سراب
کہانی کی کہانی
افسانہ سراب اپنے وطن کی محبت وہاں کی ہر شے سے لگاؤ اور انسیت کو پیش کرتا ہے اور اس ماحول میں پروان چڑھنے والی محبت کی یادوں کو کردار کی صورت حال کے تناظر میں خوبصورت انداز سے بیان کرتا ہے۔ افسانہ بدر الدین جیلانی کے بچپن، جوانی، آئی اے ایس بننے کے بعد ادھیڑ عمر کو پہنچنے تک کا سفر ہے۔ جیلانی کے والد ان کی پسند کی شادی نا کروا کے کسی اور لڑکی سے ان کی شادی کر دیتے ہیں۔ جو ان کے ماحول، رہن، سہن اور سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کہیں اور شفٹ ہو جاتے ہیں لیکن اکثر انھیں اپنے وطن کی یاد ستاتی رہتی ہے۔
میں اندر داخل ہوا تو وہاں گھپ اندھیرا تھا چاروں طرف سیاہی پھیلی ہوئی تھی لیکن پھر بھی روشنی کا احساس ہورہا تھا جیسے اس اندھیرے کو روشنی نے ہی ترتیب دیا ہو میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگامجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں آگے کیوں چلا جارہاہوں مجھے جانا کہاں ہے میری منزل کہاں ہے میرے پیر خود بہ خود چلے جارہے تھے میں نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی کہ شاید کوئی دکھائی پڑ جائے تو اس جگہ کے متعلق دریافت کروں مگر کوئی دکھائی نہیں دیا میں اپنی آنکھوں کے پٹ کھولے یوں ہی آگے بڑھتا رہا اچانک میرا پاؤں کسی لجلجی چیز پر جا پڑا مجھے کراہیت کا احساس ہوا اور حلق میں کڑواہٹ گھل گئی میں نے جھک کر دیکھنا چاہا تو صاف نظر نہیں آیا میرے پاس روشنی کرنے کے لیے کوئی چیز بھی نہیں تھی لیکن روشنی کیوں۔۔۔ یہاں روشنی کا احساس تھا تو۔۔۔ مگر پھر بھی۔۔۔ مجھے ضرورت تو تھی۔ میں نے اپنا اگلا قدم آگے بڑھایا تو پاؤں کسی سخت اور کھردری چیز سے ٹکراگیا۔ کیا مصیبت ہے یہ کیا بلا جگہ جگہ بکھری پڑی ہے ایک عجیب قسم کی بو نے اردگرد کی فضا کو حبس زدہ کررکھاتھا میں اندازاََ بچتا بچاتا چلنے لگا کچھ دوری پر مجھے چندلوگ کھڑے ہوئے محسوس ہوئے میں آگے بڑھنے لگا۔ ان کے قریب پہنچا تو وہ سب ساکت و جامد ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے ہر ایک کے اوپر ایک لمبی سفید چادر پڑی ہوئی تھی میں کشمکش اور پریشانی کے عالم میں یوں ہی کھڑا رہتا کہ میرے ہاتھ نے ایک شخص کے اوپر سے چادر کھینچ لی میں تیزی سے ایک قدم پیچھے ہٹا اس کے چہرے کے خدوخال مسخ ہوچکے تھے آنکھیں کھلی تھیں لیکن ان پر بار بار بند ہونے کا دھوکا ہوتا اس گمان کو دور کرنے کے لیے میں نے کئی مرتبہ آنکھوں کو رگڑا شاید میری ہی نظر کا فریب ہو مگر نہیں وہ ہر بار وہی تاثر پیش کررہی تھیں ایک ٹُک دیکھنے سے مجھے چکر سا آنے لگا خود کو سنبھالتا ہوا میں آگے بڑھ گیامیرے اندردوسرے شخص کو دیکھنے کا تجسس پیدا ہوا۔۔۔ کمال ہے ہر ایک کو دیکھنے کی خواہش مجھ میں کیوں بیدار ہورہی ہے یہ تو خوف کا لمحہ ہے۔۔۔ میں نے خوف طاری کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دور دور تک کہیں نہ تھا۔۔۔ میرے پیر خود بہ خود راستہ بنا رہا تھے۔۔۔ میں نے کچھ فاصلے پر کھڑے دوسرے شخص کے اوپر سے چادر کھینچی اورایک بار پھر میں پیچھے کی جانب لپکا۔۔۔ کیا واقعی ایسا ہوا تھا میں نے اپنے وجود پر نظر ڈالی جو عجیب انداز سے پیچھے کھسک آیا تھا لیکن پیر اسی جگہ ثبت ہوچکے تھے۔۔۔ آخر ماجرا کیا ہے۔۔۔ میں نے اپنے پیروں کی پیروی کی پھر میں نے دیکھا اس آدمی کی آنکھیں پہلے والے شخص سے زیادہ خوفناک تھیں۔۔۔ خوفناک۔۔۔؟ اس کی زبان بہت لمبی، زمین پر لٹک رہی تھی جس کو سنبھالنے کی کوشش میں اس کا جبڑہ باہر کی جانب کھسک آیا تھا۔ میں نے ایک جھرجھری لی اور دوسرے لوگوں کو دیکھنے کا ان چاہاارادہ ترک کرکے آگے بڑھنے لگا۔
آخر میں کون سی جگہ آگیا ہوں اجنبی لوگ نامانوس چہرے ابھی تک کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا۔ مجھے لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں میں نے آنکھیں بند کیں اور کچھ دیر بعد انہیں کھولا لیکن وہی اندھیرا میں نے پھر آنکھیں بند کیں اور اس دفعہ کافی دیر تک۔۔۔ کہ اب میں اپنی دنیا میں ہی اٹھوں گا آنکھ کھولی تو پھر وہی منظر بلکہ پہلے سے کچھ بدلا بدلامیں نے سب کچھ وقت پر چھوڑ دیا لیکن وقت۔۔۔ وقت تو یہاں موجود ہی نہیں تھا شاید یہاں زمان و مکاں خلط ملط ہوچکے تھے میں قدم بڑھانے لگا کچھ ہی دور چلا ہوں گا کہ دل متلادینے والی بدبو نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا میں نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا آخر یہ بھیانک بدبو کہاں سے آرہی ہے کیا کوئی مردہ جانور سڑ رہا ہے غور سے دیکھا تو کچھ فاصلے پر دو سائے نظر آئے میں جتنا ان کی جانب بڑھتا گیا بدبو بھبکے میں بدلتی گئی یہاں تک کہ میرا دم گھٹنے لگا قریب پہنچا تو میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپناپورامنھ بھینچ لیا ہمت کرکے ان پر نظر ڈالی وہ دو ننگ دھڑنگ آدمی ہنسی خوشی ایک دوسرے کا گوشت کھانے میں مصروف تھے ان کے جسموں پر سے جگہ جگہ گوشت کی پرتیں اچڑی ہوئی تھیں وہ بلا جھجک ایک دوسرے کی جسم میں ہاتھ ڈالتے اور اپنے پسندیدہ حصے کو نکال کر شوق سے کھانے لگتے وہ کبھی گوشت کا چھوٹا ٹکڑا منھ میں ڈالتے تو کبھی بڑے پارچے کتوں کی طرح بھنبھوڑنے لگتے میں نے دیکھا ان کی زبانیں سیاہ پڑ چکی ہیں مگر پیٹ تھا کہ کنواں بن چکا تھا بھرنے پر آمادہ ہی نہیں تھا وہ مسلسل کھائے چلے جارہے تھے مجھے ابکائی آنے لگی ان میں سے ایک نے میری طرف دیکھا اور ایک ٹکڑے کی پیش کش کی میں الٹے پاؤں گرتا پڑتا واپس بھاگا اور ایک جگہ رک کر ہانپنے لگا وہیں بیٹھ کر میں نے سوچا یہ کہاں آگیا ہوں دماغ کے خانوں کو کھنگالاتو میری یادداشت میں کچھ بھی محفوظ نہیں تھا میں نے دماغ پر بہت زور دیا لیکن یاد کی ابتدا اسی جگہ سے شروع ہوتی تھی اور اسی جگہ ختم ہوجاتی تھی مجھے کچھ تو یاد ہونا چاہیے میں نے ایک بار پھر کوشش کی مگر یادداشت کی دنیا میں صرف یہ مہیب جگہ موجود تھی۔
مجھے اپنے پاؤں زمین میں دھنستے محسوس ہوئے میں گھبراکراٹھا اور دوسری سمت میں رخ کرکے چلنے لگاکچھ دور ہی چلا ہوں گا کہ ایک شخص تیزی سے آتا ہوا نظر آیاوہ میرے پاس سے گزرا اور ٹکراتے ٹکراتے بچا نظریں نیچی کیے ہوئے بالکل خاموش اس کا چہرہ بہتا ہوا تھا جیسے ابھی ڈھلک کر زمین پر گر جائے گا میں نے اسے آواز دی وہ رکا نہیں دوبار پھر تین بار آوزا دینے پر بھی وہ نہیں رکا میں بھاگتا ہواا س کے نزدیک گیااور ٹھہرنے کو کہا وہ رکا تو نہیں مگر اپنی چال تھوڑی سست کردی اور خالی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا اس کی آنکھیں کھنڈر نما تھیں میں بھی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
مہربانی کرکے مجھے بتاؤ یہ کون سی جگہ ہے اور تم کہاں جا رہے ہو۔ وہ مجھے دیکھتا رہا پھر بولا،
چلتے رہو بس چلتے رہو۔
لیکن اس چلنے سے کیا حاصل کوئی سمت تو معلوم ہو جانا کہاں ہے۔
چلتے رہو بس چلتے رہو۔
تم کہاں جارہے ہو۔ اس کے صحیح سالم اعضا کو دیکھ کر میں نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔
میں؟میں تو بس چل رہا ہوں۔۔۔ کہیں جا نہیں رہا۔۔۔ تم بھی چلتے رہو بس چلتے رہو۔۔۔
وہ چلتے رہو کی رٹ لگا رہا تھا جیسے اس میں کسی نے چابی بھردی ہو۔۔۔
یہاں پر جو عجیب طرح کے لوگ ہیں تم انہیں جانتے ہو۔
میں نے تم سے کہا نا کہ بس چلتے رہو رکو گے تو مارے جاؤگے۔
مگر یہاں ابھی تک کوئی لاش نظر نہیں آئی۔ وہ میری اس بات پر زور سے ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ دہرا ہونے لگا یکا یک خاموش ہوگیا اور کہنے لگا زندگی بچانی ہے تو چلتے رہو بس چلتے رہو۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا پھر مجھے اس جیسا کوئی نظر نہیں آیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا یہاں پر مجھے کافی وقت گزر چکا تھا کچھ دوری پر میں نے عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہوئے آدمیوں کو دیکھا جو کئی طرح کے آسن کو ایک ساتھ کررہے تھے یہ آدمیوں کا ایک بڑا گروہ تھاجن میں ہر فرد دوسرے زیادہ بہتر کرنے کی کوشش میں ایک بد ہیئت جانور میں تبدیل ہوتا نظر آتا ایسا جانور جس کے اعضا کو توڑ کر غلط جگہ چسپاں کردیا ہو۔ کوئی اپنے سر کو دونوں ٹانگوں کے بیچ سے نکالتا اور ہاتھوں کو پیٹ کے گرد لپیٹ لیتا کوئی اپنے پیروں کو سر پررکھتا اور ہاتھوں سے جسم کو اوپر اٹھاتا کچھ لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی زبانوں کے بل زمین پر ٹکے ہوئے تھے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے بدن میں لہرسی دوڑ گئی میرے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ افراد حیوان نما انسان ہیں یا انسان نما حیوان۔ میں اس منظر کو کوئی نام دینے سے قاصر تھا۔ چند قدم ہی آگے چلاہوں گا کہ پھر سفید چادر میں لپٹے اشخاص جس پر خون کے دھبے نمایاں تھے ساکت کھڑے نظر آئے میں تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا آگے نکل گیا وہ شخص مجھے پھر نظر آیا جو اپنی گردن کو ٹانگوں میں ڈالے بیٹھا ہوا تھا۔
تم تو رک گئے۔۔۔ میں اس کے سر پر سوار ہوا تو وہ اچھل کر کھڑا ہوگیامجھے اس کا چہرہ کچھ بدلا بدلا محسوس ہوا۔
تم یہاں اکیلے ہو یا تم جیسے اور بھی ہیں؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا پھر بیٹھ گیا اس کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔
تمہاری غذا کیا ہے۔۔۔؟ اس مرتبہ کچھ بڑبڑایا میں سن نہیں سکاوہ مستقل سامنے کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔
اچھا یہ تو بتا سکتے ہو کہ یہاں دن کب ہوگا۔
دن؟ اس دفعہ وہ چونکااور نہ سمجھنے والے انداز میں میری طرف دیکھا۔
یہ دن ہی تو ہے۔۔۔ اس کی آواز کسی تہہ خانے سے آتی محسوس ہوئی۔
کیا بکواس کررہے ہو چاروں طرف اندھیرا ہے۔
اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے میں کوئی پاگل ہوں اور کہا تو تم کیسے سب دیکھ پارہے ہو؟
میرے جسم پر سے سانپ رینگ گیا اور بدن میں چیونٹیاں چلنے لگیں۔ یہ کیا بک رہے ہو۔ وہ میری حالت پر طنز سے مسکرایا اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ اور پوچھتا وہ دوڑتا ہوا سامنے کھڑے افراد میں جاملا اور سر پرسفید چادر کھینچ لی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.