Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سدباب

عبدالصمد

سدباب

عبدالصمد

MORE BYعبدالصمد

    کہانی کی کہانی

    ’’دیار غیر میں بسے ایک ایسے شخص کی کہانی، جو اپنے گاؤں میں دیکھے گئے بھوت کو لے کر پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کا ذکر وہ اپنی بیوی سے بھی کرتا ہے، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اس بھوت سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ انہیں فون کرتا ہے اور پھر اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ اس کی بیوی ہر ممکن اس کی تلاش کی کوشش کرتی ہے، لیکن کامیاب نہیں ہوتی ہے۔ پھر ایک دن وہ شخص خود ہی واپس آ جاتا ہے اور اس کے غائب ہو جانے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔‘‘

    موبائل پر بات کرتے کرتے اچانک اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ موبائل بند کرکے اس نے کچھ سوچا، پھر اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا، بیوی غور سے اس کی حرکات و سکنات کو دیکھ رہی تھی، آخر وہ پوچھ بیٹھی۔

    ’’کیا ہوا۔۔۔؟‘‘

    ’’بھوت۔۔۔!‘‘

    مرد کے منہ سے اچانک نکل گیا۔

    بیوی کے منہ سے بھی بےساختہ نکلا۔

    ’’ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔‘‘

    مرد کے انداز سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اپنی بات خود اسے ہضم نہیں ہو رہی۔

    ’’مطلب۔۔۔؟‘‘

    بیوی کچھ سمجھنے سے قاصر تھی۔

    ’’مطلب کیا، جو حالات ہیں ان سے تو۔۔۔‘‘

    وہ بولتے بولتے رک گیا۔ شاید اسے اپنا جملہ مکمل کرتے اچھا نہیں لگا۔ ویسے وہ جانتا تھا کہ بیوی تک اس کی ترسیل ہو گئی ہے۔ وہ مسکرائی اور آہستہ سے بولی۔

    ’’کچھ بتلاؤ تو شاید بھوت کو پکڑنے میں، میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔‘‘

    اس نے غور سے بیوی کو دیکھا۔ اسے محسوس ہوا، شاید وہ اس کا مذاق اڑا رہی ہے، اس نے سوچا، اسے بتا ہی دینا چاہیے۔

    ’’ارے بھائی، بچے جس طرح غائب ہو جاتے ہیں، اسے آخر کیا کہیں گے۔۔۔؟‘‘

    ’’پھر ملتے نہیں کیا۔۔۔؟‘‘

    بیوی کا لہجہ ابھی تک وہی تھا، یعنی غیریقینی۔

    ’’کچھ مل بھی جاتے ہیں، مگر ان کے جسموں سے خون، آنکھوں سے زندگی اور دماغوں کی روشنی نکلی ہوتی ہے ’’۔

    اس نے جو کچھ سنا تھا، بتا دیا۔

    بتاتے نہیں، ان کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔؟

    بیوی بھی اب قدرے سنجید ہ ہو گئی۔

    ’’اس قابل نہیں رہ جاتے۔۔۔‘‘

    یہ بات بھی اس نے سنی تھی۔ بیوی کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ شاید وہ جو کچھ سمجھ رہی تھی، وہ بات تھی نہیں، مگر اسے شوہر کے بڑھتے ہوئے اضطراب کے سدباب کے لیے کچھ تو کرنا ہی تھا۔

    ’’یہ سب باتیں، بتاتے کون ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’سارے لوگ۔‘‘

    مرد کو اس کا سوال شاید بےتکا لگا، بیوی پھر کچھ سوچنے لگی۔ اصل میں بھوت والی بات اسے کسی طرح ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ یہ بھی جانتی تھی کہ اسی کی طرح اس کے شوہر کو بھی یہ بات جچ نہیں رہی ہوگی۔۔۔ پہلے۔۔۔ بہت پہلے، وہ اپنے وطن میں، اپنے اس دیہی مکان میں رہتے تھے جہاں چھوٹے بڑے کھپریل مکانوں کی ایک قطار سی تھی، اوبرکھا بڑگلیاں، پرپیچ راستے، بجلی وجلی تو تھی نہیں، گاؤں شام ہی سے سو جاتا، صرف ان مکانوں میں کچھ جاگ ہو رہی ہوتی جہاں کراسن تیل کے دئیے میسر ہوتے یا چھوٹی چھوٹی موم بتیاں، وہ بھی اس وقت تک، جب تک لوگ کھانا پینا ختم نہیں کر لیں یا اکا دکا ایسے طالب علم جن کے والدین کو کچھ عقل اور کچھ دولت ودیعت ہوئی تھی، اور جو شہر کے اسکول میں پرائیویٹ امتحان دینے کی تیاری میں مصروف ہوتے۔

    مرد کو اچانک کچھ یاد آیا۔

    ’’میں ذرا چرچ والی مسجد کے امام صاحب کے پاس جاتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’امام صاحب کے پاس۔۔۔؟ ان کا اس سے کیا تعلق۔۔۔؟‘‘

    اس کی بیوی حیران ہوئی۔

    ’’شاید وہ کچھ بتلائیں۔۔۔ کچھ گائیڈ لائن دیں۔۔۔‘‘

    وہ جوتے کے تسمے باندھتے ہوئے بولا۔

    ’’یعنی۔۔۔؟‘‘

    وہ اپنی حیرانی کو کسی طرح دور کرنا چاہتی تھی۔

    ’’افوہ۔۔۔ آخر بھوت جنات کے بارے میں کون بتلائےگا۔۔۔؟‘‘

    مرد جھنجھلا گیا۔ بیوی کو یاد آیا کہ گاؤں میں دو مسجدیں تھیں۔ ایک آبادی سے ذرا دور تالاب کے پاس کالی مسجد تھی۔ اس نام کی وجہ تسمیہ بظاہر اس کے سوا اور کچھ نہیں تھی کہ کائی جمتے جمتے اس کے درو دریوار بالکل سیاہ ہو گئے تھے۔ اسے صاف کرانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا تھا۔ مشہور تھا کہ وہاں جناتوں کا ڈیرہ ہے۔ وہاں کوئی نماز پڑھنے بھی نہیں جاتا تھا۔ بلکہ وہاں سے گزرتے وقت کوشش کی جاتی کہ تیزی سے نکل جائیں۔ اشد ضرورت ہی کے تحت اس راستے کو اختیار کیا جاتا۔ جانے کے پہلے، درمیان اور جانے کے بعد جتنی دعائیں یاد ہوتیں، سب کا ورد کیا جاتا۔ جنہیں وہاں سے گزرنے کی مجبوری تھی، انہیں تو ساری آیتیں اور دعائیں ازبر ہو گئی تھیں۔

    مسجد کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ کچھ مفروضے، کچھ کہاوت کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔ بچوں کو اس کے نام ہی سے ڈرایا جاتا اور بڑے بھی کوشش کرتے کہ اس سلسلے میں زیادہ باتیں نہ کی جائیں۔ رات میں تو اس کا خیال آنے ہی پر لوگ لرز جاتے۔ البتہ آبادی کے بیچوں بیچ جو مسجد تھی، وہ آباد بھی تھی اور اس کے امام اور موذن کالی مسجد کے بھوتوں کو بھگانے کی ترکیبوں سے واقف بھی تھے۔ بڑے بھوت امام صاحب سے بھاگتے، چھوٹے موذن صاحب سے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی جن، یا گاؤں کی زبان میں بھوت کے چکر میں پڑ ہی جاتا۔

    بیوی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ تو ان باتوں کو مانتا ہی نہیں تھا بلکہ مذاق اڑاتا، پھر کس بات کیا لیے امام صاحب کے پاس گیا ہے۔ اس نے پوری بات بتائی بھی نہیں تھی۔ یوں بھی یہاں بھوت ووت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ ہزاروں میل دور اپنے وطن کے بھوت کے بارے میں بتانے گیا ہے تو بیچارے امام صاحب اتنی دور کے غیر ملکی بھوت کا کیا بگاڑ لیں گے۔ وہ تو ایسا کبھی نہیں تھا۔ بس چند منٹوں میں ایسی کایا پلٹ ہو گئی کہ۔۔۔

    اس کا موبائل دور میز پر رکھا تھا۔ اس نے دوڑ کر اٹھا لیا اور مرد کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ نمبر نہیں لگا، اس نے پھر کوشش کی، بار بار کوشش کی نمبر نہیں لگا۔ تھک ہار کر اس نے کوشش چھوڑ دی۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ اس سے کیا کہتی۔ منع تو کر نہیں سکتی تھی، ایک اضطراب کے عالم میں وہ نکلا تھا، اسے پریشان کرنا مناسب نہیں تھا، کچھ دیر میں وہ آہی جاتا۔ ابھی اس کی سوچ کا سفر جاری ہی تھا کہ وہ آ بھی گیا۔

    ’’بہت جلدی آ گئے۔۔۔؟‘‘

    ’’میں ان کے پاس گیا ہی نہیں، راستے ہی سے لوٹ آیا۔۔۔‘‘

    مرد تھکا ہارا سا دیوان پر لیٹ گیا۔

    ’’جب گئے ہی تھے تو پھر مل ہی آتے۔۔۔‘‘

    اس نے اس کا دل رکھنے کے لیے کہا۔۔۔ شاید۔۔۔

    ’’سوچا امام صاحب کے سوالوں کا میرے پاس کیا جواب ہے۔ ان کے سوالوں کی پٹاری بھی تو بھری ہوگی۔‘‘

    اس کی آواز میں شکست خوردگی تھی۔

    ’’آخر تم ان سے کیا چاہتے تھے۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا چاہتا تھا۔۔۔؟ بس ان سے مشورہ کرتا، دریافت کرتا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔‘‘

    وہ ایک لمحہ کے لیے لڑکھڑا گیا تھا، پھر فوراً ہی سنبھل گیا، بیوی نے تمسخر بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور زیر لب تبسم کے ساتھ بولی۔

    ’’تم تو ان باتوں کے قائل ہی نہیں تھے، آئی مین، بھوت اور جنات وغیرہ کے۔ وہاں بڑی مسجد کے امام صاحب کا تو تم مذاق اڑاتے تھے کہ ان کی پھونک پھانک سے کوئی بھوت ووت نہیں بھاگتا، پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’قائل تو تم بھی نہیں تھیں۔۔۔‘‘

    مرد نے اس کی باتوں پر فوراً بریک لگایا۔

    ’’وہ تو اب بھی نہیں ہوں، مجھے تو تمہاری حالت پر افسوس آتا ہے۔۔۔‘‘

    عورت اب خاصی سنجیدہ ہو چکی تھی۔ مرد نے اس کی طرف غور سے دیکھا، پھر آہستہ سے بولا۔

    ’’بہت دنوں سے میں یہ باتیں سن رہا تھا۔ تمہیں نہیں بتایا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ۔۔۔ آج تو اتفاق سے تم نے سن لیں۔۔۔‘‘

    مرد اب اپنی حالت پر قابو پا چکا تھا۔

    ’’بچے آخر اتنے دنوں سے غائب ہو رہے ہیں تو لوگوں نے اس کا پتہ نہیں کیا۔۔۔؟ ان کے ماں باپ کو نیند کیسے آتی ہے، انہیں چین کیوں کر نصیب ہوتا ہے۔۔۔؟

    ’’شاید عورت کو اب بھی اس بات پر پورا یقین نہیں تھا، وہ جرح پر اتر آئی۔ مرد کی آنکھوں میں بے بسی کی ایک لہر سی دوڑ گئی، وہ آہستہ سے بولا۔

    ’’وہ اپنی ساری کوششیں کرکے تھک چکے ہیں۔ جو بچے واپس آتے ہیں وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ۔۔۔‘‘

    ’’بھئی، مجھے تو یقین نہیں آتا۔۔۔‘‘

    ’’یقین تو مجھے بھی نہیں آتا، یاد ہے، گاؤں میں اس قسم کے واقعات رونما ہو جاتے تھے، کالی مسجد کے پاس۔۔۔‘‘

    مرد کو پتہ نہیں کیوں اس وقت وطن کی یاد آ گئی۔

    ’’لیکن تم تو اس وقت بھی اس کا یقین نہیں کرتے تھے۔۔۔؟‘‘

    ’’تب کی بات اور ہے، تب ہم واقعی کچھ نہیں جانتے تھے، آج بہت کچھ جاننے بعد بھی کچھ نہیں جانتے۔۔۔‘‘

    مرد نے ایک ایسا جملہ ادا کیا کہ عورت کو آگے کچھ کہتے نہیں بنا۔ مرد کو شاید عورت کا انداز پسند نہیں آیا تھا۔

    عورت سوچنے لگی کہ مرد کو کیا پڑی کہ وہ اس قسم کی تشویش میں مبتلا ہو گیا۔ ابھی وہ کسی نتیجے پر پہنچی بھی نہیں تھی کہ مرد اٹھ کر بڑی بیتابی سے کونے میں اونچی میز پر رکھے ٹیلی فون کوڈائل کرنے لگا۔ سامنے نچلی میز پر چار چار سیل رکھے تھے، فون کا استعمال تو کبھی کبھار ہو ہوتا، خاص طور پر اس وقت جب بہت دور باتیں کرنا ہوتیں یا ٹاور نہیں ملتا۔ وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا۔

    ’’رات کو تنہا ہرگز مت نکلنا، دروازے کو خوب اچھی طرح سے بند رکھنا، سیل ہمیشہ پاس رہے، کبھی بھولنا مت اور۔۔۔ اور اپنے شناختی کاغذات ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا، اوریجنل گھر پر، کاپی اپنے ساتھ۔۔۔‘‘

    اس قسم کے بےربط باتیں وہ دوسرے نمبروں پر بھی کرنے لگا۔ عورت سمجھ گئی کہ وہ اپنے بچوں سے باتیں کر رہا، جو دوسرے ملکوں میں رہتے تھے، مگر یہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ پریشانی تو وطن کے بھوت کی تھی اور یہ۔۔۔

    تو کیا بھوت نے اپنا دائرہ عمل بڑھا دیا ہے۔۔۔؟

    وطن میں بھوت بھگانے کے بہت طریقے تھے۔ بڑی مسجد کے امام صاحب اور موذن صاحب دونوں کے اپنے اپنے نسخے تھے۔ گاؤں کے ذی حیثیت لوگ امام صاحب سے رجوع کرتے، بقیہ موذن صاحب سے۔ کبھی کبھی امام صاحب کا نسخہ فیل ہو جاتا تو پھر سب لوگوں کے لیے موذن صاحب ہی ذریعہ نجات رہ جاتے۔ دونوں کی الگ الگ فیس مقرر تھی۔ بھوت جس معیار اور جس مرتبے کا ہوتا، نسخہ ویسا ہی ہوتا۔ کچھ بھوت باتوں سے نہیں لاتوں سے بھاگتے تھے۔ جس شخص پر بھوت نازل ہوتا، اسی کو سراپا بھوت تسلیم کر لیا جاتا۔ اسے پائے سے رسیوں میں جکڑ دیا جاتا یا پلنگ پر باندھ دیا جاتا اور امام صاحب یا موذن اسے جوتے مارتے جاتے اور بار بار پوچھتے، وہ بھاگتا ہے یا نہیں۔ کم زور قسم کے بھوت تو دو چار جوتے ہی میں بھاگ جاتے مگر ہیکڑ تو وہ رنگ دکھاتے کہ خدا کی پناہ۔ اس شخص میں پتہ نہیں کہاں سے اتنی طاقت آ جاتی کہ وہ رسی تڑا کے بھاگ نکلتا۔ یہ موقع بہت خطرے کا ہوتا۔ وہ کسی کو بھی نقصان پہنچا دیتا۔ سامنے کے کسی شخص کو اٹھا کے پٹخ دیتا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ وہ امام صاحب یا موذن صاحب سے بہت ڈرتا۔ انہیں دیکھ کر دور بھاگ جاتا، ان کے پڑھ کر پھونکے ہوئے پانی کی بوتلوں کو اٹھا کر پھینک دیتا۔ گھر والے طرح طرح کے بہانوں سے، پانی کے راز کو راز رکھ کر انہیں پلانے کا جتن کرتے۔ ان نسخوں کے علاوہ بہت سی خود کردہ ترکیبیں بھی چلی آتی تھیں، درگاہوں پر چلے، بزرگوں کے مزار کے پائنتی کپڑے کی دھجیاں، خاک شفا کا صبح و شام استعمال وغیرہ۔

    گاؤں، گھر سے اتنی دور، دیار غیر میں بھولی بسری باتیں، عورت کے ذہن کے پردے پر ابھر رہی تھیں، مگر اسے یہ یاد نہیں آیا کہ ان تدبیروں سے بھوت بھاگتے تھے یا نہیں۔ ضرور بھاگ جاتے ہوں گے، تب ہی تو ایک مدت سے یہ تدابیر اختیار کی جاتی تھیں۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوال گڈمڈ کرنے لگے۔ جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں سوالوں کے دھاگے اور الجھتے جاتے تھے۔

    ادھر مرد بہت مصروف رہنے لگا تھا۔ اس کی مصروفیت اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ مصروف تو وہ پہلے بھی رہتا تھا، وہ بھی رہتی تھی۔ یہاں روٹی پر مکھن اسی وقت لگتا جب اس کے لیے چار ہاتھوں سے محنت کی جاتی۔ ضروریات زندگی کے حصول میں ان کے چوبیس گھنٹے کا لمحہ بندھا ہوا تھا، مگر وہ مرد کے چہرے بشرے پر ان مصروفیات کی تحریریں پڑھ رہی تھیں جن کا کوئی حساب کتاب اس کے پاس نہیں تھا۔ ان کی زندگی میں پہلی بار ان کا وقت مشترکہ نہیں رہا تھا۔

    مرد کو زیادہ خاموش دیکھ کر عورت پوچھ بیٹھی۔

    ’’اندر اندر آخر تم کس غم کو اہتمام سے پال رہے ہو۔۔۔؟‘‘

    مردنے غور سے عورت کی طرف دیکھا، پھر آہستہ سے بولا۔

    ’’تمہیں کوئی فکر نہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’میں تو بس یہ جانتی ہوں کہ تم جس چھوٹے سے پھوڑے کو زخم کی صورت دیکھ رہے ہو، اس کا وجود کم سے کم ہماری آنکھوں کے سامنے تو نہیں ہے اور میں۔۔۔‘‘

    ’’مجھے تعجب ہے کہ تم اس چیز کو ہوائی یا تصوراتی سمجھ رہی ہو۔۔۔؟‘‘

    مرد نے عورت کی بات کاٹ دی۔

    ’’کیوں نہ سمجھوں۔۔۔؟ اتنے دن ہو گئے یہاں آئے ہوئے کہ اب تو احساس ہی نہیں ہوتا، ہم یہاں اجنبی ہیں۔ یہاں ہمیں وہ سب کچھ ملا جو اپنے وطن میں نہیں ملا، پھر کیوں نہ ہم یہاں کے بارے میں سوچیں، اپنا وطن تو اب غیر ہو چکا ہے۔۔۔‘‘

    عورت کی ساری دلیلیں، مرد کے اندرون کو پگھلانے میں ناکام رہیں وہ بڑی بے اعتنائی سے اس کو دیکھ رہا تھا، عورت کے چپ ہو جانے پر، اس نے بڑے تیکھے انداز میں پوچھا۔

    ’’تمہیں کس نے بتا دیا کہ تم یہاں محفوظ ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’مان لیتے ہیں کہ ہم یہاں بھی محفوظ نہیں، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ اس سوچ سے تو ہم اور غیر محفوظ ہو جائیں گے لہذا میری مانو، وطن میں رہنے دو اور یہاں کے آرام کو غنیمت سمجھو۔۔۔‘‘

    عورت جیسے فیصلہ کن لہجے میں بولی۔ مرد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ طنزیہ انداز میں بولا۔

    ’’مجھے حیرت ہے، تم اتنی سی بات نہیں سمجھتیں۔ ارے بھائی، وہ بلا چوکھٹوں اور سرحدوں میں قید نہیں ہے نا، وہ کسی وقت، کسی لمحہ یہاں بھی تو آ سکتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’یعنی بھوت۔۔۔؟‘‘

    عورت کے لہجے میں تمسخر تھا۔ مرد اندر اندر کھول کر رہ گیا، مگر اپنی دفاع میں اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی، وہ فوراً کچھ نہیں بولا، دراصل یہ باتیں اسے خود ہضم نہیں ہو رہی تھیں۔ پھر وہ آہستہ سے بولا۔

    ’’یہ ساری خبریں مجھ تک پہنچ رہی ہیں، بار بار پہنچ رہی ہیں، بار بار ان کی تصدیق ہو رہی ہے، پھر میں انہیں سرے سے کیسے غلط مان لوڈ۔۔۔؟‘‘

    مرد کے لہجے میں جو بے بسی اور بےچارگی تھی، وہ عورت کے احساس کو بھی چھو گئی۔ اب کے اس کا انداز بدل گیا۔

    ’’ایک بات، یہ مسئلہ تو فی الحال وہیں کا ہے، ہم تو وہاں برسوں سے گئے بھی نہیں اور شاید اب جا بھی نہیں پائیں گے، یہاں مسئلہ پیدا ہوگا تو دیکھا جائےگا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں، بےشک برسوں سے وہاں نہیں گئے، لیکن وہاں جانے کا ارادہ تو کبھی ترک نہیں کیا، وہاں جانے کی تمنا تو دل میں ہمیشہ روشن رہی، پھر وہاں کے درد، وہاں کی مصیبت کو ہم کیوں محسوس نہ کریں۔۔۔؟‘‘

    مرد خاصا جذباتی ہو گیا۔ عورت حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ اس کا یہ انداز اس کے لیے انوکھا تھا۔ ایک لمحہ میں وہ سوچ کی اسی سطح پر آ گئی، شاید یہ دونوں کے لیے ضروری تھا۔ اس نے پوچھا۔

    ’’پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔‘‘

    ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ وہاں تو اس آفت کو دور کرنے کی کچھ تدابیر بھی تھیں، کچھ نسخے بھی تھے، یہاں تو۔۔۔‘‘

    ’’پہلے ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ پہلے ہم وہاں کی فکر کریں یا یہاں کی۔۔۔؟‘‘

    عورت نے بہت کوشش سے اپنا لہجہ شریں رکھا، یوں بات قدرے تلخ تھی مگر مرد اپنی دھن میں صرف اس کی شیرینی ہی کو محسوس کر سکا۔

    ’’دونوں کی، اسے یہاں آنے میں دیر ہی کتنی لگے گی۔۔۔؟‘‘

    عورت سوچ میں ڈوب گئی۔ واقعی یہاں تو زیادہ سے زیادہ بڑے امام صاحب سے رجوع کیا جا سکتا تھا اور لگ رہا تھا کہ وہ بھی کچھ مدد نہیں کر سکیں گے۔

    شاید مرد وطن جانے کا ارادہ کر چکا تھا، اس نے اس کی خبر عورت کو نہیں دی تھی۔ بس گاہے گاہے وہاں کا ذکر کرتا رہتا۔ ذکر تو وہ آپس میں بہت سی چیزوں کا کرتے، مگر اکثر صرف موضوعات کو خوشنما بنانے کے لیے باتیں ہوتیں۔ عورت کو بھی محسوس ہو رہا تھا کہ مرد کے دل و دماغ پر وطن سوار ہے، لیکن وہ جان بوجھ کر اس کرید میں نہیں پڑ رہی تھی۔ اس نے مرد کو نشانہ بنانے کا ارادہ بھی اب چھوڑ دیا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ دونوں مل کر اس قسم کی باتوں کا مذاق اڑاتے اور مرد کا قہقہہ سب سے بلند ہوتا۔ مرد کا انداز تفکر کبھی کبھی اسے جائز لگتا۔ واقعی یہ معاملہ کسی انسان کا تو نہیں لگتا تھا، جس مخلوق کا تھا، وہ تو کہیں بھی، کسی وقت بھی نازل ہو سکتی تھی۔ سوچتے سوچتے عورت کو جھرجھری سی آ گئی۔

    تھوڑی دیر خیالوں کے جنگل میں ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد وہ پھر بنیادی موضوع پر آ گئے۔

    ’’جو بچے واپس آ جاتے ہیں، وہ توایک طرح سے چشم دید گواہ ہیں۔۔۔‘‘

    عورت نے اظہار خیال کے طور پر ایک بات کہی۔

    مرد کے ہونٹوں پرایک طنزیہ مسکراہٹ رینگ گئی۔

    ’’شاید ہم اس پر گفتگو کر چکے ہیں۔ ان سے کچھ معلوم ہو جاتا تو ہم اندھیرے میں کیوں بھٹکتے رہتے۔۔۔‘‘

    ’’سار چیزوں کو چھوڑ کر انہیں پر Concentrate کرنا چاہیے تھا۔۔۔‘‘

    عورت نے مرد کی بات سنی ان سنی کر دی اور یوں بولی جیسے اپنے آپ سے کچھ کہہ رہی ہو۔

    ’’وہ واپس آئے تو ان کے ذہن ماؤف تھے، زبانیں بند اور جسم بےحس۔۔۔‘‘

    مرد نے طوہاً و کرہاً پھر دہرایا۔

    ’’ان لوگوں نے بھی کوئی مدد نہیں کی۔۔۔؟‘‘

    عورت نے جیسے بے خیالی میں سوا ل کیا۔

    ’’کن لوگوں نے۔۔۔؟‘‘

    مرد نے کنکھیوں سے عورت کی طرف دیکھا۔

    ’’ان لوگوں نے۔۔۔ امام صاحب، موذن صاحب، بزرگوں کے آستانے وغیرہ۔۔۔‘‘

    عورت قدرے جھنجھلا گئی۔ وہ بھی سمجھ رہی تھی کہ مرد تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہے۔

    ’’گئے تھے، بالکل گئے تھے سب کے سب بےبس ثابت ہوئے۔۔۔‘‘

    مرد نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

    ’’وہ لوگ تو مارپیٹ کے ذریعہ بھی ایسے معاملوں کو درست کر دیتے تھے۔۔؟‘‘

    عورت کو بھولی بسری امید ابھی بھی روشن دکھائی دے رہی تھی۔

    ’’وہ اس لائق نہیں رہ گئے تھے کہ ان پر کوئی مزید سختی کی جاتی۔ ان کی جانیں بھی جا سکتی تھیں۔‘‘

    مرد کے لہجے میں خاصی مایوسی تھی۔

    ’’اس کا مطلب ہے۔۔۔‘‘

    عورت نے جملہ مکمل نہیں کیا، شایدوہ بھی جانتی تھی کہ اس کا کوئی مطلب نہیں۔ مرد نے بھی اس پر سوالیہ نگاہیں ضرور ڈالیں، مگر وہ بھی جانتا تھا کہ مطلب کچھ نہیں۔

    ’’یعنی۔۔۔؟‘‘

    کچھ دیر کے بعد عورت کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔

    مرد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    عجب بات یہ تھی کہ اس موضوع پر وہ جب بھی بات کرتے، ہمیشہ صفر پر پہنچ جاتے اور ان کا دروازہ بند ہو جاتا اور اس وقت تک بندرہتا جب تک وہ اسے نئے سرے سے کھولنے میں کامیاب نہ ہو جاتے اور نیا سرا بھی کیا۔۔۔ وہ کچھ دور تک بڑی امیدوں کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتے، پھر وہی صفر۔۔۔

    ’’ارے بھائی۔ کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کا کوئی حل نہیں نکلتا، مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اس کا کوئی حل ہی نہیں۔۔۔ نا یہاں، نہ وہاں۔۔۔‘‘

    یہ بھی عورت کی جانب سے بند دروازے کو کھولنے کی ایک کوشش ہی تھی۔

    مرد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

    ’’یہاں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ یہاں بھی، ابھی ہم جن لمحات سے گزر رہے ہیں، تمہیں کیا لگتا ہے، ہم ان بچوں سے کچھ مختلف ہیں کیا جن کے جسموں میں خون نہیں ہوتا، دماغوں میں۔۔۔‘‘

    ’’بس۔۔۔ بس۔۔۔‘‘

    مرد نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ ویسے اس کے اندر سے ایک بے ساختہ چیخ نکلنے والی تھی۔

    کبھی کبھی مرد بھی سوچنے لگتا کہ ہزاروں میل دور کے پرابلم سے وہ اس قدرہراساں کیوں ہو گیا ہے۔ عور ت کی بات اسے سچ لگنے لگتی کہ وہ تو اپنی ساری کشتیاں جلا چکے ہیں پھر۔۔۔؟ لیکن اس کی ساری سوچ اسے پھر اسی نکتے پر لے آتی کہ یہ پرابلم تو سرحدوں اور دیواروں میں قید رہنے والی نہیں۔ وہ کسی وقت یہاں بھی پہنچ سکتی ہے، وہاں بھی پہنچ سکتی ہے جہاں اس کے بچے رہتے ہیں۔ وہ ٹانگوں پرچلنے والی چیز نہیں، پروں کے دوش پر اڑنے والی بلا ہے اور یقیناًاس کے سدباب کے لیے مادی نہیں، ماورائی ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔ یہ ذرائع ضرور استعمال میں لائے گئے ہوں گے، البتہ اس میں یقیناًکوئی ایسی کمی رہ جاتی ہو گی جس کے سبب یہ مصیبت بڑھتی جاتی ہے۔

    مرد نے اپنے طور پر ایک فیصلہ کیا۔ اس نے ادھر کی خبریں وصول کرنا ہی چھوڑ دیں۔ جب بھی کوئی خبر اس کے اندر پہنچتی، اس کے ہیجان میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ مگر وہ اپنے فیصلے سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ دراصل وہ ذرائع ابلاغ سے یوں گھرا ہوا تھا کہ اس کے اندر جو بھی سانس جاتی تھی وہ طرح طرح کی خبروں سے آلودہ ہوتی، جو باہر آتی وہ بھی ان سے لتھڑی ہوتی۔ ہزروں میل کے علاقے آنکھوں کے بالکل سامنے آ جاتے تھے اور وہ بہ نفس نفیس اپنے آپ کو ان میں موجود پاتا۔ وہاں کے دکھ درد اس کی ہڈیوں میں پیوست ہوتے ہوئے محسوس ہوتے اور وہ اس تکلیف سے بلبلا اٹھتا۔

    پتہ نہیں، اسے محسوس ہونے لگا کہ یہ سارے احساسات شاید اس کے ذاتی ہیں۔ کیوں کہ اسے دوسروں کے چہرے بشرے پر اس کا اثر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح خوش باش نظر آتے، جیسے کوئی اندیشہ ہائے دور دراز انہیں چھو کر نہیں گیا۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ ذرائع ابلاغ نے ان کے احساسات پر اپنا ڈنک نہیں مارا ہو، یا پھر انہوں نے اپنے آپ کو یوں باندھ رکھا ہے کہ کوئی ڈنک ہی ان کے اندر پہنچنے سے معذور ہو۔

    مرد، باہر نکلا تو پھر واپس نہیں آیا۔

    دیر سویر تو ہوتی ہی رہتی تھی، کبھی کبھار وہ کسی کام میں پھنس جاتا تو گھر نہیں بھی پہنچتا تھا مگر اس کی اطلاع ضرور دے دیتا۔ ایک آدھ دن نہیں آنے نے کسی تشویش کو کوئی خاص جنم نہیں دیا مگر نہیں آنے کاوقفہ کئی دنوں میں تبدیل ہو گیا توعورت کا چونکنا لازم تھا۔

    ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ اتنا غیر ذمہ دار کبھی نہیں تھا، اس کی طویل غیر موجودگی حیرت انگیز بھی تھی، اس پر سے اس کے سیل کا لگاتا ر بندرہنا۔ وہ اپنا سیل کبھی بندنہیں کرتا تھا، وہ کہتا تھا، پھر سیل رکھنے کا فائدہ کیا۔۔۔ سیل سے دوسروں کی جو امیدیں بندھی ہوتی ہیں، ان امیدوں کو پامال کرنا نہایت غیر اخلاقی فعل ہے۔ عورت بہت باہمت اور باشعور تھی۔ غیرموافق حالات سے عام طور پر گھبراتی نہیں تھی۔ غیرملک، غیر آب وہوا، غیر تہذیب و تمدن اور اجنبی زبان و بیان کے ماحول میں برسوں سے زیست کرتے ہوئے، وہ زندگی کی تیز رفتاری سے بہت حد تک ہم آہنگ ہو گئی تھی۔ اس نے صورت حال پر واویلا کرنے کی بجائے صبر اور تحمل سے اس کا سامنا کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے سوچا، سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟

    پولیس۔۔۔

    ’’پولیس کے ریکارڈ میں کوئی انہونی درج نہیں تھی، دور دراز سے کوئی اجنبی لاش دستیاب نہیں ہوئی تھی، کسی حادثے کی کوئی اطلاع نہیں تھی، کسی نے کوئی شکایت درج نہیں کی تھی، چھوٹے موٹے کسی دنگے کی خبر بھی نہیں تھی۔

    اس نے خفیہ پولیس سے رابطہ قائم کیا۔ ان لوگوں نے کچھ عملی اور کاغذی کاروائی مکمل کی اور اس کے ہاتھوں پر صفر رکھ دیا۔

    پھر اس کو خیال آیا، جہاں سرکار ناکام ہو جاتی ہے، وہاں غیر سرکار کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس نے ایک غیر سرکاری ایجنسی سے رابطہ قائم کیا، وہ روز انہیں امید بھرے لہجے میں فون کرتی، وہ بھی اپنی روزانہ محنت کا زائچہ اسے سنا دیتے۔ نتیجہ پھر صفر۔

    اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مرد کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ اسے شک ہوا تھا کہ کہیں وہ اپنی الجھن میں ملک سے باہر تو نہیں چلا گیا۔ تھوڑی سی تگ ودو کے بعد اس شک کا غبارہ بھی پھوٹ گیا۔ اس کا پاسپورٹ گھر رکھا تھا اور ہوائی ایجنسیوں نے اس جیسے کسی آدمی کے باہر نہیں جانے کی تصدیق کر دی۔

    اسی بھاگ دوڑ میں اسے اشارہ ملا تھا کہ قومی سلامتی کے پیش نظر کبھی کبھار سرکار مشتبہ افراد کو کسی خفیہ مقام پر لے جاکر پوچھ تاچھ کرتی ہے، ایسے افراد کا بہت بہت دنوں تک پتہ نہیں چلتا۔ اس سے اس کی گھبراہٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اسے یقین تھا کہ مرد کی کوئی حرکت کبھی قابل گرفت اور مشتبہ نہیں رہی۔ وہ بہت دنوں سے یہاں رہتے ہیں، کسی نے آج تک ان پر انگلی نہیں اٹھائی اور انہیں کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، مرد کی گمشدگی کی وجہ کچھ اور ہو سکتی ہے، مگر کیا۔۔۔؟‘‘

    معاً اس کو خیال آیا کہ وطن والا بھوت بالآخر یہاں تو نہیں آپہنچا۔۔۔ یہ خیال آتے ہی وہ سر سے پیر تک کانپ اٹھی۔ اس کے ہوش و حواس ایک دم گم ہوگئے۔ اس چیز کو اس نے اپنے اندروں کبھی تسلیم نہیں کیا تھا، اس مسئلے پر وہ کبھی چپ رہی تھی تو صرف مرد کی خاطر، اسے تو مرد پر تعجب ہوتا تھا اور وہ اس کی پریشانی کو دیکھ کر کڑھتی رہتی تھی۔ مرد ہی نے اس سے کہا تھا کہ بھوت کو کسی سرحد یا رکاوٹ کی پریشانی نہیں ہوتی۔ سوچ کا یہ مرحلہ سخت پریشانی کا تھا، مگر وہ جانتی تھی کہ پریشان ہونے سے مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ پریشانی کے احساس پر فوراً قابو نہیں پایا گیا تو یہ بڑے اطمینان سے اپنے پر پنکھ پھیلا دےگی۔

    اس نے اپنے منتشر حواس کو یکجا کیا اورنئے سرے سے حالات کا سامنا کرنے کی ٹھان لی۔ سارے وجوہات ایک ایک کرکے اپنا اعتبار کھو چکے تھے۔ آخر وہ انہیں وسیلوں کو استعمال کر سکتی تھی جو اس کے امکان میں تھے۔ البتہ ایک بات رہی جاتی تھی کہ مرد اپنی مرضی سے غائب ہو گیا ہو، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ نامعلوم مصلحتوں نے اسے جکڑ لیا ہو، یا پھر اور کوئی وجہ ہو۔

    اس کے دل کی گہرائیوں سے نفی کی اتنی تیز چیخ نکلی کہ اس کا وجود لرز گیا۔ وہ تیس پینتیس برسوں سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے ہر طرح کے دن دیکھے تھے اور ہر رنگ کی راتوں سے ان کا واسطہ پڑا تھا۔ گویا ان کے سامنے پینتیس برسوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا جو زمانے کے ہلانے جلانے سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ پھر۔۔۔؟

    ’’پھر وہی۔۔۔؟‘‘

    یعنی۔۔۔؟

    ایک ایسا راستہ اس کے سامنے آ گیا تھا جس کی خارداری پر اس کے قدم آگے بڑھنے سے صاف انکار کر دیتے۔

    یہ بات اسے ہمیشہ مضحکہ خیز لگتی۔

    آج بھی لگ رہی تھی۔

    وہ اسے کسی طرح تسلیم بھی کرلے تو پھر اس کے سدباب کے لیے اس کے پاس کون سا حربہ تھا۔ اتنے برسوں میں، آج تک اس نے اس وجود کے بارے میں کچھ سنا ہی نہیں تھا۔ برادران وطن میں سفید چمڑی کے لوگ کبھی کبھی اس وجود کو تسلیم کرتے دکھائی دے جاتے۔ وہ پتہ نہیں کیسے مکان کے کسی کونے، باغ کے کسی گوشے، سڑک کے کسی ویرانے اور زمین کے کسی حصے میں اس ان دیکھے وجود کو اپنی ان آنکھوں سے دیکھ لیتے جن سے وہ کچھ اور نہیں دیکھ سکتے تھے، وہ اس کا کوئی علاج نہیں کرتے، اسے جوں کا توں چھوڑ دیتے۔ لیکن ان کے بھوت میں اور اس کے وطن کے بھوت میں بہت فرق تھا۔ وطن کے بھوت کو درست کرنے کے کئی طریقے رائج تھے، یہاں تو اس موضوع پر کسی سے بات بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ خود، مرد ایک بار بڑی مسجد کے امام صاحب کے پاس دوڑ گیا تھا اور آدھے راستے ہی سے لوٹ آیا تھا۔

    عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ اتنا ترقی یافتہ ملک اسے ایک بند دروازے کا کمرہ نظر آتا تھا۔ کوئی روشن دان، کوئی روزن نہیں، اسے پتہ نہیں تھا کہ اس کیفیت میں دوسرے لوگ بھی مبتلا ہوئے تھے یا نہیں، ہوئے تھے تو پتہ نہیں، انہوں نے اس کے لیے کیا کیا۔۔۔؟

    بہرکیف، اسے اتنی تشفی ضرور تھی کہ جو کچھ اس کے بس میں تھا وہ اس نے ضرور کیا۔ جو بس میں نہیں تھا، وہاں اس نے اپنی سوچ کی ایک دنیا آباد کر رکھی تھی۔

    اچانک مرد لوٹ آیا۔

    پورے بدن پر نیلے نیلے نشانات، جسم اور منہ سوجے ہوئے، چال میں لڑکھڑاہٹ، آنکھوں میں بے پناہ ویرانی اور مردنی۔۔۔

    پہلی نظر میں تو وہ اسے پہچان ہی نہیں پائی۔ وہ آیا اور آتے ہی گر کر بے ہوش ہوگیا۔ اس وقت واویلا کرنے کا موقع نہیں تھا۔ یوں بھی یہاں ان فضولیات کے لیے وقت کس کے پاس تھا۔ پہلے اس کا خیال تھا کہ یہاں کی پولیس اور انتظامیہ سے بہتر اور کوئی انتظامیہ نہیں ہو سکتی، مگر اس کے تجربے نے بتایا کہ کم سے کم اس کے لیے جیسی وطن کی پولیس، ویسی یہاں کی پولیس۔ وہ سارے امکانات پر دستک دے چکی تھی۔ بہرکیف، اب تو مرد گھر آہی گیا تھا، یعنی تمام واقعات کا چشم دیدگواہ۔ وہ اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرتی رہی، پتہ نہیں اس کی کیسی بے ہوشی تھی کہ وہ بار بار ہوش میں آتا اور باربار بےہوش ہو جاتا، گو اس کی آنکھوں کی ویرانی پکار پکار کے کہتی کہ وہ ہوش میں نہیں ہے۔

    عورت کویقین تھا کہ اپنے گھر کی اپنائیت، اس کی اپنی خدمت و محبت اس کو ضرور اچھا کر دےگی۔ وہ ہردن انہیں امیدوں کے ساتھ بیدار ہوتی، مگر شام ہوتے ہوتے وہ خود بیمار لگنے لگتی اور رات ہوتے ہوتے سچ مچ بیمار ہو جاتی، ہر صبح۔۔۔ اس کی صبح بس اپنی جگہ برقرار تھی جس کے بل پر وہ امید اور مایوسی کی آنکھ مچولی کو کس طرح جاری رکھے ہوئے تھی۔

    اس کے بچے گھر آ گئے تھے۔ بہترین طبی امداد مل رہی تھی۔ مگر مرد کی بیماری اپنی جگہ تھی، کسی کی سمجھ میں اس کی بیماری نہ آتی تھی، بیماری سے زیاد وہ سوالات، جو بےحد پیچیدہ پہیلیوں کی طرح سب کے ذہنوں میں چکر کاٹتے تھے۔

    وہ کہاں گیا تھا، اس طرح تو کبھی جاتا نہیں تھا۔۔۔؟

    اگر اس کا اغوا کیا گیا تھا تو وہ کون لوگ تھے، ان کا مقصد کیا تھا۔۔۔؟

    اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا کہ وہ اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھا۔۔۔؟

    اس کی زبان کیوں نہیں کھلتی۔۔۔؟

    کیا اس کو کسی خوف نے جکڑ رکھا ہے۔۔۔؟

    اسے کس کا خوف ہے اور کیوں۔۔۔؟

    وغیرہ وغیرہ۔

    وہ سب ایک دوسرے کے چہرے پر جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ سوچ کی اونچی اونچی اڑان کے باوجود کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اصل میں ان سوالوں کے جواب اگر تھے تو وہ تو اسی کی تحویل میں تھے اور اس کا حال یہ تھا کہ۔۔۔ آنکھوں کی پتلیوں کو پڑھنے اور چہرے کی کتاب سے بہت دور کا نتیجہ اخذ کرنے والے ماہرین بھی ناکام ہو گئے تھے۔ اتنے دنوں غائب رہنا، پھر لوٹ آنا کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اسے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا۔ مگر زمین تو کسی کو کھا کر ڈکار نہیں لیتی اور آسمان کو بھی آج تک کسی نے نگل کر اگلتے نہیں سنا تھا۔

    معاًعورت کو خیال آیا، کہیں وہی بھوت تو اس کو اٹھا کر نہیں لے گیا تھا۔۔۔؟

    علامات تو ساری وہی تھیں۔ جو کچھ مرد کے جسم اور آنکھوں میں لکھا تھا، وہ سب تو وہ اپنی زبان سے اس کو کبھی بتا چکا تھا۔ جو خیال کبھی اس کو اور مرد کو مضحکہ خیز لگتا تھا اور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا، وہ اب پوری طرح اس کے حلق سے بہت نیچے اتر گیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا کہ مرد ضرور اسی بلا کا شکار ہوا تھا جو وطن سے ساری سرحدوں کو پار کرکے یہاں تک آپہنچی ہے، وہ اب ساری دنیا میں پھیل سکتی ہے اور عجب نہیں کہ پھیل بھی گئی ہو۔

    سارے راستے بند دیکھ کر عورت نے اپنی ساری توجہ، یکسوئی کے ساتھ مرد پر مرکوز کرنے کی ٹھان لی۔ انہیں روٹی کے لیے زیادہ تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سوال صرف روٹی پر مکھن لگنے کا تھا، سو وقت ایسا آ پڑا تھا کہ مکھن سے لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا تھا۔ اس کا مرد گھر میں تھا، فی الحال یہی کافی تھا۔ دنیا اس کے گھر میں سمٹ آئی تھی۔ گو یہ دنیا مردہ بدست زندہ کے مصداق تھی، پھر بھی اس کی آنکھیں حرکت کرتی تھیں اگرچہ ویران تھیں، ہاتھ پاؤں سلامت تھے گو ان میں زندگی کے آثار معدوم تھے۔ وہ رات کو اپنے بستر پر چلا جاتا اور صبح اٹھ جاتا، البتہ کوئی اس کی نیند کے بارے میں نہیں جانتا تھا، نیند تو بند پلکوں کے اندر چھپی رہتی اور وہاں تک پہنچنا کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں تھی۔

    عورت کی بےپناہ خدمت اور ایثار کا نتیجہ کچھ کچھ سامنے آنے لگا۔ مرد کی کھلی پتلیوں میں کچھ ایسی حرکت ہونے لگی جس کو کچھ معنی پہنائے جا سکتے تھے۔ عورت کو اس میں مہارت حاصل تھی لہٰذا وہ آنکھوں کے اتار چڑھاؤ افسردگی اور مسرت کی لہروں کو گن کے رہ جاتی۔ اس کے لیے یہی بہت تھا کہ مرد اس کی آواز سن کر اس کی طرف گردن گھما دیتا یا آنکھیں گاڑ دیتا یا وہ دو ایک نوالہ اور کھانے کو کہہ دیتی تو اس کی درخواست کو رد نہیں کرتا۔ ادھر وہ ایک بات شدت سے محسوس کر رہی تھی کہ مرد سے کبھی کبھی کچھ ایسی اضطرابی حرکتیں سرزد ہو جاتیں جو بظاہر تو بے معنی لگتیں لیکن اس کو اس میں بےپناہ معنویت دکھائی دے جاتی۔ کبھی کبھی وہ بے تحاشہ دوڑ کر دروازہ بند کرنے لگتا، پہلے سے بند ہوتا تو وہ کنڈی چڑھا دیتا۔ بھاگ کر اندر کسی کمرے میں چلا جاتا اور دروازہ اندر سے بند کر لیتا اور اسی وقت کھولتا جب اس کی مرضی ہوتی، کبھی وہ مسہری یا کسی میز کے نیچے چھپنے کی کوشش کرتا، کبھی سوتے سوتے چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا۔ ایک بار تو اس نے ایک عجیب حرکت کی۔ عورت کو غسل کرنے میں کچھ دیر ہو گئی، باہر نکلی تو گھر کی دیواروں پر ٹنگے ہوئے سارے تغرے ایک تھیلے میں بندکونے میں رکھے تھے اور وہ خود بڑے اطمینان سے لیٹا خلاؤں میں تک رہا تھا۔

    عورت کو یقین ہو گیا کہ اس پر غیر معمولی تشدد کیا گیا ہے۔ دماغ سے لے کر تلوے تک، سارا جسم گویا ایک پھوڑا بن چکا تھا۔ تب اس کو خیال آیا کہ اس کو فوراً ڈاکٹروں کو دکھانا چاہیے۔ ڈاکٹر اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ابھی تک اس کا جانبر ہونا ان کے لیے تعجب خیز امر تھا۔ اس کا دماغ اور ہوش و حواس بالکل درست نہیں تھے۔ جسم کے زخم کسی طرح بھر بھی جاتے تو دماغ کو قابو میں لانا بہت مشکل تھا۔ یہ تو طے تھا کہ وہ کسی نامعلوم خوف میں مبتلا ہو گیا ہے۔ وہ سوچتی رہی، آخر یہ کون سی بلاہے جس کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں۔ وہ جب چاہتی ہے کسی کو اٹھا کے نامعلوم مقام پر لے جاتی ہے، اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، اس کی بھی جانکاری نہیں ملتی، اس کے بس کچھ نشان ملتے ہیں جن کے سہارے تھوڑی دور تک ٹامک ٹوئیاں مارا جا سکتا ہے۔ اسے یاد آیا، اس نے کچھ ایسے مقامات کے بارے میں سنا تھا جو سب کی نظروں سے دور خفیہ جگہوں پر ہوتے ہیں، وہاں مشتبہ لوگوں کو لے جایا جاتا ہے، ان پرغیر معمولی تشدد کے ذریعہ کچھ اگلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا، کیا مرد کسی مشتبہ کام میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اس کی شکل و صورت، چال ڈھال، رہن سہنا، ملنا جلنا وغیر ہ ایسا ہے کہ وہ خواہ مخواہ کسی کی نگاہوں میں چڑھ جائے۔۔۔؟

    اسکے ذہن کی تیز بہاؤ والی ندی میں طرح طرح کے بلبلے بنتے رہے، پھوٹتے رہے۔ دائرے بنتے جاتے ایک کے بعد دوسرا دائرہ، اس کے بعد تیسرا۔۔۔ لاتعداد دائرے۔۔۔ سبھی دائرے پانی کے بہاؤ میں غلط ملط ہو جاتے۔

    ذہن میں ابھرتے ڈوبتے سوالوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حالانکہ جواب تو بہرحال اسی کودینا تھا، سوالات اس کے اپنے تھے اوریہ سوال اس نے خود سے پوچھے تھے، کسی اور سے نہیں۔ اس کے سوالوں کے جواب اثبات میں بھی ہوتے توپھر وہ کیا کرتی۔۔۔؟

    نفی میں ہوتے، تب بھی کیا کرتی۔۔۔؟

    مرد کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، اس کے لیے وہ کسی کی گردن نہیں پکڑ سکتی تھی۔ پکڑنے پر قادر بھی ہوتی تو کس کا پکڑتی۔۔۔؟

    جن لوگوں نے اسے ایسے خفیہ مقامات کی جانکاری دی تھی، انہیں خود وہاں کا پتہ معلوم نہیں تھا۔ بتانے والا یقیناً وہاں کبھی گیا نہیں تھا۔ جو لوگ وہاں گئے تھے، وہ وہاں کا پتہ کیا بتاتے، وہ تو اپنے آپ کو بھی بھول گئے تھے۔

    سوچ و فکر کی بھول بھلیوں میں دیر تک بھٹکنے کے بعد بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ اسے تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس کا مرد گھر میں موجود ہے۔ وہ جیسا بھی ہو زندہ تو ہے۔ وہ جانتی تھی کہ بہت سے لوگ غائب ہو کر واپس بھی نہیں آئے۔ اسے وطن میں غائب ہونے والے بچوں کا خیال آیا جس کی جانکاری مرد ہی نے دی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ اسے تمام راستوں اور امکانات کو چھوڑ کر بس اسی لائن کو پکڑنا چاہیے کہ اس کے مرد کو بھی کوئی بھوت ہی اٹھا لے گیا تھا۔ اسی لائن پر چلنے میں راحت ہے۔ اس میں سب سے بڑی آسانی یہ ہے کہ اس کے سدباب کی بہت سی ترکیبیں ہیں، بھلے اس دیارغیر میں نہ ہوں، مگر اسے وطن جانے سے کون روک سکتا ہے۔

    اس کے تصور میں بڑے امام صاحب، موذن صاحب، درگاہیں، چلاکشی، وغیرہ وغیرہ کی تصویریں جھل مل کرنے لگتیں۔

    اس روز بہت دنوں کے بعد اسے سکون کی نیند آئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے