Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صدی کو الوداع کہتے ہوئے۔۔۔

مشرف عالم ذوقی

صدی کو الوداع کہتے ہوئے۔۔۔

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    (1)

    ’’لیکن اس کا حل کیا ہے؟‘‘

    پاپا کی آنکھوں میں الجھن کے آثار تھے، لہجے سے جذبات غائب۔۔۔ چہرہ ذرا سا سکڑ گیا تھا۔

    ماں کے رویے میں کھوکھلے قسم کی سختی تھی۔۔۔ ’’آنے والے مہمان کو آنے ہی نہیں دیا جائے۔۔۔ یعنی۔۔۔‘‘

    یہ ایک دو ٹوک فیصلہ تھا۔۔۔

    ’’لیکن کیا رِیا تیار ہو جائےگی۔۔۔؟‘‘

    پاپا کے ماڈرن ہونے کی آزمائش ابھی بھی برقرار تھی۔۔۔

    اچانک پیدا ہونے والی اس کشیدہ صورت حال میں الگ الگ سطح پر تینوں ہی جکڑ گئے تھے۔ ماں، پاپا اور رِیا!

    (2)

    رِیا ان بچیوں میں سے نہیں ہے جو کچھ دنوں پہلے تک عصمت چغتائی تک کی کہانیوں میں موجود ہوا کرتی تھیں۔۔۔ الہڑ، شرارتی، گڈے گڑیوں کا کھیل کھیلتی۔۔۔ دھاگے سوئی سے انگلیاں چھید لینے والی۔۔۔ ہوا کے دوش پر لہراتی اڑتی ہوئی۔۔۔ شا دی بیاہ میں میراثنوں کے بیچ ڈھولک پر تال دیتی ہوئی۔۔۔ کسی ننھے منے بچے کو گود میں لپکتی ہوئی، جس پر بڑی بوڑھیاں آواز بھی کستیں۔۔۔ ’’ارے، ابھی تو تم خود ہی بچی ہو، بچہ ہاتھ سے چھوٹ گیا تو۔۔۔‘‘

    مگر، اسی بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ رِیا ان بچیوں میں سے ایک ہے جو کچھ دنوں پہلے تک ہماری کہانیوں میں موجود ہوا کرتی تھیں۔ عصمت چغتائی تک کی کہانیوں میں۔۔۔ شرم سے آنچل کا کونا دانتوں میں دابے ہوئے۔۔۔ یا ہرنی کی طرح قلانچیں بھرنے والی۔۔۔ خرگوش جیسی نرم اور پھدکنے والی۔۔۔ ٹپ سے کسی بات پر آنکھوں میں آنسو لے آنے والی۔۔۔ چھت پر پتنگوں کے موسم میں پیچ لڑانے والی اور کسی پسند آ جانے والے لڑکے پر سو سو جان سے فدا ہونے والی۔۔۔ اسے چپکے چپکے تنہائی میں خط لکھنے والی۔۔۔ کسی کے آنے کی آہٹ سے ڈر جانے والی۔۔۔

    کیا رِیا کے بارے میں ایسا کہا جانا صحیح ہے۔۔۔؟ شاید نہیں (یہاں ایک قلم کار کی حیثیت سے میں اپنا اعتراض درج کرانا چاہوں گا)۔۔۔ رِیا، دادی نانی سے چپکی، طلسماتی کہانیاں سننے والی رِیا، نہیں ہے۔ یہ رِیا آج میں جنمی ہے۔ اس بدلے ہوئے وقت میں (اور بطور قلم کار پھر میں مداخلت کے لئے معافی چاہوں گا) کوئی وقت آج کی طرح نہیں ہے۔۔۔ اچھا برا کہنے والا میں کون ہوتا ہوں۔۔۔ لیکن ان تین کروڑ برسوں میں یا شاید جیسا اب ہے، کوئی رِیا خرگوش جیسی نرم اور ہرنی کی طرح قلانچیں بھرنے والی نہیں ہو سکتی۔۔۔

    (3)

    تب رِیا چھوٹی تھی۔ ایک سپنا دیکھا تھا اس نے۔ بہت سے گھوڑے ہیں اور ایک اندھیری سرنگ، گھوڑوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں۔ گھوڑے بے تحاشہ بھاگ رہے ہیں۔

    ’’میں نے ایسا کیوں دیکھا کہ گھوڑوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں؟‘‘ رِیا کی آنکھوں میں سوال تھے۔

    ’’کیا وہ گھوڑے اڑ رہے تھے؟‘‘

    ’’ہاں ہوا میں اڑ رہے تھے۔‘‘

    ’’خوب مضبوط تھے اور جوان تھے؟‘‘

    پاپا مسکراتے ہوئے اس کی طرف مڑے۔۔۔ کیوں کہ یہ تم تھیں رِیا۔ اتنا تیز مت بھاگو۔ گھوڑوں کی آنکھوں پر پٹیاں اس لئے بندھی تھیں کہ وہ سرنگ کی دیواروں سے ٹکرا نہ جائیں۔‘‘

    (4)

    وہ کالونیوں میں جنمے تھے اور اپنی تہذیب اپنے ساتھ لائے تھے۔ وہ ’’برانڈوں‘‘ کی دنیا سے تھے یا پیدا ہوتے ہی وہ برانڈ بن جاتے تھے۔ وہ اپنی اپنی چہار دیواری میں قید تھے یا کہنا چاہئے اپنے اپنے بیڈروم میں، اپنے اپنے ڈرائنگ روم میں، وہ .M.T.V. کلچر کے ساتھ اپنا سفر شروع کر رہے تھے۔

    مان لو کوئی کہتا ہے کہ۔۔۔ (جرمن ا دیب ہر من ہیسے کے لفظوں میں) ایک چڑیا انڈے سے جنم لینے والی ہے۔ انڈا کائنات ہے جو جنم لینا چاہتا ہے، اسے ایک دنیا کو تباہ و برباد کرنا پڑےگا۔

    قارئین! معافی چاہوں گا۔ اس کہانی کا انداز دوسری کہانیوں جیسا نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ جیسے ہم صرف اس بات سے مطمئن نہیں ہو سکتے کہ یہ دنیا بدل رہی ہے۔ صرف بدل رہی ہے، کہنے سے چڑیا اور انڈے کا وہ تصور سامنے نہیں آتا۔ اس لئے کہ چڑیا انڈے سے باہر نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور انڈا دنیا ہے۔ جنم لینے والے کو، اس دنیا کو توڑنا ہوگا۔

    اور جیسا کہ ہیسے نے ’’ڈیمیان‘‘ میں ’’سنکلیر‘‘ کو بتایا۔۔۔ پرانی دنیا کا زوال نزدیک آ رہا ہے۔ یہ دنیا نئی شکل لےگی۔ ا س میں سے موت کی مہک آ رہی ہے۔ موت کے بغیر کچھ بھی نیا نہیں ہوگا۔ جنگ ہو گی۔ تم دیکھوگے کہ چاروں طرف کیسا ہیجان بپا ہے۔ لوگوں کو مزہ آئےگا۔ یکسانیت سے اوب کر لوگ مار کاٹ شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دراصل نئی دنیا کی شروعات ہو چکی ہے اور یہ بات ان کے لئے بھیانک ہو گی جو پرانی دنیا سے چپکے ہوئے ہیں۔

    تو قارئین! یہ کوئی بہت مسرت انگیز خبر نہیں ہے۔ 31! دسمبر کی رات، جب ایک گھنا کہرا آسمان پر چھایا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اپنے اپنے کمروں، ہوٹلوں، بار اور ڈسکو تھیک میں بند لوگ نئے سال کے استقبال کے لئے جشن کی تیاری کر رہے تھے۔۔۔ بیسوی صدی کے اختتام کے اس گھنے کہرے نے مسٹر ارجن دتیہ کار اور ان کی ماڈرن بیوی رما دیتیہ کار کو یہ خبر سنائی تھی۔۔۔ کہ ان کی چودہ سالہ لڑکی رِیا ایک بچے کی ماں بننے جا رہی ہے۔

    (5)

    پہلے یہ ’’دنیا‘‘ ویسی نہیں تھی۔ ظاہر ہے، ہماری کہانی کی ہیروئن رِیا کے پاپا ارجن دیتیہ کار کو اس دنیا کے لئے جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ پہلے سب کچھ تھوڑا تھوڑا سا تھا ان کے پاس۔ تھوڑی سی آرزو، تھوڑی سی خواہش، تھوڑی سی زمین، تھوڑا سا آسمان، تھوڑا سا مذہب اور تھوڑا سا سوشلزم۔ پہلے تھوڑے سے سپنے تھے۔ پھر یہ یکایک بڑے ہونے لگے۔ ٹھیک ان کے نام کی طرح دیتیہ کار۔ کمپیوٹر کے چھوٹے چھوٹے پارٹ پرزوں سے اپنا کام شروع کیا تھا۔ ہاں، شاید اس سے پہلے تک ماضی کی ’’فلاپی‘‘ میں جو کچھ بھی تھا وہ ’’ڈیلیٹ‘‘ کیا جا چکا تھا۔ ہاں اس کے بعد نئے حالات اور نئے موسم نے جو ’’فلاپیاں‘‘ بنائی تھیں، مسٹر دیتیہ کار نے انہیں ذہن میں محفوظ کر لیا تھا۔ ایسی ہی ایک ’’فلاپی‘‘ میں مٹر نیلامبر بھی قید ہیں۔۔۔ مسٹر نیلامبر جو پی سی ایل کمپنی کے 486 ماڈل کمپیوٹر ماہانہ قسطوں پر بیچنے والی کمپنی میں کسی اہم عہدے پر فائز تھے اور رِیا کو ایک جگہ پارٹی میں دیکھ کر (ایسا دیتیہ کار کا خیال تھا) دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا یا کہنا چاہئے گھر میں بھی آنا جانا شروع کر دیا تھا۔۔۔ جو ابتدائی دنوں میں مسٹر دیتیہ کار کو پسند نہیں آیا تھا اور ان باتوں کو دیتیہ کار نے صرف اس لئے گوارا کیا تھا کہ نیلامبر کی دوستی سے انہیں اپنے بزنس میں فائدہ ملنے کی امید بندھ گئی تھی۔

    نیلامبر کی دوستی نے چاہے کچھ اور نہ کیا ہو، لیکن ان کے اندر دبے ہوئے خوابوں کی پھلجھڑی میں ماچس کی ایک چھوٹی سی جلتی تیلی سلگا دی تھی۔

    نیلامبر کی نو دولتیہ لوگوں سے دوستی تھی۔ وہ ان سے مل کر آتا تو کافی نئی نئی معلومات فراہم کرتا۔ جیسے۔۔۔ مصر کی سیر کرنا چاہئے، دریائے نیل میں کشتی بانی، جبل سینا پر چڑھائی۔ اسی سے معلوم ہوا کہ ’’ہوانا‘‘ سگار پینے کا ایک الگ ہی مزا ہے۔ ’’کوہبا‘‘ رومیو جولیٹ، بولیوا اینڈ پنچ جیسے برانڈ پیتے ہوئے کوئی بھی رئیس آپ کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔۔۔ جیسے نیویارک میں ’’بالتھ زار‘‘ میں لنچ یا ڈنر کرنا۔۔۔ یا پھر مین ہٹن کے مراقشی ریستوراں ’’چہ زادہ‘‘ میں اپنی من پسندچیزیں کھانا۔۔۔ مثلاً آپ کے پاس پرانی شراب ’’اسپرنگ بیک‘‘ ہو جو کسی بھی شوقین رئیس کو پسند ہو سکتی ہے اور پہناوے کے لئے ڈیزائز ٹوم فورڈ کے ڈیزائن کئے گئے بیگ، جوتے، پوشاک یا بیلٹ آپ کے پاس ہوں۔ یعنی نیلامبر کے پاس آئیڈیل کے روپ میں ایک ایسی زندگی تھی جسے دولت کی گھن گرج سے ہی خوبصورت بنایا جا سکتا تھا۔ مثلاً برادری میں رعب جمانا ہو تو بچوں کو لیزلس کے ذریعے سوئزرلینڈ کے ’’برویے‘‘ میں چلائے جانے والے شیوروں میں چھٹیاں منانے بھیج دیجئے۔۔۔ ہو سکے تو اپنی بیوی کو بھی۔۔۔ اور یہاں اپنی من پسند چاہنے والی کے ساتھ کسی بی ایم ڈبلیو یا Luxes بہت تیز رفتار ٹارگا کیرئیر پورش یایکس ایس فور ایکس اسٹن میں زندگی کے مزے لیجئے۔

    دیتیہ کار کو ان دنوں شک ہوا تھا۔ ’’کہیں تم نے بھی اپنی بیوی کو اپنے بچوں کے ساتھ۔۔۔‘‘

    نیلامبر ’’ہاہاہا‘‘ کر کے ہنسا ضرور لیکن دیتیہ کار کو نیلامبر کی آواز اتنی دبی دبی اور مرجھائی لگی جیسے اسی کے الفاظ میں، کسی نو دولتیہ کے ’’بنکاک یا سویس‘‘ میں رکھے کھاتوں کے بارے میں سی بی آئی کو جانکاری مل گئی ہو۔۔۔ دوسرے الفاظ میں کرسٹل کا رابکارا (جواریوں کے ذریعے کھیلے جانے والے تاش کے پتوں کا کھیل)میں بازی ہاتھ سے نکل گئی ہو۔

    شروع شروع میں دیتیہ کار کو احساس جرم سا ہوا تھا۔۔۔ یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا ہے۔ وہ بار بار یہاں کیوں آتا ہے؟

    ’’تمہیں کیا الجھن ہے۔۔۔؟ رَما کسی ماہر نفسیات کی طرح مسکرائی تھی۔ اس کا ہر لفظ نپا تلا تھا۔‘‘

    ’’تمہیں بس مجھ پر شک نہیں کرنا چاہیئے۔ وہ اگر بےوقوف ہے، تو اسے روکنے کی بے وقوفی تمہیں نہیں کرنی چاہئے۔ اب جو زندگی تمہارے حصے میں آ رہی ہے، وہ پہلے تمہارے پاس نہیں تھی۔۔۔ میری بات سمجھ رہے ہونا۔۔۔ اور اس تبدیلی میں تھوڑا سا ہاتھ اس سن آف بچ نیلامبر کا بھی رہا ہے۔ وہ ہر بار کچھ نہ کچھ دے ہی جاتا ہے۔۔۔ ہیرے، زیورات۔۔۔ اور بدلے میں اگر تمہاری بیوی کی تعریف کرتا ہے تو سنو دیتیہ کار! مکمل طور سے بزنس مین بنو۔ اِف یو وانٹ تواچیوسم تھنگ ان لائف۔۔۔ کچھ باتوں کو رد کرنا سیکھو۔۔۔‘‘

    اچھی یا بری، صحیح یا غلط، جو بھی ہو۔ اس حادثے کے بارے میں جو اندازے لگائے جا رہے تھے اس کی شروعات اسی ’’منطق‘‘ سے ہوئی تھی یا نیلامبر کے لفظوں میں نیویارک کی کسی بھیڑ بھاڑ والی سڑک پر رش ڈرائیونگ کرتی اس کی گاڑی اچانک ایک ساتھ بہت سی گاڑیوں سے ٹکرا گئی تھی۔

    (6)

    بچپن میں وہ رِیا سے کسی بات پر ناراض ہو جاتا تو رما اسے خاموش کر دیتی۔۔۔

    ’’بچوں کو ایک آزاد دنیا چاہئے۔ اس چھت کے نیچے۔‘‘

    دیتیہ کار خاموش ہو گیا۔ لیکن رِیا کو دی جانے والی آزاد دنیا کے پیچھے اسے بار بار یہ احساس ہوتا رہا کہ اس کی اپنی دنیا چھن رہی ہے۔۔۔ یا یہ کہ سب کی الگ الگ دنیا بن رہی ہے۔۔۔ اس کی رِیا کی اور رَما کی۔۔۔ کبھی دیکھتا، ننھی منی رِیا تیز میوزک سسٹم پر ایروبکس کرنے میں مصروف ہے۔ یا کسی کمرے میں نیلامبر، رما کو گپ چپ کچھ سمجھانے میں لگا ہے اور ایک بہت سمجھ دار بیوی کی طرح رما، اسے روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

    ہم آگے بڑھتے ہیں تو اس سے بھی آگے نکل جاتی ہیں ہماری خواہشات۔

    یہاں یک لا محدود کائنات تھی جو رما کی آنکھوں میں سمائی ہوئی تھی۔ گلیمر سے بھر پور، وہ رِیا کے سامنے ہوتی تو دیتیہ کار کو ڈرسا لگتا کہ وہ رِیا کو کچھ سپنے دکھا رہی ہوگی یا خود سپنے دیکھ رہی ہوگی۔۔۔ آنکھوں میں اتری ہوئی ایک اندھیری سرنگ اور ہنہناتے، آنکھوں پر پٹی باندھے، دوڑتے گھوڑے۔۔۔

    دیتیہ کار کو رِیا کا وہ سپنا ہمیشہ یاد رہا۔۔۔ ہاں، گھوڑوں کے صرف تصور سے ہی وہ بار بار، جوناتھن سوفٹ، کے گھوڑوں سے موازنہ کرنے لگتا۔۔۔ تم ہو کیا انسان! یہ تمہارے دبلے پتلے ہاتھ پاؤں۔۔۔ مجھے دیکھو۔۔۔ دیو تاؤں کی سواری۔۔۔ گھوڑا کسی حکمراں کی طرح۔ غلام و محکوم انسان کے سامنے فخر سے تن گیا تھا۔۔۔ دیتیہ کار کو احساس ہے کہ گھوڑوں کے مقابلے میں انسان کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک لاچار بدقسمت، سپنوں پر منحصر رہنے والا۔

    نیلامبر ہنستا ہوا کہتا ہے۔۔۔ ’’ہم ریموٹ کلچر کے لوگ ہیں۔ گھر میں بہت سے لوگ ہیں تو سب اپنے اپنے پروگرام الگ الگ چینلوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ سونی پر پروگرام پسند نہیں آیا تو ریموٹ کا بٹن دبا کر ZEE لگا دیا۔ زی پسند نہیں آیا تو .M.T.V ’’اسپورٹ‘‘ .V.T.V اور۔۔۔ ریموٹ تو ہے نا۔۔۔ شوہر پسند نہیں آیا تو شوہر بدل دو۔۔۔ بیوی پسند نہیں آئی تو۔۔۔‘‘

    ’’بچوں کا کیا کریں۔۔۔ ریموٹ سے بچے نہیں بدلے جا سکتے؟‘‘

    دیتیہ کار پوچھتا ہے۔ نیلامبر اچانک چپ ہو جاتا ہے۔۔۔

    (7)

    مگر نہیں، ارجن دیتیہ کار کی یہی مجبوری ہے۔۔۔ وہ سسٹم کے ساتھ بھی رہتا ہے اور قدم قدم پر اسے ریجیکٹ بھی کرتا رہتا ہے۔ سسٹم کا ساتھ نہ دے تو اندھیرا ہے اور سپنوں میں ہنہنانے والے گھوڑے کسی اندھی سرنگ میں کھو جاتے ہیں۔۔۔ ساتھ دینے پر مجبور ہے تو۔۔۔ کچھ کچھ اندر سے ٹوٹتا ہے۔۔۔ یعنی ایک سطح پر یا جس سطح پر وہ سسٹم کو منظوری دیتا ہے وہیں اس کی مخالفت میں اپنے ضمیر کا قتل بھی کرتا ہے یا قتل کی کوشش۔ دراصل وہ ایک زندگی (ہم اسے اذیت سے بھر پور نہیں کہیں گے) گزارنے کے لئے مجبور ہے۔۔۔ جدوجہد کی قوت اس میں نہیں ہے۔

    جیسا کہ دیتیہ کار نے سوچا تھا، اپنی جدوجہد کے دنوں میں ایک رومانی دنیا۔۔۔ ایک خوبصورت زندگی۔۔۔ اور اس لئے سوچا تھا، کہ تب تک بند بند سے قصباتی ماحول میں بھی، تنگی اور بندشوں کے باوجود، پوری طرح محبت کے لئے وقف ایک حسین کائنات ہوا کرتی تھی۔۔۔ دکھ سکھ کا سنگم اس کے والدین، پھر ان کے والدین پھر ان کے اڑوس پڑوس، چاچا چاچی، تاؤ۔ زندگی کے دامن میں رومانی نظمیں یوں پسری ہوتیں جیسے آسمان میں تارے۔۔۔

    تب سورج، سورج تھا۔ زمین، زمین تھی۔ آسمان، آسمان تھا۔ تب چاند کی چاندنی چھٹکی ہوتی تھی۔۔۔ تاروں ستاروں کی فسوں خیز کہانیاں ہوا کرتی تھیں۔۔۔ پیڑوں کے نیچے فطرت یا فضا کی نرم آغوش ہوا کرتی تھی۔۔۔ چھت پر پلنگیں بچھی ہوتی تھیں۔۔۔ ان پلنگوں یا کھاٹوں سے قصوں داستانوں کا میل ہوتا تھا۔۔۔

    تب پھول تھے، خوشبو تھی۔۔۔ تب جذبات بھی تھے۔۔۔ تب دکھ اور سکھ کا فطری احساس تھا۔۔۔ اور اب۔ اس کالونی کلچر میں، ایک دروازے سے ٹکراتے دوسرے دروازے۔۔۔ دوسرے سے تیسرے۔۔۔ ان ہزاروں دروازوں میں سے کوئی چاند نہیں جھانکتا۔ کوئی چاندنی رات، تاروں بھرا قافلہ۔۔۔ کھاٹوں پلنگوں سے جنم لینے والی بے باک داستانیں۔

    دیتیہ کار کو لگتا ہے۔۔۔ بچوں سے فطرت یا فضا نہیں، زندگی چھن گئی ہے۔ وہ بچے تھے تو بچوں جیسا سوچتے تھے۔ بچے جیسے نظر آتے تھے مگر کیا۔۔۔ رِیا کو آپ بچہ کہیں گے؟

    ’’رِیا ابھی بھی بچی جیسی نظر آتی ہے؟‘‘ رَما کی آنکھوں کے کنول مرجھا گئے تھے۔

    ’’بچی ہے تو بچی جیسی ہی۔۔۔‘‘ لیکن دیتیہ کار 12سالہ رِیا کو دیکھتے ہوئے ڈر گئے تھے۔۔۔ نہیں، رِیا تو جوان ہو گئی ہے۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ رما کے لہجے میں کرختگی تھی۔۔۔ ’’میں یہی کہہ رہی ہوں کہ۔۔۔ اسے بچی جیسی نہیں دیکھنی چاہئے۔‘‘

    ’’لیکن کیوں؟‘‘ دیتیہ کار کے لہجے میں ڈر کوند گیا تھا۔

    ’’کیوں کہ بچی لگنے میں اس کا نقصان ہے۔ اس کا کیریر، اس کا مستقبل؟‘‘

    دیتیہ کار کے اندر بیٹھے باپ نے مورچہ سنبھالا۔۔۔

    ’’بارہ سال کی عمر کے بچے پڑھتے ہیں۔ بارہ سال میں مستقبل کہاں سے آ گیا؟‘‘

    ’’اس لئے کہ۔۔۔‘‘ رَما کے ہونٹ جکڑ گئے تھے۔۔۔ ’’جو غلطی ہم سے ہوئی ہمارے بچوں سے نہیں ہونی چاہئے۔۔۔ اس لئے کہ یہی عمر ہے جب۔۔۔‘‘

    دیتیہ کار ڈر گیا تھا۔

    ’’ڈرو مت۔ میں جوکروں گی، رِیا کی بھلائی کے لئے کروں گی۔‘‘

    ’’لیکن تم کرو گی کیا؟ کیا رِیا کو جوان کر دوگی۔۔۔ اس کے مستقبل کے نام پر۔۔۔؟‘‘

    دیتیہ کار کو لگا تھا کہ رما کو اس طنز پر ہنسنا چاہئے، مگر رَما سنجیدہ تھی۔

    ’’ہاں، میں اسے جوان کر دوں گی۔۔۔‘‘

    ’’پاگل ہو گئی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔ میں رِیا کو ہارمونس کے انجکشن دلاؤں گی۔‘‘

    دیتیہ کار تبھی چونکا تھا۔ جب پہلی بار رما نے گلیمر ورلڈ کا نام لیا تھا۔ ماڈلنگ، کم عمر اداکاراؤں کی بے باک زندگیاں۔۔۔ ایک بار نیلامبر نے ہنستے ہنستے پوچھا تھا۔ فلمی دنیا کی اکثر ہیروئنیں اپنے باپ اور باپ کا گھر کیوں چھوڑ دیتی ہیں؟ ہنستے ہنستے نیلامبر نے تازہ تازہ ممتا کلکرنی کی مثال پیش کی تھی۔ دیتیہ کار کو لگتا ہے باپ اپنی اپنی قوت برداشت کا امتحان دیتے دیتے ہار جاتے ہوں گے۔ پھر یہاں تو باڈی فٹ نیس، ذہانت اور کھلے پن کا ہر راستہ گلیمر ورلڈ تک جاتا تھا۔ بیوٹی کوئنز، مس انڈیا، مس ورلڈ، مس یونیورس۔۔۔ دنیا کے سامنے بیٹی کا کھلا ہوا جسم اور ننگی ننگی پنڈلیوں پر نظر ڈالتے ہوئے ماں باپ کو یقیناً فخر ہوتا ہوگا۔

    (8)

    یہ انہی دنوں کا حادثہ ہے، جب نیلامبر کو اونچا اڑتے اڑتے اچانک ٹھوکر لگی تھی۔۔۔ نیلامبر کی کمپنی اپنے پروڈکٹس کی مانگ گھٹنے سے پریشان ہو رہی تھی۔ فیصلہ یہ لیا گیا کہ خسارے میں چلنے والی کمپنی ہی کیوں نہ بند کر دی جائے۔ اس سے موٹی تنخواہ پانے والے نیلامبر جیسے ایگزیکیوٹیو اچانک ہی ریٹائر کر دئے گئے۔

    جیسے اچانک بلندی سے گر کر زمین پر آنے کا احساس ہوتا ہے۔ اس دن نیلامبر کے ہونٹوں پر ایک طرح کی کپکپی تھی۔۔۔

    ’’اسے روکو۔۔۔ وہ بہت تیز اڑ رہی ہے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن اب۔۔۔ شاید دیر ہو چکی ہے۔۔۔‘‘ یہ دیتیہ کار نہیں ایک لاچار باپ کا لہجہ تھا۔۔۔‘‘

    ’’کچھ کرو۔۔۔ نیلامبر کا لہجہ خوف زدہ تھا۔۔۔ انجانے میں اس لڑکی نے اپنے لئے ایک گیس چیمبر چن لیا ہے۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا۔۔۔ اس کا دم گھٹ جائےگا۔ پہلے ڈسکو تھیک، پھر بار، ہارمونز کے انجکشن۔۔۔ رِیا کا اگلا پڑاؤ، کنڈوم بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ اسے روکو۔۔۔‘‘

    دیتیہ کار کے اندر ایک ایسی بے کیف اداسی چھائی ہوئی تھی جسے توڑنے کے لئے یہ سخت لفظ ’’کنڈوم‘‘ بھی کارگر نہیں تھا۔۔۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس لبرل ازم یا صارفیت نے تو رِیا کو ہارمونز کا انجکشن لینے سے پہلے ہی جوان بنا دیا تھا۔

    وہ سب کچھ آنکھ موند کر دیکھنے کو مجبور تھا۔ یہ بھی کہ پرانی دنیا کا زوال ہو رہا ہے۔ چڑیا انڈے سے باہر نکلنے کے لئے جد و جہد کر رہی ہے۔۔۔ اسے موت کی بو آ رہی تھی۔۔۔ موت کے بغیر کچھ بھی نیا نہیں ہو گا۔۔۔ لوگوں کو جنگ سے تحفے میں ملا ہیجان چاہئے۔ ہیجان۔۔۔ سنسنی۔۔۔ شاید نئی دنیا کی شروعات ہو چکی ہے۔۔۔ اور یہ شروعات ان جیسوں کے لئے بھیانک ہے۔ جواب تک پرانی دنیا سے چپکے ہوئے ہیں۔۔۔

    (9)

    اس اثنا میں کئی معمولی قسم کے چھوٹے چھوٹے حادثات ہوتے رہے۔۔۔ جیسے ’’ماڈلنگ‘‘ کے لئے رما نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔۔۔ جیسے نیلامبر نے دھیرے دھیرے گھر آنا بند کر دیا۔۔۔ جیسے ریا چپ چاپ رہنے لگی۔ لمبی گہری اداسی، جو کسی صدمے سے جنمی ہو یا جو ڈپریشن کے مریضوں کے لئے عام بات ہے۔۔۔ اس لمبی گہری اداسی کے پیچھے وہ مسلسل رما کی شکست دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ دنیا گول ہے لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ رما عورت کی جون میں کبھی واپس بھی آ سکتی ہے۔۔۔ یا تو یہ مکمل شکست تھی یا پھر اس حادثے کا وہ آخری ورق۔۔۔ جہاں نیند کی کئی گولیاں نگل کر رِیا نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔۔۔

    تو کیا چڑیا انڈا توڑ کر باہر نکل آئی تھی۔۔۔؟

    یہ ارجن دیتیہ کار کے لئے عرفان ذات کا وقت تھا۔ لیکن ابھی ایک لرزہ دینے والا منظر باقی تھا۔ رِیا کو ہوش آ چکا تھا تاہم اس کی میڈیکل رپورٹ ابھی آنا باقی تھی۔۔۔ لیکن اس میں کیا نکل سکتا ہے، یہ رما کی آنکھوں میں پڑھا جا سکتا تھا۔۔۔ سارے گھر میں جیسے یکایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی تھی۔ ایک دھند تھی جس نے چہروں کے درمیان انجانے پن کی دیوار اٹھا دی تھی۔۔۔ ایک چیخ گونجی۔۔۔ کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ دیتیہ کار اور رما بھاگتے ہوئے آئے تو۔۔۔ سامنے۔۔۔ اپنے دروازے پر رِیا کھڑی تھی۔۔۔ کپڑے تار تار۔۔۔ آنکھیں انگاروں کی بارش کرتی ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں آدھی ٹوٹی ہوئی سوڈا واٹر کی بوتل تھی۔۔۔ چہرے پر ایک عجیب طرح کا تناؤ جو غصہ سے جنما تھا۔ رِیا بہت زور سے چلائی۔

    ’’کیا جاننا چاہتے ہیں آپ لوگ۔۔۔ زیادہ تنگ کریں گے تو۔۔۔‘‘

    دیتیہ کار جانتے تھے۔ فلمیں اور فلموں کا تشدد قدرتی انداز میں بچوں کے ذہن پر اپنا اثر ڈالتے رہے ہیں۔ سرد کہرے میں جیسے ان کے جذبات بھی سرد ہو رہے تھے۔ تب ایک دن بعد نئے دن کی شروعات ہونے والی تھی۔۔۔ یا پرانے سال کے آخری دن انہیں ایک چونکانے والی خبر ملنے والی تھی۔

    یا۔۔۔ ایک نئی شروعات کی چڑیا کو انڈا توڑ کر باہر نکلنا تھا۔

    (10)

    کیسے ہوا یہ سب؟

    دیتیہ کار سوالوں کے اندر جاتے جاتے ٹھہر جاتے۔ کیا یہ سب اس وقت کے اندھیرے کا سچ ہے، آزادی کے وقت کی آئیڈیلزم، لوہیا کا سوشلزم۔۔۔ پھر یہ ’’ازم‘‘ کتنے طبقاتی گروہوں میں بٹا تھا۔ مادہ پرستی، کنزیومر ازم، گھوٹالہ واد۔ کہیں ایک لبرازم کی اینٹ بھی رکھ دی گئی۔۔۔ کیا کہیں گے ہم اس نسل کو۔۔۔ M.T.V. کنڈوم نسل۔۔۔ عدم تحفظ کے جذبات میں اسیر، باہر باہر آزادی کے لطف کا ناٹک کرتے ہوئے۔ اندر اندر گہری اداسی میں ڈوبے، تناؤ میں۔۔۔ ستم رسیدہ۔۔۔ جیسے کسی بھیانک دھوکہ دھڑی کے شکار ہوئے ہوں۔۔۔ یا جیسے خود کو غیرمحفوظ کر رہے ہوں۔ مگر کس سے۔۔۔ ایک مفرور یا مہاجر کلچر میں رچے بسے بچے۔۔۔ اس تناؤ سے نجات پاتے ہیں تو اگلے قدم پر جرم راستہ روکے ہوئے ملتا ہے۔۔۔ رِیا کی وہ خونی آنکھیں۔۔۔ وہ مضبوط نہیں، وہ تو بہت کمزور ہیں۔۔۔ لمحے میں خود کشی جیسے فیصلوں میں زندگی کا مفہوم ڈھونڈنے والے۔ شخصی تشدد کے شکار۔۔۔ آنکھوں میں جنون لئے، کسی بھی طرح کے ہیجان کے نام قربان ہو جانے والی نسل۔۔۔ لیکن اس نسل کو، اس سمت میں لانے والا کون ہے؟ ہر نسل اپنے پہلے والی نسل سے کچھ نہ کچھ اثر لینے پر مجبور ہے، تو کیا دیتیہ کار کے باطن کا وہ سیکولر اور لبرل کردار والا شخص صرف ایک علامت اور متھ تھا، جس کا اثر لے کر ریا مجبوراً ان اوراق کو لکھنے پر مجبور ہوئی ہے۔۔۔ گھوڑے ہنہنا رہے ہیں۔۔۔ گھوڑوں کی آنکھوں پر بندھی پٹیاں کھل رہی ہیں۔۔۔ گھوڑے دور تک پھیلی اندھیری سرنگر کی دیواروں سے ٹکرا سکتے ہیں۔۔۔

    (11)

    ۳۱/ دسمبر۔۔۔ گھرسے باہر دور تک کہرے کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ بہت کم وقت بچا تھا، نئے سال کے آنے میں۔۔۔ لیکن کبھی کبھی باہر سے پٹاخوں کی آواز آ جاتی۔ یہ ختم ہوتی ہوئی بیسویں صدی کو الوداع کرنے کی آواز تھیں۔۔۔ یا نئے سال کے استقبال کی تیاری۔ ایک صدی گھنے کہرے میں چھپ رہی تھی۔ ایک نئی صدی گھنے کہرے سے جنم لے رہی تھی۔۔۔ میڈیکل رپورٹ ایک نئے جنم کی کہانی لے کر آ گئی تھی۔

    ’’وہ۔۔۔ ابھی بچی ہے۔‘‘

    ’’تم نے اسے ہارمونز کے انجکشن لگائے تھے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن۔۔۔ وہ۔۔۔ ابھی بچی ہے۔۔۔‘‘

    سردی سے دانت کٹکٹائے۔۔۔ باہر کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ نئے سال کے آنے کے باوجود ایک لرزہ دینے والا سناٹا۔۔۔

    ’’اب کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ رما کے ہونٹ تھرتھرائے تھے۔۔۔

    ’’اس سے پہلے بھی اس کے بارے میں ہر فیصلہ تم نے کیا ہے۔۔۔ اس لئے۔۔۔‘‘

    ’’تمہارے اندر فیصلہ لینے کی قوت نہیں تھی۔۔۔‘‘

    ’’یا۔۔۔ میں اپنی بچی کو ہارمونز کے انجکشن نہیں لگوا سکتا تھا۔‘‘

    ’’میری آنکھوں میں سپنے پل رہے تھے۔ میرا بھی شوق تھا کہ دوسروں کی طرح اپنی بچی کو ٹیلی ویژن یا پردے پر دیکھوں۔‘‘

    ’’پھر یہ خیال کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

    ’’کیونکہ۔۔۔‘‘ رما کا لہجہ برف ہو رہا تھا۔ ’’وہ مجھے آدمی نہیں لگا۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔ وہ بھی آدمی تھا ہماری تمہاری طرح۔۔۔‘‘ دیتیہ کار کچھ سوچ کر اداس ہو گیا ہے۔۔۔ اس کمپیوٹر کی طرح بے کار اور بے قیمت جس سے اچھا پروڈکٹ مارکیٹ میں آ چکا تھا۔

    (12)

    باہر پٹاخے چھوٹنے شروع ہو گئے ہیں۔۔۔ شاید سال نو کی آمد قریب ہے۔۔۔ وہ جانتا ہے باہر کڑاکے کی سردی کے باوجود ہمیشہ کی طرح بچے، جوان مسرت اور گرم جوشی کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہوں گے۔۔۔ یا اپنے اپنے گھروں میں گھڑی کی سوئیوں کے جڑنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔ رما چپ ہے۔۔۔ وہ ایک عجیب سی سرگوشی سن رہے ہیں۔ ابھی اور بھی انقلاب باقی ہیں۔ آنے والے کچھ برسوں میں بایو ٹکنالوجی اور جینٹک انجینئرنگ کی سمت میں ہونے والے انقلاب۔۔۔ شاید اگلے پڑاؤ کے طور پر، ہم نینو تکنالوجی کے عہد میں داخل ہو جائیں۔ جراسک پارک کے ڈائناسور سے بھی زیادہ بھیانک ایک نئے عہد کی شروعات۔۔۔ ہر قدرتی اور فطری چیز کی آپ ایک نقل بنا کر رکھ سکتے ہیں۔۔۔ جیسے پیڑوں کی بایوٹک نقل۔۔۔ ایک مائیکرو درخت یا ماحولیاتی اثرات آپ اپنے کمرے میں لاسکتے ہیں۔

    وہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتا ہے۔۔۔ لگاتار ہونے والے انقلاب نے ہمیں ’’بونسائی‘‘ بنا دیا ہے۔۔۔

    ’’لیکن اس کا حل کیا ہے؟‘‘

    رما اس کے چہرے پر نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔۔۔ ’’رِیا کے بارے میں تم نے کیا فیصلہ کیا۔۔۔؟‘‘

    مگر شاید اب وہ کچھ بھی سوچ پانے کی حالت میں نہیں ہے۔ گھڑی کی سوئی ایک دوسرے سے جڑ گئی ہے۔ باہر پٹاخے چھوٹنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ وہ کسی روبوٹ کی طرح اپنی جگہ سے اٹھ کر گیٹ کی طرف بڑھتا ہے۔ دروازہ کھولتا ہے۔ شاید نئے سال کے خیر مقدم میں یا بیسویں صدی کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنے کے لئے۔۔۔ باہر کی کڑکڑاتی ہوئی ٹھنڈک۔۔۔ آنکھوں کے آگے دور تک بچھی ہوئی کہا سے کی چادر۔۔۔ دور تک دھواں۔۔۔ دھواں، کچھ بچوں کے ہنسنے، قہقہہ لگانے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں۔۔۔ شاید وہ آپس میں ناچ گا رہے ہوں۔ آتش بازیاں چھوڑ رہے ہوں۔

    مگر دیتیہ کار۔۔۔ سردی نے جیسے اپنی جگہ پر انہیں جکڑ دیا ہے۔۔۔ چڑیا انڈا توڑ کر باہر نکل آئی ہے۔ یا پھر۔۔۔

    بغیر پٹی کے، سرنگ میں دوڑنے والا گھوڑا دیواروں سے ٹکرا کر لہو لہان پڑا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے