Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سناٹے بول اٹھے

داؤد محسن

سناٹے بول اٹھے

داؤد محسن

MORE BYداؤد محسن

    تھوڑی ہی دیر میں افواہ جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے فساد شروع ہو گیا۔ میدان بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ گلی کوچے جہاں بھولے بھالے اور معصوم بچے، جوان، بوڑھے مرد اور عورتیں بلا تفریق مذہب و ملّت آپس میں مل جل کر کھیلتے، پھرتے تھے، جہاں جنا گنا منا۔۔۔ اور سارے جہاں سے اچھا۔۔۔ کے نغمے گائے جاتے تھے آج میدان کارزار میں تبدیل ہو گیا۔

    رات ہوتے ہی فساد اور بھی بڑھ گیا۔ یہی وقت بلوائیوں کے لئے مسرت خیز ہوتا ہے ان کے من کی مرادیں پوری ہوتی ہیں اور انہیں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کے بھرپور مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ غرض چاروں طرف لاٹھیاں چلنے لگیں، چھرے گھونپے جانے لگے، دروازے توڑ توڑ کر دکانیں لوٹی اور جلائی جانے لگیں، مکانات جلائے جانے لگے۔ ہر طرف چیخ و پکار، بھگدڑ، عورتوں کی آہ و زاری، بچوں کے رونے کی دلخراش صدائیں اور جئے رام، جئے بجرنگ بلی۔۔۔ نعرۂ تکبیر اللہ اکبر۔۔۔ سارا شہر خونی طوفان میں گھر گیا۔ سڑکوں اور چوراہوں پر خاکی وردی والے لمبی لمبی بندوقیں کندھوں پر اٹھائے گشت کرنے لگے۔

    ایک پتلی گلی کی موڑ پر اندھیرے میں چند بلوائی شکار کے تعاقب میں بیٹھے تھے۔ انہیں ایک آٹو رکشا دکھائی دیا۔ سب مذہبی نعرے بلند کرتے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے۔ اسے زخمی کرکے رکشا کو آگ لگا دی۔ اتنے میں پولس آ گئی اور گروہ کو منتشر کرنے کے لئے برائے نام آنسو گیس چھوڑ دی گئی اور فوراً گولیوں کی بارش کر دی چند منٹوں میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ہر طرف پولس ہی پولس اور لاشیں ہی لاشیں اور تڑپتے ہوئے گھائل اور زخمی لوگ۔۔۔ قانون والوں کی نگاہوں میں یہ علاقہ تناؤ خیز تھا۔ حالانکہ قانون کے رکھوالوں نے ہی اسے تناؤ خیز بنایا تھا۔

    شہر کے بقیہ علاقوں میں آزادی ہی آزادی تھی۔ حالانکہ وہاں بھی کرفیو تھا مگر برائے نام۔ بلوائی رام کے نام پرراون کا ناچ، ناچ رہے تھے ان کے اندر حیوانیت جاگ اٹھی تھی۔ انہوں نے درندوں کو مات دے دی تھی۔ دکانوں اور مکانوں کا ذکر ہی کیا بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو گھروں میں بند کرکے زندہ جلایا جانے لگا۔ گلیاں اور محلے آگ کی لپیٹ میں آ گئے۔ ہر طرف آگ کے شعلے ہی شعلے تھے۔ وہاں انسانیت کا جنازہ اٹھ چکا تھا۔ حالانکہ حکومت رام راج کادعوی کرتی تھی مگر وہاں راون راج ہو رہا تھا۔

    اسی شہر میں راج نگر نامی ایک محلہ تھا۔ جس میں کئی سالوں سے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے مکانات تھے حالانکہ اس علاقہ میں اکثریتی طبقہ کے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی مگر سب آپس میں بھائی بھائی تھے۔ ایک دوسرے کے ہمدرد اور ہمنوا۔ اس علاقہ میں آنند راؤ کی حویلی کے قریب احمد مرزا کا گھر تھا۔ آنند راؤ ایک مشہور تاجر تھے جن کا مارکیٹ میں الیکٹرانکس کا بڑا شو روم تھا۔ وہیں پر احمد مرزا کی بھی ایک بنئے کی دکان تھی۔ دونوں میں گہرے تعلقات تھے دونوں ہم مشرب اور ہم خیال تھے۔ اسی طرح ان کے خاندانوں میں بھی گہرے روابط تھے۔ یہ مراسم پچھلے تیس سالوں سے تھے۔ آنند راؤ کے بچے احمد مرزا کے یہاں کھیلتے تھے اوراحمد مرزا کے لڑکے اور لڑکیاں آنند راؤ کے یہاں پلتے ہوئے جوان ہوئے تھے۔

    احمد مرزا اپنے دوست آنند راؤ کے بچوں کا خاص خیال رکھتے، شام گھر واپسی پر مٹھائی یا میوے لاتے تو آنند راؤ کے گھر ضرور بھیجتے تھے۔ آنند راؤ کی بیوی آرتی دیوی بھی ملنسار اور ہمدرد تھیں وہ بھی ان کا خیال رکھتی تھیں۔

    آنند راؤ کے دو لڑکے اور ایک لڑکی رادھیکا تھی۔ لڑکے کالج میں پڑھتے تھے ساتھ ہی اپنے پتا کے ساتھ تجارت میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ رادھیکا احمد مرزا کی بیٹی رضیہ کے ساتھ کالج میں زیر تعلیم تھی۔ احمد مرزا کے بھی دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ جن میں بڑی کی شادی ہو چکی تھی اور رضیہ ان کی چھوٹی بیٹی تھی۔ بڑا لڑکا اپنے باپ کے ساتھ دکان چلا جاتا تھا اور چھوٹا تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کی جستجو میں سرگرداں تھا۔

    احمد مرزا کی بڑی بیٹی کی شادی میں آنند راؤ نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا تھا اور مالی تعاون بھی کیا تھا۔ ا حمد مرزا نے اس وقت آنند راؤ سے کہا تھا۔ آنند بھائی میں آپ کا یہ احسان زندگی میں کیسے ادا کروں گا۔

    آنند راؤ نے انہیں چھیڑتے ہو ئے کہا۔ تم رادھیکا کی شادی کر دو، حساب برابر ہو جائےگا۔

    آپ ٹہرے بڑے لوگ مجھ میں اتنی سکت کہاں۔ احمد مرزا نے نرمی کے ساتھ کہا۔

    ارے بھائی ! میں نے تم سے مذاق میں یہ بات کہی ہے۔ دل چھوٹا مت کرو۔ اس میں احسان کی کیا بات ہے۔ میں نے اسے اپنا فرض سمجھ کر کیا ہے اور وہ تومیری بیٹی کی مانندہے۔

    آرتی دیوی نے بھی احمد مرزا کی بیوی کے ساتھ مل کر شادی کی ساری تیاریاں کی تھیں اور بڑے دھوم دھڑاکے سے شادی رچائی گئی تھی۔ دونوں گھروں میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔

    آنند راؤ کے لڑکے نہایت شریف الطبع واقع ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ احمد مرزا کے بچوں کو بھائی اور بہنیں سمجھتے تھے۔ ان سب میں خلوص اور وفا، اتحاد و اتفاق اور پیار و محبت تھی۔ عیدوں کے مواقع پر احمد مرزا کے یہاں آنند راؤ کے گھر والوں کو دعوتیں ہوتی تھیں اور یہ سب احمد مرزا کے یہاں شوق سے کھاتے پیتے اور کھیلتے تھے۔ انہیں ایسا لگتا گویا عید ان کے یہاں منائی جارہی ہو۔ ہولی، دسہرہ اور دیگر تہواروں میں احمد مرزا کے گھر والے آنند راؤ کے گھر پر دعوتیں کھاتے تھے۔ اس کے علاوہ کبھی کوئی اچھی چیز پکتی تو ضرور ایک دوسرے کے گھر میں بھیجی جاتی تھی۔ یہ دونوں خاندان ایک ہی دھارے میں بہہ رہے تھے۔ یہ سب انسان تھے اور انسانیت ہی ان کا مذہب تھا۔

    احمد مرزا کا ایک مرتبہ تجارت میں نقصان ہو گیا۔ اس وقت بھی آنند راؤ نے ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے مدد کی تھی۔ حالانکہ احمد مرزا نے ان کا ایک ایک روپیۂ حساب لگا کر ادا کر دیا تھا۔ جب آنند راؤ مرض قلب میں مبتلا ہو کر زیر علاج تھے تو احمد مرزا نے ان کی تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا تھا۔

    رادھیکا اور رضیہ دونوں ہم عمر اور ہم جماعت تھیں۔ دونوں میں گہری دوستی تھی ایک ساتھ جوان ہوئی تھیں اکثر ایک ہی قسم کے لباس خرید کر پہنا کرتی تھیں اس لئے کہ احمد مرزا اور آنند راؤ ان دونوں کو ہمیشہ ایک ہی قسم کے لباس کبھی وہ تو کبھی یہ باری باری لایا کرتے تھے کالج میں انہیں بہنیں کہا جاتا تھا اور یہ دونوں جماعت میں ہمیشہ سب پر سبقت لے جاتی تھیں۔

    آنند راؤ نے اپنی گود میں کھلاکر رضیہ کی پرورش کی تھی۔ حالانکہ اب وہ جوان ہو چکی تھی مگر اسے دیکھے بغیر آنند راؤ کو چین نہیں ملتا تھا۔ رضیہ بھی آنند راؤ پر ایک بیٹی کی طرح فریفتہ تھی۔ وہ بھی اسے باپ کی طرح لاڈ و پیار کرتے تھے۔

    رادھیکا اور رضیہ مل بیٹھ کر پڑھائی کرتی تھیں۔ رضیہ ہر دن رادھیکا کے یہاں پڑھائی کر کے اپنے گھر لوٹتی تھی۔ امتحانات کے دن قریب تھے وہ رات دن خوب محنت کرتی رہیں اور امتحان کی آمد کا انتظار کرنے لگیں۔

    شہر میں جب سے دنگا پھوٹ پڑا تو یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ لوگوں کا گھروں سے نکلنا ممنوع تھا۔ ہر ایک پر خوف و وحشت طاری تھی۔ سب اپنے اپنے گھروں میں بند تھے۔ تیسرے دن شام کے وقت ضروری اشیا کی خریدی کے لئے ایک گھنٹہ کی ڈھیل دی گئی۔ رضیہ کی نوٹس رادھیکا کے پاس تھی۔ اس نے اپنے بھائی سے گذارش کی کہ وہ آنند چاچا کے گھر جاکر نوٹس لائے مگر نوجوان لڑکوں کا گھروں سے نکلنا دشوار تھا اس لئے وہ خود اسے لینے کے لئے پڑوس میں آنند چاچا کے گھر گئی۔ اسے آتے ہوئے دیکھ کر آنند راؤ کے گھر کا دروازہ بند کر لیا گیا۔ رضیہ دنگ رہ گئی۔ اس نے اپنی آنکھوں سے دروازہ بند کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ گھر جس میں وہ کھیل کود کر جوان ہوئی تھی اور بلا اجازت بے دھڑک گھس جایا کرتی تھی۔ آج اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ رضیہ دروازہ پر پہنچ کر کال بیل بجائی۔ اندر سے آنند راؤ کے لڑکے راجو نے آواز دی۔ رضیہ تم یہاں سے چلی جاؤ اور دیکھو! چند دن کے لئے یہاں مت آنا۔

    رضیہ نے پوچھا۔ راجو بھیا! آج ایسا کیوں کہہ رہے ہو، آخر میرا قصور کیا ہے؟

    راجو نے دروازہ کھولے بغیر کہا۔ کیا تم نہیں جانتی کہ شہر میں فساد پھوٹ پڑا ہے۔ اگر کسی نے تمہیں یہاں دیکھ لیا تو آفت آجائےگی۔

    بھائی جان۔ دروازہ تو کھولو۔ میں ہرگز نہیں رکوں گی۔ اپنی نوٹ بک لے کر چلی جاؤں گی۔ رضیہ اصرار کرنے لگی۔

    آنند راؤ نے دروازہ کھول کر نوٹ بک دیتے ہوئے رضیہ کو سمجھایا۔ بیٹی ! شہر کے حالات بگڑ چکے ہیں تم چند دنوں تک گھر پر ہی پڑھائی کرو اور اپنے گھر سے باہر نکلا نہ کرو۔

    رضیہ اپنی نوٹس لے کر واپس ہوئی اور راستے میں سوچتی رہی۔ کیا رشتے اتنے کچے ہوتے ہیں جو ایک ہی ہو اکے جھونکے سے ٹوٹ جاتے ہیں اور تار تار ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ دنیا مکر و فریب کی بستی ہے۔ دو تین دن کے دنگوں نے پچیس تیس سالوں کی یاری اور دوستی کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کی شمعیں روشن ہونے لگیں۔ اسے راستے میں گھروں کی دیواریں ٹیڑھی اور چھتیں سرکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اسے اپنا جسم اپنے ہی پیروں پر بھاری لگنے لگا اس کے قدم بہ مشکل اٹھ رہے تھے۔ اچانک جئے بجرنگ بلی، جئے رام کے نعرے گونج اٹھے۔ رضیہ ڈر گئی اور سہمی ہوئی ایک گھر میں گھس گئی۔ وہ گھر اشوک بابو کا تھا۔ جئے رام، جئے بجرنگ بلی کی گونج سے تمام دروازے دھڑادھڑ بند ہونے لگے۔ پھر سے شہر میں فساد بھڑک اٹھا۔ سارے شہر کی فضا بوجھل ہو گئی۔ ہر طرف مار دھاڑ اور لوٹ مار شروع ہو گئی۔ سارا شہر قصائی کی دکان بن گیا۔ انسانی گوشت اور خون کا بیوپار ہونے لگا۔ مذہب کے نام پر انسانوں کی بلی چڑھائی جانے لگی۔ جگہ جگہ بسمل اور گھائل لاشیں دکھائی دینے لگیں جلتی لاشوں کی بو سے سارے شہر کی فضا بھر گئی۔ آدمی درندہ بن گیا تھا۔ اس کے کان بہرے اور دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ننگی ہوس رقصاں تھی۔

    ا حمد مرزا کی دکان کو فسادیوں نے آگ لگا دی۔ احمد مرزا کو اس کی اطلاع مل چکی تھی۔ لوگ ا یک طرف جئے بجرنگ بلی، جئے رام کے نعروں اور ہزاروں بلوائیوں کو دیکھ کر سہم گئے۔ دوسری طرف دورفضاؤں میں نعرۂ تکبیر کی صدائیں سن رہے تھے مگر وہ صدائیں۔۔۔ ان لوگوں نے کئی فسادات دیکھے تھے مگر اس طرح کا خونین منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ آج محسوس کیا کہ بھگوان کی مالا جپنے، ہم پیالہ اور ہم نوالہ لوگوں کے دل بدل گئے ہیں اور سب نے عمر بھر کی دوستی اور بھائی چارگی کو ایک ہی جھٹکے میں بھلا کر اپنی اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔

    سیکڑوں بلوائیوں کا گروہ یہاں آ پہنچا اور آن کی آن میں تیس چالیس گھروں کو لوٹ کر ان میں رہنے والوں کو بڑی بے رحمی سے موت کے گھات اتار دیا۔ جوان اور نوخیز لڑکیوں کی آبرو ریزی کی، کم سن کلیوں کو پاؤں تلے مسل دیا گیا۔ کئی گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ بچوں اورجوانوں کو بوڑھوں سے زیادہ مارا جانے لگا۔ ان بلوائیوں نے احمد مرزا کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور دروازہ توڑنے لگے۔ دروازہ جب نہیں ٹوٹا تو پٹرول ڈال کرگھر کو آگ لگا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی لپٹیں ہوا سے باتیں کرنے لگیں اور احمد مرزا کا خاندان بھی اس آگ کا شکار ہو گیا۔

    رضیہ اشوک بابو کے گھر سے یہ دلخراش منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے گھر جانے کے لئے اصرار کرتی رہی، تڑپتی اور بلکتی رہی مگر اشوک بابو کے گھر والوں نے اسے سنبھالے رکھا۔ وہ رو رو کر اس قدر نڈھال ہو چکی تھی کہ اب چیخنے اور پکارنے سے بھی قاصر تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ماں باپ اور دونوں بھائی زندہ جل کر خاک ہو گئے۔ اس کی آباد دنیا منٹوں میں مکمل طور پر اجڑ چکی تھی۔ رات بھر وہ اشوک بابو کے یہاں سسکتی، بلکتی اور تڑپتی رہ گئی۔ اب رضیہ مکمل طور پر بےیار و مدد گار ہو چکی تھی۔ آنند چاچا کا دروازہ بھی اس پر بند ہو چکا تھا۔ وہ صبح سویرے اشوک بابو کے گھر سے جانے کے لئے ضد کرنے لگی۔ اشوک بابو اور ان کے گھر والوں نے اسے بہت سمجھایا کہ ابھی حالات بےقابو ہیں اس لئے ماحول سازگار ہونے تک وہیں رک جائیں مگر وہ ان کے لاکھ سمجھانے کے باوجود ا پنے ماموں کے گھر جانے کے لئے نکل پڑی۔

    اشوک بابو کے گھر سے نکل کروہ ایک گلی سے ہوتے ہوئے اپنے ہی سائے سے ڈرتی ہوئی ایک چوراہے پر پہنچی۔ شومئی قسمت کہ اسے بلوائیوں کے گروہ نے گھیر لیا اور اس معصوم کے ساتھ کھلواڑ کرنا شروع کیا، منٹوں میں ا س کے بدن سے کپڑے پھاڑکر پھینک دیا۔ چیتھڑوں میں سے اس کا جوان بدن ایسے جھانک رہا تھا جیسے بدلیوں میں چاند۔ رضیہ بے آب و گیا مچھلی کی مانند تڑپنے لگی۔ بلوائیوں سے رحم کی بھیک مانگنے لگی مگر یہ شیطان صفت درندے گدھ اور چیلوں کی طرح اس پر منڈلانے لگے۔ اس چوراہے کی ایک جانب گاندھی جی اپنے ہاتھ میں لاٹھی پکڑے ہوئے کھڑے تھے۔ ایک شر پسند نے رضیہ کا دوپٹہ گاندھی جی کے سر پر ڈال دیاجس سے گاندھی جی کے مجسمہ کی آنکھیں ڈھک گئیں۔ وہاں سے وہ چیختی اور چلاتی ہوئی بھاگنے لگی اور اگلے چوراہے پر پہنچی وہاں پر ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب اور دوسرے ہاتھ کی انگلی اٹھائے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کھڑے تھے۔ اس کے علاوہ اسی چوراہے کی ایک جانب خاکی وردی میں ملبوس قانون کے رکھوالے بڑی بڑی بندوقیں اٹھائے گاندھی جی کے تین بندروں کی مانند کھڑے تھے۔

    آنند راؤاپنے گھر کی کھڑکی سے باہر جھانک رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر اس دل دہلانے والے اس منظر پر پڑی۔ ان سے رہا نہیں گیا وہ فوراً ان بلوائیوں کے درمیان چلے آئے۔ رضیہ زخمی ہرن کی طرح ان سے لپٹ گئی۔ آنند راؤ بلوائیوں سے کہنے لگے۔ بھگوان کے لئے اس پر رحم کرو اور اسے چھوڑ دو۔

    ایک بلوائی نے کہا۔ یہ کون ہے؟

    دوسرے نے کہا۔ ارے یہ تو ہمارے دھرم کا آدمی لگتا ہے۔

    تیسرے نے انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ تو آنند راؤ ہیں جن کا مارکیٹ میں شوروم ہے۔

    ایک اور بلوائی نے طنزیہ اور حقارت آمیز لہجہ میں قہقہے لگاتے ہوئے کہنے لگا۔ اس لونڈیا پہ کیوں مر رہا ہے۔ شاید جوانی امڈ آئی ہے۔ وہ بھی دوسرے دھرم والی سے۔

    ایک فسادی نے ان پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے تلخ لہجہ میں کہا۔ ابے او بڈھے ! اٹھتا ہے یا تجھے بھی ماردوں۔ بڑا سیانہ بنتا ہے اور ہمیں اپدیش دیتا ہے۔

    آنند راؤ رضیہ سے لپٹ کرہمدردانہ لہجہ میں گذارش کرنے لگے۔ اس بے چاری اور معصوم لڑکی نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ اسے جانے دو۔

    یہ تو ہمارے دھرم کا دشمن لگتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے ہمارا دھرم سنکٹ میں پڑ گیا ہے۔ کیا دیکھتے ہو مار دو سالے کو۔ ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں۔

    اسی کے ساتھ کئی لاٹھیاں آنند راؤ پر پڑ گئیں۔ وہ خون سے لت پت ہو کر زمین پر گر پڑے۔ اتنے میں دوسری طرف سے نعرۂ تکبیراللہ اکبر کی آوازیں سنائی دیں۔ ان تکبیروں کی آواز وں سے تمام بلوائی ایک ساتھ بھاگو، دوڑو، بھاگوکہتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئے آنند راؤ زمین پر پڑے تھے رضیہ ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر چاچا! چاچاجان۔۔۔ چیختی رہی مگر چاچاجان بےہوش تھے۔ وہ دیر تک چیختی اور چلاتی رہی اور انہیں ہسپتال لے جانے کے لئے مدد کی بھیک مانگتی رہی۔ اتنے میں نعرۂ تکبیر کی صدائیں بلند کرتا ہوا وہ گروہ وہاں آ پہنچا۔ رضیہ دوڑ کر ان کے پاس گئی اور آنند راؤ کواسپتال لے جانے کی گذارش کرتی رہی مگر اس کی فریاد ان نعروں کی گونج کے درمیان نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند دب کر رہ گئی۔ نعرے یوں ہی بلند ہو رہے تھے کہ اچانک پولس نے ان پر گولیاں برسانی شروع کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ شاید ان انسانی محافظین کو اپنی وردیوں پرمزید ستارے لگوانے تھے اور اپنے شیطانی کارناموں کی فہرست طویل کرکے حکومت کی خوشنودی حاصل کرنی تھی۔

    اتنے میں ایک ایمبولینس آئی۔ چند لوگ اتر کر زخمیوں کو اٹھانے لگے۔ آنند راؤ کو بھی ایمبولینس میں ہسپتال لے جاتے ہوئے رضیہ نے دیکھا۔ رضیہ ایک دکان کی آڑ میں چھپ کر یہ جنگل راج دیکھ کر کانپ رہی تھی۔ وہاں سے نکل کر وہ چوراہے کی ایک جانب آ گئی۔ اس کے لب خموش تھے اور اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ وہ اسی چوراہے پر امبیڈکر کے مجسمہ کی طرح ایک بت کی مانند بےسدھ کھڑی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے