یہ کانونٹ اس پہاڑی پر واقع تھا جو اوروں سے بالکل الگ تھلگ تھی۔ اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے یہ پہاڑی میں راہبہ بن کر ہنگاموں کی دنیا سے نکل آئی ہو۔ ہنگاموں کی دنیا اور اس پہاڑی کے درمیان ایک پگڈنڈی نما ٹوٹی پھوٹی کولتار کی سڑک تھی جس پر چیڑ کے خشک نوکیلے پتے بکھرے رہتے تھے اور جسے دیکھ کر اس راستے کی یاد آ جاتی جو انسان کو روحانی منزل پر پہنچاتا ہے۔۔۔ اکھڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے نوکیلے پتھر اور چیڑ کے پھیلے نوکیلے پتے، جیسے گرجا کے چھوٹے چھوٹے مینار۔۔۔
گرجا کی عمارت سکول سے ذرا ہٹ کر ہوسٹل کے قریب تھی اس کے مخروطی مینار پر مرغِ بادنما ہلکی ہلکی سرد ہواؤں سے گھومتا رہتا۔ گرجے کے دروازے پر محیط ’’بلیو بلز‘‘ کے نیلے پھولوں کی بیل تھی جس میں پہاڑی چڑیاں سارا سارا دن چہچہایا کرتیں۔
انگوٹھا چوسنے سے لے کر اپنا نچلا ہونٹ چوسنے تک اس نے یہ بائیس سال انہیں کھڑے ہوئے پتھروں پر لڑھکتے چیڑ کے خشک پتوں پر پھسلتے، چڑیوں کے گیت سنتے اور گرجا کے مینار کے سائے میں سستاتے اسی کانونٹ میں گزارے تھے۔
اس کا نام بینی ڈکٹا تھا۔۔۔ سسٹر بینی ڈکٹا۔
سسٹر بینی ڈکٹا کی شکل و صورت قطعاً ایسی نہیں تھی، جسے دیکھ کر دوسری پہاڑیوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوتا کہ اس پھول کو کنواری ماں یا اس کے بیٹے کے مجسموں پر نچھاور ہونے کے بجائے کلب کے کسی پھولدان کی زینت ہونا چاہیے۔ اس انگریز راہبہ کا رنگ سہ پہر کی دھوپ کی طرح تھا۔ اس کی ناک سوکھے ہوئے چہرے سے جیسے گرتی گرتی اٹک گئی تھی۔ دبیز شیشوں کی عینک کے پیچھے اس کی چمکیلی سیاہ آنکھیں، اصل سے ڈیڑھ گنا دکھائی دیتی تھیں۔ اس کا منہ ہر وقت کھلا رہتا جس میں شوکیس میں رکھے ہوئے چینی کے برتنوں کی طرح اس کے دانتوں کی نمائش ہروقت ہوتی رہتی تھی۔ اگر کبھی اتفاق سے اس کامنہ بند ہوتا تو اپنے نچلے ہونٹ کو ’’لولی پوپ‘‘ سمجھ کر چوستی رہتی۔ اصول کے مطابق وہ سر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں ملبوس رہتی تھی۔
جب شام آہستہ آہستہ چیڑ کے درختوں سے اترنے لگتی یا بادل سورج کو اپنے دامن میں چھپا لیتے تو اسے دیکھ کر بالکل یوں محسوس ہوتا جیسے کسی پرانی قبر سے کوئی مردہ نکل آیا ہے۔ کانونٹ میں پڑھنے والے ننھے ننھے بچے اس سے ضرور ڈر جاتے اگر اس کے ہونٹوں پر ہر وقت وہ پرشفقت مسکراہٹ نہ کھیلتی رہتی جس کے سائے میں آکر وہ اپنی اپنی امیوں کو بھول جایا کرتے تھے۔ اس کی کمر کے گرد لپٹی ہوئی چوڑی سی سفید پیٹی میں زنار کے ساتھ صلیب لٹکتی رہتی تھی۔ جو چلتے ہوئے اس کے گھٹنوں سے ٹکرا ٹکراکر ہمیشہ اس کے آگے آگے جھوما کرتی۔۔۔ اور وہ خود جیسے اس صلیب کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی اپنے ذہنی سکون کی تلاش میں سرگرداں رہتی تھی۔
سارے کانونٹ میں اس کی کوئی سہیلی نہیں تھی۔ اس نے کئی مرتبہ دوسری سسڑوں سے بےتکلف ہونا چاہا مگر جانے کیوں کوئی بھی اسے قریب نہ پھٹکنے دیتی تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ کسی کو پسند نہ تھی۔ اس کے دل بہلاوے کا ذریعہ صرف وہی کھلونے تھے جو کھیلتے ہوئے آپس میں لڑپڑتے پھر اس سے انصاف کراتے تھے۔ فراغت کا وقت وہ مخروطی سائے میں آرام کرسی میں بیٹھ کر انجیل پڑھنے میں گزارتی اور ’’بلیوبلز‘‘ کی بیلوں میں ناچتی ہوئی چڑیوں کے گیت سنتی رہتی۔ اس مینار کے سائے کے ساتھ ساتھ اس کی کرسی بھی کھسکتی رہتی۔ پھر وہ کبھی کبھی انجیل کو اس کی گود میں رکھ کر دور سبزی مائل نیلی پہاڑیوں کو گھورنے لگتی، جن پر بادل سوئے رہتے تھے۔۔۔ پھر ان بادلوں کی نیند اس کی آنکھوں میں بھی اتر آتی اور مینار کا سایہ اسے تھپکیاں دینے لگتا۔۔۔ سوجا، میری پیاری سسٹر بینی ڈکٹا۔۔۔ سوجا، تو تنہا نہیں۔۔۔ میں تیرا ساتھی ہوں۔۔۔
اگرچہ سسٹر بینی ڈکٹا کی آنکھیں کھلی رہتیں لیکن اس کا احساس سوجاتا، مرجاتا اور وہ دیکھتی کہ ان پہاڑیوں کے ساتھ گلوبند کی طرح لپٹے ہوئے بادلوں میں اضطراب پھیل رہا ہے اور سورج کے پگھلتے ہوئے رنگوں سے آہستہ آہستہ مٹیالی قبا میں ایک جسم نمودار ہو رہا ہے۔ جس کے چہرے کے نقوش واضح نہیں ہیں۔ اس کے لمبے لمبے بال لہرا رہے ہیں اور اس کے سر کے پیچھے نورانی حلقے کی کرنیں روشن سے روشن ہو رہی ہیں۔ پھر وہ دیکھتی، اس نے اپنے بازو پھیلادیے ہیں اور بادلوں نے اکٹھے ہوکر بھیڑوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔
سسٹر بینی ڈکٹا کی دبیز شیشوں کے پیچھے اصل سے ڈیڑھ گنا آنکھیں اور بھی چمکیلی ہو جاتیں اور ہونٹ لرزنے لگتے۔۔۔ ہم عیسیٰ کی بھیڑیں ہیں۔۔۔ پھر گرجا کے مخروطی مینار کی گھنٹیاں اپنی سریلی آواز میں بجتی تھیں۔۔۔ مینار کا سایہ، شام کے اندھیرے میں تحلیل ہو رہا ہے۔ پیاری سسٹر، پیاری بینی ڈکٹا، اب اٹھو۔۔۔ ورنہ شمالی ہواؤں کی سردی تمہیں منجمد کر دےگی پھر تم عیسیٰ کو کبھی ان پہاڑیوں پر نہیں رکھ سکو گی۔۔۔ آؤ کلیسا میں آؤ اور یسوع کے قدموں سے لپٹ جاؤ، تاکہ حیاتِ ابدی میں بھی تم اس کے ساتھ رہو۔۔۔ اٹھو بینی ڈکٹا، اب مینار کے سائے کو شام چراکے لے گئی ہے اور تمہیں کوئی نہیں، کوئی نہیں بلانے آئےگا۔۔۔ تمہاری عمر کی دوسری سسٹریں اس وقت خوش گپیوں میں مشغول ہیں۔ پھر وہ ہمیشہ کی طرح بچوں کی مناجات کرانے کے بعد عیسیٰ اور اس کی کنواری ماں مریم کے قدموں میں موم بتیاں جلائیں گی اور ہمیشہ کی طرح معنی خیز ہنستی ہوئی ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر سو جائیں گی۔۔۔ اور تم؟ تم اسی طرح اپنے بستر پر تنہا پڑی صلیب کے دامن میں سکون کی تلاش میں بے چین تڑپتی رہوگی۔۔۔ اب اٹھو میری جان۔۔۔ شاباش، شاباش۔۔۔
گھنٹیوں کی آخری آواز پہاڑیوں میں گونج کر ختم ہو جاتی۔ وہ اپنے سینے پر ہاتھ کے اشارے سے صلیب کا نشان بناتی اور کرسی کو گھسیٹتی ہوئی اپنے کمرے کو جاتی یہ سوچنے لگتی کہ اس کی کوئی سہیلی کیوں نہیں بنتی؟ ہر رات کوئی نہ کوئی سسٹر اٹھ کر اپنی کسی چہیتی سسٹر کے کمرے میں کیوں چلی جاتی ہے۔۔۔؟ اتنی پرہیزگار ہونے کے باوجود اسے تصور میں حضرت عیسیٰ کا چہرہ صاف نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔؟ اتنی عبادت اور ریاضت کے باوجود بعض اوقات اس کے ذہن میں خلاکیوں پیدا ہوتے رہتے ہیں جنہیں وہ کبھی عبور نہیں کرپاتی۔۔۔ جب اس کے ذہن میں کیوں کی تکرار ہونے لگتی تو وہ کھانا کھانے کے لیے میس میں آجاتی۔ ہر سسٹر مسکرا مسکراکے ’’ہیلو‘‘ کرتی اور ان کی مصنوعی مسکراہٹیں وصول کرکے چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ کر کھانا کھانے لگتی۔ کبھی کبھار ریورنڈ مدراس کے پاس آ جاتی جو اپنے پوپلے منہ سے اس کو بڑے پیار سے کہتی، ’’ہیلو ڈیر۔‘‘
مسکراہٹ سے مدر کے چہرے کی جھریاں اور بھی نمایاں ہو جاتیں جس میں بینی ڈکٹا ان خوشگوار دنوں کو ڈھونڈنے لگتی جب وہ مناجات گاتی ہوئی پہاڑیوں پر خود رو پھول چنا کرتی تھی اور تتلیاں پکڑا کرتی تھی۔۔۔ اس کا بچپن بوڑھی مدرہی کی جھریوں میں کھو گیا تھا۔ پھر وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتی۔ دوسری سسٹروں میں سرگوشیاں ہونے لگتیں اور وہ بڑی مدر کو شب بخیر کہہ کر جلدی سے اپنے گروپ کے بچوں کو رات کی دعا کرانے چلی جاتی اور ننھے منے بچے اس کی آواز سے آواز ملاکر گانے لگتے۔۔۔
اے مقدس باپ ہمیں نیکی کا راستہ دکھا۔
اے مقدس باپ، گناہوں اور برائیوں سے ہمیں دور رکھ۔
اے مقدس باپ، تری جناب میں کوئی کمی نہیں۔
اے مقدس باپ۔۔۔
پھر سب بچے اپنے اپنے بستروں میں گھس جاتے اور وہ اسی دعا کو گنگناتی ہوئی گرجے میں آجاتی۔ دوسری سسٹریں اس وقت وہاں سے لوٹ رہی ہوتیں۔ وہ کنواری ماں اور حضرت عیسیٰ کے مجسموں کے سامنے موم بتیاں جلانے کے بعد عیسیٰ کے قدموں میں سر رکھ کر دیر تک روتی رہتی۔۔۔ اپنے آنسوؤں سے اپنی روح کو پاک کرتی رہتی اور رات گئے جب اسے محسوس ہوتا کہ اس کی دعائیں عرش عظیم تک پہنچ گئی ہیں تو وہ نئی موم بتیاں جلانے کے بعد اپنے کمر میں آ جاتی اور مناجات گاتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کو اپنے تصور میں سموکر لیٹ جاتی۔
دنیا کے جھمیلوں میں جب ایک تھکاماندہ دن گزر جاتا ہے۔
تو ہم اپنے خداوند کے حضور میں جاتے ہیں۔
مقدس باپ، اپنے بچوں کی مدد کر
لافانی باپ، انہیں سکون عنایت فرما۔
پھر کمرے میں اس کے سرہانے صلیب کے پیچھے لگا ہوا نیلا بلب روشن ہو جاتا اور وہ صلیب کے سائے میں بہت دیر تک بے چینی سے کروٹیں بدلتی رہتی۔ اس کے پرسکون ذہن میں ننھے ننھے بلبلوں کی طرح خلا ابھر ابھر کر پھوٹتے رہتے اور وہ سوچتی کہ یہ بلبلے کہاں سے آتے ہیں اور آکر کیوں اس کے ذہن میں بم کے مانند پھٹتے ہیں۔ پھر ان بموں کی آواز اسے لوریاں دینے لگتی اور وہ دنیا کی جھمیلوں میں گزرے ہوئے تھکے ماندے دن کی طرح رات کی گود میں سوکر اپنے لافانی باپ کے حضور میں حاضر ہو جاتی۔۔۔ لافانی باپ اسے تھپکیاں دیتے لیکن ان کا چہرہ اسے کبھی صاف نظر نہ آیا۔
ریورنڈ مدرنے اسے بتایا تھا کہ اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور کلیسا نے اسے یتیم خانے سے لے کر پالا تھا۔ مگر یہ حقیقت نہیں تھی۔ اس کے والدین فوت نہیں ہوئے تھے اور اسے اپنے ذہن سے، قبر پر چڑھائے ہوئے پھولوں کے مانند بھلاکر انگلستان میں بڑے اطمینان سے اپنے چار بچوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے اور مدرنے اسے یتیم خانے سے لے کر نہیں پالا تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ شادی سے پانچ سال بعد تک بینی ڈکٹا کے والدین کے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا تھا۔ پھر کسی کے کہنے پر انہوں نے گرجا میں جاکر منت مانی تھی کہ وہ اپنا پہلا بچہ کلیسا کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے۔ یہ بینی ڈکٹا کی بدقسمتی تھی یا خوش قسمتی کہ وہ پیدا ہو گئی اور والدین نے اسے کلیسا کی نذر کردیا۔ ان دنوں ریورنڈ مدر کی مامتا جوان تھی اور اس نے بڑے پادری سے کہہ کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ وہ بالکل چھوٹی سی تھی کہ مدرکے ساتھ ہندوستان آ گئی اور تب سے یہیں تھی۔
وہ بہت پیاری بچی تھی اگر اسے معلوم ہوتا کہ اس کی چھوٹی سی ناک افریقی کوے کی ناک بن جائےگی اور اس کی خوبصورت آنکھوں پر خول چڑھ جائیں گے تو وہ اپنے بچپن کو تیتریوں کی طرح جال میں قید کرنے کی پوری کوشش کرتی۔ لیکن اس کا بچپن مدر کی جھریوں میں کھو گیا۔ اس کی ناک چہرے سے گرتی گرتی اٹک گئی اور اس کی چمکیلی آنکھیں عینک کے پیچھے اصل سے ڈیڑھ گنا دکھائی دینے لگیں۔ اس کو اپنی بدصورتی کا بہت احساس رہتا تھا۔ کچھ تو دوسری سسٹریں اس سے اس لیے کتراتی اور محض رسمی گفتگو کرتی تھیں کہ وہ مدر کی بڑی چہیتی تھی اور انہیں خدشہ تھا کہ کہیں کوئی نامناسب بات اس کے کانوں میں پڑ کر مدرکے کانوں تک نہ پہنچ جائے اور کچھ اس لیے بھی کہ وہ اسے اس قابل ہی نہ سمجھتی تھیں کہ وہ ان کے ساتھ رہے اور ان کے کمروں میں ابھرتی ہوئی سرگوشیاں سنے۔
سسٹر بینی ڈکٹا کو سب کچھ معلوم تھا لیکن اس نے ان کی سرگوشیاں سننے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ تو بس ہروقت اپنا نچلا ہونٹ چوستی ہوئی انجیل مقدس پڑھا کرتی۔ مناجات گنگنایا کرتی اس کی کرسی مینار کے سائے کے ساتھ ساتھ کھسکتی رہتی اور وہ اندر ہی اندر سسکتی رہتی تھی۔ پھر جب گرجا کا مینار رات سے ہمکنار ہو جاتا تو وہ حضرت عیسیٰؑ کے قدموں پر گر کے رویا کرتی گھٹنوں سے ٹکراکے آگے آگے جھومتی ہوئی صلیب کے پیچھے چلتی ہوئی اپنے بکھرے ہوئے سکون کو سمیٹا کرتی۔۔۔ وہ سکون، جس میں بلبلے ابھرتے رہتے تھے۔
اسے رات کو بےشمار خواب آتے، جس میں وہ کسی نہ کسی حالت میں مقدس باپ کے نیاز حاصل کرتی۔ مگر اسے ان کا چہرہ صاف نظر نہ آتا۔۔۔ بلکہ دھندلایا ہوا، دور دور ان پہاڑیوں کی طرح جن پر ہر وقت دھند چھائی رہتی تھی۔
شروع شروع میں وہ اپنے خواب دوسری سسٹروں کو سناتی تھی جس سے وہ اور بھی جلنے لگی تھیں اور آخر ایک دن ان میں سے ایک نے کہہ ہی دیا کہ وہ بہت بڑی فراڈ ہے۔ انہیں متاثر کرنے کے لیے یہ خواب گھڑکر سناتی ہے۔ جب اس نے آنسو پیتے ہوئے مدرسے کہا کہ وہ اس کا مذاق اڑاتی ہیں تو انہوں نے بری شفقت سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’کوئی بات نہیں بینی۔۔۔ مجھے تم پر یقین ہے۔۔۔ تم اور بھی زیادہ عبادت کرو تاکہ تمہیں اصلی سکون میسر آئے۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی روحانی کیفیت کبھی کسی سے بیان نہ کی اور سکون سے فارغ اوقات میں گرجا میں رہنے لگی۔ ساری ساری رات وہیں گزار دیتی اور جب سورج کی پہلی کرن محرابوں سے داخل ہوکر کنواری ماں اور بیٹے کے قدم بوسی کرتی تو مدر آکر موم بتیاں بجھاتی اور سسٹر بینی ڈکٹا کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہتی، ’’بس میری بیٹی۔۔۔ اپنی صحت کی قیمت سے روح کو نہ خریدو، روح اور جسم دونوں کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
سسٹر بینی ڈکٹا واقعی دبلی ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن وہ خوش تھی کیونکہ اب حضرت عیسیٰؑ کا چہرہ اسے واضح دکھائی دینے لگا تھا۔۔۔ وہی مخصوص تاثر لیے جو لینا روڈیا مائیکل اینجلو کی تصویروں میں ہوتا ہے۔
وہ دیکھتی کہ وہ بڑی دیر سے فضا میں پرواز کر رہی ہے۔ اس کے ارد گرد بادل تیر رہے ہیں۔ وہ تھک ہار کے گرنے ہی والی ہے کہ بادلوں میں سے دو پرنور ہاتھوں نے بڑھ کر اسے تھام لیا ہے اور پھر وہ انتہائی مسرت کے کیف میں ڈوبی حضرت عیسیٰؑ کا دامن تھامے آسمان کی نیلاہٹوں میں گھل رہی ہے یا پھر حضرت عیسیٰؑ بہت دور ایک نوکیلی چٹان پر کھڑے ہیں اسے دیکھتے ہی انہوں نے بازو پھیلا دیے ہیں اور وہ راستے کی صعوبتیں جھیلتی تھکی ہاری ان کے قدموں میں گر گئی ہے اور انہوں نے اسے اٹھاکر اپنے سینے سے لگا لیا ہے۔ یا پھر وہ گرجا کے مخروطی مینار کے سائے میں ان کے سینے سے لگی کھڑی ہے اور وہ بڑی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔۔۔
’’میں تمہارا چرواہا ہوں۔۔۔‘‘
اسے ہر رات کچھ اسی قسم کے خواب آتے۔ حالانکہ مریم اور عیسیٰؑ کا بہت گہرا تعلق ہے لیکن جانے کیوں اسے خواب میں کنواری ماں کبھی دکھائی نہ دیتیں۔۔۔ وہ ہر روز پہلے سے زیادہ مسرور نظر آتی اور دل ہی دل میں دوسری سسٹروں کے حال پر اسے ترس آتا کہ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کوئی نہیں کہ وہ اس قسم کی نعمت سے محروم رہیں۔ پھر اس کی روحانی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ اگر کسی رات اتفاق سے وہ گرجا سے جلد لوٹ آتی تو پھر اسے پورے تاثر سے خواب آتے۔۔۔ لیکن خلا اب بھی اس کے پرسکون ذہن میں بلبلوں کی طرح ابھر ابھر کر پھوٹتے رہتے ہیں۔۔۔ بلبلے جو پہلے سے کچھ بڑے ہو گئے تھے اب بھی انہوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ تو جیسے اس کے دماغ کے ساتھ کنکھجوروں کی طرح چمٹ کر رہ گئے تھے۔
حسب معمول ایک رات بچوں کو مناجات کرانے کے بعد انہیں بستروں میں لٹاکر اپنے کمرے میں آئی تاکہ وہاں سے بتیاں لے کر گرجا میں جائے کہ اسے ایک بچے کے رونے کی آواز آئی وہ فوراً ڈار میٹری میں گئی جہاں ہسپتال کے وارڈوں کی طرح، دوقطاروں میں بستروں پر کچھ بچے سو رہے تھے اور کچھ سونے کی کوشش کر رہے تھے۔
سسٹربینی ڈکٹا نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘
ایک نے جواب دیا، ’’کچھ نہیں سسٹر۔۔۔ ڈر گیا ہے شاید۔‘‘
بچوں کے ہونٹوں پر مخصوص شریر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ دوسرے نے کہا، ’’آج ہی آیا ہے نا، بےچارا۔‘‘
’’خاموش، شریر کہیں کا۔۔۔ کوئی بات نہیں بچے، شاباش، شاباش۔ ڈرنے کی بات ہی کیا ہے۔ تین مرتبہ یسوع مسیح کا نام لے کر اپنے سینے پر ہاتھ سے صلیب بناؤ۔ اس طرح۔۔۔‘‘ سسٹر بینی ڈکٹا نے صلیب بناتے ہوئے کہا۔ ’’اور انجیل کو تکیے کے نیچے رکھ کر بےدھڑک سو جاؤ۔۔۔ اچھے بچے ڈرا نہیں کرتے۔۔۔ یسوع اپنی بھیڑوں کے رکھوالے ہیں۔‘‘
اور وہ بچہ سسکیاں لیتا ہوا بستر میں لیٹ گیا۔ خدا معلوم کیا بات تھی، شاید ڈارمیٹری میں پھیلی ہوئی پراسرار روشنی اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو گئی تھی یا سامنے کی کھڑکی سے نظر آتے ہوئے بھوتوں کی طرح ایستادہ چیڑ کے درخت ’’سکریچ آؤل ویچ‘‘ کامک کے کرداروں کے مانند سے خوفزدہ کر رہے تھے کہ لاکھ بار بند کرنے کے باوجود اس کی آنکھیں کھل کھل جاتیں۔
سسٹر بینی ڈکٹا ابھی گرجانہ پہنچی تھی کہ اسے پھر چیخوں کی آواز سنائی دی۔ اپنے روز مرہ کے پروگرام میں اس خلل اندازی کے باوجود اس کے ماتھے پر کوئی بل نہ آیا اور وہ بہت ہی بےچین ہوکر ڈار میٹری میں لوٹ آئی۔ اس بچے نے سسٹر کے سینے سے چمٹ کر کہا، ’’سسٹر، سسٹر۔۔۔ میں کبھی اکیلا نہیں سویا۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ امی امی۔۔۔ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
سسٹر بینی ڈکٹا نے اسے بہت سمجھایا۔ مگر وہ روں روں کرتا کہے جا رہا تھا۔۔۔ میں اکیلا کبھی نہ سویا، امی، امی۔
جب کوئی اور چارہ نہ رہاتو وہ اسے اپنے کمرے میں لے آئی اور اپنے بستر پر لٹاکر مناجات گاتی ہوئی اسے تھپکیاں دے کر سلانے لگی۔ اس کے سونے کے بعد وہ گرجا میں جاکر جلد ہی لوٹ آئی۔ مبادا وہ بچہ نیند میں پھر ڈر جائے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ اسے اٹھاکر اس کے اپنے بستر چھوڑ آئے لیکن پھر اس خیال سے کہ کہیں جاگ نہ اٹھے کپڑے تبدیل کرکے اس کے ساتھ ہی لیٹ گئی۔
اس نے سرہانے کی طرف صلیب کے پیچھے لگا نیلا بلب روشن کر دیا اور صلیب کے مجرد سائے نے اسے اپنے دامن میں لے لیا۔ کچھ دیر تک وہ اس دھندلی روشنی میں سوئے ہوئے معصوم بچے کو دیکھتی رہی۔ پھراسے سینے سے لگاکر آنکھیں موند لیں اور گرجا میں لگی تمام تصویریں اینجلوکا ’’پائٹا‘‘ رافیل کی ’’میڈونا اینڈوی چائلڈ‘‘ بروگل کی ’’ہولی فیملی‘‘ اس کے ذہن میں جھولا جھولتی رہیں اور پھر آہستہ آہستہ دبے پاؤں اس کی آنکھوں میں نیند اتر آئی۔
اس رات اسے کوئی خواب نہ آیا۔ پھر ہر رات اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی بچہ سونے لگا اور پھر کبھی اسے کوئی خواب نہ آیا۔۔۔ اور خلاؤں کے بلبلے اس کے ذہن سے یوں غائب ہو گئے جیسے سردیوں میں منہ سے نکلتی ہوئی بھاپ فضا میں۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.