Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سب سے پرانی کہانی

انور سجاد

سب سے پرانی کہانی

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    تیز ہوا اور بارش، طوفان۔

    رات بہت تاریک تھی۔ زمین اور آسمان میں کوئی فرق نہیں تھا، ایک سیاہ چادر تھی جو آسمان بھی تھا اور زمین بھی۔ کبھی کبھی بجلی چمکتی تو اس سیاہ چادر پر پھڑپھڑاتے ہوئے گیلے سیاہ درخت ذرا واضح ہو جاتے تھے لیکن وہ درختوں کے نیچے تاریک ہی رہتا۔ روشنی پھر چادر میں جذب ہوجاتی اور اوندھی دوات سے ٹپکتی ہوئی سیاہی اور اس کے گرد لپٹا ہوا سیاہ کفن۔

    یہ بھی جیل ہے۔ اس نے ہانپتے ہوئے، درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس تاریک قید خانے کا راستہ ٹٹولنے لگا۔ ابھی تو راستہ میرے سامنے تھا! پھر بجلی چمکی، وہ دو چار قدم قدم اور بھاگا۔ راستہ کدھر ہے؟ وہ پھر رک گیا۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھا، وہاں بھی سامنے کا عکس تھا، دائیں بائیں، آگے پیچھے۔ میں کدھر کو جا رہا تھا؟ یہ بجلی کیوں نہیں چمکتی؟ کہیں میں راستہ تو نہیں بھول گیا؟ میں کس طرف کو جاؤں؟ کہیں پھر سامنے جیل تو نہیں ہوگی؟ وہ کپکپایا نہیں نہیں۔ میں جدھر جارہا تھا ادھر دور دور تک درخت بالکل ساتھ ساتھ تھے اورایک بالکل الگ تھلگ تھا۔ بجلی کیوں نہیں چمکتی۔ اب تک جیل میں حاضری ہو چکی ہوگی اور الارم بج چکا ہوگا۔ لیکن وہ مجھے اس جنگل میں کس طرح ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اس تیز بارش میں وہ میرے پیروں کے نشان کبھی نہیں پاسکیں گے۔ بجلی پھر چمکی۔ وہ اٹھ کر کھڑا بھی نہ ہو سکا۔ اس کی نظریں سامنے درختوں میں بجھ گئیں۔ سلاخیں ہی سلاخیں، میرا رخ غلط ہے، وہ الگ تھلگ درخت کہاں ہے؟

    اس نے اپنا رخ فوراً دوسری طرف کرلیا۔ مجھے کھڑا ہو جانا چاہیے۔ تا کہ اگر بجلی چمکے تو فوراً بھاگ سکوں۔ اٹھتے اٹھتے وہ پھر لڑکھڑاکر بیٹھ گیا۔ میری ٹانگوں میں تو جان ہی نہیں۔ میں بھاگوں گا کس طرح؟ وہ تنے کے ساتھ ٹیک لگاکر ٹانگیں دبانے لگا۔ اگر میں راتوں رات کسی محفوظ مقام پر نہ پہنچ سکا تو یہیں بیٹھے بیٹھے میرے گرد پھر جیل ہوگی۔ پولیس کو اطلاع ہو چکی ہوگی اور وہ جیپوں میں بیٹھے مجھے ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے۔ لیکن انہیں کیا پتا میں کہاں ہوں۔ کوئی چیز بھی تو میں نے ایسی نہیں چھوڑی جس سے۔۔۔ اس کا دل یک دم بیٹھ گیا۔۔۔ میں نے جیل والی قمیض اور پاجامہ کہاں اتار پھینکے تھے؟ اگر راستے میں کہیں وہ چیزیں پولیس کے ہاتھ لگ گئیں تو پھر میں نہیں بچ سکتا۔

    ممکن ہے انہوں نے وہ کپڑے اٹھا لیے ہوں اور سیٹیاں، دور سے موٹروں کی آوازیں اور قریب، بہت قریب، گرڑ گرڑ، آنکھوں سے روشنی چھین لینے والی روشنی۔ میرا کیا قصور ہے؟ میں نے کیا کیا ہے؟ تم نے، ہاہاہاہا، تم نے بھاگنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ قہقہے اور گرجے۔ مجھے چھوڑدو۔ مجھے چھوڑ دو۔ تم مجھے بلاوجہ قید نہیں کر سکتے۔ ہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھے۔ اپنا آپ گرجا۔ میں بھی کتنا بے وقوف ہوں، وہ مسکرایا، اب مجھے یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ وہ درخت کا سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے جسم کو ہاتھوں سے ٹٹولا۔ میں ہوں۔ اسے پہلی بار سردی محسوس ہوئی۔ اس نے کپکپاتے ہوئے ایک ہاتھ سینے پر رکھا اور دوسرا پاجامہ نما نیکر کی جیب پر جس میں جیل کی ٹوپی میں لپٹی بیڑی اور ماچس پڑی تھی، اگر میں نے یہاں کھڑے ہوکر روشنی کا اور انتظار کیا تو وقت بھاگتا ہوا مجھ سے آگے نکل جائےگا اور فاصلہ طے نہیں ہوگا۔ مجھے رکنا نہیں چاہیے۔ میری دوڑ وقت کے ساتھ ہے۔ اگر میں جیت گیا تو زندہ رہوں گا ورنہ وقت میرا یہ حق بھی چھین لےگا۔ بھاگو اور تیز بہت تیز۔

    اس کا ذہن اور ٹانگیں ایک دوسرے سے زیادہ تیز بھاگنے لگے۔ کبھی کبھی بجلی چمک جاتی تھی لیکن اب اسے اپنے راستے کے نشان کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ بھاگا جا رہا تھا، اپنے دماغ سے تیز، دماغ اس سے تیز، تاریکی میں سلاخوں سے ٹکرائے بغیر جیسے وہ عرصے سے اسی جنگل میں رہتا تھا۔ زمین اس کے پیروں تلے سمٹ رہی تھی۔ لیکن جیسے فاصلہ طے نہیں ہو رہا تھا۔ میں کدھر جا رہا ہوں؟ کس طرف نکل آیا ہوں؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ اس نے بھاگتے بھاگتے چاروں طرف دیکھا اتنی بارش کہاں ہوتی ہے؟ پانی وہ بھی کالا! یہ لمبے لمبے درخت، قطار در قطار جو سرو ہیں نہ چیڑ، پیپل بڑ نہ شیشم، لمبی لمبی، موٹی موٹی سلاخیں ہیں! جنگل ایسے ہوتے ہیں؟ کہیں میں پھر تو۔۔۔ نہیں۔ میں تو بھاگ رہا ہوں۔ اس شہر سے اسی شہر میں، اس ملک سے اسی ملک میں، اس زمین سے اسی زمین پر بھاگ رہا ہوں۔ میری یہ دوڑکب ختم ہوگی؟ وقت کب ختم ہوگا؟

    مجھے بھاگتے ہوئے کئی گھنٹے گزر گئے ہیں، تب بھی رات تھی اب بھی رات ہے، تب بھی بارش اتنی ہی شدت سے ہو رہی تھی جتنی کہ اب، بارش کا پانی تب بھی کالا تھا اور اب بھی۔ یہ سب کچھ کیوں ختم نہیں ہوتا؟ کوئی گاؤں نہیں آتا۔ کوئی گھر کوئی جھونپڑی نہیں جہاں میں چولہے کے پاس بیٹھ کر۔۔۔ آگ کا خیال آتے ہی اس کے جسم میں سرد لہر دوبارہ دوڑ گئی اور اس کے جسم پر گیلے بال بھی کڑے ہو گئے۔۔۔ جہاں میں بیٹھ کر گرم گرم چائے پینے کے بعد بیڑی سلگالوں اورمیری ساری تھکاوٹ دھواں بن کر غائب ہو جائے۔

    اس کی گرفت جیب پراور بھی مضبوط ہو گئی۔ گرم گرم چائے کی ایک پیالی! اس نے لرزتے ہاتھوں سے پیالی پکڑلی اور اپنی آنکھوں کا سارا تشکر اس اچھی بڑھیا کی آنکھوں میں انڈیل دیا جس نے ایک آدھ سوال کرنے کے بعد اسے تسلی دی کہ اسے یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ماں جی! آپ فکر نہ کریں تھوڑی سی تھکاوٹ دور ہوتے ہی میں یہاں سے چلا جاؤں گا، اسی بارش میں، صبح تک میں شمالی سرحد پار کر لوں گا، پھر مجھے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ جی بس۔ ایک پیالی اور بیٹی، میرے بوڑھے ہاتھوں میں طاقت نہیں، تو ہی ان کی ٹانگیں دبا دے تاکہ یہ جلدی جا سکیں۔

    وہ بہت شرماتی ہوئی اس کے پاس زمین پر بیٹھ گئی تھی اور اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں لے کر ہولے ہولے اس کے پیر دبانے لگی تھی۔ اس نے اس لڑکی کو اپنی آنکھوں میں سمیٹ کر بیڑی کا کش لگایا اور آنکھیں موند لیں۔ میں نئی دنیا میں آ گیا ہوں ٹھک، ٹھک، ٹھک۔ اس نے لڑکی کے ہاتھوں سے فوراً ٹانگیں چھڑا لیں۔ اچھی بڑھیا گھبرائی ہوئی آئی، بیٹی، انہیں توڑی والے اندر چھپادو۔ ان لوگوں کو خود ہی سنبھال لوں گی۔ اٹھو، جلدی کرو۔ لڑکی نے بڑی اداس آنکھوں سے اسے دیکھا، اگر تم پکڑے گئے تو میں، تو میں۔۔۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا، میں تمہیں کبھی نہ بھول سکوں گا۔ قہقہے۔ دروازہ ٹوٹ گیا۔ میں تمہارے شہر میں نہیں۔ وہ پیچھے ہٹا، مجھے چھوڑ دو۔ میں تو اس زمین پر ہوں جس کا کوئی نام نہیں۔ شمالی سرحد کے پار۔ نہیں میرا یہ نام نہیں۔ یہ بھی نہیں، یہ نام بھی نہیں۔ میرا کوئی نام نہیں۔ تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔ میرا نام کیا ہے؟ وہ تیزی سے پیچھے کو ہٹا۔

    وہ ایک قدم اور پیچھے ہٹا۔ اس کا پیر زمین پر گیلی، بارش میں نہاتی جھاڑیوں میں الجھ گیا اور وہ لڑکھڑا کر پانی کے چھپڑ میں جا پڑا۔ بڑے زور کادھماکہ ہوا۔ ساری دنیا روشن ہو گئی۔ اس نے سر اٹھاکر چندھیائی آنکھوں سے دیکھا، وہ سامنے۔۔۔ وہ سامنے ایک مکان، جھونپڑی؟ اس نے آنکھیں مل کر دیکھا۔ جنگل میں؟ ہاں، اچھی نیک بڑھیا کا گھر۔ اس کی بیٹی، زندگی۔ وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ میں صبح تک شمالی سرحد کے اس جھونپڑی کے سامنے تھا۔ کافی دور ہٹ کر جلتا ہوا درخت بجھ رہا تھا جس پر بجلی گری تھی۔ جھونپڑی میں کوئی روشنی نہیں تھی۔

    ’’کوئی ہے؟‘‘

    بارش کے شور میں خود اسے اپنی آواز سنائی نہ دی۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    کوئی جواب نہیں۔

    ساتھ والی دیوار میں کھڑکی کے پٹ زور سے بجے۔ وہ لپک کر وہاں پہنچا۔ کھڑکی کا ایک پٹ جس کا ایک قبضہ ٹوٹا ہوا تھا، پھٹے ہوئے بادبان کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔

    ’’گھر میں کوئی ہے؟‘‘

    اس نے کھڑکی سے جھانک کر پوچھا۔ دھڑا اڑاڑم۔ جھونپڑی کی شکستہ دیوار نے جواب دیا۔ کوئی چیخ بلند نہ ہوئی۔ وہ کھڑکی کو پھاند کر جھونپڑی میں آ گیا۔ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے نیکر کی جیب سے ٹوپی نکالی۔ ٹوپی زیادہ بھیگی ہوئی نہیں تھی۔ وہ ڈر گیا کہیں ماچس بھی گیلی نہ ہو گئی ہو۔ اس نے جلدی سے ٹوپی سے ماچس اور بیڑی نکال لی اور منہ کی گرم ہوا سے ماچس کی ڈبیا کو خشک کرنے لگا۔ کئی مرتبہ دیا سلائی رگڑنے کے بعد تیلی جل گئی۔ اس نے فوراً کمرے کاجائزہ لینے کے بجائے ا س شعلے سے ماچس کو کچھ اور خشک کیا۔ پھر اس نے کھڑکی بند کرکے آگے اینٹ رکھ دی اور تیلی جلاکر اس کی روشنی میں اس جگہ کا جائزہ لینے لگا۔ پچھلے کمرے کی دیواریں گری ہوئی تھیں اور آدھی چھت بھی فرش پر پڑی تھی۔ باقی دونوں کمروں کی دیواریں سلامت تھی۔ اس نے واپس اسی کمرے میں آکر سوچا، اگر یہ چھت بھی گر گئی تو؟ تو کیا ہوا، واپس جانے سے بہتر ہے کہ یہیں دفن ہو جاؤں، اس شدید طوفان کی نذر نہ ہو جاؤں۔

    اس نے فرش پر بکھرے ہوئے ناریل کے بال اکٹھے کیے جو غالباً پرانے صوفوں سے نکلے ہوئے تھے اس جھونپڑی، اس اچھے خاصے گھر کے اس کمرے میں ایک ٹوٹی ہوئی کرسی بھی تھی۔ ساتھ والے چھوٹے سے کمرے میں جو شاید باورچی خانہ تھا چند ایک لکڑیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس نے یہ سب کچھ اسی کمرے کے ٹوٹے ہوئے آتش دان کے قریب جمع کر لیا اور آتش دان میں آگ جلا لی، دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر اس نے بیڑی سلگائی اور آنکھیں موند لیں۔

    رات، بارش، ہوا اور بجلی ابھی تک ایک دوسرے کے تعاقب میں تھے۔

    اب میں بالکل محفوظ ہوں، وہ مسکرایا، اس طرح زندہ رہا جاتا ہے۔ لیکن شمالی سرحد جانے ابھی کتنی دور ہے اور ابھی مجھے اور کتنا چلنا ہوگا؟ راتوں رات یہ سفر ختم ہو جاتا تو اچھا تھا۔ دن میں سورج سے کیسے چھپ سکوں گا! مجھے چلنا ہی چاہیے۔ اس نے کھڑا ہونے کی کوشش کی، ہاں۔ ورنہ۔۔۔ ڈیوڑھی میں دروازے کے پٹ زور سے بجے۔ اس نے گھبراکر مڑ کے پیچھے دیکھا، ایک سایہ سا لپکا۔ وہ دبے پاؤں ڈیوڑھی کی طرف آیا۔ سایہ دیوار پر چلتا ہوا ڈیوڑھی کی دیوار کی اوٹ میں ہو گیا۔

    ’’کون ہے؟‘‘

    اس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔ چند سیکنڈ جواب کے انتظار میں گزر گئے۔

    کوئی بھی تو نہیں۔ وہ تو آگ کے باعث میرا اپنا ہی سایہ تھا۔ یہ دروازہ کھلا تھا؟ ہوں۔ دوسرا پٹ پہلے سے کھلا ہوگا۔

    اس نے دروازہ بند کرکے کنڈی لگا دی۔ کمرے میں ٹہلتے ہوئے اس کے پیر کمرے کے دروازے کی دہلیز ہی میں جم گئے۔ دبے پاؤں فوراً اوٹ میں ہو گیا۔ آگ کے پاس کوئی بیٹھا تھا۔ سر جھکائے شعلوں کو گھور رہا تھا۔

    یہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ وہ یہاں پہلے سے موجود تھا یا اب ہی آیا ہے۔ کہیں خفیہ کا آدمی تو نہیں؟ مجھے گرفتار۔۔۔ اس کا دل پھر زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس کا لباس اتنا گیلا ہے کہ پانی ہی سے بنا دکھائی دیتا ہے اور شکل۔۔۔ شکل۔۔۔ اس نے آنکھیں جھپک جھپک کر بار بار اس کے چہرے کو دیکھا، چہرہ بالکل واضح نہیں تھا۔ وہ ابھی تک چپ چاپ اسی طرح بے حس سا بیٹھا تھا، میں کب تک یہاں رہتا ہوں، لیکن اس نے میری دستک کا جواب کیوں نہیں دیا تھا۔ شاید یہ بھی میری طرح۔۔۔ جو کوئی بھی ہے، اگر اس نے کوئی ایسی ویسی بات کی تو میں گلا گھونٹ دوں گا۔ میں اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوں۔ وہ چوکنا ہوکر اوٹ سے نکلا اور دبے پاؤں چلتا ہوا بالکل اس کے اوپر ہی جاکے کھڑا ہو گیا۔ دوسرے نے بالکل کوئی توجہ نہ دی۔ اس نے دوسرے سے نظریں بچاکر فرش سے کرسی کا ٹوٹا ہوا بازو اٹھا لیا۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘ اس نے دوسرے کا چہرہ واضح طور پردیکھنے کی کوشش کی۔ ’’جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘

    دوسرے نے جھکا ہوا سر دھیرے دھیرے اٹھایا اور نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔ اس کے جسم میں بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسرے کی آنکھیں، ناک، گال، دہن اور کان ایک دوسرے میں گھلتے ملتے ابھر رہے تھے جیسے بارش میں پڑی آبی رنگوں کی تصویر۔ کرسی کے بازو پر اس کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ دوسرے نے نظریں دوبارہ جھکا لیں۔

    ’’تمہیں سنائی نہیں دیتا؟ کون ہو تم؟‘‘

    ’’تم کون ہو؟‘‘ دوسرے نے جھنجھلاکر جیسے آگ سے کہا۔

    تو یہ ان میں سے نہیں ہے۔ خفیہ پولیس سے بھی نہیں۔ یہ مجھے جانتا ہی نہیں ورنہ اب تک اس نے مجھے اپنے قابو میں کر لیا ہوتا۔ اس نے بے دھڑک ہوکر کہا۔ ’’میں اس جنگل کے رہنے والوں میں سے ایک ہوں اور تم؟‘‘

    دوسرا مسکرا دیا،

    ’’میں کوئی نہیں۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’میں سب کچھ ہوں۔‘‘

    ’’دیوانے ہو۔‘‘ اب یہ مسکرایا، ’’لیکن یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

    دوسرا پھر سوچ میں آگ میں اتر گیا۔

    ’’بولو۔‘‘

    ’’پتا نہیں۔ یہاں کیا کر رہا ہوں۔‘‘ دوسرے نے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہے، جاؤ جاؤ اپنا کام کرو۔

    ’’ٹھیک ٹھیک بتاؤ ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گا۔‘‘

    ’’تو تم قاتل ہو۔‘‘ دوسرے نے نظریں اٹھائے بغیر کہا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا کرسی کا بازو ہوا میں بلند کیا جیسے اس کے سرپر دے مارےگا۔ ’’تو پھر تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’یہ ہاتھ والی لکڑی آگ میں ڈال دو آنچ ہلکی ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’تمہارا چہرہ واضح کیوں نہیں۔‘‘

    ’’تمہاری نظر کمزور ہے۔‘‘

    ’’میں ہر چیز کو صاف دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’یہ بھی نظر کا دھوکہ ہے۔ تم آئینہ دیکھو تو اپنے کو بھی نہ پہچان پاؤ۔‘‘

    ’’میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔‘‘ وہ جھینپ سا گیا۔ ’’تم مجھے صاف دکھائی دے رہے ہو۔‘‘

    دوسرا ہنسا۔

    ’’یہ بھی فریب نظر ہے۔‘‘

    عجیب سی باتیں کر رہا ہے۔ کہیں یہ مجھے اپنی بےمعنی باتوں میں تو نہیں لگائے رکھنا چاہتا تاکہ پولیس کے آنے تک میں یوں مصروف رہوں اور پھر یکایک۔

    ’’تم پولیس سے تو نہیں ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔ مجھ پر تو خود مقدمہ چل رہا ہے۔‘‘

    ’’مجھے دھوکا دینے کی کوشش نہ کرنا۔ ورنہ میں تمہیں جان سے ماردوں گا۔‘‘

    ’’میں تو خود کسی چال کا شکار ہوں۔‘‘

    ’’ثبوت؟‘‘

    ’’تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم مفرور نہیں ہو۔‘‘

    ’’میری نیکر۔‘‘

    ’’اس قسم کا کپڑا اور کہیں نہیں ملتا؟‘‘

    اپنی بودی دلیل پر یہ خود ہی شرمندہ سا ہوگیا۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ یہ اس کے چہرے کے تاثر اور اس کی زبان پر اعتبار کرے۔ پھر اس نے سوچا کہ میں یہاں سے چلا ہی کیوں نہ جاؤں۔ پہلا اٹھ کھڑاہوا۔

    ’’جا رہے ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’بارش اسی طرح ہو رہی ہے اور اب تمہیں اس قسم کی اور کوئی پناہ گاہ نہیں ملےگی۔‘‘

    ’’تمہیں کیسے پتا ہے؟‘‘

    ’’ہوا کہاں نہیں جاتی۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’میں جب سے ہوں تب سے میں نے اپنے آپ کو جنگل ہی میں پایا ہے۔ حیرت ہے تم سے آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘

    ’’شاید اس لیے کہ میں گوشہ نشین بھی ہوں۔‘‘

    ’’صبح ہو جائےگی، میں جاتا ہوں۔‘‘

    ’’لیکن جنگل میں تو اندھیرا ہی رہےگا۔‘‘ دوسرے نے توقف سے کہا۔ ’’اب ہمارا ساتھ شاید کبھی نہ چھوٹے۔ جہاں تم جاؤگے میں بھی وہیں۔۔۔‘‘

    ’’تم پر تو مقدمہ چل رہا ہے۔‘‘

    ’’جانے مقدمہ چل رہا ہے یا سزا بھگت رہاہوں۔‘‘

    ’’تمہارا جرم کیا تھا؟‘‘

    ’’اچھا۔ اب چپ کر کے بیٹھ جاؤ اور مجھے سوچنے دو۔‘‘ دوسرا پھر آگ میں اتر گیا۔ ’’میں نے زندہ رہنے کی کوشش کی تھی۔‘‘

    دوسرے نے آنکھیں موندلیں۔ پہلا اسے دیکھتا ہوا رفتہ رفتہ پھر بیٹھ گیا اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگالی۔

    ’’کون نہیں کرتا، زندہ رہنے کی کوشش۔ جو ایک مرتبہ پیدا ہو جائے، زندگی اس کا حق ہے۔‘‘

    ’’ہم جس لمحے پیدا ہوتے ہیں اسی لمحے سے مرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

    ’’کس نے کہا تھایہ۔۔۔‘‘

    ’’اور انسان اس عمل کو زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ بات بڑی معمولی سی تھی۔ میں زندہ رہنا چاہتا تھا۔ مجھے یہاں سے نفرت ہو گئی تھی اور اب بھی ہے۔ میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن زمین کی دھول میرے پیر نہیں چھوڑتی تھی۔ میرا جی چاہتا تھا میرا اپنا بھی ایک گھر ہو لیکن میں چچا کے گھر میں قید تھا، ایک کابک میں۔ میں۔۔۔ میں، جانے میرا گھر کیسا تھا، کہاں تھا، مجھے کچھ پتا نہیں۔ میرا اپنا گھر! جہاں میں پیدا ہواتھا۔ میرے کانوں میں صرف ایک سریلی دھن کی بس گھلی تھی اور میں وہاں نہیں تھا۔ جانے میں نے کیا کیا تھا کہ مجھے۔۔۔‘‘

    پہلے نے آگ میں ایک اور لکڑی ڈال دی اور شعلے بھڑک اٹھے۔ دوسرے نے بھی ایک لکڑی اٹھالی اور زمین پر ماری۔ زمین پر کوڑے کی طرح کا نشان پڑ گیا۔

    ’’ہرجگہ یہاں سے بہتر ہوگی۔ یہاں میں نے چیخ چیخ کر سب سے کہا کہ دیکھو میں ہوں اور سب نے یہی کہا تھا کہ تم نہیں ہو۔ میں نے یقین دلایا کہ میری ماں نے مجھے جنم دیا ہے اور سب ہنس دیتے تھے، میں نے کہا میرا باپ تھا، سب نے فلک شگاف قہقہے لگائے تھے۔۔۔ اور تم، تم میرے چچا ہو۔ سب سے بلند قہقہہ اس کا تھا۔‘‘

    ہاں اور میں تمہارا ان داتا ہوں۔ تمہاری ماں کا بھی۔ اچکے۔ ماں میری اسی دکھ سے مر گئی۔ اسے شاید مر ہی جانا چاہیے تھا۔ میرا خیال تھاکہ میں اس کے بغیر زندہ نہ رہ سکوں گا۔ مجھے ماں سے بہت محبت تھی۔ کسے نہیں ہوتی؟‘‘

    آگ ہنسی۔۔۔ ماں۔

    ’’جانو، اس اندھیرے کی بھی اپنی ہی دمک تھی اور میں نے کوئی جرم کیا تھا۔ شاید اندھیرے کی دمک کو مٹھی میں لینا چاہا تھا۔ میں نے کیا کیا تھا، کون سی خطا سرزد ہوئی تھی مجھ سے۔۔۔؟ مجھے پیسے چاہئیں چاچا۔ یہاں میں نہیں رہوں گا۔ پیسہ؟ ہاہا۔ پیسہ! کہاں سے لو گے؟ جیب کاٹوگے؟ خیر وہ تو تم کاٹتے ہی ہو۔۔۔ مجھے روٹی کے علاوہ بھی سب کچھ چاہیے جو تمہارے پاس ہے۔ میں بھی تمہاری طرح ہوں چاچا۔ مجھے بھی موقع دو۔۔۔ مجھے بھی زندہ رہنے دو۔ کاروبار کراؤ مجھ سے بھی۔۔۔ پیسے دوگے یا نہیں؟ چچا نے دکان سے لوٹتے ہی مجھے بہت غلیظ گالیاں دیں۔ میں اس سے رقم چھین رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میری گردن پر تھے۔ زندگی میری ہے۔ میں نے چانگر مار کے رقم چھوڑدی اور چاقو نکال کر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا تھا۔ میرے سامنے رقم کے پاس فرش پر چچا تڑپ رہا تھا۔ حیرت سے میرا منہ کھلا تھا اور خون بھری انگلیاں میرے منہ میں تھیں۔ پھر مجھے پتا نہیں کیا ہوا تھا۔ چچی اور اس کے بچے بھاگے آئے تھے۔ میں تو فرش سے رقم سمیٹ کر اپنی ماں کی قبر پہ اسے خدا حافظ کہنے جا رہا تھا۔‘‘

    ماں! مدھم ہوتی آگ پر کسی نے لکڑی رکھ دی۔ یہ کوکھ نہیں ہے۔ قبر ہنسی۔ کوکھ سے پہلے کیا تھا؟ قبر کے بعد کیا ہے؟ دونوں نے بیک وقت سر اٹھاکر ایک دوسرے کو نظروں سے دیکھا۔ ہم یہاں پر کیوں ہیں؟

    ’’مجھے کچھ پتا نہیں۔ کچھ یاد نہیں پھر کیا ہوا تھا۔ میں نے سنا ہے میں کسی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ مجھے دھندلا سا نظر آیا ہے کہ کٹہرا لکڑی کا نہیں تھا۔ میرے ارد گرد ہڈیوں کا جنگلا تھا اورمیرے اردگرد گدھ ہی گدھ تھے، سر جھکائے۔ عجیب سی بات فضا میں گھلی تھی۔ دور کہیں سے، جیسے افق سے آواز آئی تھی کہ میں نے جسے چاقو مارا تھا، چونکہ وہ بچ گیا ہے اس لیے۔۔۔ اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر میں نے کیا کیا تھا۔ میرا قصور؟ یہ زمین مجھے یہاں سے نہیں جانے دےگی۔ میں بے بس سا ہو گیا۔ یہ زمین میری نہیں اور میں دن رات سوچتا رہتا تھا اگر میں بے قصور ہوں تو یہ سزا کس لیے؟ میں نے سب کی طرح زندگی اور اس سے متعلقہ چیزیں مانگی تھیں۔ مجھے انکار کر دیا گیا۔ میں نے اپنا حق لینے کی کوشش کی اور میں جیل میں تھا۔

    دوسرے قیدی بھی شاید اسی طرح سوچتے ہوں گے، دن رات چاردیواری میں بند، سر جھکائے ماریں کھاتے، مشقیں کرتے، پتھر چباتے، کندھوں پر چٹانوں کو اٹھاکر آسمانوں پر لے جاتے پتھر آسمان سے لڑھک کر پھر زمین پر، پھر وہی چٹان وہی کندھے، وہی چڑھائی اور وہی آسمان۔ میں پتھر نہیں چباؤں گا۔ چٹانیں نہیں اٹھاؤں گا۔ ان مشقتیوں کے دماغ ماؤف ہو گئے ہیں۔ میں آزاد پیدا ہوا تھا اور آزاد ہی رہوں گا۔ میں میخوں کے بستر پر نہیں لیٹوں گا یہ جسم میرا ہے، میں اس کی حفاظت کروں گا۔‘‘

    جسم کہاں ہے؟ آگ کی لپٹیں اور بھی اونچی ہوگئیں کہ ان دونوں میں سے ایک نے آتشدان میں ایک لکڑی اور ڈال دی تھی۔

    ’’پھر رات آئی۔ بارش آئی اور طوفان آیا اور میں اب بھی وہیں ہوں۔‘‘

    میں وہاں نہیں ہوں،

    اور مجھے اب بھی پتا نہیں چلا کہ میں نے کیا کیا ہے۔

    وہاں سے نکل کر سب سے پہلے میں ماں کی قبر پر جانا چاہتا تھا۔ لیکن وقت۔۔۔

    ماں سے محبت؟

    کسے نہیں ہوتی۔

    مجھے نفرت ہے اس سے۔ نہ وہ مجھے جنم دیتی اور نہ میں اس طرح سوال بنتا۔ میرا بس چلتا تو میں کوکھ ہی میں اسے مار دیتا۔ ماں آآآں۔

    ’’کیا کہا۔۔۔؟ تم نے کیا کہا تھا؟‘‘

    اس نے دیوار سے آگے کو جھک کر کہا۔ دوسرا اسی طرح آگ پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

    ’’ہوں؟‘‘

    ’تم نے کچھ کہا تھا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا۔‘‘

    ’’ابھی۔ ابھی۔‘‘

    ’’یہ کس نے کہا تھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’کہ۔۔۔‘‘

    ’’خیر چھوڑو اسے۔‘‘

    ’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ یہ کس قسم کا مقدمہ ہے۔ اگر سزا ہے تو کیسی ہے۔ اگرمیں مجرم ہوں تو الزام کیا ہے۔ میں جہاں بھی ہوں کیوں ہوں۔ میں واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’جہاں سے آیا ہوں۔‘‘

    ’’شمالی سرحد کے پار نہیں جاؤگے؟‘‘

    ’’تم بھی چلو میرے ساتھ۔‘‘

    ’’جب میں نے تمہارے ساتھ چلنے کو کہا تھا تو تم گھبرا گئے تھے۔‘‘

    ’’لیکن نہیں۔ میں یہاں سے نہیں ہوں۔‘‘

    ’’میں بھی یہاں سے نہیں ہوں۔ یہاں سے کوئی راستہ نہیں جاتا اور میں واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’تاکہ جاکر پتا کروں کہ جہاں میں تھا، کیوں تھا اور اب یہاں کیو ں ہوں۔‘‘

    ’’کس سے پوچھوگے؟‘‘

    ’’اپنے آپ سے۔‘‘

    پہلے نے سوچا۔ کوئی مقدمہ وغیرہ نہیں۔ پاگل ہے اور پاگل خانے سے بھاگا ہے۔ ’’پر تم وہاں جاؤگے کیسے؟‘‘

    ’’دیکھو بارش ختم ہو گئی ہے؟‘‘

    اس نے اٹھ کر کھڑکی کھولی۔ دور افق پرصبح کی روشنی تھی۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ اس نے لمبا سانس لیا۔

    ’’تم تو کہتے تھے یہ جگہ تاریک ہی رہےگی۔‘‘

    ’’ہے تو۔۔۔ یہ روشنی جنگل سے دور ہی رہےگی۔‘‘

    ’’تو چلو چلیں۔‘‘ پہلے نے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’سامنے پہاڑی ہے۔ یہاں سے شمالی سرحد شروع ہوتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا! پھر تو ہم بہت نزدیک ہیں۔‘‘

    ’’لیکن چٹان بالکل سیدھی ہے۔ پیر جم نہیں سکتا۔‘‘

    ’’میں جمالوں گا۔‘‘

    ’’اس پر کوئی جھاڑی یا درخت نہیں۔‘‘

    ’’میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا۔‘‘

    ’’اور مجھے تنہا چھوڑ کر چلے جاؤگے۔ میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔‘‘ دوسرا گرجا۔

    ’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ پہلا کھڑکی سے گھوما۔ ’’تم نے خود ہی کہا تھا، تم اپنے راستے جاؤ۔‘‘

    دوسرا اتنی زور سے ہنسا کہ اس کی گھر کی باقی چھتیں بھی گرتی گرتی رہ گئیں۔

    ’’میرا راستہ کاٹھ کے دروازے سے ہوکر جاتا ہے۔‘‘

    دوسرا اٹھ کھڑا ہو گیا اور پہلے کی طرف یوں بڑھا جیسے وہ کاٹھ کا دروازہ ہے اور وہ اس کے اندر سے گزر جائےگا۔

    ’’میں، میں تم قتل۔۔۔‘‘

    ’’میں نہیں کر سکتا۔‘‘ دوسرا پھر ہنسا، ’’تم نے میرے چہرے پر غور کیا ہے، تمہیں کچھ نظر آتا ہے۔ آنکھیں، ناک، کان اور ہونٹ؟‘‘

    پہلے نے کچھ کہنا چاہا لیکن دوسرے نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔

    ’’میرے راستے میں کاٹھ کا ایک دروازہ ہے۔‘‘ اس نے پہلے کی طرف انگلی کا اشارہ کیا۔ جب تک یہ پرچھائیں نہیں بن جاتا، مجھے اپنے سوال کا جواب نہیں ملےگا۔ مجھے جواب چاہیے۔ جلد۔ بہت جلد۔

    دوسرا اسی طرح گرجتا ہوا آگ میں جا کھڑا ہوا اور آگ اور بھی بھڑک اٹھی،

    ’’دیکھو۔ آگ مجھے نہیں پکڑ سکتی جب تک ہر شے پر چھائیں نہیں بن جاتی۔ میرے کپڑے بھی تب تک گیلے ہی رہیں گے۔‘‘

    ’’کون۔۔۔ کون ہو تم؟‘‘

    ’’ایک، جو اپنا جرم جاننا چاہتا ہے۔‘‘

    وہ آگ سے نکل کر پہلے کی طرف بڑھا۔

    پہلا، الٹے پاؤں چلتا ہوا گھبراکر تیزی میں کھڑکی کو پھلانگ کر باہر آ گیا اور دیوار کے ساتھ پڑی اینٹ اٹھا لی۔ اس نے کھڑکی سے اندر جھانکا دوسرا شاید اوٹ میں ہو گیا تھا۔

    وہ اینٹ ہاتھ میں تھامے بےطرح بھاگنے لگا، میں نہیں مروں گا۔ میں اتنی مشکل سے، اتنی مشکل سے۔۔۔ آزاد ہوا ہوں؟

    ’’تم اب بھی قید ہو۔‘‘ قریب ہی سے جیسے دوسرے کی آواز آئی۔

    اینٹ پر اس کے ہاتھ کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی، پھر یہ سوچ کر کہ پہلے اس سے نپٹ ہی لیا جائے، پھر اطمینان سے پہاڑی پر چڑھےگا، وہ رک گیا، اس نے اپنے گردوپیش دیکھا، کوئی نہیں تھا۔ ابھی ابھی تو اس کی آواز آئی۔۔۔ وہ پریشان ہو گیا۔

    ’’کہاں ہو تم؟‘‘

    ’’تم کہاں ہو؟‘‘ دوسرے کی آواز بالکل اس کے لباس کی طرح بھیگی ہوئی، دوسرے نے چاروں اور دیکھتے ہوئے سوچا، کمال ہے۔ ابھی تو اس نے میرے سامنے کھڑکی پھاندی تھی۔ کہاں گیا؟ اگر مجھے وہ کاٹھ کا دروازہ نہ ملاتو۔۔۔ تو، مجھے جلد از جلد اسے ڈھونڈ لینا چاہیے۔

    پہلے نے خود کو تنہا پاکر اینٹ پھینک دی اور چٹان پر چڑھنے لگا، آہ۔ شمالی سرحد۔۔۔ اب وہ کم بخت بھی مجھے کبھی نہیں پکڑ سکےگا۔

    وہ چٹان پر ایک دو قدم چڑھنے کے بعد پھر پھسل کر چٹان کے قدموں میں آ گرا۔

    پھر چڑھنے لگا، پھر پھسلا، اس نے احتیاطاً اینٹ پھر اٹھا لی۔ کہیں وہ چپکے سے اسے آنہ لے، مگر وہ ہے کہاں؟

    ’’کہاں چلے گئے ہو؟ آؤ میں دروازہ پار کرنا چاہتا ہوں۔ تمہاری مشکل بھی آسان ہو جائےگی۔‘‘

    دوسرے نے دیوانوں کی طرح بھاگتے ہوئے کہا۔

    پہلا، بالکل اس کے آگے تھا۔

    کوئی نہ کوئی تو ایسی جگہ ہوگی جہاں سے اس پہاڑی پر چڑھا جا سکے۔ اس نے پاگلوں کی طرح وادی میں چکر لگاتے ہوئے سوچا۔ یوں کبھی دوسرا اس کے آگے ہو جاتا اور کبھی وہ دوسرے کے آگے۔

    ’’مجھے راستہ دو، کہاں ہو؟‘‘

    ’’جانے کم بخت کہاں چلا گیا؟‘‘

    دونوں وادی میں ایک چٹان کے گرد گھومتے ایک دوسرے کو تلاش کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کے آگے پیچھے، پیچھے آگے۔

    دور نیچے چٹان کے گرد، دائرے میں بھاگتی دور پرچھائیاں یادو وجود یا ایک پرچھائیں اور ایک وجود یا دونوں کچھ بھی نہیں۔ صرف ہوا، صرف بادل کے دو ایک ٹکڑے، چھوٹے چھوٹے نیچے وادی پر متعلق یا صرف بو، ان پر منڈلاتی گدھوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ جھپٹیں تو کس پر۔

    وادی کے عین اوپر، اپنی آنکھوں کے بالکل سامنے گدھوں کو منڈلاتے دیکھ کر وہ لرز گیا اور یک دم پتھر سے اٹھاکر کھڑا ہو گیا۔۔۔ گدھ۔ لاش؟

    اس نے سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر نیچے وادی میں نظر دوڑائی اور زمین پر پڑے کنکر کو وادی کے رخ ٹھوکر مار کے سوچا، یہ جگہ کچھ عجیب سی ہے، یہاں سیر کے لیے قطعی نہیں آنا چاہیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے