سہ پہر کی ساعتیں تیزی سے شام کے دھندلکے میں تبدیل ہو رہی تھیں اور فضا میں ایک سوگوار سی اداسی رچی بسی تھی۔ پوسٹ مین ابھی تک نہیں آیا تھا۔ وہ بڑی بے چینی سے برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ گذشتہ ایک ہفتے سے وہ خط کے انتظار میں اپنی سدھ بدھ کھو چکا تھا، آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ اگر خط نہ آئے تو وہ مر جائےگا۔
اس نے جیب سے گولڈ فلیک کی ڈبیہ نکالی اور سگریٹ سلگا کر دھوئیں کے مرغولے بناتا رہا، اس کے چہرے پر کرب و انتشار کی گہری لکیریں یوں نمایاں تھیں جیسے وہ غم و اندوہ کی سلگتی ہوئی بھٹی سے ابھی ابھی باہر نکلا ہو۔
ذرا سی آہٹ پر اسے پوسٹ مین کا گمان ہوتا تھا، کسی نے سائیکل چلاتے ہوئے گھنٹی بجائی اور وہ دوڑتا ہوا دروازے تک آیا لیکن وہاں کوئی ناٹے قد کا آدمی کسی احمد رضا کا پتہ پوچھ رہا تھا۔
اس کے منہ میں ابھی تک سگریٹ جل رہی تھی،سگریٹ کی آخری پور کو منہ میں دبائے وہ ادھر ادھر بے معنی انداز میں ٹہل رہا تھا۔ جب اس کے ہونٹوں سے سگریٹ کا آخری حصہ بےطرح چمٹ گیا تو اسے احساس ہوا کہ اس کے ہونٹ لحظہ بہ لحظہ جل رہے ہیں، اس نے جھلا کر سگریٹ باہر پھینک دی اور ایک تازہ سگریٹ جلا کر اسی طرح ٹہلنے لگا۔
دور سے خاکی وردی پہنے کوئی بوڑھا ایک زنگ آلود سائیکل پر چڑھا اس کی طرف آ رہا تھا، وہ دور سے کسی وظیفہ یاب فوجی کی طرح لگ رہا تھا۔
اس نے سوچا، شاید آج بوڑھے کو شام کی ڈاک تقسیم کرنے میں دیر ہو گئی ہو،جیسے جیسے وہ قریب آ رہا تھا اس کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔
پھر اچانک اسے یوں لگا جیسے خاکی وردی میں ملبوس بوڑھا پوسٹ مین کا روپ دھارے اس کے دروازے پر کھڑا ہے۔
’’پوسٹ مین۔‘‘ کسی نے آواز دی۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا دروازے کے قریب آیا، اس دوران پوسٹ مین خط پھینک کر آگے جا چکا تھا۔
اب اس کے پیروں کے نزدیک ایک پتلا لفافہ پڑا تھا۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے لفافہ چاک کیا۔
’’سالگرہ مبارک ہو‘‘ ’’عرشی‘‘
تو گویا آج اس کا برتھ ڈے ہے؟! وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
اس کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ بکھر گئی، اس کے ذہن کے سارے دریچے ایک ایک کر کے کھلنے لگے۔
کسی وقت وہ اپنا برتھ ڈے بڑے شاندار انداز میں منایا کرتا تھا، اس کے وہ قریبی دوست احباب، وہ لڑکیاں جن کا قرب اسے حاصل تھا ہر سال یکجا ہوتی تھیں۔
لیکن وقت کے ناگ کو ڈستے دیر نہیں لگتی، حالات سے کہیں زیادہ مزاج کی نرگسیت نے اسے بہت جلد اپنے ساتھیوں سے جدا کر دیا اور وہ ریشم کے کیڑے کے مانند اپنے ہی خول میں بند ہو کر رہ گیا۔
وہ لڑکیاں جو رنگ برنگی تتلیوں کی مانند اس کی شخصیت کا طواف کرتی تھیں ایک خاص موڑ پر پہنچ کر اس سے جدا ہو گئیں لیکن وہ شا کرہ کو اپنی زود آشنا طبیعت کے باوجود بھلا نہ سکا، وہ مدت تک اس کے ذہن سے چمٹی رہی، لیکن پھر بھی اسے اپنا نہ سکا۔ پھر شا کرہ نے اپنی توہین کا انتقام اس طرح لیا کہ ایک دن اس نے اپنے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
جب اسے شا کرہ کے مرنے کی خبر ملی تو وہ مہینوں کھویا کھویا سا رہا، پھر رفتہ رفتہ اس نے شا کرہ کو بھی اور لڑکیوں کی طرح اپنے ذہن سے نکال پھینکا۔
آج جب اسے عرشی کا خط ملا تو اسے لگا جیسے وہ عارف نہیں اس کی شخصیت کا کوئی اور روپ ہے، عرشی سے ملنا تو کجا اس نے آج تک اس کی صورت بھی نہ دیکھی تھی،پھر یہ عرشی کون ہے؟ اس نے سالگرہ کی مبارک باد اسے کیوں لکھ بھیجی ہے؟
لیکن وہ آج ان باتوں کی تہہ میں جانا نہیں چاہتا تھا، وہ اب اپنی عمر کے چالیسویں زینے پر قدم رکھ چکا تھا، جب اس نے مڑکر ماضی کے چہرے کو دیکھا تو وہاں سوائے زخمی یادوں کے کچھ نہ تھا۔
عرشی، کتنا خوبصورت نام ہے، کتنی شعریت ہے اس نام میں، اسے اچانک یوں لگا جیسے وہ واقعی کبھی عرشی کا محبوب رہا ہو۔
اس نے اپنے ذہن میں عرشی کا ایک خاکہ کھینچا، کتابی چہرہ، بڑی بڑی خمار آلود آنکھیں، پتلے پتلے عنابی ہونٹ، ستواں سی ناک، گھنی سایہ دار پلکیں۔
وہ اس کے زانو پر سر جھکائے لیٹا ہوا ہے، وہ اپنی لانبی لانبی خوبصورت انگلیوں سے آہستہ آہستہ اس کے بالوں کی گرہیں کھول رہی ہے۔
کبھی کبھی وہ اسے لپٹا کر چوم بھی رہا ہے، وہ شرم کے مارے سرخ ہوئی جا رہی ہے، گو اس کی زندگی میں کئی خوبصورت لڑکیاں آئی تھیں، نزہت، فرزانہ، طیبہ،شا کرہ۔ لیکن عشق کی آگ میں جل مرنے سے پہلے وہ اپنی شخصیت ہی کی آگ میں تپ کر کندن بن چکا تھا۔
آج اسے اپنی زندگی بڑی بکواس لگ رہی تھی۔
چالیس برس یوں ہی گزر گئے اور دس برس یوں ہی گزر جائیں گے۔
پھر ایک دن لوگ اسے اس تنگ و تاریک کمرے میں پھینک آئیں گے جہاں سے آج تک کوئی۔۔۔
’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ اس کے منہ سے ایک درد ناک چیخ نکل گئی۔
اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر لگتا تھا جیسے کوئی طوفان آنے والا ہے جو اس کی شخصیت کے ہر تار و پود کو جڑسے اکھاڑ پھینکےگا۔
چالیس برس۔ چودہ ہزار چار سو دن اور اتنی ہی بدصورت راتیں کیا یہ عذاب جہنم سے کچھ کم نہیں ہے؟ مگر دوسرے ہی لمحے اس نے مندی مندی آنکھوں سے دیکھا۔ عرشی راج ہنس کے پروں پر بیٹھی ہوا میں اڑتی ہوئی اس کی حویلی کے گرد منڈلا رہی ہے، وہ اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے، اس کے دونوں ہاتھ ہوا میں معلق ہیں مگر عرشی اس کی رسائی سے دور ہے۔
پھر اس نے اپنے آپ کو جھنجھوڑا، کہیں یہ خواب تو نہیں ہے۔ نہیں نہیں، خواب نہیں ہے، ابھی تو اس نے نیند کے ماتھے پر سجدہ بھی نہیں کیا ہے۔
پھر دفعتا اًس کے کانوں نے موٹر کی گڑگڑاہٹ کی گنج سنی، جیپ سے ایک نوجوان گرے کلر کے سوٹ میں ملبوس منہ میں پان دبائے، ٹائی کی گرہ ٹھیک کرتا ہوا اس انداز سے گھر میں داخل ہوا کہ وہ بھونچکا سا رہ گیا۔
’’آپ کی تعریف؟‘‘
مدتوں بعد ایک نہایت فرسودہ جملہ سننے کو ملا۔
یہ کہہ کر پھر ایک بار اجنبی نے ٹائی کی گرہ ٹھیک کی اور آرام کرسی پر دراز ہوکر جوتے کے تسمے کھولنے لگا، پھر پاتا بے کھینچتے ہوئے اس نے در و دیوار کا ہولے ہولے جائزہ لیا۔
’’بھئی! اس کمرے سے لگا ہوا ایک اور کمرہ بھی ہوتا تھا، پتہ نہیں کب کس نے اسے ڈھا دیا۔ میں بھی کتنا بیوقوف ہوں، یہ بات مجھے تم سے نہیں پوچھنی چاہیے تھی۔ ارے یہ تو عرشی کا خط ہے۔‘‘ اس نے میز پر رکھے خط کو حیرانی سے اٹھاتے ہوئے کہا ’’یہ خط یہاں کیسے آ گیا۔۔۔ ؟‘‘
’’یہ خط میرے نام آیا ہے، کیا خط کی پیشانی پر میرا نام نہیں دیکھ رہے ہو؟‘‘
وہ جواباً قہقہہ مار کر ہنسا۔ ’’کیا یہ نام میرا نہیں ہو سکتا ؟‘‘، ’’ہرگز نہیں۔‘‘
اس نے اس احتجاج کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی اور اطمینان سے خط کو اپنی جیب میں رکھ کر جیپ کار کی طرف بڑھا۔ اب وہ اجنبی پر حملہ اور ہونے کے بجائے آہستہ آہستہ یوں جا رہا تھا جیسے کسی نے اس پر سحر کر دیا ہو۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.