Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہ زادے کی پریم کہانی

صغیر رحمانی وارثی

شاہ زادے کی پریم کہانی

صغیر رحمانی وارثی

MORE BYصغیر رحمانی وارثی

    لڑکی کو لڑکے سے عشق ہو گیا تھا۔

    ایسا عشق کہ ایک پل چین نہیں۔ ہر گھڑی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی طلب، ہر وقت اس کی قربت کی آرزو۔ رات کو نیند، نہ دن کو قرار۔ بس لڑکا اس کی آنکھوں میں بس کے رہ گیا تھا۔ لڑکی نے جب پہلی بار لڑکے کو دیکھا تھا، اس کی آنکھیں خواب ناک ہواُٹھی تھیں، گویا اس کی مدتوں کی تلاش پوری ہو گئی ہو اور ایک نئے سفر کے آغاز کی سبیل نکل آئی ہو۔ اسے دیکھتے ہوئے اس نے اس گھڑی کو یاد کیا جب وہ السائے ہوئے کمرے میں لیٹی ہوتی تھی اور کوئی مرد چپکے سے اس کے قریب آکر بیٹھ جایا کرتا تھا لیکن وہ اسے دیکھ سن نہیں سکتی تھی کہ وہ کوئی حقیقت نہیں ہوتی تھی صرف اس کے خیالوں کا تانا بانا ہوتا تھا لیکن لڑکے کو دیکھنے کے بعد اس نے محسوس کیا تھا کہ یہی، بالکل یہی اس کے دل کا شاہ زادہ ہے، جو اس کے کمرے میں ایک احساس، ایک خواب کا جسم لے کر داخل ہوتا تھا اور چپکے سے اس کے قریب بیٹھ جاتا تھا۔

    یہ سب یاد کرتے ہوئے وہ بہنے لگی تھی کہ بہنااسے اچھا لگتا تھا اور اس لمحہ اس نے شعوری طور پر محسوس کیا تھا کہ کوئی اس کے کانوں کے قریب آکر پھسپھسا رہا تھا... ۔

    ساڈے... ساڈے ... ۔

    لڑکی نے اس لمحہ بے چین نگاہوں سے اپنے آس پاس دیکھا تھا اور لڑکے کا ہاتھ سختی سے بھینچ لیا تھا۔

    لڑکی بےحد حسین تھی۔ اس کی نیلی اور گول آنکھیں اور پتلی ناک تھی اور اس کے کاغذ جیسے ہونٹوں کے اوپر مہین نیلے ریشے تھے۔ متحرک کایا تھی اور جنبش کرتے چھوٹے چھوٹے عنابی گال تھے۔ غیر موجودگی کا احساس دلاتی کمر اور رنگت ایسی تھی کہ جیسے نمک اور پارے کی قلعی چڑھی ہو۔

    لڑکا اس کے برعکس معمولی نین نقش اور گہرے رنگ کا مالک تھا۔ اس کی آنکھیں چھوٹی اور بال بکھرے ہوئے رہتے تھے۔ وہ اداس رہتا تھا اور احمق ساد کھتا تھا لیکن اس کے بدن کی ساخت غضب کی پرکشش تھی او ر دنیا کی کسی بھی لڑکی کو دعوت نگاہ دینے کی صلاحیت سے بھر پور تھی۔لڑکی جب لڑکے کے ساتھ ہوتی اور لوگوں کی انگلیاں دانتوں میں دیکھتی تو اسے بڑا لطف آتا تھا اور وہ ایک انتہائی خوشگوار کیفیت میں مبتلا ہو جایا کرتی کہ اسے اپنے معیار انتخاب پر فخر تھا کہ وہ اس کے دل کا شاہ زادہ تھا اور یقیناً بے نظیر تھا۔ وہ اعتراف کرتی تھی کہ قدرت نے اسے ایک دوسری نظر عنایت کی ہے،چیزوں کو دیکھنے کی اور پسند کرنے کی اور وہ دنیا کی نظر کو، پسند کو مطلق رد کرتی تھی اور اس سے انکار کرتی تھی۔ اس نے اپنے دل میں زمانے کولے کر، وقت اور حالات کو لے کر، قسمت کو لے کر اور خدا کو لے کر ہمیشہ ہی تضادات محسوس کیے تھے اور وہ ان سبھی کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے بے نیاز رہنا پسند کرتی تھی۔ وہ لڑکے سے والہانہ محبت کرتی تھی۔ وہ محسوس کرتی تھی کہ جب کبھی اسے لڑکے کی قربت میسر ہوئی ہے، اسے، خود پر قابو نہ رہا ہے اور وہ پوری رفتار میں بہنے لگی ہے اور اس گھڑی لڑکے کے جسم میں پوشیدہ ایک پوری کائنات کی سیر کرنے کی اس کی خواہش شدید ہو جایا کرتی تھی۔ اس نے لڑکے کو آگاہ کیا تھا۔

    ’’شاہ! تمہارے اندر اجنتا اور ایلور اکے تمام راز پوشیدہ ہیں۔‘‘

    لڑکا گمبھیر ہو گیا تھا۔ کچھ تو وہ اپنی فطرت سے کم سخن اور شرمیلا واقع ہوا تھا۔ دوسرے اس تو بہ شکن حسن کی کشش بھی کم نہ تھی۔ رفتہ رفتہ لڑکی کی محبت میں اسیر ہونے کے باوجود وہ اس احساس سے باہر نہ نکل پاتا تھا کہ وہ لڑکی سے محبت کرتا ہے کہ وہ حسین ہے، قابل توجہ ہے لیکن لڑکی اس سے محبت کرتی تھی، یہ کیوں کر ممکن ہے کہ وہ نہایت ہی معمولی اور بد نماشبیہ رکھتا ہے۔ لڑکی کا معیار حسن اسے مشکوک کرتا اور وہ مایوس ہو جاتا۔

    لڑکی اسے روح سے محبت کرتی تھی لیکن وہ ایسا سمجھتی تھی کہ جسم کا سفر طے کیے بغیر روح کی منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ اگرکوئی ایسا کرتا ہے یا کرنے کا دعوی پیش کرتا ہے تو یقیناً وہ خود کو دھوکے میں رکھتا ہے۔ وہ اس بات سے واقف تھی کہ اس طرح کے دعوے منتشر کیفیت کے زیراثر وجود میں آتے ہیں او ر یہ کہ انتشارکے بطن میں منزل نہیں پلتی۔ ہر چند وہ کوشش کرتی کہ لڑکا اپنے غیر معمولی جسمانی اثاثے اور خوبیوں کو سمجھے اور ان کا خوش دلی سے اعتراف کرے لیکن لڑکی کو انتہائی رنج ہوتا کہ وہ اس سے قدرے بےنیاز تھا اور کسی دوسری دنیا میں محو رہتا تھا۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کو شش کرتی اور بےقرار ہو اٹھتی کہ نہایت خوش اسلوبی اور مشاقی سے وہ ٹال جاتا تھا اور کسی دوسرے خیال میں مصروف ہو جاتا تھا۔ لڑکی نے کہیں پڑھ یا سن رکھا تھا کہ مرد کی محبت اپنی حد کو عبور کر جاتی ہے تو کسی قدر خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ وہ سمجھ نہ پاتی تھی کہ وہ صورت کیا ہوتی ہوگی لیکن اسے یقین تھا کہ لڑکا بھی اس سے عشق کرتا تھا۔

    توکیا وہ اس حد کی خواہش کر سکتی ہے؟ لڑکی بےچین ہو اٹھتی۔ اسے لگتا کہ کسی اونچے ڈھلوان سے اسے بہا دیا گیا ہے اور وہ پوری رفتار سے بہتے ہوئے نیچے گرنے لگی ہے کہ ٹھہر جانا، سب کچھ جامد اور ساکت ہو جانے کے مترادف ہے۔ بہنا اور بہتے رہنا بھی منزل ہو سکتا ہے... اور وہ پوری رفتار سے بہہ رہی تھی۔

    لڑکی ہر جتن کرتی کہ لڑکا خوش رہے۔ ہنسے بولے اور اپنے جسم کی بجلی اس میں منتقل کر دے مگر تڑپ کر رہ جاتی کہ لڑکا ہنستا نہ تھا۔ اس کی دل بستگی کے لیے وہ کیا کچھ کرے کہ وہ ذرا سا ہنسے، اس فکر میں غوطہ زن تھی کہ ایک دن ایک ملاقات میں لڑکے نے اسے مژدۂ جانفز اسنایا کہ اب وہ بے روزگار نہ رہا اور اسے کسی ہوٹل میں ملازمت مل گئی ہے۔ لڑکی نے بےنیازی کا مظاہرہ کیا تھا کہ یہ مژدہ اس کے لیے کسی اہمیت کا قطعی حامل نہ تھا۔ لیکن لڑکے کی اداسی کا راز اس پر منکشف ہو چکا تھا اور وہ ایک گونہ فرحت اور سکون کا احساس کر رہی تھی کہ اس نے اس کے چہرے پر خفیف سی ہنسی کی رنگت دیکھ لی تھی۔ اسے لگا تھا کہ اس کے سفر کا آغاز یہیں سے ممکن ہے۔ وہ اسے اپنے گھر لے گئی تھی اور اس نے اپنے باپ کا کمرہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا باپ ایک مذہبی انسان تھا اور اس کے کمرے کی دیواریں اب بھی مندروں اور تیرتھ استھلوں کی تصاویر بے بھری پڑی ہیں اور رہ اپنے باپ کے کمرے میں اب تک ایک یادو بار ہی جا سکی ہے۔ جب وہ چھوٹی تھی اور اس کا باپ زندگی بھر منزل کی تلاش میں بھٹکتا رہا اور جو اسے کبھی نہ مل سکی۔جب کہ اس نے سادھوؤں کے سنگ عمر گزاری تھی۔

    اس دن اس نے شہر کے نفیس شور وم سے اس کے لیے دیدہ زیب لباس خریدے تھے اور شاندار کیفے کی شام اس کی نذر کی تھی۔ اس شام کیفے کے کنارے والی میز پر ان کے عرق عرق ہوتے احساس کا ذخیرہ جمع ہو رہا تھا کہ یک لخت لڑکی نے پھونک مار کر میز کی بتی گل کر دی تھی اور گلاسوں میں شامپین کی جھاگ بیٹھنے لگی تھی۔ لڑکی نے نیم وا آنکھوں سے لڑکے کو دیکھا تھا جو چہرے پر بے زاری کا تاثر لیے خاموش بیٹھا تھا۔ ذرا دیر بعد شامپین کی جھاگ پوری طرح بیٹھ گئی اور برف کا ٹکڑا تیر رہا تھا۔ گلاس کی دیواریں دھندلا گئی تھیں اور اس کے لبوں پر شبنمی قطرے چمکنے لگے تھے۔

    لڑکی نے بڑی نفاست سے شامپین کی چسکی لی تھی اور لڑکے کی طرف دوبارہ متوجہ ہوئی تھی۔ وہ بے قرار ہو اٹھی کہ لڑکے کی بےاعتنائی اسے بری طرح کھل رہی تھی۔ برف کا ٹکڑا رفتہ رفتہ گھل کو چھوٹا پڑتا جا رہا تھا اور لڑکی کی آنکھیں خواب ناک ہوتی جا رہی تھیں اور ان میں ایک طرح کی عارضی آسودگی پیدا ہونے لگی تھی۔ لمحہ لمحہ وہ ایک باوقار مسرت کی حد میں داخل ہوتی جا رہی تھی کہ کس طرح ایک مسلم اور پختہ حقیقت ایک دوسری حقیقت میں مدغم ہو کر اپنا وجود اور اپنی شناخت کھو دیتی ہے۔ اسے یقین تھا کہ یہیں سے کچھ نیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے پورے بدن میں ایک حرارت کا احساس کر سہر اٹھی کہ کوئی اس کے کانوں کے نزدیک مسلسل پھسپھسا رہا تھا۔

    ساڈے... ساڈے...۔

    برف کا ٹکڑا پوری طرح گل جانے کے بعد لڑکی پُرسکون ہونے لگی تھی جیسے سب کچھ اس کے یقین کے مطابق ہوا ہو۔ وہ مسکرا دی تھی۔ بہت ہلکی سی مسکراہٹ کہ لڑکا متوجہ ہو سکے۔ لڑکے نے اسے دیکھا تھا۔ شاید پہلی بار پوری نظر سے اور لڑکی نے ایک زبردست ہیجانی سوچ سے مغلوب ہو کر اپنی انگلی اس کے بازو میں چبھو دی تھی۔

    ’’شاہ! میں تمہارے ساتھ سونا چاہتی ہوں۔‘‘

    لڑکا مضطرب ہو اٹھا تھا کہ اسے لڑکی کی کیفیت کا اندازہ نہ تھا۔

    لڑکی کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔

    اس رات اس نے گرم شاور چلا کر گھنٹوں اپنے جسم کو بھگویا تھا اور ہاتھ کی رگ کاٹ ڈالی تھی۔ پوری طرح غنودگی سے ہم آغوش ہونے سے قبل اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کے اندر کے بہاؤ کی رفتار دھیرے دھیرے کم ہونے لگی ہے۔

    اس کے سفر کا آغاز نہ ہو سکا تھا اور اس کی محبت دن بہ دن شدت اختیار کرنے لگی تھی۔ اس درمیان اس نے سفر کی جستجوں میں اپنی تمام ظاہری اور باطنی حیثیتوں کو خود سے مسخ کیا تھا اور ایک غلام، بندۂ بے دام بن کر رہ گئی تھی اور اسے اس کی اطاعت پسند تھی۔

    اسے پسند تھا کہ لوگ اس سے ملیں، اسے اہمیت دیں جیسے کسی خاص چیز کو دی جاتی ہے اور اس خاطر وہ اسے لوگوں سے ملواتی اور محفلوں میں لے جاتی اور اس کا پروقار تعارف پیش کرتی لیکن لڑکا تھا کہ اکثر محفلوں میں جانے سے اور لوگوں سے ملنے سے گریز کرتا تھا اور تب لڑکی اس کے سادہ پن کو سنجیدگی سے محسوس کرتی کہ وہ ذرا بھی اس کی خواہشوں کا احترام نہیں کرتا اور وہ قدرے غیرمہذب بھی ہے۔ باوجود اس کے وہ زیادہ دیر تک اس احساس کو اپنے دل میں جگہ نہ دے پاتی اور بنا تأمل اس کی اداسی کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرنے لگتی۔ اس نے جب کبھی اس کے اندر جھانک کر دیکھا تھا اسے ایک دبیز دھند نظر آئی تھی اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ یہ درست ہے کہ وہ اس کی محبت میں بےحیثیت ہو کر رہ گئی ہے لیکن کیا اس کی اتنی بھی حیثیت نہیں کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو سکے۔

    لڑکی کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے اندر کوئی شے تیزی سے، پوری رفتار سے بہہ رہی ہے۔ اس دفعہ اس نے پہلی فرصت میں کوشش کی تھی کہ بہاؤ رک جائے لیکن اسے ناکامی محسوس ہوئی تو اس نے بادل نخواستہ خود کو بہاؤ کے سپرد کر دیا تھا اور پوری رفتار میں بہنے لگی تھی۔ اپنی پوری قوت کے ساتھ اور بہتے بہتے جانے کتنی دور نکل گئی تھی کہ اس کی پلکوں پر آنسو کی بوندیں آکر ٹھہر گئیں اور ہونٹ بےساختہ متحرک ہو اٹھے۔

    ’’ساڈے... عظیم ساڈے...۔‘‘

    لڑکے نے عاری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔ لڑکی کی آنکھیں خواب ناک ہوتی جا رہی تھیں اور اس نے اپنی انگلی اس کے بازو میں گڑا دی تھی۔

    ’’شاہ! میں تمہارے ساتھ سونا چاہتی ہوں۔‘‘

    لڑکا حسب معمول افسردہ ہو اٹھا تھا او ر اس نے نگاہیں جھکا لی تھیں۔ لڑکی کھلکھلا کر ہنس دی تھی اور اسے لے کر لمبی سیر کے لیے نکل گئی تھی۔

    اس لمحہ اس کی قربت کی آگ سے اس کا پورا وجود تپ رہا تھا۔ اس نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ بغل کی نشست پر خاموش لڑکا اس کی زلف عنبریں سے مدہوش ہوا جا رہا تھا اور ممکن تھا کہ بے توازن ہو جاتا، اس نے لڑکی کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تھا۔ لڑکی نے گاڑی کی رفتار مزید تیز کر دی تھی۔ اس کا چہرہ جذبات سے پر ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں خواب ناک ہوئی جا رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد اس کی آنکھیں پوری طرح خواب ناک ہو اٹھیں اور اس سے قبل کہ وہ سامنے سے گزر رہے بچے کو اپنی گاڑی سے کچل دیتی، لڑکا ہیبت ناک نگاہوں سے اسے تکے جا رہا تھا اور ذرا دیر پہلے کے ہولناک منظر کے تصور سے اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ لڑکی پرسکون نظر آ رہی تھی۔

    اس عرصے میں لڑکی نے بخوبی محسوس کر لیا تھا کہ اس کے سفر کا آغاز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ لڑکا اپنی اداسیوں کی دھند سے باہر نہ نکل آئے۔ کبھی کبھی اسے شک ہوتا کہ کوئی اور زلف گرہ گیر اس کی زنجیر تو نہیں بنی ہوئی ہے۔ چناچہ اس کی دلجوئی کے لیے اس نے ایک خوبصورت محفل آراستہ کروائی اور اس میں خصوصی طور پر شہر کے تمام حسین چہروں کو مدعو کیا کہ لڑکے کے اندر سے، اگر ہو تو، ایک دوسرا انسان باہر نکل سکے لیکن محفل شباب پر آنے تک، پیمانے چھلکنے تک اور انفاس میں لغزش پیدا ہونے تک کی مدت میں لڑکا بتدریج اداس رہا۔ ایک پل کے لیے اس کی آنکھوں میں چمک آئی اور نہ چہرہ بشاش ہوا۔ اس انتظار میں رات نصف سے زیادہ بھیگنے لگی تو اچانک لڑکی پر جیسے وحشت سی طاری ہو گئی اور ہیجان کی شدت میں اس نے روشنیاں گل کروا دیں اور تیز خنجر سے لڑکے کو زخمی کر ڈالا۔

    ذرا دیر بعد سبھی لوگ رخصت ہو گئے اور محفل کا کوئی رنگ باقی نہ رہا تو وہ لرزتے قدموں سے لڑکے کے قریب آئی تھی اور اس نے اس کے زخموں کو چھو کر دیکھا تھا۔ زخم گہرے تھے اور ان کا جلد بھرنا ممکن نہ تھا لیکن لڑکی نے دن رات ایک کرکے اس کی تیمار داری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جس کے سبب لڑکا جلد ہی صحت یاب ہو اٹھا تھا۔ لڑکی اپنے اصرار پر اسے ساحل کی سیر کے لیے لے گئی تھی اور اس نے اسے بتایا تھا کہ ان لہروں کو چٹان سے ٹکرانے کا الگ سکھ ہے اور یہ کہ ان کے جوش اور ولولوں کو کنارے پر کھڑا ہو کر نہیں محسوس کیا جا سکتا۔ اس کے لیے سمندر کی تہہ میں اترنا ہوگا اور لہروں کے ساتھ، انہیں کی رفتار میں بہنا ہوگا۔ لڑکا بے زار ہواُٹھا تھا اور جلدی وہ واپسی پر آمادہ ہو گیا تھا۔

    اس دن لڑکی اپنے فطری بہاؤ سے پاک ہوئی تھی اور اپنے اندر کچھ کھلا کھلا سا محسوس کر رہی تھی۔ گو کہ وہ شانت تھی لیکن اس کے رگ وپے میں سوئی سی چبھ رہی تھی کہ عورت کو قدرت نے جس روپ میں تخلیق کیا ہے اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر ماہ نئی ہواٹھتی ہے۔ لڑکی ایک دم تازہ ہو گئی تھی اور اس کا رنگ روپ مزید نکھر آیا تھا۔

    لڑکی شانت تھی۔ اس نے اپنے کمرے کی چیزوں کو درست کیا تھا اور جسم کو ہلکے لباس سے آراستہ کرکے بستر پر لیٹ گئی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ سفر شروع ہونے سے قبل ہی اس میں تھکان بھر گئی ہے۔ اس نے آنکھوں کو بند کر لیا تھا اور لڑکے کو یاد کرنے لگی تھی۔ ذرا دیر بعد اسے آہٹ سی سنائی دی تھی اور لگا تھا کہ کوئی چپکے سے کمرے میں داخل ہوا ہے اور اس کے قریب آکر بیٹھ گیا ہے۔ اس خیال سے فرار حاصل کرنے کی کوشش میں اس نے آنکھیں کھول دی تھیں اور بک شیلف سے کتاب نکال کر سنسنی خیز واقعات کی ورق گردانی کرنے لگی تھی۔ اسے شروع سے ایسے قصے پسند تھے جنہیں پڑھ کرانسان کسی دوسری دنیا کی سیر کرنے لگتا ہے۔ اس نے کبھی ایسا ہی کوئی قصہ پڑھ رکھا تھا جس میں خود سپردگی کے ساتھ ساتھ وحشیانہ رویے کا ذکر تھا۔ اس لمحہ اسے محسوس ہو اتھا گویا اس کے ساتھ بھی وہی واقعے دہرائے جا رہے ہیں۔ ایک دم سا ڈسٹ... وحشی... وہ ایک طرح کی لذت سے سرشار ہو اٹھی تھی۔ کوئی اس کے کانوں کے نزدیک آکر پھسپھسا رہا تھا اور وہ دوسری دنیا سے لوٹ آئی تھی۔ اسے احساس ہوا تھا کہ ابھی کچھ دیر قبل جس قدر وہ شانت تھی اب اتنی ہی تیزی سے بہنے لگی ہے۔ اسے کسی اونچے ڈھلوان سے بہنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ پوری رفتار سے بہہ رہی تھی۔

    اس نے کپڑے تبدیل کیے تھے اور گاڑی نکال کر سڑک پر آگئی تھی۔ اس نے لڑکے کی تلاش میں شہر کا کونا کون چھانا مارا تھا لیکن لڑکا اسے نہ مل سکا تھا۔ شام تک وہ بے مقصد سڑکوں پر دوڑتی رہی تھی۔ آخر کار اس نے شہر کے ایک عالی شان ہوٹل کے پورچ میں گاڑی کھڑی کر دی تھی۔ اس کی آنکھیں رفتہ رفتہ خواب ناک ہو رہی تھیں اور اس کے اندر ہیجانی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے نام کمرہ لیا اور مرد کی فرمائش کی۔ کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے وہ فتح یابی کے احساس سے مغلوب ہو رہی تھی۔ ذرا دیر بعد کمرے میں اپنی فرمائش پر حاضر ہونے والے مرد کو اس نے دیکھا تھا...۔

    ...اور اس کے ہاتھ سے شامپین کا گلاس چھوٹ کر فرش پر بکھر گیا تھا۔ وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے