سادھو
وہ تھکا ماندہ سادھو اس گاؤں میں پہلی بار داخل ہوا تھا۔ مگر اس نے گاؤں کی حدود میں اس اعتماد سے قدم رکھا جیسے گاؤں کے سارے گلی کوچے اس کے دیکھے بھالے ہوں۔
گاؤں کے کنارے بہت ساری عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ جن میں بوڑھی، جوان، سبھی شامل تھیں۔ ان مختلف العمر عورتوں پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹک گیا۔ اس کے بوڑھے چہرے کی جھریاں مزید گہری ہو گئیں اور ماتھے پر اندرونی کرب کی ایک لکیر سی ابھر آئی۔
زمانہ حال کی لمحہ لمحہ بدلتی بساط پر جینے والے ان بےبضاعت لوگوں پر اسے بڑا ترس آیا۔ ان میں سے ایک ایک کے مستقبل کا احوال وہ کھلی کتاب کی طرح پڑھ سکتا تھا۔ خصوصاً اس کی نگاہیں اس دوشیزہ پر جم کر رہ گئی جو کنویں کی مینڈھ پر جھکی ڈول سے پانی کھینچ رہی تھی۔ اس کے جھلمل کرتے لباس سے پتہ چلتا تھاکہ وہ ایک نوبیاہتا دلہن ہے۔ اس کا جسم ہلدی کی گانٹھ جیسا چمکدار اور پرکشش تھا۔ وہ اتنی نوعمر تھی کہ شباب کی آمد آمد کے باوجود اس کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت باقی تھی۔
سادھو کے دیکھتے ہی دیکھتے اس کا چہرہ مسخ ہو گیا اور ہلدی کی گانٹھ جیسا پرکشش بدن مردہ ڈھور کی مانند پھولنے لگا۔ سادھو نے گھبراکر چہرہ دوسری جانب پھیر لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں ایک راہ گیر سے بولا،
’’اس لڑکی کو دیکھتے ہو وہ ابھی کنویں میں ڈوب کر مر جائےگی۔‘‘
پھر بغیر رکے تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ ابھی وہ سڑک کے پہلے موڑ پہ پہنچا تھا کہ عقب سے بےتحاشہ عورتوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ مگر اس نے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ وہاں جو کچھ ہونا تھا اس نے اپنی نگاہ پیش بین سے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد اسے ایک خستہ حال جھونپڑی دکھائی دی جس میں ایک سیاہ فام لوہار اپنے وزنی ہتھوڑے سے لوہا کوٹ رہا تھا۔ سامنے بڑا سا الاؤ دہک رہا تھا۔ جس سے آگ کی چنگاریوں کا فوارہ سا اڑ رہا تھا۔
الاؤ کی سرخ روشنی میں وہ لوہاریوں دکھائی دے رہا تھا جیسے ابھی ابھی سمندر منتھن کے بعد اسی آگ سے سیاہ مورتی کی طرح برآمد ہوا ہو۔
پاس ہی ایک چھوٹا بچہ بڑے انہماک سے شعلوں کی لپلپاتی زبانوں سے اڑنے والی چنگاریوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ سادھو نے یہ سب دیکھا مگر اسے بڑا تعجب ہوا کہ اس نے اس جانب کیوں نگاہ کی؟ پیش آنے والے حادثے نے اسے پھر مضطرب کر دیا اور اس نے پاس کھڑے ہوئے شخص سے کہا،
’’آہ اب یہ بچہ جھلس کر مر جائےگا۔‘‘ اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ وہ شخص سادھو کی اس بات پر پہلے تو چونکا پھر دور جاتے سادھو کو سڑی سمجھ کر اس پر ایک متاسفانہ نگاہ ڈالی اور استہزائیہ انداز میں ہنسا۔ وہ بچہ اسی شخص کا تھا اور پچھلے کئی روز سے اسی طرح روزانہ آکر وہاں بیٹھتا تھا اور لپ لپاتے شعلوں کا تماشا دیکھتا رہتا تھا۔ کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی۔ اتنے میں لوہار اٹھا اس نے انگلی سے پیشانی اور گردن کا پسینہ صاف کیا اور اکڑی ہوئی شریانوں کو ڈھیلا چھوڑتا ہوا پانی پینے کے لئے اندر چلا گیا۔ سادھو تیز تیز قدم اٹھاتا کسی ان دیکھی انجان زنجیر سے بندھا چلا جارہا تھا۔ سامنے نکڑ پر املی کا پیڑ تھا وہ جانتا تھا کہ اس درخت کے سرسبز سائے تک پہنچتے پہنچتے بچے کی چیخ سنائی دےگی اور ویساہی ہوا۔ جوں ہی اس نے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں قدم رکھا پشت سے ایک دلدوز چیخ سنائی دی۔ سادھو کے قدم رکے نہیں وہ چلتا ہی رہا اب وہ گاؤں کے باہر آ چکا تھا اور اس کا اعصابی تناؤ بھی کم ہو گیا تھا۔ اسے یقین تھاکہ اس سامنے والی ٹیکری کے دامن میں مندر ضرور ہوگا۔ چند قدم طے کرتے ہی اس کی نظر مندر پر پڑی۔ وہ ایک پرانا بوسیدہ مندر تھا جس کے ستون ڈھے چکے تھے۔ مورتی ٹوٹی پڑی تھی اور چاروں طرف تاراجی کا راج تھا۔
اس نے سوچا اب اس مندر کے ایک گوشے میں مرگ چھالا بچھائے وہ سکون اور اطمینان سے اس کی راہ دیکھتا رہےگا۔ وہ اس مسافر کی سی طمانیت محسوس کر رہا تھا جو ایک طویل عرصے کے بعد کسی گھنے درخت کے سائے میں پہنچ گیا ہو۔
اس نے مرگ چھالا فرش پر بچھایا اور اس پر اطمینان سے آسن جماکر بیٹھ گیا۔ اب باہر درخت کے پتوں کی سرسراہٹ کے سوا وہاں کسی بھی قسم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
غالباً اس ویران مندر میں ایک عرصہ سے کسی متنفس کا گذر نہیں ہوا تھا۔ فرش پر دھول کی دبیز چادر بچھی ہوئی تھی۔ جس پر دروازے سے مرگ چھالا تک صرف اسی کے قدموں کے نشان دکھائی دے رہے تھے۔ وقت دبے پاؤں گذر رہا تھا۔ سادھو دروازے پر نظریں جمائے خاموش بیٹھا تھا۔ وہ اس حقیقت سے بہت پہلے ہی آگاہ ہو چکا تھا کہ آنے والا لمحہ اپنے وقت پر ہی آتا ہے۔ خوامخواہ کی بے صبری سے ہونے والا وقوعہ وقت سے پہلے ظہور میں نہیں آتا اور نہ ہی کسی کے ڈرنے گھبرانے سے وہ پل بھر کے لئے ٹل سکتا ہے۔
بڑی دیر کے بعد باہر خشک پتوں پر کسی کے قدموں کی چرچراہٹ سنائی دی۔ دوسرے ہی لمحے ایک خونخوار قسم کا نوجوان ہاتھ میں چمکدار خنجر لئے دروازے میں کھڑا دکھائی دیا۔ نوجوان دروازے میں کھڑا اندر مندر کے اندھیرے میں آنکھیں پھار پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔
’’بھرت اندر آ جا۔ میں یہاں اس کو نے میں بیٹھا ہوں۔ مجھے تیرا ہی انتظار تھا۔‘‘ مندر کے سناٹے میں سادھو کی آواز گونجی۔
نوجوان اپنا نام سن کر پہلے تو چکرایا پھر سادھو پر اس کی نظر پڑی اور وہ نپے تلے قدم اٹھاتا سادھو کے سامنے آکھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے پر اب بھی حیرت کے آثار تھے۔
سادھو کو اس کا نام کیوں کر معلوم ہوا؟ آخر اس نے کرخت آواز میں پوچھ ہی لیا۔
’’تو کیسے جانتا ہے کہ میرا نام بھرت ہے؟‘‘
وہ جانتا تھاکہ بھرت اس سے یہ سوال ضرور پوچھےگا وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جواب میں اسے بالکل خاموش رہنا ہے۔ مگر اس سوال نے اس کی یادوں کے پرسکون تالاب میں ایک ہلچل مچا دی۔
جس طرح وہ حال کے بطن میں چھپی مستقبل کی تصویر دیکھ لیتا ہے اسی طرح اب ماضی بھی ساکار ہوکر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
جب گھر میں بچہ ہوا تھا تو اس نے اس کا نا م بھرت رکھا تھا۔ مگر بچے کی پیدائش کے چند روز بعد ہی اس کی بیوی گھر اور خاندان کی پرواہ کئے بغیر بچے کو چھوڑ کر کہیں چلی گئی۔ لڑکا ابھی آٹھویں میں قدم رکھتے نہ رکھتے گھر سے فرار ہو گیا۔ یوں گھر کا پورا شیرازہ بکھر گیا۔ تب سے وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں جنگل جنگل بھٹک رہا ہے۔ اس نے مستقبل کی آنکھ سے بار ہا اپنے بیٹے کی جگہ اسی خونخوار نوجوان کو اسی بوسیدہ مندر میں خنجر بکف دیکھا تھا۔ یہ منظر دیکھتے دیکھتے اس کی رگوں میں برف جم چکی تھی۔
وہ انجانے میں اس گاؤں کے پاس سے کتنی بار گذرا ہوگا مگر کبھی وہ مندر اسے دکھائی نہیں دیا اور نہ کبھی اس گاؤں میں داخل ہونے کی اس خواہش جاگی تھی وہ جانتا تھا کہ واقعات اپنے وقت پر ہی رونما ہوتے ہیں۔ نہ ایک پل ادھر نہ ایک پل ادھر۔ جیسے ہر نقش پتھر پر کندہ کر دیا گیا ہو۔ اس نے تصور میں اس نوجوان کے ہاتھ میں خنجر بھی دیکھا تھا مگر ایک عجیب ناگزیر طاقت اسے وہاں کھینچ لائی تھی۔ وار کرنے والا اور وار سہنے والا دونوں وقت کے اس بیکراں جا ل میں کس قدر بےبس ہیں؟ بےبس ہیں اس لئے دونوں ہی بے قصور ہیں۔
سادھو کو خاموش دیکھ کر بھرت بولا،
’’تو جانتا ہے اس بستی پر میری حکمرانی ہے۔ میرے عتاب سے لوگ کانپتے ہیں اور میرا ذرا سا کرم انہیں نہال کر دیتا ہے تو شاید نہیں جانتا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں؟‘‘
سادھو ایک ایک بات جانتا تھا۔ پچھلے کتنے برسوں سے مستقبل کا ایک ایک راز اس پر افشاں ہو چکا تھا۔ جب وہ اپنے اننت سفر پر گھر سے باہر نکل رہا تھا تبھی یا اس سے پہل ے اس وقت جب وہ اپنے بیٹے بھرت کا نام تجویز کر رہا تھا یا اس سے پہلے جب وہ خود پیدا ہوا تھا۔ یا اس سے بھی پہلے جب پہلا انسان وجود میں آیا تھا وہ ہر منظر کو عجیب بے تعلقی سے دیکھتا آیا تھا۔ جیسے کوئی ناٹک دیکھ رہا ہو اس کے بعد پانی کے بلبلوں کی طرح بےشمار انسانوں کی پیدائش اور ان کی قسمتوں کی ناگزیر یت کے ساتھ کھینچی ہوئی ایک لکیر زندگی کا ہر بھید اس پر کھیل چکا تھا اور جو کچھ ہونے والا تھا اس کی حقیقت صرف اتنی تھی کہ متواتر مستقبل کا تعاقب کرنے والا لمحہ موجود ایک جست میں مستقبل کی حدود پار کر جانے والا تھا۔ وقت کے بہاؤ میں لمحہ بھر کو ایک گرہ پڑ جانے والی تھی اور پھر سب کچھ شانت اور پہلے کی طرح پرسکون ہو جانے ولا تھا۔
’’تجھ جیسے شخص کا زندہ رہنا بےحد خطرناک ہوگا۔‘‘ بھرت نے کہا، ’’میں تجھے قتل کرنے آیا ہوں۔ تیری زبن سے موت بولتی ہے۔ تیرے الفاظ تباہی اور نحوست کا علامیہ ہیں۔‘‘
سادھو نے نہایت اطمینان سے کہا،
’’تو جو کچھ کہہ رہاہے سچ ہے۔ مگر سچ صرف یہی نہیں ہے لفظ کو واقعہ بنا دینے کا اختیار کسی کو نہیں۔ میرے الفاظ کسی وقوعے کا علامیہ بن ہی نہیں سکتے۔ تیرا یہ سوچنا غلط ہے کہ میں بولتا ہوں اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل جو ہونے والا ہوتا ہے وہ مجھے قبل از وقت دکھائی دیتا ہے اور میں اسے لفظوں میں محض بیان کر دیتا ہوں۔‘‘
’’میرا بولنا ناگزیر ہے۔ یہی میرا شراپ ہے۔‘‘
مندر کی شکستہ دیوار سے دھوپ کی ایک کرن اندر رینگ آئی اور فرش پر دھوپ کا بالشت بھر ٹکڑا کندن ہو گیا۔ تاریکی کچھ کم ہوئی۔ سادھو کہہ رہا تھا۔
’اور سن اپنے اس شراپ کے کارن میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بدنصیب ہوں کیونکہ اسی کے سبب میں امید و خواب کی فریب خوردہ مسرتوں سے حظ نہیں اٹھا سکتا مگر میں دوسروں کے مقابلے میں بےحد مطمئن ہوں کیونکہ میں نے خواہشات کی نفی کر دی ہے۔ اس لئے دکھوں کی بھی نفی ہو چکی ہے۔ جب لاگ ہی نہیں تو لگاؤ بھی نہیں اور جب لگاؤ نہیں تو دکھ بھی نہیں۔ میں جانتا ہوں تو مجھے قتل کرنے آیا ہے۔ مگر میں موت سے قطعی خوف زدہ نہیں ہوں۔ حتی کہ میرے دل میں تیرے تعلق سے بھی کوئی میل نہیں۔ اس دھو پ کے ٹکڑے کو غور سے دیکھ کیسا سنہرا رنگ ہے اس کا۔ تھوڑی دیر میں یہ میری زندگی کے آخری لمحے کی طرح لہو رنگ ہو جائےگا۔ اس کے سرخ ہوتے ہی سمجھ لے میرا وقت بھی آن پہنچا۔ البتہ میں تجھ سے یہ کہوں گا کہ تو جلدی سے اپنا کام ختم کر۔ نہ ہی ز,ندگی کے چند لمحے تجھ سے مستعار مانگنے کا میرا کوئی ارادہ ہے۔ نہ تیرے چاہنے سے یہ قتل مقررہ وقت سے پہلے عمل میں آ سکتا ہے نہ میرے چاہنے سے ایک پل کے ٹل سکتا ہے۔
سادھو بولتے بولتے رک گیا۔ اس کی نگاہیں بھرت پر گڑی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بھرت کا چہرہ سیاہ، بے جان اور بے رونق ہوگیا۔ اس کی گردن کے گرد کالے رنگ کی کنڈلی جیسی پھانسی کی رسی کے نیل پڑ گئے۔ سادھو نے بہت پہلے جب بھرت ابھی بچہ تھا اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے میں سیاہ دھاگا باندھا تھا کہ اسے نظر نہ لگے اور اب اسی گردن میں پھانسی کا پھندہ دکھائی دے رہا تھا اور المیہ یہ ہے کہ اس پھانسی کا سبب وہ خود بننے والا تھا۔ وہ لمحہ بھر کو مضطرب ہو گیا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب ناگزیر ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے ہی سے مقدر ہے۔ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے۔ تبھی اس نے کمال ضبط سے آنسوؤں پر قابو پا لیا اور انہیں پلکوں کے اندر ہی قید کر لیا۔
سادھو کی بات بھرت کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اس کا غصہ اب اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ اس کا چہرہ لال ہوگیا۔ آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا۔ دوسرے ہی لمحے اس کا خنجر والا ہاتھ سر سے بلند ہوا۔ بجلی سی کوندی اور پورا خنجر آنکھیں موندے، شانت بیٹھے اس سادھو کے سینے میں دستے تک پیوست ہو گیا۔ سادھو کے سینے سے خون کا چشمہ ابل پڑا اور فرش پر بہتی خون کی لکیر اس سرخ ہوتے دھوپ کے ٹکڑے کو مزید سرخ بنانے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.