’’ہجور! آخری خواہش تو بس یہ ہے کہ مجھے آپ پھانسی پر لٹکانے سے پہلے بہت سا دال بھات کھانے کو دے دیں۔‘‘
انگریز مجسٹریٹ نے جیل کے سپریٹنڈنٹ کو مجرم کی آخری خواہش پوری کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ’’کورٹ از اڈجرنڈ‘‘ کہہ کر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
پر ماجو اڑیسہ کے جنگلوں میں بسی اآدی باسیوں کی اقوام میں سے کسی ایک کافرد تھا، اپنے جھونپڑے کے باہر بیٹھا ناریل کے پتوں اور بانس کی کھپچیوں سے ٹوکریاں بنا رہا تھا۔ گلے میں اس کے کئی پتھروں کی رنگ برنگی مالائیں پڑی تھیں۔ چہرے کو اس نے سرخ، سبز اور سفید رنگ سے یوں پینٹ کر رکھا تھا کہ وہ رنگ گویا اس کی آبائی شناخت کے مظاہر ہوں۔ وہ دبلا پتلا اور لمبا شخص تھا۔ عمر ۴۰ کے قریب رہی ہوگی۔ جب شکار کے پیچھے دوڑتا تو نشیب و فراز کافرق مٹ جاتا، اس کی رفتار میں کمی نہ آتی، راہ میں آنے والے پودوں پر سے وہ قلانچ مار کر گزر جاتا، پیڑ کی جھکی ہوئی ٹہنیوں کو دور ہی سے دیکھ کر، جھک کر، ہاتھوں کو ٹیک کر، چوپائیوں کی طرح کا پوز اختیار کرلیتا اور اس کے نیچے سے نکل جاتا۔
سبزیاں، پرندوں کا گوشت اور چاول اس کی غذا تھے لیکن فاقے بھی کرنا پڑتے تھے۔ چاول ہوتے تو سبزیاں نہیں پکتیں، پرندہ ہوتا تو اور چیزوں سے محروم رہتا، گویا کہ کبھی کبھار ہی اسے پیٹ بھر کھانا نصیب ہوتا۔ جنگلوں میں جڑی بوٹیاں کثرت سے ہوا کرتی ہیں، یہ ان کو بھون بھان کر کھالیا کرتا تھا۔
میں نے پرما کا خصوصی طور پر ذکر تفصیل سے یوں کردیا ہے کہ آپ اسے آدی باسی قوم کانمائندہ سمجھ کر ان کے رہن سہن کے طریقوں یا دن رات کی مصروفیت سے واقف ہوجائیں۔
جیل سپریٹنڈنٹ نے اگلے دن تڑکے ہی پھانسی دینے سے پرما کو واقف کردیا، پرما نے کوئی جواب نہیں دیا، سپریٹنڈنٹ عبدالرزاق خان دراز قد چوڑا چکلا شخص تھا، جس کی گھنی اور پیچ دار مونچھیں اور گول بادامی رنگ کے شیشوں کی عینک اسے خطرناک حدتک بارعب بنائے ہوئے تھی۔ اس کے آفس میں پیشاب، سیلن، پرانے کاغذوں اور فائلوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے شیشم کا سیاہ گول ڈنڈا ہاتھو ں میں مانجھے کی پھرکی کی طرح گھماتے ہوئے پوچھا، ’’تجھے کھانا کب دیا جائے؟‘‘
’’پھانسی سے پہلے۔‘‘
’’رات کو مگر اس وقت تک باورچی خانہ بند ہوتا ہے شام کو پکاکر رکھا ہوا کھالے گا؟‘‘
’’کھانے کو تو میں کئی دن کا باسی کھالوں گا۔ مگر چونکہ یہ آخری بھوجن ہوگا اس لیے گرما گرم کھانے کو جی چاہتا ہے، ورنہ کوئی بات نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے! کتنا کھائے گا؟‘‘
یہ کہہ کر سپریٹنڈنٹ عبدالرزاق خاں نے اپنے چمڑے کے جوتوں سمیت پیر اونچے ٹیبل پر رکھ دیے۔ پرما کرسی پر ٹبیل کی دوسری جانب اکڑوں بیٹھا ہوا تھا۔
’’کتنا کھائے گا؟‘‘
پرما نے دونوں ہاتھ پھیلاکر چاول کی مقدار بتائی،
’’اتنا۔‘‘
پرما نے اثبات میں گردن ہلائی۔
’’اور دال؟‘‘
پرما نے بالٹی کا بطور ظرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ دوسرے اشارے سے اس کی تلے سے اوپر تک بھرے رہنے کا۔ جیل سپریٹنڈنٹ عبدالرزاق خان نے چشمے کی بادامی کانچ کے اوپر سے اسے گہری نظر سے دیکھا، گویا کہ وہ اتنی بڑی مقدار دال بھات طلب کرنے کا اصل سبب جاننا چاہتا ہو۔
’’اتناکھالے گا تو؟‘‘
پرما نے دوبارہ اثبات میں گردن ہلادی۔
اگلے دن پھانسی تھی۔ پرما کے سر کے بال استرے سے اتارے گئے۔ داڑھی بنائی گئی، قیدیوں کی نئی وردی پہننے کو دی گئی۔ کوئی اس کے مذہب سے واقف نہ تھا۔ پرما خود واقف نہ تھا۔ چنانچہ پادری، مولوی، پنڈت اور بودھ بھکشو کو بلایا گیا۔ چاروں نے اپنے اپنے طرز پر اس کے موکش اور نجات کی دعا کی۔ اسے اپنی اپنی مذہبی زبان میں آخرت پر بھروسہ اورگناہ کی بخشائش کے لیے دعا مانگنے کی صلاح دی اور چلے گئے۔
مگر جانے سے پہلے بودھ بھکشو نے جیل سپریٹنڈنٹ عبدالرزاق خان سے پوچھا، ’’کیا آپ ہمیں بتانا گوارہ فرمائیں گے کہ اسے کس گناہ کی پاداش میں سزائے موت دی جارہی ہے؟‘‘
’’جی ہاں! اُس نے ایک انگریز کا قتل کیا تھا۔‘‘
’’انگریز کا قتل؟ مگر کیوں؟‘‘
عبدالرزاق خان نے ان کے ساتھ جیل کو محیط اونچی، مضبوط اور طویل دیوار کے پھاٹک پر رکتے ہوئے کہا، ’’یہ بات ہم بڑی مشکل سے سمجھ پائے کہ ایک روز یہ بیٹھا ٹوکری بنا رہاتھا کہ اس کی بیٹی نے گھنے پودوں کے پیچھے چمکتی ہوئی آنکھوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بابا وہ ہرن مجھے لا دیجیے۔ پرما بیٹی پر جان نثار کرتا تھا۔ مسکراتا ہوا اٹھا اور دوڑ پڑا ہرن پکڑنے کو۔ کافی دور تک اس نے ہرن کا پیچھا کیا۔ قریب تھا کہ یہ اسے پکڑ لیتا کہ ٹھائیں کی آواز آئی اور ہرن تڑپ کر گرا اور ٹھنڈا ہونے لگا۔
پرما نے دیکھا کہ ایک انگریز بندوق اٹھائے دومقامی لوگوں کے ساتھ ہرن کی طرف چلا آرہا ہے۔ پرما نے ہرن کی تڑپ اور آنکھوں سے غم و حسرت کا دھواں اٹھتا دیکھا تو اسے غصہ نہیں آیا۔ بلکہ بس ایک خیال آیا۔ اس نے وہاں پڑا ہوا پانچ سیر کاپتھر اٹھاکر اس کے مستک پر دے مارا۔ چوٹ ایسی شدید تھی کہ موقع واردات ہی پر انگریز شکاری کی موت ہوگئی۔‘‘
جیل کے پھاٹک کے پیٹ میں بنا چھوٹا دروازہ کھول دیا گیا۔ وہ چاروں جیل سپریٹنڈنٹ سے ہاتھ ملاکر یکے بعد دیگرباہر چلے گئے۔ ان چاروں کے دلوں کو یہ خیال صدمہ پہنچا رہا تھا کہ انہوں نے جس کی نجات اور بخشائش کے لیے دعا کی تھی، کیا وہ واقعی میں قصوروار اور سزائے موت کا مستحق تھا؟
کوے پتا نہیں کیا دیکھ کر کائیں کائیں کرنے لگتے ہیں، مگر مرغ ایسی غلطی نہیں کرتے کہ جب تک تڑکا نہ ہو، بانگ نہیں دیتے۔ پرما سویا کہاں تھا! رات بھر جاگتا رہاتھا۔ اسے اپنی زندگی کے سخت اور کٹھور، شادمانی اور آنندی کے دن یاد آئے۔ ماں کے دیہانت کادن، باپ کو سانپ کے کاٹنے اور اس کے تڑپ کر مرجانے کا دن۔ بیوی سے بیاہ کا دن، بچی کی پیدائش کا دن، پھر اسے یاد آیا کہ اس کے جسم کے تمام اعضا جیل کی مہینہ بھر کی قید کے سنگلاخ ماحول میں سکڑ سمٹ کر رہ گئے ہیں۔
راہ داری میں سپاہیوں کے چلنے کی آواز سنائی دی، وہ تین تھے۔ ایک نے بڑا پتیلا کپڑے کی مدد سے پکڑ رکھا تھا، دوسرا بالٹی اٹھائے ہوئے تھا۔ دونوں ظروف ڈھکے ہوئے تھے۔ جب اُن پر سے ڈھکن ہٹائے گئے تو تازہ پکے ہوئے دال چاولوں کی بھاپ کے ساتھ ان میں بسی ہوئی سوندھی سوندھی خوشبو کمرے میں پھیل گئی۔ انہوں نے ایک ٹاٹ بچھاکر ایک ایلومینم کی بڑی سی رکابی رکھ دی۔ پانی کی صراحی اور گلاس بھی پاس ہی رکھ دیا۔
پرما نے ان کے رویے میں تبدیلی دیکھی۔ آج ان کے کھانا پروسنے کا انداز مہذبانہ تھا، ورنہ کتوں کو راتب دینے کا سا ہوتا تھا۔
اس نے تھوڑے سے دال چاول رکابی میں ڈال کر کھالیے۔ جی نہ بھرا تو اور کھائے پھر اور۔۔۔ گویا کہ آج ہی اسے پیٹ بھر کھانا نصیب ہوا ہو! اُس کے باوجود بہت سال دال بھات بچ گیا۔ اس نے اسے احتیاط سے ڈھک دیا۔ گلے میں سے رنگ برنگی پتھروں کی مالائیں نکالیں، کلائی پر سے لوہے کا کنگن اتار، کان میں پڑے ہوئے سوراخوں میں سے کوڑیوں اور ہاتھی دانت کے حلقے نکالے، وہ کپڑا بھی اس نے دھوکر خشک کرکے احتیاط سے رکھا تھا جسے وہ اپنا ستر چھپانے کے لیے باندھا کرتا تھا۔ اس نے کل شام ہی کو یہ تمام چیزیں جیل سپریٹنڈنٹ کی کسٹڈی سے التجا کرکے منگوالی تھیں۔ اس نے ان کو کھانے کے برتنوں کے اطراف یوں سجاکر رکھ دیا تھا گویا کہ مالک و مختار وہی ہو، مرکزی قوت وہی ہو اور یہ اس کے زیر فرمان اور تابع ہوں۔
پھانسی کھڑی ہوچکی تھی۔ جلاد پھانسی کی ٹکٹکی سے بندھی رسی کو بار بار کھینچ کر اس کی مضبوطی کو جانچ رہاتھا۔
جیل سپریٹنڈنٹ عبدالرزاق خان کے نعل لگے ہوئے جوتوں کی آواز راہ داری میں گونجی، تالا کھولا گیا۔ لوہے کا دروازہ کھلا۔
’’پرما چلیں، پھانسی کھڑی ہوچکی ہے، تڑکا ہونے والا ہے۔‘‘
پرما نے حسب معمول اثبات میں گردن ہلادی۔ پھر فرش پر رکھی ہوئی تمام اشیا کی جانب انگلی سے اشارہ کرتا ہوا بولا، ’’سرکار! یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں میری ہیں، ہیں نا؟‘‘ خان نے اثبات میں گردن ہلاکر ’’ہونھ‘‘ کہا۔ پھر اس نے دونوں برتنوں پر سے ڈھکن ہٹایا، اُن میں دال چاول رکھے ہوئے تھے،
’’اور ساب! یہ کھانا؟‘‘
’’یہ بھی تمہارے لیے ہی پکایا گیا تھا۔‘‘
’’تو پھر میرا ہوانا؟‘‘
’’ٹھیک ہے تمہارا سہی۔‘‘
’’تو سرکار! ایک کرم کیجیے گا، میری لاش کو لینے کے لیے میری بیوی، میری بیٹی، میرا بھائی وغیرہ آنے والے ہیں، یہ بات انہوں نے مجھے پھانسی کی سزا دیے جانے کے دن عدالت میں بتائی تھی۔‘‘
’’ہونھ۔‘‘ سپریٹنڈنٹ خان کے منہ سے پھر نکلا۔
’’تو صاحب! ان چیزوں کے ساتھ یہ کھانا بھی ان کو دے دیجیے گا، پیٹ بھر کر کھالیں گے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.