس کی اپنی زمین پہ کوئی ثانی بھی نہیں

    اس نے میسج کے جواب میں فون ہی کر لیا

    ’’ارے یہ بام پر کون اتر آیا؟‘‘

    وہی جو اس وقت کا ذب اتر سکتا ہے جناب‘‘

    وہی ناں، علامتوں میں باتیں کرنے والی۔۔۔‘‘

    ’’جی وہی ہوں‘‘

    ’’اخترشماری کے بعد کچھ نا ملا، کیا آسمان پر۔۔۔؟‘‘

    ’’ابھی تک تو نہیں۔۔۔ اور ہم سوں کو ملتا بھی کیا، جو اختر شماری کے لئے بھی آسمان کو چوری چوری دیکھتا ہو۔۔۔‘‘

    ’’کیسے ہیں رضا صاحب؟ اتنے دن بعد۔۔۔؟ ۔۔۔میں نے کئی میسج چھوڑے، مگرلا حاصل۔۔۔ پھر سمجھ گئی، کسی کشف کے دائرے میں محو ہو نگے۔۔۔ کسی الہام کے منتظر۔۔۔‘‘

    ’’صیح سمجھیں تم۔۔۔ یہ تین مہینے بڑے تسخیری، قلبی و آسمانی ہو تے ہیں۔ مکان و لامکا ن کے دائروں سے ماورا۔۔۔ بس پھر ہم جیسے نکل پڑتے ہیں۔ ’’آہ۔۔۔، مگر واپسی پر اس دنیاداری سے تھکنے لگتے ہیں۔۔۔ اکتانے لگتے ہیں‘‘

    ’’یہ بتاؤ تمہاری ذہانت نے کیا دیا تم کو؟‘‘

    ’’ہے ہی نہیں، ہوتی تو دیتی‘‘

    ’’ہے۔۔۔ میں جانتا ہو ں۔۔۔‘‘

    ’’اذیت۔۔‘‘

    ’’آہ ساحرہ۔۔۔ مجھے تو اذیت بھی نہیں ملی۔۔۔ صرف حیرانی ملی۔۔۔ وہ بھی سستے داموں۔۔۔‘‘

    ’’آپ عورت جو نہیں، اذیت کیسے ملتی؟‘‘

    ’’چوٹ اچھی لگا لیتی ہو، سنو۔۔۔ فلسفی۔۔۔ ہو نا عورت ہو نے سے زیادہ حساس ہے۔۔ سمجھو تو۔۔۔‘‘

    ’’اور اگر فلسفی اور عورت جفت ہوں تو۔۔۔ حساسیت اور اذیت یک جاں یک روح ہوں تو؟

    ’’تم بھی ناں۔۔۔ میری طرح بس ایسے ہی ہو۔۔۔ خیر میں بیوقوف ہوں، ذہانت اسی پر منتج ہوتی ہے‘‘

    ’’میں کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’یہ شائبہ ذات ہے۔۔۔ تم، لا، کی تلاش میں ہو۔۔۔ اور۔۔۔ اور، لا ، ہی سہارا دے سکتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’آہ رضا صاحب۔۔۔ ہو نا، نا ہو نا، کیسی دلفریب سی بات ہے ناں ۔۔ مسٹری ہے تو دلفریب مگر اس میں فریب زیادہ ہے‘‘

    ’’مگر۔۔۔ فریب کے ختم ہونے کی دعا کے ساتھ مجھے دنیا باقی رہتی نظر نہیں آتی‘‘

    ’’آپ کہہ سکتے ہیں، فلسفی جو ٹھہرے۔۔۔ میں عام انسان ہو ں۔۔۔ عام۔۔۔ باکل عام۔۔۔‘‘

    ’’شعور سے نکلی ہو۔۔۔ شاعری کرتی ہو۔۔۔ پھر بھی عام۔۔۔؟‘‘

    ’’جی پھر بھی عام۔۔۔‘‘

    ’’یہ بتا ؤ۔۔۔ کیا۔۔۔ ایک سے زیادہ محبتیں معتبر ہو سکتی ہیں؟‘‘

    ’’ہو سکتی ہیں‘‘

    ’’دلیل ہے؟‘‘

    ’’انسان کے لئے کوئی دلیل ہے۔۔۔؟ جو میں محبتوں کے معتبر ہو نے کے لئے لاؤں؟‘‘

    ’’تم نے کبھی محبت کی؟

    ’’جی۔۔۔ انسان ہوں ناں۔۔۔ وہی گندے خون سے بنا۔۔۔ لتھری مٹی کی پیداوار۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر تنہا کیوں ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’محبت تنہائی ہی ہے۔۔۔ سودے بازی ہوتی تو جدائی نا ہوتی، ہجرنا ہوتا۔۔۔‘‘

    ’’یہ تو عشق ہوا۔۔۔ محبت سے اوپر اٹھ گئیں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ مرد ہے۔۔۔ بڑی عجیب مخلو ق ہے۔۔۔ جسے خود چاہتا ہے۔۔۔ اس کے لئے نہریں نکال لیتا ہے۔۔۔ کوئی اس کو چاہ لے تو خود کو خدا بنا بیٹھتا ہے۔۔۔ اور۔۔۔اور۔۔۔‘‘

    ’’اور کیا۔۔۔‘‘

    ’’در بدر کر دیتا۔۔۔ چاہنے والے کو۔۔۔ کہ۔۔۔ اسے سجدوں سے سرور ملتا رہے۔۔۔ اور۔۔۔ دوسرا بندگی کرتا رہے۔۔۔‘‘

    ’’پھر ہوا کیا؟‘‘

    ’’کیا ہونا تھا۔۔۔ میں مقام حیرت سے ہو تے ہوئے بےثباتی اور پھر لامکاں سے اوپر چلتی چلی گئی۔۔۔ چلتی چلی۔۔۔ گئی۔۔۔‘‘

    ’’تم نے اسے سزائے موت تو نہیں دے دی تھی،۔۔۔ احساس کے پھانسی گھاٹ پر۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ لاشعور نے دے دی ہو تو علم نہیں۔۔۔‘‘

    ’’کتنا بدنصیب ہوگا۔۔۔،تم کو کون چھوڑ سکتا ہے۔۔۔ تم کو۔۔۔،؟‘‘

    ’’انا۔۔۔ خوف۔۔۔، میلاپن‘‘

    ’’میلا پن۔۔۔؟‘‘

    ’’اس کی بھی کئی اقسام ہیں۔۔۔ مگر چھوڑئے۔۔۔ ویسے دنیا کہتی ہے وہ، خوش نصیب ترین، ہوگا۔۔۔؟‘‘

    ’’میٹھے پانی کا چشمہ اس کی اور بہتا رہا۔۔۔ اور۔۔۔ وہ۔۔۔ بندگی سے شانت ہو گیا۔۔۔ وہ پیاسا ہی لوٹ گیا۔۔۔، بیک وقت نصیبوں کی کشتی ڈولی۔۔۔‘‘

    ’’بدنصیب بدنصیبوں سے ہی ملا کرتے ہیں شاید۔۔۔‘‘

    ’’مطلب۔۔۔؟‘‘

    ’’جس نے اپنے رب سے نادانی میں اک دعا مانگ لی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ کیا۔۔۔‘‘

    ’’کہ مجھے جسم و روح کی آزمائش میں نا ڈالنا۔۔۔ شاید۔۔۔ وہاں جسم نا ہو۔۔۔ شاید وہاں روح نا ہو۔۔۔‘‘

    ’’تم اس کا کیا مطلب لیتی ہو؟‘‘

    ’’روح جسم میں سرایت کئے ہو ناں۔۔۔ تو۔۔۔ دل اور جسم کا رستہ آسان ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’مطلب۔۔۔ تمہارا خیال ہے روح، دل اور جسم سے الگ کوشے نہیں ہے؟‘‘

    رضا صاحب نے معصوم سی دھیمی مسکراہٹ میں، اشتیاق سے پو چھا

    ’’جی دل اور جسم کا تعلق ہو سکتا ہے۔۔۔ روح اس سے بالا ہے۔۔۔ الگ ہے۔۔۔ اس کو فنا نہیں۔۔۔ تعلق دل کا ہو تو جسم آسانی سے ساتھی بن جاتا ہے۔ مگر روح نہیں بنتی۔ تعلق روح کا ہو تو دل اور جسم بندگی میں آ جاتے ہیں۔ جسم اور دل کا سنجوک اگر گہرا ہو تو بھی بعض اوقات روح پیاسی رہ جاتی ہے۔ میرے لئے روح کا شانت ہونا ضروری ہے۔۔۔‘‘

    روح سے ہی کائنا ت کا نظام جو ہوا۔۔۔ محبت اپنی ذات میں خود روحا نی چیز ہے۔۔۔ اگر سمجھا جائے تو۔۔۔‘‘

    ’’اپنا اور اللہ کا اک راز کھول دوں؟‘‘

    ’’تم پہ ہے۔۔۔‘‘

    ’’کعبہ کا طواف کرتی ہوں برسوں سے۔۔ بچپن سے۔۔۔ کسی کے لئے روتی ہوں تو بھیگ کر طواف کرتی ہو برس پڑتا ہے آسمان۔۔۔ کسی کو یاد کرتی ہوں تو۔۔۔ برس پڑتا ہے آسمان۔۔۔ ہر بار کوئی کہتا ہے۔۔۔ اب مدینے کا سفر ہے۔۔۔ اور۔۔۔ پھر۔۔۔‘‘

    ’’خواہش میں بہت طاقت ہے، بلکہ روح ہے۔۔۔ روح۔۔۔ اس کے اختیار میں تھا۔۔۔ چاہتا تو منٹ نا لگاتا۔۔۔ سارے بت توڑ دیتا۔۔۔ سارے کے سارے۔۔۔ مگر اس نے اپنے گھر کے صنم خانے کو۔۔۔ بتوں سے پاک نا کیا۔۔۔ خود نا کیا۔۔۔ خود اکیلا ہے۔۔۔ یہاں غرور کی چادر والا۔۔۔ ‘‘

    ’’مطلب۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ مدینے کی زمین۔۔۔ صنم خانے کو پاک کرنے والا ہے۔۔ ناں۔۔۔ اکیلا نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔ یار غار کے ساتھ رہتا ہے وہاں۔۔۔ دعا والے دلیر کے ساتھ ہے وہاں۔۔۔ وہاں۔۔۔ وہاں کے رستے آسان ہیں۔۔۔ جس روز۔۔۔ وہاں کا سفر ہو گیا۔۔۔ سمجھو۔۔۔ بندگی ہو گئی۔۔۔ طشت کے طشت ملیں گے۔۔۔ اس کے دربار کی شان والے۔۔۔ انتظار۔۔۔ ہے ابھی۔۔۔ تھوڑا انتظار۔۔‘‘

    ’’میں اس قابل کہاں؟‘‘

    ’’تم کس قابل ہو۔۔۔ یہ فیصلہ اگر تم نے کرنا ہو تا تو خدا کہاں جاتا؟۔۔۔‘‘

    ’’خدا کہاں جاتا۔۔۔ واہ۔۔۔‘‘

    ’’تمہارے رنگو ں میں روح باقی ہے یا نہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’ابھی ہے۔۔۔ ابھی رنگ باتیں کرتے ہیں۔۔۔ ابھی ان سے خوشبو آتی ہے۔۔۔ ابھی کمرے میں مہک آتی ہے۔۔۔ ابھی بھی کوئی چھوٹی تاروں سے کڑھی شال شانوں پہ دے کر، آسمان پہ آئے بادلوں کو التجا سے دیکھتا ہے۔۔۔ ابھی۔۔۔ بھی۔۔۔‘‘

    ’’امید سے بڑی کائنات کوئی نہیں۔۔۔ اور گمان سے بڑا انعام کوئی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’مگر، لا، سے شروع ہونے والا ہار جاتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’تمہارا، لا، کہاں سے شروع ہوتا ہے؟‘‘

    ’’انا الحق تو ایک صدی بعد حق ہو گیا تھا۔۔۔ مگر۔۔۔۔ صدیاں بیت گئیں۔۔۔ بیٹی کی پیدائش کے، لا، کا حق کہاں ہے؟‘‘

    ’’اول تو یہ کہ۔۔۔، ہاں، میں بھی، لا، ہی ہے۔۔۔ ، آغاز کا، لا، و، ہاں، انجام ایک ہی رکھتا ہے۔۔۔ دوم صدیوں پہلے، لا، اور، مرد، ایک ہی تھا۔ آج بھی یہ مو جو د ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیسے؟۔۔۔ کہاں۔۔؟‘‘

    ’’حویلی میں چاند پیدا ہو نے پہ نا چ ہو تا ہے۔۔۔ اور شاہی محلے میں چاندی کی آمد پہ نا چا جاتا ہے۔۔۔ فرق۔۔۔ سمجھو۔۔۔ حویلی کی وراثت کا۔۔۔ اور شاہی محلے کی واثت کا۔۔۔ بس۔۔۔تفریق کچھ اور ہے۔۔۔‘‘

    ’’فلسفی ہیں ناں۔۔۔ گہرے پانیوں میں پھنک دیا ہے مجھے۔۔۔‘‘

    ’’عالم بھی تو ہوں، نکال بھی دونگا۔۔۔‘‘

    ’’دنیا کا عالم تمہارے سامنے ہے۔۔۔ تمہا را دل نہیں کرتا کہ۔۔۔ قسمت کا ستارہ آسمان پہ چمکے۔۔ محبوب قدموں میں ہو۔۔۔ دولت خادمہ ہو۔۔۔ کبھی کوئی وظیفہ کیوں نہیں پو چھتیں؟‘‘

    ’’آپ ہی تو کہتے ہیں، دعا کی قبو لیت کی طرح تعلقات کی درخشندگی کا بھی ایک مخصوص وقت ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر۔۔۔ جو دل میں ہو اسے قدموں میں لاکر کیا کروں گی۔۔۔ دل سے بھی جائےگا‘‘

    ’’واللہ۔۔۔، کوئی یوں نہیں سوچتا۔۔۔ اچھا میری عبادت کا وقت ہو رہا ہے، چلتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’میں آپ کے رواں دائروں کی گردش میں کوئی کنکر پھینک کر انہیں منتشر کرکے۔۔۔، نئے رستے نہیں دینا چاہتی ہوں۔۔۔ بلکہ چاہتی ہوں جب ان دائروں کی پرواز معراج ہو تو میں بھی شامل دعا رہوں۔۔۔‘‘

    ’’ تم ایسی باتیں کیوں کرتی ہو؟‘‘

    ’’بیس سال کی عمر میں نظر آنے والا وقت، چالیس برس میں تلا ش بن جاتا ہے۔۔۔ ساٹھ میں وہی وقت چپ سے دھیرے دھیرے چھپنے لگتا ہے۔۔۔ میرے زمان و مکا ن کے سفر سے آپ ہی تو آشنا ہیں‘‘

    ’’تو سنو۔۔۔ جب روشنی دیکھوگی، ستارے زمیں پہ دکھائی دیں تو، سمجھ جانا کملی والے کے صحن رحمت میں چلی جاؤگی۔۔۔ فی امن اللہ۔۔۔‘‘

    اسے رضا صاحب کی یہ با ت سمجھ نہیں آئی۔ مگر یوں محسوس ہوا جیسے بہار کی نرم و مہکتی ہوائیں اس کے گرد گردش کر رہی ہیں۔ وہ سوچوں کے سمندر میں واپس چلی گئی روح کی خوراک مل چکی تھی نیند نے پر پھیلا لئے۔

    صبح آنکھ کھلی تو وہ کملی والے کے صحن چمن سے ہو آئی تھی۔ اپنے وجود پہ نازاں مسکراہٹوں کے پھو ل اندر باہر کھل اٹھے تھے۔ سورج اپنی پوری شان سے جلوہ گر ہو چکا تھا۔ جسم پہ شبنمی ہواؤں کا رقص جاری تھا۔ کہ فون قوس و قزاح کے رنگو ں سے مسکرا اٹھا۔۔۔

    اس نے دیکھا تو مسکرا ئی uff one day boy

    ’’جی تو آپ سے مل سکتا ہوں؟ کیا سوچا۔۔۔ آپ نے۔۔۔ بہت دور سے آیا ہو، آپ کے شہر؟‘‘

    ’’پاگل کہیں کا۔۔۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔۔

    ’’ممکن نہیں میرے لئے۔۔۔ سوری۔۔‘‘

    ’’تے فیر میں نا سمجھاں۔۔۔‘‘

    ’’جی۔۔۔ صیح سمجھے۔۔۔‘‘

    وہ اچانک اپنی ہی سوچ سے کانپ گئی ’’لا کن کی کنجی ہے‘‘

    اور فو ن بند کر دیا۔ ای میل چیک کر نے لگی۔ بینک سے آئی ای میل بتا رہی تھی۔کہ آج جا نا بہت ضروری ہے۔ اس نے الماری سے کپڑے نکالے اور بیڈ پہ رکھ کر واش روم چلی گئی۔ تیار ہوئی تو خیال آیا کہ دور سے آئے کو بھی دس منٹ دئے جا سکتے ہیں۔ اس نے اسے فون کر کے بینک کے سامنے والے پارک میں بلا لیا۔

    بینک کا کام کرکے جب وہ سامنے پارک کی طرف گئی تو وہ سامنے والے گیٹ سے آ رہا تھا، دونوں پارک سے عین وسط میں ملے تو ایک دوسرے کو حیرانی میں دیکھتے رہ گئے۔ تصویروں کی دنیا سے قدرت کا حسن کتنا ماند پڑ جاتا ہے نا۔۔۔

    اسے دیکھ کر وہ ایک لمحے تو ساکت ہو گئی۔۔۔

    ادھر بھی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔

    اس کی خواہش کے، جسم کے، روح کے رنگ قدرت کے رنگوں میں مل رہے تھے۔

    اس نے خود سے مکالمہ کیا

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ۔۔۔ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘

    مگر روح، جسم اور دل تو یہی کہہ رہے تھے

    ’’کیا ہوا؟‘‘

    اس کی آواز سے زندگی میں پہلی بار جسم میں لی گئی انگڑائی میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔۔۔

    وہ اپنی خواہش سے خود آنکھیں چڑانے لگی۔

    ہلکے پھلکے سے بادل جو اچانک آئے تھے اچانک برسنے لگے۔ دونو ں بےاختیار سامنے پیڑ کے نیچے آ گئے۔ اس نے دیکھا بارش کی بوچھاڑ، اس کی طرف ہے تو وہ اس کے دائیں جانب جا کھڑا ہو ا،۔۔۔ اس کی روح، جسم اور دل بندگی کے سکو ن میں سر بسجود تھے اور اوے ستاروں کی مانند چمک رہے تھے۔

    اسے رضا صاحب کی بات یا د آ گئی

    ’’جب ستارے زمیں پہ دکھائی دیں تو، سمجھ جانا کملی والے کے صحن رحمت میں آ گئی ہو۔۔۔‘‘

    بارش تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اولوں نے سبز زمین کو اپنے وجودسے سفید کر دیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے