درختوں، بیلوں اور پھولوں میں گھر ی ہوئی ڈیوڑھی کسی بوڑھی کمزور عورت کی طرح جھک آئی تھی۔ چھت کی بڑی بڑی مضبوط نائیں دیمک چاٹ رہی تھی۔ بارش نے زرد رنگ ڈالا تھا اور باہر ڈیوڑھی کی دیواروں پر کائی اگ آئی تھی۔ نواب میاں کی یہ ڈیوڑھی اپنے اندر بڑی کشش رکھتی تھی اس ڈیوڑھی کو دیکھنے والے نوابی دور کی پوری تاریخ پڑھ سکتے تھے۔ جو کوئی ایک بار وہاں جاتا وہ دوبارہ جانے کی آرزو ضرور کرتا۔ وہ بادشاہی دور کے بہت بڑے جاگیردار گنے جاتے تھے۔ ان کی جاگیر میں دیہات کے دیہات شامل تھے۔
ایسی ایسی کئی ڈیوڑھیاں انھوں نے بنوا بنوا کے رشتہ داروں کو دے رکھی تھیں۔ مگر اس ڈیوڑھی کی بات ہی دوسری تھی۔ باہر دیوان خانہ میوزیم کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس بڑے ہال میں جہاں شیر کی کھالیں نیچے فرش پر بچھائی گئیں ان کھا لوں میں ماونٹ کئے گئے شیروں کے سر، خوفناک آنکھیں اور کھلا ہوا منہ دیکھ کے ہی جھر جھری آ جاتی۔ دیواروں پر بارہ سنگھے اور ہرن کے سرمعہ نوکیلی سینگوں کے آویزاں تھے۔ ریچھ اور شیرو ببر کی خونخوار صورتیں بھی ٹنگی تھیں اور درمیان میں نواب میاں کے آباء و اجداد کی قد آدم تصویریں لگا ئی گئی تھیں۔ چمکدار آنکھیں، گھنی مونچھیں۔۔۔ درندوں کے ساتھ ٹنگی ہوئی یہ تصویریں بالکل اجنبی نہ لگتی تھیں۔ کوئی بات مشترک ضرور تھی! کونوں میں رکھے ہوئے سنگ مرمر اور سنگ سیاہ کے مجسمے اپنے اندر جن کی ہزاروں باریکیاں و نزاکتیں لئے کھڑے تھے۔ دیواری گھڑی سے لے کے ایش ٹرے تک ساری چیزیں بے حد قیمتی اور خوبصورت تھیں اور ان کے درمیان نواب میاں کی وجیہہ و شکیل شخصیت ملاقاتیوں کے دل پر ان کے دبدبے و رعب کا گہرا تاثر چھوڑتی تھی اور لوگ بے چوں و چرا ان کی خاندانی نوابی تسلیم کر لیتے۔
ایرانی قالین اور کار چوبی دیوان، چینی گلدان و بیدری واز، ہاتھی دانت کے صندوقچے اور اخروٹ کی لکڑی کا فرنیچر۔۔۔ لوگ حیران رہ جاتے کس فن کو سراہیں۔۔۔؟
ڈیوڑھی کے نیچے تہہ خانہ تھا جہاں سجے سجائے ٹھنڈے کمرے تھے ان کمروں کو بھی قیمتی سامان سے سجایا گیا تھا۔ زردوزی کی ریشمی چادریں چندن کے خوبصورت مہکتے پلنگ، اونچے اونچے طاقوں میں رکھے ہوئے پیتل اور تانبے کے اسٹیچو۔۔۔ کریم نگری چاندی کے عطر دان اور چاندی کے جال دار پاندان۔۔۔ چھت سے لٹکے ہوئے رنگین فانوس جن میں سرشام سرخ شعلے بھڑکتے تو دیواروں پر شفق سی کھل جاتی۔
نواب میاں بیگم صاحبہ کی طرف پاندان سرکا کے بھاری آواز میں پان کی فرمائش کرتے تو سرپر ڈوپٹہ ٹھیک کر کے وہ چاندنی کو آواز دیتیں۔
’’چاندنی۔۔۔ ذرا خاصدان ادھر دے جانا۔’‘
چاندنی آواز پر لپکی چلی آتی تویوں لگتا جیسے پھولوں سے لدی ہوئی ٹہنی ہے جو ہوا کے جھونکوں پر لچک رہی ہے۔ پچیس چھبیس برس سے زیادہ عمر نہیں تھی۔ گلابی رنگت، حسین آنکھیں اور بھرے بھرے سرخ ہونٹ جو زبان پھیرنے سے انار کی کلی کی طرح سرخ و شاداب نظر آتے۔ کہتے ہیں نواب میاں نے اس کو پہلی ہی نظر میں پسند کر لیا تھا اور پکڑ دھکڑ کے لائی ہوئی چاندنی اس دن سے آج تک اپنے شوہر اور اکلوتے بچے کے لئے ترس رہی ہے ترستی ہے، تڑپتی ہے مگر ڈیوڑھی کی اونچی دیواروں اور نواب میاں کی مضبوط باہوں نے ہمیشہ اس کو جکڑ لیا۔ وہ سرجھکائے تھکے تھکے قدموں سے پریشان سی یوں گھوما کرتی جیسے اس نے کچھ کھو دیا ہو کوئی بہت ہی قیمتی شئے۔ وہ نواب میاں کی چہیتی ڈیوڑھی کا مضبوط ستون بن گئی تھی۔ لوگ چاندنی کو بھی نواب میاں کے نوادرات میں تصور کرتے۔
مگر چاندنی اس بڑھیا معیار زندگی کو اپنانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ رات گئے دیر تک انگور کے منڈوے کے نیچے بیٹھی گنگنایا کرتی۔ پھر کسی بچے کی آواز اس کو زدرسے چونکا دیتی۔ دور کہیں کسی پالنے میں پڑا بچہ روتا تواس کے دل میں سوئے ہوئے ممتا کے جذبے کو جھنجھوڑنے لگتا۔ وہ پیاسی چڑیا کی طرح ہانپنے لگتی۔ ہاتھ ننھی منی گول مول باہوں کو ٹٹولنے کے لئے بیقرار ہو جاتے۔
چاندنی راتوں میں ننھے کو کندھے سے لگائے میٹھی میٹھی لوریاں سنانے کو دل مچل جاتا مگر آٹھ برس کا لمبا چوڑا فاصلہ ننھا اور چاندنی کے بیچ حائل تھا۔ وہ چپ چاپ حال کے اندھیرے میں ماضی کے دیئے جلائے بیٹھی رہتی ان دیوں کی ہلکی روشنی میں وہ اپنی زندگی کے حسین لمحوں کے پھول چنتی اس کو اپنے آنگن میں لگا سیب کا درخت یاد آتا۔ سفید پھولوں والے اس درخت کے نیچے کھاٹ پر بیٹھ کر وہ ننھے کو دودھ پلاتے میں سووچتی اور کیا چاہیئے؟ چاہنے والا شوہر ننھا منا پیارا سا بچہ، اچھا گھر اور آنگن میں سیب کا پھولوں اور پھلوں سے لدا درخت۔۔۔ عورت کی دنیا کس قدر مکمل اور حسین ہے۔
مگر آندھی اتنی تیزی سے اٹھی کہ اس کے چھوٹے سے گھر کا تنکا تنکا بکھر گیا۔ اتنے اونچے اونچے جاگیر داروں سے کون ٹکر لے سکتا ہے بھلا؟ اگر اس کا شوہر اس کے آگے سپربن جاتا تو اس کا آبائی مکان ڈھا دیا جاتا۔ اس کے شوہر اور بچے کی جان نہ بچ پاتی اور۔۔۔
کوئی نہ کوئی اس کو آواز دیتا اور اس کے ہاتھ سے یادوں کا دامن چھوٹ جاتا۔ اس عمر میں وہ بوڑھوں کی طرح غیر جذباتی اور سنجیدہ ہو گئی تھی۔ سارے کام کا ج سے چھٹی پا کے وہ اپنے کمرے میں آرام کرسی پر پڑی گھنٹوں ڈیوڑھی کے نیم جان افراد کا نفسیاتی تجزیہ کیا کرتی۔
ایک بیگم صاحبہ تھیں جو ایک بہت بڑے جاگیردار گھرانے سے نواب میاں کی دلہن بن کے آئی تھیں۔ سرسے پیر تک سونے میں لدی ہوئی وہ عورت چلتی پھرتی سونے کی دوکان دکھائی دیتی۔ بات بات پر جھڑکیاں، کو سنا ان کی عادت تھی۔ سونے کی اس چھری کے نیچے سب ہی اپنا گلہ دے کے خوش ہوتے۔
دوسری حضور بیگم تھیں جو چندن کے چوڑے خوبصورت پلنگ پر بر سوں سے پڑی کراہتی رہتیں۔ دالانوں میں دور تک ان کی کراہیں سنائی دیتیں۔۔۔ فالج زدہ حضور بیگم تنہا اپنی ذات پر آنسو بہائے جائیں نواب میاں صبح شام دونوں وقت ان کی خیریت پوچھنے جاتے تو بیٹے کی صورت دیکھتے ہی آنکھوں سے برسات کی جھڑی لگ جاتی۔ وہ یوں سہمی سمہی نظر آتیں جیسے موت کوآس پاس منڈ لاتے دیکھ لیا ہو۔ پھر بھی مٹھی بھر ہڈیاں زندہ رہنے کی کشمکش میں مصروف تھیں ان دونوں کے علاوہ نظیر جان تھیں۔۔۔ ہرسات ڈیوڑھی میں نواب میاں کے مخصوص دوست احباب جمع ہوتے، پھولوں میں رکھے ہوئے پان کے بیڑے اور حقے کے زرین نیچے گردش میں آتے اور نظیر جان اپنے سازندوں سمیت بن ٹھن کے شمع محفل بن جاتیں۔
صبح کا تارا ٹمٹمانے لگتا اور فانوسوں میں شمعیں جل جل کے بھسم ہو جاتیں توسب کو جماہیاں آنے لگتیں۔
جس نواب کے پاس رنڈی و گھوڑا نہ ہو وہ کیا منہ لے کر شاہی دربار جائے گا جب تک آٹھ دس عمدتیں نخرے دکھاتی، گوٹا لچکا چمکاتی اور پازیب بجاتی ڈیوڑھی میں نہ ٹکتی پھریں۔۔۔ تھان پر دس بیس گھوڑے نہ ہنہنایا کریں رنڈی دہلیز کے کتے کی طرح نہ پڑی ہو۔۔۔ رکھیل عورتیں، باندیاں، انائیں اور مغلانیاں نہ ہوں تب تک کوئی کاہے کو نواب کہلائے۔
ہر وقت کے مفت خوروں نے الگ ڈیوڑھی کو لنگر خانہ بنا رکھا تھا دیتے دیتے چاندنی کے ہاتھ تھک جاتے، جانے کہاں کہاں سے چلے آئے ہیں کمبخت مارے۔
نواب میاں کے باپ دادا بادشاہ وقت کے مصاحبوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ پھاٹک پر سواری کا ہاتھی کھڑا نوابی شان و شوکت کا مظاہر ہ کیا کرتا۔ مگر اب صرف گھوڑے رہ گئے تھے۔ نواب میاں کے باپ نے پچاس بیگمیں مرنے کے بعد ترکہ میں چھوری تھیں اور بیچارے نواب میاں آٹھ دس عورتوں ہی پر اکتفا کئے بیٹھے تھے۔
چاندنی کے لئے یہ ساری کہانیاں، دادی اماں کی سنائی ہوئی کہانیوں کی طرح تھیں۔ کہانیوں کے وہ تصوراتی شہزادے نواب میاں کی شخصیت میں حقیقت بن گئے تھے مگر ان شہزادوں کے ازلی کمینہ پن پروہ دانت پیس کر رہ جاتی۔ فرق یہی تھا کہ کہانیوں کے دو شہزادے جنوں، پریوں سے اپنی محبوبہ کا اغواء کروا لیتے تھے اور نواب لوگ یہ کام اپنے ایجنٹوں سے لے لیا کرتے ہیں۔
’’اللہ جانے کیا ہوتا جا رہا ہے چاندنی کو،سب سے زیادہ چہیتی ہے پھر بھی ہر وقت کھوئی کھوئی اپنی دنیا میں گم رہتی ہے۔’‘
’’غلیظ موریوں میں پلنے والے محلوں میں آ کے اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔’‘ لوگ اس پر ریسرچ کرنے بیٹھ جاتے تو وہ انہی سے اکتا جاتی۔
آخر نواب میاں کو کیا حق ہے کہ رات کی تاریکی میں جنگلی بھیڑئیے کی طرح ایک معصوم بھیڑ پر جھپٹ پڑیں؟ اس کی زلفوں سے کھیلنے والے ہاتھوں سے وہ شدید نفرت محسوس کرتی۔ گرم سانسیں اس کو گرمیوں میں اٹھنے والے بگولوں کی طرح جھلسا دیتیں۔۔۔
موم کی طرح پگھل جانے والا جسم تو ہر آغوش میں پگھل جاتا تھا۔ وہ مارے کراہت کے منہ بناتی۔۔۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی وہ پگھلے ہوئے نقوش پتھریلے بن جاتے۔۔۔ مغرور پیشانی اور قہر آلود نگاہیں اس سے ہر وہ کام کروا لیتیں جس کو کرنے کے لئے اس کو اپنے آپ پر جبر کرنا پڑتا۔۔۔ وقت کچھوے کی رفتارسے آگے بڑھتا رہا اور وہ سرجھکائے ڈیوڑھی کا آنگن ناپتی رہی۔۔۔ پھر اچانک ڈیوڑھی کی روایات نے دم توڑ دیا۔
وہ ساری ریت رسمیں ختم ہو گئیں جو زندگی کے لئے ضروری سمجھی جاتی تھیں ہرسال نواب میاں ڈیوڑھی پر قلعی پھرواتے تھے مگر اب کے برس اس طرف سے آنکھیں موندے بیٹھے تھے بیگم صاحبہ کا پاندان خرچ بند ہو گیا تو رو رو کے انھوں نے دوپٹوں کے ڈوپٹے آنسووں سے بھگو لیئے نظیر جان معہ سازندوں کے اپنا اجڑا کوٹھا بسا نے چلی گئیں اور نواب میاں بانہہ پکڑ کے روک بھی نہ سکے۔ ان کی زندگی کی ڈال پر کوکنے والی کوئل اڑ گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی دوست احباب جو جانثار و جگری دوست گنے جاتے تھے۔ اپنی جان و جگہ سنبھال کے محفل سے اٹھ گئے تھے۔ بمبئی جا کے بکنے والے جواہرات و نوادرات اپنی آدھی قیمت بھی وصول نہ کر پائے تھے۔ بیگم صاحبہ کی مغرور آنکھوں میں بے بسی کے آنسو بھر آئے تھے۔ ان کا جی چاہتا تھا۔ نواب میاں سے کمر کس کے لڑنے کھڑی ہو جائیں مگر ان کے میکے کی حالت بھی خراب ہو چکی تھی اور پشت ہا پشت چلی آئی جاگیرداری ختم ہو چکی تھی۔ لوگ کہتے تھے صدیوں سے ڈھائے ہوئے ظلم آج رنگ لا رہے ہیں۔س ارے جاگیر دار فالج زدہ مریض بن گئے تھے۔
گھر بھر میں ویرانی چھا گئی تھی۔ آنسووں و آہوں میں ڈوبی ہوئی دیوڑھی پرانے قبرستان کی طرح بھیانک اور ڈراؤنی نظر آتی۔ گرم ہواؤں کے جھکڑ آشیانوں کے تنکے اڑائے پھرتے ہیں۔ فانوسوں میں روشنی کی جگہ شمع کے آنسو رہ گئے تھے۔ جامن کے پیڑ پر بیٹھا الو زور سے چیختا تو دل میں اداسی کا تیر اتر جاتا۔
مگر چاندنی کے ہونٹوں پرتبسم کی لکیریں سی رقص کرتیں۔ اب چہرے پر وہ ہیجانی کیفیت بھی نظر نہ آتی۔ اس کو یوں محسوس ہوتا جیسے حبسِ دوام کے قیدی کو اچانک رہائی کا حکم ملا ہو۔ پیر ہلکے ہو گئے۔ ان میں پڑی ہوئی زنجیریں اچانک ٹوٹ کے گر پڑی تھیں۔ بیسیوں لوریاں اس کو یاد آ گئی تھیں اور ذہن کے چھوٹے سے آنگن میں یادوں کا پودا درخت بن چکا تھا۔ جس کی شاخوں پر امیدوں، آرزوؤں اور خوشیوں کے سیب اب پک گئے تھے۔ سرخ ہو گئے تھے۔
اس نے آہستہ سے شیشوں کے پٹوں والی کھڑکی کھولی اور نیچے اتر گئی پھاٹک پر کھڑے ہوئے چوکیدار نے کھنکارا اور پھر اونگھ گیا۔
چاندنی ماضی و حال سے بے خبر چلی جا رہی تھی۔ کچھ دور تک وہ ڈگمگاتے قدموں سے چلتی رہی۔ مدت تک پنجرہ میں بند رہنے والے پرندے کی طرح جو آزاد ہونے کے بعد بڑی دیر تک اڑ نہیں سکتا۔ آزاد اور خوشبودار ہوا کا جھونکا سن سے گذر گیا۔ اس کے قدم اب جم کے پڑ رہے تھے کتنی عجیب بات تھی کل تک ظلم کی حمایت کرنے والی جاگیر داری تھی، جاگیر داری کی جڑیں مضبوط کرنے والی شہنشاہیت تھی اور آج اس زنجیر کی ساری کڑیاں الگ الگ پڑی تھیں۔ جانے یہ زنجیر کتنے پیروں میں بیڑیاں بن گئی تھی۔ اچھا ہوا جو ٹوٹ گئی کتنے قدم نجات پاک کے منزل کی طرف اٹھ رہے تھے۔ وہ بھی ہلکی پھلکی پنکھڑی کی طرح اڑی جا رہی تھی۔ دنیا کتنی بڑی ہے۔ کتنی خوبصورت و وسیع۔ وہ بھی اپنے آنگن میں کھاٹ پر بیٹھی ننھے کو کہانیاں سنائےگی۔ شہزادوں محلوں اور جنوں کی نہیں۔ سیب کے درخت کی جس پر لگے ہوئے امیدوں کے سرخ سیب، انسان کو زندہ رکھتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.