Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سخت جانی ہائے تنہائی

سعید نقوی

سخت جانی ہائے تنہائی

سعید نقوی

MORE BYسعید نقوی

    ‘‘ہائے میری ٹانگ‘‘ احمد کی سسکی میں درد کی شدت نمایاں تھی۔

    ارے کوئی ہے جو میری مدد کرے۔ احمد کا بدن کمر سے نیچے بالکل مفلوج ہو چکا تھا۔ کاش درد کا احساس بھی مفلوج ہو جائے، مٹ جائے۔ درد رہے یا نہ رہے بس محسوس نہ ہو۔ اس درد سے چھٹکارا پانے کے لئے اس وقت وہ سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھا۔ ارے کوئی میری مدد کرے۔ اس نے چاہا کہ ذرا کروٹ لے لے تو شاید آرام آ جائے، مگر جسم نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ درد کی ٹیسیں اب صرف جسم میں نہیں بلکہ جسم سے آگے کہیں روح تک میں کچوکے لگا رہی تھیں۔

    کان کا یہ حصہ تقریباً بارہ فٹ چوڑائی اور سولہ فٹ لمبائی کا ایک ہال سا تھا۔ فرش پر چھت سے گرنے والے کچھ چھوٹے بڑے پتھر پڑے تھے۔ دیوار پر لگا بلب معجزانہ طور پر ابھی تک جل رہا تھا، گویا زندگی کے ہونے کی یاددہانی کرا رہا ہو۔ سولہ کان کن بالکل ٹھیک تھے، خراش تک نہیں آئی تھی، بارہ کان کنوں کی ہلکی پھلکی چوٹیں تھیں۔ تین کان کن زیادہ زخمی تھے۔ چھت سے گرنے والے پتھر سے ایک کان کن کے سر پر شدید ضرب آئی تھی اور وہ بے ہوش تھا ایک کان کن کے اعضا پر ضرب آئی تھی اس کا ایک بازو اور پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کچھ جسمانی چوٹوں سے بے خبر تھے، کچھ درد سے کراہ رہے تھے، سب کے چہروں پر ہراس تھا۔ سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا جو کوئی زبان پر لانے کو تیار نہیں تھا۔ ٹمٹماتا بلب سامنے کی دیوار پر گھٹتے بڑھتے سایوں سے ایسی شکلیں بنا رہا تھا جس سے ماحول ڈراؤنا اور بوجھل ہو گیا تھا۔ کسی نے کھنکار کر گلا صاف کیا تو جیسے تمام کارکن کسی نیند سے بیدار ہو گئے۔ سب کو اپنی چوٹیں یاد آنے لگیں، ہر طرف سے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں۔ دو کارکن باقاعدہ آواز سے رو رہے تھے۔ احمد کی آواز ان کی آواز میں دب گئی تھی۔ جو کم زخمی تھے وہ زیادہ آواز سے شور کر رہے تھے۔ گاؤں کا مولوی نورالدین بھی ان دبے ہوئے کان کنوں میں شامل تھا۔ شومی قسمت وہ ان سولہ کان کنوں میں شامل تھا جن کا بال بھی بیکا نہیں ہوا تھا۔ جبار نے لپک کر احمد کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔

    ‘‘سب مل کر زور لگائیں تو یہ بڑا تودہ ہٹ جائے اور احمد اس کے نیچے سے نکل آئے’‘ جبار نے ساتھی کان کنوں کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا نورالدین اس وقت تک دوسرے زخمی کے پاس پہنچ گیا تھا اور اس کے گال پر ہلکے ہلکے تھپڑ لگا کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔

    ‘’ذرا سا پانی ہوتا تو اسے ہوش میں آنے میں آسانی ہو تی‘‘ نورالدین نے بے بسی سے کہا۔ جواب سب کو معلوم تھا لیکن کسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔

    جن کان کنوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں ان کے سر کے نیچے قمیضوں کا تکیہ بناکر رکھ دیا گیا۔ یہ تو اچھا ہوا کسی کے بھی خون جاری نہیں تھا۔

    ‘’اب کیا ہوگا‘‘ یہ سوال جو اکتیس ذہنوں کے ہر خلیے میں موجود تھا۔ مزید دبا نہ رہ سکا۔ ایک کان کن نے روتے ہوئے یہ سوال کیا داغا، وہ جو ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے سب اچانک ایک ساتھ بولنے لگے۔

    ‘’ہونا کیا ہے زندہ دفن ہوں گے’‘

    ‘’مجھے تو بہت پیاس لگ رہی ہے’‘

    ‘’میں ایسے زندہ دفن ہونے کو تیار نہیں’‘

    ‘’مجھے سانس نہیں آ رہی‘‘ ایک کان کن سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔

    یہ جملے آپس میں ایسے ہی گڈمڈ ہو کر معنی کھو رہے تھے، جیسے اکلوتے بلب کے پیدا کردہ سامنے دیوار پر رقص کرتے کالے دیو۔

    ‘’اللہ کی ذات سے اتنا مایوس بھی نہیں ہونا چاہئیے’‘ نورالدین کی آواز میں چھپی امید نے باقی آوازوں کا گلا گھونٹ دیا۔ بے یقینی اور ہراس کے ماحول میں امید کا صور ایسا ہی جادو اثر ہوتا ہے۔ سب بانسری بجانے والے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔

    ‘’مجھے نہیں معلوم ہم کب تک قید میں رہیں گے’‘ نورالدین کی تقریر جاری تھی’’لیکن میں اس کی ذات سے مایوس نہیں ہوں۔ وہ لوگ یقیناً ہمیں کھود نکالنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ میرا تجربہ بتاتا ہے کہ یہاں ہفتوں کے لئے آکسیجن موجود ہے’‘ نورالدین نے جیسے خود بخود کنٹرول سنبھال لیا۔ ’’سب سے پہلے اپنی جیبوں، کونے کھدروں میں دیکھئیے کچھ کھانے کے لئے موجود تو نہیں؟‘‘

    ‘’ہاں اگر ہے تو کچھ کھا پی لیں تاکہ سوچنے سمجھنے کی قوت بحال ہو‘‘ ایک کان کن نے رائے دی۔

    ‘’بےوقوف، اگر کچھ نکل بھی آئے تو اسے بہت سنبھال کر خرچ کرو، کیا معلوم یہاں کب تک قید رہنا پڑے’‘ دوسرے کان کن نے مشورہ دیا۔

    ایک بار پھر مختلف آوازیں گونجنے لگیں۔

    ‘’میرے خیال میں ہمیں ایک لیڈر چن لینا چاہئیے، تاکہ آپس میں اختلاف نہ ہو‘‘ نورالدین اجتماعی بے چینیوں سے نبٹنے کے ہنر سے واقف تھا۔

    ‘’ارے احمد کو اس تودے سے نکالنے میں کوئی مدد کرو‘‘ اس سے پہلے کہ کوئی نورالدین کی بات کا جواب دیتا، جبار کی ملامتی آواز آئی۔ اپنی بے حسی سے شرمندہ کئی کان کن اٹھ کر لپکے۔

    ‘’ ٹھہرو، یہ بے وقوفی نہ کرنا‘‘ نورالدین اطمینان سے بیٹھا رہا، اس نے اٹھنے کی کوئی کوشش نہیں کی ‘’کیا مطلب، احمد کو ایسے ہی تودے کے نیچے دبے رہنے دیں، درد سے تڑپ رہا ہے’‘ اب جبار چیخ پڑا۔ دیگر کان کنوں نے بھی حیرت سے نورالدین کو دیکھا۔

    ‘’بھئی کان میں حادثہ ہو تو اندر بغیر سوچے سمجھے ایسے دیواریں اور تودے ادھر سے ادھر نہیں کرتے، ہو سکتا ہے مزید مٹی اور چھت سر پر آن پڑے، نکاسی کا راستہ نہ بند ہو جائے۔’‘ نورالدین نے سمجھایا۔

    ‘’جو ہوگا دیکھا جائےگا، ابھی کم از کم اسے تو درد سے نجات دلائیں، اللہ سے امید رکھیں اچھا ہی ہوگا‘‘ جبار نے تودے کو اکیلے ہی ہلانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

    ‘’احتیاط لازم ہے، تودے کو ہٹانے میں بہت خطرہ ہے’‘ نورالدین نے ساتھی کان کنوں کو سمجھایا۔ جبار نے سب کی طرف طائرانہ نظر ڈالی، سب کان کن تودے سے پیچھے ہٹ گئے، لیڈر کا انتخاب خود بخود ہو گیا تھا۔

    ‘’میں تو کہتا ہوں یہ عذاب ہم پر آیا بھی احمد کی وجہ ہی سے ہے’‘ نورالدین جیسے اپنے آپ سے بولا۔

    ‘’کیا مطلب’‘ جبار زخمی آواز میں بولا۔

    ‘’تمھیں اپنے یار کی حرکتیں نہیں معلوم‘‘ نورالدین زہر خند لہجے میں بولا۔

    ‘’کیا کہنا چاہ رہے ہو‘‘ جبار اس جال میں پھنس چکا تھا پیچھے ہٹنا ممکن نہیں تھا۔

    ‘’اپنی کان کے مالک خرم صاحب کی بیوی سے اس کا تعلق سب ہی جانتے ہیں، جلد یا بدیر سزا تو ملنی ہی تھی‘‘ نورالدین کی آواز زہر میں بجھی تھی۔

    ‘’بکواس بند کر نورالدین‘‘ جبار غصے سے نورالدین کی طرف بڑھا تو کئی کان کن بیچ میں آ گئے۔ ’’ہوش کر جبار، نورالدین صحیح کہہ رہا ہے، کیسی شیخی مارتا تھا احمد‘‘

    ‘’لیکن احمد کے ساتھ ہمیں کس چیز کی سزا مل رہی ہے’‘ ایک اور کان کن کے سوال کا نورالدین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ احمد اب درد کی شدت سے نکل کر نیم بیہوشی کی وادیوں میں بھٹک رہا تھا۔

    دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ میلوں دور ملک برادرز کے دفتر میں کھڑکی کے شیشے بجنے لگے۔ خرم کچھ ہی دیر پہلے دفتر پہنچا تھا۔ آبائی ملکیت تھی کانوں کی۔ یہ بات تو قدرتی تھی کہ وقار ملک کے بعد علی احمد ملک اور اب خرم ملک ہی اس کاروبار کو سنبھالےگا۔ یہ ملکیت صرف تین پشتوں تک ہی محدود نہیں تھی، لیکن صرف اتنی موروثیت ہی خرم ملک کو زبانی یاد تھی۔ ان تین پشتوں کے نفع سے اب کاروبار دوسری شاخوں میں بھی پھیل گیا تھا، چمڑے کا کام، ملبوسات کا کام، اب تو سیمنٹ کی فیکٹری بھی لگی ہوئی تھی۔ لیکن اس دولت کا اصل ماخذ تو یہی کانیں تھیں۔ معدنیات کے علاوہ، سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھر ملک برادرز کی تجوریوں کا پیٹ بھر رہے تھے۔ خرم ملک آکسفورڈ سے کان کنی میں ماسٹرز کی ڈگری لے کر آئے تھے۔ فیشن تو یہی تھا کہ خاندان کے چشم و چراغ سمندر پار کسی معروف یونی ورسٹی سے ڈگری لے آئیں۔ گو عموماً یہ ڈگری ان کی سوچ، فکر یا علمیت کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی تھی۔ پشتوں سے یہ شہسوار ڈگری تو لے آتے مگر تعلیم یافتہ ہونا ان کی سرشت میں نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی بھی مطمئن رہتی کہ بیرونِ ملک کے طلبہ ایک سے بھاری فیس موصول ہو جاتی۔ یہ گریجویٹ اپنے گھر جا کر ہی لنکا ڈھاتے۔ مگر خرم ملک کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ انہوں نے تو تعلیم کو سنجیدگی سے لے لیا تھا، ذہنی طور پر بن سنور کر واپس لوٹے تھے۔ کان کنی میں ماسٹر ڈگری کے دوران کان میں ہونے والے حادثے، اس کے اثرات، اس کے بچاؤ اور سدباب سب کے متعلق کتنا ہی تو پڑھا تھا۔ ذہنی طور پر ہر وقت وہ اس حادثے کے لئے تیار تھے، پلان بنے ہوئے تھے، مگر یہ قیامت واقعی آ بھی جائےگی، یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اب جو زوردار دھماکے کی آواز سنی تو اس کا دل بیٹھ گیا۔ کھڑکی میں لگے شیشے اپنی اپنی جگہ اچھل کود کر واپس جم گئے۔ خرم ملک کے دل کا بھی شاید یہی حال ہوا۔ ابھی یہ حقیقت ذہن میں بیٹھی بھی نہیں تھی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔

    ‘’کیا ہوا سر؟‘‘ عالیہ گھبرائی ہوئی دفتر میں داخل ہوئی۔

    خرم اس کی بات ان سنی کر کے فون کا چونگا اٹھا چکے تھے۔ دوسری طرف سے وہی خبر ملی جس سے وہ لاشعوری طور پر پہلے ہی واقف تھا۔

    فون رکھ کر وہ دھم سے کرسی پر سا گیا۔

    ‘’کیا ہوا سر‘‘ عالیہ نے اب نزدیک آکر خرم ملک کے شانوں پر ہلکا مساج شروع کر دیا۔ خرم برطانیہ سے شادی کر کے لوٹے تھے لیکن عالیہ کے سحر سے نہیں بچ سکے تھے۔ پہلی غلطی تو اس وقت ہوئی جب عالیہ کو اس کی شکل و صورت دیکھ کر اپنی سیکریڑی کے طور پر ملازم رکھ لیا۔ عالیہ پڑھی لکھی تھی اور سابقہ تجربہ بھی تھا، لیکن خرم نے یہ فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے کیا تھا۔ اس غلطی کے بعد پھر دوسری غلطیاں ہوتی چلی گئیں۔ اس پر طرہ یہ کہ عالیہ نے اپنی حیثیت سے زیادہ کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا۔ اب اس دہرے رشتے کی مقناطیسیت چاہنے کے باوجود انہیں آزاد نہیں ہونے دیتی تھی۔

    خرم نے کرسی سے اٹھ کر کوٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو عالیہ اسے پہلے ہی وا کئے تیار تھی کہ وہ اپنے بازو اس میں ڈال دے۔

    ‘’کان میں دھماکہ ہو گیا ہے’‘ ابھی تفصیلات کا نہیں پتہ۔ الماری میں سے’’حادثے کے بعد’‘ کے عنوان کا فولڈر نکالو اور اس پر عمل شروع کراؤ۔ انجینئر سے کہو فوراً مجھ سے کان پر ملے۔ سب ملازمین سے کہو چھٹی کے بعد بھی موجود رہیں کہ کوئی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ خرم تقریباً بھاگتے ہوئے دفتر سے نکل رہے تھے، ساتھ ہی ہدایات کا سلسلہ جاری تھا۔ حادثے کی مختلف جہتیں ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے تک عالیہ کو ہدایات دیتے رہے۔ ڈرائیور کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دھماکے کی آواز نے ایک غیرمحسوس طور پر مالک اور مزدور سب کی حسیت کو ایک خاص سطح پر ہموار کر دیا تھا۔ خرم کے دروازہ بند کرتے ہی ڈرائیور نے تیزی سے کار کان کی طرف بڑھا دی۔

    کان میں وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ ٹھٹکا ہوا، سہما ہوا وقت، جیسے کوئی جانور اچانک کار کے سامنے آ جائے اور شش و پنج میں رہے کہ آگے بھاگنا بہتر ہے یا واپس لوٹنا۔ وقت بھی ایسے ہی منجمد ہو گیا تھا۔ زخمی کان کن اپنی اپنی جیبوں، اوور آل، اوزار کے تھیلوں اور بکسوں کی تلاشی لے کر سامان جمع کر رہے تھے۔ ٹارچ، ماچس، پانی، پٹی کرنے کے قابل کوئی سامان، غذا یا پینے کے قابل کوئی شے۔ یہ سب چیزیں ایمانداری سے ایک ہی جگہ جمع کی جا رہی تھیں۔ یہ سارا کام ایسی خاموشی سے ہو رہا تھا جیسے آواز نکلی تو کوئی اور دیوار گر پڑےگی۔ احمد کی درد بھری آواز بھی اب بند ہو گئی تھی، درد شاید مایوس ہو گیا تھا یا بے ہوش کی وادی میں پناہ مل گئی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ یہ کام فوراً ہی ختم ہو گیا۔ کون سا ایسا لق و دق میدان تھا۔ چاروں طرف کان کی دیواریں، نیچی چھت، گنے چنے اوزاروں اور غذا کے تھیلے، سب کی تلاشی فوراً ہی مکمل ہو گئی۔ اب وہ سب پھر اضطراب میں تھے کہ اب کیا کریں۔ نورالدین بھی اتنی جلد فراغت پر مضطرب تھا مگر اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ وہ جانتا تھا انہیں مصروف رکھنا کتنا اشد ضروری ہے۔ جیسے ہی فارغ ہوں گے اپنی صورت حال کے متعلق سوچنے کا موقع ملےگا اور مایوسی، نا امیدی انہیں گھیر لے گی۔ امید ان کی مشترکہ دوست تھی، جس نے سب کو ایک بندھن میں باندھ دیا تھا۔ مایوسی اور نا امیدی ان کان کنوں کی حیوانی جبلتوں کو بیدار کرتی، زندہ رہنے کی تڑپ ایک دوسرے کے مقابل صف آرا کر دیتی۔ انہیں مصروف رکھنا کتنا ضروری لیکن کتنا دشوار ہوگا، نورالدین اس خیال سے ہی سہما جاتا تھا۔

    ‘’اب جتنی بھی غذا ہے اسے فی کس کے حساب سے تقسیم کر دو۔ لیکن ایسے خرچ کریں گے کہ کم از کم یہ تین دن تک تو چل سکے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں پڑےگی، پھر ہم آزاد ہوں گے’‘۔

    نورالدین کو خود بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ تین دن کا دورانیہ کہاں سے اس کے ذہن میں آیا۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ اب کم از کم اسے اتنا وقت ضرور مل گیا تھا۔

    ‘’تین دن؟‘‘ کسی سمت سے آواز آئی۔

    تین دن ہی تو ہیں، تین ماہ تو نہیں۔ آرام سے گزر جائیں گے۔ اپنے رب کو یاد کرو اور آپس میں اخلاص سے رہو۔ اس وقت ہمیں سخت ضرورت ہے۔

    ‘’نورالدین، احمد کو بھی ذرا دیکھ لے’‘ کسی نے رائے دی۔

    ‘’خود کیوں نہیں دیکھ لیتے’‘ نورالدین ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ’’سزا دینا اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، بچانا چاہےگا بچالےگا، مالک کی عورت پر نظر رکھنے والے کا مر جانا بہتر ہے’‘۔

    اتنے میں عقب سے ایک کراہ کی آواز آئی۔ ایک بیہوش مریض ہوش کی وادی میں واپس قدم رکھ رہا تھا۔ نورالدین نے لپک کے اس کا سرہانا اپنی گود میں رکھ لیا۔ چند سال ایک کمپونڈر کا کام کرنے کا تجربہ تھا۔ سر گود میں رکھنے میں پوری احتیاط برتی تھی کہ سر سیدھا رہے۔ گردن کی ہڈی پر ضرب ہوئی تو بے توجہی سے بات خراب بھی ہو سکتی ہے۔

    ‘’پانی‘‘ زخمی کے منہ سے نکلا۔

    ‘’ذرا سا اس کے منہ میں پانی تو ٹپکا دو‘‘ نورالدین نے ایک کان کن سے کہا۔

    ‘’لیکن ابھی تقسیم مکمل نہیں ہوئی‘‘

    ‘’کوئی بات نہیں، بعد میں اس کے حصے میں سے یا میرے حصے میں سے کم کر لینا، لیکن ابھی تو اس کو پانی دے دو۔’‘ نورالدین نے بڑے رسان سے کہا۔

    اس سے نبٹ کر، وہ دوبارہ اپنی جگہ بیٹھنے سے پہلے دوسرے زخمیوں پر نظر ڈالنا نہیں بھولا تھا۔ احمد کے پاس جبار تھا، نورالدین نے اس کی طرف جانے کی زحمت نہیں کی۔ ایک چادر نما کپڑا بچھا کر اب اس پر خورد و نوش کی جو اشیا مل سکی تھیں انہیں اکتیس حصوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا۔

    ‘’اگر جلد ہی کوئی آسرا نہیں بنا تو کیا ہوگا‘‘ نورالدین نے دل میں سوچا۔ جب تک امید باقی ہے، یہ سب کان کن مہذب ہیں، بلکہ اس مصیبت میں گرفتار ہونے کے سبب باہمی تعاون بڑھ گیا ہے۔ کسی ایسی حرکت کا امکان نہیں جس سے بچانے والا اپنا ارادہ بدل دے۔

    ڈرائیور نے گاڑی حادثے والی کان سے تھوڑے فاصلے پر روکی تو خرم فوراً باہر آ گئے۔ لوگوں کی ایک بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔ عورتوں کے بین کرنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ لوگوں کی پریشانی ابھی اشتعال میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی کان کے دو حفاظتی گارڈ خرم کے نزدیک آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ مایوس اور غمگین آدمی اپنا غصہ کسی پر بھی نکال سکتا ہے۔

    ‘’اطلاع یہ ہے کہ حادثے کے وقت کان میں کوئی نوے مزدور تھے۔ ان میں سے انسٹھ باہر نکل آنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اکتیس کان کن لا پتہ ہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ کان میں پھنسے ہوئے ہیں’‘ انجینئر نے خرم کو رپورٹ دی۔

    ‘’ان کے زندہ رہنے کا کیا امکان ہے’‘ خرم کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ انجینئیر کو قریب آ کر سننا پڑا۔ لیکن وہ اس سوال کے لئے تیار تھا۔

    ‘’جہاں چھت گری ہے اس کے پیچھے ایک ہال نما جگہ ہے جہاں اس وقت کھدائی ہو رہی ہے، امکان ہے کہ یہ وہاں موجود ہوں گے۔ اگر کسی بھاری پتھر یا تودے کے نیچے نہیں دب گئے تو فوری خطرہ نہیں ہے’‘ انجینئیر کی آواز بھی اتنی ہی دھیمی تھی۔

    ‘’ہمارے پاس کتنا وقت ہے’‘ کیا ڈاکٹر کیا انجینئر اس سوال سے سب ہی گھبراتے ہیں۔ کتنا وقت باقی ہے، سارے عمل اور کردار کا دارومدار اسی کے گرد گھومتا۔ اسی لئے اپنی تمام سائنسی تربیت کے باوجود انجینئیر کے لئے یہ سوال سب سے ٹیڑھا تھا۔

    ‘’شاید چند دن، سارا انحصار غذا اور زخمیوں کی حالت پر ہے’‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔

    اب خرم نے مجمعے کی طرف رخ کیا۔ اس کی پیشہ ورانہ تربیت یہی کہہ رہی تھی کہ صورت حال کا قرار واقعی جائزہ پیش کر دے۔ اچھے برے سارے عوامل۔

    ‘’آپ سب کو معلوم ہے کہ کان نمبر سولہ کی چھت گر گئی ہے۔’‘ خرم نے مضطرب چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ہمارے اکتیس دوست لاپتہ ہیں۔ امید ہے کہ یہ ملبے کے پیچھے ایک ہال نما کمرے میں قید ہو گئے ہیں۔ ’‘مجمعے نے واضح طور پر سکون کا ایک مشترکہ سانس لیا۔‘‘

    ‘’لیکن، لیکن اب اس ملبے کو بہت احتیاط سے اٹھانا ہے کہ جہاں وہ سب مقید ہیں، اس حصے پر دباؤ نہیں پڑے۔ فیصل آباد سے بڑی کرینیں پہلے ہی چل پڑی ہیں۔ لیکن ملبہ ہٹاکر راستہ بنانے میں چند دن بھی لگ سکتے ہیں۔’‘ اب مجمعے کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انتظامیہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھےگی‘‘۔ لوگ شاید اس سے بھی زیادہ بری خبر کے منتظر تھے کہ وہ اس سہارے سے اپنی امیدیں باندھ کر وہیں بیٹھ گئے۔

    ‘’عارضی خیمے لگواکر، کچھ یہاں روشنی کا انتظام کریں’‘ خرم نے ہدایات دیں ’’پھنسے ہوئے کانکنوں کے جو اعزا یہاں رہ کر انتظار کر رہے ہیں انہیں خیموں میں جگہ دیں، ان کے کھانے پانی کا میری طرف سے انتظام ہو گا۔ انجینیر صاحب آپ اپنی ساری توجہ ملبے کے پار راستہ بنانے پر مرکوز رکھیں’‘۔

    ‘’ملک صاحب یہ کان کنوں کی آج کی شفٹ کی فہرست ہے’‘ ایک اوورسیر نے خرم کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما دیا۔ ’’جو لوگ باہر آ گئے ہیں ان کے نام پر میں نے ایک لکیر کھینچ دی ہے’‘۔

    خرم پھنسے ہوئے کانکنوں کی فہرست پڑھنے لگا۔ انگلستان سے آنے کے بعد اس نے کوشش کی تھی کہ اپنی کانوں میں کام کرنے والے تقریباً دو سو کان کنوں کو وہ نام سے جان سکے۔ فہرست پر نظر دوڑاتے ہوئے اس کی نظر احمد کے نام پر آ کر رک گئی۔ احمد پہلے اس کے گھر میں ڈرائیور تھا۔ اپنی بیوی کا ڈرائیور کی طرف التفات کا معاملہ کچھ زیادہ چھپ نہ سکا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد خرم کو ایسی چہ می گوئیاں سننے کو ملیں کہ اسے یقین نہ آیا۔ اپنا دامن خود صاف نہ ہونے کی بنا پر اس میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ بیوی سے پوچھ گچھ کرتا۔ شکر ہے اوورسئیر نے احمد کو گھر کی ڈرائیوری سے ہٹا کر کان میں لگا دیا تھا، یہ مسئلے کا قابلِ قبول حل تو نہ تھا مگر اس سے خرم کو وقت مل گیا تھا کہ اپنے معاملات پر نظر ثانی کر سکے۔ اب جو فہرست میں احمد کا نام دیکھا تو دل میں عجیب عجیب خیال آنے لگے۔ شاید قدرت نے یہ موقع اسے جان بوجھ کر دیا ہے۔ ایک قدرتی حادثے کے باعث اس عذاب سے چھٹکارا مل جائے تو کیا اچھا ہے۔

    اوورسئیر خرم کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا دزدیدہ نگاہوں سے جائزہ لے رہا تھا گویا اس کے دل میں جاری جنگ سے واقف ہو۔

    کان میں اب انتظار کا موسم شروع ہو گیا تھا۔ اشیاء کی تقسیم مکمل ہو چکی تھی۔ زخمیوں کی حتی الامکان مرہم پٹی کر دی گئی تھی۔ اب انتظار تھا کسی آواز کا، کسی اجنبی روشنی یا سائے کا۔ پژمردہ چہرے، ایک دوسرے سے آنکھیں ملانے سے گریزاں۔ فضا میں اب ایک بساند سی شامل ہو گئی تھی۔ حادثے کو کئی گھنٹے ہو چکے تھے۔ دو کان کن مزید برداشت نہیں کر سکے تھے اور ایک کونے میں جا کر پیشاب کر آئے تھے۔

    ‘’نورالدین، ایک بات مجھے تنگ کر رہی ہے’‘ ایک کان کن اپنا منہ نورالدین کے کان کے پاس لا کر بولا۔

    ‘’وہ کیا ہے میاں؟‘‘

    ‘’نورالدین وہ، وہ ملک صاحب بھی تو اس احمد سے واقف ہیں’‘

    ‘’تو؟‘‘

    ‘’تو یہ کہ‘‘ ایک توقف آ گیا، کان کن کچھ سوچ رہا تھا لیکن کہہ نہیں پا رہا تھا۔

    ‘’ابے تو کیا؟‘‘

    ‘’تو ملک کے لئے اس سے بہتر موقع کیا آئےگا‘‘

    ‘’نہیں’‘ نورالدین سناٹے میں آ گیا۔ ’’ایسا کیسے ممکن ہے اور ہم سب‘‘ لیکن اس کی آواز میں ایک بے یقینی تھی۔

    ‘’تیرے ذہن میں یہ وسوسہ آ بھی گیا تھا تو اپنے تک نہیں رکھ سکتا تھا؟‘‘ نورالدین الٹ پڑا۔ لیکن آواز دھیمی ہی رکھی تھی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ لاعلمی ایک نعمت بھی ہو سکتی ہے، آج ثبوت بھی مل گیا۔

    ‘’نہیں، تو خرم صاحب سے واقف نہیں، میں جانتا ہوں۔ فکر نہ کر۔ وہ ہم سب کو بچانے کی پوری کوشش کریں گے اور پھر اوورسئیر، سرکاری کارندے، ہمارے گھر والے’‘ نورالدین کچھ اسے تسلی دے رہا تھا کچھ اپنے آپ کو۔

    ‘’کیا وقت ہو گیا، کتنے گھنٹے ہو گئے ہمیں یہاں پھنسے’‘ ایک کان کن نے سوال کیا۔

    ‘’کوئی چودہ کلاک ہو گئے ہیں’‘ ایک ساتھی کی روہانسی سی آواز آئی۔

    ‘’میرے خیال میں ہمیں کچھ سونے کی کوشش کرنی چاہئیے’‘ نورالدین نے رائے دی۔

    ‘’نیند کس کمبخت کو آئےگی؟‘‘

    ‘’صحیح کہہ رہے ہو لیکن آنکھیں موند کر، بن کے ہی پڑ جاؤ۔ اٹھیں گے تو کچھ وقت بھی گزر جائےگا، پھر کچھ ایک ایک راشن بھی پیٹ میں ڈال لیں گی۔’‘ نورالدین نے اپنی قمیض کا بچھونا راشن کے سامنے لگا دیا تھا۔ گویا یہ اس کی آرام گاہ تھی۔ وہ اس قلیل مقدار کو برابری سے تقسیم کرنے کی نیت رکھتا تھا۔ اسے پتہ تھا بھوک ایک ایسا جانور ہے جو ایک دفعہ بیدار ہو جائے تو خود اپنا گوشت کھانے سے بھی نہیں چوکتی۔ کچھ دیر کے لئے کان میں خاموشی چھا گئی، حیرت یہ ہے کہ چند کان کن واقعی سو بھی گئے۔

    بھاری مشنری کے انتظار میں خرم بیٹھا نہیں رہا تھا۔ اس کی تربیت کام آئی تھی۔ ایک دو انچ چوڑا سوراخ بہت احتیاط سے آگے بڑھایا جا رہا تھا، جیسے کوئی سانپ اپنا راستہ بناتا جا رہا ہو۔ بند کان میں پھنسے مزدوروں کی جائے پناہ کا اندازہ تقریباً ڈھائی سو فٹ زیرِ زمین لگایا گیا تھا۔ یہ دو انچ چوڑا سوراخ اب تقریباً پچاس فٹ کی مسافت طے کر چکا تھا، لیکن اسی میں چھتیس گھنٹے لگ گئے تھے۔ کان کے باہر اولین بھاری مشنری کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ رشتہ داروں کے ساتھ کچھ اخبار والوں نے بھی ڈیرہ لگا لیا تھا۔ ٹی وی والے بھی مستقل حال بتا رہے تھے، اب پوری قوم کی توجہ اس سانحے کی طرف مبذول ہو چکی تھی۔

    ‘’ٹن‘‘ اس آواز کے ساتھ ہی سوراخ کرنے والی مشین کی گراری رک گئی۔

    ‘’کیا ہوا‘‘ خرم نے فوراً سوال کیا، یہ آواز کیسی تھی۔ ان چھتیس گھنٹوں میں وہ ایک بار بھی نہیں سویا تھا۔ گھر سے کئی دفعہ پیغام آ چکا تھا کہ وہ آ جائے، اوورسیر کس کام کے لئے رکھا ہے، مگر اس کا دل نہیں مانتا تھا۔ اس ملک کے خون میں یقیناً کچھ خرابی تھی یا اس کا کوئی پرزہ ڈھیلا تھا، کوئی بات بھی ملکوں والی نہیں تھی، کوئی اور ہوتا تو بیوی کو نکال دیتا یا احمد کو مروا دیتا۔ چلو تب نہیں تو اب، کیسا اچھا موقع تھا، مگر اس میں تو کوئی بات ملکوں والی تھی ہی نہیں۔

    ‘’جناب برما نکاسی کے پائپ سے ٹکرایا ہے’‘ انجینئیر جو نقشے پر جھکا ہوا تھا اس نے انگلی سے پائپ کا راستہ واضح کیا۔

    ‘’یہی پائپ نیچے اس ہال سے بھی گزر رہا ہے جہاں وہ کان کن پھنسے ہیں؟‘‘ خرم کی آواز میں دبا دبا جوش تھا۔

    ‘’ہاں گزر تو رہا ہے، لیکن آپ فکر نہ کریں تھوڑی دیر ضرور لگےگی لیکن برما گھوم کر پائپ کے نیچے سے سوراخ گہرا کرتا رہےگا، یہ کان کنی کا خاص آلہ ہے جناب‘‘

    ‘’اچھی بات ہے، لیکن میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس برمے سے پائپ پر آواز پیدا کی جائے تو نیچے ہال میں بھی شاید سنی جا سکے، انہیں معلوم ہو جائے کہ ہم ان کی تلاش میں ہیں۔’‘

    ‘’ٹن‘‘ کی آواز نیچے ہال میں بھی سن لی گئی تھی۔ آواز نے گویا مردہ جسموں میں جان ڈال دی۔

    ‘’اوئے سنا تو نے، تم نے بھی سنا‘‘ کئی کان کن ایک ساتھ بول پڑے۔

    ‘’وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں، انہوں نے ہمیں پا لیا ہے’‘

    ‘’ اللہ تیرا شکر ہے’‘ نورالدین نے دعا کو ہاتھ بلند کر دئے۔

    لیکن ٹن کی وہ خوش کن آواز ایک بار آ کر پھر دوبارہ نہیں آئی تو چہرے لٹکنے شروع ہو گئے۔ کوئی کچھ نہیں بولا، لیکن آنکھوں میں بہت سے سوالات تھے، شکایت تھی کہ یہ کیسا مذاق تھا۔ اس مختصر ہال کی ہوا اب دبیز ہو چکی تھی۔ تازہ ہوا کی آمد نہیں تھی، جو آکسیجن جمع تھی وہ اکتیس نفوس سانس لے کر خرچ کر رہے تھے۔ پھر سانس کے ساتھ جو گیس خارج ہو رہی تھی اس سے ہال کی فضا بوجھل تھی۔ نورالدین کا بس چلتا تو سانس لینے پر بھی راشن لگا دیتا۔ بقیہ تیس کان کن اسے اپنی ذمہ داری محسوس ہو رہے تھے۔ احمد کو نکال بھی دوں تو بھی ان تیس جنوں کا تو کچھ کرنا ہوگا، اس نے دل میں سوچا۔

    اب تقریباً دو دنوں کے بعد اس کی تسلیوں میں وہ دم خم نہیں تھا۔ پھر یہ کہ وہ کچھ بھی کہے، فضا میں بڑھتی ہوئی مایوسی کچھ اور کہانی سنا رہی تھی۔

    ‘’ٹن‘‘ آواز پھر سنائی دی اور پھر ٹن ٹن ٹن، نورالدین کو لگا کوئی قید خانے کا تالہ کھول کر آزادی کی نوید دے رہا ہو۔ اس نے جھٹک کر اپنے سر کو صاف کیا۔ نقاہت سے خود اس کا دل بھی اٹھنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ اب تک سب مل کر دو دو راشن کھا چکے تھے کوئی پانچ پانچ راشن ہر ایک کے حصے کے باقی تھے۔ شکر ہے چند کان کن زخموں سے بیہوش تھے ورنہ راشن اور کم ہو جاتا۔ نورالدین کو خود ہی اپنی گھٹیا سوچ پر شرمندگی ہوئی۔ پانچ پانچ راشن، راشن کیا ایک مٹھی بھر چاول، یا دو بسکٹ یا کسی کے پاس بچی ہوئی ایک روٹی۔ دن میں اگر دو راشن سے گزارہ کریں تو ڈھائی دن چل سکتے ہیں۔ حالانکہ اس کی بھوک اس وقت ایسی تھی کہ پورے اکتیس بندوں کا پانچوں وقت کا راشن منٹوں میں چٹ کر سکتا تھا۔ اس نے دیوار کے سہارے خود کو کھڑا کیا اور ٹن کی آواز کی سمت بڑھا۔ یہ جاننا زیادہ دشوار نہ تھا کہ یہ آواز اس پائپ میں سے آ رہی تھی جو سامنے والی دیوار اور چھت کے جوڑ کے ساتھ ساتھ دوڑ رہا تھا۔ اس ہال میں کئی چیزیں ایسی تھیں جسے نورالدین پائپ پر مار کر آواز پیدا کر سکتا تھا۔ اس نے ایک ہتھوڑا اٹھا کر پائپ پر برسانا شروع کر دیا۔ ’’ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن‘‘ نورالدین نے بیرونی دنیا سے رابطہ بحال کر لیا۔

    پائپ کے اطراف سے گزر کر دو انچ کے راستے کو مزید آگے بڑھانا خاصہ دشوار ثابت ہوا۔ اب حادثے کو تقریباً تین دن گزر چکے تھے۔ اندر اور باہر دونوں طرف سے ٹن ٹن امیدیں بحال رکھے تھی۔ وہ رشتہ دار جو مشتعل ہو کر بلوے پر آمادہ تھے وہ بھی ایک عجیب بےچینی سے انتظار میں گرفتار تھے۔ خرم نے بھی ایک خیمے میں ہی ڈیرہ جما لیا تھا۔ ان تین دنوں میں زیادہ وقت انتظار میں ہی گزرا تھا۔ اسے سوچنے کا بہت وقت ملا۔ عالیہ کے ساتھ اس کے تعلق کا کوئی سبب یا جواز نہیں بنتا تھا۔ خرم اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ یہ بات اس کا لاشعور تو بہت پہلے قبول کر چکا تھا مگر ان تین دنوں میں وہ اس حقیقت کو شعوری طور پر قبول کر کے اپنے افعال میں امان تلاش کر چکا تھا۔ اسے یقین تھا کہ احمد کی طرف اس کی بیوی کا جھکاؤ محض انتقامی تھا اور بات ہرگز التفات سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ اس نے بیوی کو بھی وہیں خیمے میں بلوا لیا۔ پچھلے دو دنوں میں دونوں ایک دوسرے سے خاصے گلے شکوے کر کے ایک دوسرے کے جذبہ شرمندگی میں پناہ گیر تھے۔ ایک لحاظ سے اس حادثے نے خرم کو موقع فراہم کیا تھا کہ اپنی زندگی کو واپس ایک سمت فراہم کر سکے۔

    بیوی کو وہیں خیمے میں بلا لینے کا عمل خرم کے لئے تو جیسا بھی رہا مگر تعلقاتِ عامہ کے لئے بہت خوشگوار ثابت ہوا۔ لوگوں نے اسے ملک خاندان کی اپنے کان کنوں سے محبت اور وفاداری سے تعبیر کیا۔

    جس جگہ سے سوراخ کو بڑھایا جا رہا تھا وہاں سے اچانک تالیوں کی آوازیں آنے لگیں تو خرم لپک کر خیمے سے باہر نکلا۔

    ‘’کیا ہوا؟‘‘

    اس کا سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی اوور سئیر نے جوش میں بولنا شروع کر دیا تھا:

    ‘’سوراخ نیچے ہال تک پہنچ چکا ہے’‘

    ‘’اس سے کیا فائدہ ہوگا‘‘

    ‘’اب ہم کم از کم ان کان کنوں تک تازہ ہوا اور شاید پانی اور کچھ مائع پہنچا سکیں گے۔’‘

    حفظ مراتب کو بالائے طاق رکھ کر خرم نے انجینئیر کو گلے لگا لیا۔

    ‘’لیکن وہ بھاری مشینیں کب نکاسی کا راستہ بنا سکیں گی کہ وہ پھنسے ہوئے کان کن باہر آ سکیں؟‘‘ خرم نے آہستہ سے دریافت کیا۔

    ‘’جناب ابھی اس میں مزید تین سے چار دن لگنے کا امکان ہے۔ بہت احتیاط سے آگے بڑھنا پڑتا ہے کہ کہیں ملبہ، کوئی چھت یا شکستہ دیوار راستے کو بالکل مسدود نہ کر دے’‘۔ خرم کو اپنی خوشی نصف ہوتے محسوس ہوئی۔

    تالیوں کی آواز سن کر کان کنوں کے خاندان بھی خیموں سے باہر نکل آئے تھے۔ یہ اچھی خبر سن کر ان کے چہرے دمک اٹھے اور وہ ایک دوسرے کو گلے لگانے لگے۔ مصیبت نے سب کو جیسے جذبوں کی ایک ہی لڑی میں پرو دیا تھا۔ کیمرے کی آنکھ ان جذبوں اور سوراخ کی کھدائی کے منظر کو پوری قوم تک پہچانے لگی۔

    نیچے ہال میں تین دن تین قیامتوں کی طرح تھے۔ اب ہوا اتنی کثیف تھی کہ کئی لوگ سر میں درد اور قے کی شکایت کر رہے تھے۔ تین دن کا فضلہ بھی فضا میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ گو بو کا احساس اب اتنا معمول بن گیا تھا کہ جاتا رہا تھا۔ تبدیلی احساس کو بیدار کرتی ہے۔ اب ہال کی فضا مسلسل بوجھل تھی اور واحد تبدیلی تیزی سے کم ہوتی آکسیجن ہی تھی۔ تین اور کان کن جو پہلے ہوش میں تھے اب بیہوش تھے۔ کھانے کا راشن ختم ہونے کے قریب تھا۔ کمزوری اور نقاہت اتنی شدید تھی کہ پہلے دن جو بچ جانے کی آس انہیں زندہ رکھے تھی وہ معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ گزشتہ رات کھٹ پٹ سے نورالدین کی آنکھ کھلی تو اس نے ایک کان کن کو بچے کچے راشن پر جھکے دیکھا۔ یہ لالچ اور ناانصافی دیکھ کر اس حالت میں بھی وہ رہ نہ سکا۔ پاس پڑے ایک پتھر کو اس کی جانب پھینکا تو وہ کان کن گھسٹ کر اپنی جگہ پر جا لیٹا۔ نورالدین ان سے آخری دم تک اچھی اقدار کا خواہشمند تھا۔ اس نے گھسٹ کر اپنے آپ کو ایسے بٹھا لیا کہ ایک دفعہ کا بچا ہوا راشن اب اس کے داہنے جانب پشت پر تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے نورالدین کو پھلانگ کر جانا پڑتا۔ وہ خود چاہتا تو بہت آسانی سے ہاتھ بڑھا کر راشن میں خرد برد کر سکتا تھا، لیکن اب آخر وقت میں وہ کوئی ایسا کام کر کے اپنا ایمان خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ذہن پر ایسی غنودگی طاری تھی کہ کوئی اسے پھلانگ کر راشن تک جاتا تو اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ لیکن ہم سب کی طرح رکاوٹیں کھڑی کر کے نورالدین مطمئن ہو گیا تھا کہ بد عنوانی کو روک لےگا۔ اچانک اسے ایسا لگا کہ جیسے ہال میں تازہ ہوا کا جھونکا سا آیا ہو۔ شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں، یا اب ہذیانی کیفیت شروع ہو رہی ہے۔

    لیکن اس ہوا کے جھونکے ساتھ اب ہال کی فضا واضح طور پر بہتر ہو رہی تھی۔ سانس لینا نسبتاً آسان ہو گیا تھا۔ تشویش کی بات صرف یہ تھی کہ ٹن ٹن کی آواز بند ہو گئی تھی۔ نورالدین نے بمشکل خود کو گھسیٹ کر نیم دراز کیا تو سامنے کی دراز میں ایک سوراخ نظر آیا، تازہ ہوا اسی میں سے آ رہی تھی۔ اس نے وہیں کھڑے ہو کر کئی منٹ تک گہری سانسیں لیں۔ کئی اور کان کن بھی واضح طور ہر اس تازہ ہوا کا اثر محسوس کر رہے تھے سوراخ میں سے اچانک سنسناہٹ کی آواز پیدا ہوئی اور ایک دو انچ قطر کا پائپ اس میں سے جھانکنے لگا۔ نورالدین وہیں زمین پر بیٹھ گیا کہ مزید کھڑے رہنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔ وہ شاید وہیں دوبارہ غنودگی میں چلا گیا۔ اسے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کتنی دیر اس بیہوشی میں رہا لیکن خواب میں اسے محسوس ہوا کہ جیسے منہ پر پانی کے قطرے گر رہے ہیں۔ اس نے آنکھ کھولی تو واقعی جس پائپ سے پہلے ہوا آرہی تھی، اسی پائپ میں سے رس رس کے پانی قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔ نورالدین کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک پتلی دھار میں تبدیل ہو گیا۔ نورالدین نے منہ کھول دیا اور مٹیالے پانی سے اسے اچھو لگ گیا۔ واہ ری قدرت، درست ہی تو کہا ہے پالنے والے نے کہ ہم پتھر میں بھی رزق پہنچاتے ہیں۔ نورالدین کی طرح پانچ چھ اور کان کن بھی اپنا جسم گھسیٹ کر وہاں پہنچ گئے اور اس مٹیالے پانی سے پیٹ بھر نے لگے۔ نورالدین نے ہمت کر کے ایک بیہوش کان کن کو بھی اس پائپ کے نیچے کھینچ لیا کہ اس کے منہ پر پانی کی ہلکی سی دھار پڑنے لگی۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے ہوش مند کان کنوں نے بمشکل گھسیٹ کر جنہیں بھی پائپ کے نیچے پہنچا سکے تھے پہنچا دیا۔ چند ہی لمحوں میں پانی جیسے آیا تھا اسی طرح بند بھی ہو گیا۔ کان کنوں نے وحشت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا لیکن نورالدین نے انہیں اطمینان دلایا کہ یہ غالباً اس لئے ہے کہ ہال میں کیچڑ نہ پیدا ہو، چند گھنٹوں بعد پانی یقیناً دوبارہ کھلےگا اور ہوا بھی یہی۔

    پانی اور ہوا کی نکاسی سے اب صورت حال بہتر تھی لیکن کان کو بند ہوئے کوئی چھ دن گزر چکے تھے۔ راشن کب کا ختم ہو چکا تھا۔ اب اندر ہال میں اوپر ہونے والی کھدائی کی ہلکی سی آواز بھی سنائی دینے لگی تھی۔ دو انچ کے پائپ کو چوڑا کر کے اب تقریباً ایک فٹ قطر کی جگہ بنائی جا رہی تھی۔ پائپ کے اطراف کی مٹی اندر کان میں گری تو اس کے پاس بیٹھے کان کن ڈر کے ہٹ گئے۔ یہ خوف روز اول سے سب کے دماغ میں تھا کہ ہلکی سی بے احتیاطی سے اس ہال کی چھت ان کان کنوں پر گر بھی سکتی ہے۔ مگر اس مٹی کے گرنے سے کوئی ایک فٹ چوڑائی قطر کی سرنگ باہر کی دنیا کو اندر دبے کان کنوں سے رابطہ بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ ساتھ ہی سورج کی روشنی ایک کرن اس سوراخ سے ہال کو روشن کر گئی۔ جو کان کن اس قابل تھے وہ سب تالیاں بجانے لگے۔

    ‘’ہیلو تم لوگ کیسے ہو‘‘ ڈھائی سو فٹ کا فاصلہ طے کر کے ایک فٹ قطر کی سرنگ سے یہ آواز ہال میں ایسے سنائی دی جیسے صور پھونکا جا رہا ہو۔ کئی کان کنوں نے جواب دینے کی کوشش کی مگر کسی سے آواز نہ نکلی۔ بھوک، کمزوری، بخار، نمونیہ مختلف کان کنوں کو مختلف مراحل در پیش تھے۔ نوراالدین جب کوشش کے باوجود آواز نہ نکال سکا تو اس نے ہلکے ہلکے تالیاں بجانی شروع کر دی۔ بےربط، بہت مدھم سی آواز جیسے کوئی فالج زدہ شخص بےہنگم طریقے سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارے۔ اس کی دیکھا دیکھی چند دوسرے کان کنوں نے بھی یہی حرکت دہرائی تو ہال میں اتنی گونج ضرور پیدا ہو گئی کہ یہ تھپ تھپ باہر سنی جا سکے۔ باہر کھڑے سینکڑوں لوگ، جو’’تم لوگ کیسے ہو‘‘ کا جواب نہ پا کر دم سادھے کھڑے تھے، سینکڑوں کے مجمعے کے باوجود ایسی خاموشی تھی کہ کوئی سوئی بھی گرتی تو آواز سن لی جاتی۔ ایسے میں جب کان کے پیٹ سے تھپ تھپ کی آواز باہر پہنچی تو ایک شور مچ گیا، لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے، مبارک باد یاں، خوشی کی کلکاریاں، انسانی ہمت اور زندہ رہنے کی جبلت ایک بار پھر جیت گئی تھی۔

    اسی ایک فٹ کے سوراخ سے ایک تھیلی میں چاکلیٹیں، بسکٹ، طاقت کی گولیاں اور ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی غذا، جو اس مختصر سوراخ سے گزر بھی سکے۔ نیچے بھیجی گئی۔ ساتھ ایک پرچے پر یہ نوید بھی کہ دو دن بعد بھاری مشنری اتنا بڑا سوراخ کر لے گی کہ انہیں باہر نکالا جا سکے۔ کسی عقلمند نے ایک سادہ کاغذ اور قلم بھی بھیج دیا، کہ رابطے کا یہ ذریعہ باقی رہے۔ غذا نیچے کیا پہنچی گویا حیات واپس لوٹ آئی۔ ذرا ہمت ہوئی تو نورالدین نے جائزہ لیا۔ حیرت کی بات تھی سب کی سانس جاری تھی۔ بڑے تودے کے نیچے دبا احمد بھی سانس لے رہا تھا۔ جبار اس کے منہ میں پانی ٹپکاتا رہا تھا۔ اب اس غذا کے ساتھ آئے طاقت کے قطرے بھی سب مریضوں کے منہ میں ٹپکا دئیے گئے۔ ایک وقت کے کھانے کے ساتھ ہی واضح فرق پڑ گیا تھا۔ رات ہونے سے پہلے، غذا کی دوسری قسط نیچے اتری تو نورالدین نے کاغذ پر پیغام لکھ کر اوپر بھیج دیا:

    رسی اوپر کھینچی گئی تو اس کے وزن سے صاف ظاہر تھا کہ نیچے سے کان کنوں نے کچھ رکھ کر بھیجا ہے۔ خرم بھی رسی کھینچنے والے کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جو ٹوکری نیچے بھیجی گئی تھی اس میں سوپ کی بوتل اور ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر کان کنوں نے نیچے سے بھیجا تھا۔ خرم نے بڑھ کر پرچہ اٹھایا اور اسے بلند آواز سے پڑھنے لگا:

    ‘’کچھ دوائیوں کی سخت ضرورت ہے۔‘‘

    ساتھ کچھ تاش کے پتے بھیج دو۔

    ’’یہ سوپ ٹھنڈا ہے اسے گرم کرا کے دوبارہ بھیجو‘‘

    آپ کا خادم نورالدین۔

    خرم کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ بکھر گئی، پاس کھڑے انجینئر اور اوور سئیر سب ہی ہنسنے لگے۔ ہمیشہ کا سور ہے یہ نورالدین۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے