Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سہمے کیوں ہو انکش!

صادقہ نواب سحر

سہمے کیوں ہو انکش!

صادقہ نواب سحر

MORE BYصادقہ نواب سحر

    مسزپاٹل بہت پریشان تھیں۔ شرمندہ بھی تھیں۔ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا شریر بچہ شرارتوں میں اِس حد تک بڑھ جائے گا کہ انہیں پورے قصبہ میں شرمندہ ہونا پڑے گا۔

    انکش نام کا انکش یعنی بندھن تھا مگر اس پر کوئی بندھن عائد نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک لمحہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ کلاس میں ٹیچر کے پڑھاتے وقت بھی وہ بےچین بے چین سا اپنی جگہ ہلتا رہتا تھا۔ جیسے ہی ٹیچر تختۂ سیاہ کی جانب پلٹتیں، وہ اپنی جگہ سے فوراََ اٹھ کھڑا ہوتا۔ یہاں تاکتا، وہاں جھانکتا یادیواروں پر لگے ہوئے پوسٹر غور سے دیکھتارہتا اور ان کی کہانیوں، نظموں کی دنیا میں کھو جاتا۔ پتہ نہیں وہ کیوں اتنی بے کلی کا شکار تھا! لیکن کل تو اس نے حد ہی کر دی۔

    دوپہر کے کھانے کے وقفہ میں نیرج نے اپنی پانی کی بوتل اسے دے کر کہا تھا، ’’جا کولر سے بھر کر پانی لا۔۔۔‘‘

    انکش اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔

    ’’جلدی۔۔۔ نہیں تو!۔۔۔‘‘، نیرج نے تیزی سے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ سہم کر پیچھے ہٹا۔

    نیرج کی ’’نہیں تو!‘‘ کی حد ہی نہیں تھی۔

    ’’اپنے رومال سے میرے جوتے صاف کر۔۔۔ نہیں تو!۔۔۔‘‘

    ’’میرا بیگ اٹھا لا۔۔۔‘‘، کل ہی نیرج نے انکش سے کہا تھا۔

    ’’میں لکھ رہا ہوں نا! میرا پروجیکٹ پورا نہیں ہوا ہے۔‘‘، انکش چِڑ کر بولا تھا۔

    ’’جا یار! تو لے آیار!‘‘ نیرج نے پاس کھڑے لڑکے سے کہا تھا، ’’انکش کو اپنی ٹیم سے باہر کرتے ہیں۔۔۔‘‘، وہ کلاس کی طرف مڑا، ’’کلاس میں انکش کے ساتھ کون کھیلےگا؟‘‘

    ’’ہم کھیلیں گے۔‘‘، لڑکیوں کی بنچوں سے دوتین آوازیں اُبھری تھیں۔

    ’’انکش لڑکیوں کے ساتھ کھیلے گا۔۔۔انکش لڑکی۔۔۔لڑکی۔۔۔لڑکی۔۔۔‘‘۔ لڑکے ہاتھ ہلا ہلا کر انکش کا مذاق اڑا رہے تھے۔

    یہ تو روز کی بات تھی۔

    انکش بادل ناخواستہ اٹھا۔بیگ پرے رکھا اور کولر سے پانی بھر کر لایا۔

    ’’بڑی پیاس لگی ہے یار!‘‘نیرج نے فاتحانہ نظر اپنے ساتھیوں پر ڈالی اور بوتل منہ سے لگا لی۔ پہلے گھونٹ پر ہی نیرج تھوکتا ہوا واش روم کی طرف دوڑا۔ انکش ہنسنے لگا۔

    نیرج واش روم سے دوڑتے ہوئے لوٹا۔ آتے ہی اس نے انکش کے منہ پر ایک گھونسہ جڑ دیا اور دونوں کی ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔

    وقفہ ختم ہو گیا۔ الیکٹرک کی گھنٹی کی گھنگھناہٹ، اپنی اپنی کلاس کی طرف دوڑتے ہوئے بچوں کے شور میں ایک جان ہونے لگی لیکن نیرج نے گھونسے بازی بند نہیں کی۔ اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا۔ دونوں لڑتے لڑتے کلاس کے دروازے تک آ گئے تھے۔ انکش کی ہنسی اب بند ہو چکی تھی۔ وہ اپنی شرٹ کے اوپر کے دو بٹن لگانے کی کوشش کر رہا تھا، جو دھاگے کے ساتھ لٹک گئے تھے۔دونوں کے بال بری طرح بکھرے ہوئے تھے۔ دونوں کی سانس بری طرح پھول رہی تھی۔

    ’’ٹیچر آ گئیں۔‘‘ بچوں نے شور مچایا اور اپنی جگہوں پر پہنچتے ہوئے ایک آواز میں بولے، ’’گڈمارننگ ٹیچر‘‘۔

    ٹیچر نے ان کی طرف توجہ نہیں دی تو ٹیچر سے ’’سٹ ڈاؤن‘‘ سننے سے پہلے ہی اپنی بنچوں پر بیٹھ بھی گئے۔نیرج ابھی تک انکش سے بِھڑا ہوا تھا۔ ٹیچر نے دونوں کی پیٹھ پر دھپ لگائی۔ دونوں کے کان پکڑ کر کلاس کے اندر لے گئیں۔ قصہ معلوم کرکے پہلے تووہ ’پھک‘ سے ہنس پڑیں پھر سنجیدہ ہو گئیں۔ ٹیچرنے اپنی ہری سوتی ساری کے پلو کو کمر میں اڑس لیا۔ پیشانی کی ہری بندی پر ان کی مانگ کا سیندور چھٹک گیا تھا۔ اس وقت ان کاچہرہ گلابی ہو رہا تھا۔

    ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘

    ’’وہ مجھے روز ستاتا ہے۔ ‘‘

    ’’اچھا! اسی لئے تم نے یہ کیا! مجھ سے کیوں نہیں کہا؟‘‘

    ’’کہا تھا، مگر آپ بولی تھیں، اس کی بات سن لے ورنہ وہ تیرے ساتھ نہیں کھیلے گا۔‘‘

    ’’تو تم کو کھیلنے کے لئے وہی ملا!‘‘

    ’’وہ مجھے کسی اور کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتا!‘‘

    ’’اچھا! پھر تو وہ اچھا لڑکا ہے نا! تمہیں اکیلاہونے نہیں دیتا۔ ساتھ رکھتا ہے۔‘‘

    ’’وہ مجھے اپنی پیٹھ کھجلانے کو بھی کہتا ہے۔ ‘‘

    ’’اسے کھجلی ہوتی ہوگی۔‘‘

    ’’کیا وہ تمہیں ہی اپنے کام کرنے کو کہتا ہے؟ دوسرے بچوں کو نہیں؟‘‘

    ’’پہلے دوسروں سے بھی کہتا تھا مگر اب مجھے ہی کہتا ہے۔ میرے پیچھے ہی پڑا رہتا ہے۔‘‘

    ’’کیوں کہ تم منع کرتے ہو۔ ہے نا!‘‘

    انکش ٹھٹکا پھر بولا، ’’ہاں!‘‘

    پھر وہ بچوں سے مخاطب ہوئیں، بولیں، ’’بچو! آپ کو پتہ ہے، انکش نے ایک گندہ کام کیا ہے۔‘‘

    ’’آآآآآ۔۔۔‘‘بچے چلائے۔

    ’’بتاؤ اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟‘‘ بچے چپی سادھے بیٹھے رہے، ’’بولو بولو۔‘‘

    سب چپ تھے۔

    ’’اچھا ! ایک کام کرتے ہیں۔ نیرج تم ادھر آؤ۔ تمہیں ڈرائنگ اچھی آتی ہے نا! بلیک بورڈ پر ڈرائنگ بناؤ انکش کی۔‘‘

    نیرج نے ڈرائنگ بنائی۔ لمبی ٹہنیوں جیسے ہاتھ پاؤں، بغیر بالوں والا گول چہرہ، اس پر دونقطے آنکھیں، ناک کی جگہ کھڑی لکیراور متوازی لکیر منہ کی۔

    ’’شاباش! یہ دیکھو۔ سکنڈ اے کلاس کے آپ کے دوست بچے نے انکش کی ڈرائنگ کتنی اچھی بنائی ہے! ہے نا! نیرج کے لئے تالیاں بجاؤ!..‘‘

    بچے تالیں بجانے لگے۔

    ’’اب ہم ’انکش انکش‘ کھیلیں گے۔۔۔ او کے انکش!‘‘

    انکش نے ’ہاں‘ میں گردن ہلائی۔ وہ بری طرح سہم گیا تھا۔ نہ جانے ٹیچر اسے کیا سزا دیں!

    ’’۔۔۔چلو بچو!۔۔۔ نئے کھیل کے لیے تالیاں بجاؤ۔۔۔‘‘

    کلاس پھر ایک بار تالیوں سے گونجنے لگی۔

    ’’بتاؤ یہ کیا ہے؟‘‘، ٹیچر نے پوچھا۔

    ’’بلیک بورڈ، ٹیچر۔‘‘ بچے ایک سر میں چلائے۔

    ’’اور یہ؟‘‘ ٹیچر نے تختۂ سیاہ کے قریب، ایک اسٹینڈ سے خاکی رنگ کے پٹھے کا ڈبہ ہاتھ میں لیا تھا اور اس میں رکھے چاک نکال کر انہیں دکھایا تھا۔

    ’’چاک‘‘

    ’’اور یہ ڈرائنگ میں بچہ کون ہے، بچو؟‘‘ ٹیچر نے پوچھا۔ بچے چپ تھے۔’’انکش ہے نا! بولو!۔۔۔ کون ہے؟‘‘

    ’’انکش‘‘ بچے ایک ساتھ بولے۔ ٹیچر نے تختۂ سیاہ کے اوپر رکھے ہوئے ڈبے سے چاک نکالے، اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور تیس بچوں کی کلاس میں تقسیم کر دیے۔ پھر انھوں نے باقی چاکوں کے بھی ٹکڑے کئے اور ڈبے میں رکھ دیئے۔

    ’’بچو! تم نے دیکھا ،بلیک بورڈ کی اس ڈرائینگ میں انکش نے کپڑے پہنے نہیں ہیں نا!‘‘

    بچے چپ تھے۔

    ’’بولو۔۔۔ نہیں پہنے نا!۔۔۔ یس یا نو؟‘‘

    ’’نوٹیچر!‘‘، بچے ایک ساتھ چلّائے۔

    ’’جب میں ون ٹو تھری بولوں، تو بچے بلیک بورڈ پر اس انکش کی ڈرائنگ کو چاک سے ماریں گے۔ کہاں ماریں گے؟۔۔۔ بلیک بورڈ پر نا!۔۔۔ ٹھیک ہے؟ یس اور نو؟۔۔۔ بولو یس۔‘‘

    ’’یس ٹیچر‘‘، سب چلائے، ’’دیکھو یہ ایک نیا گیم ہے۔ اچھا!‘‘

    ’’اچھا، ون۔۔۔ ٹو۔۔۔ تھری۔۔۔ بلیک بورڈ کے انکش کو چاک سے مارو۔۔۔‘‘

    چاک دھڑادھڑ تختۂ سیاہ سے ٹکرا کر زمین پر گرنے لگے۔

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں ٹیچر۔۔۔ نہیں ٹیچر۔۔۔‘‘ انکش اپنے دونوں ہاتھ ہلاتے ہوئے چلانے لگا۔ جیسے ہی بچوں کے ہاتھ کے چاک ختم ہوتے، ٹیچر ڈبہ آگے بڑھاتیں۔ بچے اس میں سے چاک نکال کر ڈرائینگ کو مارتے۔ واقعی ان کے لیے یہ انوکھا کھیل تھا۔ ادھر انکش آنکھیں پھاڑے تختۂ سیاہ پر چاک مارنے والے اپنے ساتھیوں کو اور اپنی ٹیچر کو دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ وہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے بچے کے پیچھے منہ چھپانے لگا۔

    ’’ساری ٹیچر۔۔۔ ساری ٹیچر۔۔۔ ساری۔۔۔ ساری۔۔۔‘‘ وہ لگاتار ’ساری‘، ’ساری‘ کہے جا رہا تھا۔

    ٹیچر مسکرا ئیں، ساری ٹیچر کو نہیں۔۔۔ تم نے نیرج کو ستایا ہے، ٹیچر کے تو تم اچھے بچے ہو۔ہے نا!‘‘

    انکش نے ’ہاں‘ میں سر ہلادیا۔

    ’’ساری مجھے نہیں، نیرج کو بولو!‘‘ ٹیچر نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ تھرا گیا۔ اسے محسوس ہوا جیسے ٹیچر نے اس کے سر میں سوئی چبھو دی ہو۔ جلدی سے بولا، ’’ساری نیرج‘‘

    ’’ایسے نہیں، یہاں آؤ۔‘‘ ٹیچر انکش کے قریب جا کر کھڑی ہو گئیں۔’’ نیرج کے پاؤں چھو کر ساری نہیں بولوگے تو وہ معاف تھوڑے ہی کرےگا! بہت گندہ کام کیا ہے تم نے اس کے ساتھ۔‘‘

    انکش کا جی چاہا کلاس سے بھاگ کھڑا ہو۔ پلٹ کر نہ دیکھے، جیسے وہ ریس میں کرتا ہے اور ہمیشہ اول رہتا ہے۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ کڑی لگی ہوئی تھی۔

    ’’چلو۔‘‘، ٹیچر کی آواز اسے دور سے سنائی دی۔ وہ نیرج کے پیروں پر جھکنے لگا۔

    ’’اچھا، ٹھہرو۔۔۔‘‘، ٹیچر نے انکش کو روکا اور نیرج سے پوچھنے لگیں، ’’نیرج! کیا تم نے انکش کو معاف کر دیا؟ اس نے تم کو ساری کہا ہے۔‘‘

    ’’نوٹیچر!۔۔۔ مجھے اب بھی غصہ آ رہا ہے۔‘‘

    ’’بچو! تم سب نے انکش کو مارا نا ؟‘‘، وہ بچوں کی طرف دیکھنے لگیں۔

    ’’یس ٹیچر!‘‘

    ’’نیرج کو اب شانت ہو جانا چاہیے نا؟۔۔۔ ہے نا؟۔۔۔ بولو یس!!‘‘

    ’’یس ٹیچر!۔۔۔‘‘بچے چلائے

    ’’یس ٹیچر!‘‘

    ’’او کے ٹیچر!‘‘، نیرج واقعی پرسکون ہو گیا۔

    ’’بچو!. اب کھیل ختم ہوا۔ مزا آیا نا!۔۔۔ اور اس کھیل میں۔ نیرج جیت گیا ہے۔۔۔ تالیاں بجاؤ۔۔۔‘‘ تالیاں بجیں۔ ٹیچر کا دھیان بنچ سے باہر نکل کر کھڑے ہوئے بچوں کی طرف گیا، ’’اب سب اپنی اپنی جگہ بیٹھیں گے۔۔۔ یس اور نو؟‘‘

    ’’یس ٹیچر‘‘

    ’’انکش اور نیرج بھی اپنی بینچ پر لوٹ جائیں گے۔‘‘، وہ سانس لے کر بولیں، ’’اور اپنی اپنی تاریخ کی کلاس ورک بُک نکالیں گے؟‘‘

    ’’یس ٹیچر۔۔۔‘‘

    ٹیچر نے دروازے کی کنڈی کھولی۔ تبھی ہیڈ مسٹریس کلاس میں داخل ہوئیں۔ انہیں دیکھ کر بچے اٹھ کھڑے ہو گئے۔ بولے،’’گڈ مارننگ میڈم!‘‘

    ہیڈ مسٹریس نے بچوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بچے ’’تھینک یو میڈم ‘‘ کہہ کر بیٹھ گئے۔ بچوں کو ایسی ہی تربیت دی گئی تھی۔

    ’’میں نے سنا، اس کلاس کے بچے مکے بازی کی مشق کر رہے تھے!‘‘ ہیڈ مسٹریس نے پوچھا۔

    ’’جی میڈم۔‘‘ کلاس ٹیچر بولیں، ’’انکش ہی کی شرارت ہے۔‘‘ اور ہیڈ مسٹریس کوانگریزی میں انکش کی شرارت بتائی۔

    ’’انکش! کم ہیئر!۔‘ ہیڈ مسٹریس اسے اپنے آفس میں لے گئیں۔ اس کے ماں باپ کو فون کرکے بلا لیا اور اسے پندرہ دنوں کے لیے سسپینڈ کر دیا۔

    دو دن گزر گئے۔ ’’تیرے کپڑے میلے ہو گئے ہیں۔ نہ نہاتا ہے نہ کپڑے بدلتا ہے۔‘‘، ممی نے صوفے پر بیٹھے ہوئے انکش کو ہلکی سی دھپ لگائی اور بولیں، ’’چپ چپ کیوں رہتا ہے۔۔۔ بول تو کیا ہوا تھا؟‘‘ وہ انکش کے شرٹ کے باقی بچے ہوئے بٹن کھولنے لگیں، جنھیں اس نے فوراََ دوبارہ لگا لیا۔ غصے کے باوجود ممی کو پریشان، سہمے سہمے انکش پر بےتحاشہ پیار آ گیا۔ اسے بےچین دیکھ کر انہوں نے تڑپ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور سینے سے لگا لیا۔

    ’’پندرہ دن کی پڑھائی۔۔۔ کلاس ورک، ہوم ورک، سب کیسے کور کرو گے؟؟۔۔۔ بتا۔۔۔ب ھلا کوئی ایسی شرارت بھی کرتا ہے؟؟۔۔۔ اچھا تو نے اسے سزا دی۔۔۔ تو۔۔۔ کوئی ایسی سزا۔۔۔ کیسے سوچ سکتا ہے تو؟؟‘‘

    ’’وہ میرے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ میرے ڈبے سے مٹھائی نکال کر کھا لیتا ہے۔ اوپر سے وہ مجھ سے اپنے جوتے پہنانے کو کہتا ہے، ہر روز پانی۔۔۔‘‘، آج انکش کھل کر بول رہا تھا، ’’میں نے سزا دی نیرج کو۔۔۔‘‘ انکش نے سر اٹھا کر کہا۔

    ’’پتہ ہے، تو نے کتنی بڑی سزا دی اس کو؟‘‘

    ’’ہوں‘‘انکش نے دھیرے سے بند منہ سے جواب دیا۔

    ’’کیوں کیا تو نے ایسا؟؟۔۔۔ غلطی ہو گئی نا تیری! ۔۔۔ مجھ سے کہتا۔۔۔ ٹیچر سے کہتا۔۔۔ بول!‘‘

    ’’ہاں ممی !غلطی ہو گئی۔‘‘

    اچانک ممی کو کچھ خیال آیا۔ انکش کی بات کاٹ کر پوچھا، ’’انکش!۔۔۔ اچھا یہ بتا۔۔۔ مجھے توپتہ نہیں تھا، کیا تجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ نیرج تیری ٹیچر کا بیٹا ہے؟‘‘

    ’’پتہ ہے۔ وہ تجھے ستاتا تھا میں نے اس کو سزا دینے کے لئے اس کی واٹر بوتل میں تھوڑاسو سوکر دیا۔‘‘

    ’’تھوڑا!!۔۔۔ بہت بڑا غلط کام ہو ا ہے نا تجھ سے!‘‘ ممی نے آنکھیں پھاڑیں۔

    ’’ہاں بہت غلط کام ہوا مجھ سے۔۔۔ مگر ممی انہوں نے مجھے ننگا کرکے کیوں مارا؟‘‘، انکش نے اپناچہرہ دوبارہ ماں کے آنچل میں چھپا لیا۔

    ’’وہ تو تمہاری ڈرائنگ پر چاک پھینک رہے تھے نا!۔۔۔ تمہیں تو چھوا بھی نہیں نا بیٹا!‘‘

    ’’نائیں ممی انہوں نے مجھے مارا۔۔۔ انہوں نے مجھے بہت مارا۔۔۔‘‘

    مسزپاٹل نے محسوس کیا، وہ سر سے پاؤں تک لرز رہا تھا۔

    ’’لیکن۔۔۔ ممی انہوں نے مجھے ننگا کرکے کیوں مارا؟ مجھے کتنی شرم آئی تھی۔۔۔!۔۔۔ ہاں ممی!۔۔۔ بتائیے نا!۔ وہ مجھے کپڑوں میں بھی مار سکتے تھے نا!۔۔۔ انہوں نے مجھے ننگا کرکے کیوں ماراممی؟‘‘وہ اپنے جسم کو ماں کی ساڑی سے ڈھکنے لگا تھا۔

    مسزپاٹل کا سانولا چہرہ اور سنولا گیا۔ انہوں نے بیٹے کو اپنی بانہوں میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ انکش ان دو دنوں میں پھپھک پھپھک کر پہلی بار رویا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے