سائبان
تمہارے لیے رشید احمد صاحب کا پیغام آیا ہے خالہ نے نوشابہ کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ نوشابہ نے یہ سنتے ہی خالہ مدیحہ کو سر اٹھا کر قدرے حیرت مگر غور سے دیکھا۔ جی، کیا کہا آپ نے؟ میں یہ کہہ رہی ہوں بیٹی کہ رشید احمد صاحب تمہارے خواہاں ہیں۔
ایک لمحے کی خاموشی کے بعد نوشابہ نے کچھ بولنا چاہا لیکن بیچ میں خالہ نے وضاحت کی۔ میرا دل تمہیں دیکھ کر بہت کڑھتا ہے بیٹی کہیں آتی جاتی نہیں ہو دن بھر گھر میں تنہا پڑی رہتی ہو اس طرح تو زندگی کی دیوار میں گھن لگ جائے گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے تم اب بہت تنہائی محسوس کرتی ہوگی؟ بیوگی کی زندگی کب تک گزاروگی؟ ابھی تم جوان ہو تنہائی تمہیں کاٹ کھائے گی؟
یہ سنتے ہی نوشابہ کے دل پر ایک قیامت گزر گئی اس نے خشمگیں لہجے میں کہا اس سلسلے میں آپ مجھ سے کیوں بات کر رہی ہیں، کیا میں نے آپ سے کبھی کہا کہ میں دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہوں؟ اماں حیات سے ہیں پہلے ان سے بات کیجئے۔ مجھ ابھاگن میں کیا رکھا ہے جو رشید احمد خان کا دل مجھ بدنصیب بیوہ پر آ گیا۔ یہ کس قماش کے مرد ہیں؟ یہ کہتے کہتے نوشابہ کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو گرنے لگے۔
اسے گھبراہٹ پریشانی اور برہمی کا احساس بار بار ہو رہا تھا۔ زندگی نہ ہوئی کوئی تماشہ ہو گئی؟ کیا عورت کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا؟ کیا اس نے اپنے تئیں اچھا برا سوچنے کا حق کھو دیا ہے؟ کیا وہ اکیلی زندہ نہیں رہ سکتی؟ کیا زندگی ہر لمحہ مرد کی ہی محتاج ہوتی ہے؟ عورت کوئی کھلونا نہیں کہ جو آئے کھیلے اور چلتا بنے؟ کیا مردوں کا دل بہلانا ہی اس کا کام رہ گیا ہے؟
تبھی اماں حجرے سے نکل کر برآمدے میں وارد ہوئیں۔ نوشابہ نے اماں کو دیکھ کر اٹھنا چاہا لیکن اماں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بیٹھا لیا وہ ایک لمحے کو چونکی، لیکن پھر بیٹھ گئی۔ نسبت کے تعلق سے اماں کی پہلے ہی بہن سے تفصیلی گفتگو ہو چکی تھی۔ انہیں نوشابہ سے کہنے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے انھوں نے بہن کو سمجھانے پر لگا دیا۔ اماں کے چہرے پر سکون اور بشاشت کے آثار نمایاں تھے۔
تھوڑے وقفے کے بعد اماں نے بہن کو دوبارہ بات کرنے کا اشارہ کیا۔ خالہ نے بات دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا۔ رشید احمد نے اپنی والدہ کی معرفت تمہارے سلسلے میں مجھے خاص طور پر بلوایا تھا۔ حالات کے مارے بیچارے رشید احمد خان! اللہ کسی کو آزمائے تو سب کچھ چھینتے دیر نہیں لگتی۔ بیوی اولاد زر زمین جائیداد لیکن سب کچھ لٹنے کے بعد بھی ان کے پاس بہت کچھ ہے۔ بیوی کی بیماری میں لاکھوں روپے خرچ ہوئے ایک مکان بک گیا کھیت کھلیان بھی کنارے لگے لیکن بیچاری اس موذی مرض سے جانبر نہ ہو سکی۔ انھوں نے علاج و معالجہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ خدا اسے جنت الفردوس میں مقام بلند عطا کرے کہتے کہتے خالہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
نوشابہ نے تلخی سے منھ بنا کر کہا۔ میرے شعور اور تحت الشعور میں ان کی محبت جاگزیں ہے۔ میرا حافظہ ان کی یادوں سے پر ہے۔ اب اس دل میں کچھ اور یاد رکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ میں اپنے بستر پر اب مزید کوئی شکن برداشت کرنے سے خائف ہوں۔ میں کسی ایسے مستقبل کا تصور بھی نہیں کر سکتی جس کی یادیں ان کی یادوں کے ساتھ گڈمڈ ہو جائیں۔
خالہ نے پوری بات غور سے سننے کے بعد ملتجیانہ لہجے میں کہا۔ عورت کی زندگی میں مرد ایک سائبان ہے بیٹی۔ مرد کا تصور ہی عورت کو طاقت عطا کرتا ہے۔ زندگی دوڑتی بھاگتی نظر آتی ہے۔ صرف یادوں سے زندگی نہیں گزرتی۔ مرد کے آنکھ موندتے ہی کتنے اپنے کہے جانے والے نظریں پھیر لیتے ہیں۔ ان سب کی نگاہوں میں غیریت کا پردہ پڑ جاتا ہے۔ اس بات کو وقت رہتے سمجھ میری لاڈلی وقت کی پکار کے آگے لبیک کہنا سیکھ۔ بیواؤں کو معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
چند لمحے کو ماحول پر سکوت کی کیفیت طاری رہی۔ نوشابہ کو خالہ کی بات اچھی لگی۔ ان کی باتوں میں خلوص اور ہمدردی شامل تھی اور بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پر مکمل متانت اور سنجیدگی تھی۔ لیکن ایک عورت کے لیے از سر نو کسی دوسرے مرد کے ساتھ زندگی شروع کرنے کا تصور ہی اسے مضحکہ خیز اور ڈراونا معلوم ہوتا تھا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے سرگوشی کے لہجے میں کہا ان کی پہلی بیوی کو کیا ہوا تھا؟
خالہ نے نوشابہ کے چہرے پر نظر جمایا۔ نوشابہ کے سوال پر انہیں امید کی ایک کرن نظر آئی۔ کہنے لگیں ان کی بیوی کو کینسر تھا کچھ دن ہوا اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بیماری کا کوئی پتہ ہے بیٹی جیتی جاگتی عورت کو سال بھر میں چٹ کر گئی۔ ڈاکٹر موا خان صاحب سے پیسے اینٹھتا رہا، لیکن اس ابھاگے کے علاج سے مرحومہ کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا، خدا اسے غارت کرے۔ اب کوئی اولاد بھی نہیں ہے ایک بچہ تھا وہ بھی چند ماہ ہوئے فوت ہو گیا۔
خالہ نوشابہ کے اور قریب ہوتی ہوئی بولیں۔ عورت کے لیے مرد کا وسیلہ ایک چھت کی مانند ہے بیٹی مرد اس کی جوانی کی پناہ اس کی عزت و آبرو کا رکھوالا اور اس کے بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے۔ ابھی تیری عمر ہی کیا ہے؟ تمہاری عمر کی کتنی بچیاں اب تک اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی ہیں۔
نوشابہ کی جانب سے رضامندی کی تصدیق ہونے کے گمان سے خالہ کی آنکھ فرط راحت سے بند ہونے لگی پھر انھوں نے نوشابہ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا خاندانی لوگ ہیں شریف گھرانہ ہے پھر نظریں بہن کی طرف پھیر کر بولیں تم چاہو تو ایک بار مل لو ماشاء اللہ اچھی حیثیت ہے.
نوشابہ نے بیچ میں بات کی کڑی کو توڑتے ہوئے اور جھنجھلاتے ہوئے کہا مجھے اس تفصیلات کی چنداں ضرورت نہیں۔ اچانک اسے کچھ الجھن اور اکتاہٹ سی ہونے لگی۔ خالہ کچھ اور کہنا چاہتی تھیں لیکن انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہا۔ پھر مایوسی و نا امیدی نے اپنے اپنے راگ و سر بدل ڈالے۔
خالہ دیر تک سر جھکائے خاموش بیٹھی رہیں پھر تھکی ہوئی سی آواز میں بولیں تم پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے تمہاری مرضی ہوئی تو بات آگے بڑھائیں گے ورنہ سارا معاملہ یہیں ختم کر دیا جائے گا تم اچھی طرح سوچ لو پھر جواب دینا۔
چند ساعت کے بعد انھوں نے رنج کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کہا۔ میرا مدعا صرف اتنا ہے نوشابہ کہ اگر رشتہ پسند آئے تو سوچ سمجھ کر منظور کرنا ورنہ خوش اسلوبی سے انکار کر دینا اول و آخری فیصلہ تمہارا ہی مانا جائے گا۔ اس میں رنجیدہ ہونے اور فکر کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ ساری زندگی کا سودا ہے دیکھ بھال کر ماں بیٹی طے کر لو ورنہ کوئی بات نہیں کہتے کہتے خالہ چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
امیدوں کا ہلکا سا تبسم مستقبل میں رینگتا ہوا ماضی کو کریدتا ہوا حال میں سفر کر رہا تھا۔ ایک بیوہ منحوس اپنی خاک آلود زندگی میں کسی مرد کے بارے میں کیا سوچے؟ جس کے ارمان کو قضا نے اچانک اچک لیا ہو؟ جس کی خوشیاں خاک میں مل گئی ہوں؟ جس کی زندگی خزاں کی نذر ہو چکی ہو؟ جس پر بہار کا زمانہ گزر چکا ہو؟ جس کی امیدیں موہوم ہو چکیں ہوں؟
کئی دن اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے وہ کئی رات نہ سو سکی۔ ہائے وہ خوشنما دن اور وہ سہانی راتیں اب میرے نصیب میں کہاں؟ کہیں میری ٹوٹتی بکھرتی زندگی کو میرا یہ نیا فیصلہ میرے ہی پیروں تلے روند نہ ڈالے اور پیچھے مڑ کر گردش ایام کو دیکھنے کا یارا نہ ہو؟ میرے شوہر کی صورت میری آنکھوں میں ابھی دھندلی بھی نہ پڑی تھی کہ یہ افتاد آن پڑی؟ ہائے! یہ دنیا والے کسی کو تنہا رہنے دینا بھی گوارہ نہیں کرتے؟
اسے اچانک ایسا لگا جیسے اس کی مرضی کی حد اب ختم ہونا چاہتی ہے۔ اس نے محسوس کیا وہ اب پگھل رہی ہے اندر سے ٹوٹ رہی ہے اور بکھر رہی ہے۔ مجھے کسی کے انتخاب پر اتنی جلدی ہار نہیں ماننی چاہیے، میرا راضی ہونا کہیں میرے لیے مزید پریشانی کا سبب نہ بن جائے؟ لیکن میری ضد اور میرا اصرار کیا واقعی درست ہے؟ خالہ کا کیا ہے میں انہیں سمجھا دوں گی اس نے لمحے بھر تامل کیا اور سوچا ضرور مدیحہ خالہ نے مجھ سے پہلے اماں سے بات کی ہوگی۔ اماں کی ہاں کے بعد ہی مجھ سے بات کرنا ممکن ہوا ہوگا۔
اف! ایسا بھی کیا کہ میرے دل میں یک لخت ایسا تغیر رونما ہوا کہ مجھے اپنے اوپر بالکل اختیار نہ رہا۔ ائے کاتب تقدیر تیرا بھلا ہو۔ کیا یہ نئی موج میری زندگی کے ساحل کو سیراب کرنا چاہتی ہے؟ یا بھنور میں ڈبونا چاہتی ہے؟ کہیں یہ لہر طوفان کی شکل نہ اختیار کر لے اور مجھے برباد نہ کر ڈالے اور میرے بکھرے وجود کو جسے میں روز یکجا کرتی ہوں تہس نہس نہ کر دے؟ اس نے منھ پھیر کر آنسوؤں کو چھپایا اور سوچا کیا میں واقعی اس کے لیے تیار ہوں؟
دس دن گزر چکے تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی بہن نے دروازہ کھولا خالہ تھکے قدموں سے اندر آئیں اور چارپائی پر دراز ہو گئیں۔ وہ کافی نڈھال ہو چکی تھیں۔ بہن چارپائی کے سرہانے بیٹھ گئی۔ خالہ نے جھجھکتے ہوئے پوچھا تم نے نوشابہ سے کوئی بات کی؟ نہیں، میری تو ہمت نہیں ہوتی، اسے بلوائے دیتی ہوں تم ہی بات کر لینا اور ہاں دیکھو ضد نہ کرنا ہم سب کو اسے سوچنے کے لیے اور وقت دینا چاہیے۔ دفعتاً نوشابہ چائے لے کر حاضر ہوئی۔
خالہ نے نوشابہ کو پاس بیٹھایا خیریت دریافت کی پھر ادھر اُدھر کی چند باتیں ہوتی رہیں ماحول سازگار دیکھ کر خالہ نے نوشابہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا کچھ غور و فکر کیا بیٹی؟ نوشابہ کے چہرے پر خاموشی تھی۔ خالہ بولیں اس نسبت میں یہ فائدہ ہے بیٹی کہ تو زندگی میں کسی کی محتاج نہ رہے گی۔ زندگی چار دنوں کی نہیں ہے یہ بڑی سخت ہے اور طویل بھی۔ بھلا میں کیوں کر تیرا برا چاہوں گی۔ نوشابہ کے دل میں امید و بیم کا ہلکا سا تبسم در آیا پھر خوف کی ایک عجیب سی لہر چہرے پر ظاہر ہوئی۔
ماضی کے شدومد اور حال کے سود و زیاں نے نوشابہ کو اچانک برافروختہ کر دیا۔ وہ اپنے مرحوم شوہر کی محبت سے اب تک شاید نکل نہ پائی تھی۔ اس نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو منھ پر رکھ کر آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے کہا میں بہتری کی کوئی صورت نکالوں گی مجھے سوچنے کے لیے اور وقت چاہیے۔ پھر وہ اچانک گویا ہوئی، یہ مرد شہد کی مکھی کی طرح ہوتے ہیں ہر جگہ منڈلاتے پھرتے ہیں نئے نئے رنگ برنگے پھولوں پر بیٹھنا اس کا رس چوسنا اور اڑ جانا ہی ان کا کام ٹھہرا۔
اماں کے چہرے پر افسردگی کے ساتھ پھیکی سی مسکراہٹ آئی وہ یہ سن کر باورچی خانے کو چلی گئیں۔ خالہ نے محبت اور شفقت کا ہاتھ سر پر رکھتے ہوئے کہا اور محبت رشتے ناطے پیار الفت چاہت ان کا کیا؟
پیار محبت الفت چاہت نام ہی مطلب کا ہے اور کیا رکھا ہے بھلا اس میں؟ ایک بیوہ تک پیغام پہنچانا اللہ میری توبہ جس کے زخم اب تک ہرے ہیں؟ مرد کا کیا ہے حسن پر فریفتہ بہار کا زمانہ گزرتے ہی نالہ و فریاد پر اتر آتا ہے پھر دامن بچاتا پھرتا ہے۔ مجھے میری تکمیل کے لیے اب کسی مرد کی ضرورت نہیں؟ جب ایک سے زندگی نے منھ موڑ لیا میری خوشیاں مجھ سے روٹھ گئیں تو کیا خاک دوسرے سے بھلا ہوگا؟ ان کی یادوں کا دیا میرے دل میں اب بھی روشن ہے۔ میں اسی چراغ کے اندھیرے تلے اپنی ماندہ زندگی گزار دوں گی۔ کہیں میرا یہ فیصلہ کسی چوک میں نہ بدل جائے اور مجھے اس بھول کی بھاری قیمت نہ چکانی پڑے؟ زیست نے مجھے بھلے برے کی تمیز سکھا دی ہے۔
ہائے! خدا خیر کرے نوشابہ یہ دہریوں والی باتیں تم نے کہاں سے سیکھی؟ اللہ میری توبہ! تمہارے شوہر علیم الدین تو ایسے نہ تھے کہ تم ان کی صحبت میں رہ کر ایسی باتیں سیکھ گئیں؟ وہ تو تم پر جان چھڑکتے تھے تاحیات انھوں نے تمہارے علاوہ کسی کو آنکھ بھر کر نہ دیکھا۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ زمانہ ماضی بھولنے کے لیے ہوتا ہے یہ کوئی رہنے کی جگہ نہیں جہاں تم رہتی ہو۔ اللہ اللہ تمہارے منھ سے مجھے ایسی باتیں بالکل اچھی نہ لگیں، تمہاری دل آزاری کماحقہ مجھے منظور نہیں لیکن کیا میں دیکھتی نہیں کہ تم چند برسوں میں وہ نوشابہ نہ رہی،ل جو کبھی تھی۔ تمہاری شجر حیات کو دیمکوں نے چاٹنا شروع کر دیا ہے تمہاری حالت دھیرے دھیرے نحیف و خستہ حال ہوتی جا رہی ہے۔ اپنی زندگی کو یوں سناٹوں سے باہر نکالو نوشابہ اسے شور و غل کا عادی بناو، اسے یونہی بلاوجہ ویران نہ کرو یہ اپنی جان پر ظلم ہے یہ کہتے کہتے خالہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
نوشابہ کچھ بولتے بولتے رک گئی وہ ہار چکی تھی خالہ کے آگے اس کی ساری دلیلیں پھیکی پڑ چکی تھیں اس کے چہرے پر تھکان تھی لیکن اب اس کے دل میں شکر گزاری کے جذبہ نے کروٹ لی۔ اب مزید کوئی بحث اور کٹ حجتی کی گنجائش باقی نہ رہی تھی۔ اس نے خاموش رہ کر اجازت تو دے دی لیکن اس کے چہرے پر فکر کے آثار نمایاں تھے اور دل اس فیصلے سے تیز تیز دھڑک رہا تھا۔
نوشابہ کی رخصتی بہت جلد عمل میں آئی۔ وہ اپنے فیصلے کے تذبذب میں کئی مہینوں گرفتار رہی اسی پس و پیش میں اس نے اپنے آپ کو ایک تنکے کی مانند وقت کے رحم و کرم پر ندی کی تیز بہاو کے حوالے کر دیا جسے آخر کار کنارہ مل ہی گیا اور نوشابہ کی ناو پار گھاٹ لگ گئی۔ اس کا تناؤ دھیرے دھیرے زائل ہونے لگا وہ کسی کے لیے راحت جاں بنی تو کوئی اس کے لیے فرحت کا احساس دلانے والا اور پھر آہستہ آہستہ زندگی خوش و خرم دوبارہ گزرنے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.