شاہ جی
شاہ جی جیسا متقی پرہیز گار میں نے نہیں دیکھا۔ لوگ پانچ وقت شاہ جی سات وقت نماز پڑھتے وہ بھی ایک ہی وضو سے۔ تہجد کی گھر پر چاشت کی دفتری اوقات میں۔ چاشت کے بعد دفتر کے کمپیوٹر پر کبھی انڈین کبھی انگریزی ٹوٹے دیکھتے پھر ظہر ادا کرتے۔
غیب کا علم رکھتے۔ عورت کے پیٹ کو دیکھتے ہی بتا دیتے کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ حرامی ہے یا حلالی۔ جنرل نالج کمال کا۔ دفتر کی ہر لڑکی ہر عورت کی برا کا سائز معلوم۔ عورتوں کی چھاتی پر ایک بار نظر پڑ جائے تو ہٹتی ہی نہ تھی۔ کہتے گناہ دوسری نظر سے شروع ہوتا ہے۔ دفتر کی ہر عورت کی ذاتی کہانیاں اس کی غیر موجودگی میں مزے لے لے کر عینی شاہدین کی طرح سناتے۔ ماتحت لڑکیوں پر خاص شفقت فرماتے۔ وہ لڑکی نوکری کر ہی نہ سکتی تھی جو اپنے جسم پر ان کے دست شفقت کا بوجھ برداشت نہ کر سکے۔ دراصل کمپنی کی باس شاہ جی کی محبوبہ تھی اس لئے کسی مائی کے لال میں جرات نہیں کہ ان کا کچھ اکھاڑ سکے۔
سالانہ حج سہ ماہی عمرہ کرتے۔ اس طرح سارے گناہ خود بخود ڈرائی کلین و سٹیم پریس ہو جاتے۔ شاہ جی ان خواتین کے لئے پارس تھے جنہیں بیٹے کی آرزو تھی۔ بس انکے پھولے پیٹ کے ذرا نیچے ہاتھ پھیرتے۔ بھلے پیٹ میں لڑکی ہو وہ لڑکے میں کنورٹ ہو جاتی۔ سبحان اللہ۔
ارے میں نے اپنا تعارف تو کرایا ہی نہیں! میں اس دفتر میں معمولی سی ملازمت کر رہی تھی جو میرے لئے بہت بڑی تھی۔ میرا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ میں شاہ جی کے انڈر تھی۔ شاہ جی نے ایک دن مجھ پر دست شفقت پھیرنے کی کوشش کی۔ جواباً میں نے ایک تھپڑ جڑ دیا اور شکایت لگا دی۔ شاہ جی کی محبوبہ یعنی سیٹھانی نے الٹا مجھے ہی نوکری سے نکال دیا۔ مجھے شدید مایوسی ہوئی۔ اس دن فیصلہ کیا کہ سی ایس ایس کرونگی۔ سرکاری ملازمت کرونگی۔ وزیر اعظم کی جرات نہیں کہ کسی کلرک کو نوکری سے نکال سکے۔ تبادلہ یا کھڈے لائن یعنی او ایس ڈی ضرور لگا سکتا ہے۔ سو کیا اور پولیس سروس جوائن کی۔ وومن تھانے سارے میرے ہی انڈر تھے۔ میرے میل ساتھی انکاونٹر کرتے اور میں ریپسٹ کا عضو تناسل کاٹ ڈالتی۔ ظاہر ہے یہ سب چھپ چھپا کر ہی کرنا پڑتا۔ دراصل میرے انڈر کچھ لڑکیاں ریپ وکٹم تھیں۔ عدالتوں میں انصاف تو ہوتا نہ تھا۔ ہم خود ہی عدالت بن گئے۔ میرے خلاف کئی شکایات حکام بالا تک پہنچیں۔ انکوائریاں ہوئیں۔ لیکن کچی گولیاں ہم نہیں کھیلتے۔ ثابت کچھ بھی نہ ہوا۔ الٹا پروموشن ہوئی۔ اب میں ایس ایس پی تھی۔ میڈیا نے مجھے سر پر چڑھا رکھا تھا۔ میری وجہ سے انکی ریٹنگ ہائی تھی۔ میرا نام کیسٹریشن شپیسلسٹ پڑ گیا۔
ایک دن ایک سائل ملنے آیا۔ پہلی ہی نظر میں پہچان لیا کہ یہ تو اپنے شاہ جی ہیں۔ وہ مجھے نہ پہچانے شاید جان بوجھ کر! خیر میں نے اچھی طرح ٹریٹ کیا۔ توجہ سے بات سنی۔ انہیں احساس تک نہ ہونے دیا کہ میں پہچان چکی ہوں۔ دردناک واقعہ تھا۔ ان کی بچی کا چار کزنز نے مل کر ریپ کیا تھا۔ چاروں سگے بھائی تھے اور شاہ جی کے چھوٹے بھائی کی اولاد۔ واقعہ بیان کرتے شاہ جی زاروقطار رونے لگے۔ میں نے انہیں بتایا کہ جرم تو دوسرے شہر میں ہوا۔ میں زیادہ سے زیادہ ایف آئی آر کٹوا سکتی ہوں۔ مگر شاہ جی کچھ اور چاہتے تھے۔ چاروں لڑکوں کی کیسٹریشن منہ مانگی رقم کے عوٖض! اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ اگر شاہ جی اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر اس وقت کیسٹریٹ کروا دیتے جب وہ مجھ پر دست شفقت رکھنے کی کوشش کر رہے تھے تو آج یہ دن ہی نہ دیکھنا پڑتا۔ فیملی پلاننگ والے مفت میں ہی کام کر دیتے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.