Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ثواب جاریہ

عبدالصمد

ثواب جاریہ

عبدالصمد

MORE BYعبدالصمد

    کہانی کی کہانی

    ’’کہانی ایک مسلم محلے اور اس میں بنی مسجد کی ہے، جس کی انتظامیہ کمیٹی میں شامل کچھ لوگوں کے کردار سے عام لوگوں کو شکایت ہے۔ انہیں انتظامیہ کمیٹی سے ہٹانے کے لیے وہ لوگ جہاد کا اعلان کرتے ہیں۔ جس دن ان لوگوں کو جہاد کرنا ہوتا ہے، اسی دن پتہ چلتا ہے کہ اس انتظامیہ کے لوگوں نے تو اپنی ایک الگ مسجد بنا لی ہے۔‘‘

    مؤذن رونے لگا تھا۔

    زیادہ سے زیادہ دو مہینے۔۔۔ دو چار ہفتے، دو چار دن۔۔۔ یہاں تک کہ دو چار گھنٹوں میں چلتے نظر آتے زیادہ تر مؤذن۔

    شاید ایک غیریقینی صورتِ حال انہیں منظور نہ ہوتی یا پھر اور کوئی بات۔۔۔

    شاید یہی اور کوئی بات گفتگو کا موضوع بنتی۔

    مسجد کی کوئی مستقل آمدنی نہیں تھی، ہر گھر سے پانچ دس روپے جمع کئے جاتے اور ہر جمعہ کو لوگ رضاکارانہ طور پر صفوں کے درمیان اپنی ٹوپیاں لے کر گھوم جاتے۔ انہیں پیسوں سے امام اور مؤذن کے مشاہروں کی ادائیگی ہوتی۔ گھر گھر سے باری باری دو وقت کے کھانے آ جاتے۔

    مفلوک الحال مؤذن نے بتایا۔

    ’’مسعود بابونے بکری کا چارہ لانے کو کہا تھا، میں نے کہا ابھی جاؤں تو مغرب کی اذان نہیں دے سکوں گا، بس اسی بات پر۔۔۔‘‘

    ’’بس اسی بات پر۔۔۔؟‘‘

    ’’انہوں نے مجھے دھکے دیے، مارا اور پھر نوکری سے بھی۔۔۔‘‘

    ’’وہ کون ہوتے ہیں نکالنے والے اور انہوں نے مارا کیوں۔۔۔؟‘‘

    کئی تیز آوازیں۔۔۔

    مسعود صاحب اندر وظائف میں مشغول تھے۔ شور سن کر لپکے ہوئے باہر آئے۔

    ’’کیا بات ہے۔۔۔؟‘‘

    وہ جیسے بالکل انجان تھے۔ لمحہ بھر کو خاموشی۔۔۔ ایک نوجوان اپنی ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے آگے آیا۔

    ’’آپ نے مؤذن کو مارا، پھر نوکری سے بھی۔۔۔‘‘

    ’’ہاں نکال دیا، لیکن آپ۔۔۔؟‘‘

    مسعود صاحب نے چشمے کے اندر سے نوجوان کو سر سے پاؤں تک گھورا۔

    ’’آپ نے اس غریب کے ساتھ کیوں۔۔۔؟‘‘

    وہ کچھ زیادہ ہی تیزی دکھانے لگا۔ بقیہ خاموشی نیم رضا۔۔۔

    ’’میں ایسے بےہودہ شخص کا وجود برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔‘‘

    مسعود صاحب کا سکون قابل تعریف تھا۔ اس بات سے تو سب واقف ہی تھے کہ وہ مسجد کمیٹی کے صدر تھے۔

    ’’اور پچھلا مؤذن۔۔۔؟‘‘ لوگوں کو یاد آیا کہ۔۔۔

    ’’وہ نا فرمان تھا۔۔۔‘‘ مسعود صاحب نے حلیمی سے جواب دیا۔

    ’’اور اس سے پہلے والا۔۔۔؟‘‘ یادداشت اچانک عود کر آئی تھی۔

    ’’دیکھئے، میں کسی عدالت کو جواب دہ نہیں ہوں، یہ مسجد ہے، کوئی چنڈوخانہ۔۔۔‘‘

    اب مسعود صاحب کو غصہ آ گیا۔

    ’’خدا کا گھر۔۔۔ کسی کی پرائیوٹ پراپرٹی نہیں ہے۔ اس کی کمیٹی ہم سب نے مل کر بنائی ہے۔۔۔‘‘

    اشتعال بڑھ گیا۔

    ’’تو پھر آپ ہمیں کمیٹی سے ہٹا دیجئے۔۔۔‘‘ مسعود صاحب کا روایتی پر سکون انداز واپس آ گیا۔

    ’’جی ہاں۔۔۔ ایسا کرنا ہی پڑےگا۔۔۔‘‘

    اس روز مسجد میں جو ہنگامہ ہوا، وہ غیر معمولی تھا اور وہ بھی محض ایک مؤذن کے واسطے۔

    تیسرے دن مسجد میں ایک رقعہ لگا تھا۔

    ایک خاص گروپ پر اقتدار کا ناجائز استعمال، اقربا پروری، من مانی، تانا شاہی۔۔۔ خدا کے منادی مؤذن کو دو کوڑی کا آدمی سمجھا گیا۔ کتابوں میں درج ہے کہ قیامت کے روز مؤذن کا درجہ سب سے اونچا ہوگا، وہ اذان دیتا ہوا اونچے درجے طے کرتا جائےگا۔ اگر لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور اپنی گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہے تو ان کے خلاف زبردست تحریک چھیڑی جائےگی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

    محمود عالم اندھیرے منہ مسجد آتے تھے۔۔۔ اذان سے بھی قبل۔۔۔ سب سے پہلے انہیں کی نگاہیں رقعے پر پڑیں۔ وہ آگ بگولہ ہو گئے، تیز لہجے میں انہوں نے مؤذن کو آواز دی۔ وہ نیم غنودگی کے عالم میں ڈوڑایا۔

    ’’یہ کس نے۔۔۔ اسے کس نے یہاں لگایا۔۔۔؟‘‘ وہ دھاڑے۔

    مسجد کا گنبد گونج اٹھا۔ یہ گونج جمعہ کی نماز میں اذان کے وقت پیدا ہوئی تھی۔

    مؤذن کی تو گھگھی بندھ گئی۔ دو روز قبل ہی اس کی بحالی ہوئی تھی۔

    ’’میں تو۔۔۔‘‘

    وہ بولتا بھی کیا۔۔۔ مسجد میں کون آتا ہے اور آکر کیا کرتا ہے، باریک بینی سے ہر شے پر نظر رکھنے کی اس میں صلاحیت ہی کہاں تھی۔ محمود عالم بھی جانتے تھے کہ اس پر غصہ نکالنا دیوار پر مکے مارنے کے برابر ہے۔ انہوں نے رقعہ لگانے والے کو جی بھر کے برا بھلا کہا۔ اسی روز انتظامیہ کی طرف سے مسجد میں ایک اعلان نامہ چسپاں کیا گیا کہ مسجد میں نماز کے بعد کسی کو ٹھہرنے، وظائف ادا کرنے اور نوافل وغیرہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اذان کے بعد مسجد کھولی جائے گی اور جماعت ادا کرنے کے پندرہ منٹ بعد بند کر دی جائےگی۔۔۔

    لیکن تیسرے دن بھر پھر ایک رقعہ پایا گیا۔

    پرانی باتیں، انتظامیہ جانب دار۔۔۔ رجعت پسند۔۔۔ خدا کا گھر۔۔۔ جیب میں۔۔۔ مسجد کو ان ناپاک عناصر سے پاک کرنا بہت ضروری۔۔۔

    قوم و ملت کو ہر قربانی دینے کو تیار رہنا چاہئے۔

    اس دفعہ رقعہ کو سب سے پہلے مسعود خاں نے دیکھا۔ وہ سخت آدمی تھے اور کسی کی غلطی کو نظرانداز کر دینا ان کی ڈکشنری میں شامل نہیں تھا۔ وہ جہاں بھی رہے، انہیں کوئی اہم انتظامی عہدہ ضرور سونپا گیا۔ اس کے سبب ڈسپلن کا بول بالا رہتا۔ اس کا تقاضا تھا کہ قصور کے لئے ذمہ دار شخص کی نشان دہی کی جائے۔ اس وقت اس چوکھٹے میں مؤذن کے علاوہ اور کون فٹ ہو سکتا تھا۔

    اسے صبح صبح چلتا کیا گیا۔

    صبح کی نماز میں یوں بھی کتنے لوگ آتے تھے۔

    لیکن دوپہر ہوتے ہوتے یہ بات پھیل گئی۔ چھٹّی کا دن تھا، محلے کا ہر نکڑ اور دالان خوب گرم رہا۔ یہ گویا ایک چیلنج ہی تھا۔

    ’’ہمیں جہاد کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’جہاد۔۔۔؟ کس سے جہاد۔۔۔؟؟ یہ تو۔۔۔؟‘‘

    ’’جہاد کا صرف ایک ہی مقصد تو نہیں ہوتا، نفس کے خلاف بھی جہاد ہوتا ہے، یہاں تو اللہ کے گھر ہی کو اپنے نفس کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔۔۔‘‘

    ’’مسجد کو آخر ان لوگوں نے ہتھیایا کیسے۔۔۔؟‘‘

    ’’کمیٹی۔۔۔ کمیٹی نے انہیں مسجد کا مالک بنایا، کسی کو صدر، کسی کو سکریٹری، کسی کو۔۔۔‘‘

    ’’کمیٹی کے لئے یہی لوگ رہ گئے تھے۔۔۔؟‘‘

    ’’آخر یہ کمیٹی ہے کیا بلا۔۔۔؟‘‘

    ’’وقف بورڈ بناتا ہے اور پھر کمیٹی اپنی مجلسِ عاملہ۔۔۔‘‘

    ’’وقف بورڈ کو کون بناتا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’حکومت۔۔۔‘‘

    ’’اور حکومت کو۔۔۔؟‘‘

    آگے کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں تھا اس لئے گفتگو کا رخ پھر مسجد، من مانی اور بدعنوانیاں۔۔۔

    طے پایا کہ بعد عصر، مسجد میں یہ سوال اٹھایا جائے۔

    عصر میں حاضری معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ سلام پھیرتے ہی ایک شخص کھڑا ہو گیا۔

    ’’دعاؤں کے بعد مسجد میں درس ِ قرآن ہوگا۔ نمازیوں سے درخواست ہے کہ اس میں ضرور شریک ہوں۔۔۔‘‘

    دعاؤں کے بعد کچھ لوگ صحن میں نکل آئے اور کچھ درسِ قرآن میں حلقہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔

    ’’تلاوت کلام پاک کا سننا فرض ہے جب کہ پڑھنا۔۔۔‘‘

    صحن میں کھڑے کچھ لوگوں کو احساس ہوا کہ شاید انہوں نے کچھ غلط کام کر دیا ہے، کچھ حلقے میں جاکر شامل ہو گئے، کچھ چپکے سے باہر نکل گئے۔

    ضروریات کی ادائیگی بھی تو فرض ہے۔

    مغرب کی نماز کے بعد درسِ حدیث کا معمول تھا۔

    عشاء کی نماز کے بعد ایک مسکین صورت مؤذن دکھائی دے گیا۔ وہ کچھ زیادہ ہی ہوشیار تھا۔ نماز کے بعد کچھ لوگوں نے اسے باہر ہوٹل میں چائے پینے کی دعوت دی، جسے وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال گیا۔ صبح کی نماز کے بعد وہ جو غائب ہوا تو پھر ظہر کے وقت ہی اس کی آواز سنائی دی۔

    پھر عصر میں۔۔۔

    پھر۔۔۔

    یہاں تک کہ وہ گھر گھر کھانا مانگنےبھی نہیں گیا۔ اس دفعہ شاید مؤذن کو پبلک پراپرٹی بننے سے بچانے کی پوری کوشش کی گئی تھی۔ اب مؤذن کو بڑے لوگوں ہی کے یہاں کھانا تھا اور فاضل اوقات میں ان کے گھر کے بچوں کو پڑھانا۔۔۔

    یہ احتیاط کچھ دنوں تک کارگر رہی۔

    اچانک ایک دن پھر رقعہ پایا گیا۔۔۔ وہی رقعہ۔۔۔

    اتفاق سے اس رقعے پر بھی سب سے پہلے جس شخص کی نگاہ پڑی وہ مسعود خاں ہی تھے۔

    انہوں نے چپ چاپ رقعہ اتارکر جیب میں رکھ لیا۔ اس سلسلے میں مؤذن کے ساتھ انہوں نے کیا معاملہ کیا، اس کی خبر کسی کو نہ ہو سکی۔

    برسراقتدار گروپ کا مطلب۔۔۔ چار آدمی، صدر، سکریٹری، نائب سکریٹری اور خازن۔۔۔ امام صاحب کی حیثیت خصوصی مدعو کی تھی اور مؤذن کی۔۔۔؟

    مسعود خاں۔۔۔ خاں صاحب، اپنے زمانے کے نامی وکیل۔۔۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو بالکل سچ میں بدل دینے میں ماہر۔۔۔ کتنے نامی مجرموں، قاتلوں اور لٹیروں کو پھانسی کے پھندے سے صاف اتار لائے اور کتنے بے گناہوں، معصوموں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دلوا دی۔۔۔

    اس میں ان کا کیا قصور۔۔۔؟ وہ نامی وکیل کیسے بنتے اور کسی بھی مقدمے میں ان کی پیروی کامیابی کی ضمانت کیوں کر قرار پائی۔ خاں صاحب نے دونوں ہاتھوں سے دنیا بٹوری، خوب نام کمایا، خوب دولت کمائی، جب گھر میں، جیب میں، بینک میں، لاکرس وغیرہ میں پیسے رکھنے کی تل بھر جگہ نہ بچی تو وہ اپنے دونوں ہاتھ جھاڑکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ داڑھی رکھ لی، شرعی کرتا پاجامہ، فیشن ایبل کالونی میں اپنا خوبصورت اور ماڈرن مکان بال بچوں کے لئے چھوڑ دیا اور محض پانچ وقت نماز مسجد میں باجماعت ادا کرنے کی خاطر اپنی آبائی حویلی میں اٹھ آئے۔

    یہ تھے مسجد کمیٹی کے صدر جناب مسعود خاں۔

    سکریٹری محمود عالم۔۔۔ ریٹائرڈ انجینئر اِن چیف محکمہ آب پاشی۔۔۔ پیسہ، عزت اور شہرت گویا گھر کی لونڈیا۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ اپنی پسند کی جگہ پر تعینات رہے اور سدا منسٹروں، سکریٹریوں کو اپنی جیب میں رکھا، کہاوت مشہور تھی کہ عالم صاحب کی مرضی کے بغیر محکمہ آبپاشی میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ محکمہ آب پاشی ہندوستان جیسے خدا کی مرضی پر چلنے والے ملک کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے، اس سے کچھ وہی واقف ہیں جو سیلاب اور قحط جیسی آسمانی بلاؤں کو جھیلتے رہتے ہیں۔ ہر سال ان دونوں آفتوں سے نمٹنے کے لئے عوام کی جیبوں سے بے حساب پیسے نکل جاتے لیکن۔۔۔ آسمانی بلاؤں کو بھلا کون ٹال سکا ہے۔

    مگر انسان کو بنتے دیر نہ بگڑتے دیر۔۔۔ محمود عالم کو دیکھ کر بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ لمبی داڑھی، ہاتھوں میں تسبیح، جسم پر شرعی کرتا پاجامہ، سرپرٹوپی، آنکھوں میں سرمہ اور ہونٹوں پر ہردم شفیق مسکراہٹ رکھنے والے صاحب مدرسہ اور مسجد سے آگے کی کوئی چیز رہے ہوں گے۔

    مرضیٔ مولا۔۔۔

    نائب سکریٹری چودھری وحید الدین۔۔۔ اکسائز کمشنر کے عہدے سے ابھی حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے۔ وقت تھا جب چہار دانگ عالم میں طوطی بولتا تھا، کوٹھیوں، جائیداد، کاروں اور بینک بیلنس وغیرہ کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ بال بچے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بسیرا کرتے۔ یہ خود بھی کبھی ایک پاؤں ادھر، کبھی اِدھرکے مصداق بنے رہے، پھر دل میں کیا سمائی کہ حج کر آئے، اس کے بعد نہ امریکہ میں جی لگا نہ فرانس۔۔۔ اپنے شہر، اپنے محلے میں آبسے، پرانے خاندانی مکان کو ایک نیا رخ دیا اور مسجد کے ایسے پنج وقتہ نمازی بنے کہ اللہ دے اور بندہ۔۔۔

    خازن۔۔۔ کانوں سنی نہیں، آنکھوں دیکھی کہنے والے ابھی ہزاروں موجود تھے کہ انور برینڈ کی بیڑیاں اور حقے کا خمیر ایسا نشہ، جس میں نہ صرف ملک بلکہ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مبتلا تھا۔ ملک بھر میں ان کی فیکٹریوں کا جال بچھا ہوا تھا اور ہر اس شہر میں گودام جہاں غربت و افلاس زیادہ۔۔۔

    اور اپنے ملک کا کون سا شہر ایسا نہیں۔۔۔؟

    پہلے۔۔۔ بہت پہلے انکم ٹیکس والوں کی بدمعاشی سے ان کے ہاں چھاپہ پڑا تھا تو ٹرکوں روپے، سونے چاندی اور غیر ملکی زر مبادلہ وغیرہ کا ہفتوں چرچا رہا تھا۔ یہ سب تو اب بہت کم لوگوں کو یاد ہے۔ ان کی فیکٹریاں اب بھی خوب چل رہی تھیں اور ان کے سبھی گودام آباد تھے اگرچہ ان کی باگ ڈور انہوں نے اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں دے دی تھی جو بزنس مینجمنٹ کی بڑی بڑی ڈگریاں لے کر باہر سے آئے تھے، انور صاحب نے تو اب مسجد کا کونہ پکڑ لیا تھا، مزاج میں البتہ کچھ طنطنہ ابھی تک باقی تھا۔ انہوں نے مسجد کے کونے میں مکے سے لایا ہوا خوبصورت سرخ مخملیں جائے نماز بچھا رکھا تھا، اس پر صرف وہی بیٹھ سکتے تھے، کوئی انجان آفت کامارا، خدا کا گھر سمجھ کے اس پر بیٹھ جاتا تو بیچارے مؤذن کی شامت آ جاتی۔۔۔

    اس نے منع کیوں نہیں کیا۔۔۔

    اس چکر میں بھی کئی مؤذن اپنی نوکریاوں سے ہاتھ دھو چکے تھے۔

    تو یہ تھے جناب سراج انور۔

    ان چار تیز دانتوں کے درمیان ایک کمزور سی زبان۔۔۔ مولوی عبد الرحمن، امام مسجد۔۔۔ امام صاحب نے جوانی سے بڑھاپا بس ایک ہی حلیے میں کاٹ دیا تھا۔ وہ کلام پاک، میلاد شریف اور اردو کے تینوں قاعدوں کا ٹیوشن بھی کرتے اور مسجد کی ایک کوٹھری میں پڑے رہتے۔ محلے کی دو تین نسلوں میں دین کے سلسلے میں جو تھوڑی بہت واقفیت دکھائی دیتی،وہ انہیں کی مرہون منت تھی۔ زمانے کے بڑے اتار چڑھاؤ انہوں نے دیکھے لیکن یہ آخری مرحلہ ان کے لئے خاصا پریشان کن ثابت ہو رہا تھا۔ پڑھے لکھے لوگ اب ان کے مقتدی تھے جو ذرا ذرا بات میں مین میکھ نکالتے۔۔۔ زیر زبر۔۔۔ ق ک، ش س۔۔۔رکوع میں پورے طور پر جھکے یا نہیں، سجدہ سہو واجب یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بچارے امام صاحب کو پھر سے نماز کا قاعدہ پڑھنا پڑا۔

    ابھی تک تو وہ اس میدان کے بے تاج بادشاہ تھے۔

    کچھ دنوں تک معاملہ کچھ یونہی رہا، کسی کی طرف سے کوئی بال نہیں آیا۔ اچانک محسوس ہوا کہ اب صرف رمضان کے نماز اور محرم کے سپاہی نہیں رہے۔ مسجد کا ہال، سائبان اور صحن نمازیوں کے لئے ناکافی تھے، عیدین اور جمعہ کی نمازوں میں تو شامیا نے لگانے پڑتے، لہٰذامسجد کی توسیع بہت ضروری تھی۔ صحن پر ایک سائبان اور چھت پر ایک منزل کی تعمیر ہوجاتی تو فی الحال کام چل سکتا تھا۔ مسجد کی کوئی مستقل آمدنی نہیں تھی۔ عیدین اور جمعہ کی نمازوں میں صفوں میں گھومنے کے علاوہ مدرسوں اور مسجدوں کے لئے دوسرے شہروں میں چندہ جمع کرنے کا جو دستور تھا، اسے کمیٹی نے یہاں لاگو نہیں کیا تھا۔

    امام صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں اس طرف اشارہ کیا کیا کہ نکڑوں، چائے خانوں اور دالانوں پر فوراً بحث و مباحثے کے دروازے کھل گئے۔ خلاصہ یہ تھا کہ مسجد کی تعمیر میں جو پیسہ لگے وہ قوم و ملت کا۔۔۔ اس قسم کی تعمیر ثوابِ جاریہ کا سبب بنتی ہے اور قرینہ اغلب ہے کہ ملت کی ترقی اور اس پر آئی ہوئی بےشمار آفتوں کے سد باب کا وسیلہ بن جائے، اس لئے ملت کے بیٹوں کو چھوٹی بڑی رسیدوں کے ساتھ دور دراز میں پھیل جانا چاہئے اور تن من دھن سے مسجد کی تعمیر میں لگ جانا چاہئے۔

    کچھ نے تو جوش میں آکر رسیدیں چھپوانے کے آرڈر بھی دے دیے اور یہ بھی طے کر لیا کہ کس کو کہاں جانا ہے۔

    برسرِاقتدار طبقہ کیا سوچ رہا تھا، اس کا کسی کو پتہ نہیں تھا، قیاس یہی تھا کہ اجازت کے بغیر تو امام صاحب نے ذکر کرنے کی ہمت نہیں کی ہوگی۔

    رسیدیں چھپ کر آ گئیں، کچھ جیالوں نے رختِ سفر بھی باندھ لیا، لیکن دور دور تک نہ تو ہری جھنڈی کا پتہ تھا نہ پیٹھ پر شاباشی کا ہاتھ رکھنے والے ہاتھ کا۔۔۔

    پھر چہ میگوئیاں۔۔۔

    اعلان کرواکے، رگوں میں خون دوڑا کے۔۔۔ خاموش کیوں۔۔۔؟

    اپنی بالادستی۔۔۔

    امام صاحب کو عصر کی نماز کے بعد چائے پینے اور بیڑی پھونکنے کی عادت تھی، معمول کی ادائیگی کے بعد وہ واپس مسجد چلے آتے۔ مغرب کا وقت بھی تو قریب آجاتا۔ رمضان شریف میں بھی وہ سب سے پہلے اپنا یہی معمول ادا کرتے، پھر افطار نوش فرماتے۔

    امام صاحب جیسے ہی نکلے، لوگوں نے انہیں گھیر لیا۔ باہر تو اللہ کا گھر نہیں تھا، وہاں بات چیت کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔

    امام صاحب نو کیلے سوالوں اور تیکھے تیکھے جملوں سے یوں گھیر لئے گئے کہ بچارے ایک دم گھبراہی تو گئے۔ وہ بچارے تو خود ہی کمزور وکٹ پر تھے، ہاں، مؤذن کی طرح بےوقوفی کی حرکتیں کرنے پر ذلیل نہیں کئے جاتے، پھر انہیں برسراقتدار گروپ کے ساتھ بیٹھ کر چائے وغیرہ پینے کی اجازت تھی۔ پانچ وقتوں کی امامت کے علاوہ جمعہ کا خطبہ ایک ایسا مسئلہ تھا، جس پر انہیں بہت ہوشیار رہنا پڑتا اور دین و آخرت کا ذکر کر کے اپنی باتیں ختم کرنی پڑتیں، اگر سکریٹری کا حکم ہوا تو مسجد سے متعلق کچھ ضروری اعلانات اور بس۔۔۔

    ’’بھائی، مجلس منتظمہ جب مناسب سمجھےگی، مسجد کی توسیع میں ہاتھ لگا دےگی۔۔۔‘‘ انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی۔

    ’’یہ اللہ کا گھر ہے، کسی کی ذاتی جائیداد نہیں۔۔۔‘‘

    ’’مجلس منتظمہ بھی تو آپ ہی لوگوں کی بنائی ہوئی ہے۔۔۔‘‘

    ’’خدمت گار۔۔۔ مالک نہیں۔۔۔‘‘

    ’’انتظار کیجئے، جلد ہی کوئی فیصلہ ہوجائےگا انشاء اللہ تعالیٰ۔۔۔‘‘

    امام صاحب کے لئے ان لوگوں کے درمیان زیادہ دیر تک گھرے رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا، کچھ لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش بھی کی۔

    حالانکہ امام صاحب زندگی بھر بھی رکے رہتے تو بھی گول مول باتوں سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ وہ چلے گئے تو اصل پنچایت بیٹھی۔

    ’’مسجد کی تعمیر میں اللہ کے بندوں کا خون، پسینہ اور پیسہ نہیں لگا تو وہ کوئی عمارت ہو سکتی ہے، اللہ کا گھر نہیں۔۔۔‘‘

    ’’یہ تو ثواب جاریہ ہے۔ اس کی تعمیر میں ایک پائی بھی لگی تو قیامت تک اس کا صلہ جاری رہےگا۔۔۔‘‘

    ’’پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’پھر یہ کہ یہ ملت بلکہ پوری امتِ مسلمہ کو بہت بڑے ثواب سے محروم رکھنے کی بہت بڑی سازش ہے۔۔۔ ثواب جاریہ سے۔۔۔‘‘

    ’’دنیا میں تو گھاٹا نفع کا سودا ہوتا رہتا ہے، لیکن یہ تو دینی مسئلہ ہے، ہماری عاقبت کا۔‘‘

    ’’مسجد تو جیسے ان کی۔۔۔ انہوں نے تو وہاں اپنے گھر کی سجاوٹ کی فالتو چیزیں لگا رکھی ہیں۔۔۔ طغرے، گھڑیاں، مکہ مدینہ کے خوبصورت مناظر، قالین، جائے نماز۔۔۔‘‘

    ’’بھلا امریکہ، انگلینڈ کے گھروں میں طغرے اور جائے نمازیں رہیں گی، پھر مونالیزا، الزبتھ ٹیلر اور روم کے کھنڈرات کی تصویریں وغیرہ کہاں رہیں گی۔۔۔؟‘‘

    ’’یعنی۔۔۔ یعنی۔۔۔ ان کے لئے طغرے اتار دیے گئے اور۔۔۔‘‘

    ’’کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟ یہ لوگ تو بڑے گنہگار ہیں۔۔۔‘‘

    ’’بس ایک ہی حل ہے ان باتوں کا۔۔۔ انہیں مسجد سے بے دخل کرنا چاہئے۔۔۔‘‘

    من مانی کی انتہا کر دی ہے انہوں نے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن کمیٹی۔۔۔ کمیٹی نے بنایا ہے انہیں۔۔۔ باقاعدہ چناؤ ہوا ہے ان کا۔۔۔‘‘

    ’’تو۔۔۔؟‘‘

    ’’کمیٹی ہی۔۔۔‘‘

    ’’کمیٹی کے سارے ممبر تو ان لوگوں کی جیب میں رہتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’پتہ ہے۔۔۔ قیمت مقرر ہے ان سب کی۔ باری باری ہر جمعرات کو صدر سکریٹری اور خازن کے ہاں پلاؤ قورمہ بنتا ہے۔ یوں نمک چٹانے کا انتظام ہے۔۔۔‘‘

    ’’ہم لوگ کمیٹی کے ممبر بن جائیں۔۔۔ تو کیا ہم سب بھی۔۔۔؟‘‘

    ’’ہم کیوں جائیں گے ان کے یہاں پلاؤ کھانے۔۔۔؟‘‘

    ’’اگر انہوں نے دعوت کی۔۔۔؟‘‘

    ’’ہم قبول نہیں کریں گے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن دعوت قبول کرنا تو سنت ہے۔۔۔‘‘

    ’’اللہ نیت دیکھتا ہے نا۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’اصل میں یہ بحث ہی فضول ہے۔ نہ ہمیں کوئی ممبر بنا رہا ہے نہ دعوت دے رہا ہے۔‘‘

    سوچنا یہ ہے کہ مسجد کو کیسے بچایا جائے۔۔۔‘‘

    ’’جمہوری طریقے سے وہ مان لیتے ہیں تو ٹھیک۔۔۔ ورنہ پھر اور کوئی طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’جمہوری طریقہ۔۔۔؟‘‘

    ’’ہڑتال، گھیراؤ، بھوک ہڑتال وغیرہ وغیرہ۔۔۔‘‘

    ’’لیکن۔۔۔‘‘

    ’’لیکن کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’یہ سب تو گاندھیائی طریقے۔۔۔‘‘

    ’’ارے فراق کیا پڑتا ہے۔۔۔ ہم یہاں رہتے ہیں تو یہاں کے طور طریقے کو اپنائیں گے نا۔۔۔‘‘

    ’’اب مسجد کے سلسلے میں بھی۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’ہم کمیٹی پر زور ڈالیں کہ وہ فوراً کوئی فیصلہ کرے، ہم بہت انتظار نہیں کریں گے، ہمارا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔۔۔‘‘

    ’’پیمانہ۔۔۔؟ میاں، میں تمہیں کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ اللہ کے معاملے میں احتیاط برتا کرو، ورنہ۔۔۔ بہت بڑے گناہ کے مرکتب ہو جاؤگے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن یہ تو محاورہ۔۔۔ جیسے صبر کا پیمانہ، انتظار کا پیمانہ، غصہ کا پیمانہ۔۔۔‘‘

    ’’ہم احتیاط برت لیں تو کیا حرج ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ٹھیک ہے بھائی، ٹھیک ہے، لیکن انہوں نے پھر بےحسی دکھائی جو ایک سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے تو اس صورت میں ہم۔۔۔‘‘

    ’’جدوجہد کریں گے۔۔۔‘‘

    ’’یعنی جنگ۔۔۔؟‘‘

    ’’بھئی، یہ معاملہ تو اللہ کے گھر کا ہے، اس کی ناموس کا ہے، ہم پر یقینی جدوجہد فرض ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’ایسی بات ہے تو پھر ہم ضرور۔۔۔‘‘

    لوگوں میں جوش وولولہ بھر گیا، جسموں میں جیسے ایک تیز کرنٹ۔۔۔

    اسی وقت مغرب کی اذان بلند ہوئی۔

    اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔

    نماز کے بعد صحن میں لوگ جمع ہوئے، اسی وقت اچانک محترم صدر اور معزز سکریٹری مسجد سے نکل آئے۔

    ’’کیا بات ہے۔۔۔؟‘‘

    مسعود خاں نے حیران نظروں سے انہیں دیکھا۔

    ہر شخص نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔۔۔ ساری آوازیں گڈ مڈ ہو گئیں۔۔۔

    ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔

    ’’یہ مسجد ہے، مچھلی بازار نہیں۔۔۔ اس کا احترام کیجئے۔۔۔‘‘ محمود عالم نے بزرگانہ انداز میں ڈانٹا۔

    چند لمحوں کے لئے ایک سناٹا سا چھا گیا۔۔۔ کچھ دیر کے بعد ایک آواز اٹھی، ’’باہر چل کر ضروری باتیں۔۔۔‘‘

    ’’دیکھئے۔۔۔ اگر مسئلہ دنیاوی ہے تو اس سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں، اگر دینی ہے تو پھر وہ گلیوں میں حل نہیں ہو سکتا۔۔۔‘‘ مسعود خاں نے اپنی رولنگ دی۔

    ’’مسجد کی توسیع۔۔۔‘‘

    مسعود خاں فوراً سمجھ گئے۔۔۔ یا پھر وہ پہلے سے سمجھے ہوئے تھے، بات کاٹ کر بولے۔

    ’’سوچیں گے، کمیٹی کی میٹنگ میں اس پر غور ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’ مسجد میں باتیں کیوں نہیں ہو سکتیں۔۔۔؟ مسجد تو ہماری پارلیمنٹ تھی، اس میں سارے مسائل۔۔۔‘‘

    لوگوں میں اسلامی تاریخ کی واقفیت کچھ کم نہیں تھی۔

    ’’وہ دور نبوی تھا۔۔۔ مسجد نبوی تھی، تب پارلیمنٹ تھی۔۔۔‘‘ سراج انور نے حلیمی سے جواب دیا۔

    ’’یعنی ہماری مسجد متبرک نہیں۔۔۔؟‘‘ تیکھا سوال۔

    ’’یہ بات نہیں، لیکن مسجدِ نبوی کا مقابلہ دنیا کی کوئی مسجد نہیں کر سکتی، یہ بات آپ جانتے ہیں نا۔۔۔؟‘‘ مسعود خاں نے سنجیدگی سے پوچھا۔

    ’’ہماری مسجد پارلیمنٹ کیوں نہیں بن سکتی۔۔۔؟‘‘ سوال پر سوال۔

    ’’اچھا آپ میری ایک بات کا جواب دیجئے۔۔۔ آج کی مسجد نبوی پارلیمنٹ کیوں نہیں ہے۔۔۔؟‘‘ سکریٹری صاحب نے دریافت کیا۔

    ’’وہ اس لئے۔۔۔ اس لئے کہ ہم اسلامی حکومت۔۔۔ مطلب خلافت قائم نہیں کر سکے۔۔۔‘‘

    ’’ایک اسلامی ملک میں تو ہم ایسا نہیں کر سکے لیکن اپنے ملک کے ایک چھوٹے شہر کے ایک بہت ہی چھوٹے سے محلے میں ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہئے۔۔۔‘‘

    مسعود خاں کا لہجہ بظاہر سادا اور بےضرر تھا۔

    خاموشی چھا گئی۔۔۔ دھند سے بھری خاموشی۔۔۔ وہ لوگ آسانی سے باہر نکل گئے۔

    ’’یہ بات ہوئی۔۔۔؟‘‘

    ’’یہی کہ ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔۔۔‘‘

    ان کے درمیان جو گرمی پیدا ہوئی وہ کسی عبادت خانے کی متحمل نہیں تھی۔ باہر ڈمرو کا چائے خانہ محلے کا وہ ہائیڈ پارک تھا جہاں زہر بھی اگلا جاتا تو اس پر کوئی روک ٹوک نہیں تھا۔ انہیں جس طرح نظر انداز کیا گیا، اس کا انہیں بہت قلق تھا۔ آخر وہ بھی تو اللہ کے گھر کے برابر کے ساجھی دار تھے۔

    جی بھر کے انہوں نے اپنے دل کا بخار نکالا۔

    ’’وہ مسجد ہر حال میں اپنے انہیں پیسوں سے بنائیں گے جو ان کے بینکوں میں سود کی شکل میں بے حساب جمع ہے۔‘‘

    ’’مسجد ہمیشہ عوامی تعاون سے بننی چاہئے، چند خاص لوگوں کی مہربانی سے نہیں، اس میں خدا کی مصلحت بھی پوشیدہ ہے۔۔۔‘‘

    ’’یعنی۔۔۔؟‘‘

    ’’ثوابِ جاریہ۔۔۔ مشفق و مہربان خالق دو جہاں چاہتا ہے کہ اس کے بندے اپنے مال کے ساتھ آگے آئیں اور اسے اپنے گنہ گار بندوں کی شفاعت کا بہانہ مل سکے۔۔۔‘‘

    ’’یعنی پوری ملت کو اتنے بڑے خواب سے محروم رکھنے کی سازش۔۔۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا، ہم انہیں من مانی نہیں کرنے دیں گے۔۔۔‘‘

    ’’ابھی دیکھ لو۔۔۔ شاید وہ کوئی فیصلہ کر رہی لیں، اللہ کو کچھ بہتر ہی منظور ہو۔۔۔‘‘

    ’’ ان کے تیور سے تو نہیں لگتا۔۔۔ وہ عام چندہ کے لئے تو خود نکلنے سے رہے اور ہم پر وہ بھروسہ کریں گے نہیں۔۔۔‘‘

    ’’دیکھو، وہ وہی کریں گے جو میں کہتا ہوں۔۔۔ ان کے بارے میں خوب پتہ ہے ہمیں۔۔۔‘‘

    ’’آخر کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’یہی کہ اپنے ہی جیسے چند لوگوں کے درمیان بڑے بڑے چندے کر لیں گے اور کچھ اپنی جیب سے۔۔۔‘‘

    ’’اس میں حرج۔۔۔؟‘‘

    ’’حرج۔۔۔؟‘‘ حرج تو وہ ہے میاں جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جو ثواب ہمیں تاقیامت ملتا رہتا، وہ چند خود غرض لوگوں تک سمٹ رہا ہے، اسے ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔۔۔؟

    ’’ان کے فیصلے کا ہمیں انتظار کر لینا چاہئے۔۔۔‘‘

    آواز کمزور تھی، پھر بھی اس میں چنگاری تھی۔

    ’’بار بار تو ہم کہہ رہے ہیں، کہ وہ نہیں کریں گے، نہیں کریں گے، نہیں کریں گے۔۔۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے، وہ ہم سوچ لیں تو بہتر ہے۔۔۔‘‘

    ’’میں پوچھتا ہوں انجینئر، وکیل اور سرکاری افسر کے پاس اتنی دولت کہاں سے آتی ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’چھوڑو، جس کا اعمال اس کے ساتھ، ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔۔۔‘‘

    ’’لینا دینا کیسے نہیں۔۔۔ ؟ ہماری عاقبت کا معاملہ ہے۔ آخر ہم نماز مرنے کے بعد صلہ ملنے کی امید ہی پر پڑھتے ہیں نا۔۔۔‘‘

    ’’یعنی دنیا تو ہماری جا ہی چکی، دین سے بھی ہاتھ دھونے کی تیاری۔۔۔ کوئی انتہا ہے اس ظلم کی۔۔۔‘‘

    ’’میں نے خود جناب سکریٹری صاحب کو کہتے سنا ہے کہ ان لونڈوں کے ہاتھوں میں مسجد دینے سے بہتر ہے کہ اس میں تالہ لگا دیا جائے۔۔۔ حد ہو گئی جیسے ہم تو ہمیشہ لونڈے کے لونڈے رہیں گے اور یہ۔۔۔‘‘

    ’’ارے یار، اگر یہ بات سچ ہے تو انہوں نے تو ہمیں زبردست گالی دے دی، ٹھیک ہے کہ ہم میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے، لیکن کچھ بڑی عمر کے لوگ بھی تو ہیں، انہیں۔۔۔‘‘

    ’’وہ ہمیں گالی نہیں دیں گے تو اور کیا دیں گے، اس سے فرق کیا پڑتا ہے، دیں۔۔۔‘‘

    ’’اب بس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’جہاد۔۔۔‘‘

    ’’جہاد۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں جہاد۔۔۔‘‘

    ’’اس کے لئے ملت تیار ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’جنگ میں بگل بجتا ہے تو پوری قوم اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور بگل بجانے سے پہلے قوم سے مشورہ نہیں لیا جاتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’جہاد کے لئے تو فتویٰ ضروری ہوتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’کون دےگا فتویٰ۔۔۔؟ یہی لوگ جن کی صبح و شام سلام صاحب، سلام صاحب کرتے زبان نہیں تھکتی، وہ بچارے کیا فتویٰ دیں گے۔۔۔؟‘‘

    ’’تو پھر قاضی شہر۔۔۔‘‘

    ’’وہ اس معاملے میں کیوں پڑیں گے۔۔۔ یہ تو اپنی مسجد کا معاملہ ہے، ملت کا تو مسئلہ ہے نہیں۔۔۔‘‘

    ’’پھر بھی۔۔۔‘‘

    ’’پھر نہیں۔۔۔ ہماری رہنمائی کے لئے آسمانی فرمان موجود ہے، صاف کہا گیا ہے کہ ملت کو قدم قدم پر جہاد کرنا ہے۔ بگل بجاکر میدان جنگ میں صرف گھوڑے دوڑانا جہاد نہیں۔۔۔

    برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا جہاد ہے۔۔۔ نفس سے لڑنا جہاد۔۔۔ صدائے حق بلند کرنا جہاد۔۔۔‘‘

    ان کے چہرے تمتما اٹھے، دو ایک نے نعرۂ تکبیر بلند کر دیا، پوری فضا جیسے بدل گئی۔

    مسجد کے سامنے ایک چھولداری لگادی گئی، تین چار چوکیاں، دریاں، سفید گاؤ تکیے، آنے جانے والوں کے لئے کچھ کرسیاں مائک اور۔۔۔

    جہاد شروع۔

    ’’مجلس منتظمہ استعفیٰ دے، سارے لوگ ہٹائے جائیں۔۔۔‘‘

    پانچ وقتوں میں نعرہ بازی میں کچھ اور تیزی آ جاتی، چہل پہل اور تفریح کا منظر پیدا ہو جاتا۔

    ابھی تک بات مسجد میں باقاعدہ آنے والوں تک ہی محدود تھی، بڑی تعداد تو ان لوگوں کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے مسجد سے دور رہتے۔ کام کے وقت، بے پناہ مصروفیت، لاپروائی، بےتوجہی، لاتعلقی، طہارت نہ رہنے کا بہانہ وغیرہ۔۔۔ عید بقرعید کی بات اور تھی۔۔۔ جمعہ کی بھی۔۔۔

    لیکن جب جہاد چھڑ گیا تو اہل ایمان چپ کیسے رہ سکتے تھے۔

    دو گروپ ابھر کر سامنے آ گئے۔

    ایک حمایت میں، دوسرا مخالف میں۔

    اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ان میں کون واقعی طاقتور تھا، دکھائی تو دونوں دیتے۔

    جن کی مخالفت کی جا رہی تھی، وہ پہلے کی طرح مسجد آتے جاتے رہے۔۔۔ آتے تو طاقتور دکھائی دیتے، جب نعرہ بازی ہوتی تو دوسرا گروپ طاقتور نظر آتا۔

    میدانِ جنگ تھا لیکن جنگ نہیں تھی۔

    مگر سب سے دور پراسرار خاموشی کے ساتھ ایک اور عمل جاری تھا۔

    محلے سے متصل ایک بہت بڑا میدان تھا جس کو عرصہ قبل اونچی دیواروں سے گھیر دیا گیا تھا۔ اندر پتہ نہیں کب سے، کون فیکٹری بن رہی تھی، سننے میں آتا کہ باہر کے معماروں سے بھی کام لیا جا رہا ہے، دور دراز علاقوں سے سازو سامان آتے، روشنی ہوتی، شورو غل، چہل پہل۔۔۔ سب دیواروں کے اندر۔۔۔ رہائش کے انتظامات بھی اندر۔۔۔ خیال تھا کہ غیرملکی سرمایہ کاری سے ایک بہت بڑا پروجیکٹ لگایا جا رہا ہے۔۔۔ کچھ لوگ کروڑ پتی سے ارب پتی ہو جائیں گے، ارب پتی سے کھرب پتی اور کھرب پتی سے۔۔۔

    ادھر جہاد کا نعرہ بلند ہوا، ادھ ردیواروں کے اندر کی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی۔ اس میں محلے کے زیادہ لوگ شامل نہیں تھے اور جو بہت کم تعداد تھی بھی، وہ بہت ہی قابلِ اعتماد، نمک خوار قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی۔

    اچانک اعلان ہوا کہ ایک ممتاز ملک کے محترم سفیر نئی عظیم الشان مسجد کا افتتاح کرنے تشریف لا رہے ہیں۔۔۔

    اسی شہر میں۔۔۔

    اسی محلے میں۔۔۔

    لوگ بھونچکے رہ گئے۔

    ’’مسجد۔۔۔؟‘‘

    ’’کیسی مسجد۔۔۔؟ کہاں کی مسجد۔۔۔؟‘‘

    ’’سفیر محترم کی تشریف آوری۔۔۔؟‘‘

    سوالات بےشمار تھے۔

    اچانک محلے ہی میں نہیں، پورے شہر میں شاندار، روغنی، رنگین پوسٹروں کی بہار آ گئی۔۔۔ ایک طرف بہت ہی خوشنما، پھولوں کی کیاریوں میں گھری ہوئی ایک نہایت ماڈرن مسجد۔۔۔ دوسری طرف سفیر محترم اپنا ہاتھ اٹھاکر پتہ نہیں کیا تلقین فرما رہے تھے۔

    مقررہ تاریخ پر نہ صرف شہر بلکہ بیرونِ شہر سے لوگ امڈ پڑے۔ مسجد کیا تھی، جدید حسن تعمیر کا ایک نمونہ۔۔۔ چم چماتے سنگ مرمر کے ٹائلز، وہائٹ اسٹون، برماٹک کے خوبصورت دروازے، بیش قیمت شیشے، جدید وضوخانہ، ماڈرن مائک سسٹم۔۔۔ منبر تو ایسا جیسے کسی عظیم شہنشاہ کے دربار خاص میں رکھا منقش تخت۔۔۔ مسجد دلہن کی طرح سجائی گئی تھی، چاروں طرف دبیز قالین۔۔۔ خوشبودار پھولوں اور پتیوں کی ہر جگہ بہار۔۔۔

    عصر کی نماز سے قبل دو رکعت نماز نفل سے، جس کی امامت سفیر صاحب نے فرمائی، مسجد کا افتتاح ہوا۔ حاضرین نے آمین کہہ کر اس کی تصدیق کی۔ اسی دن مغرب کی باجماعت نماز سے مسجد باقاعدہ کھول دی گئی۔۔۔

    بارعب چہاردیوار۔۔۔ بلند دروازہ۔۔۔ پھولوں کی کیاریوں اور فواروں سے مزین صحن۔

    یہاں آکر نماز ادا کرنا گویا اسٹیٹس سمبل قرار پایا۔

    پتہ نہیں چل سکا کہ جن مجاہدوں نے پرانی مسجد کے سامنے خیمہ اور چوکیاں لگائی تھیں، ان کا کیا ہوا۔

    کب خیمہ اکھڑا، کب چوکیاں اور دریاں ہٹائی گئیں اور کب مائک سے بلند ہوتی ہوئی آوازیں ختم ہوئیں۔

    اس مسجد میں تو اب فقط جمن ہی رہ گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے