Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ستلج پھر بپھرا

دیوندر ستیارتھی

ستلج پھر بپھرا

دیوندر ستیارتھی

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کے ارد گرد گھومتی ہے جو ایسے وقت میں ستلج ندی دیکھنے آتی ہے جب ندی میں پانی کا بہاؤ پورے جوش میں ہوتا ہے۔ ندی کے اس جوش کو دیکھ کر گاؤں والے ندی کنارے جمع ہو جاتے ہیں اور اس پیر کا انتظار کرنے لگتے ہیں جس کے آتے ہی ستلج پرسکون ہو جاتی تھی۔ پیر کے آنے تک ستلج پوری طرح بپھر جاتی ہے۔ پیر ندی کنارے کھڑے ہو کر اسے پرسکون ہونے کی دعائیں کرتا ہے اور ستلج پرسکون واپس ہونے لگتی ہے لیکن ساتھ ہی پیر کو بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

    ان جنونی لوگوں کی باتوں پر انھیں غصہ آ رہا تھا۔ کبھی کوئی بڑا بوڑھا یوں بول اُٹھتا، جیسے پھٹا ہوا ڈھول دھپ دھپائے، کبھی کوئی ایسی آواز ابھرتی جیسے گیلا پٹاخہ پھٹ جائے۔ ستلج ان کا منہ چڑا رہا تھا۔ لیکن بڑے بوڑھے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے۔ بچوں کے لیے یہ ہلڑ مچانے کا موقع تھا۔ ادھیڑ عمر کے لوگ کسی طرح اپنی گھبراہٹ کو ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ اترسوں رات سے پانی کا زور بڑھ گیا تھا۔ لیکن پیر گاؤں میں نہ تھا۔ بڑے بوڑھے کہہ رہے تھے۔ بس پیر کے آنے کی دیر ہے اسے دیکھتے ہی ستلج شرافت سے پیچھے ہٹ جائےگا۔ اس شور میں نوجوانوں کی آوازیں الگ نوعیت رکھتی تھیں۔

    سکھی چند تو خیر اسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ لیکن نیرجا کے لیے یہ منظر نیا تھا۔ وہاں کھڑے کھڑے اسے وہ باتیں یاد آئیں جو اس نے کالج کے لان میں بیٹھے بیٹھے سکھیچند سے سنی تھیں۔ تیری بات دوسری ہے نیرجا، کیونکہ تو ابھی ستلج سے باتیں نہیں کر پائی، تو نے ستلج کو دیکھا ضرور ہے۔ لیکن ریل کے ڈبے میں سے۔ اتنے بڑے بڑے دریا سے تو نہایت ادب سے ملنا چاہیے۔ آرام سے کنارے پر بیٹھے رہو۔ گھنٹوں پانی کی طرف دیکھتے جاؤ۔ جب کہیں کوئی اس کا رازداں بن سکتا ہے۔ لیکن ریل کے ڈبے میں سے اس کی طرف دیکھ کر تم کیسے اس کا راز پاسکتی تھیں۔۔۔؟ اور اس کے جواب میں اسے خاموش پاکر سکھیچند نے پھر کہا تھا۔۔۔ستلج کی پرانی عظمت اب کہاں نیرجا؟ بہت سا پانی نہروں میں چلا جاتا ہے۔ وہ بھی بُرا تھوڑی ہے۔ کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں، ستلج اسی طرح غریب ہوتا چلا گیا تو ایک روز بیچارے کا دیوالہ پٹ جائےگا۔۔۔

    سکھی چند نے سگریٹ سلگائی۔ نیرجا پرے ہٹ گئی۔ لیکن اس وقت اسے تمباکو ہی سے نہیں اپنے وجود سے بھی نفرت ہونے لگی تھی۔ کاہے کو وہ ادھر چلی آئی؟ آرام سے لاہور میں رہتی، روز نیا جوڑا باندھ کر نکلتی۔ نئی سے نئی ساڑھی پہنتی انارکلی میں مسکراہٹیں بکھیرتی۔ اس کا خیال کتنا غلط نکلا۔ تف ہے ستلج پر، ستلج کے پانیوں پر۔ پھر کہا جاتا ہے ستلج غریب ہے۔۔۔

    سگرٹ کا کش لگاتے ہوئے سکھیچند نے نیرجا کے قریب ہونے کی کوشش کی اور کہا، ’’ان جنونی لوگوں کو ہم نہ سمجھا سکیں گے نیرجا۔‘‘

    پانی کا زور بڑھ رہا تھا۔ بڑے بوڑھے جو بدستور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے، بت معلوم ہوتے تھے۔ بچوں کا ہلڑ کسی قدر دھیما پڑ گیا تھا۔ ادھیڑ عمر کے لوگ پیر کا انتظار کرتے کرتے اوب گئے تھے۔ نوجوان نیرجا کے جوڑے کی طرف گھور رہے تھے۔ یہ وہ جوڑا نہ تھا جسے نیرجا خود باندھ سکتی۔ اسے وہ ہمیشہ کی طرح ماں سے بندھواکر لائی تھی۔ پہلے موٹی مینڈھیاں گوندھی جاتیں، پھر انھیں پھرتیلی ہوشیار انگلیاں فنکارانہ انداز سے یہ شکل دے دیتیں۔ سکھی چند کو خیال آیا کہ گاؤں کے ایک ایک نوجوان سے نیرجا کا تعارف کرائے اور صاف صاف بتا دے کہ اس کا جوڑا بنگالی روایت کا حامی ہے اور یہ بھی بتا دے کہ اس کی رگوں میں پنجابی اور بنگالی خون مل کر بہہ رہا ہے۔

    نیرجا کو اپنے بوڑھے پروفیسر کا دھیان آیا۔ جو ہمیشہ اس بات پر زور دیتا کہ ہندوستانی موسیقی پر یونانی اثر غالب ہے۔ اسے اپنا لمبا قہقہہ بھی یاد تھا جو ایک بار بوڑھے پروفیسر کا مذاق اڑاتے ہوئے اس کے ہونٹوں سے پھوٹ نکلا تھا اور اس نے شرارتی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’’جب تو جناب کل کو یہ بھی کہیں گے کہ ہماری کوئل پر کسی یونانی پرندے کا اثر غالب ہے۔‘‘ اور اس پر ساری کلاس کھلکھلاکر ہنس پڑی تھی۔ سب لڑکے اسے ایک مورتی سمجھتے تھے، جسے ابھی ابھی کسی بت ساز نے نمائش میں لا رکھا ہو۔ اپنے جھمکوں کی تھرکن سے وہ ہمیشہ سکھی چند کو اپنی طرف متوجہ کیے رہتی اور تیرتھ جو اس پنجابی باپ اور بنگالی ماں کی بیٹی کو دوغلی کہنے سے باز نہ آتا۔ اس کا سب سے بڑا حاسد تھا۔

    سکھی چند کو تیرتھ کا خیال آیا جیسے وہ جھاڑیوں میں چھپا بیٹھا ہو اور ان کی طرف ایک طویل قہقہہ پھینکنے والا ہو۔ جب وہ بھی اس سے کہتا کہ نیرجا خوب گاتی ہے، وہ جی کھول کر زہر اگلتا اور کہتا ہندوستان کی غلامی کا سب سے بڑا سبب اس کی موسیقیانہ دلچسپیاں ہیں۔ اس نے سوچا اچھا ہی ہوا کہ اس موقعہ پر جب کہ سارا گاؤں خطرے میں ہے کسی کو گانے کا خیال نہیں آ سکتا، نہ نیرجا کسی فلمی نغمے کی دھن گنگنانے کی حماقت کر سکتی ہے۔

    یہ شور بھی تو ایک بےسرا نغمہ تھا۔ بار بار کچھ سر اونچے اٹھ جاتے۔ نیرجا حیران تھی کہ جب لوگوں کا شور پانی کو نہیں روک سکتا، تو اکیلے پیر کی دعا کیسے ایک کامیاب ٹونا بن کر پانی کا زور گھٹاتی چلی جائےگی۔ مسلمان اور ہندو سب پیر کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ سکھ اس ہجوم سے پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے تھے جیسے انھیں پیر پر اعتقاد نہ ہو۔

    اپنی اپنی بہی کو دکانوں پر چھوڑکر گاؤں کے بنیے بھی چلے آئے۔ ایک جگہ کھڑے ہوکر وہ بھی اس آفت کا جائزہ لینے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی سکھوں کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ شاید سب سے زیادہ خطرہ انھیں کو محسوس ہورہا تھا پھر سکھوں کے گروہ سے الگ ہوکر وہ بڑے ہجوم کے قریب سرکنے لگے۔

    ’’رام، رحیم، گورو میں کچھ بھید نہیں۔‘‘ ایک بوڑھا بنیا کہہ رہا تھا، ’’شردھا چاہیے شردھا۔ پجاری، پیر، گرنتھی سب اس کے ہیں، اسی کے گن گاتے ہیں۔‘‘ وہ سہمی ہوئی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ پھر سکھی چند کے قریب آکر بولا، ’’لاہور سے کب آئے تھے بیٹا؟‘‘

    ’’کل رات‘‘ سکھی چند نے چلاکر کہا۔

    نیرجا سمجھ گئی کہ بابا بڑھاپے میں بہرے ہو رہے ہیں۔ بابا نے نیرجا کو دیکھا ان دیکھا نہ کیا کیونکہ ابھی اس کی نگاہ قائم تھی۔ سکھی چند کے سر پر وہ شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔’’اور یہ کنیا کنواری؟‘‘

    ’’اس کے پتا ایک پنجابی سنگیت آچاریہ ہیں‘‘ بابا اور اس کی ماتا ہے خاص ڈھاکے بنگالے کی، خاص ڈھاکے بنگالے کی بٹیا۔ وہ بڑی نیک اور شریف عورت ہے۔

    ’’ہاں بابا۔‘‘

    ’’تو اس کے پتا کو ذرا ڈر نہ لگا؟ میں نے تو سنا ہے کہ ڈھاکے بنگالے کی استری پردیسی کو مکھی بناکر دیوار سے چپکا دیتی ہے۔ تو یہ کوئی اچھی بنگالن ہوگی بیٹا! کیا نام ہے اس کنیا کنواری کا۔‘‘

    ’’نیرجا!‘‘

    ’’یہ بھی کوئی ڈھاکے بنگالے کا نام معلوم ہوتا ہے۔ اب کہاں ہیں اس کے ماتا پتا بیٹا؟‘‘

    ’’لاہور میں ہیں بابا۔‘‘

    ’’تو وہ بنگالن بہت دیاوان نکلی۔ پردیسی کو اپنی غلامی میں رکھنے کی بجائے خود اس کی غلام ہو گئی۔ لاہور میں ہی جنم ہوا تھا اس کنیا کنواری کا؟‘‘

    ’’ہاں بابا۔ لاہور ہی میں اسے ستلج سے باتیں کرنے کا شوق تھا بابا۔ لیکن ستلج کو نامہربان دیکھ کر وہ اپنی بھول پر پچھتا رہی ہوگی۔‘‘

    ’’پچھتانے سے کیا لابھ؟ پیر کے آنے کی دیر ہے۔ پانی پیچھے ہٹ جائےگا۔ پچاس سال سے تو میں اسے پیر کے حکم میں بندھا ہوا دیکھ ہی رہا ہوں۔‘‘

    بابا نے دیکھا کہ سکھوں کا گروہ بھی بڑے ہجوم میں شامل ہو چکا ہے۔یہ اچھا ہی ہوا اس نے سوچا ایک کا خطرہ سب کا خطرہ، اتفاق بڑی چیز ہے۔ پیر بھی آ رہا ہوگا۔ رات کا بھیجا ہوا آدمی صبح سے دو گھنٹے پہلے ہی پیر کے پاس جا پہنچا ہوگا اور وہاں سے چلنے میں پیر نے دیر نہ کی ہوگی۔

    پرے ایک چّہ رور رہا تھا۔ اس کے ساتھی نے اسے دھکا دے دیا تھا۔ بابا نے پاس جاکر اسے اٹھایا اور اپنی جیب سے گڑ کا چھوٹا سا ٹکڑا نکال اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ بچے کی سِسکیاں جھٹ رک گئیں۔ اس کا شرارتی ساتھی جو قریب ہی کھڑا تھا، للچائی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو، اگر گرنے کا انعام گڑ کا ٹکڑا ہو سکتا ہے تو لو میں کھڑا ہوں لو مجھے بھی گرا دو اور نیرجا نے سوچا کہ سکھیچند بھی اسے گراکر بابا سے گڑ حاصل کر سکتا ہے۔

    ’’یوں کب تک کھڑی رہوگی نیرجا؟‘‘ سکھی چند کہہ رہا تھا میں جانتا ہوں بابا کی باتیں تمھیں اچھی نہیں لگیں۔ بزرگوں کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں نیرجا۔

    ’’اچھی کیوں نہیں لگیں بابا کی باتیں۔‘‘ نیرجا نے غصہ جھٹکتے ہوئے کہا، ’’بابا سے کہیں زیادہ تو مجھے تم پر غصہ آ رہا ہے۔ بابا نے تو صرف اتنا ہی پوچھا تھا اور یہ کنیا کنواری۔ اس کے جواب میں اتنا ہی کہہ دیا ہوتا کہ یہ کپور صاحب کی بیٹی ہے اور ہم کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں اور اب وہ ستلج کے درشن کرنے چلی آئی ہے، اس طرح بات یہیں ختم ہوجاتی۔ لیکن ڈھاکے بنگالے کا ذکر چھیڑ کر تم نے بابا کی حیرت کو دعوت دی۔ یہ سب شرارت تھی۔‘‘

    ’’بڑھاپا سر پر آپہنچا، لیکن تم نے دیکھا نیرجا کہ بابا کے من پر ابھی تک کنیا کنواری سوار ہے۔‘‘ سکھی چند نے صفائی پیش کی، ’’ڈھاکے بنگالے کے ذکر کی دیر تھی تم نے دیکھا بابا کہاں سے کہاں جا پہنچا۔‘‘

    ’’میں سب سمجھتی ہوں سکھی چند۔‘‘ وہ بولی اور سکھی چند نے بات کا رخ پلٹتے ہوئے کہا، ’’پرے اس پار وہ ٹیکرا ہے، نیرجا، جہاں کھڑے کھڑے سکندر نے اپنے سورماؤں کو آگے جانے سے اِنکار کرتے ہوئے سُنا تھا۔‘‘

    ’’میں کچھ نہیں جانتی، سکھی چند!‘‘

    ’’روایت یہی کہتی ہے۔‘‘

    ’’تم روایت کا اعتبار کر سکتے ہو، سکھی چند!‘‘

    سکھی چند نے کئی بار اس روایت پر شک کیا تھا۔ روایت وہ برف ہے جو ایک بار جم کر پگھلنا جانتی ہی نہیں۔‘‘ نیرجا کی طرف گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔’’ہاں میں سمجھ سکتا ہوں نیرجا، کہ سکندر اور اس کے سورما گھڑسوار اس گاؤں تک آ پہنچے تھے۔‘‘

    ’’اور کچھ یونانی سورما یہیں بس گئے ہوں گے۔‘‘

    ’’تم ٹھیک کہتی ہو نیرجا، کچھ یونانی سورما یہیں بس گئے ہوں گے۔ یہیں ان کے بیاہ ہوئے۔۔۔ہاں میں دیکھ سکتا ہوں ان لوگوں کے چہروں پر یونانی اور پنجابی خدو خال کا امتزاج پیشِ نظر ہے۔ ان کی رگوں میں اب تک یونانی اور پنجابی خون ساتھ ساتھ بہہ رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کا تمدن بھی دوغلا ہے۔‘‘

    نیرجا نے ناک سکوڑی، لفظ دوغلا سے اسے دلی نفرت تھی۔ لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ انتہائی ضرورت آ پڑنے پر اس کا استعمال ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سکھیچند نے معافی طلب نگاہوں سے نیرجا کے چہرے کا جائزہ لیا، جہاں پنجابی اور بنگالی خدو خال ملے جلے نظر آتے تھے۔ اُسے خیال آیا کہ کپور صاحب بھی ایک یونانی سورما کی طرح بنگال کے دوردراز گاؤں میں جا پہنچے تھے، جاتے ہی انھوں نے اپنا نغمہ چھیڑ دیا ہوگا۔ وہیں اُنھیں گھنگھریالے بالوں والی دلہن مل گئی۔ جس نے نیرجا کو جنم دیا۔ نیرجا کی ستواں ناک کپور صاحب کی مرہون منت ہے لیکن اس کے گھنگھریالے بال اور پیشانی اور ٹھوڑی کی ساخت ہوبہو بنگالی فن کا نمونہ ہے اور اس کے مدبھرے نین کہہ رہے ہیں۔۔۔اسی جگہ بنگال اور پنجاب کی سرحدیں ملتی ہیں۔

    نیرجا چلائی، ’’یہ لوگ تو ستلج میں بہہ ہی جائیں گے اور ان کی عقل تو کبھی کی بہہ چکی ہے کیونکہ انھیں بے بنیاد وشواش ہے اپنے پیر پر۔۔۔ہم بھی کیوں بہہ جائیں؟ اب تو وہ پیر آنے سے رہا۔‘‘

    سکھی چند نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’گھبراتی کیوں ہو نیرجا، ہمارے سورماؤں سے تمھیں واسطہ نہیں پڑا۔‘‘

    ’’تمھارے سورما۔۔۔ہاں تمھارے سورما۔‘‘ نیرجا نے طنزاً کہا، ’’جو سکندر کے حملے کو نہ روک سکے تھے۔‘‘

    سکھی چند کے جی میں تو آئی کہ اس کا کھراکھرا جواب سُنا ڈالے کہ جب بنگال کا دوردراز گاؤں اکیلے کپور کو نہ روک سکا اور سب کے دیکھتے دیکھتے کپور نے ایک بنگالی چھوکری کو دلہن بنا لیا تو ہمارا گاؤں اتنے یونانی سورماؤں کو کیسے روک سکتا تھا۔ جب ڈھاکے بنگالے کا جادو کام نہ آیا تو ہمارے ٹونے ٹوٹکے بھلا کیا کر سکتے تھے۔ اسے خیال آیا کہ سکندر کے حملے کا چھوٹا موٹا جواب تو اس گاؤں کے سورماؤں نے ضرور دیا ہوگا اور حتی الوسع اُنھوں نے اسے روکنے کی کوشش بھی کی ہوگی۔ لیکن سورماؤں کا طوفان کس کے روکے رکا ہے؟ اس کی لہریں گاؤں کے گھروں میں گھس آئیں بہت سی کنیائیں یونانی سورماؤں کی دلہنیں بنیں۔ انھوں نے خوبصورت بچوں کو جنم دیا اور ان کی لوریوں میں یونانی گھڑسواروں کے گھوڑوں کی ٹاپ بھی کھلی ہوئی تھی۔

    نیرجا پھر چلائی۔’’سکھی چند ان جنونی لوگوں کو ہم نہ سمجھا سکیں گے۔‘‘

    ’’ہاں نیرجا۔‘‘ سکھی چند کہہ رہا تھا، ’’لیکن ان سورماؤں میں بڑے بڑے تیراک بھی ہیں نیرجا اور یہ ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہاں کی لڑکیاں بھی تیرنا جانتی ہیں۔ تم ستلج کو خشمناک حالت میں دیکھ رہی ہو۔ ورنہ تم نے اسے بیحد پسند کیا ہوتا۔ یہاں کی لڑکیاں تیرتے تیرتے اس پار جا پہنچتی ہیں۔ اس وقت ان کے ایک ہاتھ میں سرسوں کے ساگ کے چھنّے پر رکھی ہوئی مکئی کی روٹیاں کھدر کے پرنے میں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔کیا مجال کہ تیرنے کے دوران پانی کا چھینٹا اِن روٹیوں پر آ گرے۔ تم یہاں رہو تو تم بھی تیرنا سیکھ جاؤ۔ جب ستلج مہربان ہوتا ہے تو بیحد مہربان ہوتا ہے۔ مجھے اس کی خشمناکی دیکھ کر اس کی مہربانیاں نہیں بھول سکتیں۔ اچھے دنوں میں تم ستلج کے کنارے آ بیٹھو تو اس کی لہریں تمھارے ساتھ باتیں کریں گی، وہ تمھیں تیرنے کی دعوت دیں گی۔‘‘

    ’’دیکھو پیر ابھی تک نہیں آیا سکھی چند! یہ سورما تیراک دیوار بناکر کھڑے ہو جائیں اور بڑھتے ہوئے طوفان کو آگے بڑھنے سے روک لیں، یہ بات میری سمجھ میں آ سکتی ہے۔ لیکن اس میں پیر کیا کرےگا؟‘‘

    ایک لمبی بارش کے بعد سورج برابر چمک رہا تھا جیسے سورج کی کرنیں بھی کہہ رہی ہوں، ابھی بادل پھر گھر آئیں گے اور پھر ہوگی وہی موسلادھار بارش جو کسی کے تھامے نہ تھمےگی اور اس میں پیر کیا کرےگا۔۔۔؟ سکھی چند نے بات کا رخ ستلج کی مہربانیوں کی طرف پلٹتے ہوئے کہا، ’’یہ بھی ہو سکتا ہے نیرجا کہ ستلج کو پھر سے یاد آ جائے کہ ہم اُسی کی سنتان ہیں۔‘‘

    پیر ابھی تک نہیں پہنچا تھا اور پانی کا زور پہلے سے بہت بڑھ گیا تھا۔ بڑے بوڑھے برابر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے، ’’یا خواجہ خضر!‘‘ ہجوم میں سے ایک بوڑھی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سنائی دی اور پھر سینکڑوں آواز مل کر دعا مانگنے لگیں، ’’یا خواجہ خضر!‘‘ سب لوگ مل کر کھلے پانیوں کے تنہا رہنما خواجہ خضر کو پکار رہے تھے اور یہ ناممکن تھا کہ خواجہ خضر اتنے لوگوں کی اجتماعی دعا کو ٹھکرا دیتا۔

    سکھی چند نے نیرجا سے کہا، ’’پیر اب آئے نہ آئے، پیر کا کام اب لوگ خود کریں گے۔ انھیں اپنی طاقت پر بھروسہ ہے۔ خواجہ خضر کے انصاف پر اعتماد ہے۔‘‘

    ادھر سے بابا نیرجا کے قریب آکر بولا، ’’طوفان اب تھما کہ تھما۔ اب مت گھبرانا۔‘‘

    اور بہرے بابا کے کان کے قریب منہ لے جاکر نیرجا نے بلند آواز سے کہا، ’’ہاں بابا۔‘‘

    بابا نے للچائی ہوئی نگاہوں سے نیرجا کی طرف دیکھا۔ سکھی چند کو یوں محسوس ہوا جیسے بابا کی دوردراز جوانی سمٹ کر نزدیک آ گئی ہو اور جیسے دوردراز ماضی بھی زمانۂ حال میں تبدیل ہو گیا ہو اور جیسے سکندر کا حملہ خاص اسی صدی کا واقعہ ہو وہ خیالات کی لہروں میں کھو گیا۔۔۔تنہائی اور سکوت کا عالم تھا اور کوئی ایک نوجوان دھیمے سروں میں کہہ رہا تھا۔ ہاں تو تمھاری ماں سچ کہتی تھی۔ کیا کہتی تھی وہ؟ یہی ناکہ بیٹی! تمھارا دولھا گھوڑے پر سوار ہوکر آئےگا۔ میں آ گیا۔ مجھے دیکھ لو۔ مجھے پسند کر لو۔ میری دلہن بن کر تمھیں گھاٹا نہیں رہےگا۔۔۔اور پھر خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک چھوکری کی آواز آئی۔۔۔ہاں میرے راجہ، میں تمھاری دلہن ہوں۔ یہیں رہنا۔ بھاگ مت جانا۔ یہ نہ ہوکہ لوریاں دیتے ہوئے میں اپنے بچے کے روبرو عمر بھر اس کے پردیسی باپ کی شکایت کرتی رہوں۔۔۔

    سکھی چند کو محسوس ہوا کہ یہ آخری آواز اس کی اپنی ماں کی آواز تھی۔ اسے وہ پھبتی یاد آئی جو تیرتھؔ ہمیشہ اس پر کسا کرتا۔۔۔ ’’سکندر کا بیٹا۔‘‘ اس وقت آئینہ سامنے ہوتا تو یقیناً اسے اپنے خدوخال پر یونانی اثر غالب نظر آتا۔ تیرتھ کی پھبتی اسے بہت بڑی حقیقت معلوم ہونے لگی۔ لاکھ کوئی کہے سکندر کا قصّہ بہت پہلے کا ہے۔ اگر آج بھی کپور صاحب ڈھاکے بنگالے کی دلہن حاصل کر سکتے ہیں تو بھلا سکندر ہی ستلج پار کے گاؤں میں کیوں بیاہ نہیں رچا سکتا۔ تیرتھ سچ کہتا تھا۔۔۔سکندر کا بیٹا، سکندر کا بیٹا۔طوفانی لہروں کے اُس پار وہ ٹیکرا تھا جہاں کھڑے ہوکر سکندر نے اپنے سورما گھڑسواروں کو دنیا پر فتح پانے کے آدرش کی تکمیل کے لیے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کی ترغیب دی تھی۔ لیکن اس گاؤں میں آکر وہ خود ہار گیا۔۔۔ایک لڑکی کے روبرو اور آج سکندر کا بیٹا بھی تو اپنی ہار مان رہا تھا۔۔۔نیرجا کے روبرو۔ جس نے ابھی تک اُسے قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے خیالات نیرجا کو ہمیشہ دوغلے معلوم ہوتے اور یہ سکندر کا بیٹا جھنجھلا کر کہہ اٹھتا۔ ہماری انسانیت، ہمارا تمدن، ہمارا فن، آج کچھ بھی تو دوغلاپن سے مبرا نہیں، نیرجا!

    پیر آ پہنچا اور ہجوم کا شور بلند سے بلندتر ہوتا گیا۔ بوڑھے پیر پر لوگوں کی امیدیں مرکوز ہو گئیں۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ پیر کس طرح دعا مانگے گا اور کون کون سے نئے اور پرانے ٹونے استعمال کرےگا۔ انھیں بس ایک ہی خیال تھا کہ طوفان اب اور نہیں بڑھ سکتا اور سب کے دیکھتے دیکھتے پانی پیچھے ہٹ جائے گا۔ بابا اپنی بوڑھی آواز سے چلایا، ’’سب پرے ہٹ جاؤ۔ پیر کو دعا مانگنے دو۔ پچاس سال سے تو میں اسے پیر کے حکم میں بندھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’پیر کو ستلج کا منتر یاد ہے۔‘‘ ایک بڑھیا براہمنی کہہ رہی تھی۔’’دھنیہ ہو، ستلج دیوتا تمھاری شکتی اپرم پار ہے۔‘‘

    روتے ہوئے بچے چپ ہو گئے۔ بڑوں بوڑھوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب انھیں پتھر کے بُتوں کی طرح دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑے رہنے کی ضرورت نہ تھی۔ دوشیزائیں اور نوجوان پیر کا جادو دیکھنے کے لیے منتطر تھے۔

    پیر خاموش تھا۔ ابھی تک اس کے ہونٹ نہ ہِلے تھے۔ شاید وہ اپنی تمام طاقت ایک نقطے پر جمع کر رہا تھا۔ یہ اس کا امتحان تھا۔۔۔اس کی دعاؤں کا امتحان۔ یا شاید وہ کوئی بھولا ہوا داؤ یاد کر رہا تھا۔ اسے سچے سائیں پر اعتقاد تھا۔

    پہلے بڑے بوڑھوں نے پیر کے پاؤں چومے۔ پھر ادھیر عمر کے لوگوں نے، پھر جوانوں نے۔۔۔اور اب دوشیرائیں باری باری پیر کے پاؤں چوم رہی تھیں۔

    نیرجا کو یوں ہجوم سے ہٹ کر تماشہ دیکھنا ناگوار گذر رہا تھا۔ سکھی چند کا کندھا چھنجھوڑتے ہوئے بولی، ’’چلو چل کر پیر کو منتر پڑھتے دیکھیں، سکھی چند، ذرا چلنے سے پیروں میں خون بھی حرکت کرنے لگے گا۔‘‘

    یونہی وہ ہجوم کے قریب پہنچے انھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پانی بدستور بڑھا چلا آتا ہے۔ بڑے اطمینان سے وہ پیر کے جادو کا انتظار کرنے لگے۔ ہجوم کے شور سے کچھ آوازیں ابھرتی دکھائی دیں، کچھ مردانہ، کچھ زنانہ۔۔۔

    ’’رات بھر میں بشنے کا کھیت کٹ گیا۔‘‘

    ’’طوفان ہٹ بھی جائے تو وہاں اب ریت ہی ریت ہوگی۔‘‘

    ’’اب پیر کا ٹونا ریت کو کیسے دور کر سکتا ہے؟‘‘

    ’’اِتنا تھوڑا ہے کہ پیر ڈوبتے گاؤں کو بچا لے۔‘‘

    ’’پیر تو گاؤں بھر کا باپ ہے۔‘‘

    ’’ہاں بہن، ستلج پیر کی بات نہیں ٹال سکتا۔‘‘

    ’’پیر ناراض بھی ہوگا تو ہمیشہ کے لیے ناتا توڑنے سے رہا۔‘‘

    ’’پیر کا صدقہ میری باریک باریک مینڈھیوں کو رب خیر کرے، ستلج پیچھے ہٹ جائے۔‘‘

    ’’دودھ پوت پر پیر کی مہر۔‘‘

    ’’پیر ریت کو چھو دے تو سونا ہو جائے، پانی کو چھو دے تو دودھ ہو جائے۔‘‘

    لیکن پیر خاموش تھا۔ بابا بھی اس کے قریب کھڑا تھا۔ نیرجا کو اپنے قریب پاکر بابا نے پھر بوڑھی آواز کا مظاہر کیا، ’’پچاس سال سے تو میں اِسے پیر کے حکم میں بندھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    سکھی چند کو بابا کی آواز پر جھنجھلاہٹ محسوس ہوئی۔ نیرجا کے کان کے قریب منہ لے جا کر اس نے پوچھا، ’’کیوں نیرجا، یہاں اچھا لگتا ہے یا پھر ہجوم سے ہٹ کر کھڑے ہونا پسند کروگی؟ مجھے تو یہاں متلی ہو رہی ہے اور اس شور میں میرے کان الگ پھٹے جا رہے ہیں۔‘‘

    ’’خواجہ خضر کے پاؤں کسی کنیا نے چومے ہوں یا نہیں۔‘‘ نیرجا کہہ رہی تھی، ’’لیکن پیر کے پاؤں تو سب کنیائیں چوم رہی ہیں، بابا کو دیکھو، وہ بھی شاید پیر کے ساتھ منتر پڑھےگا۔‘‘

    ’’بابا کی کیا بات ہے نیرجا! ان گنت صدیوں سے وہ پیر کے ہمراہ منتر پڑھتا آیا ہے۔ لیکن اس وقت کہاں تھا اس کا منتر جب سکندر نے حملہ کیا تھا؟ تب پیر کی بھی پیش نہ چلی۔‘‘

    نیرجا بولی، ’’پیر کے پاؤں چومنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ سکھی چند۔۔۔سکندر سے بھی پرانی۔ خواجہ خضر پرانے وقتوں کا جل دیوتا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ماضی کی منجمد رسم پر مجھے بری طرح غصہ آ رہا ہے۔‘‘ سکھی چند نے شہ دی لاکھ کوئی کہے کہ جل دیوتا کی پوجا دوغلے پن سے مبرا ہے۔ میرا دماغ اِن جنونی لوگوں کی طرح کبھی اسے قبول نہیں کر سکتا۔‘‘

    نیرجا کی انگلیاں بار بار جوڑے کی طرف اٹھ جاتیں پنجابی نائین ایسا جوڑا نہ گوندھ سکتی تھی، یہ تو بنگالی ہاتھوں کا کام تھا۔ یہ جوڑا ہی سکھی چند کو اس کے قریب لایا تھا اور سکھیچند کا یہ خیال کہ پنجابی دوشیزہ کے سر پر باریک مینڈھوں کا باریک جال یونانی آنکھوں کو بھی پسندآیا ہوگا، اسے سرے سے بے سر پیر کی گپ نظر آنے لگا۔

    قریب ہی ایک دوشیزہ نیرجا کو گھورگھور کر دیکھ رہی تھی۔ جیسے وہ حیران ہوکہ یہ عجیب و غریب جوڑے والی لڑکی پیر کے پاؤں کیوں نہیں چومتی اور دعا کیوں نہیں مانگتی۔ پیر کا صدقہ میرے جوڑے کو ربّ خیر کرے، ستلج پیچھے ہٹ جائے۔

    پانی کی سطح نیچی تھی۔ طوفانی لہریں پہلے کنارے کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتیں پھر جب بڑا سا تودہ گرجاتا تو ان کا حملہ شروع ہو جاتا۔

    لوگوں کو برابر اپنے بوڑھے پیر پر اعتقاد تھا۔ بچے بوڑھے، جوان سب شور مچا رہے تھے۔ جیسے یہ شور بھی پیر کے ٹونے کا جزو ہو، لیکن پیر آگے بڑھنے سے جھجکتا تھا شاید اسے اپنی طاقت پر یقین نہیں رہا تھا۔ جب سے وہ آیا تھا کنارے سے کئی تودے گر کر پانی میں ڈوب گئے تھے۔

    بڑے بوڑھوں نے ایک بار پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ بچوں نے پھر سے ہلڑ مچانا شروع کر دیا۔ ادھیڑ عمر کے لوگ بچوں کو چُپ کرانے کے بہانے خود بھی اس ہلڑ میں حصہ لے رہے تھے۔

    سب سے زیادہ خطرہ بنیوں کو محسوس ہو رہا تھا اور بابا انھیں سمجھا رہا تھا، ’’اب گاؤں کو کوئی خطرہ نہیں۔ بس دیکھتے جاؤ۔ ستلج بیچارے کی کیا مجال کہ پیر کی حکم عدولی کرے۔ پچاس سال سے تو میں اسے پیر کے حکم میں بندھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    پیر اب دعا مانگ رہا تھا۔ وہی ستلج تھا، وہی پیر۔ بابا حیران تھا آج ہو کیا گیا؟ آج صبح کس کا منہ دیکھا ہوگا پیر نے آنکھ کھلنے پر، کلجگ ہے کلجگ۔ انصاف چلا گیا۔ جھوٹ نے پاؤں پھیلا لیے۔ پیر کی دعا میں بھی طاقت نہیں رہی۔

    دیکھتے ہی دیکھتے کئی تودے گر گئے اور اب ان سے گستاخ لہریں ٹکرا رہی تھیں۔ پیر بھی حیران تھا۔ لیکن وہ بدستور دعا پڑھ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ ستلج کو ہٹنا پڑےگا۔ آہستہ آہستہ وہ کنارے کے قریب سرک رہا تھا۔

    سکھی چند نے نیرجا کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا، ’’نیرجا۔۔۔نیرجا! طوفان تو آتے ہی رہیں گے۔ ان پر کسی پیر کا حکم نہیں چل سکتا۔۔۔دریاؤں کے طوفان۔۔۔تہذیب و تمدن کے طوفان۔۔۔ستلج کو تو تم نے دیکھ ہی لیا۔ اب اور کیا چاہیے۔۔۔؟ چلو اب یہاں سے چلیں۔‘‘

    ادھر ہجوم کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا کیونکہ ایک اور تودہ پانی کی نذر ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی بپھرے ہوئے ستلج کی بپھری ہوئی لہریں بوڑھے پیر کو اس ہجوم، اس گاؤں، اس شور و شغب سے دور بہائے لیے جا رہی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے