سگنل
وہ فٹ پاتھ پر کھڑا گرین سگنل کا انتظار کر رہا تھا۔ سڑک پر کاریں، موٹر سائیکل، آٹو رکشا، ٹیکسیاں، بسیں اور لاریاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔فٹ پاتھ پر اسکے دائیں بائیں ایک ایک دو دو کرکے راہگیر اکٹھا ہوتے جا رہے تھے۔ جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں، بچے سب سگنل کی طرف دیکھ رہے تھے مگر سگنل کسی غضب ناک دیو کی آنکھ کی مانند پلک جھپکائے بغیر انہیں گھورے جا رہا تھا۔
سورج نصف النہار پر ٹکا ہوا پلکیں جھپکا رہا تھا اور چاروں طرف دھوپ خیمہ زن تھی۔ اچانک اس کے تلوؤں میں سوزش ہونے لگی مگر یہ سوزش دھوپ کی تمازت کے سبب ہرگز نہیں تھی کیونکہ اسکے پیروں میں تو جوتے تھے۔ یہ سوزش تو ایک عرصے سے اندر ہی اندر اس کے لہو میں گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہی تھی۔ سوزش پنڈلیوں کی جانب بڑھ رہی تھی جیسے ان گنت چنگاریاں لہو میں تیر رہی ہوں۔ جب بھی اسیا ہوتا س کے دماغ میں بڑے بھیانک قسم کے خیالات یلغار کرنے لگتے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ایک خوفناک خیال اس کے دماغ میں کلبلانے لگا۔
اگر صرف تیس سیکنڈ کیلئے اچانک زمین سے اس کی کشش ثقل چھن جائے تو کیا ہو؟
زمیں پر قائم تمام اجسام خشک پتوں کی طرح فضا میں اڑنے لگیں۔ سڑکوں پر دوڑتی یہ موٹر گاڑیاں، عمارتیں، انسان، چرندپرند، پیڑ، دریا، پہاڑ، سمندر کوئی بھی شئے اپنی جگہ قائم نہ رہے۔ تیس سیکنڈ، صرف تیس سیکنڈ میں یہ زمین تمام اجسام کو اپنے دامن سے جھٹک کر اس طرح پاک ہو جائے جیسے کسی بچے نے ابھی ابھی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہو۔
یہ خیال اس کے ذہن میں لحظے بھر کو ایک تیز فلش کی طرح چمکا اور معدوم ہو گیا۔ لہو میں رینگتی چنگاریاں اس کے پورے بدن میں پھیل چکی تھیں اور سامنے سرخ سگنل اسی طرح چمک رہا تھا۔ اس نے بے چینی سے دائیں بائیں دیکھا اور دھک سے رہ گیا۔ راہگیروں کی بھیڑ چھٹ چکی تھی۔ صرف ایک مدقوق قسم کا شخص کھڑا سگنل کی طرف ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا؛
’’سب لوگ کہاں چلے گئے؟‘‘
مدقوق شخص اس کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’وہ بڑبڑایا سگنل تو خراب معلوم ہوتا ہے۔ کیا آس پاس کوئی دوسری کراسنگ بھی ہے؟‘‘
مدقوق شخص کوئی جواب دینے کی بجائے چپ چاپ مڑ کر دوسری طرف چلا گیا۔ سامنے ٹریفک کا، ریلا اسی طرح پوری تیز رفتاری سے رواں دواں تھا۔ اس نے اپنے اطراف نگاہ ڈالی اسے قرب و جوار میں کوئی دوسری کراسنگ نظر نہیں آئی۔
سوزش کی چنگاریاں اب اس کے دماغ میں رینگنے لگیں۔ اسے محسوس ہوا، اسکے سر میں بے شمار شہد کی مکھیاں بھنبھنارہی ہیں۔ ایک خوفناک بھنبھناہٹ سے اس کے دماغ کی رگیں پھٹنے لگیں۔
بوڑھا کانپتے قدموں سے پولیس تھانے میں داخل ہوا۔ سامنے بڑی سی میز کے پیچھے گھنی مونچھوں اور گنجے سر والا تھانیدار بیٹھا تھا۔ اس کے پھولے گالوں اور بڑی بڑی مونچھوں کے درمیان اس کی چوڑی چپٹی ناک یوں معلوم ہورہی تھی جیسے کوئی مینڈک گھاس میں دبک کر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پھدک کر باہر آ جائےگا۔
بوڑھا میز کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑے کھڑا ہو گیا۔ تھانیدار نے گردن اٹھائی۔’’کیا ہے؟‘‘
’’میں اس کا باپ ہوں۔‘‘ بوڑھے کے لہجے میں خوف اور آواز میں لرزش تھی۔
’’اوہو! ‘‘ تھانیدار کرسی کی پشت سے ٹکتا ہوا بولا۔ ’’سنا ہے تم ٹیچر ہو؟‘‘
’’جی ہاں! ریٹائرڈ ٹیچر۔‘‘
’’ٹیچر ہوتے ہوئے اپنی اولاد کو ڈھنگ کی تربیت نہیں دے سکے۔‘‘ تھانیدار غرّایا۔
بوڑھے نے ندامت سے گردن جھکا لی۔ تھوڑی دیر چپ رہا۔ پھر مضطربانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھتا ہوا بولا؛ ’’سر! وہ کہاں ہے؟‘‘
’’حوالدار! اسے لے آؤ۔‘‘ تھانیدار نے سامنے کھڑے حوالدار کو حکم دیا۔
تھوڑی دیر بعد حوالدار ایک نوجوان کو لاک اپ سے لے آیا۔
’’یہی ہے نا تمہارا پوت؟‘‘
’’جی۔۔۔جی۔۔۔!‘‘ بوڑھے کا چہرہ لجاجت سے شرابور تھا۔ ’’مگر سر! اس نے کِیا کیا ہے؟‘‘
’’اسی سے پوچھو!‘‘تھانیدار نے تقریباً جھڑکتے ہوئے کہا۔
بوڑھے نے نوجوان سے کپکپاتی آواز میں پوچھا۔ ’’کیا کیا ہے بیٹا تم نے؟‘‘
نوجوان گردن جھکائے خاموش کھڑا رہا۔
’’بولتے کیوں نہیں! میری عزت کا نہیں تو کم سے کم میرے بڑھاپے کا خیال کیا ہوتا۔‘‘ بوڑھے کی آواز فرطِ جذبات سے بھرّا رہی تھی۔ نوجوان پھر بھی خاموش تھا۔ تھانیدار کرسی سے کھڑا ہو گیا۔
’’یہ یوں نہیں بولےگا۔ ‘‘تھانیدار نے آگے بڑھ کر نوجوان کے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا۔
’چٹاخ ‘کی آواز سے کمرہ گونج اٹھا۔ بوڑھا کانپ گیا۔ اس نے ہاتھ جوڑے۔
’’صاحب! بولےگا۔۔۔ بولےگا۔۔۔ پلیز ماریئے مت!‘‘
’’ماروں نہیں توکیا اس کی آرتی اتاروں۔ دو گھنٹے سے بھیجے کا بھجیا بنادیا سالے نے۔‘‘
’’صاحب! پلیز گالی۔۔۔‘‘
’’اے بڈھے چپ! نہیں تو اسے یہیں تیرے سامنے ننگا کرکے ماروں گا۔‘‘
بوڑھا ڈر گیا۔ تھانیدار نے سگریٹ سلگائی۔ایک گہرا کش لیا اور بولا۔
’’یہ کچھ سیکھا پڑھا بھی ہے یا یوں ہی آوارہ گردی کرتا ہے؟‘‘
’’پوسٹ گریجویٹ ہے سر!‘‘
’’کام۔۔۔؟‘‘
’’بیکار ہے؟‘‘
’’بیکاری میں اتنی چربی؟‘‘
بوڑھے نے نوجوان کی طرف دیکھا۔ ’’میں تیرے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ بتا کیا ہوا؟‘‘
بوڑھے کے لہجے میں بیک وقت خوف، پیار اور عاجزی کا امتزاج تھا مگر نوجوان اسی طرح زمین میں گڑی میخ کی طرح کھڑا رہا۔ بوڑھے نے تھانیدار کی طرف دیکھا۔ ’’سر آپ ہی کچھ بتا دیجئے۔‘‘
بوڑھے کی بے بسی اس کی ڈبڈبائی آنکھوں سے مترشح تھی۔
تھانیدار نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں رگڑتے ہوئے کہا۔’’ اس نے سگنل توڑا ہے، سگنل۔‘‘
’’سگنل توڑا ہے؟‘‘ بوڑھے نے دہرایا۔’’ مگر اس کے پاس کوئی گاڑی تو کیا کوئی سائیکل تک نہیں ہے۔ اس نے سگنل کیسے توڑا؟‘‘
’’سگنل توڑا مطلب! سگنل کی بتی پھوڑ دی، پتھر مار کر۔‘‘ تھانیدار نے صراحت کی۔
’’کیا؟‘‘ بوڑھے پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔’’ سگنل کی بتی۔۔۔ مگر کیوں؟‘‘
’’یہی تو میں بھی دو گھنٹے سے پوچھ رہا ہوں۔ ‘‘ تھانیدار نے نوجوان کو گھورتے ہوئے کہا۔
بوڑھا دھیرے دھیرے چلتا ہوا نوجوان کے قریب گیا۔ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور انتہائی ملائمت سے بولا۔ ’’بیٹا! تھانیدار صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں تم سے۔ آخر کیوں کیا تم نے ایسا؟‘‘
نوجوان اسی طرح خاموش۔
’’کچھ تو بولو بیٹا! میرا دل ڈوب رہا ہے۔‘‘ بوڑھے نے اس کے دونوں گال تھپتھپاتے ہوئے گڑگڑا کر کہا۔
نوجوان نے اپنی پلکیں اٹھائیں۔ دہکتی آنکھوں سے تھانیدار کو دیکھا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔ ’’ہاں۔۔۔ میں نے سگنل توڑا ہے۔‘‘
’’مگر کیوں توڑا ہے تم نے سگنل؟‘‘ بوڑھے کی آواز اس کے حلق میں پھنس رہی تھی۔
’’کیوں کہ سگنل خراب تھا۔‘‘ نوجوان نے درشت لہجے میں کہا۔
بوڑھا سٹپٹا گیا، پھر سنبھل کر بولا۔’’ سگنل خراب تھا تو تمہارا کیا جاتا تھا۔ تم کون ہوتے ہو اس طرح توڑ پھوڑ کرنے والے؟‘‘
’’اگر سگنل خراب ہو جائے تو اسے توڑ ہی دینا چاہیے۔‘‘ نوجوان مٹھیاں کستا ہوا غرّایا ۔اب بوڑھے کے ساتھ تھانیدار بھی اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
نوجوان کا چہرہ تمتمایا ہوا اور آنکھیں سرخ تھیں۔
تھانیدار نے بوکھلا کر حوالدار کو آواز دی۔’’حوالدار۔‘‘
حوالدار آگے بڑھا۔ ’’اسے لے جاؤ۔‘‘
تھانیدار نوجوان کی طرف اشارہ کرتا ہوا جلدی سے بولا۔
نوجوان حوالدار کے ساتھ لاک اپ کی طرف مڑ گیا اور بوڑھا ہاتھوں سے سر تھام کر وہیں اکڑوں بیٹھ گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.