Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ساتویں سمت

رابعہ الرباء

ساتویں سمت

رابعہ الرباء

MORE BYرابعہ الرباء

    وہ اپنی روح تلاش کرتی پھر رہی تھی، جس کا اس نے سودا کیا تھا، یا جو کہیں کھوئی تھی۔

    گول گپا چہرہ، بھرے بھرے گالوں پہ سیاہ بڑی بڑی اداس آنکھیں جن کی اداسی چھپانے کے لیے وہ کا جل سے اوپر نیچے لکیریں بنایا کرتی تھی۔ سرخ انگاروں جیسے بھرے پرکشش ہونٹ جن پر وہ سوٹ کے ساتھ میچنگ لپ اسٹک لگایا کرتی۔ جو اس کے حسن کو چار چاند لگا دیا کرتے باریک لمبی ناک، جس کے گرد گلابی گال اس کے مسکرانے یا رونے سے خود بھی مسکرانے یا رونے لگتے۔

    لمبی بھری بھری گردن جس میں ایک سنہری چین گلے لگے چمکتی رہتی تھی۔ نسوانی نشیب و فراز سے بھرا جسم انگاروں کی طرح کپڑوں سے بھی چھپائے نہ چھپتا تھا۔

    نسوانی حسن بھرے ہاتھ جن کے ناخنوں پہ جوڑے کے ساتھ میچ نیل پالش اس کے حسن کو قاتل بنا دینے کے لیے کافی تھی۔

    وہ قدرت کا شہکار تھی مگر وہ اپنی روح تلاش کرتی پھر رہی تھی جس کا اس نے سودا کیا تھا یا پھر جو کہیں کھو گئی تھی۔

    وہ اپنی روح تلاش کرتے کرتے پڑھتی چلی گئی، کہ شاید مل جائے!

    ایم اے کیا اور پھر سی ایس ایس کرنے کے بعد افسر شاہی کے مزے لینے لگی اسے انسان کمتر لگنے لگے۔ وہ انسان جس سے وہ اپنے حسن و علم کی داد وصول کر رہی تھی، وہی انسان اسے کمتر لگنے لگے۔

    ’’میرے پی اے سے وقت لے لیجیے۔ اگر مجھ سے بات کرنی ہے۔‘‘

    اس کا یہ جملہ جو کسی درویش صفت نے سر محفل سنا تو اس کی روحانیت و انسانیت تلملائی، اضطرائی۔۔۔! اور اسے چڑھ محفل ہی کہہ دیا۔

    ’’نہیں، نہیں کرو ایسا بیٹا، یہ بھی انسان ہیں، انہی نے تمھیں یہ سب بنایا ہے اور انہی کی وجہ سے ہم سب زندہ ہیں اور مرنے کے بعد زندہ رہیں گے‘‘

    یہ غصہ وہ برداشت نہ کر سکی اور درویش صفت سے معذرت کر لی کہ آئندہ ایسا نہیں کرےگی، مگر نجانے کتنے خدا کے گھر زخمی ہو چکے تھے کہ وہ اپنی ہی روح تلاش کرتی پھر رہی تھی۔

    اسے لگا کہ تنویر میں اس کا دل دھڑکتا ہے۔ اس نے تنویر سے شادی کر لی، اس کے بدن کی پیاس بجھ جانی چاہیے تھی مگر وہ پیاسی رہ گئی ایک بیٹے کی ماں بن کر بھی پیاسی رہ گئی۔

    اس میں نسائیت کی بھر مار تھی کیوں کہ اس کے اندر کا مرد مرvچکا تھا اور اسے کسی ایسے مرد کی تلاش تھی جس کے اندر کی عورت مر چکی ہوتی، تب کہیں وہ شاید مکمل ہوتی۔

    مگر تنویر تو ایک عام سا مرد نکلا، یہ تعلق خشک شجر جیسا تھا اور آخرکار جس تنویر میں اس کا دل دھڑکتا تھا۔ وہ اس کے اندر کسی نئی عورت کو جگاکر چلا گیا۔

    وہ ایک بار پھر تنہا رہ گئی۔ اپنے بیٹے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تنہا۔ اس کی تکمیل مامتا کا رشتہ بھی نہ کر سکا۔ اس کا ادھوراپن اس کی معلومات سے علم میں بدل گیا اور دانش تک رسائی پا گیا۔

    مگر اس کی اپنی ذات کی گرہ کسی دانش سے نہ کھلی۔ اس پر کسی نے کالا جادو کرکے کسی نا معلوم سمندر میں بند تالا پھینک دیا تھا۔

    ’’جن کے تن دھڑکتے ہیں نجانے کیوں ان کے من کے تالے کسی گہرے کالے سمندر میں پھینک دیے جاتے ہیں۔‘‘

    وہ اکثر یہ سوچا کرتی اور یہ سوچ اس کی پہچان بن گئی۔ اس نے اس سوچ کے گرد ایسے ایسے پھول کھلائے کہ خزاؤں میں بھی مہکنے لگے۔

    اس کی شہرت سات سمندر پار کر گئی۔

    مگر!

    وہ اپنی روح تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ جس کا اس نے سودا کیا تھا یا جو کہیں کھو گئی تھی۔

    اس کی روح اور بدن کا تعلق عالم ارواح میں ملی روحوں جیسا تھا، بدن بھی اک روح تھا، روح کا روح سے ملاپ تھا، وہ روح تن کی تنہائی سے بھی تڑپتی تھی کیوں کہ اس میں نسائیت ہی نسائیت تھی اور اسے ایک ایسا مرد سنبھال سکتا تھا جس میں مردانگی ہی مردانگی ہوتی۔

    اندر کا مرد تھا نہیں یا مخنث تھا۔ وہ کیا کرتی؟ اس نے رنگین راتوں کے فرار نہیں تلاشے حسین صبح کی شب بسری نہیں کی، بس ایک بوتل سے رشتہ جوڑ لیا۔

    اسے اپنے آپ کو فراموش تو کرنا ہی تھا، تنویر کو بھولنا ہی تھا، شہرت کے پھن سے چھٹکارا پاناہی تھاجو اسے روز ڈستا تھا، حسد بردران سے پیچھا چھڑانا ہی تھاجو اسے ریت کے ذروں کی طرح کھا رہے تھے، عاشقوں سے جان بچانی ہی تھی، ہوس زدوں سے چھپ جانا ہی تھا۔

    وہ اپنی روح تلاش کرتی پھر رہی تھی جو کہیں کھو گئی تھی۔

    معراج تڑپ کر آج بھی نیند سے اٹھ بیٹھا اور چھت پر چلا گیا۔ رات گہری اور اندھیری چاروں اور چھائی ہوئی تھی، ستارے سردی سے ٹھٹھر رہے تھے، آسمان جاگ رہا تھا اور اپنی زمین کی حفاظت کر رہا تھا۔ یخ بستہ ہوائیں بتا رہی تھیں کہ برف باری تھم چکی ہے۔

    اس کی بیوی کی آنکھ کھلی تو سہم گئی۔

    معراج! معراج کہاں ہیں؟

    وہ تڑپتی دیور کے کمرے میں گئی،

    ’’علی معراج نہیں ہے کمرے میں، دیکھو دروازے کھلے ہیں، سب کمروں کے‘‘

    علی کی نظر چھت کے دروازے پہ پڑی، جہاں سے یخ بستہ ہوائیں نیچے آ رہی تھیں۔ ’’وہ بھاگا چھت پر گیا تو معراج اوپر کھڑا آسمان کو تکے جا رہا تھا۔‘‘ علی کو دیکھا تو بولا!

    ’’دیکھو علی یہ کتنے لوگ ہیں مجھے بلا رہے ہیں آج بھی، یہ سب بلا رہے ہیں مجھے‘‘

    بھائی کوئی نہیں بلا رہا آپ کو، چلیں نیچے چلتے ہیں، اتنی سردی ہے اور آپ بغیر جرسی کے یہاں کھڑے ہیں اور نجانے کب سے کھڑے ہیں۔

    نہیں علی یہ لوگ مجھے بلا رہے تھے۔

    بھائی پلیز نیچے چلیے۔ بھابی پریشان ہو رہی ہیں۔

    وہ دیکھو علی، وہ تہجد کا تارہ نکل آیا ہے۔

    اور کہیں دور سے اذان کی آوازآنے لگی، علی بھائی کو کندھوں سے پکڑ کے نیچے لے گیا اور اس کی بیوی نے اوپر جانے والے دروازے کو تالا لگا دیا۔

    معراج کو اسی کے کمرے میں بٹھایا۔ اب وہ سونا چاہ رہا تھا۔ سو جلد ہی سو گیا۔

    اس کی بیوی اس کو دیکھ کر روتی رہی، مگر وہ بے خبر سو رہا تھا گہری نیند سو گیا تھا۔

    وہ صبح ناشتے کے لیے اٹھا تو میز پہ سب اس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اسے ان سب کی حیرت پہ حیرت ہوئی۔

    ’’بھئی کیا بات ہے؟ میں نے ایسا کیا کر دیا؟‘‘ اس حیرت پہ سب مزید حیران ہو گئے۔

    بھائی وہ رات آپ چھت پہ۔۔۔

    مگر اس کی بیوی نے اسے اشارہ کیا کہ رہنے دو۔۔۔۔ خاموش ہو جاؤ اب!

    اور علی خاموش و بےچین ہو گیا۔ ناشتہ جلدی ختم کیا اور چلا گیا۔ معراج بھی دفتر چلا گیا۔ مگر اس کی بیوی اور بھابی بےچین و بےقرار سے ہو گئے۔

    معراج کو کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔؟ ۔۔۔! کچھ بھی!

    کچھ دن بظاہر سکون سے گزرے، مگر اس کی بیوی کو ساری ساری رات نیند نہیں آتی تھی۔ پل پل معراج کی طرف کروٹ لیتی، اس کو دیکھتی اور کبھی کوئی قطرہ موتی بن کر آنکھوں سے تکیے میں جا کر چھپ جاتا۔

    دھریے دھیرے وقت مرہم بنا اور وہ بھی سونے لگی، نیند تو سولی پہ بھی آ جاتی ہے اور وہ خوف کی سولی پہ سو گئی۔

    ایک رات معراج پھر اٹھا اور گھر کے سارے دروازے کھول دیے اور خود باہر سڑک پہ جا کر لیٹ گیا۔

    سڑک سو رہی تھی اور سڑک کی لائٹس جاگ رہی تھیں۔ فٹ پاتھ تھکے پڑے تھے۔ دن بھر کی تھکن سے نڈھال آسمان روز کی طرح اپنی زمین کی حفاظت کر رہا تھا اور برف کے بعد کی ہوائیں دربدر پھر رہی تھیں۔ چاندنی کی ٹھنڈک انھیں مزید ٹھنڈا کر رہی تھی، پودے، درخت سردی سے اکھٹے ہو رہے تھے، کپکپا رہے تھے۔

    مگر معراج اس سڑک پہ سکون سے لیٹا ہوا تھا۔ جہاں ٹریفک کی بھر مار ہوتی ہے،کسی وقت بھی کوئی گاڑی شراٹے سے آتی اور قصہ تمام ہو جاتا۔

    اس کی بیوی کی آنکھ کھلی اور روتی ہوئی دیور کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔

    علی معراج نہیں ہیں، سب دروازے بھی کھلے ہیں۔

    علی بھی یونہی بھاگا آیا، اوپر کو دیکھا، وہاں توتالا پڑا تھا۔ باہر کو بھاگا تو مین گیٹ کھلا تھا۔ بھاگنے لگا، بےاختیار باہر مین سڑک کی طرف قدم اٹھ گئے۔ دور ایک نعش سڑک کے عین درمیان میں نظر آئی۔ اس کا دل تڑپ اٹھا، تیز تیز دھڑکنے لگا۔ یونہی قدموں کی رفتار تیز ہو گئی۔ مگر آج اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔

    قریب پہنچا تو نعش کو ہلایا۔

    ’’بھائی‘‘ کانپتی آواز بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔

    ’’بھائی‘‘ زور سے جھنجھوڑا تو اس نے آنکھیں کھو لیں۔

    ’’ہاں‘‘ علی کیا ہوا ہے؟

    کچھ نہیں بھائی آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ یہاں کیسے آ گئے۔ اگر کچھ ہو جاتا۔۔۔!

    اس سے آگے اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور آنکھوں کے موتی دل پہ گر گئے۔

    علی کوئی مجھے بلا رہا تھا۔ وہ درد میں تھا، کوئی علی۔۔۔، کوئی مجھے آوازیں دے رہا تھا، میں آ گیا ،میں آ گیا تو سب ٹھیک ہو گیا علی، میں یہاں آ گیا۔۔۔

    ’’علی دل میں رونے لگا، بھائی گھر چلیے‘‘ لرزتی آواز میں کہتے ہوئے، اس کو سہارا دے کر سڑک سے اٹھایا اور گلے لگا لیا اور بےاختیار رونے لگا،

    اس کی آواز اس کے لفظ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔

    معراج بس حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ علی ذرا سنبھلا تو معراج کو لے کر گھر کی اور چلا گیا۔ اس کی بیوی زار و قطار رو رہی تھی اور علی کی بیوی اس کو حوصلہ دینے کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی۔

    خوف کی سولی پہ آنے والی نیند نے پھر سے اسے سولی پہ چڑھا دیا۔ آج تو بے بسی کی ساری حدیں پار ہو چکی تھیں۔ علی نے مین گیٹ بند کر دیا۔ معراج آسمان کی اور دیکھ رہا تھا۔

    وہ دیکھو علی تہجد کا تارہ نظر آ گیا ہے۔ اب سَت تاروں کا جھرمٹ سو جائےگا تین تاروں کی قطار چھپ جائے گی۔ اماوس رات میں بھی آسمان سفید ہو جائےگا۔ دھند چھا جائےگی۔

    دیکھنا علی ابھی سب کچھ بدل جائےگا۔ ہر طرف دھند ہی دھند چھا جائےگی، آسمان سفید ہو جائےگا۔

    علی دل پہ پتھر رکھے معراج کو لے کر اندر داخل ہوا تو اس کی بیوی ہچکیوں سے رونے لگی۔

    عورت پانی سے بنی ہے، خوشی ہو یا غمی تر ہو جاتی ہے، وہ خشک ہو جائے تواپنے اندر ہی مر جاتی ہے

    مگر اس کی بیوی ابھی زندہ تھی، پل پل مر رہی تھی کبھی وہ معراج کو دیکھتی تو کبھی علی کو۔۔۔!

    اس کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے۔ مگر علی کی آنکھیں کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہ رہیں تھیں۔

    آئیے بھائی کمرے میں چلتے ہیں۔

    علی معراج کو کمر سے پکڑ کے اس کے بیڈ روم میں لے گیا۔

    ’’ہاں مجھے بھی نیند آ رہی ہے علی‘‘

    یہ جملہ اس کی بیوی کے دل پہ گرا اور موتیوں کی لڑیاں تیز ہو گئیں، ہچکی بندھ گئی۔ علی اور معراج کمرے میں چلے گئے۔ معراج اپنے بستر پہ لیٹا اور جلد ہی سو گیا۔

    صبح ہونے میں وقت ہی کتنا رہ گیا تھا۔ آسمان رنگ بدل رہا تھا۔ گھر میں سب جاگ رہے تھے۔ معراج اور رات سو گئے۔

    آج معراج اپنے وقت پہ اٹھ کر باہر نہ آیا تو اس کی بیوی کا دِل تیز تیز دھڑکنے لگا۔

    نیم تاریک کمرے میں گئی اور اس کے قریب جاکر دیکھا وہ سو رہا تھا۔ سانس چل رہی تھی، وہ سو رہا تھا۔ وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گئی۔ دل چاہا کہ چوم لے مگر حیا نے روک دیا۔

    وہ چوم لیتی تو شاید وقت بھی رنگ بدل لیتا۔

    بھابی میں بھائی کے دفتر فون کر دوں گا کہ وہ بیمار ہیں۔ اگر آپ کو ضرورت پڑے تو پلیز مجھے فون کر دیجیےگا۔

    یہ کہہ کر علی دفتر چلا گیا اور وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کرسی پہ بیٹھی معراج کو دیکھتی رہی۔۔۔

    منتشر سوچیں نجانے کہاں کہاں کا سفر کرتی رہیں اور یونہی گیارہ بج گئے۔

    معراج کی آنکھ کھلی تو بیوی کو دیکھ کر مسکرایا اور پوچھنے لگا، وقت کیا ہوا ہے؟

    اس نے وقت بتایا تویک دم اٹھ بیٹھا تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں، مجھے دفتر جانا تھا ،میں تیار ہوتا ہوں، پلیز تم ناشتہ بنا دو۔

    ’’معراج لیکن آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘

    اچھا بھلا تو ہوں، بس تم ناشتہ بنا دو۔ آج تو بہت ضروری میٹنگ تھی۔

    لیکن معراج۔۔۔۔

    پلیز جان!

    اور معراج تیار ہو کر دفتر چلا گیا۔

    رات پہلے کی طرح خاموش گزر گئی، معراج کی زندگی سے بھی خامشی سے گزر گئی۔

    مگر اس کے ساتھ ایک دُھند سفر کرنے لگی۔ وہ اشارے پہ گاڑی کھڑی کرتا تو ہر طرف دُھند چھا جاتی کہ پچھلی گاڑی کو ہارن دینا پڑتا۔

    وہ دفتر کے کمرے میں اکیلا ہوتا تو دھند چھا جاتی۔ گھر میں ہر طرف دھند ہی دھند اس کو نظر آنے لگی اور پھر دھند اس کی ہم سفر ہو گئی اور وہ اس کا ہم سفر ہو گیا۔

    ایک بسکٹ رنگ کی شال جس کے پلوؤں پہ سرخ چھوٹے چھوٹے پھول بڑی نفاست سے کاڑھے گئے تھے۔ کسی کے کاندھے پہ ٹکی زمین پہ جھاڑو دیتے سفر کیے چلی جا رہی تھی۔ صرف اس شال۔۔۔!

    وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔

    اف یہ کیا تھا؟

    اس نے سائیڈ ٹیبل سے بوتل اٹھا کر گلاس میں پانی انڈیلا اور ایک گلاس پانی پی کر بیٹھ گیا۔ نظر بیوی پہ پڑی وہ سو رہی تھی۔ اسے غصہ آنے لگا کہ مَیں جاگ رہا ہوں تو یہ کیوں سو رہی ہے؟ آخر کیوں سو رہی ہے؟

    اس کا دل چاہاکہ اٹھے، اس کو اٹھائے اور اسے مارنے لگے۔ مگر ایک باعزت مرد عورت پہ ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ اس ایک خیال نے اسے روک دیا۔

    مرد تو عورت پہ ہاتھ نہیں اٹھاتا، اس دوسرے خیال نے اس کے ہاتھ پیر باندھ دیے۔

    نامرد کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں، اس خیال نے اس کی خواہش کو ہوا دی۔ مگر وہ اپنی بیوی کو نفرت سے دیکھتا اور منہ پھیر لیتا۔ پھر دیکھتا اور منہ موڑ لیتا۔

    اچانک ایک دہلا دینے والی آواز نے اس کے ان خیالات کو منتشر کر دیا۔ اسے چھت پر بہت سے لوگوں کی دھمال کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کوئی نوبت بج رہا تھا اور لوگ دھمال ڈال رہے تھے۔

    اسے مست ہو جانا چاہیے تھا مگر وہ نقاہت محسوس کر رہا تھا۔ نقاہت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ چیخنا چاہتا تھا مگر جیسے کسی نے اس کی آواز پہ بندھ باندھ رکھے تھے۔ اس کا جسم بےحرکت و ساکت کسی کے قابو میں تھا اتنا جاندار اور اتنا بےجان!

    اب اس کا خیال اسی کی اپنی ذات کے گرد گھومنے لگا۔ بےقراری بڑھنے لگی۔ مگر وہ قید تھا۔ وہ رسیاں توڑنا چاہ رہا تھا اور رسیاں بہت طاقتور تھیں۔ مگر نظر بھی نہیں آ رہی تھیں۔

    اچانک رسیاں کھل گئیں، وہ چیختا ہوا باہر لاونج میں آ گیا۔ سب یک دم اس کی چیخ سے اٹھ گئے۔ آج نئی قیامت کا سامناتھا۔

    وہ بےاختیار باورچی خانے میں گیا۔ چھری پکڑی وہ خود کو مار دینا چاہتا تھا۔ علی نے بڑھ کر اسے پکڑا۔

    ’’بھائی کیا کر رہے ہیں ؟‘‘

    وہ علی کی گرفت میں نہیں آ رہا تھا۔ اس میں اتنی طاقت تو نہیں تھی کہ وہ علی کو جھٹک سکے۔

    علی نے پھر سے اسے پکڑنے کی کوشش کی۔

    اس کی بیوی تو بس روئے چلے جا رہی تھی۔ آنسوؤں کی زبان ہی اس کا بیان بن گئی تھی۔

    علی نے چھری اس سے پکڑ لی، مگر وہ پھر علی پہ جھپٹا اور چھری پکڑ کر اپنی ہی بیوی کو مارنے چلا۔

    وہ تو خوف و حالات سے ہی مر چکی تھی اب شوہر کے ہاتھوں مرنے کے معنی بدل چکے تھے۔ اس نے بیوی پہ حملہ کیا مگر علی نے اسے پکڑ لیا۔

    ’’بھائی کیا ہو گیا ہے آپ کو؟‘‘

    کیا ہو جاتا ہے آپ کو بھائی؟

    ’’آپ کو کسی ماہر نفسیات کی ضرورت ہے!‘‘

    یہ کہہ کر وہ معراج کا فون لایا اور اس کے قریبی ماہرِنفسیات دوست کو فون کر دیا۔

    اکمل بھائی، بھائی جان کی طبیعت۔۔۔!‘‘

    مگر معراج نے فون اس کے ہاتھ سے پکڑ کر توڑ دیا اور باہر کی اور بھاگا۔ لان میں تھا تو اس کی نظر آسمان پہ پڑی۔

    وہ دیکھو تہجد کا تارا نظر آ گیا ہے۔

    ’’علی دیکھو ہر طرف دھند چھا رہی ہے‘‘

    اس کا لہجہ یک دم نرم پڑ گیا۔ وہ سکون میں آنے لگا اور دھند کو دیکھتے دیکھتے اس کو نیند آ نے لگی۔

    لان میں یخ بستہ ہواؤں نے راج قائم کر رکھا تھا مگر معراج سردی کے ماورا آسمانوں کی گردشوں میں گم تھا۔ اسی دوران علی نے اسے پکڑا اور کمرے میں لے گیا، معراج اور رات ایک بار پھر سو گئے۔

    اور سارا عالم جاگ گیا۔

    اب دن بدن قیامت کی اور کا سفر شروع ہو رہا تھا۔ بےبسی ولاچاری نے روحانی پیروں کا رخ کرنے پہ مجبور کر دیا۔ نفسیات دانوں سے بات کرنے، ڈاکٹروں سے مشورہ لینے پہ مجبور کر دیا۔

    صبح ہو گئی۔

    معراج وقت پہ اٹھا، شیو کرنے چلا گیا۔ سب باہر ہی بیٹھے خاموشی اور آنسوؤں کی زبان میں باتیں کر رہے تھے، مگر وہ اپنی زندگی سے ہی بےخبر تھا۔

    شیو کر کے باہر آیا تو دیکھاکہ اس کا موبائل فون لاونچ میں ٹوٹا پڑا ہے۔

    یہ کس نے توڑا بھئی؟ رات تو مرے پاس تھا۔

    اس نے حیرت سے پوچھتے ہوئے سب کو دیکھا۔ مگر سب خاموش رہے۔ آخر اس کی بیوی نے ہمت کی۔

    ’’معراج یہ آپ نے خود ہی توڑا ہے، کل رات آپ نے خود کو مارنے کی کوشش کی، پھر مجھے مارنے کی کوشش کی‘‘

    ’’نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    اس نے علی کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا جی بھائی، بھابی ٹھیک کہہ رہی ہیں، کچھ ماہ سے آپ کو رات میں عجیب سے دورے پڑتے ہیں اور کبھی آپ چھت پہ چلے جاتے ہیں، کبھی سڑک پہ جا کر لیٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو کوئی بلا رہا تھا۔

    پھر کوئی تہجد کا تارہ نظر آتا ہے آپ کو اور آپ کو نیند آنے لگتی ہے اور جب آپ جاگتے ہیں تو سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیں۔

    وہ حیرانی سے علی کی بیوی کی طرف دیکھنے لگاکہ یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں ناں؟۔‘‘

    اس نے نفی میں سر ہلایا۔

    ’’جی معراج بھائی، ہم سب بہت پریشان ہیں، آپ کے لیے، آپ کو کسی عالم یا نفسیات دان سے ملنا چاہیے۔‘‘

    معراج نے دھیرے سے کہا ’’تو اکمل سے بات کرتے ہیں‘‘

    جی بھائی رات اکمل بھائی کو ہی فون کر رہا تھاکہ آپ نے موبائل پکڑ کر توڑ دیا۔

    مَیں نے؟

    وہ پھر حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گیا۔

    اچھا میں آج ہی اکمل سے بات کروں گا بلکہ آج اسے گھر پہ بلا لیتے ہیں میں دفتر نہیں جاتا۔

    ٹھیک ہے بھائی مَیں بھی آج کی چھُٹی لے لیتا ہوں۔

    سب کو اطمینان ہواکہ شاید کوئی رستۂ خیر نکلنے کا امکاں ہو جائے۔

    سب نے ناشتہ کیا۔ ہر طرف سکوت چھا گیا۔

    اکمل نے دوپہر کے کھانے پہ آنا تھا مگر نہ آ سکا اور آتے آتے شام ہو گئی۔

    شام میں سب نے لان میں بیٹھ کر چائے پی اور اکمل کو تمام تفصیلات بتائیں۔ اس دوران معراج کو محسوس ہونے لگاکہ اس کے جسم میں آگ سی لگ رہی ہے اور یہ توشناسا سا احساس ہے۔ جس سے وہ گزر رہا ہے۔ مگر آج محسوس ہوا۔

    اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے تھے مگر ان سے آگ نکل رہی تھی، جو بڑھتی جا رہی تھی۔

    اور اس کا من چاہا کہ وہ کسی برف والے پانی میں جاکر چھلانگ لگا دے۔

    اس نے یہ سب اکمل کو بتاتے ہوئے اپنی جرابیں اتار دیں۔

    سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔

    تب علی نے محسوس کیا کہ اسی وجہ سے بھائی کو اتنی سردی میں چھت پر، سڑک پر سردی کا احساس نہیں ہوتا۔

    وہ ایک لمحہ کے لیے سکتے میں آ گیا۔

    یہ معمہ ہے، عقل سے ماورا۔۔۔۔!

    اکمل نے اسے کچھ سوالات اکیلے میں کرنا چاہے اور وہ اسے کمرے میں لے گیا کچھ دیر بعد دونوں واپس آئے تو اکمل الجھا ہوا تھا۔ وہ خاموش رہا۔ سب منتظر رہے کہ وہ ابھی کچھ کہےگا۔ مگر وہ اجازت لے کر چلا گیاکہ پھر آئےگا۔

    شام رات میں ڈھل گئی۔ وہ رات کی گود میں کسی ننھے بچے کی طرح جلد ہی بے فکری سے سو گئی۔

    اور رات چاند ستاروں کی فوج کے ساتھ اپنی زمین کی حفاظت میں مصروف ہو گئی۔

    معراج نے ڈنر کے لیے باہر جانے کا فیصلہ کیاکہ آج وہ سب کو ڈنر کروائے گا تاکہ ذرا چینج ہو جائے۔ سب اس کیفیت سے باہر آ جائیں۔

    سب بجھے دل سے تیار ہو کر ایک اچھے سے کینڈل لائٹ ڈنر کے بعد لوٹے تو کھلے کھلے سے تھے کہ واپس آنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ لانگ ڈرائیوایٹ نائٹ پہ نکل گئے اور نجانے کہاں کہاں پھرتے رہے۔

    معراج کو اپنے دائیں جانب اک گاڑی دوسری طرف جاتے دکھائی دی۔ خاتون ڈرائیو کر رہی تھی۔ اس کی شال کا پلو دروازے سے باہر تھا۔ معراج نے چاہا اسے کہے کہ وہ پلو اندر کر لے۔ مگر گاڑی تیزی سے بہت آگے نکل چکی تھی۔

    رات گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ سب نے واپسی کا ارادہ کیا اور گھر آ گئے۔ تھکن مجبور کر رہی تھی کہ اب سویا جائے تو بہتر ہے لہٰذا سب نے اپنے کمروں کا رخ کیا۔

    معراج نے کپڑے بدلے، منہ ہاتھ دھویا اور اپنی رضائی میں گم ہو گیا۔ اس کی نظر اپنی بیوی پہ پڑی تو پیار آ گیا اور اسی کے بالوں سے کھیلنے لگا۔

    ’’یار مَیں تمھارے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں، بہت کچھ کہ تمھیں بتا بھی نہیں سکتا۔ تمھیں ایک محفوظ اور جاندارو شاندار سایہ دینا چاہتا ہوں کہ تمھیں محسوس ہو کہ تمھارا میرے سوا کوئی بھی نہیں ہے کوئی بھی نہیں۔۔۔‘‘

    مگر معلوم نہیں زندگی ساتھ دیتی ہے یا۔۔۔۔

    پلیز معراج کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ، چھوڑیے کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔

    ’’کچھ اور وہی بل، گروسری، پیٹرول، بچوں کے سکول۔۔۔؟‘‘

    معراج نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    یار مجھے رومانٹک بھی ہو لینے دیاکرو۔۔۔

    وہ شرما گئی!

    اور معراج نے تیزروشنیاں مدہم کر دیں۔

    رات اپنا سفر کر رہی تھی، گہری تاریک اور خاموش ہوتی چلی جا رہی تھی۔ وہ رات تھی اسے اپنی کیفیات کے ساتھ سفر کرناتھا۔

    اچانک معراج کو چھت پر پتھر گرنے کی آوازیں آنے لگیں اور وہ بے قرار ہو کر باہر کی اَور دوڑنے لگا۔

    ’’کوئی بُا رہا ہے مجھے‘‘

    مگر آج یہ آوازیں سب کو سُنائی دے رہی تھیں۔ چھت پر بہت سے لوگ پتھر پھینک رہے تھے۔ وہ سنگ سار کیا جا رہا تھا۔

    خوف کے مارے سب اک دوجے کو تھامے ہوئے تھے۔ مگر معراج میں پچھلی رات والی طاقت جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پھیل رہی تھیں۔ جن میں وحشت سفر کرنے لگی پتھر گرنے میں مزید تیزی آ رہی تھی۔

    معراج ابھی تک اپنے قابو میں تھا۔ علی نے اس کو اپنے حصار کے قریب رکھاکہ کہیں و ہ کل والی کوئی حرکت نہ کر سکے۔

    علی کی بیوی نے باورچی خانہ لاک کر دیا۔

    علی کو کچھ نہ سوجھا تو اس نے اکمل بھائی کو فون کردیا معراج نے فون پکڑ کر اکمل کو وہ وہ گالیاں دیں جو اسے آتی بھی نہیں تھیں۔

    اکمل خاموشی سے سنتا رہا۔ جیسے وہ اس لمحے کا منتظر تھا یا اس کے لیے یہ معمہ تھا ہی نہیں۔

    علی نے فون پکڑ کر بند کر دیا۔

    اس لمحے معراج باہر کو بھاگا تو پتھر گرنے کی آوازیں بھی بند ہو گئیں۔

    اس نے مین گیٹ کھولا مگر علی نے اسے باہر نہ جانے دیا۔ دھند اس کے ہر سو چھا رہی تھی۔ اچانک آسمان پہ تہجد کا تارا نظر آیا تو اسے نیند آنے لگی۔

    علی وہ دیکھو تہجد کا تارا۔۔۔۔!

    علی نے اسے اس کے کمرے تک پہنچایا اور اس کے پاس ہی سو گیا۔

    آج بھی سب کام جامد ہو گئے۔

    معراج صبح اٹھا تو ہمیشہ کی طرح نارمل تھا۔ دفتر جانا چاہا، مگر آج اس کا جسم اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ دکھن بہت زیادہ اور تھکن انگ انگ میں رچی ہوئی تھی۔ جیسے سنگ ساری کے تمام پتھر اس کے بدن پہ گرے تھے۔

    کچھ ایسا ہی حال آج علی کا تھا۔

    ناشتے کے بعد دونوں نے درد کی گولی کھائی اور چائے پیتے ہوئے علی نے معراج کو بتایاکہ رات اس نے اکمل بھائی کے ساتھ کافی بدتمیزی کر دی۔ اس نے سارا واقعہ سنایا تومعراج نے معذرت کے لیے اکمل کو فون کیا۔

    اکمل نے ناراضی کی بجائے لگاؤ کا اظہار کیا اور ایک حیران کن بات بتائی کہ کل رات اس کے گھر کی چھت پہ بھی پتھر گرنے کی آوازیں آتی رہی ہیں۔ وہ کل ساری رات اس وجہ سے سو بھی نہیں سکا اور وہ یہ بات کسی سے کہہ بھی تو نہیں سکتا۔

    معراج نے علی کو یہ سب بتایا تو وہ بھی حیران تھا کہ کل یہی واقعہ یہاں بھی تو ہوا ہے۔ کوئی یہاں بھی سنگ سار ہوا ہے۔ کوئی وہاں بھی سنگ سار کیا گیا ہے۔

    معراج کے ارد گرد دھند چھانے لگی اور وہ اٹھا، جا کر لان میں ٹہلنے لگا۔

    اس کی بیوی کچھ دیر بعد پاس آئی اور فکر مندی سے کہنے لگی۔

    ’’اگر آپ اجازت دیں تو جاوید بھائی کو بلا لوں؟‘ آج شام، شاید وہ کچھ حل بتا سکیں۔ اتنے بڑے بڑے لوگ ان کے پاس اپنے کاموں کے لیے آتے ہیں اور ہو بھی جاتے ہیں، ان کے کام۔‘‘

    معراج کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔

    ’’ہاں دیکھ لو شاید!‘‘

    ہے تو تمھارا کزن مگر یار پلیز میں اسے بھی ابھی تک وہی جعلی پیر ہی تصور کرتا ہوں۔‘‘

    معراج صرف ایک بار۔۔۔۔!

    ٹھیک ہے میری جان جیسے چاہو!

    اور شام کو جاوید گھر آ گیا۔

    معراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا تو معراج میں طاقت آنے لگی۔ وہی وحشت وہی طاقت، اس کوبے جان و جاندار بنا دیتی تھی۔

    جاوید کچھ دیر یہ سب دیکھتا رہا۔ خاموش رہا۔

    اتنے میں معراج اپنی معراج پہ پہنچ چکا تھا۔ اٹھا اور دروازے کھولنے لگا۔ باہر کو بھاگنے لگا۔

    دو وقت آپس میں مل رہے تھے، اک ان کی طاقت تھی اور اک یہ۔۔۔

    علی نے بڑھ کر بھائی کو تھاما۔ مگر وہ سنبھلے نہیں سنبھل رہا تھا۔ جاوید بس خاموشی سے اسے دیکھتا رہا کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ پڑھتا رہا۔ علی بھائی کو سنبھالتا رہا۔ اس کی بیوی روتی رہی اور بھابھی بس باورچی خانے کے دروازے کے پاس کھڑی سب کو تکتی رہی۔

    آدھا گھنٹہ گزرا تو دو وقتوں کا وصل بھی تھک چکا تھا اور معراج بھی پسینے سے بڑھ چکا تھا۔

    اس کو سردی لگنے لگی۔ اس کی نامعلوم طاقت دم توڑ رہی تھی۔ وہ سونا چاہ رہا تھا۔

    علی اس کو اس کے کمرے میں لے گیا اور وہ جلد ہی سو بھی گیا۔

    جاوید سے سب نے پوچھنا چاہا مگر اس نے کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔ بس اتنا کہاکہ سب ٹھیک ہو جائےگا۔ کم از کم آج کے بعد اتنا شدید عمل نہیں ہوگا۔

    جاوید نے پانی پیا اور چلا گیا۔

    جاوید کو گئے پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ معراج پھر سے اس حالت غیر میں سفر کرنے لگا۔

    جاوید ابھی راستے میں ہی تھا کہ اسے معراج کی بیوی نے واپس آنے کے لے فون کر دیا کہ معراج کی حالت پھر سے بگڑ رہی ہے۔

    جاوید نے پھر سے پڑھنا شروع کیا، معراج پھر سے سنبھلنے لگا۔ جاوید نے فیصلہ کیاکہ آج رات وہ یہی رہےگا۔

    سب کو ذرا اطمینان ہوا۔

    ساری رات بہت سکون میں گزری، نہ کوئی سنگ سار ہوا، نہ کسی نے بلایا، نہ کوئی دھند چھائی اور نہ ہی تہجد کا تارہ نکلا۔

    بس رات تھی، رات کی طرح سفر ہو گئی۔

    اور صبح کی طرح صبح ہو گئی۔

    معراج اٹھا تیار ہوا، بالکل نارمل تھا۔ سب نے مل کر ناشتہ کیا اور اپنے اپنے کاموں کی اور نکل گئے۔

    جاوید بھی شام میں آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔

    زندگی بہت عرصے بعد زندگی سی لگی۔

    شام سے قبل ہی معراج گھر واپس آ گیا، علی تو آتا ہی سہ پہر میں تھا۔ معراج نے ٹریک سوٹ پہنا، جوگرز پہنے اور واک کو نکلنے لگا۔ علی نے دیکھا تو وہ بھی ساتھ ہو لیا۔

    معراج کی بیوی کو اس کی پہلی والی زندگی لوٹ آنے کا آج احساس ہوا تو ا س نے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔

    وہ دونوں سڑک کنارے فٹ پاتھ پر درختوں کے سایوں میں تیز تیز واک کرتے چلے جا رہے تھے سڑک بھی ابھی سُست سُست تھی۔ اتنے میں کسی انتظار کی رات کی طرح اک گاڑی پاس سے گزری، جس میں سے سجاد علی کی گائی غزل فضاؤں میں تحلیل ہو رہی تھی۔

    ساحل پہ کھڑے ہو، تمھیں کیا غم، چلے جانا

    میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں

    اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں

    ہر ظلم تیرا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں

    غزل اس کے رَگ رَگ میں سرایت کر گئی، انگ انگ گنگنانے لگا۔ ماضی اس کے گرد سفر کرنے لگا تو جوانی و بچپن کے حسین پل دھندلے نظر آنے لگے۔

    زندگی کتنی آگے کیسے سفر کر گئی علی!؟۔۔۔ سمجھ میں ہی نہیں آیا۔

    اور پھر اس کے گرد دھند چھانے لگی۔

    مگر آج کی دُھند میں اک خاص شفاف پن تھا۔ یہ وہ دھند نہیں تھی جس میں کچھ نظر نہیں آتا بلکہ وہ دھند تھی جس میں آئینہ سی صفائی تھی۔ شبنم سی مٹھاس اور سکون تھا۔

    ’’یار علی مَیں نے آخری ناول Burnt Shadows پڑھا تھا۔ کیا ناول تھا یار اور کیا کمال کی رائٹر ہے کملا شمسی۔۔۔! اور اس کے بعد بس طبیعت اتنی بوجھل ہوئی کہ کوئی ناول۔۔۔ بلکہ کچھ بھی نہیں پڑھاگیا۔

    وہ تیز تیز چلتے کبھی درختوں کے سایوں میں آ جاتے تو کبھی سایوں سے باہر نکل جاتے۔ کبھی درخت انھیں خود میں چھپا لیتے تو کبھی باہر نکال دیتے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے کبھی تیز ہو جاتے تو کبھی ہلکے پھلکے سفر کرنے لگتے۔

    اسلام آباد کی ہواؤ ں کی ٹھنڈی مہک، ان کو مہکا رہی تھی۔ کہ

    علی وہ دیکھو سڑک کے اس پار۔۔۔!

    بھائی کیا؟

    وہ دیکھو وہ تومعروف دانشور اور رائٹر ثمرہ الماس ہیں ناں۔۔۔؟

    ہاں بھائی یہ تو وہی ہیں۔ جن کو اک نظر دیکھنے کے لیے لوگ ترستے ہیں۔ واہ بھائی، کتنی حسین ہیں ناں یہ تو Real میں!

    دونوں وہیں ٹھہر گئے۔ وہ اسے دیکھنے لگے۔ ثمرہ الماس کسی شاپنگ مال کی سیڑھیاں دھیرے دھیرے اتر رہی تھی۔ اس کی گاڑی کی چابی اس کے دائیں ہاتھ میں لٹک رہی تھی۔ اس کی آنکھیں تو اداس تھیں ہی مگر وہ اور زیادہ اداس لگ رہی تھیں۔

    ’’نجانے کیوں علی، ہمارے ہاں دانشوار عورت سے کوئی شادی کیوں نہیں کرنا چاہتا اور جو شادیاں ہوئی بھی ہیں وہ ناکام ہو جاتی ہیں، انھی کو دیکھ لو۔۔۔ نجانے کیوں؟‘‘

    ’’سچ کہا بھائی آپ نے۔۔۔۔ ان کے ساتھ بھی۔۔۔۔ افسوس۔۔۔

    دنیا بھر میں اک دانشور کے حوالے سے جانی پہچانی جاتی ہیں مگر۔۔۔!‘‘

    ’’شاید علی ہم ہی عورت کو دل و دماغ والی تقسیم نہیں دے سکے، ہم مرد خود تو یہ جانتے ہیں کہ ہم کھیتوں میں کام کرنے والے سے دانشور ہونے کی توقع نہیں رکھ سکتے

    مگر عورت سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ کھیتوں سے لے کر دل و ذہن و جسم تک ہل چلائے اور وہ الجھ کر ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘

    شاید بھائی۔۔۔!

    ’’آؤ یار اس پار جاکر ثمرہ الماس کو دیکھتے ہیں۔ ایک عظیم دانشور کو جس کی شہرت آسمان سے باتیں کرتی ہے۔‘‘

    اس وقت یہاں گہما گہمی نہیں ورنہ ابھی تک لوگ آٹوگراف کے لیے ان کے گرد جمع ہوتے اور ہمیں دیکھنے کو جگہ بھی نہ ملتی۔

    وہ دونوں سڑک پار کر کے دوسری جانب پہنچے تو معراج کی دُھند بھی اس کے ہم سفر ہو گئی۔ ثمرہ الماس اک پارکنگ میں آئی، گاڑی تلاش کر رہی تھی۔ تب اسے خیال آیا کہ اس پارکنگ میں اس نے گاڑی پارک نہیں کی بلکہ دوسری پارکنگ میں ہے تو وہ اس طرف کو چل دی۔

    دوسری طرف چلی تو وہ معراج کے اتنے قریب سے گزری کہ معراج اس کی خوشبو کو محسوس کرسکتا تھا اور اس کی اَدھ کھلی آنکھیں تک اسے صاف نظر آ رہی تھیں۔ وہ روئی روئی سی محسوس ہو رہی تھی۔ خمار بھری سی تھیں کہ پوری کھل بھی نہیں رہی تھیں، اس کے قدم بھی ڈگمگا رہے تھے۔

    معراج کے ارد گرد پہلے والی دُھند چھانے لگی، ثمرہ اس کے قریب سے گزر چکی تھی۔ دوسری پارکنگ کی طرف جا رہی تھی۔

    معراج نے مڑ کر دیکھا تو اس کی بسکٹ شال جس پر سرخ رنگ کے پھول نفاست سے کاڑھے گئے تھے اس کے کاندے پر ٹکی، سڑک پر جھاڑو دیتے اس کے پیچھے چلے جا رہی تھی۔

    معراج چھوٹے قدموں اور اداس دل لیے چلنے لگا۔

    ’’بھائی کیا ہوا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں علی، پتا نہیں علی۔۔۔۔!‘‘

    ’’معروف لوگوں کے بارے میں ہم کیا کیا تصورات رکھتے ہیں ناں! اور بعض اوقات یہ کانچ کی چوڑی کی طرح سے ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔‘‘

    معراج کی آواز لرز رہی تھی۔

    پیچھے سے اک گاڑی کے سٹارٹ ہونے اور پھر بیک ہونے کی آواز آئی۔

    چند ہی لمحوں میں، کسی زور دار سڑک حادثے کی آواز بہت سے شیشے ٹوٹنے کی آواز۔۔۔

    دونوں نے مڑ کر دیکھا۔

    یہ تو وہی گاڑی تھی، ثمرہ الماس کی، پوری سڑک پہ گاڑی کے شیشے ٹکڑے ٹکڑے پڑے تھے۔

    کچھ بھی نہیں بچ سکا!

    یک دم معراج کی اداسی و وحشت ختم ہو گئی

    اس کے ارد گرد چھائی دھند چھٹ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے