Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سازشی

انور سجاد

سازشی

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے، سارا دن مٹی کی ٹوکریاں اٹھا اٹھاکر ٹرکوں میں ڈالتے رہے۔ ہم آزاد تھے، صرف ایک دوسرے کو دیکھ کر یاد آتا تھا کہ ہم قید میں ہیں۔

    ہم چھوٹے سے ٹیلے پر سستانے کے لیے بیٹھے تھے۔ ہوں، ہم نے سوچا، ہم نہر کھود رہے ہیں۔

    ہوں!

    ہم سورج کی آخری کرن تھامے بند لاری میں بیٹھے لوٹ رہے تھے اور اپنے جسم پر بھاگتی ہوئی نیلی پیلی سلاخوں کو دیکھ رہے تھے۔

    روشنیاں۔

    روشنیوں کے سیلاب میں نوجوان لڑکیاں نظر آئیں۔ لاری کی رفتار کم ہو گئی۔ ہم نوجوان مسکرائے بوڑھا سنجیدہ ہو گیا۔ تانگے میں پچھلی گدی پر بیٹھی لڑکیوں نے اپنے سینے پر گرم گرم چادریں سرکا دیں۔ بوڑھا مسکرایا۔

    ہم نے کہا!

    لڑکیاں۔

    ایک نے کہا۔

    آہ۔۔۔ بمبئے۔۔۔ یہ سب سالا ہوچ پوچ ہے۔ وہاں اپنا کھولی یہاں کے شیش محل سے بہت اچھا تھا۔

    ہم نے سوچا یہ نہر مکمل کب ہوگی۔

    قیدی۔

    تانگے کی پچھلی گدی پر ایک لڑکی نے دوسری سے کہا۔ ہم حیران رہ گئے۔ لاری تانگے سے آگے بڑھی۔ تانگہ میلوں پیچھے رہ گیا۔ ہم پھر روشنی کی لکیروں کا پیچھا کرنے لگے۔ ہم سب جانتے تھے کہ یہ لکیریں ہمیں کہاں لے جائیں گی۔ ہم نے سلاخوں سے دیکھا۔ ایک نے کہا۔

    میرا شہر۔

    دوسرے نے آنکھیں بند کر لیں۔

    دلی چاندنی چوک۔

    امبر سر۔۔۔ نان قلچے، باقر خانیاں، ہال بازار، دربار صاحب۔

    سکھ داپتر۔

    تیسرے نے مجھ سے بیڑی مانگ کر سلگائی۔

    لاہور لاہور اے، بھاٹی لوہاری، موچی۔

    بوڑھا مسکرایا۔

    تم کہاں تھے۔

    میں؟

    اس کی مونچھیں نئی نئی پھوٹی تھیں۔

    میں۔۔۔؟ میں کہاں ہوں؟

    ہم سب ہنس پڑے۔ وہ جھینپ گیا اور ہمیں بھی اپنے ساتھ لے ڈوبا۔

    میں موہنجوداڑو میں تھا۔

    بوڑھے نے کہا۔

    ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔

    موہنجوداڑو میں؟

    ہاں۔

    بوڑھے کے چہرے پر جھریاں اور بھی گہری ہو گئیں۔ آنکھوں میں بجھتی چمک بھڑکی۔

    لیکن وہ تو بہت قدیم زمانے کا شہر ہے۔

    کیا میں قدیم نہیں ہوں؟!

    یہ وہی شہر ہے، جہاں سے وہ رقاصہ۔۔۔

    ہاں۔

    لیکن وہ تو معدوم ہو چکا ہے۔ ایک زمانے کی بات ہے۔

    ہر شے معدوم ہو چکی ہے، ایک زمانے کی بات ہے۔ بوڑھے نے آنکھیں جھپکیں۔ ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور ہم نے سلاخیں تھام لیں۔

    بوڑھا ہنسا۔

    وہ مشہور رقاصہ میری بیوی تھی۔

    اس نے آہ بھری۔

    میرا شہر۔

    ہم سب کو سانپ سونگھ گیا۔

    پھر میرے قریب بیٹھا وہ لڑکا جس کی مونچھیں نئی نئی پھوٹیں تھیں یک لخت چیخا۔

    جھوٹے تم سب جھوٹے ہو۔ ہم سب کھوئے ہوئے ہیں۔ ہم سب نہیں ہیں جھوٹے مکار بڈھے۔

    اس نے بوڑھے کو داڑھی سے پکڑ لیا۔ پہرے دار لپکے۔ لڑکے کی آنکھوں میں خون ابلا۔ جھاگ بنا۔ ہم نے ایک دوسرے سے پوچھا۔

    بھلا یہ کیا بچکانہ حرکت تھی۔

    جب پہرے دار لڑکے کو لے گئے تو ہم میں سے ایک نے سرگوشی کی۔

    یہ اسی مشہور رقاصہ کا حرامی بچہ ہے۔

    ہی ہی ہی ہی ہی ی ی ہی ہی ہی ہی ہی۔

    ہم سارا دن مٹی کی ٹوکریاں اٹھا اٹھاکر ٹرکوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔

    چپ چاپ۔

    ہم قیدی نہیں ہیں۔ صرف ایک دوسرے کو دیکھ کر یاد آتا ہے کہ ہم قید میں ہیں۔ ہمارے ہونٹوں پر خاموشی کی مہریں ہیں۔

    ہم چھوٹے سے ٹیلے پر سستانے کے لیے بیٹھے ہیں۔

    اٹھو اٹھو کام کرو۔ بھاگنے کی سوچ رہے ہو؟ سازشی!

    ان میں سے ایک آکے غرایا ہے۔

    ہماری چپ سازش ہے اور ہم سوچتے رہتے ہیں کہ یہ نہر کب مکمل ہوگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے