Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سچا

ہما فلک

سچا

ہما فلک

MORE BYہما فلک

    بظاہر ارحم کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ ہر لحاظ سے تندرست تھا۔ بچپن میں اپنا شک دور کرنے کے لئے اس کے والدین نے اس کے جو بھی ٹیسٹ کروائے تھے ان کے مطابق اس کے سننے کی قوت میں کوئی کمی نہ تھی۔ لیکن پھر بھی اس نے بہت دیر سے بولنا شروع کیا۔

    جب اسے ا سکول بھیجاگیا تو اصل مسئلہ اس وقت درپیش ہوا۔ کیونکہ وہ ا سکول میں کبھی ایک لفظ بھی نہ بولتا تھا۔ کوئی ایساا سکول بھی نزدیک نہیں تھا جو کہ خاص ایسے بچوں کے لئے ہوتا۔ بہت مشکل سے ایک پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل کچھ زیادہ فیس لے کر اس بات پر رضا مند ہوئی تھی کہ وہ کلاس میں بیٹھا رہے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اس نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے کہ اس طرح دوسرے بچوں کی توجہ بٹتی ہے۔ اب ارحم مستقل گھر رہنے لگا۔

    اسے گھر میں کچھ سکھانے کی کوشش کی جاتی لیکن بعض دفعہ گھنٹے بھر کی مغز ماری کے بعد بھی وہ ایک لفظ نہ بولتا اور کبھی ایک دم کچھ ایسا بول دیتا جس پر وہ لوگ حیران رہ جاتے۔

    *

    اس سے دس برس بڑے بھائی اکرم نے ایک طوطا پالا ہوا تھا۔ جسے ایک بار ارحم نے طوطو کہا تھا۔ تب سے سب اسے طوطو کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ گھر کے صحن میں امرود کے پیڑ کے ساتھ طوطو کا پنجرہ لٹکا رہتا تھا۔ اکرم اسے بڑے پیار سے چوری کھلاتا اور اسے بولنا سکھاتا تھا۔ وہ جب بھی باہرسے آتا طوطا شور مچانے لگ جاتا۔۔۔ ’’طوطو چور ی کھائے گا۔۔۔ طوطو چوری کھائےگا۔‘‘ کسی اور کے سامنے بالکل نہیں بولتا تھا اور اکرم کے سامنے خوب بولتا۔ کوئی اسے بلوانے کی لاکھ کوشش کرتا وہ نخوت سے منہ پھیرے رکھتا تھا۔ ارحم کا دل بھی اس کے ساتھ بہت لگتا تھا۔ جب طوطا بولتا تو وہ اسے بڑے شوق سے دیکھتا رہتا۔

    اکرم جب فارغ ہوتا تو اس کا ایک اور مشغلہ تھا۔۔۔ ارحم کو پڑھانا۔ وہ اسے لے کر صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ جاتا اور اسے ’’الف، بے، پے، یا ایک، دو تین سکھانے لگ جاتا۔ مگر بعض دفعہ گھنٹہ سر کھپانے کے بعد بھی وہ ایک لفظ نہ بولتا اور کبھی اگر کچھ بول دیتا تو اگلی بار بھولا ہوا ہوتا۔ اکرم کو اس پر بہت غصہ آتا تو اس کے منہ پر تھپڑ اور کمر میں گھونسے مارتا اور جب ارحم رونے لگتا تو اسے اور مارتا کہ رونا نہیں ہے۔ ارحم سہم کر چپ کر جاتا تھا۔

    اس دن بھی اکرم بیٹھا اسے الف انار بے بکری پڑھا رہا تھا۔ مگر ارحم بول ہی نہیں رہا تھا ایسے میں اکرم کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے دو تین تھپڑ ارحم کے جڑ دئیے اور غصے میں تین چار دفعہ دہرایا۔۔۔ ’’بولو الف انار، بے بکری۔۔۔بولو، بولو بولو۔۔‘‘

    پاس لٹکے پنجرے سے طوطو کی آواز آئی۔۔۔ ’’الف انار، بے بکری، الف انار، بے بکری۔‘‘

    ’’او جا اوئے کھوتے دماغ تیرے سے تو اپنا طوطو ہی اچھا ہے دیکھ کتنی جلدی سیکھ گیا۔‘‘ یہ کہنے کے ساتھ ہی ایک زور کا مکا ارحم کی کمر میں رسید کر دیا۔

    ارحم کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور وہ سسکیاں بھرنے لگا۔

    ’’رونا نہیں۔۔۔ رونا نہیں۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔‘‘ اکرم ڈپٹ کر بولا۔ اسے شدید غصے میں دیکھ کر ارحم نے بمشکل اپنے آنسو ضبط کئے تھے۔

    ان کا باپ اسلم کپڑوں کی ایک چھوٹی سی دکان کا مالک تھا۔ دو بچوں کے ساتھ گزر بسر امناسب سی گزر بسرہو رہی تھی۔اسلم کو بھی بہت شوق تھا کہ دونوں بچے اچھی تعلیم حاصل کریں بڑا اکرم کافی ہونہار تھا لیکن ارحم نے باپ کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ کبھی کبھار طیش میں آکر وہ یہاں تک کہہ دیتا کہ یہ پاگل ہے اسے پاگل خانے بھجوا دو۔ایسے میں ریحانہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتی۔ جس نے اسے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا ہوا تھا۔

    ان کے ماموں کینیڈا سے آئے ہوئے تھے۔ ارحم کو دیکھ کر انہیں کافی دکھ ہوا۔

    ’’باجی اسے کسی اچھے نفسیات کے ڈاکٹر کو دکھاؤ، کیوں اتنے پیارے بیٹے کو ضائع کر رہی ہو۔ ابھی صرف چھ سات سال کا ہے، کوئی علاج کیا جا سکتا ہو تو کروا لو۔‘‘

    ’’یہاں قصبے میں کہاں کوئی اچھا ڈاکٹر یہاں کے جس ڈاکٹر کو دکھایا تھا اس نے یہی کہا تھا کہ یہ بچہ اپنی عمر سے پیچھے ہے اور ایسے ہی رہے گا اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کے لئے تو شہر جانا پڑےگا۔‘‘ ریحانہ کے دل میں بھی بھائی کی بات سے امید کی کرن چمکی۔

    ’’اچھا میں لے کر جاؤں گا تم فکر نہ کرو۔‘‘

    شہر کے ڈاکٹر نے تفصیلی معائنہ کے بعد بتایا کہ اس کے سننے اور بولنے کی صلاحیت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف دماغ تک پیغام کی ترسیل عام انسان کی طرح نہیں ہو پاتی۔لیکن اس کے لاشعور میں کچھ الفاظ یا باتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ جنہیں کبھی کبھاروہ اپنی مرضی سے یا بے ساختہ کر دیتا ہے۔ مستقل تھراپی سے کچھ بہتری کی امید ہے۔‘‘

    ’’ماموں نے یہ سب جب اپنی بہن کو بتایا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ علاج کے خطیر اخراجات اور شہر آنے جانے کے مستقل چکر، بہت مشکل کام تھا۔ ماموں نے قائل کرنے کی کوشش کی مگر بےسود رہا۔

    اب ارحم کی تعلیم یا علاج کی طرف سے اس کے ماں باپ مکمل مایوس ہو کر اس کے حال پر اسے چھوڑ چکے تھے۔ وہ اسی طرح کبھی کبھار ایک دو الفاظ، کوئی جملہ بول دیتا۔۔۔ ایک دو بار تو اس نے باقاعدہ تقریر کے انداز میں لمبی چوڑی بات کر دی۔ ایسا وہ تب ہی کرتا جب اسے کسی بات پر شدید غصہ ہوتا۔ وہ اپنی آنکھوں کو پورا پھیلا لیتا اور ایک انگلی تنبیہی انداز میں کھڑی کر کے تیز تیز بولتا۔ کسی کو سمجھ نہ آتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب اس نے پہلی بار اکرم کے سامنے ایسا کیا تو اکرم بہت ہنسا اور اس نے اس کا نام اس دن سے طوطو رکھ دیا۔

    ارحم جوں جوں بڑا ہو رہا تھا، اکرم کی دلچسپی اس میں بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اس کا بغور مشاہدہ کرتا رہتا۔ایک دن ایک واقعے نے تو اکرم کے لئے سوچ کے نئے در وا کر دئیے۔

    اس دن ان کی چچی ان کے گھر آئی ہوئی تھیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا کافی خوش خوراک تھا۔ ہر وقت اس کے ہاتھ میں کھانے پینے کی کوئی نہ کوئی چیز ہوتی، جسے وہ لیکر بیٹھا رہتا اور کھاتا رہتا۔ وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے قدم اٹھانا بھی محال ہوتا تھا۔ اس دن بھی جس طرح جھومتا ہوا وہ کمرے میں داخل ہوا، ارحم اسے دیکھتے ہی بےساختہ بول اٹھا ’’سانڈ‘‘۔

    یہ لفظ سن کر اکرم تو قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ آٹھ سالہ ارحم اپنی بات کہہ کر پھر سے خود میں مگن ہو چکا تھا۔ جب کہ ان کے کزن نے کمرے میں داخل ہوتی ماں کو دیکھ کر بھاں بھاں رونا شروع کر دیا۔ چچی کے کانوں میں بھی ارحم کی بات پڑ چکی تھی اس لئے اس نے بےنقط سنانا شروع کر دیں۔ پاگل کہیں کا، نہ عقل ہے نہ تمیز۔۔۔’’

    ’’او چچی کیا ہو گیا بچہ ہی ہے نا اور پھر آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ اسے بولتے ہوئے کسی بات کا پتہ نہیں چلتا۔بولتا ہی کب ہے۔بےچارہ۔

    ’’ہاں۔ ہاں۔۔۔ مردہ بولے تو کفن ہی پھاڑےگا۔۔۔ اللہ کی پناہ۔۔۔ اتنے لاڈ چڑھتے ہیں تو کسی پاگل خانے داخل کروا آؤ۔

    چچی کی قسمت اچھی تھی کہ اس وقت ان کی ماں ہمسائیوں کی طرف گئی ہوئی تھی ورنہ وہاں ٹھیک ٹھاک توتو،میں میں شروع ہو جاتی۔

    چچی کا غصہ تو جیسے تیسے ٹھنڈا ہوا۔ وہ گئی تو اکرم، ارحم کو باہر لے جا کر چاٹ کھلا کر، چاکلیٹ دلا کر لایا۔

    ’’واہ میرے طوطو دل خوش کیتا ای۔۔۔ ( واہ میرے طوطو دل خوش کر دیا۔)

    چچی سے وہ تب سے خار کھاتا تھا۔ جب سے وہ اس کی نئی نئی جوان ہوتی محبت کے درمیان دیوا ر بن کر کھڑی ہوئی تھی اور اس کا اپنے گھر داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ خود دھڑلے سے ان کے گھر آتی مجال ہے، کبھی بیٹی کو بھی ساتھ لے آتی۔آج ارحم نے چچی کو جلا کر اسے کافی سکون پہنچایا تھا۔

    اب تو اکرم کو کھیل ہاتھ آ گیا۔ جس سے اسے کچھ کہلوانا ہوتا وہ ایک دو بار ارحم سے کہتا۔ ارحم بھی اتنا تو سمجھتا تھا کہ ایسا کچھ کہنے کے بعد اس کی خاص آؤ بھگت ہوتی ہے۔اس لئے اب وہ بھی بھائی کا اشارہ سمجھنے لگا تھا۔

    ایک دن ان کے گھر ان کے دور کے رشتہ دار آئے ہوئے تھے۔ابھی انہیں بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ ارحم باہر سے آیا اور انہیں دیکھ کے ایک دم زور سے ہنسا اور ان کے سر کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ چاند۔۔۔ہاہا ہا۔۔۔۔ چاند۔۔۔ وہ کھسیانے سے ہو گئے کیونکہ گنجے پن کی وجہ سے کئی لوگ اب انہیں چاند کہہ کر مخاطب کرنے لگے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اسلم نے پہلے تو معذرت کی اس کے بعد ارحم کو گھور ا۔ جب کہ اکرم اندر ہی اندر خوش ہوتے ہوئے وضاحت دے رہا تھا۔ انکل اس کی بات کا برا نا مانیں اپنے طوطو میں اور ایک سال کے بچے میں بس جسامت کا ہی فرق ہے۔ ورنہ اسے سمجھ بالکل بھی نہیں ہے۔

    ان کو جیسے تیسے مطمئن کیا۔ مگر بعد میں خوب ہنسا اور ارحم کو شاباش دی۔

    ’’ہم نے تو اسے کبھی ایک لفظ نہیں سکھایا۔ اگر ہمارے بتانے پر کچھ سیکھ سکتا تو مسئلہ ہی کیا تھا؟ دس تک گنتی تو ہم اسے آج تک سکھا نہیں پائے۔‘‘

    ارحم جب کوئی اس طرح کا لفظ کسی کے سامنے بولتا تو، اس کے شکوہ کرنے پر اکرم ایسی ہی دلیلوں کے ساتھ صفائی پیش کرتا تھا۔

    سب ایک کزن کی شادی میں اکٹھے تھے۔ جہاں گاؤں سے آئی ہوئی ان کے کسی رشتہ دار کی بیٹیاں فیشن میں سب سے آگے تھیں اور اپنے آگے کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھیں۔ ارحم پاس بیٹھا انہیں میک اپ کرتے دیکھتا رہا۔ پھر ایک دم سے بولا۔۔۔ ’’ہو تو پینڈو (دیہاتی) ہی۔۔۔‘‘۔

    اس موقع پر اکرم تو وہاں موجود نہیں تھا، لیکن جن لوگوں کے دل کی بات ارحم نے کہہ دی تھی انہوں نے خوب مرچ مصالحہ لگا کر اکرم کو بتائی۔اکرم نے بھی اسے خوب پیا ر کیا۔۔۔’’ واہ میریا طوطیا۔۔۔ کدی کدی بولنا ایں پر ستھرا بولنا ایں۔ ( واہ میرے طوطے کبھی کبھی بولتے ہو مگر اچھا بولتے ہو )۔‘‘

    اب بھی وہ کچھ جملے اپنی مرضی سے ہی ادا کرتا تھا۔ ورنہ کچھ بھی کہتے رہو۔نہ بولنا ہوتا تو نہیں بولتا تھا۔ اکرم کا انداز وہی تھا۔ ’’سچا پتر ہے میرا شیر۔‘‘

    اکرم نے اپنا کاروبار سیٹ کر لیا تو اس کی شادی کر دی گئی۔ماں اور باپ کچھ وقفے سے فوت ہو گئے تو ارحم مکمل طور پر بھائی کے سر پر آپڑا۔ ماں باپ کے فوت ہونے کے بعد ارحم بالکل ہی تنہا ہو کر رہ گیا تھا۔ زیادہ تر وہ طوطو کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ کبھی کبھار وہ۔ ’’ماں۔۔۔ یا بابا‘‘ کہہ کر سسک پڑتا مگر پھر فوراً ہی خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا کہ کہیں اکرم نہ دیکھ لے۔ بچپن میں رونے پر مار پڑنے کا خوف آج تک اس کے ذہن سے نہیں نکل سکا تھا جب کہ اب کبھی بھی اکرم نے اسے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ بلکہ وہ تو اس کے لئے ایسا مہرہ تھا جسے وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے آگے کرتا تھا۔ اس کی عادت ہنوز وہی تھی ارحم کے ذریعہ کسی نہ کسی کا بھری محفل میں مذاق بنوا کر لطف اندوز ہونا۔ اس کے لئے ارحم کا پر اعتماد رہنا بہت ضروری تھا۔ تاکہ وہ اکرم کا اشارہ سمجھ سکے۔

    خاندان، ملنے جلنے والوں اور سب دوستوں میں اکرم ایک مثالی شخصیت کے طور پر سامنے آیا تھا۔ پڑھا لکھا، کامیاب انسان، جو گھر، کاروبار بھائی، ہر قسم کی ذمہ داریوں سے بخوبی عہدہ برا ہو رہا تھا۔ اس کی شخصیت کا تاثر کافی مرعوب کن تھا جس میں اس کی اعلی تعلیم اور کامیاب کاروباری حیثیت خاص طور پر کا رفرما تھے۔

    اس پر اس کی بیوی بہت فعال اور سمجھدار تھی، اس نے گھریلو معاملات میں اکرم کو بالکل بےفکر کر چھوڑا تھا۔

    آج کچھ کاروباری دوست اس کی طرف آ رہے تھے اور اکرم مسلسل بیوی کو ہدایتیں دے رہاتھا۔

    ’’بس۔۔۔ زرقا۔۔۔ یہ خیال رہے کوئی کمی نہ رہ جائے۔‘‘

    ’’میں نے کہا نا آپ بے فکر ہو جائیں، میں سب سنبھال لوں گی۔ زرقا تیاری کے ساتھ ساتھ اکرم کو تسلی بھی دے رہی تھی۔‘‘

    ’’امجد صاحب ایک بار خوش ہو جائیں۔۔۔ بندہ ہے تو ٰایک نمبر کا فراڈیا۔۔۔ میرا کام نہ پھنسا ہوتا تو کبھی منہ نہ لگاتا۔‘‘

    ’’چلیں مطلب ہو تو گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔‘‘ زرقا نے پاس بیٹھے ارحم کو گاجر کا ٹکڑا پکڑاتے ہوئے کہا۔

    ’’ان پر میرا امیج تو کافی اچھا بنا ہوا ہے صرف ایک بار ہامی بھر لیں تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔‘‘

    مہمان آ چکے تھے۔ اکرم سب انتظام دیکھ کر بہت مطمئن تھا۔ آج کا دن اس کے لئے بہت اہم تھا۔ ایک بہت بڑا کاروباری سودا تکمیل پانا تھا، جس کا سارا دارو مدار امجد صاحب پر تھا۔ اکرم ان کے آگے بچھا جاریا تھا۔

    خوش ذائقہ کھانا بہت سلیقے سے چنا گیا تھا اور بہت خاموشی سے کھایا جانے لگا۔ کمرے میں صرف چمچوں کے پلیٹوں سے ٹکرانے کی ہلکی سی آواز گونج رہی تھی۔

    ’’امجد صاحب یہ کباب ٹرائی کیجئے نا خاص آپ کے لئے بنوائے ہیں۔‘‘ اکرم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان کے قدموں میں ہی بیٹھ جاتا۔

    ’تویہ ہے۔۔۔ امجد۔۔۔ فراڈیا۔۔۔‘‘

    کمرے میں چمچوں کے پلیٹوں سے ٹکرانے کی آواز بھی رک چکی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے