بھائی صا حب! الہ آباد تک آیا ہوں تو سو چتا ہوں کہ سنگم بھی ہو آؤں۔
’’سنگم جاؤگے؟‘‘ رگھو رائے سنگھ اے۔جے۔آر کو گھور نے لگے۔
’’میں کسی آستھا یا پونیہ کی وجہ سے نہیں جانا چا ہتا ہوں۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
بھائی صاحب! سنگم ایک تیرتھ استھان ہی نہیں، وہ اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘
’’جیسے؟‘‘
’’جیسے وہ ایک متھ ہے۔ ایک مسٹری ہے۔ وہاں کے واتاورن میں رہسیہ ہے۔ سسپینس ہے۔ تھرل ہے۔‘‘
’’تو یہ بات ہے! میں بھی تو سوچوں کہ مسٹر اے۔ جے۔ آر۔ شری اجے جسونت رائے کب سے ہو گئے؟ کب جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’جب آپ انتظام کر دیں۔‘‘
ابھی چلے جاؤ! اس وقت گاڑی خالی ہے۔ میں ڈرائیور کو بول دیتا ہوں۔‘‘
’’شکریہ‘‘
’’اس میں شکریہ کی کون سی بات ہے بھائی؟ تم میرے بھائی ہو۔ اس وقت مہمان بھی ہو۔ تمھاری خاطر کرنا تو ہمارا فرض بنتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے تو میں اپنا شکریہ واپس لیتا ہوں۔‘‘
’’بالکل لو اور ہاں سنو! جاتے وقت ایک جوڑا نہانے کا کپڑا بھی رکھ لینا۔ وہاں جانے کے بعد اگر تمھاری انتر آتما نے جوش مارا تو دِقّت نہیں ہوگی۔‘‘
’’اس کی نوبت نہیں آئےگی۔ پھر بھی رکھ لوں گا۔ بڑے بھائی کا حکم جو ٹھہرا اور وہ بھی آپ جیسے بھائی کا۔۔۔‘‘ ٹھیک، ٹھیک ہے۔ بہت ہو گیا۔ کچھ اور چاہیے تو بول دینا۔ سنکو چ مت کرنا۔‘‘
’’جی، ضرور۔‘‘
راگھو رائے کی جیپ ان کے مہمان اے۔ جے۔ آر۔ کولے کر سنگم کی طرف روانہ ہو گئی۔ جیپ سے اتر کر سنگم کے کنارے پہنچتے ہی ملاحوں کی ایک ٹولی۔ اے۔ جے۔آر۔ کے پاس آ دھمکی ۔
’’ایک سواری کے پچاس، پوری ناؤ کے پانچ سو۔‘‘
’’پوری ناؤ کے ساڑھے چار سو۔‘‘
’’کیول چار سو۔‘‘
ملاح اپنی اپنی کشتی کے ریٹ بتانے لگے۔
’’تم نے نہیں بتایا؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے اس سنجیدہ اور قدر ے معمر شخص کو مخاطب کیا جو ابھی تک خاموش تھا۔
’’ایک ہزار۔‘‘ خاموشی ٹوٹی تو آواز اے۔ جے۔ آر۔ کے کانوں میں گونج پڑی۔
’’ایک ہزار! اتنا فرق! تمھاری ناؤ کیا سونے کی بنی ہوئی ہے؟‘‘ ریٹ کی گونج نے اے۔ جے۔ آر۔ کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان کی نگاہیں ملاح کی چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔
’’بنی تو ہے لکڑی کی ہی صاحب! اور دوسروں سے الگ بھی نہیں ہے پر میں الگ ہوں۔‘‘
’’مطلب؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’مطلب یہ کہ میں کیول ملاح نہیں ہوں۔‘‘ ملاح کا چہرہ اور سنجیدہ ہو گیا۔
’’ملاح نہیں ہو تو اور کیا ہو بھائی؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ کی دلچسپی اس ملاح میں بڑھنے لگی۔
’’میں کچھ اور بھی ہوں صاحب! آپ جب میری ناؤ میں بیٹھیں گے تو خود جان جائیں گے۔‘‘
ملاح کا یہ اعتماد اے۔ جے۔ آر۔ کو لہجے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کے ہا ؤ بھاؤ سے بھی محسوس ہوا۔
کم ریٹ والے ملّا ح پرامید تھے کہ یہ نیایہ تری ان میں سے ہی کسی کی ناؤ پر سوار ہوگا مگر اے۔ جے۔ آر۔ کی نگاہیں تو اس ملاح کی جانب مر کوز ہو چکی تھیں جس کا ریٹ سب سے زیادہ تھا۔ وہ مہنگا ملاح بی اے۔ جے۔ آر۔ کو حیرت سے تک رہا تھا۔
’’لگتا ہے مجھے تمھاری ہی ناؤ میں بیٹھنا پڑےگا؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے اس مہنگے ملاح کو مخا طب کیا۔
’’آپ کا انداز تو یہی بتا رہا ہے صاحب!‘‘ ملّا ح نے پراعتاد لہجے میں جواب دیا۔
’’تمھیں اپنے اوپر بڑا اعتماد ہے؟
’’سنگم کے اس گھاٹ پر ہونے والی پوجاپاٹ، یہاں آنے والے طر ح طرح کے یا تری، یاتریوں کے ہاؤ بھاؤ، اچار وچار، ان کے ویو ہار اور باپ دادا کی ٹریننگ نے اتنا کچھ سکھا دیا ہے صاحب کہ آدمی کو دیکھ کر ہی اس کے ارادے کا پتا چل جاتا ہے۔‘‘
’’تم واقعی الگ معلوم ہو رہے ہو، میرا ارادہ تمھاری ہی ناؤ پر بیٹھنے کا ہے مگر میں یہ ضرور جاننا چاہوں گا کہ تمھارا ریٹ اتنا ہائی کیوں ہے؟‘‘
’’میں نے بتا یا نا صاحب کہ جب آپ میری ناؤ میں بیٹھیں گے تو آپ کو خود بخود پتا چل جائےگا۔ پھر بھی آپ چاہتے ہیں کہ سوار ہونے سے پہلے ہی بتا دوں تو میں ضرور بتا ؤں گا پرنتو اس سے پہلے ایک سوال میں بھی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’پوچھو۔‘‘
’’کیا آپ کہیں باہر سے آئے ہیں؟ میرا مطلب ہے انڈیا کے باہر سے ؟‘‘
’’تم نے یہ سوال کیوں کیا ؟ کیا میں باہری لگتا ہوں؟ ‘‘
’’لگتے تو نہیں ہیں پرنتو آپ رہتے باہر ضرور ہونگے۔‘‘
’’تم نے کیسے جانا ؟‘‘
’’کوئی یہاں کا ہوتا، میرا مطلب ہے یہاں رہ رہا ہوتا تو میرا ریٹ سن کر میری اور دھیان نہیں دیتا بلکہ فوراً اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیتا اور اگر دھیان دیتا بھی تو حیلہ حجت اور بھاؤ تاؤ ضرور کرتا۔‘‘
’’تم سچ مچ دوسروں سے الگ ہو۔ چلو، کدھر ہے تمھاری ناؤ؟‘‘
’’صاحب! میرا ریٹ اتنا زیادہ کیوں ہے یہ نہیں جانیں گے؟‘‘
’’نہیں، اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کدھر چلنا ہے؟‘‘
’’پھر بھی میں ایک بات تو بتاہی دوں کہ میں کیول سنگم کا چھور چھوا کر ناؤ کو واپس گھاٹ پر نہیں لگا دیتا بلکہ میں اس وقت تک ناؤ کو پانی میں تیراتا رہتا ہوں جب تک یاتری تیرنا چاہتے ہیں چاہے شام ہی کیوں نہ ہو جائے۔ چلیے اس طرف ہے میری ناؤ‘‘۔ اس نے ناؤ کی طرف اشارہ کیا۔
اے۔ جے۔ آر۔ اس کے پیچھے پیچھے کشتی تک پہنچ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی کشتی کی رسی کھل گئی۔ ملاح نے اپنا پتوار سنبھار لیا۔
’’صاحب! اس سمے ہم جمنا میں ہیں۔ اس پانی کو دھیان سے دیکھیے۔ اس کا رنگ ہرا ہے۔ یہ رنگ پہلے اور بھی زیادہ ہر اتھا۔ اتنا ہرا کہ دور دور تک ہر یالی بچھا دیتا تھا۔ دھرتی تو دھرتی، آدمیوں کے تن من میں بھی سبزا اگا دیتا تھا۔ چہرے پر شادابی اور آنکھوں میں چمک بھر دیتا تھا۔ دھیرے دھیرے اس میں سیاہی گھلتی گئی اور اس کا ہرا پن ہلکا ہوتا گیا۔اس کے ہرے پن کے بارے میں بہت سی کہانیاں کہی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمنا جی کسی پہاڑ سے زمرد کا پتھر بہا کر لاتی تھیں اور وہ زمرد جمنا کے پانی کو ہرا بھرا رکھتا تھا۔ بعد میں زمرد کاوہ پہاڑ کہیں غائب ہو گیا اور اس کے جو ٹکڑے جمنا جی کے گربھ میں پڑے تھے ان پر بھی گرد بیٹھ گئی۔ تھوڑے بہت ذرے جو دھول اور گرد سے پچے رہ گئے ہیں، یہ ہرا پن انھیں کا اثر ہے۔ ہمارے تاؤ تو یہ کہتے ہیں کہ جس طرح یہ دھرتی گائے کے سینگ پر ٹکی ہے، اسی طرح جمنا جی بھی ایک بہت بڑے تو تے کے پروں پر کھڑی ہیں۔ یہ اسی توتے کے ہرے پروں کا کمال تھا کہ جمنا جی کا پانی پہلے کا فی ہرا دکھائی دیتا تھا اور اب جو ہراپن کم ہوا ہے اس کا کارن یہ ہے کہ پانی میں کچھ راکشش گھس آئے ہیں اور انھوں نے اس توتے کے پروں کو نو چنا شروع کر دیا ہے۔ پھر بھی جمنا جی کا پانی اتنا میلا نہیں ہوا ہے جتنا کہ آگے آنے والی ندی کا ہوا ہے۔‘‘
’’ایسا کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ جمنا میں آستھا کم ہے۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’لوگ اس میں اسنان کم کرتے ہیں۔‘‘
’’گنگا ترا پانی امرت، گنگا کی سو گندھ، گنگا میا تو ہےپیری چڑھیبو، رام تری گنگا میلی ہو گئی، چھورا گنگا کنارے والا۔۔۔۔
یکا یک ہندی سنیما جگت سے جڑے کچھ نام اور بول اے۔ جے۔ آر۔ کے کانوں میں گونج پڑے۔ ان کے ذہن میں ایک بھی ایسا نام نہیں ابھرا جس میں جمنا ہو۔ ملاح کے جملے کا مفہوم8 ان کے سامنے کھلنا شروع ہو گیا۔
اچانک ان کے سروں پر پرندوں کا ایک غول منڈرانے لگا۔
’’یہ اتنے سارے پرندے کہاں سے آ گئے؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے ان پرندوں پر اپنی نگاہیں جماتے ہوئے ملّا ح سے پوچھا،
’’صاحب! یہ باہر سے آئے ہیں۔ ایسے ان کے سیکڑوں جھنڈ ہیں جو رات دن ندی کے اوپر منڈراتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی انھیں کوئی نئی ناؤ پانی میں اترتی ہوئی دکھائی دیتی ہے یہ ادھر جھپٹ پڑتے ہیں‘‘۔
’’یہ کتنے خوبصورت ہیں۔ ان کے کالے اور سفید پر کتنے آکر شک لگ رہے ہیں اور انکی یہ لمبی چوڑی گلابی چونچ، اس کا تو جواب ہی نہیں! واقعی بہت خوبصورت چونچ ہے ان کی‘‘۔
’’صاحب! ہیں تو یہ سچ مچ بہت پیارے، پرنتو بےچارے بہت بھوکے ہیں۔ ذرا سا دانہ ان کی اور پھینکیے تو ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ لیجیے پیکٹ اور اس میں سے دانہ پھینک کر دیکھیے کہ کیسے جھپٹتے ہیں۔‘‘
اے۔ جے۔ آر۔ نے ملاح کے ہاتھ سے پیکٹ لیکر اس میں سے ایک مٹھی دانہ پانی میں دور تک بکھیر دیا۔
پرندوں کا غول بجلی کی سی سرعت کے سا تھ نیچے آکر ان دانوں پر ٹوٹ پڑا۔ کچھ پرندے تو پانی کے اندر سے بھی دانوں کو اپنی چونچ میں پکڑ لائے۔
’’صاحب! اس بار دانوں کو ہوامیں اوپر اچھالیے۔‘‘
’’ایسا کیوں؟‘‘
’’اچھا لیے تو سہی۔‘‘
’’اچھا!‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے اس بار دانے ہوا میں اچھا ل دیے۔
پرندوں نے ان دانوں کو ہوا میں ہی روک لیا۔ ایک دانے کو بھی نیچے نہیں گرنے دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ پرندے کسی ذویا سرکس سے آئے ہوں جہاں اس فن میں انھیں برسوں تربیت دی گئی ہوا اور انھوں نے خوب ریاضت بھی کی ہو۔
’’کیسا لگا صاحب؟‘‘
’’بہت اچھا!‘‘ اے۔ جے۔آر۔ نے بڑ ے اسٹائل سے ایک مٹھی دانہ خلا میں پھر اچھال دیا۔
پرندوں کی قلا بازیا ں پھر شروع ہو گئیں۔ دانوں کو پکڑنے کی کوشش میں پرندوں کے جسم اوپر نیچے ہونے لگے۔ ان کے پھڑپھڑاتے ہوئے پر ایک دوسرے کے پروں سے ٹکرانے لگے۔ کچھ ایک پر ٹوٹ کر پانی پر آ گرے۔ بعض پرندے پانی کے اندر پہنچے دانوں کو پکڑ نے کے لیے پانی میں ڈبکیاں لگانے لگے۔ اس عمل میں ان کے پر بھیگ کر ان کی پرواز میں رکاوٹ ڈالنے لگے۔
خلا میں اچھلے اور پانی میں گرے دانوں کے ختم ہوتے ہی اے۔ جے۔ آر۔ نے کچھ اور دانے اچھال دیے۔ قلابازیوں کا رکا ہوا سلسلہ پھر سے جاری ہو گیا۔
’’دانوں پر جھپٹتے ہوئے انھیں دیکھ کر بڑا اطمینان ملتا ہے صاحب!‘‘
’’اطمینان کیوں؟‘‘ اے۔جے ۔آرنے ملّا ح کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’اس لیے کہ اس دھرتی پر کچھ ایسے بھی دیس ہیں جن کے بھوکے پرندے اپنا پیٹ بھرنے ہمارے یہاں آتے ہیں!‘‘ لفظ ہمار ے یہاں، کو ملّ ح نے قدرے زور دے کر ادا کیا۔
اے۔ جے۔ آر۔ کا چہکتا ہوا چہرہ اچانک مرجھا گیا۔ پیکٹ میں دانوں کی طرف بڑھا ہوا ہاتھ ٹھٹھک کر باہر آ گیا۔
سامنے سے دریا غائب ہو گیا۔ آنکھوں میں صحرا آ بسا۔ دور دور تک ریت بچھ گئی۔ ریت پر جگہ جگہ دانے بکھرنے لگے۔ دانوں کی طرف سانولی صورت اور سفید لباس والے کچھ لوگ دوڑنے لگے۔ گرم ریت انہیں جھلسا نے لگی۔ لو کی لپٹیں انہیں اپنی لپیٹ میں لینے لگی۔ دانوں کو پانے کے لیے وہ ریگستانی ریت کی اذیت برداشت کرنے لگے۔ گردبادی جھکڑ کھانے لگے۔ صحرائی تھپیڑوں کی مار جھیلنے لگے۔ ’الہندی‘ یکا یک یہ لفظ اے۔ جے۔ آر۔ کے کانوں میں گونج پڑا۔ صحرائی زمین کے دہانے سے تحقیری لب و لہجہ میں نکلے ہوئے اس لفظ کا جو معنی اے۔ جے۔ آر کے ذہن میں ابھرا، اس نے ان کی آنکھوں میں ایک چوپایا ابھار دیا۔ ان کا چہرہ نفرت، غصّہ اور بیچارگی کی ملی جلی کیفیت سے بھر گیا۔
آہستہ آہستہ صحرا کھسک گیا۔ اس کی جگہ بر فیلی وادیاں آ گئیں۔ ان وادیوں میں بھی جگہ جگہ دانے بکھیر دیے گئے۔
یہاں بھی سانولی صورت اور سفید لباس والے کچھ لوگ دانوں پر جھپٹتے ہوئے نظر آنے لگے۔ بھوک مٹانے کے لیے یخ بستہ زمین پر دوڑ نے اور پھسل پھسل کر گرنے لگے۔ جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپی بندوقوں کی کچھ نالیں بھی دکھائی دینے لگیں جیسے دانوں پر جھپٹنے والے بھوکے پیاسے انسان نہیں بلکہ کوئی ضرر رساں اور خوفناک جانور ہوں۔ اے۔ جے۔ آر۔ کو ایک واقعہ یاد آنے لگا:
ایک دن انھوں نے اپنے پڑوسی تو قیر علی کو راستے میں روک کر پوچھا تھا،
توقیر علی! تم واپس کیوں آگے، تمھارے ابا بہت پریشان ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ اتنا سارا خرچ کرکے توقیر کو بھیجا تھا اور وہ کچھ مہینوں میں ہی واپس آ گیا۔ پوچھنے پر بتا تا ہے کہ اس کا جی نہیں لگا۔ بھلا اس لیے بھی کوئی نوکری چھوڑ کر واپس آتا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں جب اپنی زمین تنگ ہو چکی ہو۔‘‘
’’بھائی صاحب! ابا کو یہ بات کس طرح سمجھاؤں کہ اپنی زمین تو بعض و جو ہات کی بنا پر صرف تنگ ہوئی ہے، ہمیں اپنا دشمن تو نہیں سمجھتی اور ہر وقت بندوق لے کر ہمارے پیچھے تو نہیں پڑی رہتی، وہاں تو ہمیں دشمن سمجھا جاتا تھا اور سوتے، جاگتے، کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت ہم پر نظر رکھی جاتی تھی۔ جیسے ہم قیدی ہوں۔ ابا کو اس بات کا یقین نہیں آتا۔ وہ تو سمجھتے ہیں کہ وہاں کام کرنے والے عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ مجھے وہاں بھیجنے اور وہاں سے چلے آنے میں ابا کا بہت برا نقصان ہوا ہے اور یہ نقصان صرف پیسوں کا نہیں بلکہ ان کے خوابوں اور خیالوں کا بھی ہوا ہے مگر میں وہاں رکتا تو شاید ابا کا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہو جاتا اور وہ نقصان ایسا ہوتا جس کی تلافی کبھی نہیں ہو سکتی تھی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں بھائی صاحب!
توقیر علی کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔
’’کہاں کھوگئے صاحب؟‘‘ ملاح نے اے۔ جے۔ آر۔ کو مخاطب کیا۔
’’اے۔ جے۔ آر۔ خاموش رہے۔
’’ صاحب! کیا بات ہے؟ آپ ایک دم سے خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘
’’نہیں تو، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے خود کو چھپانے کی کوشش کی۔
’’دانہ ختم ہو گیا ہو تو ایک پیکٹ اور دے دوں صاحب؟‘‘
’’نہیں، ابھی ہے۔‘‘
’’تو ہاتھ کیوں روک دیا۔ ڈالیے نا۔‘‘
’’من نہیں کر رہا ہے۔‘‘
’’صاحب! ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’پوچھو۔‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ کی آواز دھیمی ہو گئی۔‘‘
’’پرندوں کو دانہ ڈالتے سمے ان کا ہماری طرف آنا اور ان کا دانوں کی اور جھپٹنا آپ کو کیا اچھا نہیں لگا تھا؟ سچ بتائیےگا۔‘‘
’’اچھا لگا تھا۔‘‘
’’کیا آپ کے اندر یہ خواہش نہیں جاگی تھی کہ کچھ دیر تک اور دانہ ڈالا جائے اور ا س منظر کا مزہ لیا جائے؟‘‘
’’ہاں، یہ خواہش بھی جاگی تھی اور اگر میرے سامنے کچھ اور منظر نہیں آ گئے ہوتے تو تم سے دوسر ا پیکٹ بھی مانگتا اور شاید اسکے بعد تیسرا بھی۔‘‘
’’صاحب! دو تین نہیں، لوگ درجنوں پیکٹ ڈالتے ہیں اور جب تک ناؤ پر سوار رہتے ہیں، ان کے ہاتھ نہیں رکتے ۔ چلتے وقت لوگ تھیلا بھر بھر کر دانوں کا پیکٹ لاتے ہیں۔ ختم ہو جاتا ہے تو ملاحوں سے خرید تے ہیں۔ ملاح اس وقت ان سے دگنا تگنا پیسہ وصول کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے بھی لالچ آتا ہے کہ میں بھی یا تریوں کے جو ش کا فائدہ اٹھاؤں اور دانوں کے پیکٹ کا منہہ مانگے دام وصول کروں پرنتو میری آتما گوارا نہیں کرتی۔ اس لیے واجبی منافع لیتا ہوں اور آپ سے تو پیسہ بھی نہیں مانگا اور آپ نہیں دیں گے تو مجھے پچھتاوا بھی نہیں ہوگا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ کسی کسی سے پیسہ لینے کو جی نہیں کرتا اور آپ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے مجھے ایک لگے۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ کی نظریں ملّا ح کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ ملاح کے پسندیدہ لوگوں میں شامل تھے بلکہ اس لیے کہ ملّا ح کے مٹ میلے اور وقت گزیدہ چہرے میں بھی انھیں ایسی چمک محسوس ہوئی جو رشیوں منیوں کے چہرے پر محسوس ہوتی ہے۔
’’بہتے دریا میں تو سبھی ہاتھ دھوتے ہیں، پھر تم کیوں نہیں؟ اور یاتری دانوں کے زیادہ دام تو اپنی مرضی سے دیتے ہوں گے، ان کے ساتھ کوئی زور زبردستی تھوڑے کی جاتی ہوگی۔‘‘
’’زور زبردستی صرف وہی نہیں ہوتی جو اوپر دکھائی دیتی ہے، کچھ زور بھیتر بھیتر بھی چلتا ہے صاحب! اور مرضی سے کوئی کچھ بھی نہیں دینا چاہتا! اگر ہم اپنی ناؤ کا ریٹ نہ بتائیں اور یا تریوں سے کرایہ نہ مانگیں تو دھنّا سے دھنّا سیٹھ بھی چپ چاپ ناؤ سے اتر کر چل دے اور رہی بہتے دریا میں ہاتھ دھونے کی بات تو من نہیں کرتا صاحب!‘‘
اے۔ جے۔ آر۔ کی آنکھوں میں ملاح کے چہرے کی چمک اور تابدار ہوگئی۔ اے۔ جے۔ آر۔ کو اس کی پیشانی پر چنتنی چمک بھی، محسوس ہونے لگی۔
اچا نک اے۔ جے۔ آر۔ کے کانون میں کچھ ٹکرانے کی آواز سنائی پڑی اور ان کی گردن پیچھے کی طرف مڑ گئی۔
ایک اور کشتی تیرتی ہوئی ان کے پاس آ پہنچی تھی۔ اس کشتی سے چاروں طرف دانے پھینکے جا رہے تھے اور پرندون کا ایک بڑا غول تیزی سے دانوں پر جھپٹ رہا تھا۔ یہ آواز انھیں میں سے کچھ پرندوں کے آپس میں ٹکرا جانے کی آواز تھی۔
’’اس چھینا جھپٹی میں تو کچھ پرندے گھائل بھی ہو جاتے ہوں گے؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے ملاح کو مخاطب کیا جس کی توجہ اسی کی طرح پرندوں کے ٹکرانے کی آواز کی طرف مبذول ہو گئی تھی۔
’’کیول گھائل ہی نہیں ہوتے صاحب! کچھ تو مر بھی جاتے ہیں۔ آئے دن ان کی لاشیں پانی پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ملاح کی نظریں اے۔ جے۔ آر۔ کی جانب مرکوز ہو گئیں۔
اے۔ جے۔ آر۔ کے چہرے پر اداسی کی ایک اور پرت چڑھ گئی۔
’’صاحب! آپ اوروں کی طرح نہیں ہیں۔‘‘
کیا مطلب؟‘‘
’’آپ شاید میری طرح ہیں۔ دوسروں سے بالکل الگ۔ ایک اور بات بولوں صاحب؟‘‘
’’بولو۔‘‘
’’یہ جو اتنے دانے لٹا ئے جاتے ہیں۔ یہ ان بھوکے پرندوں کی بھوک مٹا نے یا دان پونیہ کی غرض سے نہیں لٹائے جاتے۔‘‘
’’تو پھر کس لیے لٹا ئے جاتے ہیں؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ کا تجسس بڑھ گیا۔
’’جو لوگ پرندوں کی اور دانہ اچھالتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو تو یہ پتا بھی نہیں ہوتا کہ یہ پرندے بھوکے ہیں اور دور دراز کے دیسوں اور اپنے اپنے گھونسلوں جن کو یہ تنکا تنکا جوڑ کر بناتے ہیں، سے نکل کر صرف یہاں بھو ک مٹا نے اور اپنی جان بچانے آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کی نیت دان پونیہ کی بھی ہوتی ہو پر نتو زیادہ تر لوگ ان کی طرف دانہ اس لیے پھینکتے ہیں کہ انھیں ایسا کرنے میں مزا ملتا ہے۔ دراصل وہ اسے ایک کھیل سمجھتے ہیں اور اس کھیل میں انھیں خوب آنند آتا ہے۔ یہ دانہ پھینکنا ویسا ہی ہے جیسا کہ دریا میں شکاری کا جال پھینکنا۔ فرق اتنا ہے کہ شکاری مچھلیوں کو جال میں پھنسا کر ان سے پیسہ بناتے ہیں اور یہاں پیسہ نہیں بنایا جاتا۔ صاحب! پیسہ تو نہیں بنا یا جاتا پرنتو پیسے سے زیادہ قیمتی تفریح کا سامان حاصل کیا جا تا ہے۔ اسی بہانے کچھ لوگوں کا کارو بار بھی چل رہا ہے۔‘‘
’’کاروبار ! کیسا کاروبار؟‘‘
’’ان دانوں کی یہاں آس پاس میں کئی کئی فیکٹریاں لگ گئی ہیں صاحب!
’’کیا؟‘‘
’’ہاں صاحب! اور اس کاروبار سے صرف کاروباریوں کو ہی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے بچولیے اور پرشاسن کے لوگ بھی خوب خوب لابھ اٹھا رہے ہیں۔‘‘
اے۔ جے۔ آر۔ کی نگاہیں اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں دبے دانوں کے پیکٹ پر مرکوز ہو گئیں جس میں اب بھی کچھ دانے بچے ہوئے تھے۔
یہ وہ دانے تھے جو سنگم پر آنے والے یا تریوں کی تفریح کے سامان فراہم کرنے کے لیے تیار کیے گئے تھے اور جنھیں بھوکے پرندوں کے آگے پھینک کر دریا ؤں کے دامن میں ایسے منظر بنائے جاتے تھے جو اپنے اندر گنگا اسنان سے بھی زیادہ کشش رکھتے تھے اور بقول ملّا ح جن کی سنگم کے کنارے فیکٹریاں کھل گئی تھیں۔
دتعتاً شفّاف پلاسٹک کا پیکٹ غبّارے کی طرح پھول کر کافی بڑا ہو گیا اور اس میں ادھر ادھر سے کچھ فیکٹریاں آکر کھڑی ہو گئیں مگر یہ فیکٹریاں وہ نہیں تھیں جن کے مالک منافع خور تھے اور جن میں دور دیسوں سے آکر سنگم کے دریاؤں پر منڈرانے والے پرندوں کے آگے پھینکے جانے والے دانے تیار کیے جا رہے تھے بلکہ یہ وہ فیکٹریاں تھیں جو مختلف اوقات اور مختلف صورت حال میں دیس کے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اشیا ئے خوردنی تیار کرنے کے لیے کھولی گئی تھیں اور جن کی دیکھ بھال منافع خور تاجر نہیں بلکہ ملک کی انتظامیہ کرتی تھی اور انتظامیہ اپنی اس کار گردگی کی خبر عوام تک پہنچانے اور اپنے کارنامے کو مشتہر کرنے کے لیے وقت وقت پر اخباروں کے پورے پورے صفحے پر اشتہار بھی چھپواتی تھی۔
’’صاحب! اس کاروبار کے لیے پنچھی دان کے نام پرلوگوں کو سرکار کی اور سے سستے داموں زمینیں بھی الاٹ کی گئی ہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘
آنکھوں کے سامنے پھیلے ہوئے اس پیکٹ میں کچھ اور فیکٹریاں بھی آکر کھڑی ہوگئیں۔ یہ پہلے سے موجود فیکٹریوں کے مقابلے میں بڑی اور اونچی تھیں۔ ان کی دیواروں کے رنگ و روغن کافی روشن تھے اور ان کی بناوٹ بھی مختلف تھی۔ البتہ دونوں کی زمین ایک تھی، لگتا تھا یہ عالیشان فیکٹریاں بھی انھیں فیکٹریوں کی زمین کے کچھ حصّوں پر کھڑی کی گئی تھیں جو پہلے سے موجود تھیں۔
صاحب! ایک طرف ان پر ندوں کو یہاں دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ دنیا میں ہم سے بھی گئے گزرے دیس موجود ہیں اور دوسری اور ان کی حالت پر دکھ ہوتا ہے کہ یہ بےچارے تو مصیبت کے مارے یہاں آئے ہیں اور ہم ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انھیں اپنی تفریح کا ذریعہ بنارہے ہیں ۔ ان سے ہوا میں قلابازیاں کھلوارہے ہیں۔ پانی میں ڈبکیاں لگوا رہے ہیں۔
پیکٹ کے منظروں سے ہٹ کر اے۔ جے۔ آر۔ کی توجہ ملاّ ح کے بیان کی جانب مرکوز ہو گئی تھی۔ ملاح کا بیان اے۔ جے۔ آر۔ کے کانوں میں داخل ہوکر ان کی آنکھوں میں ایک منظر ابھارہا تھا۔ ایسا منظر جس میں پانی اپنی بھیانک صورت دکھا رہا تھا۔ سیلاب کا دیوہئیکل دھرتی پر ٹانڈو کر رہا تھا۔ بستیاں زیروزبر ہورہی تھیں۔ چاروں طرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ اس د ل سوز صورت حال میں بھی تجارت کا بازار گرم تھا۔ روٹی کے بدلے ماؤں کی آنکھوں کے تارے اور باپوں کے جگر کے ٹکڑے بیچے اور خریدے جارہے تھے۔ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے بہوبیٹیوں کے تن کا سودا کیا جا رہا تھا۔
ایک گھر میں ایک ماں اپنے لاڈلے کو بھوک کی شدت کے باوجود خود سے الگ نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ کسی طرح بھی بچّے کو بیچنے کے لیے راضی نہیں ہورہی تھی۔ میاں بیوی کے درمیان کشمکش جاری تھی کہ مرد کو ایک قصّہ یاد آگیا ۔ اس نے بیوی کو سنانا شروع کیا:
ایک دن ایک درویش سے کسی مرید نے پوچھا،
’’حضرت! دین کے کتنے فرائض ہیں؟‘‘
’’درویش نے جواب دیا، چھ‘‘
’’چھٹا کون؟‘‘ مرید نے دوبارہ سوال کیا۔
’’کھانا‘‘درویش نے جواب دیا۔
اس محفل میں ایک عالم دین بھی موجود تھے۔ انھوں نے چھٹے فرض کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ شر یعت کی رو سے کل پانچ فرائض ہیں اور ان میں کھانا نہیں ہے۔ درویش نے بحث نہیں کی صرف اتنا کہا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ مگر ایک فرض کھانا بھی ہے۔ عالمِ دین اس محفل سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایک دن اس عالمِ دین کا ایک سمندر ی سفر ہوا۔ اس سفر میں ان کی کشتی طوفان میں پھنس گئی۔ کسی طرح ان کی جان بچ گئی ۔گرتے پڑتے وہ سمندر کے کنارے پہنچے۔ انھیں بھوک محسوس ہوئی مگر دور دور تک کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیں تھا۔ بھوک بڑھتی جارہی تھی اور بھوک کی وجہ سے ان کی حا لت بھی
خراب ہوتی جا رہی تھی۔ اتنے میں ایک آواز سنائی پڑی۔
’’روٹی لے لو روٹی!‘‘
عالم دین اس آدمی کی طرف لپکے جو آواز یں لگا رہا تھا۔ پاس پہنچ کر وہ بولے،
’’مجھے دو۔ میں بہت بھوکا ہوں۔‘‘
’’ایک روٹی کی قیمت ایک نیکی ہے۔‘‘
یہ سن کر عالم دین بولے،
’’نہیں، نہیں، میں نیکی سے روٹی نہیں خریدوں گا۔ بڑی محنت اور ریاضت سے میں نے یہ نیکیاں کمائی ہیں‘‘
ان کا جواب سن کر روٹی والا چلا گیا۔ عالم دین کی بھوک بڑھتی گئی۔ شام کو پھر وہ آواز سنائی پڑی۔
’’روٹی لے لو، روٹی!‘‘
عالم دین نے آواز لگانے والے کو بلایا اور کہا ’’ٹھیک ہے نیکی کے بدلے ہی سہی روٹی دے دو‘‘۔
بیچنے والا بولا، ’’اب روٹی کی قیمت وہ نہیں، جو پہلے تھی۔ اب ایک روٹی تمام نیکیوں کے بدلے میں ملےگی۔‘‘
’’نہیں، نہیں، اپنی تمام نیکیوں سے میں روٹی نہیں خرید سکتا، تم جاؤ‘‘
انھوں نے روٹی خرید نے سے منع کر دیا، روٹی بیچنے والا چلا گیا۔
کسی طرح رات گزری۔ صبح آتے آتے بھوک نا قابل برداشت ہو گئی۔ وہی آواز پھر سنائی پڑی، ‘‘روٹی لے لو روٹی!‘‘
عالمِ دین نے روٹی بیچنے والے کو پکارا۔ روٹی بیچنے والے نے عالم دین کی بے تابی دیکھ کر لاپرواہی سے بولا،
’’آج قیمت اور بڑھ گئی ہے۔ اب ایک روٹی کے بدلے موجودہ نیکیوں کے علاوہ آئندہ کمانے والی نیکیاں بھی دینی پڑیں گی‘‘۔
عالم دین بھوک کی شدت سے اس حد تک مجبور ہوگئے تھے کہ وہ بغیر کچھ سوچے اور بنا دیر کیے بول پڑے!
’’ٹھیک ہے آنے والی نیکیاں بھی لے لو مگر روٹی فوراً دے دو۔‘‘
کہانی کی منطق اور بھوک کی شدت نے ماں کی باہوں کی گرفت ڈھیلی کر دی۔ بچہّ ماں کی آغوش سے نکل کرتا جر کی مال گاڑی میں پہنچ گیا۔
’’صاحب! اب ہم گنگا میں آگئے ہیں۔‘‘
’’کیا ؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ کی آنکھیں سیلاب کے منظر سے نکل کر گنگا کے پانی کی طرف مبذول ہو گئیں۔
’’ہاں صاحب! ہماری ناؤ اس وقت گنگا میں تیر رہی ہے۔‘‘
’’یہ گنگا ہے!‘‘ پانی کو دیکھتے ہی اے۔جے۔آر چونک پڑے۔۔۔
’’جی ہاں، یہی گنگا ہے۔‘‘
’’یہ وہی گنگا ہے جو سب کی ماں کہلاتی ہے۔ جو اپنے دامن میں سب کے دکھوں کو بھر لیتی ہے۔ اپنی سفیدی سے سیاہیوں کو دھو ڈالتی ہے۔ جس کے جل سے آتما تک کی شدھی ہو جاتی‘‘
’’ہاں صاحب! یہ وہی گنگا ہے۔‘‘
’’مگر اس کا جل تو
’’صاحب! جب سارا سنسار اپنے من اور تن کے ساتھ ساتھ اپنے گھر آنگن اور کل کارخانوں کا میل بھی اس میں ڈالےگا تو کیا ہوگا؟ ذرا ادھر تو دیکھے صاحب!‘‘ ایک ناؤ کی طرف ملاح نے اشارہ کیا۔۔۔
اشارے کی طرف اے۔ جے۔ آر۔ کی نظر یں اٹھیں تو ایک ننگ دھڑنگ جسم سے گنگا میں گرنے والے رقیق مادہ کو دیکھ کر شرم سے پلکیں جھک گئیں۔
’’یہ تو نمبر ایک کا نظارہ ہے صاحب! ہماری آنکھیں تو اکثر نمبر دو کا نظارہ بھی کرتی ہیں۔ آئے دن گلی سڑی لاشیں بھی دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ کل کارخانوں کا جو گندا پانی آتا ہے سو الگ۔ اب آپ ہی بتائیے، ایسے میں بھلا پانی کیسے صاف رہ سکتا ہے‘‘؟
راگھو رائے سنگھ کے کہنے پر اے۔جے۔آر نے نہانے کے کپڑوں کا ایک جوڑا اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لیا تھا یہ سوچ کر کہ جب سنگم پر جا رہے ہیں تو گنگا میں ایک ڈبکی بھی لگا لیں گے مگر سامنے کے منظر اور پانی کے رنگت کو دیکھ کر ڈبکی لگانے کا ان کا ارادہ سرد پڑ گیا۔
’’صاحب! اب ہم اس استھان پر پہنچ گئے ہیں جسے دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے ہزاروں روپے خرچ کرکے آتے ہیں اور جس کا درشن کر کے مرنے کے بعد کی چنتاؤں سے مکت ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ تو اس کے درشن کے سپنے کو ساکار کیے نباہی اس دنیا سے سدھار جاتے ہیں۔ یہ دیکھیے دو ندیوں کا ملن ۔ ایک طرف سے گنگا جی آرہی ہیں اور دوسری اور سے جمنا جی۔ دونوں کا رنگ الگ الگ دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مل بھی رہی ہیں اور مل کر آپس میں ملنے کے بجائے ایک دوسرے سے الگ بھی رہ رہی ہیں۔ اسی ادبھوت ملن کو سنگم کہتے ہیں۔‘‘
اے۔ جے۔ آر۔ کی آنکھیں اس ملن کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں، واقعی کمال کا ملن تھا۔ دونوں ندیاں ایک دوسرے میں پیوست تھیں مگر دونوں صاف صاف ایک دوسرے سے الگ دکھائی دے رہی تھیں۔ کوئی کسی کے دائرے میں گھسنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔
اس منظر نے اے۔ جے۔ آر۔ کے کانوں میں دفعتاً دولفظوں کا ایک مرکب ٹپکا دیا۔ سماعت میں اس مرکب کے داخل ہوتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے ایک دوسرا منظر ابھر آیا: توقیر علی کے والد تنویر علی عید کی نماز پڑھ کر عیدگاہ سے گھر لوٹے ہیں۔ ان سے ملنے اے۔ جے۔ آر۔ کے پتا وجے جسونت رائے سنگھ ان کے گھر پہنچے ہیں۔ تنویر علی سفید کرتا اور چار خانے کی لنگی پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے سر پر سفید ٹوپی ہے اور وجے جسونت رائے دھوتی کرتے میں ملبوس ہیں۔ ان کا سر خالی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کہ دونوں کی باہیں ایک دوسرے کو آغوش میں بھر لیتی ہیں۔ دونوں کی چھاتی ایک دوسرے سے مل جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ دونوں کے درمیان ہوا کا گزر بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک منظرا ور ابھر آیا۔ اس میں بھی دونوں پڑوسی اسی طرح گلے مل رہے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مخصو ص لباس میں ملبو س ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس منظر میں تنویر علی کی پیشانی پر جہاں سیا ہ گھٹا پڑا ہواہے، اس کے پاس گلال بھی چمک رہا ہے اور سیاہ گٹھّے والی پیشانی پر چمکنے والے گلال سے وجے جسونت رائے کی آنکھیں گلنار ہو گئی ہیں اور ان کے چہرے سے سرخ شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔۔۔
’’صاحب! ہے نا یہ ادبھوت ملن!‘‘
’’ہاں، ہے۔ کاش! یہ ملن۔۔۔۔‘‘
جملے کا دوسرا حصہ اے۔ جے۔ آر۔ نے بہت ہی دھیمی آواز میں ادا کیا اور جملے کو ادھورا چھوڑ دیا۔
’’آپ نے کچھ کہا صاحب؟‘‘ ملاّ ح نے پوری بات سننی چا ہی مگر اے۔ جے۔ آر۔ نے’’ نہیں تو ‘‘ کہہ کر ٹال دیا۔ اور دوسری بات شروع کر دی۔
’’اس کو تروینی بھی تو کہا جاتا ہے‘‘؟
’’جی صاحب، اسے تروینی بھی کہتے ہیں، تروینی ارتھات تین ندیوں: گنگا، جمنااور سرسوتی کا سنگم۔ پرنتو سرسوتی جی لپت ہیں‘‘۔
’’سرسوتی جی واستو میں ہیں بھی یا ان کا وجودمحض ایک متھ‘ مطلب کہانی بھرہے؟‘‘
ہیں صاحب! ہیں! سرسوتی جی ہیں! وہ دکھائی بھی دیتی ہیں پرنتو کسی کسی کو، سبھی کو نہیں۔‘‘
’’تمھیں دکھائی دیتی ہیں؟‘‘
ہاں صاحب! مجھے دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
’’کمال ہے!‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں صاحب! مجھے سرسوتی جی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
’’کدھر دکھائی دیتی ہیں؟ ‘‘
’’یہیں پر صاحب! ان دونوں کے سنگم کے نیچے ‘‘
کتنا نیچے؟‘‘
’’بہت نیچے۔‘‘
’’پانی کے اندر تمھاری نظریں ان تک پہنچ جاتی ہیں؟‘‘
’’ہاں صاحب! پہنچ جاتی ہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’آپ کو اچنبھا ہو رہا ہے صاحب! پرنتو یہ سچ ہے کہ کچھ نظریں پانی کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں۔‘‘
’’ان میں سے ایک تمھاری بھی ہیں؟‘‘
آپ کو میری ’ہاں‘ چھوٹا منہہ اور بڑی بات لگےگی مگر سچ یہی ہے صاحب!
’’میری حیر انی اس لیے نہیں ہے کہ یہ بات کسی مہا پنڈت یا مہاپرش کے بجائے کوئی ملاّ ح کہہ رہا ہے بلکہ اس لیے ہے کہ یہ انو کھی بات ہے۔ حیران کردینے والا سچ ہے اور جس طرح کے تم آدمی ہو اور اب تک جتنا میں نے تم کو جانا ہے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تم چھوٹ نہیں بول سکتے۔‘‘
’’صاحب! جب مجھ پر آپ کو اتنا یقین ہے تو اس انوکھی بات پر بھی یقین کر لیجیے کہ آپ کے اس سیوک نے سر سوتی جی کو دیکھا ہے۔‘‘
’’کرنا ہی پڑےگا۔‘‘
’’دھنیہ باد۔‘‘ بہت بہت دھنیہ باد صاحب!‘‘
’’جب تم نے سر سوتی جی کو دیکھا ہے تو ان کے بارے میں مجھے اور بھی کچھ بتاؤ۔‘‘
’’بولیے کیا جاننا چاہتے ہیں؟‘‘
’’سب سے پہلے تو یہی کہ ان کا پانی کیسا ہے؟‘‘
’’بہت صاف! بالکل آئینے کے موافق۔ ایک دم اجول!‘‘
’’ان کا رنگ ان میں سے کس کی طرح ہے؟ گنگا جی کی طرح یا جمنا جی کی طرح؟
’’ان دونوں سے الگ ہے صاحب!
’’کوئی روپ تو ہوگا اس کا۔ مرا مطلب ہے جس طرح جمنا جی کا ہلکا ہرا اور گنگاجی کا مٹ میلا دکھائی دے رہا ہے اسی طرح سرسوتی جی کا بھی تو کوئی اپنا رنگ ہوگا۔‘‘
’’ہاں ہے، مگر وہ ہرا، اجلا، نیلا پیلا جیسا رنگ نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر کیسا ہے؟‘‘
’’وہ وی چتر رنگ ہے، اس میں جمنا جی کا رنگ بھی شامل ہے اور گنگا جی کا رنگ بھی۔ مگر گنگا جی کا یہ رنگ نہیں، ان کا پہلے والا رنگ۔اس میں چاند، سورج اور ستاروں کا رنگ بھی گھلا ہو اہے اور آسمان کا رنگ بھی۔ شاید زمین کارنگ بھی اس میں موجود ہے۔ صاحب! میں بتا نہیں سکتا کہ واستو میں اس کا رنگ کیسا ہے؟ پرنتو ہے وہ بہت ہی اچھا رنگ۔ بہت ہی آکر شک! بہت ہی پیارا! ‘‘
اے۔ جے۔ آر۔ کی نگاہیں ملاح کے چہرے میں کھوتی جا رہی تھیں۔
’’وہ کدھر سے آتی ہیں اور کدھر جاتی ہیں؟‘‘
’’صاحب، اس کا پتا تو نہیں چل پاتا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ وہ کافی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے دھارے چاروں اور بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘
’’بہاؤ کیسا ہے؟‘‘
’’نہ زیادہ، نہ کم، بہت ہی سنتو لت گتی ہے ان کی۔‘‘
’’موجیں اٹھتی ہیں؟‘‘
’’خوب! پرنتو بپھری ہوئی نہیں، اپنی سیما میں رہ کر چلنے والی۔ انھیں دیکھ کر رگوں میں ترنگیں دوڑ جاتی ہیں۔‘‘
’’سرسوتی جی کو دیکھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟‘‘
’’ایسا لگتا ہے جیسے پگھلی ہوئی چاندی میں گھلے ہوئے ہیرے موتی دیکھ رہے ہوں۔ دیکھنے سے آنکھوں میں روشنی سی بھر جاتی ہے۔ کانوں میں جل ترنگ بج اٹھتا ہے۔ من دھل جاتا ہے۔ دماغ روشن ہو جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے ان میں کود جاؤں۔ ان کی گود میں پڑا رہوں۔ کبھی باہر نہ نکلوں۔‘‘
ملاح کی باتیں سنتے وقت اے۔ جے۔ آر۔ کو ایسا لگ رہاتھا جیسے وہ کسی دیوی کا ذکر کر رہا ہو۔ ایسی دیوی کا ذکر جس کے ماتھے پر ایسا تیج ہو کہ جسے دیکھ کر کھملایا ہوا چہرہ بھی کھل جائے۔ جس کی آنکھوں میں ایسی جوت ہوکہ جس سے اندھیرے بھی روشن ہوا ٹھیں۔ ویرانے بھی جگمگا جائیں۔جس کے چہرے پر ایسا سکون ہو جو وچلت من کو بھی شانت کر دے۔ جس کی آواز میں ایسا سر ہو کہ جس کے کان میں پڑتے ہی دل ودماغ میں علم و آگہی کے خزانوں کے در کھل جائیں۔ جسم وجان میں مٹھاس گھل جائے۔ رگ وپے میں کیف وسرور بھر جائے۔’’صاحب ! سرسوتی جی بھلے ہی لوگوں کو دکھائی نہیں دیتیں پر نتووہ اپنا کام اندر ہی اندر کرتی رہتی ہیں۔
اپنارنگ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اپنا اثر دکھاتی رہتی ہیں۔ یہ انھیں کی کرپا ہے کہ یاتریوں کو پانے کے لیے میں اتاؤلا نہیں ر ہتا اور بنا مول تول کیے مجھے آپ جیسے یاتری مل جاتے ہیں اور جب نہیں ملتے تب بھی مجھے بے چینی نہیں ہوتی۔ یہ انھیں کی کر پا ہے صاحب! کہ ان بھوکے پرندوں کو دیکھ کر اس بھیڑ میں کچھ آنکھیں نم بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ انھیں کی مہیما ہے کہ آج بھی کہیں کہیں پر ہر یالی اور کسی کسی دل مین صفا ئی باقی ہے ۔
اے۔ جے۔ آر۔ کے ذہن میں ایک منظر ابھر آیا: ایک مشتعل مجمع ایک معصوم بچے کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ترشول کی نوکیں بچے کی چھاتی کی اور بڑھ رہی ہیں۔
’’یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ بیچارہ تو معصوم ہے اس کا کیا دوش ہے؟ اسے چھوڑ دو۔‘‘ ایک آدمی بھیڑ سے نکل کر بچے کے پاس آ جاتا ہے۔
’’نہیں، ہم اپنے شترو کی سنتان کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ انہیں کی سنتان ہے جنھوں نے ہمارے لوگوں کے گلے سے اوم اتار کر اس کی جگہ کراس ڈال دیا ہے ‘‘
’’ماناکہ اس کے قوم کے لوگ لالچ دے کر ہمارے لوگوں کا دھرم پریورتن کر رہے ہیں پرنتو اس بالک کا اس سے کیا لینا دینا۔ یہ بیچارہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟ اس کے دھرم کا نشان اوم ہے یا کراس۔ ا سے چھوڑ دو، اسے مارنے سے کچھ نہیں ملےگا۔‘‘
’’نہیں ہم نہیں چھوڑیں گے۔ آگے چل کر یہی ہمارے دھرم کو بھرشت کرےگا۔ آپ ہٹ جائیے۔ ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے۔‘‘
’’نہیں میرے ہوتے ہوئے آپ اسے نہیں مار سکتے۔‘‘وہ آدمی بچے کے آگے آکر کھڑا ہو گیا۔
’’ہٹ جائیے نہیں تو۔۔۔۔‘‘
’’نہیں، میں اپنے جیتے جی یہ ادھرم نہیں ہونے دونگا۔‘‘
’’ہٹ جائیے ورنہ ۔۔۔۔
’’نہیں میں نہیں ہٹوں گا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے مریے۔‘‘ ترشول کی نوکیں اس آدمی کے سینے میں پیوست ہو جاتی ہیں مگر وہ بچے کو مرنے سے بچا لیتا ہے۔
’’میں تو بھگوان سے یہی پرراتھنا کرتا ہوں صاحب کہ سرسوتی جی کبھی اوپر نہ آئیں اور لوگوں کو دکھائی نہ دیں۔‘‘
’’کیوں؟ ایسی پر اتھنا کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’ڈرتا ہوں صاحب؟‘‘
’’کیوں ڈرتے ہو؟‘‘
’’کہیں ان کا بھی ‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ان کا بھی کیا ؟‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے پورا جملہ سننا چاہا۔
’’کیا یہ بات آپ کو بھی بتا نی پڑےگی صاحب؟‘‘ جواب دے کر ملاح اے۔ جے۔ آر۔ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
اے۔ جے۔ آر۔ خاموش رہے۔ نہ جواب دیا اور نہ ہی کوئی اور سوال کیا۔بس جلدی سے اپنا ہینڈ بیگ کھول لیا۔
بیگ سے نہانے کا کپڑا ہاتھ میں لے لیا۔ ان کی نگاہیں اس کپڑے پر مرکوز کو گئیں۔
’’آپ، اسنان کرنا چاہتے ہیں تو چلیے میں ناؤ کو سنگم سے سٹا کر لگا دیتا ہوں؟‘‘
’’نہیں، اسکی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’تو کیا یہیں نہائیں گے؟‘‘
’’نہیں،‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’میں اسنان کر چکا؟‘‘
’’کب؟ کہاں؟‘‘ملاح ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’سرسوتی جی میں۔‘‘
’’سرسوتی جی میں! وہاں آپ کب پہنچے؟‘‘
’’جب تم ان کا بکھا ن کر رہے تھے۔‘‘
’’تو آپ کو بھی وہ دکھ گئیں؟‘‘
’’ہاں، سرسوتی جی مجھے بھی دکھائی دے گئیں‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے اپنی نگاہیں ملاح کے چہرے سے سر کار کراس کی آنکھوں تک پہنچا دیں۔
’’صاحب! میں سوچتا تھا کہ سرسوتی جی ضرور آپ کو بھی دکھائی دیں گی اور من ہی من میں میں نے آپ کے لیے پرارتھنا بھی کی تھی۔ انھوں نے میری سن لی، جے ہو سرسوتی میا!‘‘
اس نے پتوار کو پانی میں اس انداز سے گھمایا کہ پانی پر ناؤ ناچ گئی۔
’’اب واپس چلیں‘‘ اے۔ جے۔ آر۔ نے ہینڈ بیگ بند کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا‘‘
’’چلیے‘‘
ناؤ سنگم سے پلٹ کر گھاٹ کی طرف جانے لگی۔
پرندوں کا ایک غول پھر سے ان کے سروں پر منڈرانے لگا۔
’’دانوں کا پیکٹ دوں صاحب؟ ملاح نے اے۔ جے۔ آر۔ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں، ابھی کچھ دانے بچے ہیں۔‘‘ اور ناؤ سے پیکٹ اٹھا کر بچے ہوئے دانوں کو گنگا میں الٹ دیا۔
پرندوں کی طرف دانہ ڈالنے کا انداز اس بار وہ نہیں تھا جو جمنا میں اترتے وقت دکھائی دیا تھا۔
(مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 09)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.