Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سانڈ

غضنفر

سانڈ

غضنفر

MORE BYغضنفر

    ’’یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟‘‘

    سورج پور گاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا ایک نوجوان نے رک کر ہانپتے ہوئے جواب دیا۔‘‘

    ’’چاچا! گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔‘‘

    ’’سانڈ پھر گھس آیا ہے!‘‘ بوڑھے کی سفید لمبی داڑھی اوپر سے نیچے تک ہل اٹھی

    ’’ہاں چاچا! پھر گھس آیا ہے اور آج تو اس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پوچھیے مت۔ نتھو کی بچھیا کو خراب کر دیا۔ چھیدی کے بچھڑے کو سینگ مار دیا۔ بھولو کے بیل کو ٹکریں مارمار کر لہولہان کر دیا۔ کالو کی گائے بھینس کے چارہ پانی کے برتن کو توڑ پھوڑ دیا۔ بدھو اور بھولا کی تیار سبزیوں کو نوچ کھسوٹ کر ملیامیٹ کر دیا۔ اب بھی بورایا ہوا اینڈتا پھر رہا ہے۔ نہ جانے اور کیا کیا کرےگا؟ کس کس پر قیامت ڈھائےگا؟‘‘

    ’’تم لوگ دھام پور والوں سے کہتے کیوں نہیں کہ و ہ اپنے سانڈ کو روکیں۔ ادھر نہ آنے دیں۔‘‘

    ’’کہا تھا چاچا! گاؤں کے بہت سے لوگوں نے مل کر کہاتھا۔ ان سے بتایا تھا کہ ان کے گاؤں کا سانڈ ہمارا کتنا نقصان کر رہا ہے۔ مگر جانتے ہیں انھوں نے کیا جواب دیا۔‘‘

    ’’کیا جواب دیا؟‘‘

    ’’انھوں نے یہ جواب دیا کہ بھلاسانڈ کو بھی کہیں روک کر رکھا جا سکتا ہے۔ سانڈ تو دیوی دیوتا کا پرساد ہوتاہے۔ اسے بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے اور بھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیامیں کہیں بھی بنا روک ٹوک جا سکتا ہے۔ بھگوان ہی کی طرح اس کا بھی سب پہ حق ہے۔ سب میں اس کا حصہ ہے۔ وہ جو چاہے کھا سکتا ہے۔ اسے روک کر اپنے کو بھگوان کی نظروں میں دوشی اور نرک کا بھوگی بنانا ہے کیا ——؟ چاچا! میری سمجھ میں نہیں آیا کہ دھام پور کے لوگوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیا سچ مچ سانڈ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں بیٹے! بات تو سچ ہے۔ لوگ اپنی کسی مراد کو پانے کے لیے بھگوان یا دیوی دیوتا سے منت مانتے ہیں کہ اگران کی مراد پوری ہو گئی تو وہ بھگوان یادیوی دیوتا کے نام کا کوئی سانڈ چھوڑ دیں گے اور اپنی گائے کے بچھڑے کو یا کسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خرید کر آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کر نہلاتے ہیں۔ اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔ گاؤں والوں کو ایک جگہ جمع کرکے پوجاپاٹ کرتے ہیں اورسب کے سامنے بچھڑے کے جسم یا ماتھے پر بھگوان یا دیوی، دیوتا کا کوئی پکّا نشان بنا دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کر دیتے ہیں۔

    چونکہ وہ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے کھانے پینے اور گھومنے پھرنے میں کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالتا اور وہ آزادی اور بےفکری سے خوب کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتا ہے۔‘‘

    ’’پھر تو دھام پور والوں نے ٹھیک ہی کہا تھا چاچا؟‘‘

    ’’ٹھیک تو کہا تھا، مگر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اسے بھی تو کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

    ’’تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے چاچا؟‘‘

    ’’تم لوگ کانجی ہاؤس کے افسروں سے ملو۔ گاؤں کا حال بتاؤ اوران سے کہو کہ وہ دھام پور گاؤں کے سانڈ سے ہمارے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ ان سے یہ بھی کہو کہ یہ سانڈ پاگل ہو گیا ہے۔ اس لیے اسے جلد سے جلد کانجی ہاؤس میں بند کر دیا جائے۔ ورنہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے گاؤں کو بھی روند ڈالےگا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے چاچا!میں آج ہی گاؤں والوں کو تیار کرتا ہوں۔‘‘

    سورج پور والے اپنی تباہی کی خبر اور سانڈ کی شکایت لے کر کانجی ہاؤس پہنچے۔

    کانجی ہاؤس کے افسرِ اعلیٰ نے ان کا دکھڑا سن کر کہا۔

    ’’آپ لوگوں کی تکلیف سن کر ہمیں بہت دکھ ہوا۔ مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

    ’’کیوں صاحب؟‘‘ گاؤں والے اس کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’اس لیے کہ اس کانجی ہاؤس میں لاوارث سانڈ کو بند کرنے کا چلن نہیں ہے۔ یہاں تو ایسے جانوروں کو بند کیا جاتا ہے جن کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتا ہے۔ جو کچھ دنوں کے اندر اندر اپنے جانوروں کو جرمانہ بھرکر چھڑا کر لے جاتا ہے۔ اگر ہم ایسے جانوروں کو باندھ کر رکھنے لگے تو کچھ دنوں میں یہ ہاؤس ہی بند ہو جائےگا۔‘‘ اس نے نہایت ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔

    افسر کا جواب سن کر گاؤں والے گڑگڑاکر بولے‘

    ’’صاحب! کچھ کیجیے۔‘‘ورنہ تو ہمارا ستیاناس ہو جائےگا۔ ہم کنگال ہو جائیں گے۔‘‘

    افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھر کہا۔

    ’’ہم مجبور ہیں۔ ہم ایسے جانور کو کانجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے۔ آپ لوگوں کو میری بات پر شاید یقین نہیں آر ہا ہے۔ آئیے میرے ساتھ۔‘‘

    افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کانجی ہاؤس میں داخل ہوا۔

    گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پربندھے ہوئے جانوروں کو گھورنے لگیں۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈ نہیں ملا۔ وہاں تو ایسے جانور بندھے تھے جوبہت ہی کمزور اور دبلے پتلے تھے جن کے پیٹ اندر کو دھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔

    کانجی ہاؤس کے اندر کا حال دیکھ کر گاؤں والے واپس لوٹ آئے اور اپنے کو قسمت کے حوالے کرکے بیٹھ گئے۔

    ایک دن سانڈنے گاؤں میں پھر تباہی مچائی۔ اس کے بعد ایک بار اور گھس آیا۔ پریشان ہوکر گاؤں والے ایک جگہ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے گاؤں والوں کو اس باریہ مشورہ دیاکہ وہ کانجی ہاؤس کے اوپروالے محکمے میں جاکراپنی فریاد سنائیں۔ گاؤں والے وہاں بھی پہنچے۔ وہاں کے افسروں نے گاؤں والوں کی درخواست پر سنجیدگی سے غور کیا اور کانجی ہاؤس کے افسران کو زور دے کر لکھا کہ وہ دھام پور والوں کو سانڈ کی تباہی سے بچائیں اور گاؤں والوں سے کہاکہ وہ کانجی ہاؤس کے افسران سے رجوع کریں۔ وہ ضرور اس سلسلے میں ضروری کارروائی کریں گے۔

    گاؤں والے پھر کانجی ہاؤس پہنچے—افسران نے ان سے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے۔ آپ لوگ سانڈ کو پکڑکر لائیے۔ ہم اسے یہاں بند کر لیں گے۔‘‘

    گاؤں والے کانجی ہاؤس کے افسرکی بات سن کر بہت خوش ہوئے اور گاؤں آکر انہوں نے سانڈ کو پکڑنے کی تیاری شروع کر دی۔

    گاؤں کے مضبوط اور پھرتیلے نوجوان ہر طرح سے تیار ہوکر سانڈ کا انتظار کرنے لگے۔ جلد ہی موقع ہاتھ آ گیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نوجوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسی لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔

    نوجوانوں نے سانڈ کو گھیرنے اور اسے گراکر پکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی۔ اَن تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ سانڈ ان کے نرغے سے نکل بھاگا۔ اس کوشش میں بہت سے نوجوان زخمی بھی ہوگئے۔ مگر نوجوانوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کر اپنے گاؤں یعنی دھام پور کی طرف بھاگا۔ نوجوان بھی اس کے پیچھے دوڑے۔

    دھام پور والوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑارہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور رسیاں بھی ہیں تووہ اپنے سانڈ کو بچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی، بھالے اور بندوقیں لیے باہر نکل آئے اور پیچھا کرنے والوں کو للکارتے ہوئے چلائے۔

    ’’خبردار! وہیں رک جاؤ! آگے مت بڑھو۔ اگر تم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا تو ہم تمہارے ہاتھ توڑ ڈالیں گے۔ تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے۔ یہیں زمین پر ڈھیر کرکے رکھ دیں گے۔جانتے نہیں، یہ سانڈ ہمارے دیوتا پر چڑھایا گیا پرساد ہے۔‘‘

    سانڈ کا پیچھا کرنے والے سورج پور کے نوجوانوں نے جب دھام پوروالوں کی دھمکی سنی اوران کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں، لاٹھیوں اورتنی ہوئی بندوقوں کو دیکھا تو ان کے پاؤں تھراکر تھم گئے اور وہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے۔

    اس حادثے کے بعد دھام پور والے اور شیر ہو گئے اور اب وہ اپنے سانڈ کو آئے دن جان بوجھ کر سورج پورگاؤں کی طرف ہانکنے لگے۔

    سورج پور گاؤں کی تباہیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ایک دن بوڑھے نے گاؤں کے چھوٹے بڑے سبھی کو بلاکر کہا۔

    ’’میرے گاؤں کے پیارے لوگو! ہم نے ہر طرح کی کوشش کرکے دیکھ لی مگر سانڈ سے اپنے گاؤں کو نہ بچاسکے اور یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اگر ہم سانڈ کو پکڑنے کے لیے زیاوہ کچھ کریں گے تو اس کی مدد کے لیے دھام پور والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نتیجے میں بھاری خون خرابہ ہوگا اور تباہی مچےگی۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ہم لوگ بھی اپنے دیوتا کے نام پر ایک بچھڑا چھوڑ دیں اورجلد سے جلد اسے سانڈ بنا دیں۔‘‘

    ’’اس سے کیا ہوگا چاچا؟‘‘——کئی نوجوان ایک ساتھ بول پڑے۔ ان کی حیران آنکھیں بوڑھے کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔

    ’’اس سے یہ ہوگا کہ ہمارا سانڈ بھی دھام پور والوں کا وہی حال کرنے لگےگا جواپنے سانڈ سے وہ ہمارا کرواتے ہیں۔ ادھربھی جب تباہی مچے گی تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے سانڈ کو روکنے پر مجبور ہوں گے۔‘‘

    ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔ یہ راستہ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔‘‘ نوجوانوں کے چہرے انتقام کی آگ سے دہک اٹھے۔ مگر بعض بزرگوں کے چہروں پر سنجیدگی طاری ہو گئی۔

    سور ج پور والوں نے ایک بچھڑا خریدا اسے نہلایا دھلایا۔ گلے میں ہار پہنایا اور سب کے سامنے اس کی پیٹھ پر دیوتا کے نام کا ایک ٹھپّہ لگاکر اسے آزاد چھوڑ دیا۔

    کمزور بچھڑا کھونٹے سے الگ ہوتے ہی آزادی اور بےفکری سی کھانے پینے اور پروان چڑھنے لگا اور سارے گاؤں کا چارہ پانی کھاپی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن گیا۔

    سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنا اور سینگ مارنا شروع کیا تو سورج پور والوں نے اس کا رخ دھام پور والوں کی طرف موڑ دیا۔ دھام پورگاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اور تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ ان کے چارہ، پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ان کے کھیت اور کھلیان بھی تباہ وبرباد ہونے لگے۔

    دونوں طرف سے سانڈ ایک دوسرے کی جانب ہانکے جانے لگے۔ کچھ دنو ں بعد ایک روز ایک عجیب وغریب منظر رونما ہوا۔ دونوں سانڈوں کو لوگوں نے ایک ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا۔ دونوں اینڈتے ہوئے پہلے سورج پور گاؤں میں گھسے اور دونوں نے مل کرگاؤں کوروند روند کر ملیا میٹ کیا۔ پھر وہاں سے ایک ساتھ نکلے اور دھام پور میں گھس کر توڑ پھوڑ مچانے لگے۔

    یہ منظر دیکھ کر دونوں گاؤں والوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوب گئیں۔

    اس دن کے بعد دونوں سانڈوں کاایک ساتھ گھومنا اور مل جل کر گاؤں کو روندنا معمول بن گیا۔ دونوں گاؤوں کے علاوہ آس پاس کے دوسرے گاؤں بھی ان سانڈوں کی چپیٹ میں آنے لگے۔

    اپنی بربادی سے تنگ آکر آس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کر سانڈوں کو مارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگر کسی طرح یہ خبر محکمۂ تحفظ وحشیان تک پہنچ گئی اور اس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپہ لگا دیا جو اس بات کا اعلان تھاکہ یہ جانور محکمۂ تحفظ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مارپیٹ نہیں سکتا۔

    لوگوں نے یہ دیکھ کر سانڈ وں کو مارنے پیٹنے کے بجائے اپنا اپنا سرپیٹ لیا۔

    (مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 209)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے