صنوبر کے سائے
کہانی کی کہانی
یہ افسانہ ایک ایسے شخص کی روداد کو بیان کرتا ہے جو شک کی بنا پر اپنی بیوی کا قتل کر دیتا ہے۔ کافی عرصہ قبل وہ اس جگہ گھومنے کے لیے آیا تھا اور اس لڑکی سے عشق ہو گیا تھا۔ اس نے اس لڑکی سے شادی کی اور یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ایک روز اس کی بیوی نے ایک خواب دیکھا اور اس خواب کو حقیقت میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے ان کی زندگی میں کچھ ایسی تبدیلی آئی کہ اس شخص نے اپنی بیوی کا ہی قتل کر دیا۔
میں جب سے ان پہاڑی علاقوں میں آئی تھی ’’نہر روحناک‘‘ کی رعنائیوں کا ذکر ہر خاص و عام سے سنتی تھی، لوگ کہتے، اس کے صنوبر کے سایوں سے ڈھکے ہوئے کناروں پر سہا نے خوابوں کی رومان جھلملاتی ہے۔ پہاڑی خانہ بدوشوں کا بیان تھا کہ نا معلوم پہاڑوں کی بلندیوں نے ایک مقام پر آسمان کے نیل میں شگاف کر رکھا ہے اور روحناک کی نیلی دھار وہیں سے اترتی اور کوہساروں میں سے ہوتی پھرتی اس وادی میں ایک ندی بن کر آ نکلتی ہے۔
بھلا آپ غور کیجئے۔ ان رومانی فقروں کو سن کر مجھ جیسی سیر و سیاحت کی دلدادہ سے کب نچلا بیٹھا جا سکتا تھا؟
ایک دن میں اپنی محبوب سہیلی جسوتی سے مچل کر کہا، ’’جسوتی ہمیں یہاں آئے دو ہفتے گزر چکے۔ مگر ہم نے نہر روحناک کی سیراب تک نہیں کی۔ تم پسند کرو تو آج شام کشتی کی سیر کو چلیں۔‘‘
جسوتی کو آپ جانتے ہیں۔ سفید چہرے والی سلیم الطبع لڑکی ہے۔ اس سفر میں، میں اسے اپنے ساتھ تقریباً کھینچ کر لائی تھی۔
اس نے مسکراکر کہا، ’’جیسی تمہاری مرضی روحی، لیکن پانی سے مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘
اسی وقت جسوتی کے ایک محبوب حبشی نژاد خانہ زاد نے کہا، ’’خاتون میں نے سنا ہے ساحل روحناک پر ایک بہت مشتاق سو سال کا بوڑھا ملاح رہتا ہے۔ اس کی کشتی کبھی لہروں پر نہیں ڈگمگاتی۔ اگر آپ اجازت دیں تو اسی ملاح کی کشتی کرائے پر لے لی جائے۔‘‘
میں نے بے پروائی سے کہا، ’’کوئی ملاح اور کوئی کشتی ہو۔‘‘
جسوتی کہنے لگی، ’’سو سال کا ملاح، خاک کشتی چلاتا ہوگا۔‘‘
خانہ زاد نے کہا، ’’خاتون سنا ہے وہ ستر سال سے کشتی بانی کرتا ہے، اور آج تک اس کی کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔‘‘ غرض اسی وقت ہم نے اسے کشتی کرایہ پر لینے اور شام کی چائے کا انتظام کشتی ہی میں کرنے کے لیے روانہ کر دیا۔ جب ہم دونوں اس مقام پر پہنچے، جہاں سے سیاح، روحناک کی سیر کے لیے پانی کا سفر شروع کرتے ہیں تو ہم نے دیکھا، کہ ایک سرخ اور نیلے رنگ کا مرصع شکارا ہمارے انتظار میں ہے۔ اس کے موتیوں کے کانپتے ہوئے پردوں میں سے ایرانی قالین، پاروں پر رکھے ہوئے خوش وضع اور خوش قطع تکیئے دعوت استراحت دے رہے تھے۔
میں نے مسکرا کر جسوتی سے کہا، ’’یہ خلیفہ بغداد کا محراب تفریح معلوم ہوتا ہے۔‘‘
اندر آرام سے نیم دراز ہونے کے بعد ہم نے مڑ کر کشتی چلانے والے کو دیکھا۔ ایک پیر صد سالہ کشتی کے پرلے سرے پر چپو ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر سفید لمبی داڑھی کے بال ہلکی ہلکی ہوا سے کانپ رہے تھے۔ پرانی آنکھوں میں زندگی کی تابانی و درخشانی نہ تھی بلکہ۔۔۔ جیسے ایک دھند میں سے ماضی کی حسرت دیدار چمکتی نظر آ رہی تھی۔
حبشی خانہ زاد نے چائے تیار کر رکھی تھی۔ ہم گرم گرم چائے کے خوشگوار گھونٹ حلق سے اتارتے دھیرے دھیرے روحناک کی طرف جا رہے تھے، جس کے نیل پر غروب آفتاب مچل مچل کر شہاب پاشی کر رہا تھا۔
منظر بتدریج وارفتہ سا ہوا جا رہا تھا۔ ہواؤں میں نکہت بڑھ رہی تھی۔ پانی کی چھوٹی چھوٹی لہروں کی آواز پر شبہ ہوتا تھا، جیسے کہیں دور خواب کے جزیرے میں پانی برس رہا ہو، فطرت اپنی بےساختہ رعنائیوں کا دامن پھیلائے ہمارے سامنے تھی۔ ایک تصویر جس میں ڈھلتے ہوئے سورج کا ہر لمحہ نئے انداز سے رنگین مو قلم کی شعبدہ بازیاں دکھا رہا تھا۔ اے اللہ! سچ مچ وہ خواب کی سر زمین تھی، رومان کا جزیرہ تھا۔
سیدھے اور تناور صنوبر، جیسے دم بخود کھڑے تھے اور ان کے درمیان سے کہیں پھولوں سے ڈھپنی ہوئی ڈھلوانیں نظر آتیں۔ کہیں ایک اچھوتے نور نہائے ہوئے ہرے ٹیلے اور کہیں افق کے سحاب پاروں میں کھوئے ہوئے کہسار۔
ہم چپ تھے۔ مجھے معلوم نہ تھا، ہم کتنی دور نکل گئے، اور ہمارے شکارے کو چلتے کتنا وقت ہو گیا۔
یکایک حبشی خانہ زاد کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔
’’جناب واپس چلئے۔ آفتاب غروب ہو رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی کے راستوں پر ہم بھٹک جائیں۔‘‘
بوڑھے ملاح نے ایسے چہرے سے، جس پر مسکراہٹ کا شبہ ہو سکتا تھا کہا، ’’راہ سے بھٹکنا ناممکن ہے۔ میں ساٹھ ستر سال سے ان آبی راستوں کا عادی ہوں۔‘‘
میں ذرا دیر چپ چاپ ملاح کا چہر تکتی رہی، جس پر زندگی کے گرم و سرد نے طرح طرح کی جھریاں ڈال رکھی تھی۔ پھر پوچھا ’’گویا تم قریب قریب ایک صدی سے یہاں رہتے ہو؟‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’تمہارا مکان کہاں ہے؟‘‘
’’مکان کہیں نہیں خاتون۔۔۔ صنوبر کے ان سایوں تلے پڑ رہتا ہوں۔۔۔‘‘
مجھے محسوس ہوا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے ضعیف سینے نے اک آہ بھری ہے۔
’’صنوبر کے سایوں تلے‘‘، میں نے حیران ہو کر کہا، ’’بے پناہ گرمی اور لرزا دینے والی سردی، تمہیں زندگی سے بیزار نہیں کرتی۔ اس کا تمہارے پاس کیا علاج ہے؟‘‘
’’علاج؟‘‘ اس نے ایک پھیکی ہنسی کے ساتھ، ’’میرے پاس پرانی یادیں ہیں۔ جس کے پاس کوئی یاد ہو، اس پر کسی موسم کا اثر نہیں ہوتا۔‘‘ میری دلچسپی یکلخت بڑھ گئی، ’’تمہارا ماضی تو افسانوں لبریز معلوم ہوتا ہے۔‘‘
مگر بوڑھے نے میری بات کی طرف توجہ نہ دی۔ آپ ہی آپ بڑبڑا رہا تھا، ’’مجھے صنوبر کے سایوں تلے رہنا پسند ہے۔ مجھ پر ان سایوں سے چند گھنٹے کی مفارقت بھی شاق گزرتی ہے۔ جب ہی تو میں شہر میں مزدوری کرنے نہیں جاتا۔ میں ان سایوں تلے کشتی لیے ادھر ادھر پھرتا رہتا ہوں۔‘‘
’’کیا تم ہمیں اس راز سے آگاہ کر سکو گے کے صنوبر کے سایوں سے تمہیں کیوں عشق ہے؟‘‘ میں نے التجا کے لہجہ میں پوچھا۔
’’یہ کوئی راز نہیں۔‘‘ اس نے دم توڑتے ہوئے سورج کے مقابل ایک سیاہ تصویر بن کر کہا، ’’سبھی جانتے ہیں کہ مجھے صنوبر کے سایوں سے کیوں محبت ہے اور کیوں میں اپنی زندگی کے آخری سانس ان کے نیچے ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
جسوتی اور میں کہنیاں تکیوں پر رکھ کر متوجہ ہو گئیں۔ کشتی بہاؤ پر جا رہی تھیں۔ بڈھا چپو ہاتھ میں تھامے بے پروائی سے اپنی کہانی کہہ رہا تھا۔
2
آج سے ستر سال پہلے کا ذکر ہے کہ دنیا میری نظروں میں نوجوان تھی۔ زندگی کی ہر ہر کروٹ میں ہزاروں ہی دلفریبیاں محسوس ہوتی تھیں۔ میں غریب ملاح نہ تھا۔ ان پہاڑی علاقوں کا ایک خوشحال تاجر تھا۔
بہار کے موسم میں ایک دن شام کے آسمان پر سنہرا چاند ہنس رہا تھا، جب میں اسی روحناک کے ساحل پر انہیں صنوبر کے سایوں تلے چہل قدمی کے لیے نکل آیا۔
میری نظر پہاڑی حسن کے ایک نادر نمونہ پر پڑی۔۔۔ ایک کمسن لڑکی پر، جو صنوبر کے سائے تلے ایک سبز پتھر پر بیٹھی ایک ٹوکری بن رہی تھی۔ مجھ سے تفصیل کی رنگینی نہ مانگئے۔ رات کا اندھیرا اتر آئےگا۔ سمجھ لیجئے میں خود وہاں نہ آیا تھا۔ مجھے وہ قوت وہاں کھینچ لائی تھی۔ جو ہر نوجوان کے دل کو زندگی کے پھولوں کے درمیان کشاں کشاں لیے پھرتی ہے۔
ہم میں محبت شروع ہو گئی۔ ہم شباب کی ایک رنگین وارفتگی میں باہم محبت کرنے لگے۔ ہم ہر روز انہیں صنوبر کے کانپتے ہوئے سایوں تلے ملتے اور اپنی آرزوئیں ایک دوسرے کے دھڑکتے ہوئے دل سے کہتے۔ بہت جلد ہماری شادی ہو گئی۔‘‘
اسی وقت اچانک صنوبر کے درخت پر سے ایک ناشاد بلبل یکا یک چلائی۔ بوڑھے نے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر لرز کر کہا، ’’یہ دیوانہ پرند کیا کہہ رہا ہے؟ یہی نا کہ محبت بہت ظالم چیز ہے۔‘‘
جسوتی نے مجھے اور میں نے جسوتی کو چپ چاپ دیکھا۔ اس بوڑھے دل میں یقیناً کبھی شعر کے چشمے ابلتے رہے تھے۔ بوڑھے نے چند ہاتھ چپو کے چلائے اور ایک آہ بھر کر بولا،
’’شادی کے بعد مہینے نہایت سنہرے گزرے، پھر ایک نحس خواب نے ہماری زندگی کا رخ پلٹا دیا۔
ایک صبح جونہی میری بیوی نے تکئے پر نید سے آنکھیں کھولیں۔ اداس لہجے میں بولی، ’’میں نے ایک ہولناک خواب دیکھا ہے۔‘‘
میری محبت کی نظروں نے اس سے پوچھا، ’’کیا خواب؟‘‘
بیوی نے آہ کھینچ کر کہا، ’’میں نے رات تقدیر کے فرشتے کو دیکھا، جو پہاڑوں کی بلندیوں پر اپنے پر ہلا ہلا کر کہہ رہا تھا کہ اگر تم نے رات تک اپنے بالوں میں ایک کاسنی رنگ کا گلاب نہ سنوارا تو تمہارا گھر اجڑ جائےگا۔‘‘
آج سے ستر سال پہلے دنیا بہت اوہام پرست تھی۔ چنانچہ بیوی کا یہ ہولناک خواب سن کر میرا عشق سہم سا گیا۔ میری پریشانی دیکھ کر بیوی بولی، ’’پر اتنے فکر کی کیا بات؟‘‘
میں نے کہا، ’’فکر کیسے نہ ہو؟ شیریں ترین! کیا تجھے نہیں معلوم کہ کاسنی رنگ کا گلاب ان پہاڑی علاقوں میں نایاب ہے؟‘‘
میری بیوی کا چہرہ پیلا پڑ گیا، ’’نایاب؟ پھر کیا کروگے؟ کاسنی رنگ کا گلاب آج رات تک بالوں میں لگانا ضروری ہے۔ ورنہ ہمارا یہ مسکراتا ہوا گھر تباہ ہو جائےگا۔ فرشتے نے یہی کہا تھا۔‘‘
نامعلوم اندیشوں سے گھبرا کر وہ رونے لگی، ’’میں نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا اور وعدہ کیا کہ اطراف کے علاقوں کے تمام باغوں میں، شہر کے باغبانوں کو بھیجوں گا اور تاکید کروں گا کہ کسی نہ کسی طرح اسے دستیاب کر کے کاسنی رنگ کا ایک گلاب لے آئیں۔‘‘
میری بیوی اپنے لمبے لمبے بال کھول کر نہانے کے لیے چشمے پر چلی گئی تاکہ گلاب کے آنے سے پہلے بال سنوار لے۔
میں پریشانی کے عالم میں اسی وقت کاسنی گلاب کی تلاش میں نکل گیا۔ شہر کے ہر باغبان سے ملا۔ مگر ایک ایک نے کہا کہ اس علاقہ میں کاسنی رنگ کا گلاب کہیں نہیں مل سکتا۔ بیزار اور مایوس ہو کر میں حاکم شہر کے باغبان کے ہاں گیا۔ اپنی ضرورت اس کے آگے کہی۔ وہ بڑا ہی سفاک آدمی تھا۔ سوچ کر بولا، ’’کاسنی گلاب ہمارے باغ میں ہے تو۔ پر اس کی قیمت چھ اشرفی سے کم نہیں۔‘‘
میں نے چھ اشرفیاں اس کی ہتھیلی پر رکھ دیں اور کاسنی گلاب لے کر خوش خوش گھر پہنچا۔
میری بیوی کاسنی گلاب دیکھ کر باغ باغ ہو گئی اور مسکرا کر بولی، ’’اگر آج میں کاسنی گلاب بالوں میں نہ سنوار سکتی تو جانے ہم پر کیا مصیبت آتی۔‘‘
میں نے کہا، ’’اسے فوراً بالوں میں لگا لو۔‘‘
پر نہ جانے اس نے کس خیال سے کہا، ’’میرے بال گیلے ہیں ابھی میں نہ لگاؤں گی۔ جب رات شروع ہوگی تو لگا لوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک بلوری صراحی میں پانی بھرا، اور پھول کوہاتھ میں دیکھ کر تازہ ہوا کے خیال سے صراحی د ریچے میں رکھ دی۔ میں دن بھر گلاب کی سر گردانی میں اپنے کام پر نہ جا سکا تھا۔ دکان پر جا بیٹھا۔ رات کے وقت جب گھر واپس آ رہا تھا، تو میرا پرانا دوست حمری مجھے میرے گھر کے قریب ہی مل گیا۔ اسے میں نے ادھر کئی ہفتوں سے نہ دیکھا تھا خوش ہو کر گلے سے لگا لیا۔
’’میں تمہارے ہی ہاں گیا تھا، تم نہ ملے تو مایوس ہو کر واپس آ گیا۔‘‘
اس نے یہ جملہ ختم بھی نہ کیا تھا کہ میری نظر اس کی عبا کے کاج پر پڑ گئی۔ میرا خون میری رگوں میں جم گیا۔
میں نے یکلخت پوچھا، ’’حمری یہ کاسنی گلاب تمہیں کہاں سے ملا؟‘‘
حمری طبعاً شوخ تھا۔ ہنس کر بولا، ’’کیوں؟ تمہیں کیوں کر فکر پیدا ہوئی؟ میری محبوبہ نے مجھے تحفہ دیا۔ نایاب چیز ہے۔‘‘
میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور میں لڑ کھڑا سا گیا۔ وہ خواب تقدیر کا فرشتہ! اس کی پیشن گوئی! سب جھوٹ تھا! محض حمری کی عبا کا کاج سجانے کے لیے میری بیوی نے یہ رنگین جھوٹ تراشا تھا۔ ہائے ظالم زندگی! سنگدل زندگی!‘‘
3
میں غصہ میں کانپتا ہوا گھر پہنچا۔
مجھے دیکھتے ہی میری بیوی دوڑی دوڑی آئی، اور اشک آلود آنکھوں سے بولی، ’’افسوس، بدبختی دیکھو کہ وہ پھول غائب ہو گیا۔ اے خدا میں اب کیا کروں؟ ہم پر ضرور کوئی مصیبت نازل ہو گی۔ ضرور نازل ہو گی۔‘‘ میں نے گرج کر کہا، ’’موت سے زیادہ بڑی مصیبت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ سمجھ لو کہ تمہاری موت آ گئی۔‘‘
بیوی حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگی۔ مگر اس وقت مجھے اس کی ایک ایک حرکت سے عیاری ٹپکتی معلوم ہوتی تھی۔ میں نے پھر چیخ کر کہا، ’’تمہاری موت آ گئی۔ تقدیر کے فرشتے کی پیشین گوئی کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
وہ متعجب ہو کر بولی، ’’تم کیا کہتے ہو؟ ایسا نہ کہو۔ خدا کے لیے کاسنی گلاب کو ڈھونڈو۔ میں نے اسے باغ کے دریچے میں تازہ ہوا کے لیے رکھ دیا تھا۔ اندر بال سنوارنے گئی تھی۔ واپس آ کر دیکھتی ہوں تو پھول وہاں نہ تھا۔‘‘
اس کی ان مکار باتوں نے میرے تن بدن میں شعلے بھڑکا دئیے۔ میں نے اس کے نرم بازوؤں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اس زور سے دیوار پر دھکا دیا کہ ٹکر کھا کر اس کے سر سے خون کا ایک سرخ فوارہ پھوٹ نکلا۔
راتوں رات میں نے اسے اسی صنوبر کے سائے تلے دفنا دیا، جہاں اس سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
ایک جنون کی بےاختیاری میں میں گھر کی طرف لوٹ رہا تھا کہ اتفاق سے میرا دوست حمری پھر مجھے ایک گلی کے موڑ پر مل گیا۔ اسے دیکھتے ہی میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔
وہ ہنس کر بولا، ’’تمہاری آنکھیں ایسی سرخ ہو رہی ہیں جیسے تم خون کر کے آئے ہو۔‘‘
وہ اس طرح باتیں کر رہا تھا، گویا میں اس کے راز سے ناواقف ہوں۔
میں نے لپک کر اس کا گریبان پکڑ لیا اور بولا، ’’بدمعاش! تو سمجھتا ہے کہ میں نے خون نہیں کیا؟ میں اسے ٹھکانے لگا چکا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر کاسنی رنگ کا گلاب میں نے اس کی عبا کے کاج سے نوچ کر زمین پر دے مارا، اور اپنے جوتوں کی مجنونانہ حرکت سے مسل ڈالا۔ حمری آنکھوں میں دہشت لئے میرا چہرہ تک رہا تھا۔ جب میں نے اس سے کہا کہ میں نے اس کی محبوبہ کا خاتمہ کر دیا، اور اب اس کا کام تمام کر دینے پر آمادہ ہوں تو اس نے ایک دلدوز چیخ ماری اور کہنے لگا، ’’کوتاہ اندیش اور جلد باز! تو بدبخت ہے! وہ گلاب تو میں نے سڑک پر سے اٹھایا تھا۔ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ گلاب کا پھول دیکھ کر اٹھا لیا۔ شاید تمہارے ہی دریچے سے نیچے گر پڑا ہو۔‘‘ یہ سن کر میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ ایک ایسا اندھیرا۔۔۔ جس نے آج تک دنیا کی نیرنگیوں کو مجھ سے اوجھل کر رکھا ہے۔
’’تقدیر کے فرشتے کا کہنا درست نکلا۔ میری بیوی اس رات کاسنی گلاب اپنے بالوں میں نہ سنوار سکی۔ ہمارا گھر میری بےوقوفی اور جلدبازی کے ہاتھوں تباہ ہو گیا۔
آج اس قصے کو ستر سال گزر گئے۔ مگر میں اپنی غلطی پر نادم، اس مٹی کی پرستش کر رہا ہوں۔ جس میں ان صنوبر کے سایوں تلے میری محبت دفن ہے۔‘‘
کتیو ساحل سے آ لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.