بھیانک رات۔۔۔!
گھٹا ٹوپ اندھیرا اور اندھیرے میں ڈوبا ایک جزیرہ‘ جزیرے کے وسط میں ایک شہر لیس بوس (LES BOSE)، ویران سڑکیں اور خاموشی کا سینہ چیرتی تیز رفتار گاڑیوں کی آوازیں۔ جیسے جیسے رات بھیگتی گئی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ آوازیں معدوم ہو گئیں لیکن شانت سمندر کی لہروں میں ایک دل آویز موسیقی گھلی ہوئی تھی جو آس پاس کے علاقے کو مترنم کر رہی تھی۔ سارا علاقہ پرسکون نیند کی آغوش میں پینگیں لے رہا تھا مگر سمندر جاگ رہا تھا۔ اس کی لہریں ساحل تک آتیں اور اسے بوسہ دے کر پھر سمندر میں لوٹ جاتیں۔ اس حسین اور دلکش منظر کو دیکھنے والا وہاں کوئی موجود نہ تھا البتہ ساحل سے ملحق ایک گھر کے دروازے پر دھپ کی ایک آواز نے مکین کو نیند میں چونکنے پر مجبور ضرور کر دیا تھا——
’’کون ہے؟‘‘—— وہ بستر سے اٹھنا نہیں چاہتی تھی مگر گہری خاموشی کے بعد پھر دھپ کی آواز ابھری۔
’’کون ہے؟‘‘ اس بار اسکے لہجے میں ناراضگی تھی۔
’’دھپ۔۔۔دھپ۔۔۔دھپ۔۔۔۔‘‘
’’ارے کون ہے کوئی نام پتہ ہے یا نہیں ؟‘‘—— وہ غصے میں اٹھ کر بیٹھ گئی مگر دروازہ کھولنے کی ہمت یکجا نہیں کر پا رہی تھی کہ دستک دینے والے نے اپنا نام ابھی تک نہیں بتایا تھا۔
دھپ دھپ کی آواز جاری رہتی ہے۔
’’ارے گونگے ہو کیا، کچھ بولتے کیوں نہیں ؟‘‘—— اب اُس کے اندر اضطراب اور غصے کی ملی جلی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔
’’دھپ!‘‘
وہ سہم گئی۔
خاموشی۔۔۔ گہری خاموشی۔۔۔۔
کچھ لمحہ خاموشی کے بعد پھر وہی دھپ دھپ کی آوازیں پھر گہری خاموشی۔
وہ اٹھی اور دبے پاؤں دروازے تک پہنچی مگر دروازہ کھولنے کی ہمّت یکجا نہ کر پائی۔ وہ اس گھر میں اکیلی تھی۔ اسے حیرانی تھی کہ آخر کوئی بولتا کیوں نہیں۔ دستک دینے والا کون ہے۔ جب یہاں کوئی موجود نہیں ہے کیا کوئی آسیب ہے یا کوئی مجھے خوف ذدہ کر رہا ہے۔ کچھ دیر کھڑی رہنے کے بعد پھر پلنگ تک آئی اور بستر پر بیٹھ گئی۔
’’دھپ‘‘
اس بار وہ غصے سے اٹھی ایک ہاتھ میں ٹارچ اور دوسرے میں ڈنڈا لے کر دروازے کے پاس آئی اور یک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔ اس نے دیکھا دروازے کے پاس ایک کتا اور ایک کتیا اختلاط میں مشغول ہیں اختلاط کے درمیان دروازے سے ٹکرانے سے دھپ دھپ کی آوازہو رہی تھی۔ اس نے ڈنڈا زمین پر پٹخا، دونوں کیں...کیں کرنے لگے۔ وہ زیر لب مسکرائی اور دل ہی دل میں بدبدائی —— ’’انہیں اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی‘‘—— دروازہ بند کرکے بستر پر آکر دراز ہو گئی۔ اب اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی تھی۔ بار بار اس کا ذہن کتے کے اختلاط کی طرف مرکوز ہو جاتا۔ اس کے بدن میں جھرجھری سی ہوئی اور وہ سوچ کی دنیا میں دور بہت دور نکل گئی کہ پھر کسی کی دستک نے اسے ان حسین وادیوں سے لوٹا کر کمرہ میں ہونے کے احساس دلا دیا۔
دستک!
’’کون ہے؟‘‘——
ما۔۔۔ ما۔۔۔ میں۔۔۔ ایک مردانہ آواز ابھری جسے سن کر وہ چونک گئی۔ یہ کس کی آواز ہو سکتی ہے۔ اب کون سا جانور آ گیا۔ اس نے اس طرح کی آواز پہلی بار سنی تھی۔ استعجاب نے سر ابھارا اس نے گھبرا کر دروازہ کھول دیا۔ ایک خوبرو نوجوان اسکے سامنے کھڑا تھا۔ اسکے لباس پانی سے بھیگے ہوئے تھے بلکہ پورا وجود تربہ تر تھا۔ بدن تھکا تھکا اور آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ کسی مرد کو اس نے اس جزیرے میں پہلی بار دیکھا تھا۔
’’تو۔۔۔ تو۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔ کوئی جانور تو نہیں۔۔۔ ایسا ذی روح میں نے پہلی بار دیکھا ہے‘‘——
’’میں بھی انسان ہوں بالکل تمہاری طرح۔ فرق یہ ہے کہ تم عورت ہو اور میں مرد——‘‘
’’مرد۔۔۔‘‘اس لڑکی نے اسے اوپر سے نیچے تک بغور دیکھا۔ لفظ ’مرد‘ اس نے پہلی بار سنا تھا۔
’’ہمارے جزیرے میں مرد نام کا کوئی ذی روح نہیں رہتا ۔ صرف عورتیں رہتی ہیں۔ تم کہاں سے آ گئے۔ اندر آ جاؤ۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو تمہاری گردن مار دی جائےگی۔‘‘
اس نوجوان نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا اور فوراً اندر آ گیا۔ لڑکی نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا۔ نوجوان استعجاب میں ڈوب گیا کہ یہ کیسا جزیرہ ہے جہاں مرد کا تصور نہیں۔
’’ہاں اب بتاؤ تم کون ہو؟ اور یہاں کیسے آئے؟‘‘
’’میں جہازی ہوں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک میں جہاز سے تجارت کی غرض سے سفر کرتا رہتا ہوں۔ سمندر میں طوفان آنے کی وجہہ سے میرا جہاز ڈوب گیا۔ میں کسی طرح تیرتا ہوا اس جزیرے میں آ گیا اور اب تمہارے سامنے کھڑا ہوں‘‘—— اس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ بتا دیا۔
وہ بہت دیر تک سوچتی رہی پھر ایک کتاب نکال کر جلدی جلدی پنے کو پلٹنے لگی۔ کافی پنے پلٹنے کے بعد ایک بوسیدہ سی تصویر نظر آئی۔ جس میں اس نوجوان کی طرح ایک مرد نظر آیا۔ جسے ایک جلاد عورت پھانسی کی سزا دے رہی تھی۔ اس نے مرد کے بارے میں اپنے ابا و اجداد سے سن رکھی تھی۔
’’اوہ! تو تم مرد ہو۔ جو زمانۂ قدیم میں کبھی اس جزیرے میں بھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہاں کی حکمراں سیفو اول نے سب کو تہہ تیغ کر دیا تھا۔ اور صرف عورتوں کی حکومت قائم کر دی تھی۔ اب یہاں صرف عورتیں ہی رہتی ہیں۔‘‘
اس نوجوان کو حیرانی ہوئی۔
’’کیا دنیا میں ایسا بھی کوئی جزیرہ ہے جہاں صرف عورتیں ہی رہتی ہیں اور سارا نظام عورتوں کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘
’’ہاں، اور یہاں مردوں کا آنا سخت منع ہے اگر غلطی سے کوئی آ جاتا ہے تو اسے سزائے موت دی جاتی ہے۔ جیسا کہ اس تصویر میں پھانسی کی سزا دی جا رہی ہے۔۔۔دیکھو۔۔۔ اس نے کتاب آگے کر دی۔‘‘
’’کیا کہا۔۔۔ تو کیا میری موت یہاں مجھے کھینچ لائی ہے؟‘‘
’’اگر کسی نے تمہیں دیکھ لیا تو تمہاری موت یقینی ہے۔ اس لئے جتنی جلد ہو سکے اس جزیرے سے نکل جاؤ۔‘‘
’’میں تو اس جزیرے میں بالکل اجنبی ہوں۔ رات میں کسی طرح چاند کی روشنی میں آپ کے گھر تک پہنچ گیا کیونکہ سمندر سے آپ کا گھر بالکل نزدیک تھا لیکن اب صبح ہونے والی ہے اب تو میری جان آپ کے رحم و کرم پر ہے۔‘‘
’’ایسا ہے کہ میں فی الحال تمہیں اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دیتی ہوں لیکن گھر سے باہر قدم ہرگز نہیں رکھنا۔ نہیں تو مارے جاؤگے۔ موقع دیکھتے ہی میں تمہیں کسی طرح اس جزیرے سے نکال دوں گی۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں تمہارے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہوں۔ تم اس کمرے سے باہر مت آنا۔‘‘——یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ وہ نوجوان پلنگ پر بیٹھ گیا اور اس طلسمی جزیرے کے بارے میں سوچنے لگا۔
اسے گھر میں مقید ہوئے کئی دن گذر گئے لیکن جزیرے سے باہر جانے کی کوئی سبیل ابھی تک نہیں نکلی تھی۔ وہ باہر کی دنیا دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر اس جزیرے میں عورتیں سارا نظام کیسے چلاتی ہیں۔ جب وہ عورت کام پر چلی گئی تو اس نے زنانہ بھیس بدلا اور گھر سے باہر آ گیا۔ سڑکوں پر صرف عورتیں ہی عورتیں نظر آ رہی تھیں۔ ایک بھی مرد کا نام و نشان نہیں تھا۔ ٹریفک پولس سے لے کر تھانہ، صفائی، ہسپتال، پولس، تعلیم سب کام عورتوں کے ہاتھوں میں تھا اور سب اپنا کام بخوبی نبھا رہی تھیں۔ ایک عورت ہنس کر دوسری عورت سے ملتی تو ایک دوسرے کو بوسہ دیتں۔وہ حیرانی میں ڈوبا تھا کہ سائرن کی آوازابھری‘ وہ چونک گیا۔ پولس کی گاڑی سڑک پر راستہ بنا رہی تھی۔ راہ چلتی عورتیں سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئیں۔ وہ بھی سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘—— اس نے آواز بدل کر پاس کھڑی ایک عورت سے پوچھا۔
’’جزیرے کی وزیر اعظم گزرنے والی ہیں۔‘‘
’’اوہ! کیا نام ہے ان کا؟‘‘—— اس عورت نے آنکھیں تریر کر دیکھا کہ یہ کیسی عورت ہے جو وزیر اعظم کا نام بھی نہیں جانتی۔
’’سیفو تھری(Safothree) نام ہے ان کا۔‘‘
وزیر اعظم کا قافلہ گزر گیا۔ سڑک کی رفتار پھر معمول پر آ گئی۔
جب وہ لوٹ کر گھر پہنچا تو جزیرے کا منظر دیکھ کر حیران تھا۔ اس نے خوبصورت سے خوبصورت لڑکیوں کو دیکھا تھا۔ ایک بھی لڑکی بدصورت اسے نظر نہیں آئی۔ اتنے حسین چہرے اس نے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ ایسا لگتا تھا پوری دنیا سے خوبصورت لڑکیوں کو لا کر یہاں یکجا کر دیا گیا تھا۔
وقت گذرتا جا رہا تھا اور مرد کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہموار نہیں ہوا تھا۔ وہ عورت بھی روز کوئی نہ کوئی ترکیب ضرور سوچتی لیکن اسے عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہتی کہ ہر ترکیب میں مرد کی شناخت حائل ہو جاتی۔ اس کے پکڑے جانے کا خدشہ دامن گیر رہتاجب مرد نے اسے پریشان دیکھا تو گویا ہوا۔
’’میں جانتا ہوں تم میری وجہہ سے کافی پریشان ہو۔ اگر موت کا ڈر نہیں ہوتا تو میں کب کا یہاں سے نکل جاتا لیکن موت کا ڈر ہر لمحہ مجھے بھی پریشان کر رہا ہے۔‘‘
’’یہی بات تو مجھے بھی پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بہر کیف کوئی نہ کوئی راستہ تو ضرور نکل آئےگا۔ لو چائے پیو‘‘—— اس نے چائے کا گلاس مرد کی طرف بڑھایا۔ گلاس لیتے وقت مرد کا ہاتھ اس عورت سے مس کر گیا۔ عورت کو ایک عجیب طرح کے لمس کا احساس ہوا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کا ہاتھ مَس کرنے سے یہ عجیب طرح کے لمس کا احساس کیوں ہوا؟ لیکن اس سوچ کو اس نے فوراً جھٹک دیا۔ گاہے گاہے اکثر اس عورت کا کوئی نہ کوئی عضو اس مرد کو چھو جاتا اور اس کے اندر ایک عجیب لمس کا احساس ہوتا۔
رات کا تیسرے پہر گزر رہا تھا مگر اس عورت کی آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی تھی۔ بار بار اس لمس کو محسوس کرکے دل ہی دل میں محظوظ ہوتی رہتی۔ اسی لمحہ ایک عجیب سرشاری اس کے اندر پیدا ہو گئی اور وہ اپنے کمرہ سے نکل کر مرد کے کمرہ میں گئی۔ مرد گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ بستر پر بیٹھ گئی اور دھیرے دھیرے ہاتھ بڑھا کر اس کے بدن کو سہلانے لگی، مرد جاگ گیا اور ایک خوبصورت عورت کو اپنے اتنے قریب دیکھ کروہ بھی اپنا ہوش کھو بیٹھا۔ اس نے عورت کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور وہ عورت اس کی بانہوں میں سماتی چلی گئی۔
عورت زندگی میں پہلی بار اس عمل سے گزری تھی اور اس لذت سے آشنا ہوئی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مرد میں ایسا کیا ہے جو یہاں کی عورتوں کے ساتھ مباشرت کرنے میں نہیں۔اس طرح کی لذت کیا صرف مرد سے ہی ممکن ہے؟ جس کے چھونے سے پورے وجود میں ایک نئے لمس کا احساس جاگ جاتا ہے اور بار بار اس کے قریب جانے کا دل کرتا ہے۔ اب وہ ہر رات اس کے کمرہ میں چلی جاتی اور اس کی بغل میں سو جاتی۔
وقت لمحہ لمحہ گزرتا رہا۔ وہ اس مرد کو جانے دینا نہیں چاہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ہمیشہ کے لئے اس کے پاس ہی رہ جائے کیونکہ جولذت وہ دے رہا تھا اس سے قبل وہ اس سے ناآشنا تھی۔ اب تک وہ اپنی جنسی خواہش صرف عورتوں سے ہی پوری کرتی تھی جس میں وہ لذّت نہیں تھی جو یہ مرد دے رہا تھا لیکن وہ مرد گھر میں قید رہ کر زیادہ دن رہنا نہیں چاہتا تھا۔ جب کبھی اس کا دل چاہتا زنانہ لباس پہن کر شہر میں نکل جاتا۔ گھومتا پھرتا، ہوٹل میں کھاتا پیتا اور گھر واپس آ جاتا لیکن اس زندگی سے وہ اکتا گیا تھا۔ اسے اپنی بیوی، بچے، روزگاریاد آنے لگے تھے۔ وہ لوٹ جانا چاہتا تھا مگر عورت کسی طور اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔ جزیرے سے نکلنا مشکل تھا۔ جب تک کسی کشتی یا جہاز کا انتظام نہ کیا جائے۔ لیکن اس جزیرے میں نہ کوئی جہاز آتا نہ جاتا، البتہ کشتی سے عورتیں سمندر کی سیر کرتیں، پھر واپس آ جاتیں۔
جب کئی مہینے گزر گئے تو عورت نے اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کی۔ اس کے پیٹ میں اس مرد کا بچہ پل رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے معائنہ کیا، معائنے کے بعد ڈاکٹر کے چہرے پر تشویش کی لکیریں ابھر آئیں۔ شلف سے ایک کتاب نکال کر اس کا مطالعہ کیا۔
’’اس کا مطلب تم ماں بننے والی ہو‘‘——
’’یہ ماں بننا کیا ہوتا ہے؟‘‘—— اس عورت نے یہ لفظ بھی پہلی بار سنا تھا۔
’’جب کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ مباشرت کرتی ہے تو اس کے پیٹ میں حمل ٹھہر جاتا ہے اور نو مہینے کے بعد وہ بچے کو جنم دیتی ہے لیکن اس جزیرے میں عورتیں اس عمل سے نہیں گزرتیں کیوں کہ یہاں صرف عورتیں ہی عورتیں رہتی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس جزیرے میں کوئی مرد ہے۔‘‘
’’ہاں! میرے گھر میں ایک مرد ہے۔ وہ جہازی ہے اور جہاز ڈوب جانے کی وجہہ سے کسی طرح اس جزیرے میں پہنچ گیا ہے۔‘‘
’’تم جانتی ہواگر حکومت کو پتہ چل گیا تو تمہارے ساتھ اسے بھی پھانسی پر چڑھا دیا جائےگا۔ اس لئے اس حمل کو ضائع کر دو اور اس مرد کو جتنی جلد ہو سکے یہاں سے نکال دو۔‘‘
’’میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتی کیونکہ جو لذت وہ دے رہا ہے۔ یہاں کی عورتیں نہیں دے سکتیں۔ میں اس کے ساتھ اس کی دنیا میں جانا چاہتی ہوں۔ جہاں مردوں کے ساتھ جینے کی آزادی ہے۔‘‘
’’تم کوئی بھی فیصلہ لینے کے لئے آزاد ہو۔ آگے تمہاری مرضی۔ میں نے تمہیں آگاہ کر دیا۔‘‘
وہ عورت وہاں سے نکل کر گھر کی طرف چل پڑی ۔ اس نے پورے راستے ایک پلان بنایا کہ کس طرح اسے اس مرد کے ساتھ اس جزیرے سے نکلنا ہے۔ اس نے بہت سارا کھانے پینے کا سامان بازار سے خرید لیا اور سامان سے لدی پھدی گھر پہنچی مگر یہ کیا اس نے دیکھا پولس مرد کو پکڑ کر لے جا رہی ہے۔ اس نے خود کو چھپا لیا۔ جب پولس چلی گئی تو وہ گھر میں داخل ہوئی۔
پولس نے اس مرد کو وزیر اعظم کے سامنے پیش کیا۔ وزیر اعظم نے اس مرد کا بغور جائزہ لیا اور کہا——
’’اس مرد کو میرے حرم میں پیش کیا جائے اور میری تلوار لائی جائے۔
میں اسے خود سے سزا دینا چاہتی ہوں۔‘‘
مرد کو وزیر اعظم کے خواب گاہ میں بھیج دیا گیا۔ وزیر اعظم صاحبہ تلوار کے ساتھ خواب گاہ میں تشریف لے گئیں۔ محل میں چہ مئگوئیاں ہونے لگیں کہ اب اس مرد کا خاتمہ یقینی ہے لیکن کافی وقت گزر جانے کے بعد نہ دروازہ کھلا اور نہ مرد کے چیخنے کی کوئی آواز آئی۔ محل کے سپاہی اور عہدے داران حیران تھے۔ وقت گزرتا گیا اور حیرانی بڑھتی گئی۔ تین دن کے بعد جب درواز کھلا تو وزیر اعظم کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ وہ ہنستی ہوئی باہر آئی۔ اس نے مرد کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ اس نے ڈرائیور کو کار نکالنے کا حکم دیا اور اس مرد کے ساتھ شہر کی سیر کو نکل پڑی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.