Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سلامت رہو!

تسنیم منٹو

سلامت رہو!

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    سو یہ گھر آج سے اپنا ہوا۔ یہ اینٹیں، یہ سیمنٹ، یہ لال رنگ مٹی، یہ کھڑکی، یہ دروازہ، یہ سب میرا اپنا ہے۔ ایک کمرا، ایک کچن اور ایک باتھ، میری زندگی بھر کی کل کائنات، یہ گھر اور میرا اپنا بے معنی وجود۔۔۔ جس طرح گھر کے معنی اس کی وسعتوں سے ہوتے ہیں، کہ اس میں کون بستا ہے، کیسے بستا ہے، اسی طرح انسانی وجود اور انسانی زندگی کے معنی اس کی معاشی اور سماجی حیثیتوں سے متعین ہوتے ہیں۔۔۔ مَیں نے بھی کیسی ٹھنڈی ٹھار زندگی گزاری ہے۔ ان پچاس سال میں کہیں کوئی ایسا زمانہ، وقت اور لمحہ نہیں کہ جس کو مَیں گرفت میں لے کر یہ کہہ سکوں کہ وہ زمانہ، وہ وقت، وہ لمحے میرے تھے، میرے وسیلے سے تھے، میرے واسطے سے تھے، فقط میرے ہی لیے تھے۔

    عجیب اتفاق ہے کہ آج اس کی پچاسویں سالگرہ تھی، اور آج ہی اسے اس گھر کی رجسٹری اور قبضہ ملا تھا۔۔۔ ’’آدھی صدی زندگی سے تُو تُو مَیں مَیں کرتے گزر گئی، اور آج میرے پاس سواے میرے وجود کی مٹھی کے کچھ بھی نہیں، یہ گھر تو مَیں نے بنا لیا، لیکن اس گھر میں صرف مَیں ہی ہوں۔ پلنگ پر، کچن میں، ڈائیننگ ٹیبل پر اور پھر سامنے لگے آئینے میں، سواے میرے اپنے وجود کے کوئی دوسرا چہرہ نہیں۔ ساری زندگی خلا میں ڈگمگاتے گزر گئی۔۔۔ جب اپنا گھر نہ ہو۔ ماں باپ نہ ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے، زمین کہاں ہوتی ہے، جس پر وہ پانوجما سکیں، وہ تو بس خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ کبھی تیرے گھر، کبھی میرے گھر، سبھی بڑی چاہتوں کا دم بھرتے ہیں، لیکن کیسے کیسے کڑوے کسیلے بول بول جاتے ہیں، کہ سارا مان ٹوٹ جاتا ہے، اور اپنا آپ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے، اور یہ سچ بڑے شرمناک انداز میں ننگا ہو جاتا ہے کہ ماں باپ بھی اپنے ہی ہونے چاہییں، اولاد بھی بس اپنی اولاد ہی ہوتی ہے۔

    یوں کھنگالنے کو تو آدھی صدی سامنے پڑی تھی، لیکن بس تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک چٹیل بے آب و گیاہ میدان تھا، جیسے پتھر کے پہاڑوں پر خاردار جھاڑیوں کے ساتھ ٹانواں ٹانواں سا کوئی ہرا پتا کبھی نظر آ جاتا ہے۔ بچپن ویران، جوانی بنا اعتماد اور رنگ کے۔ اور اب یہ ادھیڑ عمر گومگو اور رشتوں کی جستجو۔

    ’’یہ پینٹنگ بہت اچھی ہے۔‘‘ مہمان خاتون نے یونہی بات کرنے کی خاطر بات کی۔ ’’جی یہ بنائی تو انھوں نے ہی ہے، لیکن یہ جنرل صاحب کی بیٹی نہیں ہے، یہ میری مرحومہ نند کی بیٹی ہیں، ہمارے پاس ہی رہتی ہیں۔ ‘‘ آنٹی نے خاتون کو تفصیلاً جواب دیا، اس لمحے اور اس کے بعد آنے والے وقتوں میں اس زمانہ ساز قسم کے التفات کے حصار میں اس کا وجود اندر ہی اندر سکڑتا چلا گیا۔ مطلب یہ کہ یہ گھر میرا نہیں، دوسرے درجے کی شہری ہوں، بنا کسی حق حقوق کے، مَیں بس رہ رہی ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے شاداب اور خوب صورت چہرے کی مالک اپنی آنٹی، جنھیں پھولوں، پھلوں اور پرندوں سے بہت محبت تھی، کی جانب دیکھا، اور دل میں کہا کہ ضروری نہیں دیویوں کا روپ لے کر کوئی دیوی بن جائے۔ اسے وہاں سب کچھ ملتا تھا۔ روٹی، کپڑا، مکان، سب کچھ تھا۔ تھوڑی سی دزدیدہ محبت بھی تھی، لیکن اس کا اپنا وجود اور اپنی شناخت کہیں نہیں تھی۔ مکان تو تھا، گھر نہیں تھا۔ گھر کے حصول کے لیے اس نے شادی کو وسیلہ جانا۔ شادی بھی ہو گئی۔

    شادی کروا کے وہ اور بھی پریشان ہو گئی کہ جس سے شادی ہوئی تھی، وہ زبردست احساسِ کمتری کا شکار تھا۔ وہ ہمہ وقت اس کو لاوارث ہونے کے طعنے دیتا رہتا۔ اس کا اپنا ایک فرق Complex تھا کہ اس کو اس کے ’’پچھلے‘‘ اتنی اہمیّت نہیں دیتے تھے کہ جس آو بھگت کا وہ حقدار تھا۔ وہ اس کی ذہانت، اعلیٰ تعلیم اور اچھے سبھاو کو نظر انداز کر کے محض اس کی سانولی رنگت پر پھبتیاں کستا رہتا۔

    اس نے دس برس اور ہر برس کے تین سو پینسٹھ دن ایک پراگندہ سماج کے پروردہ، پراگندہ ذِہن کے مالک شخص کو سمجھانے، سنبھالنے اور سدھانے میں بسر کیے، لیکن ناکام رہی۔ اسے کچھ یاد نہِیں کہ اس انسان نما جانور کے ساتھ گزارے، ان دس برسوں میں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر کہاں تھی۔ وہ کب ہنسی، کب روئی، کچھ یاد نہیں۔

    اس کے شعور اور آگہی کا سفر اس کی محرومیوں کے سفر کے ساتھ ساتھ تھا، یوں اس کے شعور میں پختگی آ گئی تھی۔ وہ دیکھتی کہ زندگی کو جیسے وہ سوچتی ہے اس کی سہیلیاں اورکزنز ویسے نہیں سوچتیں۔ ان کی زندگیوں میں زشتوں اور محبتوں کا توازن ہے۔ یہ الگ بات کہ کسی بھی عورت کی زندگی سنوارنے اور اجاڑنے میں مرد کا کردار اہم ہے۔ اس کی کزنز اور دوست اسے شوہر کو سدھانے اور اُلّو بنانے کے گُر بتاتیں۔ اس کے سوچ، حالات اور علم نے اسے اچھی طرح یہ بات سمجھا دی تھی کہ تم مرد کے معاشرے کا ایک معمولی سا جزو ہو۔ ویسے بھی اس کی شادی ایک رواجی شادی تھی، جس میں پسند یا محبت کا کوئی دخل نہ تھا۔ آج برسوں بعد وہ سوچتی تھی کہ یہ کس قدر Vulgarرویّہ ہے کہ دو بالکل انجان انسانوں کو ایک بے حد ذاتی قسم کا تعلق قائم کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ کیا انسانی حقوق کی کوئی شق پاکستان، ہندوستان کے اس بیہودہ کلچر کو Negate کرنے کے لیے متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقات میں یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ایک اونچے طبقے کا شخص نچلے طبقے کے ساتھ وقتی طور پر گھل مل جانے کی کوشش میں ہو۔ اس کا اور اس کے شوہر کا تعلق بیڈ روم کے بند دروازے تک محدود رہا۔ کہیں بھی، کسی بھی لمحے ہم آہنگی یا ذہنی رفاقت پیدا نہ ہو سکی۔ سو دس برسوں بعد یہ بے معنی اور بے وقعت رشتہ بھی تمام ہوا۔

    یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ آج مؤرخہ تیس اگست کو اس ملک میں آئے ہوئے اسے پندرہ برس ہوئے تھے۔ آج ہی اس کو گھر ملا تھا، آج ہی اس کی پچاسویں سالگرہ بھی تھی، اور دو گھنٹے پیشتر ’’ڈی ایچ ایل‘‘ کے ذریعے ایک بہت بڑے سائز کا برتھ ڈے کارڈ بھی اسے موصول ہوا تھا۔ یہ کارڈ پاکستان سے آیا تھا، اور اس پر اس کے پورے خاندان کے بزرگوں اور آگے کزنوں کی اولادوں اور کزنوں کی بیویوں اور خاوندوں کے، دعاؤں کے ساتھ دستخط تھے، اور جو بچے ابھی سکول نہیں گئے تھے، ان کی ماؤں نے ان کے چھوٹے چھوٹے انگوٹھوں پر سیاہی لگا کرنشان کارڈ پرثبت کر دیے تھے۔

    وہ یہ سب دیکھ کر بوکھلا گئی۔ کیا مَیں اس قدر اہم ہوں۔ کیا میرے پچاس سال اس قدر مسرور اور بھر پور گزرے ہیں کہ ان سب لوگوں نے اس قدر تردّد کرنا ضروری سمجھا ہے، اور ہزار برس سلامت رہنے کی دعائیں دی ہیں۔ مَیں اتنی اہم تھی تو مَیں۔۔۔ فقط مَیں ہی سب سے کٹ کر یہاں کیوں ہوں؟

    صبح سے ہر سال کے معمول کے مطابق وہ’’ ہیپی برتھ ڈے‘‘ کی بے شمار فون کالیں، لوکل، لندن، امریکا اور پاکستان سے سن چکی تھی۔ دن بھر وہ دوستوں ، کزنوں اور ملنے والوں کی مبارک بادیں بہت خوش دلی سے وصول کرتی رہی، لیکن اب یہ تمام سلسلہ اسے Fakeلگنا شروع ہو گیا تھا۔ اس نے فون اٹھا کر رکھ دیا، اور آنسرنگ مشین بھی بند کر دی۔

    دل گرفتگی پر قابو پانے کی کوشش میں وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کے تھوڑی دیر سستانے کے لیے لیٹ گئی، لیکن کوئی طاقت اُس کے ذہن اور وجود کو پرے دھکیل رہی تھی۔ اس کے ذہن کے کونے کھدرے میں سے ایک شعلہ سا لپکا جو آج بھی اسے جلا گیا۔ اس کی رشتے کی ایک کزن کی شادی تھی۔ ڈھولک بج رہی تھی، اور گیت گائے جا رہے تھے۔ اس ہنگامے میں اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی ’’اوہ! اچھا آپ اسے نہیں جانتیں۔ یہ میری فرسٹ کزن ہےShe is a divorcee اس کی کزن سرپرستی کے بھرپور اعتماد سے اپنے ساتھ بیٹھی خاتون کو اس کے بارے میں بتا رہی تھی ’’تو کیا divorceسے ایک عورت اس قدر بے وقعت ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے لہجے میں اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے نفرت یا رحم کی آمیزش آ جاتی ہے۔ تو یہ جو پہلے کچھ مدت سے پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا شور و غوغا ہے۔ اگر آج وہ محض عورت ہونے کی وجہ سے دوسرے درجے کی شہری ہیں تو طلاق کے بعد تیسرے درجے کی شہری سمجھی جائیں گی۔ طوائف +بیوی + طلاق۔ تو حاصلِ حیات کیا ہوا؟ طلاقن Another Sex community۔ بہت خوب!!‘‘

    اس نے اپنی زندگی میں بہت سمجھوتے کر ڈالے تھے کہ ان کے بنا اس کا مختصر سا وجود Survive نہیں کر سکتا تھا، لیکن اس بات سے وہ سمجھوتا نہ کر پائی تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے، جن کو چھوڑ کر آج وہ اس قطعی اجنبی ملک میں ہے۔ وہ ان سب کو اپنے ہونے کے حوالے سے یاد کرتی، اور پھر سوچوں میں گم ہو جاتی۔۔۔ اگر یہ سب اپنے تھے تو فلاں وقت فلاں رشتہ دار نے یہ بات کیوں کر کہہ دی؟۔۔۔ اس کی آنٹی کے بیٹے نے اپنے ماں باپ کے گھر کے لان میں گھر بنایا۔ یہ آنٹی اس کی چاہت کا بہت دم بھرتی تھیں۔ اس نے ایک روز بڑے لاڈ سے کہا ،’’آنٹی اگلے لان میں عاصم نے گھر بنایا ہے، پچھلا لان مجھے دے دو، مَیں بھی چھوٹا سا گھر بنا لوں گی۔‘‘ جواب میں اس کی آنٹی نے بڑے ہی سپاٹ اورخشک لہجے میں کہا تھا ۔’’عاصم تو میرا بیٹا ہے۔‘‘ یہ سن کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیاتھا۔ شرمساری سے اس کا پورا وجود شل ہو گیا تھا۔ ایسے موسم اکثر آتے۔ مٹھی میں بند یادوں کے یہ آزار بکھر جاتے، اور وہ دُور کہرے، دھندلے موسموں میں نکل جاتی، اور بصد مشکل یہ آزار دوبارہ سمیٹتی اور مٹھی بھینچ لیتی۔ ان یادوں سے وہ خود کو کبھی بھی آزاد نہ کر پاتی، اسے ایک بڑی کومل اور پھول سی یاد بھی آئی۔ اس کی نانی شوگر کی مریضہ تھیں، اور اب انھیں تھوڑا کم نظر آنے لگا تھا، وہ چارپائی سے وضو کے لیے اٹھتیں اور جوتے ٹٹولتیں۔ یہ خود پاس لیٹی کن اکھیوں سے دیکھتی رہتی۔ نانی پیروں سے ہی جوتوں کو سیدھا کرنے کی کوشش میں بڑبڑاتی بھی جاتیں۔ یہ قہقہہ لگاتی اور کہتی ’’لائیے بے جی! مَیں جوتا پہنا دیتی ہوں۔‘‘ یہ مذاق وہ اکثر کرتی، اور خوب کھلکھلاتی۔ آج بھی یہ یاد کر کے وہ زور سے ہنسی۔۔۔ اس نے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹایا۔ گیلے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے صاف کیا۔ اٹھی، فون کریڈل پر رکھا۔ آنسرنگ مشین آن کی۔۔۔ بی بی سی لائبریری پکچر سے بیجنگ میں عورتوں کی چوتھی بڑی کانفرنس پر ڈاکومینٹری نشرہو رہی تھی۔ ساؤتھ افریقا کی عورتیں مظاہرہ کر رہی تھیں، عورتوں کے حقوق کی تحریک کروڑ ہا عورتوں میں سے چونتیس ہزار عورتیں ۔ عورتوں کے حقوق، My Foot۔۔۔ اس نے بے زاری سے ٹی وی بند کر دیا۔

    کمرے میں اندھیرا اور اس کے ذہن کا حبس بڑھ گیا تھا۔ اس نے اپنے بے حد مختصر اپارٹمنٹ میں چار قدم چل کر اس کی واحد کھڑکی کو بے حد احتیاط سے کھولا، کیوں کہ وہ کھولنے میں اٹک سی جاتی تھی اور پھر اسے سنبھالنے کے لیے ہمسایوں میں سے کسی مرد کو بلانا پڑتا تھا۔ کھڑکی کھلنے سے وہ یخ ہوا میں جیسے نہا سی گئی۔ ٹھنڈ کے باوجود اس نے خود کو بہت تازہ محسوس کیا۔ عورتیں اور مرد حسب معمول اپنے کاموں سے فراغت کے بعد گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ شام کا دھندلکا گہرا ہو رہا تھا، اور فضا حسب معمول کہر آلود تھی۔ غیر ارادی طور پر اس نے اس کہرے میں کچھ ہیولے ڈھونڈ ڈالے۔ نعیم۔۔۔ پروفیسر۔۔۔ ایمبسڈر۔۔۔ اور یانوش ’’کہ رگِ جاں تھا، کبھی اپنا‘‘ وہ سب کو ایک ایک کر کے پہچان گئی۔ لاشعور کی ہلچل نے کچھ لمحوں کے لیے اسے ساکت کر دیا ۔۔۔ اس نے بڑی آہستگی سے کھڑکی بند کی۔۔۔سیڑھیوں پر دھپ دھپ بھدے قدموں کی آواز سنائی دی۔’’یہ ناندرو ہے‘‘۔ اس نے وثوق سے سوچا۔لپک کر دروازہ کھولا۔ ناندرو اپنے بھدے وجود کے ساتھ خوشنما پھول لیے مسکراتا کھڑا تھا۔

    ’’ہیلو صبا‘‘۔۔۔ پھرناندرو نے اسے انگریزی میں ہیپی برتھ ڈے کہنے کی کوشش کی۔

    ’’زندگی گزارنے کے لیے بہت سے وسیلے اور بہانے چاہییں۔‘‘ صبا نے سوچا اور گہری سانس لے کر اس نے ناندرو کی طرف دیکھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے