روپ نگر کی سواریاں
کہانی کی کہانی
تانگے والا چھدا ہر روز گاوں سے سواریوں کو روپ نگر لے جاتا ہے۔ اس دن منشی رحمت علی کو روپ نگر تحصیل جانا ہوتا ہے، اسلیے وہ صبح ہی تانگے کے اڈے پر آجاتا ہے۔ تانگے میں منشی کے ساتھ دو سواریاں اور سوار ہو جاتی ہیں۔ تانگے میں سوار تینوں سواریاں اور کوچوان چھدا علاقے کے ماضی اور حال کے حالات کو بیان کرتے چلتے ہیں۔
منشی رحمت علی حسب عادت منہ اندھیرے اکول کے اڈے پر پہنچ گئے۔ اڈا سنسان پڑا تھا۔ چاروں طرف اکّے ضرور نظر آتے تھے لیکن بے جتے ہوئے۔ ان کے بموں کا رخ آسمان کی طرف تھا اور چھتریاں زمین کی طرف جھکی ہوئی تھیں۔ جابجا کھونٹوں سے بندھے ہوئے گھوڑے یا تو اونگھ رہے تھے یا ایک الکساہٹ کے ساتھ اپنےآگے پڑی ہوئی گھاس چر رہے تھے۔ البتہ پاس والے خشک تالاب کی گندی سیڑھیوں پر اینڈتے ہوئے بعض گدھے بہت بیدار نظر آتے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ان کے رینگنے کا ایسا تار بندھتا تھا کہ ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔ اس پورے ماحول میں جو چیز سب سےزیادہ چمک رہی تھی وہ سامنے ڈاک خانے کے دروازے کے برابر والا سرخ لیٹر بکس تھا اس سے چار قدم پرے لالہ چھجو مل کی کھپچیوں والی دوکان بند پڑی تھی۔ لیکن اس کے چبوترے پر جنگلی کبوتروں کا ایک غول اترآیا تھا۔ یہ کبوتر اناج کے الم غلم دانے چگتے چگتے بار بار اس قدر قریب آجاتے کہ ان کا الگ الگ وجود ختم ہوجاتا اور زمین پر بس ایک سرمئی سایہ کپکپاتا نظر آتا۔ کنوئیں کے قریب املی کے درخت ک نیچے چھدا اکے والا اپنے گھوڑے کو دانا کھلارہا تھا۔ دور سے وہ صورت تو نہیں پہچان سکا۔ لیکن چال ڈال اور حلیہ دیکھ کر اس نے تاڑ لیا تھا کہ ہو نہ ہو یہ منشی رحمت علی ہیں اور جب وہ ذرا قریب آئے تو چھدّا نے آواز لگائی، ’’میاں چل رئے او۔‘‘
’’ابے چلنا نہ ہوتا تو مجھے کیا باؤلے کتے نے کاٹا تھا جو صبح ہی صبح اڈے پر آتا؟‘‘
’’تو بس میاں آجاؤ، میں بھی تیار ہوں۔ اب گھوڑا جوتا۔‘‘
لیکن بھاؤ تاؤ کیے بغیر کوئی کام کرنا منشی رحمت علی کی وضعداری کے خلاف تھا۔ یہ اور بات ہے کہ بہت چالاک بننے کی کوشش میں کبھی کبھی وہ چوٹ بھی کھاجاتے تھے۔ بہرحال وہ تو اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھانہ رکھتے تھے۔ آگے اللہ میاں کی مرضی۔ چھدّا کا پہلا وار تو خالی گیا۔ اب اس نے دوسری چال چلی۔ ’’اجی منشی جی! تم سے زیادہ تھوڑائی لوں گا۔ بس اٹھنی دے دیجو۔‘‘
’’بھیا میرا تیرا سودا نہیں پٹے گا۔‘‘ منشی رحمت علی نے قطعی طور پر اپنی رضا مندی کا اعلان کردیا۔ انھوں نے اپنا رخ سامنے والے نانبائی کی دوکان کی طرف کرلیا تھا لیکن چھدّا نے انھیں جاتے جاتے پھر روک لیا، ’’تو میاں تم کیا دوگے؟‘‘
منشی رحمت علی نے بات دونّی سے شروع کی اور بالآخر تین آنے پہ ٹک گئے۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’کان کھول کے سن لے تین آنے سے ایک کوڑی زیادہ نہیں دوں گا۔‘‘
چھدّا نے بھی قطعی جواب دے دیا، ’’اجی میاں تین آنے تو نہیں لوں گا۔‘‘ اور جب وہ جانے لگے تو چھدّا نے چلتے چلتے ایک ٹکرا اور لگادیا، ’’ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ تین آنےمیں کون سا اکّے والا منشی جی کو روپ نگر پہنچادے گا۔‘‘
لیکن منشی رحمت علی آج چھدّا کا ہر وار خالی دینے پر تلے ہوئے تھے، انہوں نے یہ بات بھی سنی ان سنی کردی اور نانبائی کی دوکان کی طرف چل پڑے۔ دور سے ہی انہوں نے صدا لگائی، ’’ابے گلزار حقہ تازہ کیا؟‘‘
گلزار نے تنور کی آگ بھڑکاتے ہوئے جواب دیا، ’’آجاؤ منشی جی حقہ تازہ کرلیا جائے۔‘‘
منشی رحمت علی نے حقے کی بدمیل اودی نے مٹھی میں دبائی اور بڑے اطمینان اور فراغت کے ساتھ کش لگانے شروع کردیے۔ چھدّا مات تو پہلے ہی کھا چکا تھا منشی جی کے اس اطمینان نے اس کا رہاسہا حوصلہ بھی ختم کردیا۔ اطمینان اور بے نیازی کا مظاہرہ کرنے میں اگرچہ اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن اندر سے اس کا دل دھکڑ پکڑ کر رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اور کوئی اکّے والا آن ٹپکے اور اچھی خاصی سواری کو اچک لے۔ لیکن وہ اتنی سستی اسامی بھی نہیں تھا کہ اس معمولی اعصابی جنگ میں منشی رحمت علی سے اتنی جلدی ہار مان لیتا۔ اس نے بدحواسی تو یقیناً نہیں دکھائی لیکن پھر بھی اک عجلت سے دانے کی بالٹی اکّے کے خانے میں رکھی اور اکّے کو جوتنا شروع کیا۔ گھوڑا جوتنے کے بعد وہ اکّے پر بیٹھا اور اطمینان کے ساتھ آواز لگائی، ’’روپ نگر کی سواری۔‘‘
گلزار کی دوکان پر حقہ کی گڑگڑ کی آواز بدستور ایک اطمینان اور بے نیازی کی کیفیت کااظہار کیے جارہی تھی۔ چھدّا نے ایک ڈیڑھ منٹ انتظار کیا اور جب حقے کی آواز میں کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا تو اس نے طے کیا کہ تالاب کے گرد ایک چکر لگالینا چاہیے اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سواری سے مڈبھیڑ ہوجائے، اس نے آہستہ سے لگام کھینچی اور گھوڑے نے خراماں خراماں چلنا شروع کردیا۔ تالاب کے دوسری طرف پن چکی کے سامنے کلیا بھنگن کی بہو گھونگھٹ نکالے سڑک پر جھاڑو دے رہی تھی۔ چھدا کئی مرتبہ مختلف طریقوں سے کھنکارا مگر کلیا کی بہو ایسی نک چڑھی نکلی کہ اس نے چھدا کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ چھدا کو مجبوراً براہ راست خطاب کرنا پڑا۔
’’اری اس کلیا لنگڑی کو بہت روٹیاں لگ گئی ہیں۔ نہ جھاڑو دینے آوے ہے نہ ٹھکانوں پہ پہنچے ہے۔ تجھے تھکائے مارتے ہے۔‘‘ لیکن دوسری طرف سے کوئی ہمت افزا جواب موصول نہیں ہوا۔ اور یوں بھی چھدا کو اس وقت اتنی فراغت کہاں میسر تھی جو وہ پہل کرتا۔ چنانچہ اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور چند قدم آگے چل کر بڑی شان تغافل سے آواز لگائی، ’’روپ نگر کی سواریاں۔‘‘
سامنے سیٹھ ہردیال مل کے مکان کے سب سےاونچے کنگرے پر ایک کالے سر والا سفید کبوتر بیٹھا اونگھ رہاتھا اور چھدا کو یکایک یاد آیا کہ رات شمی کی کلسری گھر واپس نہیں پہنچی تھی۔ ابھی وہ اس قدر سوچ پایا تھا کہ دور کی سڑک سے اکے کی گھڑ گھڑ کی آواز آئی اور اس نے ہڑبڑاکر گھوڑے کے ایک چابک رسید کیا۔ چھدا کی قوت مدافعت نے بلآخر گھٹنے ٹیک دیے۔ ٹھیک گلزار کی دوکان کے سامنے پہنچ کر اس نے گھوڑے کی لگام کھینچی اور کسی قسم کا انتظار کیے بغیر سوال کیا، ’’منشی جی آج تحصیل پہنچنے کے جی میں نئیں اے کیا۔‘‘
’’ہمیں تو تحصیل جانا ہی ہے تو نہ سہی تیرا بھائی اور سہی۔ مگر تو کہہ تیرے جی میں کیا ہے۔ ابے اکہ چلاتا ہے کہ ٹھگی کرتا ہے۔‘‘
’’اجی منشی جی بگڑتے کیوں ہو۔ اکہ تو تمہارا ہی اے بیٹھ جاؤ۔ پیسے بھلے مت دیجو۔‘‘
منشی رحمت علی ٹھہرے وضعدار آدمی۔ اس بات پر بہت بگڑے، ’’ابے تو نے ہمیں سمجھا کیا ہے۔ہم چوٹے اچکے نہیں۔ لچے لفنگے نہیں۔ پہلے ناک پہ پیسہ مارتے ہیں۔ پھر بیٹھتے ہیں۔ کوئی اکے والا بتادے جو آج تک ہم کبھی مفت بیٹھے ہوں۔‘‘
’’تو میاں منشی جی۔ غصے کیوں ہوتے ہو۔ پیسہ دھیلا کمتی بڑھتی دے دیجو۔ اچھا لو تم بھی کیا یاد کروگے۔ چھ آنے دے دیجو۔‘‘
لیکن منشی رحمت علی ایسی کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں تھے۔ انھوں نے کھرا جواب دیا، ’’چھ آنے تو تو مرتے مرجائے گاتب بھی نہیں دوں گا۔ تو ہے کس ہوا میں۔‘‘
گلزار نے محسوس کیا کہ اب میرے بیچ میں پڑنے کا وقت آگیا ہے۔ اس نے چھدّا کو ڈانٹ بتائی، ’’ابے چھدامنشی جی کو کیوں تنگ کر ریا اے۔ ٹھیک دام کیوں نئیں بتادیتا۔‘‘
چھدا نے اپنی بے گناہی جتائی۔ لو بھیا میں تنگ کر رہاہوں۔ اتنا کرایہ کم کردیا لیکن منشی جی ہیں کہ سامان میں نئیں آئے۔‘‘
گلزار بولا، ’’اچھا لے بھیا نہ تیرا بات رئی نہ منشی جی کی۔ چونی ہوگئی۔‘‘
منشی رحمت علی نےظاہری طور پر تھوڑی سی ہچرمچر کی اور راضی ہوگئے۔ چھدا نے اپنی بات ایک دوسرے طریقے سے نباہی۔
’’آج تو منشی جی سے ہی بونی کروں گا۔ بڑی بھاگوان سواری ہیں۔‘‘ اور ٹاٹ کی پوشش درست کرتے ہوئے بولا، ’’اچھا تو بس بیٹھ جاؤ۔ منشی جی اب دیر کا وقت نئیں اے۔‘‘
منشی رحمت علی دراصل ایک انفرادی سواری کی حیثیت سے چھدا کی نظر میں ایسی زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ ان کی اہمیت اس لیے تھی کہ ان کی وجہ سے دوسری سواریوں کے لیے راستہ ہموار ہوتا تھا۔ چھدا اس نکتہ سے خوب آگاہ تھا کہ خالی چھتری پر کبوتر نہیں گرتا۔ پیسہ کو پیسہ اور سواری کو سواری کھینچتی ہے۔ جس کےاکّے میں پہلی سواری بیٹھ گئی سمجھ لو کہ وہی اکہ سب سے پہلے بھرے گا۔ سواریاں ادبداکر اسی اکے پر ٹوٹتی ہیں جس میں کوئی سواری پہلے سے بیٹھی ہو۔ اس وقت اگرچہ اور اکے بھی اڈے پر آگئے تھے اور ایک سےایک بڑھیا اکہ کھڑا تھا لیکن پھر بھی چھدا کا پلہ جھکا ہوا رہا۔ یہی صحیح ہے کہ سارے اکے والوں سے اس کامقابلہ نہیں تھا۔ روپ نگر کے سوا اور منزلیں بھی نہیں جہاں کی صدائیں لگ رہی تھیں۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اس وقت روپ نگر جانے والوں کا بازار سب سے زیادہ گرم تھا۔ اللہ دیے کا اکہ سب سے زیادہ چمک رہا تھا۔ شاید اڈے پر سب سےاونچااکہ اسی کاتھا۔ چھتری پر سفید لٹھے کا غلاف اس نے کل پرسوں ہی چڑھوایا تھا۔ پشت پر جو سفید پردہ لہرارہا تھا اس کے کناروں پر سرخ دھاگے سے بیل کڑھی ہوئی تھی۔ ڈنڈوں پر میل کی ایک ایک انچ چوڑی پتیاں چمک مار رہی تھیں۔ پھر گھوڑا خوب تیار تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پہیوں میں ربڑ کے ٹائر لگے ہوئے تھے۔ نصر اللہ کااکہ تھا تو چھوٹا سا لیکن سجایا وہ بھی خوب تھا۔ نصراللہ نے اس مرتبہ اپنے اکے پرنیلارنگ کرایا تھا۔ پورا اکہ چمک رہاتھا۔ اگر اس وقت اللہ دیے کااکہ نہ ہوتا تو پھر تو نصراللہ ہی نصر اللہ تھا۔ نصراللہ بھی سواریوں کو گانٹھنے کے لیے طرح طرح کے جتن کر رہا تھا لیکن چھداہر نئی سواری کی آمد پر کچھ اس انداز سے باگ اٹھاکر اپنے چلنے کےعزم کااظہار کرتاتھا کہ سواری خواہ مخواہ اس کی طرف راغب ہوجاتی تھی۔ ایک سواری تو نصراللہ کےاکے میں بیٹھی اور پھر اترکر چھدا کے اکےمیں جابیٹھی۔ اس بات پر چھدااورنصراللہ میں خوب ٹھنی۔ نصراللہ کوشکایت تھی کہ ’’چھدا نے بے ایمانی سے سواری توڑی ہے۔‘‘ اور چھدا کہتا تھاکہ ’’سالے تیرا اکہ نہ اکّے کی دم سواری اتر کر میرے پاس چلی آئی۔ میں کیسےمنع کردیتا۔‘‘ بڑی مشکل سے سارےاکےوالوں نے مل کر بیچ بچاؤ کرایا۔ البتہ اللہ دیا بہت مطمئن تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ جو وقار اس کے اکے اور گھوڑے سےٹپک رہاتھا وہی شان اس کی حرکات و سکنات سےعیاں تھی۔ اس وقت عام بھاؤ چونی سواری کا تھا۔ لیکن اللہ دیے کا تانگہ ربڑٹائر تھا۔ وہ چھ آنے سے کوڑی کم لینے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے کسی سواری کو بڑھ کر اچکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ وہ جانتا تھا کہ ایراغیرا تو میرے اکے میں بیٹھے گا نہیں۔ رئیس سواریاں ہی بیٹھیں گی۔ اور وہ میرے اکے کو دیکھ کر خود میری طرف آئیں گی۔ پرمیشری نے اللہ دیے کی طرف ہی رخ کیا تھا اور اللہ دیے نے بھی اس کاخیر مقدم کیا، ’’آجاؤ ٹھاکر صاحب‘‘ لیکن چھ آنےکانام سنکر پرمیشری کادم خشک ہوگیا اور وہ چپکے سے سٹک کر چھدا کے اکے میں جابیٹھا۔ پرمیشری کے آجانے سےاکے میں پانچ سواریاں ہوگئی تھیں۔ اکے میں نہ سہی لیکن چھدا کے دل میں اب بھی جگہ تھی لیکن سواریوں کا پیمانۂ صبر اب لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں کہاکہ اب اگر اکہ نہیں چلاتو ہم سب اترپڑیں گے۔ چھدا نے ہنٹر اٹھایا اور اکے والوں پر ایک فتحمندانہ نگاہ ڈالی۔ سب اکے والے اپنی اپنی جگہ زور مار رہے تھے کہ ہمارا اکہ اڈے سے پہلے چلے۔ لیکن سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور چھدا نے بہت تمکنت سے اپنےگھوڑے کے چابک رسید کرکے اپنی روانگی کا اعلان کیا۔ چھدا نےاگرچہ اپنے اکے کی رائے عامہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا لیکن جب دوقدم آگےبڑھنےکے بعد اس نے نتھوا چمار کی جورو کو گلی سے نکلتے دیکھا تو جلدی سے بڑھ کر پوچھا، ’’اری روپ نگر چلے گی۔‘‘ لیکن نتھوا کی جورو نے چھدا کی بات سننےسے صاف انکارکردیا اور سونتی ہوئی اڈے کی طرف چلی گئی۔ آگے چل کر جب اس نے ایک گنواری کو سرپہ گٹھڑی رکھے جاتے ہوئے دیکھا تو اس کی نیت میں پھر فتور آگیا اور سواریوں کے احتجاج کے باوجود اس نے اسے دعوت دے ہی ڈالی۔
’’اری ڈکریا روپ نگر چل رئی اے؟‘‘
گنواری نے چھدا کے سوال کا جواب سوال سےدیا، ’’اچھا دری کا کہا لیوت ہے رے۔‘‘
’’آبیٹھ جا چونی دے دیجو۔‘‘
چونی کا نام سن کر گنواری بدک گئی اور سیدھی اپنے رستے پر ہولی۔ چھدا نے اسے پھر ٹوکا، ’’اری منھ سے تو پھوٹ۔ تو کیا دینے کیوےہے۔‘‘
’’مو پہ تواکنّی اے۔‘‘
’’لمبی بن۔ مرنے چلی ہے کفن کا ٹوٹا۔‘‘ اور تاؤ میں آکر اس نے گھوڑے کو تراخ سے چابک رسید کیا۔
چھدا کا اکہ اب شفاخانے سے آگے نکل آیا تھا۔ اتنےمیں پیچھے سے ایک گرج دار آواز آئی، ’’ابے او چھدا۔ اکہ روک بے۔‘‘ چھدا نے اکہ روک لیا۔ شیخ جی اپنی لاٹھی پٹخاتے مونچھوں کو تاؤ دیتے چلے آرہے تھے۔ سواریوں کا اندر ہی اندر خون بہت کھولا۔ اور چھدا بھی اس نئی سواری کے بارے میں کچھ زیادہ پرجوش نہیں تھا۔ لیکن دم مارنےکی مجال کس کو تھی۔ شیخ جی آئے اوربغیر سواری چکائے اکے میں آن بیٹھے۔ منشی رحمت علی کو شیخ جی نے دیکھا تو بس کھل گئے، ’’اخاہ منشی جی ہیں۔ اماں کدھر کو؟‘‘
’’اماں کدھر کو کیا۔ وہی ملا کی دوڑ مسجد تک۔ اس حرام زادی تحصیل کو جانا تو قبر میں جانے کے بعد ہی بند ہوگا۔‘‘
بس اشارے کی دیر تھی سو وہ مل گیا تھا۔ شیخ جی جھٹ نمبردارکا ذکر نکال بیٹھے۔ ’’منشی جی تم تحصیل سے اتنا کیوں بدکتے ہو۔ ایک اپنے نمبردار بھی تو ہیں۔ روز کچہری میں کھڑے رہتے ہیں۔ ہر چھٹے مہینے ایک جعلی مقدمہ کھڑا کردیتے ہیں جس روز عدالت کا منھ نہیں دیکھتے ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘‘
’’اماں شیخ جی بات یہ ہے کہ منشی رحمت علی بھلا ایسے موقع پر کہاں چوکنے والے تھے۔ اور نمبردار کا ذکر یوں بھی ان کے تخیل کے لیے مہمیز کا کام کرتا تھا، میاں اپنی اپنی عادت ہوتی ہے۔ پیٹ بری بلاہے۔ یہ سب کچھ کراتاہے ورنہ اشرافوں کا یہ طور تھورا ہی ہے کہ روز تھانے تحصیل میں کھڑےرئو۔ نمبردار صاحب سے پوچھو کہ بھلے آدمی تیرے الغاروں پیسہ بھرا پڑا ہے۔ تیرے سات پشتیں بیٹھ کے کھائیں گی اور مزےکریں گی۔ تو نے اپنےپیچھے یہ کیا پخ لگائی ہے۔ آج اس پہ نالش ٹھونکی۔ کل اس پہ مقدمہ چلایا۔ پرسوں فلاں کی قرقی کرائی۔ بھلے مانس گھر میں بیٹھ۔ اللہ اللہ کر۔ غریب غرباؤں کو کچھ دے دلا۔ حج کو جا۔ دنیامیں تو اتنا روسیاہ ہولیا۔ اب کچھ عاقبت کی فکر کر۔ مگر۔۔۔‘‘
یہاں آکر شیخ جی نے ان کی گفتگو کا سلسلہ منقطع کردیا۔ شیخ جی یوں بھی زیادہ لمبی تقریر کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے اور پھر عاقبت کے لفظ پر تو ان کے ہاتھ سے صبر کادامن بالکل ہی چھوٹ گیا۔ بات کاٹ کے بولے، ’’اجی عاقبت کی فکر تو بہ کیجیے۔ منشی جی۔ ایسے لوگ اگر عاقبت کی فکر کرنے لگیں تو جہنم کے لیے ایندھن کہاں سے آئے گا۔ یہ شخص تو دوزخ کاکندا بنےگا کندا۔‘‘
منشی رحمت علی کو شیخ جی کی بات سے پورا پورا اتفاق تھا۔ لمباسانس لے کر بولے، ’’ہاں میاں یہ دولت ہے ہی بری چیز۔ آنکھوں پہ چربی چھا جاتی ہے آدمی کو قارون کا خزانہ بھی مل جاوے تو بھی اس کی ہوس پوری نہیں ہوتی۔‘‘
چھدا اب تک تو گھوڑے پر چابک برسانےمیں مصروف تھالیکن اب گھوڑا راہ پر آگیا تھا۔ چھدا کو جب اس طرف سے فراغت ہوئی تو اس کی طبع موزوں نے بھی زور مارا۔ ’’میاں یہ لمبردار بڑا موذی ہے۔ سالے نے میرے پھوپھا کو اڑنگے میں لاکے دس کے سارے کھیت کوڑیوں میں خریدلیے۔‘‘ اور پھر ذرا آواز بلند کرکے بولا، ’’شیخ جی تمھیں یقین نئیں آئے گا یہ سالا چوروں سے ملا ہوا ہے۔‘‘
شیخ جی کو بھلا کیوں یقین نہ آتا۔ نمبردار صاحب کے متعلق وہ ہر بات یقین کرنے کو تیار تھے۔ چھداکی بات پر انھیں اک ذراتاؤ آیا۔ بولے کہ ’’ابے یقین نہ آنے کی کیا بات ہے۔ میں نمبردار کی رگ رگ سے واقف ہوں۔ اجی وہ سات تالوں میں بھی کوئی کام کرے گا تو مجھے پتہ چل جائے گا۔ اب تک تو خیر میں یہ بات منھ پر لایا نہیں تھا۔ لیکن اب بات منھ پرآہی گئی ہے تو کہتاہوں کہ۔۔۔‘‘ اور یہاں آکر شیخ جی کی آواز دھیمی پڑ گئی اور اس نے تقریباً سرگوشی کا انداز اختیار کرلیا، ’’میاں محلے میں جتنی بھی چوریاں ہوئی ہیں ان سب میں نمبردار کا ہاتھ ہے۔‘‘
پرمیشری کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ منشی رحمت علی کے منھ سے بے ساختہ ’’اچھا‘‘ نکل گیا۔ لیکن چھدا نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے دعوے کی تائید بہت شاندار رطریقے پر ہوئی تھی۔ اب اس نے اور ہاتھ پیر پھیلائے، کہنے لگا، ’’اس لمبردار نے تو میرے باپ کا ٹیبا کردیا۔ وس نے اتنی محنت سےمیری بئو کے لیے زیور اور کپڑا خریدا تھا۔ سالے نے کومل لگوادیا۔ صبح جو اٹھیں ہیں تو کیا دیکھیں کہ گھر میں ایک کی بجائے دو دروازے بنے ہوئے ہیں جو اس دروازے سے لائے تھے وہ وس دروزّے سے نکل گیا۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے چھدا کو یکایک احساس ہوا کہ گھوڑے کی رفتار سست پڑگئی ہے۔ اس نے سانٹرسے ایک چابک رسید کیا لیکن گھوڑے نےآگے بڑھنے کی بجائے دولتیاں پھینکنی شروع کردیں۔ چھدا نے تاؤ میں آکر للکارا، ’’ہت تیری نانی کی بیٹی دم میں کھٹکھٹا‘‘، اور سیڑ سیڑ ہنٹر برسانے شروع کردیے۔ مار کے آگے تو بھوت بھی بھاگتا ہے۔ چھدا کا گھوڑا تو پھر گھوڑاتھا۔ اڑ کے کھڑا ہوگیا۔ دولتیاں پھینکیں۔ الف کھڑا ہوگیا۔ ہنہنایا اور بالآخر پھر سیدھے سبھاؤ دورنے لگا، اور جب اکہ اپنی پوری رفتار پر چلنے لگا تو چھدا کو ایک عجیب سی آسودگی کااحساس ہوا۔ اس نے چابک کاالٹا سرا خواہ مخواہ پہیے کے ڈنڈوں اور چابک کے تصادم سے پیدا ہونے والا کٹ کٹ کا یہ تیز شور مستزاد، خام اور کھردرلی آوازوں کے اس ترنم میں چھدا نے اپنے آپ کو گم ہوتا ہوا محسوس کیا۔ اس نے مزے میں آکر تان لگائی،
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے
اب چھدا کسی دوسری دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ شیخ جی اور منشی جی اب بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ نمبردار کے کردار پر تنقید کیے جارہے تھے۔ لیکن چھدا کو بس اب اتنا محسوس ہورہا تھا کہ کہیں دور سے دھند میں لپٹی ہوئی آوازیں اس کے کانوں میں آرہی ہیں۔ اسے اس غزل کاالٹا سیدھا ایک سالم شعر بھی یاد تھا جب ایک مصرعہ پڑھتے پڑھتے اس کی طبیعت سیر ہوگئی تو اس نے ایک نئی ترنگ کے ساتھ اس شعر کو گاناشروع کیا،
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
دنیا نہ تمھیں بھی کہیں دیوانہ بنادے
لیکن سرور اور سرشاری کی یہ کیفیت دیر پاثابت نہ ہوئی۔ اچانک پیچھے سے ایک دوسرے اکے کی آہٹ ہوئی اور چشم زون میں اللہ دیا اور اس کا تنومند گھوڑا برابر میں سیدھے ہاتھ پر نظر آیا اور اوجھل ہوگیا۔ البتہ اکے کی پشت پر لہراتا ہوا سفید پردہ کافی دیر تک نظر آتا رہا۔ ممکن ہے چھدا اس واقعہ کو گول کرجاتالیکن پرمیشری نے بات کا بتنگڑ بنادیا۔ منشی رحمت علی کو ٹھوک کر بولا، ’’منشی جی۔ یو اللہ دیا چوکھا رہا۔ جبو ہمرا اکہ چلا تھا وا کے اکے میں کاہو سباری نائے تھی۔‘‘
چھدا بہت گھٹا۔ کہنے لگا، ’’ماہراج اس کااکہ ہے بھی تو ربٹایر۔‘‘
لیکن شیخ جی نے چھدا کی بات کاٹ دی، ’’ابے سالے اکے کی بات نہیں ہے۔ اس کا گھوڑا بہت تیار ہے۔ اشارے پر چلتا ہے۔ واہ کیا گھوڑا ہے۔ جسم شیشے کی طرح چمکتا ہے۔‘‘
’’ہاں صاحب کھلائی کی بڑی بات ہے‘‘، منشی رحمت علی نے لقمہ دیا۔
شیخ جی کے لہجے میں اور گرمی پیدا ہوگئی۔ منشی جی اس مکر کاگھوڑا اس وقت سارے قصبے میں کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘
اللہ دیے کے گھوڑے کی تعریف پر چھدا کاتخیل بہک نکلا، کہنے لگا، ’’میاں تم نے میری گھوڑی نئیں دیکھی۔ واہ کیا فروٹ جاتی تھی۔ یہ سالا اللہ دیے کاگھوڑا اس کے سامنے کیا ہے۔‘‘
’’ابے تیرے پاس گھوڑی کس دن ہوئی تھی۔‘‘ شیخ جی آج ہر طرح چھداکی توہین کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
چھدا بھی گرم ہوگیا۔ بولا، ’’شیخ جی تمھیں یہی تو پتہ نئیں اے۔ میاں نے دلّی میں گھوڑی خریدی تھی۔ وہ گھوڑی تھی۔ بس کیا پوچھو ہو۔ او ہو ہو ہو ہنٹر چھوایا اورہوا ہوئی۔ اور میاں جیسی گھوڑی تھی ویسا ہی تانگہ تھا۔۔۔ منشی جی دلی میں اکے نئیں چلتے۔‘‘
’’نو بھر بگھیاں چلتی ہیں۔‘‘ منشی رحمت علی نے بھن کر جواب دیا۔
’’لو میاں میں جھوٹ بول رہا ہوں۔‘‘ چھداکو بھی اپنے اوپر پورا اعتماد تھا۔ ’’سو سو روپے کی شرط رئی۔ اگر کوئی دلی میں مجھے اکہ دکھادے تو غلام بن جاؤں۔ وانپہ تو تانگے چلتے ہیں۔ میاں تنگہ بھی خوب ہووے ہے۔ اوپر ٹپ پڑی ریوے ہے۔ دھوپ ہو تو ڈا لو۔ ہوا کھاے کو جی چاہے تو ٹپ گرادو۔‘‘
منشی رحمت علی اور جھلائے، ’’سالی سواری نہ ہوئی چھتری ہوگئی۔‘‘
چھدا نے بڑے فخر سےجواب دیا، ’’ہاں میاں یہی تو ٹھاٹ ہیں۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ وس تانگے سے میں نے بھی وہ کیا کہ بس میرے پوبارے ہوگئے۔ گھنٹہ گھر سے فوارہ فوارے سے جمعہ محبت۔ جمعہ محبت سےحوض قاضی۔ حوض قاضی سے بارہ کھمبے۔ اور جدھر نکل جاؤ سوارئیں ہی سوارئیں لے لو۔ یاں کی طرح تھوڑائی کہ اڈے پہ بیٹھے اونگھ رئے ایں کہ اللہ بھیج مولا بھیج اور سواری آوے ہے تو وسکی انٹی سے پیسہ نئیں نکلتا۔‘‘
شیخ جی بولے، ’’ابے وہ شہر ہے وہاں کا اور یہاں کا کیا مقابلہ۔‘‘
لیکن چھدا تو گرمی کھا گیا تھا۔ اب وہ کہاں چپکا ہونے والا تھا۔ بولا شیخ جی ایک دلی پہ ہی تھوڑائی ہے۔ سال کے سال میرٹھ کی نوچندی پر جاوے تھا۔ دلی سےنکل کے جو بھیا دوڑ لگے تھی تو بس پھر رکھنےکا نام نئیں۔ میرٹھ ہی جاکے رکیں تھے۔ میری گھوڑی بھی فر فرجاوے تھی۔ بس ایک ہنٹر لگایا اور گھوڑی اڑن چھو ہوئی اور پھر میرٹھ میں دے پھیرے پہ پھیرا۔ گھنٹہ گھر سے نوچندی، نوچندی سے گھنٹہ گھر۔ سالے میرٹھ والے بھی میرے سامنے چھکڑی بھول گئے تھے اور بھیا شام کو نوچندی میں جاکے پشاوری سے آدھ سیر پرونٹھے کو اب تلوائے اور ڈیڑھ پا حلوا لیا اور کھاپی مونچھوں پر تاؤ دیتے۔ یارجی ٹھنڈ ٹھنڈ میں گھر کو آگئے۔‘‘
’’وابے مسخرے‘‘، منشی رحمت علی سے اب ضبط نہ ہوسکا۔ ’’ابے ساری شیخی تیرے ہی حصہ میں آئی ہے۔ میں پوچھوں ہوں کہ تیرے جب یہ ٹھاٹ تھے تو تو یہاں کس لیے آمرا۔‘‘
’’منشی جی‘‘، چھدّا کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ ’’یہ میرا باپ بڑا ستیاناسی ہے میں تو کبھی نہ آتا مگر وس نے مجھے واں ٹکنے نئیں دیا۔ یاں اب کرموں کو روؤں ہوں جو کماکے لایا تھا وہ سارا چوری میں نکل گیا۔‘‘
شیخ جی تو گویا ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ بس چوری کا لفظ پکڑ کے انھوں نے اپنی بات شروع کردی، نمبردار پر جو گفتگو انھوں نے شروع کی تھی یا تو وہ خود تشنہ رہ گئی تھی یا پھر ان کی طبیعت سیر نہ ہوئی تھی۔ بہرحال چھدّا نے بیچ میں جو موضوع چھیڑ دیا تھا اس کے معاملہ میں وہ کچھ زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ اب جو چوری کی بات آئی تو شیخ جی کو ڈور کا ٹوٹا ہوا سر ا مل گیا۔ کہنے لگے، ’’ میاں جب تک یہ نمبردار ہے اس وقت تک یاں کسی کا گھر بار محفوظ نہیں ہے۔‘‘
’’اماں لوٹ مار تو ان کا آبائی پیشہ ہے۔ یہ دولت چھپر پھاڑ کے تو آئی نہیں ہے۔ ایسے ہی جمع ہوئی ہے۔ اللہ بخشے ان کے باپ اشرف علی ان سے بھی چار جوتے بڑھے ہوئے تھے۔‘‘ اور یہاں پہنچ کر منشی رحمت علی کی گفتگو نے ایک اور پلٹا کھایا، ’’اب گڑے مردے کیا اکھیڑنا۔ میاں اشرف علی کی کیا حیثیت تھی۔ نال نکالا کرتے تھے۔ ہمارے والد مرحوم کو تو دنیا جانتی ہے۔ کبھی پیسے کو پیسہ نہ سمجھا۔ جوئے کی لت پڑگئی تھی۔ ساری دولت جوئے کی راہ اڑادی۔ ایک روز جوازوروں پر ہو رہا تھا۔ والد صاحب جب گرہ سے سب کچھ دے بیٹھے تو انہوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اشرف علی نے پچاس روپلی سر کادیے اور سید پور کا کاغذ لکھوالیا۔ مقدر کا کھوٹ۔ وہ پچاس روپے بھی ہار گئے اور یوں میاں ہمارا پورا گاؤں ان حضرت اشرف علی کے ہتھے چڑھ گیا۔‘‘
شیخ جی نے اس بات کی بہت زور شور سے تائید کی، ’’اجی یہ واقعہ کون نہیں جانتا۔ آپ کے والد بھی بڑے جنتی تھے۔ کوڑیوں کے مول ریاست بیچ ڈالی۔‘‘
منشی رحمت علی نے آہ سرد بھرتے ہوئے کہا، ’’میاں اب ان پرانی باتوں کا کیا یاد کرنا۔ والد صاحب خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ انھوں نے بہت کمایا لیکن رکھنا نہ جانا اور کوئی ہوتا تو اس پیسے سے سونےکی دیواریں کھڑی کرجاتا مگر انھوں نے جتنا کمایا اس سے زیادہ کھایا اور جتنا کھایا اس سے زیادہ مٹایا۔ علی گڑھ کی مدار دروازے والیوں نے اسی پیسے سے محل کھڑے کرائے۔ اور زہرہ جان تو گھر ہی آکر پڑ رئی تھیں۔‘‘
زہرہ جان کا نام سن کر چھدا تڑپ اٹھا، ’’واہ میاں زہرہ جان کی بھی کیا بات تھی۔میرا باپ کہا کرے ہے کہ وس کی آواز کیا تھی بس پپیا تھی۔‘‘
منشی رحمت علی کی بات کو سہارا ملا تو وہ ذرا اور چہکے، ’’اماں یاں والوں نے اسے کہاں سنا ہے۔ جب یاں آئی تھی تو اسکا گلا خراب ہوچکا تھا۔ دشمنی میں آکر کسی نے اسے سندور کھلادیا تھا۔ مگر ہاتھی مرکر بھی سوالاکھ کا۔ اس کے بعد بھی یہ حال تھا کہ محفل میں تہلکہ مچادیتی تھی۔ بس والد صاحب اس کی آواز پہ لوٹ گئے۔‘‘
شیخ جی نے لقمہ دیا، ’’اجی آپ کے والد کے بھی رئیسوں کے سے کاروبارتھے اور بھئی کیوں نہ ہوتے آخر کو بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے۔‘‘
منشی رحمت علی نے پھر لمبا سا ٹھنڈا سانس لیا، ’’ہاں میاں خود چین کرگئے ان کی اولاد پاپڑ بیل رئی ہے جس کے گھر لکھ لٹتے تھے۔ اس کا بیٹا رحمت علی آج کارندہ گیری کرکے اپنا پیٹ پالتا ہے۔ بچپن میں کبھی بگھی کے سوا دوسری سواری نہ دیکھی۔ آج کرائے کے اکوں میں بیٹھے۔۔۔ پھرتے ہیں۔ کوئی سوھیلے کو نہیں پوچھتا۔‘‘
چھدّا مرعوب ہوکر بولا، ’’ہاں جی آپ ٹھہرے پوتڑوں کے رئیس۔ اور میاں یہ لمبردار صاحب۔۔۔‘‘ اس مرتبہ شیخ جی کا فریضہ چھدا نے ادا کیا۔ ’’یہ لمبردار صاحب تو مجھے یونہی لگیں ہیں۔ میاں کچھ ہی ہوون کی شہر میں عزت آبرو تو ہے نئیں۔ ہرشخص ونہیں گالئیں دیوے ہے۔‘‘
شیخ جی چمک کر بولے، ’’اماں عزت آبرو کہیں خالی پیسے سے ہواکرتی ہے گھسیارا لاکھ راجہ بن جائے رہے گا گھسیارا ہی۔‘‘
چھدا کا گھوڑا اس وقت بقول چھدا فروٹ اڑا چلا جارہا تھا۔ گڑھوں والی سڑک پیچھے رہ گئی تھی۔ سامنے سڑک دور تک ہموار نظر آرہی تھی اور خالی پڑی تھی۔ دائیں بائیں آم جامنوں اور شیشم کے ہرے بھرے درخت جھکے کھڑے تھے۔ اس وقت چھدا کی روح کارواں رواں ناچ رہا تھا۔ اس کاگھوڑا جب بھی بغیر ہنٹر کا انتظار کیے تیزی سے دوڑتاتھا اس کی روح وجد کرنے لگتی تھی۔ اس نے مزے میں آکر ایک سوال کرڈالا، ’’میاں یہ لمبردار اپنے آپ کو سید کہویں ہیں۔‘‘
’’سید‘‘ شیخ جی کے لہجہ میں طنز کےساتھ ساتھ اہانت کا پہلو بھی پیدا ہوگیا تھا۔ خدا کی قدرت دیکھو بہشتی بھی سید ہونے لگے۔ منشی جی سن رئے ہو۔‘‘
منشی جی بہت اطمینان سے کھنکارے اور پھر سر سے ململ کی گول ٹوپی اتارتے ہوئے بڑی متانت سے بولے، ’’میاں ہم اور کچھ تو جانتے نہیں لیکن ان کی دوباری میں مشک ٹنگی ہوئی تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔‘‘
منشی جی کا سہارا پاکر شیخ جی اور چمکے، ’’سقّے کی اولاد پانی بھرتے بھرتے نمبرداری کرنے لگے۔ ہمیں شیخ کلال بتاوے ہیں۔‘‘
چھدّا نے پھر ٹانگ اڑائی، ’’اجی دلی میں بشیر پنواڑی کی دوکان پہ ایک خان صاحب بیٹھا کریں تھے۔ ونھوں نے لاکھ روپے کی بات کہی کہ میاں نہ کوئی سید ہے نہ پٹھان ہے نہ مغل نہ شیخ سب بھنگی چمار تھے۔ اب مسلمان بن گئے۔‘‘ منشی رحمت علی کو یہ بات مطلق پسند نہ آئی۔ تھوڑی دیر تک تو چپکے رہے اور جب چھدا کی بات کا اثر زائل ہوچکاتو بولے کہ ’’میاں شیخی کی بات نہیں ہے۔ ہمارے خاندان کا تو شجرہ بھی تھا لیکن کیا کہیں اپنے والد صاحب کو، بڑے بھولے تھے۔ انھیں میاں نمبردار صاحب کے باپ ایک روز آئے، گڑگڑاکے کہنے لگے کہ کلکٹر صاحب سے مجھے ملنا ہے ذرا اپنا شجرہ دو دن کے لیے دے دو۔ والد صاحب جھانسے میں آگئے۔ میاں وہ شجرہ ایسا گیا کہ پھر واپس نہیں آیا۔ باپ چل بسے اب ان کا بیٹا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جہاں کوئی حاکم آیا اور شجرہ لے جاکے پیش کردیا۔ اب انھیں جاکے کون بتائے کہ کن کی باتوں میں آرہے ہو یہ تو سقے ہیں سقے۔‘‘
شیخ جی کچھ کہنے کے لیے پرتول ہی رہے تھے کہ یکایک اکّے کاایک پہیہ گڑھے میں گرااور اکہ الٹتے الٹتے بچا۔ گھوڑا پھر بگڑگیا۔ چھدانے چابک بھی برسائے اور چمکارا بھی لیکن گھوڑے نے بھی اس مرتبہ آگے بڑھنےکی قسم کھالی تھی۔ چھدا جب تابڑ توڑ چابک رسید کرتاتھا تو اکے کو حرکت تو ضرور ہوتی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد دیکھیے تو اکہ آگے کے بجائے چند قدم پیچھے کھڑا نظر آتا تھا۔ اسی اثنا میں پیچھے کھرڑ کھرڑ کی آواز آئی۔ نصراللہ کا اکہ برابر میں آن لگا تھا۔ نصراللہ نے برابر سے گزرتے ہوئے فقرہ کسا، ’’ابے اس مریل ٹٹو کو بیچ لیوے،کہاں کھڑا ہوگیا۔ بھیا یہ سڑک پہ نئیں چلے گا دگڑے دگڑے چلا۔‘‘
چھدا کاخون ایک تو ویسے ہی کھول رہا تھا۔ نصراللہ کا فقرہ سن کر اور بھن گیا۔ تاؤ میں آکے جواب دیا، ’’ابے انجر پنجر پہ رنگ کراکے اتراریا اے۔‘‘
نصراللہ کہاں چوکنے والا تھا۔ اس نے پلٹ کر آواز لگائی، ’’پیارے اب کے پینٹھ میں اس شکرم کو لّلام کردیجو۔ کچھ پیسے اٹھ جائیں گے۔‘‘
چھدا بہت بھنا۔ لیکن کیا کرتا۔ چپ ہوتے ہی بنی۔ گھوڑا تھا کہ سامان میں ہی نہ آتا تھا۔ اب منشی رحمت علی کو تحصیل کی فکر سوار ہوئی۔ بولے کہ ’’یار میرے آج تحصیل بھی پہنچائے گا یا نہیں۔‘‘
’’ہت تیری تحصیل کی دم میں تہہ توڑ کنوئیں کے نل کا نمدا‘‘، اور اس نے سڑ سڑ ہنٹر چلا ڈالے۔ لیکن گھوڑے کی حالت یہ ہورہی تھی کہ نہ ہلد نہ کھسکت نہ جنبدزجا۔ چھدا لاچار ہوکر اکے سے اترآیا۔ اس نے گھوڑے کی لگام پکڑی اور آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔ بیس پچیس قدم یوں چلنے کے بعد گھوڑا کچھ راہ راست پہ آیا۔ چھدا اچک کر ڈنڈے پہ بیٹھ گیا اور کئی چابک جلدی جلدی رسید کرڈالے۔ گھوڑا پھر طرارے بھرنےلگا۔ چھدا نے اطمینان کا سانس لیا۔ مصیبت ٹل جانے کے بعد اس نے مصیبت کا جواز پیش کرنا شروع کیا، ’’منشی جی گھوڑا بچارا کیا کرے۔ اس سڑک کو میں بس کیا کہوں دگڑا بنی ہوئی ہے۔ میاں دلی کی سڑکیں تھیں۔ ایسے ویسے آدمی کا تو وسپہ سے پیر رپٹ جاوے تھا۔ اور تانگہ یوں جاوے تھا فٹافٹ۔‘‘
پرمیشری کا چپکے بیٹھے بٹھے منھ بندھ گیا تھا۔ اس نے طویل سی جمائی لیتے ہوئے کہا، ’’شیخ جی اس سڑک کے بننے وبنے کا بھی کچھ بونت بنت ہے۔‘‘
’’چین کی بنسری بجاؤ لالہ۔ شیخ جی پھر اپنے پرانے موضوع پہ آگئے۔‘‘ جب تک نمبردار صاحب کا دم سلامت ہے اس وقت تک تو اس سڑک کے دن پھرتے نہیں۔‘‘
پرمیشری بگڑ کر بولا، ’’نمبردار صاحب اچھے چنگی کے ممبر بھئے سڑک ساری بھوس کا تھیلابن گئی۔‘‘
چھدا نے ایک دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا، ’’یارو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا یہ سارے کنکروں کے ڈھیر کنارے کنارے یونہی پڑے دیکھے۔ سڑک تو بن چکی یہ تو بس غلیل کے غلوں کے ہی کام آئیں گے۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے اس کی توجہ کنکروں کے ڈھیریوں سے ہٹ کر درختوں پر مرکوز ہوگئی۔اکہ اس وقت آم کے گھنے درختوں کے نیچے سے گزر رہاتھا۔ سیدھے ہاتھ پر مندر سے لگے ہوئے کنوئیں کی پکی منڈیر پر طوطوں کی کتری ہوئی ان گنت چھوٹی چھوٹی کچی امبیاں بکھری پڑی تھیں۔ مندر کی چھت پر اور کنوئیں کی منڈیر پر بہت سے چھوٹے بڑے بندر بری طرح چیں میں کر رہے تھے۔ ایک بندر نے چھدا کی طرف رخ کرکے آہستہ سے خو کیا اور پھر چپکا ہوگیا۔ چھدا کی طبیعت لہک اٹھی بولا، ’’یارو اب کے آم تو خوب ہوا ہے۔‘‘
پرمیشری نے گرہ لگائی۔ ’’آموں کابھاؤ اب کےمندا رہے گا۔ پر بابو فصل بھی وہ ہوئی ہے کہ جس نے باغ لے لیا وا کی چاندی ہی چاندی ہے۔‘‘ چھدا نے ایک اور اعتراض کیا، ’’مگر لالہ اب کے کوئل نئیں بولی۔ پہاڑ سےآئی بھی ہے یا نہیں۔‘‘
شیخ جی کو اس کی بے خبری پہ بہت تاؤ آیا، ’’ابے سارے دن تیرا گھوڑا ہنہناتاہے تو کوئل کی آواز کہاں سے سن لے گا۔‘‘
منشی رحمت علی بولے، ’’بھیا تجھے آم کھانے سے مطلب ہے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ تجھے کوئل سے کیا۔ تجھے ہم چاہیں وہ تجھے مل جائیں گے۔ سامنے ایک درخت کی جڑ سے ایک نیولا نکلا اور سٹاک سے سڑک کو عبور کرکے دوسری سمت میں کہیں جاکر غائب ہوگیا۔ ایک ادھیڑ عمر کی کھوسٹ بندریا سینے سے بچے کو لگائے خراماں خراماں سڑک کو عبور کر رہی تھی اور جب اکہ بالکل قریب آگیا تو اس نے تیز سے قدم بڑھائے اور اچک کر ایک املی کے درخت پر چڑھ گئی۔
آبادی اب قریب آگئی تھی۔دور کچی پکی عمارتوں کا ایک انبار نظر آرہاتھا۔ سب سےپہلے پرمیشری کو بےکلی محسوس ہوئی۔ یوں بھی وہ سواریوں کے بیچ میں دبا ہوا بیٹھا تھا۔ اس نے بمشکل تمام پہلو بدلااور جماہی لیتے ہوئے بولا، ’’منشی جی تم تو تحصیل کےاڈے پہ اتروگے؟‘‘
’’اور کیا۔ تجھے کہاں جانا ہے راجہ۔‘‘
’’مورے کو تو پینٹھ جانا ہے۔‘‘
’’اچھا آج پینٹھ لگ رہی ہے‘‘، منشی رحمت علی بولے، ’’تو لالہ دو قدم پہ پینٹھ ہے اڈے سے اترکے چلے جائیو۔‘‘
چھداکا اکہ تحصیل کے سامنے اڈے پہ جاکے رکا۔ جن اکوں کو وہ اڈے پہ چھوڑ کر روانہ ہوا تھا وہ یہاں اس سے پہلے آن موجود ہوئے تھے۔ نمبردار سڑک کے کنارے چھتری لگائے کسی کاانتظار کر رہے تھے۔ ان کے پیچھے ان کا منشی بغل میں رجسٹروں کا بستہ دبائے کھڑا تھا۔ منشی رحمت علی نے نمبردار کو دیکھا تو بچھ گئے، ’’اماں نمبردار صاحب میں نے آپ کو اڈے پر بہت ٹٹولا۔ آپ کہاں رہ گئے تھے۔‘‘
’’منشی جی کچھ گھر سےنکلنے میں دیر ہوگئی۔ لیکن خیر اللہ دیے نے بہت جلدی پہنچادیا۔‘‘ نمبر دار صاحب نے منشی جی کے جوش و خروش کا جواب اتنے ہی جوش و خروش سے دینا ضروری نہ سمجھا۔
شیخ جی ادھر سے بولے، ’’تو نمبردار صاحب واپسی تو ساتھ ہی ہوگی۔‘‘
نمبردار صاحب نے سوچتے ہوئے جواب دیا، ’’ہاں دیکھو۔ آج یہ تحصیلدار نہ معلوم کس وقت رگڑے گا۔‘‘
پیچھے سے چھدا بولا، ’’نمبردار صاحب اکہ لیے کھڑا ہوں۔ بس آج تمہیں ہی لے کے چلوں گا۔‘‘
’’ابے گھوڑا اکہ ٹھیک ہے۔‘‘
’’اجی گھوڑا اکہ۔ کیا کہہ رئے او نمبردارصاحب۔‘‘ چھدا نے ساتھ میں چٹکی کا اشارہ کیا۔ یوں پہنچاؤں گا۔ ’’ادھر بیٹھے اور ادھر دن سے گھر پہ‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.