اس انوکھے اور رنگین شیشوں کے اونچے اونچے دروازوں والے محل کو نیلام کر کے جیسے زلیخا بیگم کی گود خالی ہو گئی اور ایسی ماں بن گئیں جس کا اکلوتا جوان بیٹا مر گیا ہو!
ارمانوں کے پھول مرجھا گئے تھے اور نزدیک کی آوازیں بھی کسی دور جنگل سے آنے والی درختوں کی سائیں سائیں کی طرح کانوں میں آ رہی تھیں اور آج وہ برسوں بعد اپنی بہن سے مل کر اس محل کی کہانی سناتے ہوئے بار بار آنسوؤں کے بیچ اپنی ہچکیاں روک رہی تھیں۔
ہائے آپا بیگم۔ محل تو جیسے میرے خوابوں میں بس گیا ہے اس کی ایک ایک اینٹ یاد آتی ہے۔ اس ساٹھ روپلی والے ذراسے گھر میں تو جیسے زمین تلوؤں سے چپک جاتی ہے۔ محل کی بات ہی نہیں آتی۔ سوتے سوتے اچانک اٹھ بیٹھتی ہوں۔ باغ میں کھلنے والی کھڑکیاں بند کرنے کا خیال آتا ہے۔ ہاتھ اٹھتے ہیں۔ مگر صحرا جیسے صحن میں پھول پھل کہاں؟ میں ویرا نے میں آ گئی۔ میرے خواب اجڑ گئے۔ ہائے بانجھ عورت کی کوکھ بن گئی ہیں تو ’’انھوں نے ناک پر آنچل رکھ کر سسکی لی۔ زلیخا بیگم۔ برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔ یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔ اللہ جانے ایسی کونسی آفت پھٹ پڑی تھی کہ اتنا شاندار محل بیچ دیا۔ میاں کی نشانی سمجھ کر اپنی زندگی تک تو بچا رکھا ہوتا‘‘۔
لالہ بیگم نے آگ پر تیل چھڑکا تو زلیخا بیگم کا دل آبلہ بن گیا۔ ساری دنیا سے بد دل ہو کے انہوں نے آنسو پونچھ لئے اور اٹھ کے کمرے میں چلی گئیں۔
محل کے فروخت ہونے کے بعد جیسے کسی نے ان کی زندگی کی ساری خوشیاں، آرزوئیں و امنگیں بھی فروخت کر ڈالی تھیں اور وہ اپنی آنکھوں میں صرف آنسو ہی بچا سکی تھیں جو بیک وقت مرحوم شوہر اور نیلام شدہ محل کی یاد میں بہائے جاتے تھے۔ اوپر سے زمانہ بھر کی بے مروتی نے ان کی رہی سہی زندگی بھی اداسیوں کے حوالے کر دی تھی ہر وقت دیوار پر نظریں گاڑے وہ حیرت زدہ سی اپنی مسہری پر پڑی رہتیں۔ پچھلی زندگی کی ذرا ذرا سی باتیں اس دور کے اہم واقعات بن گئی تھیں۔ ان سارے واقعات نے ان کے ذہن پر اپنے نوکیلے پنجے گاڑ دیئے تھے۔ سرمہ لگی موٹی موٹی آنکھیں اب بالکل بے رنگ، ویران لگتیں جن کے اطراف باریک جھریاں دیدے کی حرکت سے تھرایا کرتیں، سرخ وسفید چہرے پر جھائیاں پڑ گئیں تھیں اور پان کی سرخی سے رہ وقت تر رہنے والے ہونٹ اب اکثر سوکھے سوکھے رہتے۔
کلائی بھر کے طلائی چوڑیوں کی جگہ اب صرف ایک ایک موٹا بھدا کڑا لٹکی ہوئی جلد کے ساتھ جھولتا رہتا۔ ریشمی کار گے کی پھولدار کرتی کی جگہ سستے ہینڈ لوم کے ڈھیلے ڈھالے کرتے نے لے لی تھی۔ کم خواب دبتی کے اطلس کے تنگ مہری کے پاجامے اب کبھی کبھار شادی بیاہ کے موقع پر ہی دکھائی دیتے ورنہ سفید لٹھے کے چوڑی دار پاجامے ہی پہنے رہتیں اور سفید ململ کے باریک دو پٹے ہی سر پر دیکھے جاتے۔
مجبوری، بےبسی و شدید اضطراب نے ان سے زندہ دلی و خوش مزاجی چھین لی تھی۔ غالب کے کلام کی دیوانی اب اکثر فانی کے دیوان کا مطالعہ کیا کرتیں اور جن لوگوں نے فانی کا دیوان ان سے مانگ کر پڑھا تھا وہ جگہ جگہ پانی میں بھیگ کر خراب ہونے والے اوراق دیکھ کر تعجب کرتے۔ ان کو کہانی والی بے بس شہزادی یاد آ جاتی جس کو شہزادے کے پہلو سے آدم خور اٹھا لئے گئے تھے۔ ان بیتے دنوں کا حسن یاد کر کے روتی تھی۔ کیا یونہی جکڑے جکڑے زندگی گذر جائے گی۔ زلیخا بیگم دل ہی دل میں اپنے آپ سے پوچھتیں اور اس وقت ان پر عجیب و غریب دورے پڑتے۔ ڈاکٹر نیند کی دوا دے دے کے انہیں سلادیا کرتے۔
یہ سوچ سوچ کر ان پر اداسی و قنوطیت طاری ہو جاتی کہ اب وہ کبھی اپنے محل میں قدم نہ رکھ سکیں گی۔ لالہ امر ناتھ کا بنگلہ بن جانے والا ان کا محل پھر زلیخا محل نہ کہلایا جا سکےگا۔ چنبیلی کی نازک سفید کلیاں اب زلیخا بیگم کی خوابگاہ کی بجائے لالہ امر ناتھ کے بیڈروم پر اپنی مہک لٹائیں گی اور باغ کے سامنے منقش ستونوں والے اور انڈے میں جہاں تخت پر مخمل کے غالیچے کا فرش ہوتا اور جس پر بیٹھ زلیخا بیگم اپنے چاندی کے بھاری پاندان سے پان لگا لگا کر نواب صاحب کے خاصدان میں رکھا کرتیں۔ شاید وہاں اب لالہ امر ناتھ کی مسز نے کھانے کی میز لگوا دی ہو۔
حوض سے آگے کی روش جو بڑے برآمدے تک جاتی تھی اور جہاں کار چوبی مسند پر بیٹھ کے نواب شرافت جنگ کھانے کے بعد حقہ پیا کرتے تھے۔ وہ کھلا بر آمدہ نئے ڈیزائن کی جال لگوا کے بند کر دیا گیا ہے اور اب لالہ امر ناتھ اس خوبصورت ڈرائنگ روم میں ملاقاتیوں کے ناموں کے کارڈ الٹ پلٹ کے دیکھتے اور ایک ایک ملاقاتی کو ملنے کا موقع دیتے تھے شاید کچھ ملاقاتی اب بھی ڈرائنگ روم سے باہر پتلے لمبے کوچ پر بیٹھے ہوں۔
اس محل میں ان کی جوانی گذری تھی یہیں ان کے بچوں نے آنکھیں کھول کے اپنے تابناک مستقبل کا اندازہ کیا تھا۔
اناؤں، آیاؤں کے ہاتھوں میں پھول کی طرح اٹھائے جانے والے بچے آج محل نیلام کر کے خوش تھے۔ لڑکے نے لیبیا میں نوکری کر لی تھی اور اب یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس کا ہندوستان سے کیا تعلق ہے۔
انجمن آراء نے اونچی سوسائٹی کے سارے ہتھیار اپنے قبضہ میں کر لئے تھے اور ان ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہ اب ساری دنیا کو جیتنے کے خواب دیکھے جاتیں اونچے سوسائٹی کے سارے اونچے آدمی ان کے اشاروں پر ناچتے تھے اور ان کو اس کا پور احساس تھا کہ ان کی سرخ وسفید رنگ، سنہری گھونگریائی لٹیں اور انار کی کلی جیسے شاداب ہونٹ، پہلی ملاقات ہی میں ملنے والے پر اپنا گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
بیچاری زلیخا بیگم روز کے ڈنر اور پارٹیوں سے عاجز آ گئی تھیں مگر انجمن آراء بہت سوشیل خاتون تھیں اور ان کو میل جول بڑھانے کا خاص سلیقہ تھا۔
سوشیل ورک کے آنریری عہدے سنبھال کے ان کو روحانی مسرت حاصل ہوتی۔ اب یہ دوسری بات تھی کہ ان کے متعلق لوگوں نے کافی داستانیں گھڑ لی تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے سوشیل ورک کے ثبوت میں دودھ کے پاؤڈر کے بیرلس بیچ کے ہزاروں روپیہ کمایا ہے اور صبح سے شام تک نئی نئی کاروں میں گھومنے اور بڑے آدمیوں کو دعوتیں دینے میں اسی پیسے نے مدد کی ہے۔ کئی بار بعض سرپھروں نے گمنام خطوط بھیجے ہیں ملک پاؤڈر کے بیرلس کی تعداد اور ہوٹلوں کے نام تشہیر کر دینے کی دھمکی بھی دی گئی۔
ہر بار انجمن آراء نے مسکرا کر حقارت سے ان الفاظ کی طرف دیکھا اور اک ادا سے آنچل جھٹک دیا۔ گویا انہوں نے ہر الزام کو اپنے آنچل سے نیچے جھٹک دیا ہو اور کار لے کے چل دیں اور جب واپس لوٹیں تو زلیخا بیگم نے ان کے چہرے پر اطمینان کا نور برستا دیکھا مگر ان کو ہر وقت انجمن آراء کا گھر سے باہر رہنا پسند نہ تھا۔
یا تو کوئی کار پھاٹک پر آئی ہے یا جا رہی ہے۔ ایک ایک لمحہ مصرف کبھی زلیخا بیگم نے لب کھولنا چاہے تو انجمن آراء نے رکھائی سے جواب دیا۔
جو باتیں سمجھ میں نہ آتی ہوں، ان کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کیا کیجئے۔
بات بات پر ٹوک کے مجھے بڑے آدمیوں میں ذلیل کرنا چاہتی ہیں۔
سوشیل ورک کے ان بڑے بڑے اونچے ستونوں سے ٹکر ا کے زلیخا بیگم کی ذہنیت مجروح ہو گئی وہ اس طرح خاموش بیٹھی رہتیں جیسے بدھا کا اسٹیجچو ایک ایک جگہ بیٹھے بیٹھے شانتی کا پیام دیتا ہے۔ انسانیت، صاف دلی اور خلوص کا پرچار کیا کرتا ہے مگر دیکھنے والے فن کی تعریف کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس پر چار پر کون دھیان دیتا ہے۔
اور پھر اچانک انجمن آراء کو اس محل سے وحشت ہونے لگی۔ پرانی طرز کا بنا ہوا یہ محل، انجمن آراء کو ہمیشہ سے ناپسند تھا اور اب جب کہ یہ محل، کلب، بھی بن گیا تھا جہاں خوبصورت نئی کاریں قطار میں کھڑی ہوتیں اور اندر قہقہوں کی پھلجھڑیاں چھوٹیں۔
مسٹر رام راؤ اپنی ولایت کی زندگی کے بارے میں حد درجہ مبالغ سے کام لیتے پھر بھی انجمن آراء وہ سب کچھ حقیقت سمجھ کے توجہ سے سنتیں، جرمنی سے نیا نیا آیا ہوا آرکٹیکٹ، جو ہر وقت انجمن آراء کو مکانوں کے تڑپا دینے والے ڈیزائن بنانا کے دکھایا کرتا اور چلتے پھرتے وقت اس پر بھی کسی نئے مکان کے ڈیزائن کا شبہ ہوتا۔
اونچا قد، چوڑا سینہ اور مضبوط جبڑوں و کرخت صورت والا وہ آرکٹیکٹ جس کے ساتھ بیٹھ کے انجمن آراء کو اور بھی شدت سے محل کے در و دیوار سے نفرت محسوس ہونے لگتی۔
بار بار زلیخا بیگم کے سامنے اس پرانی طرز کے محل پر لعنت بھیجی گئی مگر زلیخا بیگم بالکل ہی انجان بنی رہیں تو انجمن آراء نے ہمیشہ کیلئے ہندوستان چھوڑ دینے کی دھمکی دی۔ دکھتی رگ پر ہاتھ پڑتے ہی زلیخا بیگم تڑپ گئیں۔ بیٹے نے پہلے ہی ہندوستان چھوڑ دیا تھا اور اب اللہ نہ کرے انجمن آرائی۔۔۔ انہوں نے آنسووں کو دوپٹہ میں جذب کر لیا اور دیا سلائی دکھائے گئے موم کی طرح پگھل گئیں۔
دھڑکتے دل اور دھندلی آنکھوں کے ساتھ انہوں نے دیکھا کہ لالہ امر ناتھ نے زلیخا محل کے الفاظ والی سنگ مرمر کی تختی بڑی پھاٹک سے نکلوا دی اور امر بھون کے ابھرے ہوئے الفاظ انگارے بن کے زلیخا بیگم کے ذہن سے چمٹ گئے۔
انجمن آراء کا نیا بنگلہ ڈیکوریشن کے ماہرین سجا چکے تو انجمن آراء نے اطمینان کا سانس لیا اور زلیخا بیگم کے لئے الگ مکان کا انتظام ہو گیا۔ زلیخا محل کی مالکہ نے کرایہ دار کی حیثیت سے نئے گھر میں قدم رکھا تو پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اچھا کیا انجمن نے زندگی میں ہی میرا مقبرہ بنوا دیا۔ باغ تو باغ، آنگن میں سبز پتی والی جھاڑی بھی نہ ملی۔
آج زلیخا بیگم کو اپنے محل کی وسعت کا احساس ہوا۔ بڑے بڑے روشن ہال اور لا تعداد کشادہ کمرے، باغ کے تناور درخت جن پر بیٹھی ہوئی مینائیں سویرے ہی پھڑپھڑا کر اڑ جاتیں۔ اونچے اونچے روئی کے درخت جن کے سبز چکنے تنے اوپر ہی اوپر سیدھے چلے گئے تھے جن کی شاخوں میں روئی کے لمبے پھل ہو اسے جھولتے رہتے۔ برآمدے کی سبز جال پر سرخ پھولوں والی بیل ان کے تصور میں جھوم جاتی۔ یوکلپٹس کے سفیدی مائل سبز پیٹر، ناریل کے پیڑ جو باغ کی روش پر دونوں طرف قطاروں کی صورت میں کھڑے رہتے۔ لیموں کے جھنڈ سے گذرتے ہوئے ایک عجیب سی خوشبو آتی۔ جو زلیخا بیگم کو بہت پسند تھی۔ مہندی کی اونچی باڑھ میں سفید پھولوں کے گچھے کھلتے تو حنا کی مہک دور تک جاتی۔
’’بڑے درمیانی ہال کی چھت سے لٹکے ہوئے کنول نواب صاحب کی زندگی میں سر شام ہی روشن کئے جاتے تھے۔ زلیخا بیگم جلدی سے کامدانی کا دوپٹہ سرپرکھینچ لیتیں اور نواب صاحب چراغ جلتے ہی اپنی لاڈلی بیٹی اور چاند سے بیٹے کا منہ دیکھنے آتے۔ یہی تو چراغ ہیں ہمارے گھر کے۔‘‘ وہ پیار سے بچوں کو دیکھ کر کہتے تو زلیخا بیگم سر اونچاکر لیتیں۔
ہائے کیا پتہ تھا کہ یہی چراغ گھر میں آگ لگا دیں گے۔ زلیخا بیگم سوچتے سوچتے اپنی زندگی کے گذرے ہوئے لمحوں میں جا کھڑی ہوتیں۔ اب ان کی واحد دلچسپی ماضی کے اوراق کی تلاوت تھی جو وہ صبح و شام کرتی رہتیں۔
انہوں نے اس محل میں بادشاہت کی تھی اور اب وہ ایک معمولی عورت کی طرح ایک معمولی گھر کی کرایہ دار تھیں۔ نواب صاحب کے بعد جو گزارا نہیں سرکاری خزانہ سے ملتا تھا اب اس کا سہارا بھی ختم ہو رہا تھا۔ اب گزارا گھٹتے گھٹتے آدھا رہ گیا تھا اور جاگیر داروں کا جیتا جاگتا، جگمگاتا دور نزع کے عالم میں تھا۔ اک دور مر رہا تھا سنہرا دور جس میں انسانوں نے اپنے تخیل کی طرح حسین زندگی گذاری تھی اور اب اپنی گذری ہوئی زندگی کی شاندار روایتوں، رسم و رواج، آن بان کے افسانے سنا سنا کے تکلیف کے دن گذار رہے تھے۔ایک طرف اس دور کے عمر رسیدہ لوگ تھے جن کی ذہنی حالت انتہائی خراب ہو گئی تھی۔ ایک طرف نوجوان طبقہ تھا جس میں زمانہ سے لڑنے اور جد و جہد کرنے کا شعور پیدا ہو رہا تھا ایسے بھی تھے جو اس چوٹ کو سہنے کی صلاحیت اپنے میں نہ پاتے تھے۔ زلیخا بیگم ان ہی میں سے تھیں وہ ایسے ڈوبنے والے کی طرح تھیں جس کو تیرنا بھی نہ آتا ہو اور جس نے بےبس ہو کر اپنے آپ کو موجوں کے حوالے کر دیا ہو۔
اگر ہمارے بچے اس طوفان سے بچ کر نکل بھی گئے تو انجمن آراء کی طرح ابھرنے سے کیا فائدہ۔ وہ گھبرا کر سوچتیں۔
تم نے سنا؟ اب کی بار انجمن آراء نے شہر کے اسپتالوں کے پردوں، چادروں، توالوں اور مریضوں کے لباس کے کوٹے سے ہزاروں روپیہ کمایا۔ لالہ بیگم نے ایک دن زلیخا بیگم کو خوشخبری سنائی۔
ہاں آپا! سن لیا میں نے۔ انہوں نے بات ٹالنا چاہی۔
سننے میں آیا ہے انجمن آراء کو باہر کے دیشوں میں بھیجا جائےگا۔ کیا شہرت پائی ہے۔ اس لڑکی نے۔ میں تو کہتی ہوں قابل لڑکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لالہ بیگم جلدی سے پان کلہ میں دبا کر حیرت ومسرت سے چمکتے چہرے کے ساتھ بڑی بڑی حیران آنکھیں پھیلا دیں۔
زلیخا بیگم نے سرجھکا لیا اور دیر تک سوچتی رہیں۔ ایک ہی بات بار بار دماغ میں آتی تھی۔ یہ سچ ہے جاگیرداروں نے تو آج تک حرام میں کھایا پیا اور لٹایا۔ اچھا ہوا کہ جاگیرداری ختم ہو گئی مگر جاگیر داری بڑی سخت جان ہے مرنے والی چیز نہیں۔ شاید ہر دور میں روپ بدل کر زندہ رہتی ہے اور اپنا کام کئے جاتی ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
کیا سوچ رہی ہو کیا تم کو خوش نہیں ہوتی کہ آپا۔۔۔ زلیخا بیگم بات کاٹ کے بولیں۔
وہ روپیہ جو گھر بیٹھے جاگیرداروں کو دیا جاتا تھا وہ روپیہ آج لوگ یوں کھا رہے ہیں عوام کی خدمت کرنے کے بہانے سہی اور پھر ساری دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ آنریری کام کر کے کتنی بڑی قربانی دی گئی ہے۔ ہائے تو بہ اللہ! انہوں نے غصہ میں پان کی پیک زور سے آنگن میں تھوک دی اور لالہ بیگم آنکھیں پھیلائے حیرت سے منہ کھولے رہ گئیں۔
چچ چچ۔ سٹھیا گئیں بیچاری، سہاگ لٹا، محل فروخت ہو گیا۔ بیٹے نے منہ پھیر لیا۔ بیٹی نے الگ کر دیا۔ غموں نے دماغی توازن چھین لیا۔ واہیات بکنے لگی ہیں۔ لالہ بیگم دل ہی دل میں سمجھ بیٹھیں۔
انجمن آراء آج بھی جاگیر دار بن کے زندہ ہے آپا۔ جاگیرداری کبھی نہیں مرتی۔ زلیخا بیگم نے ڈراؤنی آنکھوں سے لالہ بیگم کو دیکھا۔
پھر ان کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی پر بیٹھی ہوں اور کشتی بھنور میں چکرا رہی ہو۔ نگاہوں کے سامنے سے حقیقتیں غائب ہو گئیں اور سائے رہ گئے تھے۔ تھر تھراتے۔ لرزتے سائے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.