سمجھوتا
اتوار کی چھٹی کا دن تھا۔صبح سے رم جھم بارش ہونے کی وجہ سے موسم سہانا ہو گیا تھا۔ سنتوشؔ کی فرمائش پر آج اس کی بیوی نے پھلکیاں تلی تھیں اور سب خوب مزے لے لے کر کھا رہے تھے کہ اچانک صدر دروازے پر دستک ہوئی تو دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔پھر سنتوش دروازہ کھولنے کے لیے نیچے اترا تو دیکھا کہ صدر دروازہ دونوں پٹ کھلا ہوا ہے اور ایک دبلا پتلا سا آدمی بغیراجازت، ڈیوڑھی کے اندر آکر کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چند رجسٹر اور ایک ڈایری دیکھ کر سنتوش کا دماغ ٹھنکا۔ وہ کچھ کہتا یا کوئی سوال پوچھتا، اس سے قبل ہی نووارد گھر کے بجلی کے میٹر تک جا پہنچا اور دن کا اجالا ہونے کے باوجود بیگ سے ایک ٹارچ نکال کر اس کی روشنی میں بغور میٹر کا معائنہ کرنے لگا۔ میٹر میں کی گئی ہیرا پھیری کی وجہ سے اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اسے قطعی امید نہیں تھی کہ گورمنٹ کا کوئی ڈپارٹمنٹ اتوار یا کسی دوسری سرکاری چھٹی کے دن بھی معائنے کی خاطر اپنا آدمی بھیج سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ ہمیشہ محطات رہتا تھا۔ میٹر جڑا ایک تار خاص سویچ وہ ہمیشہ الگ کر دیا کرتا تھا مگر آج اتوار ہونے کی وجہ سے وہ ایکدم بےفکر تھا اور میٹر سے جڑا پوشیدہ سویچ الگ نہیں کیا تھا۔ وہ دل ہی دل دعا کرنے لگا کہ میٹر ریڈر کی نگاہیں اس کی کارستانی کو تاڑے بغیر ریڈِنگ لے کر چلا جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس نے چند لمحے میٹر کا معائنہ کرنے کے بعد سنتوش کو تیز نظروں سے گھورا اور میٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’میرے گھر کے بجلی کا میٹر، مگر ہوا کیا؟ اس نے اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔‘‘
’’میں اس تار کے متعلق پوچھ رہا ہوں جو میٹر کے پیچھے چھپا کر دیوار کی آڑ میں کر دیا گیا ہے۔ اسی کی وجہ سے بتیاں جلی ہونے کے باوجود میٹر ایکدم بند ہے۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘ اتنا کہنے کے بعد وہ بے دھڑک دیوار کے عقب میں چلا گیا اور پوشیدہ سویچ کی طرف اشارہ کر کے پھر سوال کیا۔
’’آپ نے یہ تار اور سویچ کیوں لگا یا ہے؟‘‘ اتنی دیر میں سنتوش نے اچھی طرح اندازہ کر لیا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے اور اس نے بے جھجھک کہا۔
’’تاکہ میٹر بند ہو جائے اور بجلی کا بل بہت کم آئے۔‘‘ اب وہ پوری طرح مطمئن نظر آ رہا تھا۔
’’آپ جانتے ہیں کہ یہ قانوناً جرم ہے؟‘‘ اس نے پھر سوال کیا۔
’’جی ہاں اور میں نے یہ سب کچھ آپ کے وبھاگ کے ہی ایک آدمی کی صلاح پر کیا ہے۔ اس ترکیب کے لیے اس نے خاصی اجرت بھی لی تھی۔‘‘
’’لیکن یہ جرم ہے۔‘‘
’’تو اب تم کیا چاہتے؟‘‘ سنتوش کی ڈھٹائی بڑھتی جا رہی تھی۔
’’میں آپ کے خلا ف رپورٹ کروں گا۔‘‘ اس نے سنتوش کو گھیرنا چاہا۔
’’اس سے تمھیں کیا فائدہ ہوگا؟‘‘
’’کچھ نہیں مگر آپ دھرے جائیں گے۔‘‘ میٹرریڈر نے اپنا آخری تیر اس پر پھینک دیا۔
’’میرے دھرے جانے سے بھی تمھارا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے میں تمھارے فائدے کی بات بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر سنتوش نے جیب سے سو سو روپے کے تین نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بڑے اطمینان سے مسکراکر کہا۔
’’فی الحال اسے رکھ لو اور ہر ماہ آکر اتنی ہی رقم مجھ سے لے لیا کرنا کیوں کہ اسی میں ہم دونوں کا فایدہ ہے ورنہ جیسی تمھاری مرضی۔‘‘ میٹر ریڈر چند لمحے اسے غور سے دیکھتا رہا پھر سنتوش کے ہاتھ سے روپے جھپٹ کر اپنی جیب میں ٹھونسے اور اسے سلام کرتا ہوا باہر نکل گیا۔
’’ارے پھلکیاں ٹھنڈی ہوئی جا رہی ہیں۔ آپ نیچے کیا کرنے لگے۔‘‘ وہ بیوی کی آواز پر چونکا اور دروازہ بند کر کے اوپر چل دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.