Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاخ اشتہا کی چٹک

محمد حمید شاہد

شاخ اشتہا کی چٹک

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

    اسے قریب نظری کا شاخسانہ کہیے یا کچھ اور کہ بعض کہانیاں لکھنے والے کے آس پاس کلبلا رہی ہوتی ہیں مگر وہ ان ہی جیسی کسی کہانی کو پالینے کے لیے ماضی کی دھول میں دفن ہو جانے والے قصوں کو کھوجنے میں جتا رہتا ہے۔

    تو یوں ہے کہ جن دنوں مجھے پرانی کہانیوں کا ہوکا لگا ہوا تھا ‘مارکیز کا ننھا منا نیا ناول میرے ہاتھ لگ گیا۔

    پہلی بار نہیں‘ دوسری بار۔

    اگر میرے سامنے مارکیز کا یہ مختصر ناول دوسری بار نہ آتا تو شاید میں اپنے پاس مکر مار کر پڑی ہوئی اس جنس میں لتھڑی ہوئی کہانی کو یوں لکھنے نہ بیٹھ گیا ہوتا۔

    مارکیز کے ناول کو دوسری بار پڑھنے سے میری مراد میمن کے اس اردو ترجمے سے ہے جومجھے ترجمے کا معیار آنکنے کے لیے موصول ہوا تھا۔

    یہ وہی ناول تھا جس کی خبر آنے کے بعد میں انگریزی کتابوں کی دکانوں کے کئی پھیرے لگا آیا تھا ۔ پھر جوں ہی اس کتاب کا انگریزی نسخہ دستیاب ہوا تو میں نے اسے ایک ہی ہلے میں پڑھ ڈالا تھا۔ میں نے اپنے تئیں اس ناول کو پڑھ کر جو نتیجہ نکالا وہ مصنف کے حق میں جاتا تھا نہ اس کتاب کے حق میں۔

    خدا لگتی کہوں گا میرا فیصلہ تھا ایک بڑے لکھنے والے نے بڑھاپے میں جنس کے سستے وسیلے سے اس ننھی منی کتاب میں جھک ماری تھی۔

    ممکن ہے یہی سبب ہو کہ جب میمن کا ’’اپنی بیسواؤں کی یادیں‘‘ کے عنوان سے چھپا ہوا ترجمہ ملا تو میں خود کو اسے فوری طور پر پڑھنے کے لیے تیار نہ کر پایا اور پیپر بیک میں چھپا یہ مختصر سا ناول کہیں رکھ کر بھول گیا۔ گزشتہ دنوں کسی اور کتاب کی تلاش میں‘جب کہ میں بہت زیادہ اکتا چکا تھا‘ یہ ناول اچانک سامنے آ گیا۔ میں نے اپنی مطلوبہ کتاب کی تلاش کو معطل کرکے اکتاہٹ کو پرے دھکیلنا چاہا۔ اسی ناول کو تھامے تھامے اپنے بیڈ تک پہنچا ‘جسم کو پشت کے بل بستر پر دھپ سے گرنے دیا اور اسے یوں ہی یہاں وہاں سے دیکھنے لگا۔ جب میری نگاہ مارکیز کے ہاں بے باکی سے در آنے والے ان ننگے لفظوں پرپڑی جنہیں مترجم نے ایسے دلچسپ الفاظ میں ڈھال لیا تھا جو فوری طور پر فحش نہیں لگتے تھے‘ تو میں نے ناول کو ڈھنگ سے پڑھنا شروع کر دیا۔

    ناول کو اس طرح پڑھنے کے دو غیر متوقع نتائج نکلے۔

    ایک یہ کہ میں جسے مارکیز کے کھاتے میں جھک مارنا سمجھ بیٹھا تھا اس میں سے میرے لیے معنی کی ایک مختلف جہت نکل آئی اور دوسرا یہ کہ مجھے اپنا کنی کاٹ کر نکل جانے اور پھر بھول جانے والا ایک کردارشکیل رہ رہ کر یاد آنے لگا۔ ایک ناول جس کے مرکزی کردار نے اپنی نوے ویں سالگرہ کی رات ایک باکرہ کے ساتھ گزارنے کا اہتمام کیا ‘میرے لیے اس میں سے زندگی کے کیا معنی برآمد ہوئے‘ میں ٹھیک ٹھیک بتانے سے قاصر ہوں۔ ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بار دِگر پڑھنے پر نہ صرف اس ناول کا جنس کا رسیا مرکزی کردار میرے لیے ایک سطح پر قابل اعتنا ہوا ‘میں اپنے ایک متروک کردار شکیل کے بارے میں بھی ڈھنگ سے سوچنے پر مجبور ہواتھا۔

    اور یہ بات بہ جائے خود کوئی کم اہم بات نہیں تھی۔

    شکیل اور مارکیز کے ناول کے مرکزی کردار میں کوئی خاص مشابہت نہیں ہے۔ بتا چکا ہوں کہ وہ نوے برس کا ہے جب کہ میرا شکیل بھر پور جوانی لیے ہوئے ہے۔ وہ مرد مجرد اپنی مثالی بدصورتی کی وجہ سے خاکہ اڑانے والوں کا مرغوب‘ جب کہ جس شکیل کی میں بات کر رہا ہوں وہ محض نام کا شکیل نہیں ہے اور یہ شادی شدہ اور بال بچے دار ہے۔ تاہم ایک بات دونوں میں مشترک ہے کہ دونوں جنس زدہ ہیں اور شکیل تو اسی جنس زدگی کی وجہ سے دوستوں میں تضحیک کا سامان ہو گیا ہے۔ ایک مدت کے بعد شکیل جیسے کردار کی طرف لوٹنے کا سبب مارکیز کے ناول کے بوڑھے کی وہ جنسی خر مستیاں ہیں جنہیں ناول میں بہت سہولت سے لکھ لیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں ایسی حرکتوں کو لکھنا چوں کہ فحاشی کے زمرہ میں آتا ہے لہذا مجھے شکیل کو لکھنے کے لیے بار بار مارکیز کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ہاں تو میں مارکیز کے بوڑھے کی خر مستیوں کا ذکر کر رہا تھا اور بتانا چاہ رہا تھا کہ اس بوڑھے کی ہوس کاریوں کے باب میں جہاں اس کی اجڈ لارنڈی والی ملازمہ کا ذکر آتا ہے ‘وہی عقب سے جانے کا‘ وہیں مجھے اس وقت کے شکیل کا ‘اس کریانہ اسٹور کے مالک کا شکار بننا یاد آیا جس کے پاس اس شہر میں آکر وہ پہلے پہل ملازم ہوا تھا۔ جہاں ناول کے مرکزی کردار نے اپنے پچاس سال کی عمر کو پہنچنے پران پانچ سو چودہ عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے اس کا جنسی تعلق قائم ہوا‘ اور اس گنتی میں وہ بعدازاں مسلسل اضافہ کیے جا رہا تھا‘ تو میرے دھیان میں شکیل کی زندگی میں آنے والی وہ چٹپٹی لڑکیاں آ گئیں جن کی وجہ سے وہ شہر بھر میں جنسی بلے کے طور پر مشہور ہوا۔

    تاہم جس لڑکی کی وجہ سے شکیل کو نظروں سے گرا ہوا اور بعد میں اسے شہر چھوڑتے ہوئے دکھایا جانا ہے وہ بظاہران چٹپٹی لڑکیوں جیسی نہ تھی۔

    اوہ ٹھہرے صاحب ! مارکیز کے بوڑھے بدصورت کردار کی طرح قابل قبول ہو جانے والے جواں سال شکیل کی کہانی کو یوں شروع نہیں ہونا چاہیے‘ جیساکہ میں اسے آغاز دے چکا ہوں۔ اس کردار کو عجلت میں یا یہاں وہاں سے ٹکڑوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ڈھنگ سے لکھنے سے پہلے مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو میں اپنی اس خفت سے آگاہ کرتا چلوں جو مجھے کسی جنس مارے آدمی سے مل کر اور اس کی لذت میں لتھڑی ہوئی باتیں سن کر لاحق ہو جایا کرتی ہے۔ اسی خفت کا شاخسانہ ہے کہ مجھے اپنا حوالہ جنس مارے کرداروں سے بھی کھلنے لگتاہے۔ شکیل جیسا کردار میری دسترس میں رہا مگر اسی خفت نے ہمارے درمیان بہت سے رخنے رکھ دیئے تھے۔ حتی کہ میں نے یہ بھی بھلا دیا کہ شروع میں یہ کردار ایسا نہ تھا۔ یہ تو بہت بعد میں ہوا تھا کہ وہ نہ صرف لوگوں کی تضحیک کا سامان بنا ‘میری نظروں سے بھی گر گیا تھا۔

    لیجئے اب مارکیز کے بوڑھے نے مجھے بہلا پھسلا کر اس مردود کہانی کے قریب کر ہی دیا ہے تو میں اسے شکیل سے اپنی پہلی ملاقات سے شروع کرنا چاہوں گا۔

    شکیل سے میری پہلی ملاقات کسی تقریب میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں دوسرے شاعروں کی طرح اپنی غزل سنانے آیا تھا۔ صاف اور گورا رنگ جو ناک کی پھنگی‘ کانوں کی لوؤں اور چمک لیے نرم نرم گالوں سے قدرے شہابی ہو گیا تھا۔ مجھے اس کا ٹھہر ٹھہر کر شعر پڑھنا اور پڑھے ہوئے مصرعے کو ایک اداسے دہرانا اچھا لگا تھا۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ پہاڑیا ہے تو اور بھی اچھا لگا کہ وہ اس کے باوجود نہ صرف ہر مصرع میں ٹھیک ٹھیک لفظ باندھنے کا اہتمام کر لایا تھا ان کی ادائیگی میں بھی کوئی غلطی نہیں کر رہا تھا۔ جو غزل اس نے وہاں سنائی اس نے خوب سلیقے سے کہی تھی۔ اس کی فنی مہارت کا میں یوں قائل ہو گیا تھا کہ ساری غزل ایک روندی ہوئی بحر میں، مگر بہت عمدگی سے کہی گئی تھی۔ اس میں ایک دو غیرشاعرانہ اور کھدرے لفظوں کو اتنا ملائم بنا کر رواں مصروں میں پیوست کر دیا گیا تھا کہ اب وہ غزل کے ہی الفاظ لگتے تھے۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ وہ لگ بھگ ہر شعر کے مصرع اولی میں اپنے خیال کی کچھ اس طرح تجسیم کر رہا تھا کہ ہر بار لہجہ کے نئے پن کا احساس ہوتا اور ایک ایسامقدمہ بھی بنتا تھا جس کی طرف سننے والے کا متوجہ ہونا لازم ہو جاتا۔

    جب وہ شعر مکمل کرکے سانس لیتا تو بات بھی مکمل ہو جاتی تھی۔

    ذرا گماں باندھیے کہ ایک نوخیز شاعر ہے۔ آپ اس سے بالکل نئے لہجے کی غزل سن رہے ہیں۔ ایک ایسا لہجہ ‘جس میں عصر موجود کا تناظر اس کی اپنی لفظیات کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔ اس غزل میں اس کا اہتمام بھی ہے کہ کوئی لفظ فن پارے کے مجموعی مزاج میں اجنبی نہیں لگتا۔ سلیقہ ایسا کہ ہر لفظ کی ادائیگی کا مخرج ضرورت شعری کی وجہ سے کہیں بھی بدلا نہیں گیا۔ ہر لفظ ٹھیک اپنی نشست پر‘ اور وہ بھی یوں کہ ایک لفظ کی صوتیات اگلے لفظ کوٹہوکا دینے کی بجائے اس میں اتر کر اس کی اپنی صوتیات میں منقلب ہو جاتیں۔ سچ پوچھیے تو ایسی باریکی سے غزل کہنے والے کا گمان ہی باندھا جا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ میرے سامنے تھا اور پورے قرینے سے غزل کہہ رہا تھا۔

    لہذا میں اس کے قریب ہو گیا۔ اتنا قریب کہ ہم دونوں کے درمیان سے سارا حجاب اُٹھ گیا۔

    جب وہ اسی شہر میں رہ کر خوب خوب داد ‘بےپناہ حسد اور بہت ساری نفرت اور تضحیک سمیٹ چکا تو بھی میں اس کے قریب رہا۔ پہلے پہل شکیل کے بارے میں شہر کے شاعروں نے یہ شوشا چھوڑا ہونہ ہو اسے کوئی لکھ کر دیتا ہے۔ جب لوگ تجسس سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے جو اسے لکھ کر دیتا ہوگا؟ تو ایک ایسے بزرگ شاعر کا نام چلا دیا گیا جو کہنے کو شعر خوب سلیقے سے کہتے اور عادت ایسی پائی تھی کہ خوش شکل لونڈوں میں اٹھنے بیٹھنے کو اس گئے گزرے زمانے میں بھی چلن کیے ہوئے تھے۔ کسی کو ایسی باتوں پر یوں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ حضرت زبان کے روایتی استعمال تک محدود رہتے تھے اور اچھا اور پکا مصرعہ کہنے کے باوجود خیال کو نیا بنا لینے پر قادر نہ تھے۔ ایسا کیوں کر ہو سکتا تھا کہ کوئی خود تو فنی طور پر بے عیب مگر بوسیدگی کا احساس جگانے والا مصرعہ کہنے کو وتیرہ کیے ہو اور اپنے لونڈے کو حرف تازہ سے فیض یاب کرے۔ جب شکیل ایک سے بڑھ کر ایک تازہ غزل لا نے لگا تو اس کے خلاف فضا باندھنے والوں کی جیبھیں خود بخود اپنے اپنے تالو سے بندھ گئیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اس نے اپنے جیسے شاعروں سے آگے نکل کر حاسدین کا گروہ پیدا کر لیا تھا۔ جو لوگ شعر میں اسے مات نہیں دے سکتے ‘اس کی شخصی کمزوریوں کو اچھال کر تسکین پاتے تھے۔

    مجھے شکیل سے یہ شکایت تھی کہ آخر وہ اس باب میں انہیں خوب خوب مسالا کیوں فراہم کر رہا تھا۔ وہ میری بات سنتا اور ڈھٹائی سے ہنسی میں اڑا دیتا تھا۔

    وہ بارہ کہو سے پرے پہاڑوں کے ادھر جس گاؤں سے آیا تھا اس کانام تنگ گلی تھا جو بول چال میں مختصر ہو کر تنگلی ہو گیا تھا۔ جب و ہاں اس نے دس جماعتیں پڑھ لیں تو آگے کرنے کو کچھ نہ تھا۔ اس کے باپ کے پاس جو تھوڑی سی موروثی زمین تھی‘ اسے گزشتہ سال کی مسلسل بارشوں میں لینڈ سلائیڈ کھا گئی تھی۔ میٹرک کر لینے کے بعد اس کے لیے دو ہی راستے تھے۔ باپ کی طرح مری چلا جائے اور وہاں سیزن کھلنے پر ہوٹلوں میں بیرا گیری کرے یا ادھر شہر میں کسی دکان پر سیلز مین ہو جائے ‘جیسا کہ اس کے گاؤں کے کئی اور لڑکوں نے کیا تھا۔

    اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔

    تنگلی کا ایک شخص دل محمد ادھر شہر میں ایک کریانے کے اسٹور پر ملازم تھا۔ وہ بقر عید پر گاؤں آیا تو شکیل کے باپ نے اس سے بات کی ۔ اس نے فوری طور پر تو اسے یہ کہہ کر مایوس کر دیا کہ وہاں شہر میں کام کرنے کے خواہش مند لڑکے ہر روز آتے رہتے تھے جو کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے لہذا شکیل کو وہاں بھیجنا‘ لڑکے کو ایک لحاظ سے ضائع کرنا ہی ہوگا۔ اس کے باپ نے دل محمد کی نصیحت کو محض ٹالنے کا بہانہ سمجھا۔ وہ اپنے مالک کو بڑاخسیس اور گھٹیا کہہ رہا تھا جوکم اجرت دیتا اور کام زیادہ لیتا تھا۔ یہ سب کچھ درست ہو سکتا تھا مگر دل محمد کے گھر والوں کی گزر بسر ٹھیک ٹھاک ہو رہی تھی لہذااس نے خوب منت سماجت کرکے اسے مجبور کر لیا کہ وہ شکیل کو شہر لے جائے اور اپنے مالک سے ملادے ‘آگے رہی اس کی قسمت۔ دل محمد نے جو کہا‘ وہ جھوٹ نہیں تھا ۔ اس کا مالک نام کا گل زادہ تھا ‘نکلا پورا حرام زادہ۔ اسے دیکھتے ہی اس کی رالیں ٹپکنے لگی تھیں۔

    شکیل نے پہلے روز اس کی رالیں نہیں دیکھی تھیں کہ وہ تو اپنی ضرورت اور اپنی مجبوریوں کو دیکھ رہا تھا۔

    گل زادہ نے شکیل کی رہائش کا بندوبست دل محمد کے ساتھ دکان کے پچھواڑے میں کرنے کی بجائے اوپر والے فلیٹ میں اپنے ساتھ کیا۔ اس نے اپنے ساتھ اپنے مالک کو یوں مہربان پایا تو اس کے قریب ہوتا چلا گیا۔ دوسری تنخواہ تک وہ اس پر خوب مہربان رہا اور جب اس بار بھی تنخواہ کی رقم کا منی آڈر گھر بھیج چکا تو ایک رات وہ اس کے بستر میں گھس گیا۔ سردیوں کے دن تھے‘ پہلے پہل اس کا یوں لحاف میں گھس آنا شکیل کو برا نہ لگا تھا تاہم رفتہ رفتہ شکیل پر اس حرام زادے کی نیت کھلی پھر وہ خود ہی کھلتا اور اسے کھولتا چلا گیا۔ بعد میں وہ یہ واقعہ اپنے آپ کو اذیت دینے کے لیے قہقہہ لگا کر سنایا کرتا۔

    تاہم وہ یہ بھی کہتا کہ وہ جس مشکل میں پڑ گیا تھا اس سے ہمت کرکے نکل آیا تھا۔

    جب میں نے شکیل سے اس کا یہ قصہ سنا، تو بات ایک قہقہے پر نہیں رکی تھی۔ قہقہے کی آواز ابھی معدوم نہیں ہوئی تھی کہ فوراً بعد اس کے حلقوم میں ہچکیوں کی باڑھ امنڈ پڑی تھی۔ اس نے اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کے لیے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دے کر کاٹ ہی ڈالا تھا۔ شکیل نے ذراسنبھلنے کے بعد یہ بھی بتایا تھا کہ اس کا مالک اس پر ایسے میں کھل رہا تھا جب وہ ان سہولتوں کا عادی ہوتا جا رہا تھا جو اس نے گاؤں میں دیکھی تک نہ تھیں۔ اس کے باپ کے پاس بھی ایک معقول رقم پہنچنے لگی۔ اس مختصر سے عرصے میں اس نے اپنے باپ کو اتنی رقم بھیج دی ‘جتنی اس نے کبھی اپنے باپ کے پاس یکمشت دیکھی ہی نہ تھی۔ اپنے ہی باپ کا کفیل بننے میں اسے لطف آنے لگا۔ یہی لطف تھا کہ جس نے اسے فوری طور پر بے روزگار ہونے کے لیے تیار نہ ہونے دیا۔ بعد میں جب راتیں مسلسل لذت اور کراہت کے بیچ گزر نے لگیں تو اس کا دل شدت سے الٹنے لگا۔ وہ وہاں ٹھہرا رہا‘ یہاں تک کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس شخص سے شدید نفرت محسوس کرنے لگا۔ یہ نفرت اتنی شدید تھی کہ ایک رات ‘جب کہ اس کا مالک اوندھا پڑا اس کاانتظار کر رہا تھا‘ وہ چپکے سے باہر نکل آیا۔

    جس روز وہ گل زادہ کی ملکیت اور اس کے فلیٹ سے نکلا تھا ‘اس روز اس نے صاف صاف ایک لذیذسنسناہٹ کو اوندھے پڑے بھاری چربیلے بدن میں ریڑھ کی ہڈی سے دمچی کی طرف بہتے ہوئے پایا تھا۔

    مارکیز کا ناول دوسری بار پڑھنے کے بعد اب اگر میں اس دن کی بابت سوچوں‘ جس روز شکیل نے مجھے اپنا یہ قصہ سناتے ہوئے قہقہہ لگایا اور فوراً بعد اپنے دم کوہچکیوں کا پھندا لگا لیا تھا تو مجھے شکیل کی جگہ مارکیز کے ناول کی وہ باکرہ لڑکی یاد آ جاتی ہے جسے نوے سالہ بوڑھے نے دیلگدینہ کا نام دیا تھا۔ دیلگدینہ ‘جو پانچ دسمبر کو محض پندرہ سال کی ہو رہی تھی مگر جسے اپنے گھر کے اخراجات چلانے کے لیے شہر سے باہر دن میں دوبار بٹن ٹانکنے جانا پڑتا تھا۔ اس لڑکی کو ایک دن میں ،جب سوئی اور انگشتانے سے، سو سو بٹن ٹانکنا پڑتے تو وہ ادھ موئی ہو جاتی۔ دیلگدینہ اور شکیل کو میں ایک ساتھ یوں دیکھ رہا ہوں کہ دن بھر اپنے مالک گل زادہ کا کریانہ بیچتے اور گاہکوں کے نہ ٹوٹنے والے رش سے نبٹتے نبٹتے شکیل بھی بالکل اس لڑکی کی طرح ادھ موا ہو جاتا۔ تاہم ان دونوں کو کہانی کے اس مرحلہ پر ایک جیسی مشقت میں پڑا دکھانے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دونوں کہانی کے باقی مراحل بھی ایک جیسے ہوں گے۔ شکیل‘ جو اپنے مالک کی دمچی میں سنسناہٹ چھوڑ کر نکل آیا تھا ‘بعد میں بہت خوار ہوا۔ تاہم ایک روز آیا کہ ایک دوسرے شخص نے نہ صرف اسے اپنے ہاں ملازمت دی‘ اس کے نکاح میں اپنی بیٹی صفیہ بھی دے دی تھی۔

    شکیل ملازمت کے لیے آیا اور گھر داماد ہو گیا تھا۔

    وہ خوب روتھا اور سلجھا ہوا بھی۔ ہمت کی بھی اس میں کمی نہ تھی۔ وہ ضرورت مند تھا اور ایک لحاظ سے دیکھیں تو شرف اللہ بھی ضرورت مند تھا اس کی بیٹی کنواری رہ گئی تھی۔ یہ ایسی ضرورت تھی جس کے لیے شکیل کی کسی بھی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ لہذا اس نئے گھر میں اس اس کے بارے میں بھی ویسا ہی سوچا جانے لگا جیسا کہ ایک بیٹے کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔ صفیہ ‘شرف اللہ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے پاس جو کچھ تھا، اُسی کا تھا۔ دونوں کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ شکیل کالج میں داخلہ لے لے ۔ سال بھر کی ملازمت اور خواری کے بعد شکیل فوری طور پر مزید پڑھنے کی طرف راغب نہ ہو پایا۔ جب اسی کی بیوی نے ایک شفیق ماں کی طرح اس کا حوصلہ بڑھایا اور سسر نے یقین دلایا کہ تعلیم پر اُٹھنے والے سارے اخراجات وہ خود اٹھائیں گے تو اُس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔

    یہیں وہ شاعری کی طرف راغب ہوا تھا۔

    جن دنوں میں شکیل کی طرف متوجہ ہوا اس نے ایم اے کر لیا تھا اور ایک غیر سرکاری کالج سے وابستہ تھا۔ شام کو وہ اسی کالج میں چلنے والی اکیڈمی میں پڑھا کر خوب کما بھی رہا تھا تاہم اس بارے میں مطمئن نہ تھا اور کچھ نیا کرنے کی بابت مسلسل سوچا کرتا۔ ان دنوں اس شہر میں پراپرٹی کا کاروبار بہت عروج پر تھا ۔ اس نے دو ایک ایسے سودے کمیشن کی بجائے ٹاپ یعنی پلاٹ نقد اٹھا کر بیچنے کی بنیاد پر کیے ۔ ان سودوں نے اسے اتنا مارجن دیا کہ وہ یکسوئی سے اس کاروبار میں جت گیا۔ پھر تو ٹاپے پر ٹاپا اترنے لگا اور اس کے حالات بدلتے چلے گئے۔

    اس کے حالات ہی نہیں بدلے وہ خود بھی بدلتا چلا گیا۔

    شہر بھر کے ان شاعروں نے سکھ کا سانس لیا جو مشاعروں میں اس کی ساری توجہ سمیٹ لینے پر اس سے نالاں رہتے تھے کہ اب وہ ادھر آتا ہی نہیں تھا۔ ایسا نہیں ہوا کہ اس نے تقاریب میں آنا یک دم موقوف کر دیا تھا۔ پہلے پہل اس میں تعطل کے وقفے پڑے۔ پھر جب کبھی وہ آتا تو مجھے بھی ساتھ اچک کر باہر لے جاتا کہ اسے سننے سنانے سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ گاڑیاں بدلنا اس کا معمول ہوتا جا رہا تھا کہ اس کاروبار میں بھی اس نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔

    یہ بدلا ہوا شکیل دیکھ کر میں اس شکیل کی بابت سوچنے لگتا تھا جسے پہاڑوں سے آتے ہی مجبور پاکر گل زادہ نے پچھاڑ لیا تھا ۔

    شروع شروع میں‘ میں سمجھتا رہا تھا کہ وہ سے شادی کرکے مطمئن ہو گیا تھا۔ اس کی زندگی میں جس طرح آسائشیں آ رہی تھی ان کے جھانسے میں وہ خود بھی ایک مدت تک یوں ہی سمجھتا رہا تھا۔ اس عورت کے بطن سے اس نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پیدا کیں۔ بقول اس کے اسے اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ یہ بعد کی بات ہے کہ اس نے گاڑیاں اور لڑکیاں بدلنا مشغلہ بنا لیاتھا۔ ان دنوں اس نے نہ صرف صفیہ کا بلکہ ان تینوں بچوں کا ذکر بھی چھوڑ دیا تھا۔ میں نے کہا نا کہ میں شکیل کے بہت قریب تھا۔ یہ بھی بتادوں کہ اس کے بیوی بچے مجھ سے بہت مانوس تھے تاہم کہتا چلوں کہ جس تیزی سے وہ ان سے دور ہوا ‘میں بھی انہیں ملنے سے کترانے لگا تھا۔ میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ شکیل کے سب لچھن جان گئے ہوں گے۔ میں نے ان کے سامنے جاتا تو ممکن تھا کہ صفیہ ا س حوالے سے بات چھیڑ کر میری مدد مانگ لیتی ۔ میں جانتا تھا جس لذت کی دلدل میں وہ اتر چکا تھا کوئی بھی اسے نکال نہیں سکتا تھا ۔ حتی کہ میں بھی۔ میں نے اپنے تئیں ایک آدھ بار بچوں اور صفیہ کا ذکر کرکے اسے اس دلدل سے نکالنا چاہا تھا۔ بچوں کے نام پر تو وہ چپ ہو گیا مگر صفیہ کا ذکر آتے ہی اس نے ویسا ہی قہقہہ لگایا جیسا کہ وہ گل زادہ کا نام آنے پر لگایا کرتا تھا۔

    گل زادہ اور صفیہ میں اگر کوئی مشابہت ہو سکتی تھی تو وہ دونوں کا بھاری بھرکم وجود تھا جو تھل تھل کرتا تھا۔

    ایک اور بات جو مجھے ہمیشہ الجھن میں ڈالتی رہی ہے وہ شکیل کا صفیہ کے ذکر پر عجب طرح کا قہقہہ لگانا تھا‘ ایسا قہقہہ کہ بات محض اس مشابہت تک محدودنہ رہتی تھی۔

    صفیہ ‘شکیل سے عمر میں نو دس سال بڑی ہوگی۔ بچوں کی پیدائش کے بعد تووہ اس کے مقابلے میں کہیں بوڑھی دکھائی دیتی تھی۔ تاہم وہ اس کے بچوں کی ماں تھی اور اس کا یوں اس کی توہین کرنا مجھے بہت کھلتا۔ جس روز وہ ایک قیمتی گاڑی پر آکر مجھے تقریب سے اٹھا کر ایک ہوٹل لے گیا تھا ‘اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس کی عمر کے آدمی کے لیے ایک جوان عورت کے وجود کی کیا اہمیت تھی۔ اسی روز اس نے اپنے موبائل کے قدرے زیادہ پکسل والے کیمرے سے لے گئی پانچ مختلف لڑکیوں کی تصاویر دکھائی تھیں جن میں سے ایک تصویر تو ایسی تھی جس میں وہ خود بھی موجود تھا۔ موبائل کا ڈسپلے بڑا‘ اور تصویریں خوب شوخ ‘شفاف اور روشن تھیں۔ جس تصویر میں وہ خود موجود تھا اس کے آگے کو جھکے ہوئے دائیں کندھے سے ،میں نے اندازہ لگایا کہ اسی سمت کے بازو کو آگے بڑھا کر یہ تصویر اس نے اپنے سیل کے کیمرے سے خود کھینچی تھی۔ اس کے ساتھ ایک ایسی لڑکی تھی جس کی عمر ہو نہ ہو اس کی اپنی بڑی بیٹی سونیا جتنی تھی۔ لڑکی اور وہ خود بھی جہاں تک تصویر میں نظر آ رہے تھے لباس کی تہمت سے پاک تھے۔ اگرچہ تصویر میں سے لذت ابلی پڑ رہی تھی مگر سونیا سے اس تصویر والی لڑکی کی مشابہت قائم کرتے ہوئے میں سارا مزا کرکرا کر بیٹھا تھا۔

    مجھے سونیا سے اس لڑکی کا موازنہ نہیں کرناچاہیے تھا، جس کے ساتھ ،بقول شکیل کے ،اس نے نوٹوں میں تولنے کے بعد ایک رات کی رفاقت پائی تھی۔

    ماننا پڑےگا کہ مارکیز کی کہانی کا بوڑھا عورتوں کی گنتی کے بارے میں کہیں آگے تھا۔ تاہم یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ان عورتوں پر خرچ کے معاملے میں) اگر فی کس عورت کے حساب سے خرچ کا تخمینہ لگایا جائے تو( شکیل کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ یہ بھی بجا کہ مارکیز کا بوڑھاصحافی‘ جسے چکلہ چلانے والی روسا کبرکس ’’اے میرے اسکالر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھی ‘جس عورت سے بھی )اس ناول کے ترجمہ کار کی اصطلاح میں جفتی کا (تعلق بنانا چاہتا‘ اسے معا وضہ ضرور ادا کیا کرتا تھا ‘لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ وہ تھا پرلے درجے کا کنجوس۔ اگر آپ نے یہ ناول مکمل طور پر پڑھ رکھا ہے تو آپ کی نظر میں اسی مرکزی کردار کا اعترافی بیان ضرور گزرا ہوگا جس کے مطابق وہ بخیل آدمی تھا۔ اس مقام پر پہنچ کر تو ہو نہ ہو آپ کی ہنسی ضرور خطا ہو گئی ہوگی جہاں اس جنس زدہ بوڑھے نے اپنی نوے ویں سالگرہ کی رات ایک باکرہ کے ساتھ گزارنے کے لیے خرچ کا حساب چودہ پیسو لگایا تھا۔ یعنی اخبار سے ملنے والے پورے ایک ماہ کی کالم نویسی کے معاوضے کے برابر۔ پھر جس طرح اس بوڑھے نے پلنگ کے نیچے کے مخفی خانوں سے عین حساب کے مطابق ریزگاری نکالی تھی‘ دوپیسو کمرے کا کرایہ ‘چار مالکہ کے لیے‘ تین لڑکی کے واسطے ‘پانچ رات کے کھانے اور اوپر کے خرچے کے لیے‘ سچ پوچھیں تو یہ پڑھ کر میری ناف سے ہنسی کا گولا اٹھا اور میرے جبڑوں کو اتنا دور اچھال گیا تھا کہ وہ بہت دیر بعدہی واپس اپنی جگہ پر آپائے تھے۔ میری کہانی کا شکیل ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو اس معاملے میں بھی گن گن کرخرچ کرتے ہیں۔ یہ جو اس نے لڑکی کو نوٹوں میں تولنے کی بات کی تھی تو اس سے قطعاً اس کی یہ مراد نہیں تھی کہ اسے اپنا بہت سا روپیہ خرچ ہو جانے کا احساس تھا۔

    وہ تو اس لڑکی کے دام بالا بتا کر اس کی قدر وقیمت کا احساس دلانا چاہتا تھا۔

    ’’اپنی سوگوار بیسواؤں کی یادیں‘‘ نامی کتاب میں عین وہاں سے کہانی جنس کا چلن چھوڑ کر محبت کی ڈگر پر ہو لیتی ہے جہاںیہ بتایا گیا ہے کہ قحبہ خانے کے ایک اہم گاہک کو پویلین کے پہلے کمرے میں کوئی چاقو مار کر قتل کرنے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ کہانی کے بوڑھے اسکالر نے جب خون سے لت پت بستر پر ابلے ہوئے مرغ کی طرح پیلے ہو جانے والے اس لحیم شحیم آدمی کی لاش کو پڑے دیکھا تھا تو اس کے جسم پر کپڑے کی ایک دھجی نہ تھی۔ کہانی کا یہ حصہ پڑھ کر پہلے تو میرے وجود میں سنسنی دوڑی مگر جب یہ بتایا گیا کہ اس ننگی لاش نے جوتے پہن رکھے تھے تو میری ایک بار پھر ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ مارکیز نے کہانی کے اس حصے میں جنس کا میٹھا اس مردے پر مل کر اسے لذیذ بنا تے ہو ئے بتایا ہے کہ مقتول کا جسم ابھی اکڑا نہیں تھا۔ اس کی گردن پر ہونٹ کی شکل کے دو زخم تھے اور یہ کہ موت کے باعث اس کے سکڑے ہوئے عضو پر ایک کونڈم ہنوز چڑھا ہوا تھا۔ کہانی لکھنے والے نے یہ وضاحت کرنا بھی ضروری جانا ہے کہ کونڈم غیر استعمال شدہ دکھائی دے رہا تھا۔

    یہاں مجھے مترجم سے اپنی ایک شکایت ریکارڈ پر لانی ہے اور اسے داد بھی دینی ہے۔ شکایت کا یہ موقع وہاں وہاں نکلتا رہا ہے جہاں اس نے اردو جملوں کو بھی ترجمہ کیے جانے والے متن کے قریب رکھ کر انہیں پیچیدہ بنا دیا۔ ناول کے نام کے ساتھ بھی یہی رویہ روا رکھا گیا ہے جب کہ اسے تھوڑا سا بدل کر رواں کرنے کے لیے ’’اپنی سوگوار بیسواؤں کی یاد میں‘‘ کر دیا جاتا تو زیاہ مناسب ہوتا اور اب مجھے برملا اس جرا ت اور سلیقے کی داد دینی ہے جس کو روبہ عمل لا کر اس نے ان لفظوں کا ترجمہ کر لیا ہے جو بالعموم ہمارے ہاں شائستگی کے تقاضے کے پیش نظر زبان پر نہیں لائے جاتے ہیں۔ تاہم اسے کا کیا کیجئے کہ کونڈم کا ترجمہ کرنا اس نے ضروری نہیں سمجھا۔

    شایداس لفظ کا ترجمہ کرنا اس کے بس میں تھا ہی نہیں۔

    یہاں شکیل سے متعلق دو واقعات کہانی میں گھسنے کو بے تاب ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پہلا واقعہ خود بخود آگے چل کر دوسرے واقعے سے جڑ جاتا ہے۔ پہلے واقعہ کا تعلق ان دنوں سے ہے جن دنوں اس کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے مڈل اسٹنڈرڈ امتحان کی تیاری کے لیے یونین کونسل مسیاڑی کے دفتر میں اضافی پڑھائی کا اہتمام کیا تھا۔ امتحانوں تک اسے اور اس کے ہم جماعتوں کو وہیں رہنا ‘پڑھنا اور رات گئے وہیں سونا تھا۔ یہ قصہ شکیل بہت مزے لے لے کر اور خوب کھینچ تان کر سنایا کرتا مگر مختصراً یوں ہے کہ جب ماسٹر صاحب چلے جاتے اور دن بھر پڑھ پڑھ کر اکتائے ہوئے لڑکوں کو کچھ نہ سوجھتا‘ تو وہ ملحقہ کمرے میں منصوبہ بندی والی دواؤں کے ساتھ پڑے ہوئے چمکیلے لفافوں میں بند سفید غبارے چوری کرکے خوب پھلایا کرتے تھے۔ یہ غبارے اگرچہ اس طرح رنگین نہ تھے جیسے تنگلی میں سودے کی ہٹی پر ملتے تھے مگر ان میں ایک ایسی خوبی تھی جو ان رنگین غباروں میں بھی نہ تھی کہ یہ ہوا بھرنے پر بہت پھولتے تھے۔ وہ سب اس پر خوش تھے کہ ان کے ہاتھ بہت سے چٹے خمور غبارے لگ گئے تھے اور رات گئے ان میں اس پر مقابلہ لگا رہتا تھا کہ کون انہیں سب سے زیادہ پھلائےگا۔ شکیل کے مطابق ان دنوں ان غباروں پر سفید رنگ کا سفوف ملا ہوتا تھا جس سے ان کے ہونٹ اور گال یوں ہو جاتے تھے جیسے ان پر آٹا مل دیا گیا ہو۔ اسی سفیدی نے ان کی شرارتوں کا پول ہیڈ ماسٹر صاحب پر کھول دیا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو پہلے تو غصہ آیا پھر کچھ سوچتے ہوئے ہنس پڑے اور کہا ’’نامعقولو! یہ ناپاک ہوتے ہیں کہ اس میں بیمار پیشاب کرتے ہیں۔‘‘

    اگلے روز ساتھ والے کمرے پر تالا نہ پڑ گیا ہوتا تو وہ ضرور تجربہ کرتے کہ ان غباروں کو بیمار کیسے استعمال کرتے تھے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات انہیں مزیدالجھا گئی تھی۔

    اسی شکیل نے ‘کہ جسے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک زمانے میں الجھا دیا تھا‘ اب اس الجھن سے پوری طرح نکل آیا تھا۔ اس نے مجھے لگ بھگ ویسے ہی کھلے منہ والے غبارے کی اپنے سیل فون کے قدرے زیادہ پکسل والے کیمرے سے کھینچی ہوئی تصویر تب دکھائی تھی جب میں اجلاس سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہوٹل آ گیا تھا اور جب وہ اپنی دوست لڑکیوں کی پانچوں تصویریں دکھا چکا تھا۔ مجھے اس کا سنایا ہوا اوپر والا واقعہ عین اس موقعے پر یوں یاد آیا تھا کہ تصویر میں بھی لگ بھگ ویسا ہی غبارہ تھا۔ تصویر والا غبارہ بالکل سفید نہ تھا ‘ایسی جلد کی رنگت لیے ہوئے تھا جس میں چمک بھی آ گئی تھی۔ میں نے کراہت کو اپنے حلقوم تک آتے پاکر اس کا سیل فون اسے لوٹانا چاہا تو نہ چاہتے ہوئے بھی پھسلتی ہوئی ایک نظر اس غبارے پر ڈال لی۔ مجھے صاف دِکھ رہا تھا کہ اس میں کسی بیمار نے پیشاب تو نہ کیا تھا تاہم کچھ تھا جس سے وہ ذرا سا پھول کر ایک طرف کو ڈھلک گیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ رفتہ رفتہ وہ ساری لڑکیاں جن کی اس نے تصویریں بنا رکھی تھیں یا ان جیسی دوسری لڑکیاں جو کیمرے والا موبائل دیکھتے ہی بدک جاتی تھیں‘ ایک ایک کرکے اس کی زندگی سے نکل گئیں اور ان سب کی جگہ عاتکہ لے لی تھی۔

    بتایا جا چکا ہے کہ مارکیز کے لذت مارے بوڑھے کی دیلگدینہ پانچ دسمبر کو پندرہ برس کی ہوئی تھی اور کہانی میں جب سالگرہ والی رات آتی ہے تو بوڑھے اسکالر کی حرکتیں پڑھ کر گمان سا ہونے لگتا ہے کہ جیسے اسے اس لڑکی سے محبت ہو گئی ہوگی مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ اسے پورا گانا سنا کر اور پورے بدن پر بوسے دے کر ایک بے قابو مہک جگانا چاہتا تھا۔

    اس روز وہ اس بے قابو مہک کو جگا کر اور خوب تھک کر وہ سو گیا تھا۔

    اس کی محبت تو تب جاگی تھی جب قتل والی رات کے بعد دیلگدینہ اور اس کا ملنا ایک عر صے تک ممکن نہ رہا تھا۔ اس کے بعد کے صفحات بوڑھے اسکالر کی اس لڑکی کی محبت میں تڑپ کا احوال سمیٹے ہوئے ہیں۔ شکیل کی کہانی میں عاتکہ لگ بھگ اسی طرح کی تڑپا دینے والی محبت کے لیے موزوں ٹھہرتی ہے جس طرح کی محبت مارکیز کے مرکزی کردار کو اس پندرہ سالہ لڑکی سے تھی ‘تاہم اتنی ساری مشابہتوں کے باوجود شکیل کی کہانی بہت مختلف ہو جاتی ہے۔

    عاتکہ کو لے کر شکیل نے یہ شہر چھوڑ دیا تو مجھے اس کی اس حرکت پر شدید صدمہ پہنچا۔

    جس خاندان نے اس شخص کو شہر میں آسرا دیا‘ اس خاندان سے اس نے وفا نہ کی تھی۔ شکیل سے قربت کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ صفیہ نے اپنی ذات مٹا کر اس کی خدمت اور محافظت کی تھی ۔ جس طرح مائیں اپنی اولاد کے عیب چھپا کر اور ان کی خطاؤں کو بھول کر انہیں اپنی محبت کی چادر سے باہر نہیں نکالتیں بالکل اسی طرح کی مسلسل اور بے ریامحبت اسے صفیہ سے ملی تھی ۔ جب کئی روز بعد شکیل کے یوں شہر چھوڑنے کی خبر ملی تو میں بھابی کا دکھ بانٹنے اس کے گھر پہنچ گیا اس خدشے کے باوجود کہ مجھے وہ جاکر اپنے دوست کے حوالے سے ناحق خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وہاں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ شکیل کی ساری حرکتوں کا اندازہ صفیہ کو تھا۔ دونوں بچیاں مجھے دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئیں تاہم صفیہ یوں حوصلے میں تھی جیسے وہ شکیل سے جدائی اور بے وفائی کا وار سہہ گئی ہو۔

    میں نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو اس کا سبب کچھ اور تھا ۔

    شاید یہ دونوں کی عمر کا وہ تفاوت تھا جس نے عین آغاز ہی سے دونوں کے بیچ شدید اور تندجذبوں والا تعلق قائم نہ ہونے دیا تھا۔ تاہم وہ پریشان تھی ‘اتنا کہ جتنا کوئی اپنی بے انتہا قیمتی شے کے کھو جانے پر پریشان ہو سکتا تھا۔ یہ ماں کے پیار والا سارا احساس مجھے تب محسوس ہوا تھا جب اس نے اپنے بیٹے شہباز کو دیکھا تھا ۔ شہباز لگ بھگ اس عمر کوپہنچ گیا تھا جس عمر میں شکیل اس شہر آیا تھا۔ جب اس کی ماں نے یہ بتایا کہ شہباز نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا اور کسی دکان پر کام کرکے اس گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں تو میں نے دیکھا شکیل کے دل گرفتہ بیٹے کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا تھااور اس نے اپنی مٹھیاں اور ہونٹ سختی سے بھینچ لیے تھے۔

    مارکیز نے آخری پیراگراف لکھتے ہوئے بوڑھے اسکالر کے گھر کے باورچی خانے میں دیلگدینہ کو اپنی پوری آواز سے گاتا دکھا کر اپنی کہانی کورومانوی جہت دے دی تھی۔ مگر میری اس کہانی کا المیہ یہ ہے کہ اپنے خاتمے پر اس سے سارا رومان اور ساری لذت منہا ہو گئی ہے۔ شکیل اپنے ساتھ بھاگ جانے والی لڑکی سے بھی اوب چکا ہے۔ جس عمر میں اسے یہ سیکھنا تھا کہ شدید اور الہڑ جذبوں کو طول کیسے دیا جاتا ہے وہ سدھائے ہوئے جذبوں سے نبٹتا رہا تھا۔ وہ واپس آیا تو سیدھا گھر نہیں گیا میرے پاس آیا شاید وہ اپنے گھر کی دہلیز ایک ہی ہلے میں پار کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔ میں اسے رات بھر حوصلہ دیتا رہا اور سمجھاتا رہا کہ اس کے بیوی بچوں کو اس کی ضرورت تھی اور یہ کہ اس کے اپنے گھر میں اس کا انتظار ہو رہا تھا مگر اگلے روز جب میں اس کے ساتھ اس کے گھر گیا تو اس کے بیٹے نے اس پر پستول تان لیا تھا۔ صفیہ نے واقعی اپنے شکیل کو معاف کر دیا تھا تب ہی تو اس نے یوں پستول تاننے پر اپنے بیٹے کی چھاتی پیٹ ڈالی تھی۔ شہباز نڈھال ہو کر دہلیز پر ہی بیٹھ گیا۔ صفیہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر اسے الانگھا اور اپنے شوہر کی طرف لپکی۔ دہلیز پر بیٹھے نوجوان کے ہاتھ میں جنبش ہوئی اور اگلے ہی لمحہ گولی چلنے کی آواز کے ساتھ ایک کربناک چیخ میرا وجود چیر گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے