سائبان
کہیں دور سے آتی ہوئی شہنائی کی آواز نے آج پھر اس کےان خوابیدہ جذبات میں ہلچل مچا دی تھی جنھیں ان دس برسوں میں اس نے بڑی مشکلوں سے تھپک تھپک کر سلا یا تھا۔ اس نے پلٹ کر اپنے بغل والے بستر کی جانب دیکھا جو خالی پڑا تھا۔ دل میں درد کی ایک خفیف سی لہراٹھی جسے دبا کر اس نے سوچا، کیا فرق پڑتا ہے۔ تو پھر یہ طلب، یہ تڑپ، یہ خلش، یہ اضطراب کیوں؟ کچھ پانے کی آرزو کیوں، کچھ کھونے کا دکھ کیوں؟
اس کے سارے خواب تو ردی کاغذ کے ٹکروں کی طرح بکھر چکے تھے۔
اس نے بھی ہر لڑکی کی طرح بہت سارے سہانے سپنے سجائے تھے۔ اپنے صنم کا ایک حسین خاکہ ذہن میں مرتب کیا تھا جو جاگتے میں اس کے خیالوں میں آتا اور سوتے میں اسے خوابوں سے جگاتا۔ کہتے ہیں جہاں بیری کے پیڑ ہوتے ہیں وہاں ڈھیلے آتے ہی ہیں۔ لیکن اپنی زندگی کی بائیس بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اب تک اس کے آنگن میں ایک کنکری تک نہ آئی تھی کیونکہ جہیز کے لیے اس کے والد کے پاس بھاری رقم نہ تھی۔ سفید پوشی کا صرف بھرم تھا جو کسی سے بھی پوشیدہ نہ تھا۔ افلاس کی چکی میں پسا ہوا انسان اپنی اولاد کو اچھے طور طریقے، اچھی تربیت تو دے سکتا ہے لیکن ان لالچی اور ہوس پرست لوگوں کے خندق جیسے پیٹ کو بھرنا اس کے لیے نا ممکن ہوتا ہے۔
وقت دبے قدموں گزرتا جا رہا تھا۔ عمر بڑھتی جا رہی تھی ۔ ساتھ ہی ساتھ مایوسیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ لیکن بالآخر ایک دن ایک رشتہ آہی گیا ایک بڑی خامی کے ساتھ۔ چیچک کے ایک شدید حملے نے اس لڑکے کو ایک بڑی نعمت سے محروم کر دیا تھا۔ اس کی دونوں آنکھیں بےنور ہو چکی تھیں۔ جب اس نے سنا تو جیسے اس پر بجلی سی گر پڑی جس نے اس کے سارے خواب، سارے ارمان جلا کر خاک کر دیئے۔ لیکن وہ انکار نہ کر سکی کیونکہ وہ اپنے والدین کی پریشانیوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ان کی الجھنیں بڑھانا اسے گوارا نہ تھا۔ اس لیے اس نے اس رشتے کو منظور کر لیا۔ لیکن اس کی ہنستی کھیلتی زندگی مٹی کی مورت بن گئی۔
جب سہیلیاں سہاگ کے گیت گاتیں تو اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی مرثیہ پڑھا جا رہا ہو۔
وہ حجلۂ عروسی میں بیٹھی مایوسیوں کے بھنور میں ڈوب اور ابھر رہی تھی۔ جذبات کی دنیا میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ دل کی ڈھرکنیں بے ترتیب تھیں۔ کاش کوئی ایسا حادثہ ہو جائے کہ نہ میں رہوں نہ میرے خواب اور نہ میرے ارمان۔ رہ رہ کر یہ خواہش اس کے اندر بیدار ہو رہی تھی۔
دولہے کو اس کے دوستوں نے حجلۂ عروسی کے دروازے تک پہنچا دیا۔ اندر وہ ایک چھڑی کے سہارے داخل ہوا۔ بار بار وہ چھڑی کو لہرا کر کمرے کی پوزیشن کا اندازہ لگا رہا تھا۔ کسی طرح وہ اس جگہ پہنچ گیا جہاں دلہن بیٹھی تھی۔ دلہن نے نظریں اٹھا کر دیکھا اور غش کھاتے کھاتے بچی۔ آنکھوں کی خامی کو تو اس نے سیاہ چشمے سے چھپا لیا تھا لیکن چیچک کے بے شمار داغوں نے اس کے چہرے کے خد و خال کو بالکل مسخ کر دیا تھا۔ جلد کھردری اور شکن آلود ہو گئی تھی۔ چہرہ شادابی اور کشش سے محروم تھا۔
کیا یہی ہے اس کے سپنوں کا شہزادہ؟ دل میں نفرت کی ایک شدید لہر اٹھی اور آنسوؤں کی لڑیاں اس کے دامن میں جذب ہوتی چلی گئیں۔ کچھ دیران دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔ پھر اس نے ٹٹول کر اپنی منکوحہ کی موجودگی کو محسوس کیا۔
”یقیناً تم بہت خوبصورت ہو گی لیکن میرا یہ المیہ ہے کہ میں تم کو دیکھ نہیں سکتا۔ آج میں بے حد خوش ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ تمھیں اتنی خوشیاں دوں گا کہ تم اپنی ساری محرومیوں کو بھول جاؤگی۔”
“ہونہہ!یہ مجھے کیا خوشیاں دےگا۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر لوگ مجھ پر ترس کھائیں گے۔ میری قسمت پر افسوس کریں گے۔ ہر محفل، ہر تقریب میں میں احساس کمتری میں مبتلا رہوں گی۔ اس سے بہتر ہے کہ میں ساری دلچسپیوں سے منہہ موڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لوں۔” اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
”تم خاموش کیوں ہو؟ کچھ بولتی کیوں نہیں؟ کیا اس شادی سے تم خوش نہیں ہو؟”
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ قہقہے لگا کر کہے کہ بھلا اندھیرے کنویں میں گر کر بھی کوئی خوش رہ سکتا ہے؟
”یقین مانو‘میں پھول کی طرح تمھیں اپنے بیڈ روم میں سجا کر رکھوں گا۔”
”جیسے میں کوئی شو پیس یا گلدستہ ہوں۔” اس نے نا گواری کے ساتھ سوچا۔ اب نہ کوئی امنگ تھی، نہ جوش، نہ ولولہ۔ ایک لاش کی طرح اس نے خود کو شوہر کے سپرد کر دیا۔
دوسرے دن اس نے اپنا سارا سنگار اتار دیا۔ کس کے لیے سجوں؟ کون ہے دیکھنے والا؟
”تم نے چوڑیاں کیوں اتار دیں؟” شوہر نے سونی کلائی کا اندازہ لگا کر پوچھا۔ وہ خاموش رہی۔ مگر بار بار ایک ہی سوال سن کر جھنجھلا اٹھی۔
”کیوں پہنوں چوڑیاں؟ ہے کوئی آنکھوں والا جو انھیں دیکھے؟” اور چوڑی کی کرچیوں نے اس شخص کے احساس کو لہو لہان کر دیا۔
جب وہ اسے تفریح کے لیے کہیں لے جانا چاہتا تو وہ انکار کر دیتی۔ اسے خود کو تماشا بنانا گوارا نہ تھا۔ جب کبھی وہ اسے آواز دیتا تو سنی ان سنی کر دیتی۔ شوہر کی پکار پر اسے بےطرح غصہ آ جاتا۔ کبھی وہ لڑکھڑا کر گر جاتا تو اس کا دل قہقہے لگانے لگتا۔ نہ جانے اس کے دل کو ایسا کرنے سے کون سا سکون حاصل ہوتا تھا۔
خدا جب کسی سے بصارت، سماعت یا قوتِ گویائی چھین لیتا ہے تو اسے آگہی کی غیر معمولی طاقت عطا کر دیتا ہے۔ وہ اسی طاقت کے سہارے بیوی کے چہرے پر چھائی ناگواری، بےزاری اور الجھنیں دیکھتا رہتا۔ اس کا دل چاہتا کہ وہ اپنی شریک زندگی سے بہت ساری باتیں کرے اور وہ سب پوچھے جو اس کے دل میں سوال بن کر بار بار اکسا رہا تھا۔
”کیوں آئی تم میری زندگی میں؟ کیوں میرے خوابیدہ ارمانوں کو جگا دیا؟ کیوں ازدواجی لذتوں سے آشنا کر کے پل پل مجھے موت کی طرف گھسیٹ رہی ہو؟ کیوں میرا چین سکون چھین لیا؟ کیوں آخر کیوں؟”
لیکن اس نے اپنے ہونٹوں پر قفل ڈال لیا تھا کہ وہ اپنی طبیعت کو مزید مکدر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کھویا کھویا اور خاموش سا رہنے لگا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر کبھی کبھی وہ اپنے روئیے پر شرمسار سی ہو جاتی۔ اسے لگتا جیسے اس کے اندر سے بار بار یہ آواز آرہی ہے۔
“آخر تم اس کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیوں کرتی ہو؟ وہ تمھارا مجازی خدا ہے۔ تمھارا سائبان، تمھارا محافظ۔” لیکن فوراً ہی ایک دوسری آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی۔
“ہونہہ! سائبان، محافظ؟ جو اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا دوسروں کا محافظ کیسے بن سکتا ہے؟” پھر پہلی آواز آتی۔
”مت سوچو ایسا۔ ظاہری حسن پر مت جاؤ۔ دیکھو تو سہی اس کا دل کتنا خوبصورت ہے۔ چھوڑ دو نفرت“
”کیسے چھوڑ دوں؟ وہ شہزادہ جو ہر وقت میری نظروں کے آگے رہتا تھا وہ آج بھی میرے دل کے سنگھاسن پر براجمان ہے۔”
ہمہ وقت اس دل کے اندر یہ تکرار ہوتی رہتی۔
اب وہ دیر تک گھر سے باہر رہتا۔ کبھی کبھی گھنٹوں اپنی بےنور آنکھوں سے چھت کو گھورتا رہتا۔ وہ چھت جواس کے والدین نے اپنے اپاہج بیٹے پر ترس کھا کر اس کے نام کر دی تھی۔ اسے سر چھپانے کا آسرا دے دیا تھا ۔ وہ اندھوں کے اسکول میں پڑھاتا تھاجس سے دو وقت کی روٹی تو مہیا ہو جاتی تھی لیکن وہ پیار جو انسان کی زندگی اور صحت کے لیے ٹانک کا کام کرتا ہے، اسے وہ کس دکان سے خریدے؟ وہ ہر وقت یہی سوچتا رہتا۔
ایک دن اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ وہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں ایک ہفتے کے لیے باہر جا رہا ہے۔
پھر ایک ہفتہ بعد اس کا مختصر ساخط ملا۔ اس نے لکھا تھا۔
”یقیناً یہ خبر تمھارے لیے خوشی اور طمانیت کا باعث ہوگی کہ تمھیں زندگی کے اس عذاب اور ہیجانی کیفیت سے چھٹکارا دلانے کے لیے میں تمھاری زندگی سے بہت دور آ گیا ہوں کبھی نہ واپس جانے کے لیے۔”
خط پڑھتے ہی اسے ایسا لگا کہ اس کے سر سے چھت سرک گئی ہواور کڑی دھوپ میں اس کا بدن جھلسا جا رہا ہو۔
پھر برسوں بیت گئے۔
اس وقت سے لے کر آج تک وہ اس تپش میں جھلستی آرہی تھی۔ کبھی پلٹ کر جب وہ اپنے پاس والے بستر کی جانب دیکھتی تو خالی پن کا احساس اسے بے چین کر دیتا۔ ایسا لگتا جیسا وہ ایک خالی گھڑا ہے جو کسی بھی وقت لڑھک کر نشیب میں گر سکتا ہے۔ جب کبھی شہنائی کی آواز آتی تو اس کے جذبات میں طلاطم سا برپا ہو جاتا۔ وہ اس کیفیت سے نکلنا چاہتی تھی مگر ہزار کوششوں کے باوجود نکل نہیں پا رہی تھی۔
کئی بہاریں آئیں اور گئیں مگر اس کی زندگی کی بہار؟
پھر اچانک پورے دس برسوں کے بعد وہ آن موجود ہوا۔ شاید زندگی کی کٹھن راہوں پر تنہا چلتے چلتے وہ بھی اوب چکا تھا۔ مگر ان دس برسوں نے اس کے چہرے پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا تھا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ تندرست اور توانا ہو گیا تھا۔ شکن آلود چہرہ شادابی کی طرف مائل تھا۔ پروقار شخصیت اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ وہ سامنے کھڑا تھا۔ اب کسی بھی زاویئے سے وہ بد صورت کہلانے کے لائق نہ تھا بلکہ اس کی نظروں میں اس وقت وہ دنیا کا حسین ترین مرد لگ رہا تھا۔ وہ اس کے استقبال کے لیے بےاختیار آگے بڑھی لیکن کسی احساس کے تحت ٹھٹھک کر رک گئی۔ پھر پل بھر میں برسوں کا فاصلہ عبور کر کے اس نے بےساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا، جیسے کہہ رہی ہو۔
”اب چھوڑ کر کبھی نہ جانا۔” مرد نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا اور تب اسے ایسا لگا کہ زندگی کی تپتی دھوپ میں ابر کا ایک مہربان ٹکرا اس کے سر پر آ گیا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.