Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ستیہ وان

شہناز رحمن

ستیہ وان

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    ممی! میں نے نیٹ پہ پورا ایریا دیکھ لیا ہے ۔ اور آپ کے بتانے کے مطابق ٹھیک اسی لوکیشن پر ایک محلہ بھی ہے جس کا نام علی پور ہے ۔آپ پاپا سے کہہ دیجیے اس سال کی چھٹی میں ضرور انڈیا لے کر چلیں ۔

    لیکن آپ کے پاپا نے تو ساؤتھ افریقہ جانے کا پلان کیا ہے اریطہ نے بہانہ بنایا۔

    میں کچھ نہیں جانتا اس بار کوئی Excuseنہیں چلے گا ۔ اور ہاں جب انڈیا جائیں گے تو نانی سے ملنے علی پور بھی چلیں گے ۔

    انڈیا جانے کی بڑی خواہش ہے جاؤ گے تو رہوگے کہاں؟

    کیوں؟

    دادا جان ہم سے ناراض ہیں گھر میں داخل ہی نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ سب چھوڑو اپنی پڑھائی کر وتمہارا سلیکشن ہوجائے پھر چلیں گے ۔ اریطہ نے کہا۔

    ماتا گریٹ!!! آپ بھول کیوں جاتی ہیں کہ میں قاضی شمس الدین کا پوتا ہوں ۔ میں جاؤں اور دادا جان مانیں نہیں؟ ایساہونہیں سکتا،۔۔اور جہاں تک میرے سلیکشن کی بات ہے ،وہ تو ضرور ہوگا۔۔

    دائی صاحب اپنی وہ کہاوت ممی کو سنادیجیے جو میرے لئے کہا کرتی ہیں ۔

    بابت پوت پراپت گھوڑا کچھ ناہیں تو تھوڑم تھوڑا۔ ارے بٹواکَے’ باجی توکَے ’سِکَھا’ئیں یاد کرائن لیکن اتنا مُوٹ مُوٹ کتاب یاد کرلَیت ہواِی’ نائیں یاد کر پائین ۔ دائی صاحب نے کہا ۔

    کیا کروں دائی صاحب ؟؟میرے والدین مجھے انگریز بنا نا چاہتے ہیں کبھی انڈیا کی شکل ہی نہیں دکھائی تو انڈین کہاوت کیسے یاد کر پاؤں ؟؟ وہ تو آپ کا کرم ہے کہ تھوڑا بہت سکھاتی رہتی ہیں ورنہ میری ماں تو صرف اردو ڈراموں کے ڈائیلاگز۔۔۔

    m

    ستیہ وان سرکس ٹیم کو آئے ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا پورے قصبے میں دھوم مچی تھی۔ بچے سے لے کر بوڑھے تک سب سرکس دیکھنے کے اتنے دیوانے ہوگئے تھے کہ راتوں کی نیند ترک کردی تھی سرکس ٹیم کی سب سے مشہور رقاصہ کا نام سب کی زبان پر چڑھا ہوا تھا ۔

    کھیتا لایادو نے آکر کہا ارے رکنو بابو کچھ سنے ہو!! سنت کبیر نگر میں سرکس آوا ہے اتنا مزیدار ہے کہ اوکرے آگے نکھلؤ والا اندر سبھا پھیل ہوگوا ہے ۔ ریتا نام کَے’ ایک لڑکی ہی پانچ روپیہ میں دس کھیل دیکھا وت ہِی’ ارے پوچھو نہ جیسے پُھر گدی اُڑت ہِی’ اگر دیھکے کے ہے تو چلو رات کے ہمرے ساتھے ۔

    رکن الدین نے کہا یا دو جی آپ اتنی تعریف کررہے ہیں تو ٹھیک ہے چل کے دیکھ ہی لیتا ہوں لیکن اباجان سے چھپ کے جانا پڑے گا اگر انھیں پتہ چل گیا تو شامت بنا کے رکھ دیں گے ۔

    سرکس گراؤنڈ میں کہیں پیر رکھنے کی جگہ نہ تھی ۔ پورا سنت کبیر نگر روشنیوں سے جگمگارہا تھا لائٹ ایک پل کے لئے نہ کٹتی تھی رکن الدین اپنی خیر کی دعائیں کرتے ہوئے کھیتا لا کے ساتھ سرکس دیکھنے تو چلے گئے مگر جلوؤں کا ازدحام دیکھ کر حیران ہوگئے ۔ اورگھبرا کر ایک کونے میں کرسی لے کر بیٹھ گئے ۔ ہزاروں کی اس بھیڑ میں بیشتر تونھیں پہچانتے ہی تھے ۔

    ضلع کلکٹریٹ قاضی شمس الدین کا بیٹا ہونے کی وجہ سے رکن الدین کوہرجگہ بڑی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے ۔یہاں بھی یہی ڈر تھا کہ کہیں والد کے دامن شرافت پر بدنما داغ نہ بن جائیں ۔

    سرکس دیکھنے کے بعد صاحبزادے نامدار رکن الدین سانولے سلونے مقناطیسی کشش رکھنے والی ریتا کو بھول نہ پائے ۔اس کی مخروطی انگلیاں جو بار بار گھنگھریالی لٹوں میں الجھ کر ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھیں نظروں کے سامنے گردش کرتی رہیں ۔

    دوسرے دن پھر کھیتالا نے کہا ۔ رکنو بابو سنے ہن کہ آج راجندر سنگھ بیدی کَے ڈرامہ اسٹیج پر کھیلا جائی ۔چلبودیکھے؟

    ایک طرف ریتا کی بولتی آنکھوں کی جادوئی کشش دوسری طرف بیدی کاڈرامہ ۔ شوق نظربے تاب ہوگئی ۔ساری احتیاط بالائے طاق رکھ کرنکل پڑے۔

    کھیل ختم ہونے کے بعد سب ڈھابے پر چائے پینے لگے چند باذوق ناظرین نے ریتا سے غزل سنانے کی فرمائش کی ۔

    وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

    وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

    مترنم آواز میں مومن کی غزل سن کرمدہوشی میں اضافہ ہوگیا۔ موصوف نامدار سرکس ٹیم کی مالکن کے پاس گئے، جو دیکھنے میں مدراسی لگتی تھی ریتا سے ملنے کی اجازت چاہی۔

    اس نے پہلے تو پوچھا ۔ تو کیوں ریٹا شے ملنا چاہتا ہے ۔ اڑاکے لے جائے گا کیا؟

    ناہیں میڈم اِی’ بہوت سریف گھر کَے’ ہیں جلع کلکٹریٹ کے بٹوا ہوئیں ۔ کھیتا لانے تعارف کرایا۔

    مالکن نے ملنے کی اجازت دے دی مگر ڈررہی تھی کہ نہ جانے کیا بات کرے گا کہیں اس سے مل کر ریتا پھسل نہ جائے ویسے تو بہت سے لوگ ریتا سے ملنے کی اجازت لیتے مگر رکن الدین کو دیکھ کر زیادہ ہی مرعوب ہورہی تھی ۔

    ریٹا کپڑے پہن کر آجالونڈا تجھ شے ملنا چاہتا ہے ۔۔

    ریتا نے آکر کہا ۔ نمستے ۔

    ’’تم نے ڈرامہ بہت پُراثرانداز میں کھیلا اور تمہارے سرکس نے تو اس علاقے کے لوگوں کو دیوانہ بنادیا ہے ‘‘

    رکن الدین کو اس کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا ۔

    دھنیواد۔ ریتا نے کہا۔

    آخر کار جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا ۔ سرکس سے نکلتے ہوئے مرزا حیات بخش نے رکن الدین کو دیکھ لیا۔ گورارنگ ، سفید براق سرسیدی داڑھی ، غلافی آنکھیں ، گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، لبوں پر پان کی سرخی دیکھ کر طبیعت مرعوب ہوجاتی مگر دماغ ذرا تخریب کی طرف مائل تھا ۔ جھگڑوں ، ہنگاموں اور بحثوں کومیرزاصاحب وجہ رونق سمجھتے تھے ۔

    صبح ناشتے کے بعد حیات بخش صاحب بن بلائے آدھمکے ،رات والی بات وہ کیسے ہضم کرسکتے تھے ۔

    قاضی صاحب سے علیک سلیک کے بعد اِدھر اُدھر نظر یں دوڑائیں،،پھرگویا ہوئے ۔۔کیا بات ہے؟؟ ’’وکیل رکن الدین صاحب‘‘ نہیں دکھائی دے رہے ہیں ‘‘؟

    ذرا طبیعت ناساز ہے ۔ قاضی صاحب نے کہا ۔

    تو چلئے ان کے کمرے میں چل کر مزاج پرسی کرلیں ۔

    کہیے صاحب ؟ آنکھوں میں ابھی تک خمار باقی ہے ۔

    قاضی صاحب!!! آج کل شہر میں بڑی رونق اور بھیڑ بھاڑ ہے۔۔مرزا صاحب نے گفتگوجاری رکھتے ہوئے کہا

    ’’ ایک بارمیں حیدر آباد آل انڈیا مشاعرے سے لوٹ رہا تھا ۔ ٹرین کا سفر تھا جب کانپور پہنچا تو ٹرین اس طرح خالی ہوگئی کہ بالکل ہو کا عالم چھا گیا ۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ کسی ناٹک کمپنی والوں کی آمد ہے ۔تمام مسافر ہی ناظرین تھے، جو دوسری جگہوں سے آرہے تھے ۔.۔۔ توحضرت۔۔۔ کل رات سنت کبیر نگر میں سرکس کے ناظرین کی تعداد دیکھ کر کانپور ہی یاد آیا ۔ ‘‘

    رکن الدین دل ہی دل میں ’’ جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو ۔ یا رحمن یا رحیم کا ورد کر نے لگے ۔۔کیوں کہ مرزا صاحب کی تمہید کا مدعا سمجھ چکے تھے ۔

    پان کا بیڑا منھ میں رکھتے ہوئے کہا ..... اور ایک بار لکھنؤ میں غالب کی شخصیت پر نیشنل سمینار اٹینڈکرکے واپس ہوا تو امین الدولہ پارک کے قریب ہوٹل نما کینٹین میں چائے پینے گیا تب لوگوں سے اس کمپنی کی تعریف سنی ۔ آج کل شہر میں ناظرین کی تعداد دیکھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ اس ٹیم کی بھی اسی طرح شہرت ہوگی۔

    آپ کی کیا رائے ہے وکیل صاحب! اس ٹیم کے بارے میں ؟ صرف ناٹک ہی ہوتا ہے یا کچھ ادبیت بھی ہے ، کوئی ڈرامہ وغیرہ اسٹیج کیا گیا یا نہیں ؟ یا محض آنکھوں کا شوق پورا کر نے جاتے ہیں ۔

    ہنگام پسند مرزا حیات بخش نے کسی طرح گھما پھرا کر قاضی صاحب کے گوش گزار کرہی دیا ۔

    ٹھیک ہے چلتا ہوں پھر کبھی آؤں گا ۔ خداحافظ

    مرزا صاحب اپنا مقصد پورا کر کے چلے گئے۔

    اچھا تو بستر مرگ پر آنے کی وجہ یہی ہے ۔ قاضی صاحب غصے پر قابو نہیں کرپارہے تھے ۔

    ہم نے سمجھا تھا کہ خطرہ ٹل گیا۔

    چار چھ برسوں کی کوشش سے جس عفریت سے جان چھوٹ گئی تھی وہ پھر سے ہمارے سروں پر منڈلانے لگا اور ہم سے لپٹنے کے لئے تیار ہو کر دھیرے دھیرے اپنے سر کو ابھاررہا ہے ۔ بیگم صاحبہ !!بیگم صاحبہ آپ اتنی لا تعلقی کا اظہار کیوں کررہی ہیں ؟؟

    ارے آپ ہم سے مخاطب ہیں؟؟

    جی ہاں محترمہ!! میرا روئے سخن آپ کے صاحبزادے رکن الدین صاحب کی طرف ہے انہوں نے پھر سے وہی پرانی عیاشیاں شروع کردی ہیں ۔

    بیگم قاضی شمس الدین سرپہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ گئیں۔ خاموشی میں ہی عافیت تھی۔

    بھائی صاحب صحیح تو کہہ رہے ہیں ۔ باجی رکنو تو مجھے باؤ لاد کھے ہے ۔ اور یہ سر کس والے سسر ے نہ جانے کہاں کہاں سے آجاوے ہیں ۔ جنیدی خالہ نے لقمہ دیا جو مراداآبادسے آئی تھیں ۔

    ’’صاحبزادے کو اسی لئے انگلیڈ بھیجا تھا تاکہ وکالت کر کے لوٹیں تو سرکس اور ناٹک گھروں میں جاکرناک کٹوائیں ‘‘؟؟

    m

    رندی ،حسن پرستی ،مستی کام یہی ہے مدت سے

    پیر کبیر ہوئے تو کیا ، چھوٹے ہے معمول کوئی

    یہاں بھی واقعہ کچھ ایسا ہی تھا.............

    وکیل رکن الدین کچہری سے واپس لوٹتے تو ستیہ وان سرکس کی طرف نظر کرم ضرور کرتے ۔ ریتا کی معاون روجینہ قاصد کاکام کرتی رہی۔

    ستیہ وان سرکس کو جب بھی منتقل ہونا پڑا ریتا ہی اس کا سبب بنی ،کبھی تو ریتا کی شہرت نے مالکن کو خوف زدہ کیا کہ کہیں اس کے اعزہ واقارب میں سے کوئی نہ پہچان لے ، توکبھی ریتا کی لاپروائیوں نے ناظرین کی تعداد کو گھٹا دیا ۔ تو کبھی اس کے فدائیوں نے عشق کا دم بھر کے اسے حاصل کرنے کا دعوی کیا ،ان کی وجہ سے فساد ہوا اخباروں میں خبریں چھپنے لگیں ۔۔’’کہ ستیہ وان سرکس کی ایکٹرس کے دیوانوں نے آپس میں خون خرابہ کیا ۔ ‘‘

    ریتا سے ملنے والوں کی تعداد دیکھ کر مالکن کو یہی آثار نظر آنے لگے تھے ۔وہ دھیرے دھیرے ریتا کو محتاط بنانے کی کوشش کررہی تھی ۔بنگلور کے شہر ٹمکور سے وہ اسے لے کر کس طرح فرار ہوئی تھی وہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی ۔سوچ رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کو چے سے بھی بے آبرو ہوکر نکلناپڑے۔

    m

    ستیہ وان سرکس شہر ٹمکور میں کئی مہینوں سے لگا ہوا تھا ریتا ہر روز بھاگ کر سرکس دیکھنے چلی جاتی۔ رفتہ رفتہ وہ بھی بعض کرداروں کی حرکتوں کی نقل کرکے سرکس کے مالکن کو دکھانے لگی ۔مالکن نے جب اس کی ذہانت اور دلچسپی دیکھی تو اپنی ٹیم کے دوسرے افراد سے مشورہ کر کے اسے سرکس میں داخل کرنے کی بیونت شروع کردی ۔

    آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے ۔ ریتا کسی طرح چھپ کر گھر سے نکل آئی تھی ۔ مالکن نے ملازموں سے کہہ کر ساراسازوسامان بندھوادیا تھا ۔ اور ان سب کو آگاہ کردیا تھا کہ ریتا کو ساتھ لے کر یہاں سے کوچ کرناہے۔

    ’’ریتا آج تو یہیں رک جا رات میں تجھے نئے نئے کھیلا شکھاؤں گی‘‘ ۔ مالکن کو یہ پتہ تھا کہ والدین کو چھوڑ کر اتنی آسانی سے جانے کے لئے تیار نہیں ہوگی ۔

    ممی کو تو پتہ بھی نہیں میں کہاں ہوں ؟؟میں کہہ کر آئی تھی کھیلنے جارہی ہوں رات کو گھر نہیں گئی تو مار پڑے گی ۔ ریتا نے کہا ۔

    ’’دھیرج رکھ تیری ممی کو میں شمجھادوں گی وہ نہیں مارے گی‘‘

    آدھی رات بیت چکی تھی ۔ بدر کامل کالے بادلوں میں چھپ گیاتھا،ستاروں کی آنکھیں پُرنم تھیں ۔نمرود کے لب ریتا کی قسمت پر مسکرارہے تھے ۔

    ریتا کی آنکھ کھلی ممی میں کہاں ہوں ۔ مالکن ہنسنے لگی اندھیرے میں صرف اس کے دانت چمک رہے تھے بالکل ڈائن لگ رہی تھی ۔

    ’’تیری ممی کو تُو’ گھر چھوڑ آئی، چپ چاپ سوجا کھیلا سکھانے کرناٹک لے جارہی ہوں‘‘۔

    روتے روتے ریتا کی ہچکی بندھ گئی ،چاند کی روشنی مدھم پڑگئی تھی گاڑی جنگلوں اور گھنے درختوں کے درمیان سے گزررہی تھی اس نے خوف سے آنکھیں بند کرلیں ۔

    اس کے غائب ہونے کے بعد اس کے والدین نے آس پاس کے قصبوں میں بہت ڈھونڈا ،دہاڑیں مار مار کے روئے مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔ جن جگہوں پر وہ کھیلنے جایا کرتی تھی وہاں کا چکر لگاتے لگاتے اس کے والد کے پیروں میں چھالے پڑگئے۔ ٹمکور شہر کی سڑکوں پر وہ چھالے پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔ ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ گم شدگی کی خبر اخباروں میں ، ٹی وی میں دیتے ۔ آخر قسمت کے فیصلے پر مطمئن ہوکر ریتا کی بہتر زندگی کی دعائیں کرتے رہے۔

    دس سال کی ریتا مکمل طور پر شباب کو پہنچ گئی ۔ مالکن ہی اس کی ماتا جی تھیں۔کرناٹک ، تمل ناڈو پنجاب ، ہریانہ، ممبئی ، جیسے شہروں میں ستیہ وان نے ریتا کی وجہ سے اپنا لوہا منوا لیاتھا ۔

    مالکن نے ریتا کو اس کے ماں ، باپ اور مذہب سے تو دور کردیا تھا مگر اس کے اندر ایک عورت کا دل باقی تھا۔ اس نے ریتا کی لاپرواہیاں دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ اب اس کی ٹرین پٹری سے اترنے والی ہے، اور ناظرین کاہجوم ایکٹنگ کے بجائے ایکٹرس کے جسم پر داد دینے لگا ہے ۔

    تجھے ڈھابے والا وجے کیشا لگٹاہے ؟ تیری مرضی ہوتو اشی شے تیرا بیاہ کردیتی ہوں ۔

    کیوں کہ مالکن روجینہ کے جسم پر کچھ واضح تبدیلیاں دیکھ کر گھبراگئی تھی کہ کہیں ریتا بھی کوئی کارنامہ نہ کر بیٹھے ۔ وہ کسی طرح سے اس کی شادی کردینا چاہتی تھی ۔

    بہت اچھا لڑکا ہے تجھے خوش رکھے گا ۔ میری عمر ہوگئی ، میرا کوئی بھروشہ نہیں ۔۔ستیہ وان آگے کیشے چلے گا کچھ پتہ نہیں ۔ اور دیکھ لڑکی جات کانچ کا گلاس ہوتا ہے جرا سا ٹھیس لگے تو ٹوٹ جاتا ہے ۔

    سرکس اپنی جگہ۔۔اورتیری عجت اپنی جگہ۔۔۔

    دوسرے دن ریتا رکن الدین کے قدموں میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ابرباراں کی طرح اس کی آنکھیں برستی رہیں اور اس کی آواز بیٹھ گئی ۔

    ’’ریتا میں تمہارے لئے کچھ کرنے کی کوشش کروں گا ۔مگر ناممکن ہے کہ میں کچھ مدد کرپاؤں بہتر یہی ہے کہ تمہاری ماتا جی جہاں کہہ رہی ہیں شادی کرلو ‘‘

    چاند اندھیری رات کے اس تھکے ہارے مسافر کی طرح مغربی افق کی طرف جھک گیا تھا جور ات بھر بغیر رکے سفر کرتا رہا ہو۔ ستاروں کی روشنی کمھلانے لگی تھی ۔۔مشرق سے سورج کے طلوع ہونے کے آثار نظر آنے لگے تھے ۔۔قاضی شمس الدین کی کوٹھی کے مغربی برج کے کنارے ریتا کھڑی ہوکر گردوں کی جانب دیکھ رہی تھی۔

    خود تو سا ت پردوں کے اندر چھپا ہوا ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے تو صرف اپنے عاشقوں کی نظر پر، عام دنیا نہیں دیکھ پاتی ۔مجھے رسوائے زمانہ کردیا ،پوری کائنات میں میری نمائش ہوچکی ہے ۔چرند پرند ،جانوراورانسان سب نے مجھ سے لطف اٹھایا، لاکھ پردوں میں بھی پوشیدہ ہو جاؤں مگر ناٹک والی ریتا ہی رہوں گی ۔ میری کیاخطا ہے؟؟ تو نے کیوں اس طرح کی بے طلب زندگی عطا کی ؟؟ سنا جاتا ہے کہ تو ذروں کی بھی سنتا ہے تو آج میری کیوں نہیں سن رہا ؟؟؟

    بے پردہ حسن عام کو پوری دنیا لطف لے کر دیکھتی ہے مگر جب قیمت لگانے کی بات آتی ہے تو بے نقاب حسینہ کی قیمت گرجاتی ہے اور مستور حسن کی قیمت بڑھ جاتی ہے ۔ بے حجاب حسن کو دیکھنے کے لئے لاکھوں کی بھیڑ رات میں جمع ہوتی ہے مگر آج دن کے اُجالے میں ایک بچہ بھی نہیں پہچان رہا ہے ۔

    m

    ’’ارے یہ تو سوریہ جی ہیں اس رات ماتا جی سے اجازت لے کر مجھ سے ملنے آئے تھے اور واپسی میں ہزار ہزار کے نوٹ ان کے ہاتھ پر رکھے تھے اور اس دن تو بڑے دعوے کر رہے تھے دوستی نبھانے کے۔مگر آج نظر انداز کیوں کر گئے ؟

    مجھ سے نہیں میرے جسم سے نبھانے کی بات کی تھی ۔ دن میں نہیں رات میں ۔

    ان پر یہ لباس ۔۔۔یہ لباس ۔۔شرافت کا لبادہ ۔۔؟؟مجھ پر آئے تو پہچان ختم کردے ۔

    لال گاڑی میں کون آیا تھا نام یاد نہیں ۔اس نے توماتا جی سے کھیلا کی تعریف بھی’’ٹھیک ہے مالک جَیسن آپ کَے’ حکم ہے ویسے کرب ‘‘انتظار کرتے کرتے شام ہوگئی ۔

    مغرب کی نماز پڑھ کر قاضی صاحب نے ریتا کو دیوان خانے میں بلوایا ۔رکن الدین داخل ہوئے تو دیکھا ریتا بیٹھی ہوئی ہے وہ بھی پوری طرح چادر میں لپٹی ہوئی ہے سوا ئے چہرے کے ۔ دوسری کرسی ملازم نے مولوی صاحب کو دی ۔

    موصوف کے حواس اڑگئے تھے ریتا بھی اتنی خوف زدہ کہ کاٹو تو خون نہیں ۔

    ’’آپ کو اس کوٹھی میں پناہ ملے گی مگر کچھ شرطیں ہیں ۔ آپ مولوی صاحب سے قرآن شریف پڑھنا سیکھیں گی، پنچ وقتہ کی پابندی کریں گی ،کسی مرد ملازم کی طرف نگاہ اٹھانا بھی گناہ ہے ۔یہاں کی دوسری ملازماؤں کی طرح اصول وضابطے کی شدید پابندی کرنی ہوگی ۔

    منظور ہے جیسا آپ کا حکم ۔

    ابو جان یہ محترمہ کون تھیں ؟ رکن الدین نے اپنی گھبراہٹ دور کرنے کے لئے کہا ۔

    یہ بنگلور سے آئی ہیں لاوارث ہیں ،مہینوں سے اس شہر میں نوکری کی تلاش میں پھر رہی ہیں ۔ ان کا اسم گرامی اریطہ ہے ۔ مگر مذہب اسلام اور شریعت سے واقفیت نہ دارد۔

    ریتا؟ اریطہ ۔ مسئلہ کیا ہے ؟ رکن الدین پس وپیش میں مبتلا تھے ۔

    ریتا کے بھاگنے کے بعد مالکن نے سنت کبیر نگر چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ کیوں کہ ریتا کے شیدائیوں کے سوالوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔

    کہتے ہیں کہ مسکراکر ہرغم کو گلے لگاتے ہوئے دیکھ کر گردش کے حوصلے مایوس ہوجاتے ہیں، بالکل یہی ریتا کے ساتھ بھی ہورہا تھا۔وہ دنیا کے نشیب وفراز کو سمجھ چکی تھی ۔ اس کی محنت شرافت اور قابلیت کو دیکھ کر کوٹھی کا ہرفرد متاثر ہوگیا تھا ۔ سرکس کی طرح رکن الدین کو بھی اپنی کتاب زندگی کا ورق ماضی سمجھنے لگی تھی ۔ اس نے اپنے رہن سہن سے کسی پر اپنی اصلیت ظاہر نہ ہونے دی ۔یوں ہی دو سال گزر گئے۔

    m

    ایک دن قاضی صاحب نے بیگم صاحبہ سے کہا کہ اریطہ بہت سلجھی ہوئی لڑکی ہے بچاری لاوارث ہے ۔ اب تو کافی دیندار ہوگئی ہے۔ جب آئی تھی تو کہہ رہی تھی کہ اس نے مندر میں پوجا تک کی ہے روزہ نماز تو دور کی بات ۔مگر مولوی صاحب کا کرم کہ پڑھا دیا اب تو باقاعدہ آخری پارہ حفظ بھی کرچکی ہے ۔ کوئی شریف نیک لڑکا دیکھ کر شادی کردیتے ہیں ۔

    صاحبزادے رکن الدین نے والد محترم کی گفتگو سن لی اور بے چین ہواٹھے ۔ بے خوف وخطر آتش عشق میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے ۔

    جب قاضی صاحب کے سامنے زخم محبت کا پردہ فاش کیا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے ۔

    رکن الدین نے یہ قدم اریطہ سے مشورہ کیے بغیر اٹھایا تھا ۔والد کے عتاب کا نشانہ بننے کے بعد یہ خدشہ ہوا کہ کہیں اریطہ انکارنہ کردے ، لہذا اس کے کمرے کا رخ کیا اور پرچہ لکھ کر دروازے کے نیچے ڈال دیا ۔

    ’’مجھے معلوم ہے تم مجھ سے بہت بدگمان ہوئی ہو، لیکن تم میرا یقین کرو تمہارا احترام پہلے بھی کرتا تھا اب بھی کرتا ہوں لیکن اب میرے پاس تمہاری شرافت اور وفاداری سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔ اور اب تم ریتا نہیں بلکہ اریطہ ہو ۔ اگرمجھ سے شادی کے لیے راضی ہو تو صبح والد صاحب کے دیوان خانے میں آجانا۔ ‘‘خداحافظ۔

    تمہارا

    رکن الدین

    قاضی صاحب کے غصے سے پوری کوٹھی لرزرہی تھی ۔ صبح ہوتے ہی مولوی صاحب کو بلاکر دونوں کا نکاح تو کردیا مگر ہمیشہ کے لئے اخراج کا فیصلہ بھی سنادیا ۔ اسلامی شریعت کے مطابق جائداد میں سے ان کا حق دے کر ہمیشہ کے لیے رخصت کردیا۔

    m

    ’’پندرہ سال کے بعد بھی پتہ نہیں ابو جان کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہوگا یا نہیں۔ میں نے ان کے سارے ارمانوں پر پانی پھیردیا ۔ میرے جانے کے بعد ان کا نہ جانے کیا حال ہوا ہوگا ؟؟

    بنگلور کے شمال میں ۷۰ کلو میٹر دور شہر ٹمکور میں واقع علی پور میں عمیر کھڑا ہوکر لیپ ٹاپ لئے مسلسل دیدہ ریزی کررہا تھا ۔ ممی آپ اِدھر اُدھر کیوں دیکھ رہی ہیں ۔خدا کے واسطے اسکرین پر لوکیشن دیکھ کر بتائیے کس جگہ نانی کا گھر ہے ؟

    اریطہ کا دل اندر ہی اندر مسوس رہا تھا وہ خود نہیں سمجھ پارہی تھی کدھر جائے ۳۰ سال کے لمبے عرصے میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ کوئی بھی صورت جانی پہچانی نہیں لگ رہی تھی۔

    اچانک دکانیں بند ہونے لگیں اور لوگ گاڑیوں سے اترکر کھڑے ہوگئے عمیر اور رکن الدین بھی کندھا دینے کے لیے آگے بڑھ گئے۔

    ایک شخص نے افسوس کرتے ہوئے کہا ، بڑابدقسمت ہے بچارہ ایک بھی اولاد نہیں جو کندھا دے سکے صرف ایک بیٹی تھی وہ بھی بچپن میں غائب ہوگئی سب سے زیادہ تو اسی کے غم نے کھا لیا ۔

    ’’ممی چلو دیکھو کوئی تو ہوگا جو تمہیں پہچانتا ہویا تم اسے پہچان لوگی ۔ اے پربھو! !!میری ماتا شری اس شہر میں آکر اتنی حواس باختہ ہوگئی ہیں کہ اگر ان کے Parentsبھی سامنے سے گزر جائیں تو نہیں پہچان پائیں گی ۔ ‘‘عمیر نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا

    ’’کیا کروں وقت نے سارے نقوش دھندلے کردئیے ہیں ۔ ‘‘اریطہ (ریتا)کی نظریں کندھوں پر سوار جاتے ہوئے مسافر کا تعاقب کررہی تھیں ۔

    ارے !!!کنول سوئیٹ ہاؤس ؟ اریطہ اپنی گھبراہٹ کو بالائے طاق رکھ کر مسکرانے لگی۔

    ہاہاہاہاہاہا۔۔۔گریٹ ۔۔عمیر اوررکن الدین خوشی سے اچھل پڑے

    کنول سویٹ ہاوس سے انھوں نے مٹھائی لی۔

    اسی درمیا ن وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے پیچھے سے کانپتی ہوئی آواز میں پکارا ۔۔اریطہ بیٹی!

    کنول انکل۔۔۔اریطہ گلے لگ گئی۔۔

    ’’کریم بھائی آخری سانس تک تیرا ہی نام لیتے رہے ۔آج۔۔آج۔۔

    کیا آج؟؟؟؟اریطہ کی سانسیں تیز ہو گئیں

    ’’ وہ سانس تھک گئی ۔۔‘‘

    بھابھی کوسورگ باسی ہوئے ایک سال ہو گیا۔

    شاید بھگوان نے تیرے لئے ہی اب تک مجھے زندہ رکھا تھا ۔

    خود کو سنبھالیے ممی! ؔ اور ذرا جلدی کرئیے فلائٹ کا ٹائم ہوگیا ہے میں انڈیا آتو گیا مگر میری ساری خواہشیں ناکام ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ۔

    بنگلور سے جہاز لکھنؤ پہنچ گیا۔ عمیر نے انگڑائی لیتے ہوئے ٹھنڈی ہوا میں سانس لی اورکہا تو یہ ہے شہر لکھنؤ۔۔ دائی صاحب کی تعریفوں کا پل ۔

    پگڑی باندھے ہوئے کھیتالا نے حیرت سے آنکھیں پھاڑے ہوئے پیچھے سے کن الدین کا ہاتھ پکڑلیا ۔

    پرنام ۔ رکنو بابو۔

    اباجان کا کیا حال ہے ؟

    نہ پوچھو بابو تُہرے جائے کے بعدبہوت بیمار رہت ہیں ۔ لیکن تبو تہے معاف نائی کرن ہیں ۔ بلک آوُر ناراج ہوی گئے ہیں ۔

    وہ کیوں ؟

    ارے نہ پوچھو بابو لمبی دڑھیا والے مر جا صاحب آئی کَے بتائے دہن کہ اریطہ مالکن ناٹک میں ناچَے’ والی لڑکی ہوئیں پھر ہم سے پوچھن ۔ ہم مجبور ہوکے کل ( صحیح) سہی بتائے دہن ،کہت رہے کہ’’ رکن الدین کو تو معاف کردیتا مگر اس نے میری عزت کی دھجیاں اڑادیں اور ایک بازاری لڑکی کو میں بہو کی صورت میں کبھی قبو ل نہیں کرسکتا‘‘۔

    اریطہ نے پھر ایک بار قسمت کے فیصلے کو گلے لگا لیا ۔۔

    رکن الدین نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔ اریطہ غائب ۔

    ’’طویل عرصے کے بعد’’ستیہ وان‘‘سرکس کاجلوہ کاٹھمانڈومیں‘‘

    اگلے دن کے اخبا ر کی شاہ سرخی تھی ۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے