Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفر در سفر

اشفاق احمد

سفر در سفر

اشفاق احمد

MORE BYاشفاق احمد

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو ایک درویش کے پاس روحانی طاقت حاصل کرنے کا طریقہ پوچھنے کے لیے جاتا ہے۔ مگر جب وہاں اس کی پیر سے ملاقات ہوتی ہے وہ اسے روحانی طاقت سے ہٹاکر خدمت خلق کے فائدے بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ نماز کی قضا ہے، مگر خدمت کی قضا نہیں۔

    ’’نماز کی قضا ہے بیٹا، خدمت کی کوئی قضا نہیں۔‘‘

    لاھور میں جب میں نے ایک بابا سے کہا کہ میں صوفی بننا چاہتا ہوں تو انہوں نے پوچھا، ’’کس لیے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’اس لیے کہ یہ مجھے پسند ہے۔‘‘

    آپ نے کہا، ’’مشکل کام ہے، سوچ لو۔‘‘

    میں نے عرض کیا، ’’اب مشکل نہیں رہا کیوں کہ اس کی پرائمری اور مڈل پاس کر چکا ھوں۔۔۔پاس انفاس نفی اثبات کا ورد کر لیتا ہوں۔ اسم ذات کے محل کی بھی پریکٹس ہے۔ آگے کے راستے معلوم نہیں، وہ آپ سے پوچھنے آیا ہوں اور آپ کی گائیڈینس چاہتا ہوں۔‘‘

    بابا نے ہنس کر کہا، ’’تو پھر تم روحانی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہو، صوفی بننا نہیں چاہتے ہو۔‘‘

    میں نے کہا، ’’ان دونوں میں کیا فرق ھے؟ ’’

    کہنے لگے، ’’روحانی طاقت حاصل کرنے کا مقصد صرف خرق عادات یعنی کرامات کا حصول ہے اور یہ طاقت چند مشقوں اور ریاضتوں سے پیدا ہو سکتی ہے۔۔۔ لیکن تصوف کا مقصد کچھ اور ہے۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    بابا نے کہا، ’’تصوف کا مقصد خدمت خلق اور مخلوق خدا کی بہتری میں لگے رہنا ہے۔ مخلوق الله سے دور رہنا رہبانیت ہے اور الله کی مخلوق میں الله کے لہے رہنا یہ پاکی ہے اور دین ہے۔‘‘

    مجھے اس بابا کی یہ بات اچھی نہ لگی۔ بیچارہ پینڈو بابا تھا اور اس کا علم محدود تھا۔

    میں اٹھ کر آنے لگا تو کہنے لگا، ’’روٹی کھا کر جانا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’جی کوئی بات نہیں، میں ساہیوال پہنچ کر کر کھا لوں گا۔‘‘

    کہنے لگا، ’’خدمت سعادت ہے۔۔۔ ہمیں اس سے محروم نہ کرو۔‘‘

    بابا اندر سے رکابی اور پیالی لے آیا۔پھر اس نے دیگچے سے شوربہ نکل کر پیالی میں ڈالا اور دال رکابی میں۔ چنگیر سے مجھے ایک روٹی نکال کر دی جسے میں ہاتھ میں پکڑ کر کھانے لگا۔ وہاں مکھیاں کافی تھیں، بار بار ڈائیو لگاکر حملے کرتی تھیں۔ بابا میرے سامنے بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کے لیے کندوری ہلانے لگا اور میں روٹی کھاتا رہا۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ کونے میں اس کے مریدوں نے تھوڑی سی جگہ لیپ پوت کر کے ایک مسجد سی بنا رکھی تھی۔ وہاں دس بارہ آدمیوں کی جماعت کھڑی ہو گئی۔

    مجھے یہ دیکھ کر بڑی ندامت ہوئی کہ میں روٹی کھا رہا ہوں اور پیر مکھیاں جھل رہا ہے۔

    میں نے کہا، ’’بابا جی آپ نماز پڑھیں۔‘‘

    کہنے لگے، ’’آپ کھائیں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’جی مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی ہے، آپ جا کر نماز پڑھیں۔‘‘

    مسکراکر بولے، ’’کوئی بات نہیں، آپ کھانا کھائیں۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کہا، ’’جناب عالی ! انہوں نے نیت بھی باندھ لی ہے۔۔۔ آپ نماز ادا کر لیں، قضا ہو جائےگی۔‘‘

    بابا ہنس کر بولا،

    ’’نماز کی قضا ہے بیٹا، خدمت کی کوئی قضا نہیں!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے