Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفید تابوت

ریاض توحیدی

سفید تابوت

ریاض توحیدی

MORE BYریاض توحیدی

    کالی کوٹھری کے اندھیرے تہہ خانے میں وہ جب اپنے بکھرے وجود کو سمیٹنے کی کوشش کرتا تو اندھیرے عالم کے خوفناک مناظر اس کی نیند پر شبخون مارنا شروع کر دیتے اور اس کے ذہن میں شعور، لاشعور اور تحت شعور کے بکھرے خیالات کے درمیاں تصادم شروع ہو جاتا۔

    بھیانک خوابوں کے وحشت ناک سائے اس کے دل کی دھڑکن میں ابال لاتے اور وہ ہڑ بڑا تے ہوئے بستر سے اٹھ بیٹھتا۔ اس کی سانس پھول جاتی اور وہ رات بھر دیوار سے ٹیک لگائے خون بار آنکھوں سے تہہ خانے کی زنگ آلودہ آہنی سلاخوں کو دیکھتے رہ جاتا۔ اندھیرے عالم کے وحشت ناک مناظر، اس کے لئے سوہانِ روح بنے ہوئے تھے۔ کالی بلاؤں کی خوفناک چیخیں، مردہ خور کر گس کی سرخ رنگ چونچیں، کینچلی بدلتے رہتے کالے ناگوں کی پھن مارتی کنڈ لیاں، جنگلی پاگل کتوں کی لال ٹپکتی زبانیں اور سفید تابوتوں کی یورش کے درمیان خوش نما عقابوں کی پروازیں۔۔۔!!!

    لمبے عرصے سے اس کی بےقرار آنکھیں کسی معبر کی راہ تک رہی تھیں تاکہ ان خوفناک خوابوں کی تعبیر پاکر وہ اپنے بکھرے وجود کو سمیٹ سکے۔ ایک رات۔۔۔ ہاں۔۔۔ ایک خوش نصیب رات، وہ معبّر کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی سوچ، شعور سے لاشعور اور لاشعور سے تحت شعور کے گہرے سمندر کی تیز رفتار موجوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی۔ تحت شعور کی تیز رونے اسے وقت کے اس نورانی ماحول میں پہنچا دیا جہاں معبّروں کی روشن قند یلیں نور بکھیر رہی تھیں۔ وہ معبروں کی سماعتوں کے حوالے اپنے پراسرار خوابوں کی دکھ بھری کہانی کرتا رہا اور معبّربڑی خاموشی سے درد بھرے سمندر کا مشاہدہ کرتے رہے۔

    کئی درد بھرے شب گزر گئے۔ وہ بڑی بے چینی کے ساتھ تعبیر کا منتظر رہا۔ اچانک ایک خوبصورت چاندنی رات کے درمیان اسے اندھیرے تہہ خانے میں چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ اس پر انجانا ساخوف طاری ہو گیا۔ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ چند لمحوں کے اندر اندر کسی پتھر کے گرنے کی سی آواز سنائی دی اور آہٹ کی سنسناہٹ بند ہو گئی۔ وہ نیند بھری آنکھوں سے گرنے والی شئے کو اندھیرے میں ٹٹولنے لگا۔ اسے ایک صندوق نما شئے سے ٹھوکر لگی۔ ٹھوکر لگنے کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ صندوق کے تالے پر پڑ گیا۔ اس کو ایک جھٹکا سا لگا اور صندوق کا ڈھکن کھل گیا۔ صندوق سے ایک تیز روشنی نکلی، جس سے تہہ خانے کے درودیوار روشن ہو گئے۔ وہ بڑے غور سے صندوق کا جائزہ لینے لگا۔ صندوق کے بدلے یہ سبز رنگ تابوت تھا۔ تابوت میں ایک خوش رنگ موٹی کتاب تھی جس پر سنہرے حروف سے ’’تعبیر نامہ خواب‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اس کے تھرتھراتے ہاتھ کتاب کی ورق گردانی کرنے لگے۔ وہ اپنے ہر خواب کی تعبیر پاتا گیا۔ رات کے آخری پہر اس نے جو نہی سبزرنگ تابو ت کو کاندھوں پر اٹھایا تو شدید زلزلے کی وجہ سے اندھیرے تہہ خانے کے درودیوار میں شگافیں پڑنے لگیں۔ روشنی کی کرنیں کالے اندھیرے کو چیرتی ہوئی فضائے بسیط میں پھیلنے لگیں۔ اس کے مضبوط کاندھوں پر سبزرنگ تابو ت دیکھ کر سبز رنگ عقاب جھنڈ کی صورت میں فضائے بسیط میں اڑان بھرنے لگے۔ وہ آگے بڑھتا رہا اور عقاب بھی اس کی رفتار کے ساتھ ساتھ پرواز کرتے گئے۔

    اس کی تیز رفتاری نے اسے اس کے خوابوں کی سنہری وادیوں میں پہنچا دیا۔ سنہری وادیوں کی اپنی ایک شاندار تہذیب تھی، اپنا ایک شاندار تمدّن تھا۔ اس شاندار تہذیب وتمدّن کے روشن میناروں نے دنیا کی اندھیرے غاروں میں روشنی کی کرنیں پھیلائی تھیں اور جاہلیت کے اندھیرے غاروں میں بسنے والے مچھلی فروشوں کے کالے دماغوں میں نور کی کرنیں بھر دی تھیں۔ ان نورانی کرنوں کی بدولت ہی وہ قزاق فطرت بنجر ذہن اپنی ناتواں سوچ میں تہذیب و تمدّن کی سر سبز وشاداب دنیا بسانے کے لئے آمادہ ہو گئے تھے۔

    وقت کا دریا بہتا رہا۔ موسموں کی گردش جاری رہی۔ سنہری تہذیب وتمدن کی وادیوں سے بہار کی رونق ختم ہونے لگی۔ ہیرے کی کانوں میں کوئلوں کے ڈھیرجمع ہونے لگے۔ متحرک سوچوں پر جمودی افکار چھانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وقت کے تیز بہاؤ نے تہذیب و تمدن کی ان سنہری وادیوں کو ماضی کا حصہ بنا دیا۔ نئے زمانے کی ہوائیں چلنے لگیں۔ موسم نئی نئی بہاروں کو اپنے ساتھ لاتا گیا۔ سنہری وادیوں کے ماضی اسیر پرندے آنکھیں بند کرکے اپنی چونچ اپنے پروں میں چھپائے گہری نیند میں کھو گئے۔ ان کی سنہری وادیوں پر خزان کے سائے چھاگئے اور ان کے شاندار تہذیب و تمدن کو نئے بہاروں کے کر گسوں نے اپنا لیا۔ ان کرگسوں کے بے جان پروں میں جونہی اڑنے کی طاقت آ گئی تو ان کی قزاق فطرت نے اپنی خصلت دکھانا شروع کر دی۔ یہ مردہ خور کرگس سنہری وادیوں پر اپنا منحوس سایہ ڈالنے کے لئے پر تولنے لگے اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مردہ خور کرگس ان وادیوں کے گلستان میں آزادنہ اڑانیں بھرنے لگے۔ انہوں نے جب اپنی بدبودار سانسوں سے گلستانوں کی معطر فضاؤں کو آلودہ کرنا شروع کیا تو سنہری وادیوں کے بےخود پرندوں کی آنکھیں کھلنے لگیں۔ وقت کا دریا تیز ی کے ساتھ بہتا رہا ۔لمحوں نے صدیوں کا روپ دھار لیا۔ نئے دور کے نئے موسموں میں سنہری وادی کے بے ہوش پرندے اب ہوش میںآنے لگے۔ وہ اپنے گمشدہ تہذیب وتمدن کو دوبارہ پانے کی جستجو کرنے لگے اور ان مردہ خور کرگسوں سے اپنے گلستانوں کو پاک کرنے کے لئے دھیمی دھیمی اڑانیں بھرنے لگے۔

    مردہ خور کر گسوں کو جب اپنی آزادانہ اڑانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے پرندوں کی اڑانیں نظر آنے لگیں۔ تو ان قزاق فطرت مردہ خور کر گسوں سے یہ اڑانیں برداشت نہ ہو سکیں۔ وہ اپنے خون پسند چونچوں سے ان پرندوں کے پر نوچنے لگے۔ ان کی چیر پھاڑ سے فضا میں خون کی بو پھیلنے لگی۔ کئی پرندے ناتواں بنا دیئے گئے۔ کر گسوں کی اس دہشت انگیز خصلت نے ریشم فطرت پرندوں کو عقابی خصلت اپنانے پر مجبور کر دیا۔ فضائے بسیط میں خونین جھپٹ پلٹ شروع ہو گئی۔ کر گسوں کی حمایت میں رال ٹپکتے جنگلی پاگل کتے اور کینچلی بدلتے کالے ناگ بھی سامنے آ گئے۔ سبزرنگ عقابوں کے جاں فشاں حملوں سے مردہ خور کر گسوں اور ان کے حواریوں کے دل بیٹھنے لگے اور وہ نفسیاتی شکست سے فریسٹریشن کے شکار ہونے لگے۔ عقابوں کے جوابی حملوں کے جوش کو ٹھنڈ ا کرنے کے لئے اپنی حیوانیت کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے مردہ خور کر گسوں نے عقابوں کے نشیمنوں میں زہریلی سانسیں چھوڑنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ زہریلی سانسیں جب کسی نشیمن میں داخل ہو جاتیں تو بڑے عقابوں کے ساتھ ساتھ ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بھی آن کی آن میں موت کے گھاٹ اتار دیتی۔ ان وحشی حربوں سے بھی جب سبزرنگ عقابوں کے حوصلے پست نہ ہوئے تو مردہ خور کر گسوں کی تشویش میں اضافہ ہونے لگا۔ کیونکہ یہ مردہ خور کر گس نہ صرف عقابوں کے پرتاثیر تالابوں سے اپنی ہوس کی پیاس بجھاتے تھے بلکہ ان کے گلستانوں کی زرخیز مٹی کے پوشیدہ سنہرے بیچوں کو بھی اپنے قزاقی پیٹ میں ہضم کر جاتے۔ ان مردہ خوروں کی استحصالی فطرت کو ختم کرنے کے لئے جب عقاب موت بن کر ان کے سروں پر چھا جانے لگے تو ان کو عقابوں کے گلستانوں پر اپنی حیوانی گرفت کا دائمی خواب چکناچور ہوتے ہوئے نظر آنے لگا۔

    مردہ خور کر گسوں اپنی استحصالی فطرت کو دوام بخشنے کے لئے بدلتے موسموں کے ساتھ ساتھ نت نئے حربے استعمال کرتے گئے۔ اپنے حواریوں سے صلح مشورہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک پرفریب پالیسی اپنائی اور پرندوں کی ذات سے چند بجو کا صورت پرندوں کو ان کے گلستان کامالی بنا ڈالا لیکن عقاب جب اس سازش سے بھی اپنے جاں فشاں حملوں سے باز نہیں آئے تو انہیں قابو کرنے کے لئے مردہ خوروں نے اپنا آخری سخت ترین دھاؤ کھیلا۔ یہ آخری دھاؤ سفید تابوتوں کی یورش تھی۔ سفید تابوتوں کی یورش نے گلستانوں پر زلزلہ طاری کرکے عقابوں کے ٹھکانوں کو زمین بوس کرنا شروع کر دیا۔ سینکڑوں عقابوں کی جلی کٹی لاشوں کے خونین مناظر نے زندہ عقابوں پر وحشت طاری کر دی۔ ان کے گلستان ویران ہوتے گئے۔ برباد ہوتے گئے۔

    وہ عقابوں پر چھائی جارہی وحشت کو بھانپ گیا۔ اس کا غم زدہ ذہن سفید تابوتوں کی خونین صلیب توڑنے کے بارے میں سوچ کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس کا شعور، لاشعور اور تحت شعور ایک ساتھ جاگ اٹھا۔ کاندھے پر اٹھائے ہوئے سبز رنگ تابوت کو فلک بوس پہاڑ پر رکھتے ہی عقابوں کے جھنڈ اس کے ارد گرد طواف کرنے لگے۔ سبز رنگ تابوت کا ڈھکن اٹھتے ہی ’’تعبیر نامہ خواب‘‘ کے سنہرے اوراق فضا میں پھیلنے لگے۔ اوراق اڑنے کے ساتھ ہی سبزرنگ تابوت فضائے بسیط میں گھومنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عقابوں کے جھنڈ ا پنی چونچ میں تعبیر نامہ خواب کے اوراق لے کر مردہ خور کر گسوں پر جھپٹ پڑے۔ کرگسوں کے سفید تابوت عقابوں کے سبز تابوتوں سے ٹکرانے لگے۔ پہاڑوں کے خاموش آتش فشاں ابلنے لگے اور ان کے پھٹتے ہی زمین کا وجود ہلنے لگا۔ سمندر کی سونامی لہروں نے جب ساحلوں کو عبور کرتے ہوئے قزاق فطرت مردہ خور کرگسوں کے ٹھکانوں پر بھی حملہ کر دیا تو مردہ خور کرگسں اپنے بزدل حواریوں سمت حواس باختہ ہو گئے۔ طوفانی لہروں کے خوف نے ان کی خون آلودہ چونچوں کو شل کر دیا۔ اور انہوں نے عقابوں کے گلستانوں سے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سفید کبوتروں کو عقابوں کے جھنڈ کی طرف روانہ کر دیا۔ سفید کبوتر اپنی چونچ میں شاخِ زیتون لے کر عقابوں کے گلستانوں میں داخل ہو گئے۔ عقابوں کے گلستان کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے مردہ خور کر گسوں کی شکست کا اعلان کر دیا اور شاخِ زیتون سے امن کا نقارہ بجانے لگے۔

    نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا۔ سفید تابوت کی صلیب ٹوٹ چکی تھی۔ مردہ خور کر گسوں کی خون آلودہ چونچ پر زہریلا زنگ لگنے کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو چکی تھیں۔ وہ بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے گلستانوں کی شادابی کا نظارہ کر رہا تھا۔ ان کی خوشبودار ہواؤں سے سرشار ہو رہا تھا۔ پرندے پرمسرت بہار میں چہچہا رہے تھے۔ وقت کے دریا کا بہاؤ ماضی کو چھوڑکر مستقبل کی جانب بڑھ رہا تھا۔

    عقاب۔۔۔ اپنی سنہری وادیوں کے سر سبز وشاداب گلستانوں کی آزاد فضاؤں میں فخرا حساس اڑانیں بھر رہے تھے اور ان کی بلند پروازی کی متحدہ صدائیں فضائے بسیط میں گنگنا رہی تھیں ؂

    ہم نے توڑی روایات کی زنجیر سنو

    اک نئے دور کا آغاز ہوا ہے ہم سے

    (فرقت کیفی)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے