سوال
(سماجی مذہبی ذہنی ارتقا)
سوال سے گریز، امکانات کا راستہ بند کرنے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر طوفان کے ٹل جانے کی امید کرنے والی قوم کی سرزمین پر جنم لینے والی اس کہانی کے دو کردا رہیں۔ یہ ایک دوسرے کو صرف ایک حوالے سے جانتے ہیں۔ مگر کبھی ملے نہیں ایک ملک کے بھی نہیں۔ اور مذہباً بھی الگ الگ ہیں۔ بس حالات نے ایک دوسرے کے قریب پہنچادیا۔ اگر مشرق و مغرب کی تفہیم اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح کتابوں میں لکھا ہے تو ایک مشرق سے مسلمان اور فوج میں کیپٹن ہے۔ دوسرا مغرب سے عیسائی اور اخباری رپورٹر۔ وہ حوالہ جس کے ذریعے دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں وہ انٹرنیٹ ہے۔ دونوں اجنبی ناموں سے چیٹنگ کرچکے ہیں۔ جی ہاں اجنبی۔ایسا نیٹ پر ہوتا بھی ہے۔ مشرقی مسلمان نے شوق ترویج اسلام میں مغربی عیسائی کو اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی۔ جواب میں رپورٹر نے ایک سوال کیا جس کا جواب کیپٹن نہ دے سکا۔ بس آئیں شائیں کرتا رہا۔ رپورٹر نے جو آخری جملہ کہا وہ یہ تھا کہ آپ خاطر جمع رکھیے۔ جب میرے سوال کا جواب سوجھے تو میرا ایڈریس آپ کے پاس ہے مجھے ضرور بتائیے گا۔ یوں دونوں نے رابطہ ختم کردیا۔
کئی ماہ بعد اگر آپ اسے حسن اتفاق سمجھتے ہیں تو حسن اتفاق سے دونوں کو ایک ہی دن ایک ہی وقت میں علیحدہ علیحدہ کال موصول ہوئی۔ کیپٹن کو ہائی کمان کی طرف سے بلاوا تھا۔ ملکی حالات کے پیش نظر سرحد پر صورت حال کشیدہ تھی۔ کسی بھی وقت پڑوسی ملک سے جنگ چھڑ سکتی تھی۔ لہذا اس کی چھٹیاں منسوخ کردی گئیں۔ اور فوری حاضری کا حکم ملا۔
میڈیا کے اس نئے دور میں ہر نیوز چینل کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قریب کی خبریں لوگوں تک پہنچا کر خود کو آگے لے جائے۔ بعض چینل اپنے رپوٹر کو خطرات میں ڈالنے کے علیحدہ سے پیسے دیتے ہیں۔ اور زیادہ آمدنی کے لالچ میں بعض رپورٹر بہت ہی خطرناک حد تک چلے جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی بندوق سے چلی ہوئی گولی، لانچر سے داغا ہوا میزائل، ٹینک سے چھوڑا ہوا گولہ یا زمین کے سینے میں چھپی ہوئی کوئی بارودی سرنگ اس کی جان لے سکتے ہیں یا کم از کم ساری عمر کی معذوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ مگر بعض رپورٹر اس کی پروا کب کرتے ہیں، یوں بھی کبھی کبھی شہرت پیسے سے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ جس دن کیپٹن ٹرین میں سوار ہوا، اس دن رپورٹر کے کاغذات ویزے کے حصول کے لیے بھیجے گئے۔ ویزہ مل گیا، چوتھے روز میدان جنگ میں دونوں اپنے اپنے محاذوں پر موجود تھے۔
سینکڑوں میل لمبے دریا کے سب سے زیادہ چوڑے پاٹ کے دوسری طرف تقریباً دو کلو میٹر آگے اپنے فوجی جوانوں کے ساتھ کیپٹن تعینات تھا۔ دائیں طرف اونچے پتھریلے پہاڑوں سے ذرا پہلے مضبوط لوہے کا پل بنا ہوا تھا جس پر سے فوجی ٹرک گزر کر جاتے تھے۔ بے ترتیب اُگے ہوئے درختوں ، خود رو پودوں اورکانٹے دار جھاڑیوں والے اس حسّاس علاقے میں دور دور تک آبادی نہیں تھی۔ دریا سے چھ کلو میٹر دور شمال مغربی سمت میں جہاں سورج غروب ہوتا تھا، اسی دریا کے کنارے آخری گاؤ ںآباد تھا۔ کچے پکے مکانوں، پتھریلی گلیوں، چھپرا دکانوں، کھیتوں، بیل، بکری، پھلوں سے لدے درختوں والے اس گاؤں کے ایک کچے ہوٹل میں رپورٹر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اونچے لوہے کے ریک میں پھنسے ٹی وی کی خبروں اور مبصروں کی گفتگو سے پتا چل رہا تھا کہ جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ کی خبریں حاصل کرنے کے لیے رپورٹر کو یہاں سے آگے جانا تھا۔ مگر کوئی سواری نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد اسے ایک فوجی گاڑی گزرتی دکھائی دی۔ اس نے جلدی سے اپنا کیمرہ اٹھایا اور کچے راستے کی طرف دوڑا، گاڑی اتنی دیر میں آگے نکل گئی۔ اسی اثناء میں فضا میں نیچے پرواز کرنے والے طیارے کی پرشور آوازیں آنے لگیں۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ جلدی سے اپنے کیمرے کو کندھے پر رکھ کر طیارے کی فلم بندی کرنے لگا۔ چند شاٹ لینے کے بعد وہ واپس ہوٹل میں آکر بیٹھ گیا۔
دور سے اکا دکا بمباری کی آواز آرہی تھی، ٹی وی کے ذریعے پتا چل رہا تھا کہ علاقے کی نشیبی سرحدوں کی طرف جنگ کا زور ہے۔ اس بالائی پٹی پر گھمسان کی جنگ کا آغاز نہیں ہوا۔ اس نے رپورٹر والی جیکٹ پر لگے کارڈ کو ایک نظر دیکھا اور محاذ کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔
پیدل چلنا اس کے لیے کبھی دشوار نہیں تھا۔ بس موسم مختلف تھا۔ دھوپ زمین پر بچھی ریت کو چنے کی طرح پکا رہی تھی۔ ریت پر فوجی گاڑیوں کے ٹائروں نے ایک گزر گاہ بنادی تھی۔ وہ اسی نقش رہ گزر کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اپنا سفر طے کرنے لگا۔ دور چمکتی دھوپ کے اڑتے بگولوں سے عجیب و غریب تصویریں بن رہی تھیں۔ تھرکتی، ناچتی اور چمکتی تصویریں، جیسے کوئی بے نیازی سے رقصاں ہو۔
رپورٹر کی آنکھوں میں تارے چمکنے لگے۔ اسے یہ منظر اچھا لگ رہا تھا۔ اچانک ہی اس کی آنکھوں میں تجسّس کی چمک اتر آئی۔ اسے لگا ان رقصاں بگولوں میں کوئی دیوہیکل چیز ہل رہی ہے۔ قدموں کی رفتار تیز کرکے وہ قریب گیا تو منظر واضح ہونے لگا۔ یہ فوجی ٹرک تھا۔ تباہ شدہ۔ وہ دوڑنے لگا۔ چند منٹوں میں نزدیک پہنچ گیا۔ ٹرک کو تباہ ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔ خوراک سے لدے ہوئے ٹرک کا اگلا حصہ اور اس کا ڈرائیور شاید دونوں بے جان ہوگئے تھے۔ رپورٹر نے چند تصویریں اتار لیں۔
اس واقعہ سے گھنٹہ بھر پہلے کیپٹن اپنے محاذ پر ہائی کمان سے بذریعہ وائرلیس ہدایت لے رہا تھا کہ اچانک اس کے وائرلیس سسٹم میں خرابی پیدا ہوگئی۔ ہائی کمان کی طرف سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ صرف سرسراہٹیں تھیں۔ اس نے زور زور سے پکار کر پوچھا کہ کیا آپ میری آواز سن رہے ہیں۔ مگر جواب ندارد۔ اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہاں اس کی آواز سنی جارہی ہے کہ نہیں۔ ایک محاذ پر کیا ہورہا ہے اور دوسرے پر کیا، اس کا اندازہ صرف ہائی کمان کو ہوتا ہے۔ محاذ پر تعینات فوج انفرادی فیصلے کرنے میں اس وقت آزاد ہوتی ہے جب ان کا دوسرے یونٹوں اور ہائی کمان سے کوئی رابطہ نہ رہے۔ تمام جنگی حکمت عملیاں بڑی سطح پر ہوتی ہیں۔ اگریوں کہا جائے کہ تمام حکمت عملیاں صرف اور صرف بڑی سطح پر ہوتی ہیں تو زیادہ درست ہوگا۔ دورجدید میں بھیڑ جسے عوام کہتے ہیں، اپنے منصب جمہور پر فائز ہونے کے باوجود کلی بے اختیاری کی بے رحم فضا میں جیتے ہیں۔ رابطہ منقطع ہوجانے سے کیپٹن فیصلہ کرنے میں آزاد تھا۔ مگر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس کا فیصلہ جنگ کے مفاد میں ہوگا یا نہیں۔
ہائی کمان کو جیسے ہی اندازہ ہوا کہ دریا کے چوڑے پاٹ کے دوسری طرف والے یونٹ سے پیغام موصول تو ہورہا ہے مگر جا نہیں رہا اور انہیں ہدایت بھیجنا ناممکن ہوگیا ہے تو انہوں نے فوراً محاذ کی طرف بذریعہ گاڑی نیا وائرلیس سیٹ اور تحریری ہدایت روانہ کیں۔ جس میں حکمت عملی کی نشاندہی کوڈ ورڈ میں کردی گئی تھی۔ تحریری پیغام پر وقت اور تاریخ بھی درج تھی۔ ابھی ٹرک پل کے نزدیک بھی نہیں پہنچا تھا کہ ایک میزائل اسے آلگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹرک شعلوں میں گھر گیا۔ پیغام رساں ڈرائیور نے ٹرک سے چھلانگ لگادی مگر جسم پر بے شمار زخموں سے خون رسنے کی وجہ سے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہوگیا۔
رپورٹر تصویریں لے کر آگے بڑھ گیا تھا کہ ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔ اسے لگا جیسے کسی نے اسے آواز دی ہے۔ بے جان مردہ اور نکاہت بھری آواز۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو اسے ڈرائیور زندہ دکھائی دیا۔ وہ دوڑ کر قریب پہنچا۔ ڈرائیور کی مٹھی میں ایک لفافہ تھا۔ اس نے رپورٹر سے التجا آمیز لہجے میں کہا۔
’’یہ لفافہ اگر تم محاذ پر کیپٹن امید کو پہنچادو تو مہربانی ہوگی‘‘۔
اس جملے کی ادائیگی کے ساتھ ہی ڈرائیور کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ رپورٹر نے لفافہ اپنی جیکٹ کی جیب میں اڑس لیا اور آگے بڑھ گیا۔ دوران جنگ رپورٹنگ میں اس طرح کے مناظر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ رپورٹنگ کا عملہ خواہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو ہر طرح کی جنگی مداخلت سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔ مرنے والے ڈرائیور کا دیا ہوا تحریری پیغام پہنچانا اس کی ذمہ داری تو نہ تھی مگر وہ مرتے ہوئے آدمی سے انکار نہیں کرسکا تھا۔
دوپہر تک انتظار کرنے کے بعد نہ کوئی رسد پہنچی اور نہ پیغام۔ اس دوران دو سپاہی مارے جاچکے تھے۔ تب کیپٹن نے اپنی صوابدید اور جنگی صلاحیت کی بنا پر محاذ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور شمال مغرب کے پہاڑی سلسلے کے درمیان میں دکھائی دینے والے اونچے ٹیلے کی طرف پیش قدمی کی۔ اس نے اپنے وائرلیس سیٹ کو آن کرکے دیکھا۔ جلتی بجھتی روشنیوں کو دیکھ کر وہ خوش ہوا کہ اس کا سیٹ کام کررہا ہے۔ اس نے پیغام نوٹ کروایا۔ مگر جواب موصول نہیں ہوا۔ وہ پھر پریشان ہوگیا۔ اسے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس کی آواز ہائی کمان تک جا رہی ہے مگر ان کی طرف سے کوئی بھی آواز یا ہدایت وائر لیس موصول نہیں کررہا ہے۔ تاہم اس نے اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کے بارے میں بتادیا۔
ہائی کمان نے جب یہ سنا تو انہیں خیال گزرا کہ یقیناًبھیجا جانے والا پیغام یا رسد اسے موصول نہیں ہوئی ،کیونکہ انہوں نے اسے پوزیشن تبدیل کرنے سے منع کیا تھا۔جبکہ وہ ایسا کررہا تھا۔ ہائی کمان اس بات سے بے خبر تھی کہ بھیجے جانے والے ٹرک کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے ایک اور ڈی آر(قاصد) فوراً دوسرے پیغام کے ساتھ روانہ کیا۔ مگر ستم ظریفی حالات کہ لوہے کے بنے ہوئے پل پر سے گزرتے ہوئے جیپ لوہے کا جنگلہ توڑتے ہوئے دریا میں جاگری۔ رپورٹر نے جو کہ پل کو عبور کرکے محاذ کی طرف جارہا تھا جیپ کو گرتے ہوئے دیکھا۔ وہ دوڑ کر ایک ٹیلے پر چڑھ گیا جہاں سے نیچے تیز پرشور موجوں کے ساتھ بہتے ہوئے دریا کو دیکھا جاسکتا تھا۔ جیپ الٹ کر آدھی سے زیادہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ رپورٹر کے دل میں انسانی جان بچانے کا احساس ابھرا۔ مگر چکنی پتھریلی چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے طلاطم خیز پانی میں اترنا ناممکن تھا۔ اس نے کیمرا آن کیا اور دور سے بہتے ہوئے چلے آتے دریا کو کلوز کرتے ہوئے کیمرے کو جیپ پر لا کر جیسے ہی زوم کیا تو وہ چونک اٹھا۔ کیونکہ ڈوبی ہوئی جیپ میں سے ڈرائیور نکل کر گول چکنے بڑے پتھر کو اپنے دونوں بازوؤں میں سمیٹنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر اس کے ہاتھ بار بار پھسل رہے تھے۔ رپورٹر نے ڈرائیور کو زندہ دیکھا تو زور سے انگریزی میں چلّایا۔
’’ٹرائی اگین ،یو ول ڈو اٹ‘‘
مگر اس کی آواز دریا کے شور میں گم ہوگئی۔ اس نے کیمرہ دوبارہ آن کیا اور فلم بندی کرنے لگا۔ کیونکہ وہ اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتا تھا، جہاں وہ تھا وہاں سے دریا میں اترنا اور ڈرائیور کی جان بچانا ناممکن تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ ڈرائیور چکنے پتھروں کو تھامنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اپنے بھاری بوٹوں کو ایک پتھر سے دوسرے پتھر پر یوں رکھ کر کنارے پر آرہا ہے جیسے کوئی کرتب باز اپنے دونوں بازو پھیلا کر رسّے پر چل رہا ہو۔ دریا کنارے کی عمودی چٹانوں پر چڑھنا ناممکن تھا۔ لہذا ڈرائیور پل کے دائیں طرف دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ایک فرلانگ تک گیا، جہاں سے پتھروں کے اوپر چڑھنا آسان تھا۔رپورٹر تعریفی نظروں سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ پانی میں شرابور وردی والا ڈی آر جس کی جیب میں کیپٹن امید کے لیے ایک پیغام تھا آہستہ آہستہ دور چلا گیا۔
رپورٹر اپنی تمام تر بھاگ دوڑ، رپورٹنگ اور جنگ کی صورت حال کے بارے میں اپنے چینل کو مسلسل اطلاع بھیجنے کے لیے محاذ کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی طرف جاتے، فلم بندی کرتے، چلچلاتی دھوپ میں کسی سائے کی تلاش میں ٹیلوں، پتھروں کی اوٹ لیتے، دور و نزدیک ہوتی جہازوں کی گھن گھرج، دھوئیں کے امڈتے ہوئے غبار اور ریت کے اٹھتے ہوئے بگولوں کے بیچ ایک جگہ سے دوسری اور دوسری سے تیسری جگہ کسی بھی مرحلے پر اس کا سامنا کیپٹن امید سے نہیں ہوا۔ سورج پہاڑوں کے پیچھے جھکتا جارہا تھا۔ او رکچھ ہی دیر میں اندھیرے کی چادر اوڑھنے والا تھا۔ تب رپورٹر کو دوراونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان سروں کی جنبش محسوس ہوئی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ تھکن نے اس کے پورے جسم کو ادھ موا کردیا تھا۔ ایسے میں دل یہ چاہ رہا تھا کہ قیام گاہ پہنچ کر اپنے جسم کو بستر کے سپرد کردے، تاکہ دوسرے دن کے لیے خود کو اتنا تازہ دم کرسکے، جتنا ان چٹیل میدانوں، پہاڑوں کو عبور کرنے کے لیے درکار ہے۔ مگر فوجی ڈرائیور سے ملنے والے پیغام کا بوجھ وہ شام سے پہلے اتاردینا چاہتا تھا۔ وہ ڈرائیور یا پیغام رساں کی کوتاہی کو اپنے سر نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ وہ غیر جانبدار مبصر تھا۔ اس نے سوچا، غیر جانبداری کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ پیغام کو پھاڑ دے۔ مگر دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے خیالات کی تردید کی اور سوچا کہ اسے پیغام کو لینا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس صورت میں غیر جانبداری درست تھی اور جب کہ اس نے پیغام لے ہی لیا ہے تو اس کو پہنچا کر وہ کسی بھی قسم کی جانبداری کا مرتکب نہیں ہوگا۔ یہی سوچتے اور تیز قدم اٹھاتے وہ ٹیلوں کے قریب پہنچ گیا۔ جہاں اس کے خیال کی تصدیق ہوگئی۔ کیپٹن امید اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہیں تعینات اور مورچہ بند تھا۔ اسے ایک سپاہی نے دور ہی سے روک دیا۔ اس نے زور سے کہا۔
’’اِف دیر از کیپٹن امید آئی وڈ لائیک ٹو سی ہم۔ آئی ہیو سم میسج فار ہم‘‘۔
سپاہی کو انگریزی سمجھ میں نہیں آئی۔ اس اثناء میں کیپٹن کو اطلاع مل گئی کہ کوئی جنگی رپورٹر ملنا چاہتا ہے۔ ان کی طرف سے اشارہ ملتے ہی رپورٹر کو آگے جانے کی اجازت مل گئی۔ وہ کیپٹن کے پاس چلا گیا۔ میدان جنگ میں اس طرح کی ملاقات جنگی اصولوں کے خلاف تھی۔ بہرحال ہورہی تھی۔
چند ساعتوں میں رپورٹر نے وہ لفافہ اپنی جیب سے نکال کر کیپٹن کے سپرد کردیا اور فوراً اجازت چاہی، مگر جانے سے پہلے اس نے اپنا کارڈ کیپٹن کی طرف بڑھادیا تاکہ کیپٹن کو اپنے رپورٹر ہونے کا ثبوت دے سکے۔ رپورٹر اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے بعد روانہ کیا جانے والا پیغام کیپٹن کو چند گھنٹے پہلے مل چکا ہے، اور وہ اس کے مطابق اپنی پوزیشن پر تعینات ہے اور اپنے فوجی جوانوں کو بھی ہائی کمان کی ہدایت کے مطابق آگے بڑھاچکا ہے۔
رپورٹر واپسی کے لیے چند قدم چلا تھا کہ کیپٹن نے اسے آواز دی۔
از اٹ یور؟‘‘
’’یس‘‘۔
’’دیر از یور ای میل ایڈریس؟‘‘
’’یس دس از مائن‘‘۔
’’ڈو یو نو ہو آئی ایم؟‘‘
یہ کہتے ہوئے کیپٹن نے اپنا ای میل ایڈریس بتایا تو دونوں طرف مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’آئی ڈڈنٹ نیو دیٹ یو آر اے رپورٹر‘‘۔
’’ویل! یو ہیو آل سو نیور ٹولڈمی دیٹ یو آر اے آرمی کیپٹن‘‘۔
’’وی اسٹاپڈ اور چیٹ ایٹ ون کوسچئن‘‘۔
’’وی ول میٹ سون‘‘۔
’’بٹ آؤٹ سائیڈ آف دس گراؤنڈ‘‘۔
شیور‘‘۔
یہ کہتے ہوئے دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہوگئے۔ کیونکہ رات کی سیاہی پھیلنے سے پہلے رپورٹر کو قیام گاہ پر بھی پہنچنا تھا۔
چند ہی دنوں میں عالمی طاقتوں کے درمیان میں آجانے سے جنگ بندی کا اعلان ہوگیا اور تمام فوجیں سرحدوں سے پیچھے ہٹ گئیں۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ عالمی طاقتیں اگر اپنے غلط مقاصد کی تکمیل و ترویج کے لیے جنگ کریں تو انہیں کوئی روکنے والا نہیں اور اگر چھوٹے ممالک اپنے حقوق کی جنگ لڑیں تو روک دیا جاتا ہے۔ یہ بات الگ ہے ان بڑے ممالک کا بانٹا ہوا بارود میدان جنگ سے ہٹ کر بھی استعمال کرنے کے مقامات رکھتا ہے۔ گھمسان کا رن پڑنے سے پہلے ہی فضا تبدیل ہوگئی۔ اس دوران رپورٹر اور کیپٹن کی دوبارہ کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
محاذ جنگ سے واپسی پر چند دنو ں کی چھٹی پر جیسے ہی کیپٹن گھر پہنچا تو اس نے رپورٹر سے نیٹ پر رابطہ کیا۔ وہ موجود نہیں تھا۔ لہذا اس نے ایک طویل پیغام چھوڑا جس کا ترجمہ کچھ یوں تھا:
’’ہم اپنی گفتگو وہیں سے جوڑیں جہاں سے ہم نے آخری بار نیٹ بند کرتے ہوئے چھوڑی تھی۔ تم نے بہت اہم سوال کیا تھاکہ اگر میں تمہاری باتوں سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلوں تو میرا مسلک کیا ہوگا۔ تم نے اسلام کے چارو ں مسالک کے آغاز ، سن و تاریخ اور ناموں کا جس طرح ذکر کیا تھا ، اس سے پتہ چلا کہ تم نے اسلام کے بارے میں بہرحال پڑھا ضرور ہے ، جانتے ہو میدان جنگ میں جب تم نے مجھے ہائی کمان کا پیغام دیا تو اس سے کچھ گھنٹے پہلے مجھے ایک اور پیغام مل چکا تھا اور میں اس کے مطابق حکمت عملی سے بھی گزرچکا تھا۔ جب تم نے پیغام دیا تو میں لمحہ بھر کو چونکا تھا۔ مگر درج شدہ وقت پڑھ کر مطمئن ہوگیا کیونکہ تمہارے دیئے ہوئے پیغام کا وقت پرانا تھا جبکہ پہلے ملنے والا پیغام کا وقت بعد کا تھا جس پر عمل کرنا میرے لیے اصولاً درست تھا، یعنی دوسرے لفظوں میں میں نے آخری پیغام کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔ جس طرح مجھے ملنے والے تمام پیغامات اپنے وقت کے مطابق درست تھے اسی طرح تمام انبیاء کے پیغامات اپنے وقت اور حالات کے مطابق صحیح تھے صرف ان کے نفاذ کا وقت گزرچکا تھا۔ کیا اللہ تعالی کے آخری پیغام اور آخری پیغام رساں کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے یہ مثال کافی نہیں ہے۔
دوسرے دن رپورٹر کی طرف سے صرف ایک لائن کا جواب موصول ہوا کہ آپ کا کہنا درست مگر میرا سوال ہنوز جواب طلب ہے‘‘۔
یہاں تک کہانی بیان کرنے کے بعد میں بھی اس سوال کے بھنور میں پھنسا ہوا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ رپورٹر کوکیپٹن ایسا کیا جواب دے کہ وہ مطمئن ہوجائے۔
۲۰۰۳ء
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.