ساٹن پر پڑی سلوٹیں
میں ایک برس سے زیادہ ان کے ساتھ گزارنے کے باوجود یہ نہ جان سکا کہ وہ کینسر میں مبتلا ہیں۔ اگر مَیں زبردستی انہیں ہسپتال نہ لاتا تو اب بھی نہ جان پاتا۔
نرس اور وارڈ بوائے انہیں آئی سی یو میں شفٹ کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ نیم خوابیدہ حالت میں انہوں نے میری طرف دیکھا اور دھیرے سے بولیں۔’’پلیز! کسی کو اطلاع نہ کرنا‘‘۔
مَیں خاموش رہا اور کوشش کرنے لگا کہ میرے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہ ابھرے، کیوں کہ مَیں ان کی مرضی کے خلاف عمل کرچکا تھا۔ آج صبح ہی ہسپتال آتے ہوئے اسٹیڈیم فلائی اوور سے سیدھے ہاتھ کی طرف جانے کے بجائے مَیں نے گاڑی اسٹیڈیم کی گلی میں موڑ لی اور عقب کی پوش آبادی میں چلا گیا، ،جہاں ان کا بیٹا رہتا تھا۔ وہ میرے سامنے کئی بار اپنے بیٹے کا نام لے چکی تھیں، لہذا سیکیورٹی گارڈ کی مدد سے مجھے اس کی کوٹھی ڈھونڈنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ جب وہ میرے سامنے آیا تو میرا جی چاہا کہ گھونسے اور لاتیں مارتے ہوے اس سے پوچھوں کہ تم اپنی ماں کو مرتا ہوا چھوڑ کر خوش کس طرح ہو۔مگر قوی الجثہ کتے کے گلے میں بندھی ہوئی زنجیر کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں جھولتا ہوا دیکھ کر مَیں صرف اتنا ہی کہہ پایا کہ اس کی ماں اور زندگی کے درمیان کا رشتہ اس سے بھی زیادہ کمزور پڑ چکا ہے جتنا اس کا اپنی ماں سے باقی ہے۔ مَیں نے چلتے ہوے یہ بھی کہا کہ وہ تم سے نہیں ملنا چاہتی، لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ تم اس سے مل لو۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ مَیں کون ہوں، اور اس کی ماں سے میرا کیا رشتہ ہے، مگر شاید بے حسی کی جس فضا میں وہ سانس لے رہا تھا، وہاں ایسے سوالوں کے پھول کھلتے ہی نہیں ہیں۔
وارڈ بوائے نے دروازے کے دونوں پٹ کھولے اور بیڈ کو دھکیلتا ہوا انتہائی نگہداشت کے وارڈ کی طرف جانے لگا۔ یکایک میری نگاہ ان کی آنکھوں پر پڑی۔ وہاں آنسو تیررہے تھے۔ وہ مجھے ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے الوداع کہہ رہی ہوں۔ میرا جی چاہا کہ میں آنسوؤں کو اپنی ہتھیلی سے پونچھ دوں اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔
کوریڈور کے آخری سرے کا دروازہ کھلا۔ میرے قدم وہیں جم کر رہ گئے۔ وارڈ بوائے اور نرس انہیں آئی سی یو میں لے گئے۔
گیلری کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ باہر تیز بارش ہورہی تھی۔ میرا سامان ابھی تک بڑے بڑے کارٹن میں بند تھا۔ صرف اپنے سونے کا انتظام کرلیا تھا۔ مجھے کوئی جلدی بھی نہیں تھی۔ تیس فلیٹوں کی اس نئی تعمیر ہونے والی عمارت کو آباد کرنے والا میں پہلا فرد تھا۔ دو سال پہلے جب میں کراچی آیا تو کرائے کا فلیٹ لے کر رہنا شروع کردیا تھا۔ ماں کے انتقال کے بعد پاپا نے جب دوسری شادی کی تو میں نے خود ان سے کہا کہ میں اب کراچی جا کر کام کرنا چاہتا ہوں۔ وہاں فیشن ڈیزائننگ کے زیادہ مواقع ہیں۔ تب پاپا نے مجھے اجازت دے دی اور میں کراچی چلا آیا۔ اسلام آباد کے پرسکون ماحول کا عادی ہونے کی وجہ سے میں کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھا جہاں شور شرابہ نہ ہو اور میں اپنا تخلیقی کام دلجمعی سے کرسکوں۔ ایک دن فوٹوگرافر سلمان نے کہا کہ میرے جیسے آدم بے زار شخص کے لیے گلشن معمار بہترین جگہ ہے، تو میں اس علاقے کو دیکھنے چلا گیا۔ پہلی نظر میں اس جگہ کو پسند کرتے ہوے میں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا اور اس زیر تکمیل پروجیکٹ میں اپنا فلیٹ بک کروادیا۔ جوں ہی پروجیکٹ مکمل ہوا، میں نے فوراً قبضہ حاصل کیا اور منتقل ہوگیا۔ مجھے اپنا سامان لائے ہوئے تین دن ہوچکے تھے اور ابھی صرف سونے کا کمرا ہی سیٹ کیا تھا۔ آج میرا ارادہ دوسرے کمرے کو اپنا ورکشاپ بنانے کا تھا، مگر تیز بارش نے میرا موڈ بدل دیا۔ میں گیلری میں آکر کھڑا ہوگیا۔ آس پاس دوسرے پروجیکٹ زیرِ تعمیر تھے، جس کی وجہ سے یہاں دن بھر صرف مزدور دکھائی دیتے۔ البتہ ایک فرلانگ کے فاصلے پر پورا بازار تھا۔ تیزہوا اور بارش ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی گزررہی تھیں۔ ادھر ادھر اندھیرے میں ڈوبی ہوئی بالکونیوں نے بھی شام کو دھندلا کرکے رکھ دیا تھا۔ یکایک میری نگاہ اپنی گاڑی کی اوٹ میں پڑی ہوئی گٹھری کی طرف گئی۔ میں چونکا۔۔۔ بارش میں کوئی بھیگ رہا تھا۔
میری تیز نگاہوں سے یہ بات پوشیدہ نہ رہ سکی کہ وہ کوئی عورت ہے اور اپنا بدن اور سر کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتے ہوے کانپ رہی ہے۔ میں تیزی سے پلٹا اور فلیٹ سے نکل کر زینے کی طرف بڑھتے ہوے باہر کی طرف لپکا۔
وہ ایک ادھیڑ عمر کی عورت ہی تھی۔ میں نے قریب جا کر تقریباً چلاّتے ہوئے کہا۔
’’آپ بارش میں کیوں بھیگ رہی ہیں؟‘‘
انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بے ہوش ہوچکی تھیں۔ میں جیسے تیسے انہیں فلیٹ میں لے آیا اور اپنے بستر پر لٹادیا۔ اب میں روشنی میں واضح طور پرانہیں دیکھ سکتا تھا۔ پہلے میرا خیال تھا کہ کوئی مزدور عورت یا گھروں میں کام کرنے والی کوئی ماسی ہوگی، مگر اب انہیں دیکھ کر مجھے شبہ ہورہا تھا کہ میرا اندازہ غلط ہے۔ وہ اپنے لباس اور چہرے کے خط و خال سے اچھے گھرانے کی خاتون دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ تو اچھا تھا کہ موسم سرماکی بارش نہیں تھی ،ورنہ بھیگے کپڑوں میں وہ بیمار بھی ہوسکتی تھیں، اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں انہیں چھو کر دیکھوں یا ان کے کپڑے تبدیل کرسکوں۔ وہ ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود بہت خوبصورت اور متناسب جسم کی مالک تھیں۔ میرا ذہن الجھا ہوا تھا کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیوں آئی تھیں۔ الجھے سوالوں کے جواب تو ان کے ہوش میں آنے پر ہی مل سکتے تھے۔ میں ان کے ہوش میںآنے کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔
رات کا اندھیرا پھیل گیا اور وہ ہوش میں نہ آئیں تو میری تشویش بڑھنے لگی۔ میرے جی میں آئی کہ میں اپنے کسی دوست کو فون کرکے کہوں کہ کسی ڈاکٹر کو لے آئے، مگر میں جانتاتھا کہ گلشن معمار مرکزی شہر سے بہت دور ہے اور میں خود یہاں کسی ڈاکٹر سے واقف نہیں تھا۔
جوں جوں رات گزررہی تھی، میری تشویش بھی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ تو بیدار نہیں ہوئیں لیکن میری آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ تب میں کمرے کے ایک کونے میں دری بچھا کر لیٹ گیا۔ دیر سے انتظار کرتی ہوئی نیند نے مجھے آدبوچا اور میں غافل ہوگیا۔
’’مجھے ایک کام والی یا مددگار کی ضرورت ہے۔ آپ چاہیں تو میرے ہاں رہ سکتی ہیں‘‘۔
صبح بیدار ہونے اور میرے ہاتھ کا بنایا ہوا ہلکا پھلکا ناشتہ کرنے کے دوران شرمندگی اور بے بسی کی ملی جلی حالت میں کچھ کہی اور کچھ ان کہی باتیں سننے کے بعد یکایک میں نے فیصلہ کیا اور ان کے سامنے اپنی تجویز رکھ دی۔ وہ خاموش ہوگئیں۔ وہ کرب کی جس حالت میں تھیں، وہاں فیصلہ کرنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے۔ بیٹے کے گھر سے بغیر زادِ راہ نکلنے سے پہلے وہ ٹوٹ چکی تھیں۔ پوش علاقے کے مکین رات ہی میں نہیں، دن میں بھی محلے کی سڑکوں پہ کم کم نکلتے ہیں۔ دوپہر کا سناٹا اوڑھے بنجر پڑی سڑک پر خاموشی سے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہ نہیں جانتی ہوں گی کہ وہ جو فیصلہ کررہی ہیں، وہ صحیح ہے یا غلط، مگر جو صحیح لگا، انہوں نے وہی کیا۔ ان کی چند کہی اوربے شمار ان کہی باتوں سے میں نے اندازہ لگالیا تھا کہ وہ خونی رشتوں کی بے حسی کا شکار ہوئی ہیں۔
کچھ دیر بعد جب وہ ناشتے کی ٹرے اٹھا کر بے ترتیب فلیٹ کے اجاڑ باورچی خانے کی طرف چل دیں تو میں سمجھ گیا کہ ہمارے درمیان ایک خاموش معاہدے کا آغاز ہوچکا ہے۔
میں کوریڈور میں ٹہلتے ہوئے، کبھی زینے کے آس پاس اور کبھی نیچے درختوں کے سائے میں بچھی ہوئی بنچوں کے اطراف منڈلاتے ہوے اس کا شام تک انتظار کرتا رہا، مگر وہ نہیں آیا۔ میں صبح ہی جان چکا تھا کہ وہ بے حسی کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے ، پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے امید تھی کہ وہ ایک بار ضرور اپنی ماں کو دیکھنے آئے گا، مگر شام تک جب کسی لخت جگر کی ہتھیلی نے آئی سی یو کے دروازے کو نہ چھوا تو میرا جی چاہا کہ میں خود ان کے پاس جاؤں اور کہوں کہ کاش آپ نے ایسی اولاد کو پیدا کرتے ہی ماردیا ہوتا۔مگر میں انہیں تکلیف کیسے دے سکتا تھا۔ میں نے تو ان سے زندگی کی خالی اور بے شکن ساٹن پر جمالیات کے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑھنے اور سلوٹیں ڈال کر حسن پیدا کرنے کا فن سیکھا تھا۔
میرے ساتھ رہتے ہوے انہیں ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا تھا۔ اِن دنوں میں میرا اجڑا ہوا فلیٹ ایک خوبصورت اور نفاست سے سجے ہوے گھر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ دونوں بیڈ رومز کو ہم نے اپنے اپنے استعمال میں لے لیا اور ڈرائنگ روم کو میں نے اپنے اسٹوڈیو ورکشاپ میں ڈھال لیا۔ بحیثیت فیشن ڈیزائنر میرا زیادہ تر کام کمپنی کے ورکشاپ میں ہوا کرتا تھا، لیکن ذہن میں ابھرنے والے تخلیقی خاکوں کو کاغذ پر منتقل کرنے اور پھر انہیں حقیقی شکل دینے کا کام میں اپنے فلیٹ میں قائم کردہ ذاتی اسٹوڈیو ورکشاپ میں کیا کرتا ،جہاں مجھے کسی دوسرے کی مداخلت قطعی پسند نہیں تھی۔ یہ بات گذشتہ ماہ کے دوران انہوں نے بھی سمجھ لی تھی۔ مگر ایک دن اچانک مجھے ساٹن کی میکسی ڈیزائین کرتے ہوے دیکھ کر وہ بولیں۔
’’چائے کی پتی ختم ہوگئی ہے‘‘۔
’’میں لادیتا ہوں‘‘ ۔ کپڑے کو فرش پر بچھا ہوا چھوڑ کر اٹھتے ہوے میں بولا اور دامن اور کمر پر چوڑے بارڈر والا زری کے بیل بوٹوں کا ڈیزائن سوچتے ہوے فلیٹ سے نکلتا چلا گیا۔ بازار تک جانے اور پھر واپس لوٹنے میں مجھے آدھا گھنٹہ لگا ، جب میں واپس لوٹا تو ان تیس منٹوں میں انہوں نے میری سوچ میں ابھرنے والے نامکمل خاکوں کو فرش پر پھیلی ہوئی ساٹن پر پنسل سے مکمل بنا ڈالا تھا۔
’’یہ آپ نے بنایا ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
وہ محض مسکرا کر رہ گئیں اور میرے ہاتھوں سے چائے کا پیکٹ لے کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ میں انہیں تعریفی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور وہ بے نیاز چائے بنانے میں مصروف تھیں۔ اس دن مجھے ان کے فن کار ہونے کا اندازہ ہوا۔ میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔چائے کا کپ لیتے ہوے نہ جانے کیوں میرا جی چاہا کہ میں ان کا ہاتھ چوم لوں۔ فیشن ڈیزائنر ہونے کی وجہ سے میں خود ایک فن کار تھا اور فن کا قدر دان بھی۔ انہوں نے جس مہارت سے فرش پر پھیلی ہوئی میکسی کے دامن پر دو ڈھائی فٹ لمبا اور چار انچ چوڑا پٹا اپنی تمام تر باریکیوں ، گولائیوں، پیچ و خم اور جا بجا کناروں سے نکلتی ہوئی مہین پتیوں کے ساتھ بنایا تھا، وہ لاجواب تھا۔ اس خاکے کو بار بار نرمادہ کی طرح پلٹ کر دُہراتے ہوئے پورے دامن پر ٹریسنگ پیپر کی مدد سے پھیلایا جاسکتا تھا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں ان کی تعریف کروں۔ مگر وہ یوں ظاہر کررہی تھیں جیسے انہوں نے کچھ نہ کیا ہو۔
مجھے ان سے عجیب سی انسیت کا احساس ہورہا تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں کم از کم پندرہ برس بڑی تھیں۔ وہ میری ملازم نہیں تھیں اور میرا ان سے کوئی رشتہ بھی نہیں تھا، اس کے باوجود ہم ایک ہی فلیٹ میں اپنی اپنی حدوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ہر چند کہ مجھے اپنے کام میں کسی دوسرے کی مداخلت پسند نہیں تھی، لیکن ان کی فنی اپچ کی وجہ سے اب میں گاہے گاہے ان سے اپنے تخلیق کردہ ڈیزائنوں کے بارے میں گفتگو کرلیا کرتا۔ چونکہ وہ ایک عورت تھیں اور عورتوں کی نفسیات کو بہت اچھی طرح سمجھتی تھیں۔ اس لیے جب بھی کبھی وہ کوئی مشورہ دیا کرتیں تو مجھے ایسے باریک گوشوں سے روشناس کرتیں کہ میں حیران رہ جاتا۔ میں یہ سوچ کر حیران تو ہوتا ہی تھا کہ وہ ایک ماہر نفسیات ہیں، مگر یہ سوچ کر پریشان بھی ہوتا کہ اس تجربے کے باوجود ان کی زندگی میں دکھ کا سایہ بہت گہرا ہے۔ تاہم یہ سوچ کر مطمئن بھی ہوجاتا کہ وہ میرے ساتھ رہتے ہوے کسی حد تک خوش بھی ہیں۔ اس خیال سے مجھے تقویت ملتی کہ میں نے کم از کم ایک زندگی بچانے کی کوشش کی ہے۔ مگر اب۔۔۔
جسم میں ادھر ادھر سے جڑی ہوئی اور مشینوں سے جا کر منسلک رینگتے ہوے سیال مادے والی نلکیوں کے درمیان وہ بہت کمزور دکھائی دے رہی تھیں۔ گذشتہ سال بھر کے دوران ان کے چہرے پر دن بہ دن بڑھتی ہوئی بشاشت جو میں نے دیکھی تھی، وہ اب معدوم ہوچکی تھی۔ ہسپتال آنے کے بعد ان کی حالت اور گر گئی ۔ ڈاکٹر مجھے بتاچکے تھے کہ ان کی سانسیں انگلیوں کے درمیان پھلستی ہوئی اس ڈور کی طرح ہیں جس کا آخری سرا کسی بھی لمحے انگلیوں کے پوروں کے درمیان میں سے گزرسکتا ہے۔ میں اس ڈور کو پکڑ لینا چاہتا تھا مگر وہ تو ساٹن کے کپڑے سے بھی زیادہ چکنی تھی ،جسے پکڑنے کی ساعتوں میں کپڑا بدن سے پھسلتا ہوا نیچے آگیا تھا۔
ہم دونوں کو ایک ساتھ رہتے ہوے دس ماہ سے زیادہ ہوچکے تھے۔ اس دوران ہمارے بیچ احترام کے رشتے میں گندھا ہوا ایک ایسا تعلق قائم ہوچکا تھا جس میں بے باکی کے علاوہ سب کچھ تھا۔ میں نے کئی بار انہیں سمندر پر چلنے کے لیے کہا، فیشن شو جس میں میرے بنائے ہوے ڈریسز (جن میں ان کے بہت سارے قیمتی مشورے بھی شامل تھے) پہن کر ماڈلز نے کیٹ واک کی تھی، ان میں لے جانے کی ضد کی مگر وہ نہ مانیں۔ ان مہینوں کے دوران وہ ایک بار بھی فلیٹ سے باہر نہیں گئی تھیں۔ ایسے میں ان کے بے ترتیب بڑھتے بالوں کو میں زبردستی تراش کر سنواردیتا۔ اپنی لائی ہوئی چوڑیاں اپنے ہی ہاتھوں سے ان کی کلائی میں پہنادیتا ، وہ مسکرا کر شرارت سے انہیں بجا کر مجھے دکھاتیں۔ میرے سر میں درد ہوتا تو وہ میرا سردباتیں یا کبھی تیل کی مالش کردیا کرتیں۔ اجنبیت سے ایک انجانے رشتے میں تبدیل ہوتے ہوے تعلقات کے اس سفر کی نا آشنا ساعتوں میں ایک بار لوڈشیڈنگ کے دوران فرشی کشن پر بیٹھے ہوے وہ میرے سر میں تیل لگارہی تھیں ۔ نہ جانے کیوں میرا دل چاہا کہ میں اپنی کمر ان کے مڑے ہوے گھٹنوں سے ٹکادوں۔ جب میں بے قرار کرتی خواہشوں کو دبانے میں ناکام رہا تو میں نے اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑتے ہوے پیچھے کی طرف جھکادیا۔ دھیرے دھیرے محسوس ہوا کہ جیسے ان کے دونوں پیر ایک دوسرے کی مخالف سمت میں پھیلتے ہوے مجھے اپنے اندر سمیٹ رہے ہوں۔ میرا جھکاؤ پیچھے کی طرف بڑھتا جارہا تھا۔ چند لمحوں بعد مجھے لگا کہ میرا سر ان کے ابھرے ہوئے سینے پر جا کر ٹک گیا ہے۔ گداز لمس کے احساس سے میرے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ میں نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ شاید انہوں نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں۔میں بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو چھونے کے تجربے سے گزر رہا تھا، مگر نہ میں نے گرم روئی کی زمینوں کا جغرافیہ پڑھا اور نہ ہی انہوں نے خالی جگہوں کو پُر کرنے والے جوابات لکھے۔ ہم دیر تک ایسے ہی بیٹھے رہے۔ گھنٹہ بھر بعد جب لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی تو ہم چونکے۔ احترام کے لبادے میں بے باکی کی ہلکی سی جھری پڑچکی تھی۔ ان کے بد ن کا گداز پن کئی دن تک مجھے پریشان کرتا رہا ،اور وہ میری حالت دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت دنوں تک انہوں نے میرے سر میں تیل کی مالش بھی نہیں کی۔ حالاں کہ میں اس منظر کو دہرانے کا خواہش مند تھا۔
میری طلب شدت اختیار کرنے لگی۔ میرا جی چاہتا کہ میں ان سے لپٹ جاؤں۔ جس دن میں انہیں بھیگے بدن کے ساتھ اٹھا کر فلیٹ میں لایا تھا، وہ پاکیزہ احساس کہیں غائب ہوچکا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس جذبے کی جگہ کسی اور ضرورت نے اس طرح گھیرلی ہو جس طرح بازار میں کوئی لالچی کسی پرانے جمے جمائے پتھارے دار کی جگہ گھیر تا ہے۔ آخر کار میری خواہش کی الجھی ڈور کو سرا مل گیا۔
ساٹن کی جس کی میکسی کے دامن پر انہوں نے بڑی فن کاری سے بیل ڈیزائن کی تھی، اس کا بچا ہوا کپڑا اب بھی میرے پاس رکھا ہوا تھا۔ میں نے اس کپڑے سے جدید میکسی بنانے کا فیصلہ کیا۔ تیاری کے دورا ن جوں جوں ساٹن میرے ہاتھوں سے پھلستی تو مجھے عجیب سی سرشاری کا احساس ہوتا۔ آخر کار دونوں کاندھوں پر گرہ لگی باریک ڈوریوں والی میکسی تیار ہوگئی۔ وہ مجھے اسٹوڈیو ورکشاپ میں کام کرتے ہوے اکثر دیکھتی رہتی تھیں۔ اس بار بھی ایسا ہی تھا۔ جب انہوں نے مجھے فارغ ہوتے ہوے دیکھا تو بولیں۔
’’چائے پینے کا موڈ ہو تو بناؤں؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوے جواب دیا۔
’’آج اتنے انہماک سے کام کررہے تھے کہ باہر برستی ہوئی بارش بھی نہیں دیکھی‘‘۔ وہ بولیں۔
’’اچھا۔۔۔‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا۔
وہ باورچی خانے میں چائے بنانے چلی گئیں اور میں گیلری میں آگیا۔ بوندیں اب بھی برس رہی تھیں۔ گیلری سے باہر سڑک پر نگاہ ڈالتے ہوے مجھے یاد آیا کہ ایسی ہی برسات والی شب میں انہیں بے ہوشی کی حالت میں گود میں اٹھا کر لایا تھا۔ تب وہ ایک اجنبی، مجھ سے عمر میں بڑی اور ایک قابل احترام ہستی کی طرح تھیں، مگر اب کم از کم میرے اندر جذبات کسی اور صورت میں ڈھل رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہ چائے کے مگ لے کر وہیں گیلری میں آگئیں۔ میں بے اختیار بول اٹھا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ یہ میکسی آپ مجھے پہن کر دکھائیں‘‘۔
’’اپنی ڈمی کو پہنا کر دیکھیں‘‘۔ وہ بولیں۔
’’نہیں۔۔۔ میں چلتی پھرتی ڈمی کو پہنا کر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’مگر یہ تو کاندھوں پر سے ڈوریوں والی ہے‘‘۔ انہوں نے نیم رضا مندی سے سوال کیا۔
’’تو کیا ہوا؟‘‘ میں نے لاپروائی سے پوچھا تو انہوں نے کھل کر اپنے کاندھوں کو ہاتھ لگاتے ہوے جواب دیا۔
’’یہاں پٹیاں وٹیاں سب دکھائی دیں گی‘‘۔
’’اس کے بغیر بھی تو پہنی جاسکتی ہے‘‘ ۔میری آنکھوں میں شرارت تھی، جسے وہ دیکھ بھی رہی تھی اور شاید سمجھ بھی رہی تھیں۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور برستی ہوئی بوندوں کو دیکھتے ہوے چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتی رہیں۔ پھر میرے ہاتھ سے خالی مگ لے کر باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔ میں وہیں کھڑا رہا۔
زمین پر گرتی بوندیں گھڑی کی اس سوئی کی ٹک ٹک کی طرح آوازپیدا کر رہی تھیں جو وقت کو سیکنڈدر سیکنڈ آگے بڑھاتی ہے۔ وقت بھی آہستہ خرامی سے سڑک پر پھیلے ہوے پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ یکایک مجھے پیچھے سے آواز آئی۔
’’اب کیٹ واک کہاں کرکے دکھاؤں؟‘‘
میں چونک کر پلٹا اور انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ انہیں اس وقت دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ پچاس سال سے زیادہ عمر کی ہیں ۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’پتھر کی مورتیوں پر ایسے کپڑے اچھے نہیں لگتے‘‘۔
’’کوئی احمق ہی ہوگا جو آپ کو پتھر ساکہے گا‘‘۔ میں نے ان کا سرتاپا جائزہ لیتے ہوے کہا۔
گذشتہ دس گیارہ ماہ کے دوران اس اپارٹمنٹ کے کچھ اور فلیٹ آباد ہوگئے تھے اور چوکیدار بھی آگیا تھا۔ مگر بالکونی کے سامنے کا منظر اب بھی پہلے جیسا ویران ہی تھا۔ میں ایک ماہر فیشن ڈیزائنر کی مانندفائبر کی ڈمی کو پہنائے ہوے لباس کی طرح میکسی کا چاروں طرف سے جائزہ لینے لگا۔ وہ فائبر کی مورتی کی طرح گردن تانے سیدھی کھڑی ہوئی تھیں۔ میں ان کی پشت پر چلا گیا اور پھر ہاتھ بڑھا کر ان کے کندھے پر بندھی باریک ڈوریوں کی گرہ دھیرے سے کھول دی۔ ساٹن پھسلتی ہوئی نیچے آگری۔
فلیٹ کے اندر سے آتی ہوئی روشنی میں مَیں انہیں دیکھ سکتا تھا۔ دھیرے دھیرے وہ میری طرف پلٹیں اور پھر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولیں۔
’’مجھے چھونے سے پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو‘‘۔
’’کیا؟‘‘ وہ میرے سامنے بے لباس تھیں، مگر میری آنکھیں پوری فضا پر محیط عجیب سی اس بے قراری اور بے بسی کو دیکھ رہی تھیں جو کسی بھی لمحے ان کی آنکھوں سے آنسو کی صورت میں چھلکنے والی تھی۔
’’کیا میں کوئی فاحشہ دکھائی دیتی ہوں؟‘‘انہوں نے گدلائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’میری بہو یہی کہتی ہے ...اور میرا بیٹا اس کی تائید کرتا ہے‘‘۔
یہ کہتے ہوے ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ پڑے۔ میں ان کی حالت کو سمجھ رہا تھا۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے آیااور بستر پر بٹھادیا۔
ہم دونوں اکثر ایک دوسرے کے ماضی کے بارے میں گفتگو کرلیا کرتے تھے۔ وہ میرے بارے میں سب کچھ جانتی تھیں۔ کن حالات میں میری ماں کا انتقال ہوا اور کتنی عجلت میں میرے والد نے یہ کہہ کر دوسری شادی کی کہ اس گھر کو ایک عورت کی ضرورت ہے۔ جب میں نے انہیں کہا کہ میں شادی کے لیے تیار ہوں ، آپ تایا ابو سے بات کریں ،تو انہوں نے جواب دیا کہ بہو اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تب میں نے انہیں حیرت سے دیکھا ۔وہ مجھے اجنبی لگے۔ یکایک میرے گھر کے درودیوار بھی میرے لیے نامانوس ہوگئے۔ میرے ایک سابق پروفیسر نے مجھے بہت سمجھایا کہ میں اپنے والد کو ایک نارمل انسان کی طرح دیکھوں۔ مگر میں نہ سمجھ سکا اوریوں ہمارے درمیان اجنبیت بڑھتی چلی گئی۔ اور جب والد نے اپنی عمر سے بیس برس چھوٹی عورت سے شادی کی تو فاصلہ اور بڑھتا چلا گیا ۔تب میں نے وہ گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوے عمر کے اس فرق کو بھی زیر بحث لاتے اور جب اپنی عمروں کا فرق ناپتے تو جھینپ کر خاموش ہوجاتے۔
انہوں نے بھی اپنے بارے میں مجھے بہت کچھ بتایا تھا۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہ ان پر ڈھلتی عمر کا سایہ اس طرح نہیں پڑا جس طرح اکثر دوسری عورتوں پر پڑتا ہے۔ مگر انہوں نے پہلے کبھی نہیں بتایا تھا کہ ڈھلتی عمر کی دھوپ چھاؤں کے اثرات کو قبول نہ کرنے والا یہ کسا ہوا بدن ان کی زندگی پر ایک ایسے زہریلے طعنے کی طرح پھیلا ہوا تھا جس میں بیٹا بھی اپنی ماں کو شبے کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ آج میرے سامنے خود کو بے لباس کرنے کے بعد ان کے ایک ہی سوال نے ٹکڑوں میں سنائی ہوئی کہانی کو مکمل کرڈالاتھا۔
ہمارے درمیان صرف سسکیاں اور ہچکیاں تھیں۔ اب وہ ہی نہیں میں بھی رو رہا تھا۔
’’میرا بدن میری عمر کے ساتھ بوڑھا نہیں ہوا تو میں کیاکروں؟‘‘انہوں نے رُندھی ہوئی آواز میں مجھ سے سوال کیا۔’’بیٹے کی پیدائش کے بعد جب میرے بدن پر ایک بھی سلوٹ نہیں پڑی تو شوہر بہت خوش ہوا تھا ،مگر وہی بیٹا بڑا ہو کر چبھتے ہوے سوال کرتے ہوے کہتا ہے کہ میں کیوں خود کو جوان بنانے اور بہو کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ اور اس کی بیوی کا خیال ہے کہ میں شوہر کے مرنے کے بعد غیر مردوں کو رجھانے کے لیے ایسا کرتی ہوں‘‘۔
وہ دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہیں۔ آج انہوں نے اپنے درد کا پورا قصہ مجھے سنا ڈالا تھا۔ میکسی گیلری کے دروازے پر پڑی سلوٹ زدہ ہورہی تھی، مگر ہمارے بستر کی چادر پر کوئی سلوٹ نہیں تھی۔ وہ کتنی خوبصورت ہیں یا ان کا بدن کیساہے، مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔ ان کا سر میری گود میں تھا ،مگر پہلے والے دن کی پاکیزگی اور احترام پوری فضا پر چھایا ہوا تھا۔ پھر ہمیں کب نیند آگئی کچھ پتا ہی نہیں چلا۔
دوسرے دن کی صبح کا آغاز معمول کے دنوں کی طرح ہوا تھا۔ میں جب شام کو لوٹا تو سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا، مگر میری چھٹی حس چاروں سمت پھیلے کسی بے نام درد کا احساس دلارہی تھی۔ اس درد کا تعلق اس بات سے تھا جو صبح فیکٹری جاتے ہوے میں نے سوچی تھی کہ میں انہیں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤں گا تاکہ وہ سکون بخش دوائیں لکھ دے۔اس حوالے سے میں ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ بھی لے آیا تھا۔ دوسرے دن میں انہیں زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے چند ٹیسٹ لکھے۔ چند روز بعد ہی میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ انہیں کینسر تھا۔ آخری حدوں کو چھوتا ہوا جیسے کوئی پرندہ اپنی زندگی کی آخری اور سب سے اونچی اڑان اڑرہا ہو۔
نرس نے آکر مجھے بتایا کہ ڈاکٹر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ میں فوراً آئی سی یو کی طرف بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر پہلے متعلقہ ماہر امراض کو وہاں جاتے ہوے دیکھا تھا۔ یقیناًوہی مجھے بلوارہے تھے۔
’’آپ کے علاوہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار ہے تو اسے بلوالیں‘‘۔
ڈاکٹر نے مجھے ایک طرف لے جاتے ہوے مایوسی سے کہا۔ ان کی سانسیں اب بہت ناہموار چل رہی ہیں‘‘۔
’’ڈاکٹر ان کا ایک بیٹا ہے۔ میں اسے کئی دن پہلے اطلاع کرچکا ہوں۔ مگر وہ کیوں نہیں آیا۔۔۔ یہ میں نہیں جانتا‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
’’آپ کا ان سے کیا رشتہ ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے سوال کیا۔
’’یہ میری پارٹنر ہیں۔۔۔ بزنس پارٹنر‘‘۔ میں نے پہلے سے سوچا ہوا جھوٹ بول دیا۔
’’ہم نے اپنی پوری کوشش کی ہے، مگر افسوس پہلے ہی بہت دیر ہوچکی تھی‘‘۔ ڈاکٹر نے میرے کاندھے کو تھپکتے ہوے کہا اور دوسرے مریضوں کی طرف چلا گیا۔
میں نے قریب جا کر انہیں دیکھا۔ دھیرے سے آواز دی ،مگر ان کے وجود کو نیند نے جکڑا ہوا تھا۔ وہ زندہ تھیں ، ان کی سانسیں دھیرے دھیرے چل رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر ابدی سکون پھیلا ہوا تھا۔ شاید وہ کوئی آسودگی بھرا خواب دیکھ رہی تھیں، جس کی وہ متلاشی تھیں اور جو ان کی ہتھیلی سے ریت کی طرح پھسل گیا تھا۔ میرا جی چاہا کہ میں انہیں جگا کر جھوٹے خوابوں کی دنیاسے حقیقی دنیا میں لے آؤں جہاں انتظار کی اذیت آخری سانس تک جھیلنا پڑتی ہے۔ مگر میں ایسا نہ کرسکا اور خاموشی سے باہر آگیا۔
رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا۔ میں گراؤنڈ فلور پر درختوں کے سائے میں بچھی بنچوں میں سے ایک پر سورہا تھا ۔ ان کے ہسپتال میں داخلے کے بعد میں صرف ایک بار ہی اپنے فلیٹ پر گیا تھا۔ مجھے کسی نے نہیں روکا تھا۔ مگر نہ جانے کیوں میں اپنی تمام تر نفاست بھری عادتوں کے باوجود خود کو ان سے لمحہ بھر کے لیے بھی دور کرنے کے لیے تیار نہ کرسکا۔ میرے لیے بنچ، بستر اورکینٹین، باورچی خانہ بن گئے تھے۔ یکایک میرے فون کی بیل بج اٹھی۔ دیکھا تو کاؤنٹر سے فون تھا۔ میں فوراً زینے کی طرف لپکا۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
دروازے پر مخصوص سلیپر پہنے بغیر ہی میں آئی سی یو میں چلا گیا۔ نرس نے مجھے دیکھا اور اشارے سے آر ایم او کو میرے آنے کی اطلاع دی۔ وہ میرے قریب آیا اور بولا۔
’’وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا ڈاکٹر۔۔۔‘‘ میں نے بے قراری سے پوچھا۔
’’آئی ایم سوری۔۔۔ وہ سروائیو نہیں کرسکیں گی‘‘۔ ڈاکٹر نے دھیرے سے جواب دیا۔
میرے پیروں تلے فرش لرزنے لگا۔ میں تیزی سے ان کی طرف بڑھ گیا۔ ان کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہ جاگ رہی تھیں۔ میں بالکل نزدیک چلا گیا۔ لمحہ بہ لمحہ ان کے چہرے سے زندگی کی شادابی یوں رخصت ہورہی تھی جیسے سورج کی گول سی ٹکیا دور سمندر میں دھیرے دھیرے اترتی ہوئی پوری غائب ہوجاتی ہے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی مگر تبسم کھل کر ابھرا ہی نہیں۔ جب انہوں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو دوڑ میں ہارے ہوے کھلاڑی کی طرح سانس لینے لگیں۔
’’ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ آپ جلدی اچھی ہوجائیں گی‘‘۔ میں نے انہیں جھوٹی تسلی دینے اور انہوں نے مسکرانے کی ناکام کوششیں کیں۔ پھر وہ اپنی سانسوں کو مجتمع کرنے میں لگ گئیں۔
’’نہیں آیا نا وہ؟۔۔۔ ‘‘ انہوں نے نقاہت بھری آواز میں بے بسی سے پوچھا۔ ’’جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ پلیز کسی کو اطلاع نہ کرنا، میں نے تب ہی آپ کے چہرے پر پڑھ لیا تھا کہ آپ اس سے ملنے گئے تھے‘‘۔
میں کٹ کر رہ گیا۔ میں کیا جواب دیتا، بس خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔ انہوں نے مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے سرہانے کی طرف اور قریب ہوگیا۔ وہ دھیرے سے بولیں۔
’’میں نے خدا سے دعا مانگی ہے‘‘۔
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کاش مجھے وہ اس دنیا میں ایک بار پھر بھیج دے۔۔۔ تمہاری ماں۔۔۔ یا پھر تمہاری بیوی کی صورت میں۔۔۔‘‘
بولتے ہوے ان کے چہرے پر ایک لمحہ کو عجیب سی چمک ابھری تھی۔ میں ان کی ناآسودہ آرزوؤں کو سمجھ رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ انہیں دلاسہ دوں۔ ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کے غم کو ہلکا کروں ،مگر میرے دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ میں ان کا ہاتھ کس حیثیت سے تھاموں؟ میرا دل مجھے مجبور کررہا تھا کہ میں ان کے ماتھے کا بوسہ لوں، مگر وہ اسے کیا نام دیں گی؟یہ سوچ کر میں کوئی بھی قدم اٹھا نہیں پارہا تھا۔ چند ساعتوں کو انہوں نے اپنی آنکھیں بند کیں تو میں یکایک لرز کر رہ گیا۔ میں نے جلدی سے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ ان کے ٹھنڈے ہاتھ نے میرے ہاتھوں کی گرماہٹ کو محسوس کیا تو انہوں نے دھیرے سے آنکھیں کھولتے اور اپنی سوچوں کو یکجا کرتے ہوے کہا۔
’’اور اگر یہ سب نہیں ہوسکتا، تو کم از کم اتنا ضرور کرنا کہ جب شادی کرو اور بیٹی پیدا ہو، تو اسے میرا نام دے دینا۔ کچھ نہ سہی، تمہاری بیٹی ہی بن کر آجاؤں گی‘‘۔
ان کی معصوم خواہشوں نے میری پتھرائی آنکھوں کوچھلکنے پر مجبور کردیا۔
’’مجھے روتے ہوے رخصت مت کرنا‘‘۔
ان کی التجا بھری آواز سنائی دی۔ میں نے حلق میں آئے تھوک کو نگلتے ہوے اپنے ہاتھ سے آنسو پونچھ ڈالے۔ انہوں نے دھیرے سے ایک بار پھر اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اب کی بار میں نہیں چونکا ۔ میں نے جان لیا تھا کہ انہیں نیند آرہی ہے۔ ان کا ہاتھ اب بھی میرے ہاتھوں میں تھا۔ میں دیر تک وہاں کھڑا انہیں دیکھتا رہا ۔وہ اب سوچکی تھیں۔ میں نے دھیرے سے ان کا ہاتھ بستر پر رکھا اور خاموشی سے آئی سی یو سے باہر آگیا۔ میں وہیں کوریڈور میں سمنٹ کی جالیوں سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور زندگی اور موت کے درمیان کی ساعتوں کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد آئی سی یو کا دروازہ کھلا۔ نرس نے مجھے اشارہ کیا۔ درمیانی ساعتیں گزرچکی تھیں۔ سورج کی سرخ ٹکیا سمندر میں گم ہوگئی تھی۔ ساٹن کی میکسی پر کوئی سلوٹ نہیں تھی، مگر اسے اب پہننے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
دوسرے دن ہسپتال کے تمام امور نمٹانے کے بعد جب میں انہیں ایمبولینس میں لے کر اپنے فلیٹ کی طرف روانہ ہوا تو ہسپتال کے گیٹ سے نکلتے ہوے دوسری سمت سے داخلی راستے پر ایک چمکتی ہوئی لمبی سی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر اسے بیٹھا ہوا دیکھ کر میں چونکا۔ یکایک میرا جی چاہا کہ میں اسے آواز دے کر بتاؤں کہ اس کی ماں مرچکی ہے اور وہ اب اس ایمبولینس میں ہے۔ لیکن انسانی جبلت نے خود غرضی اور نفرت کا لبادہ اوڑھتے ہوے مجھے اجازت ہی نہیں دی۔
کچھ ہی دیر میں ہم ایک دوسرے کی مخالف سمت میں جارہے تھے۔
(۲۰۱۱ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.