اس نے کروٹ بدل کے چادر منہ پر کھینچ لی۔ سورج کی کرنیں کھڑکی کے اندر آ کے پھیل گئی تھیں اور وہ ان کی گری محسوس کر رہی تھی لیکن بستر چھوڑ کے اٹھنے کو دل نہ چاہتا تھا۔ جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ جوڑ جوڑ میں درد ہو رہا تھا اور ایک انجانی کسک دل کو اداس بنا رہی تھی۔
کل تک زندگی خوشگوار تھی۔ خزاں کے بعد آنے والی بہار کی طرح ایسی تپتی ہوئی دھرتی کی طرح سے برسات کی پہلی پھوار نے ٹھنڈک بخشی ہو۔ اس کی زندگی میں وہ سب کچھ تھا جس کی تمنا ہر عورت کو تڑپاتی ہے جس کے خواب وہ بچپن سے اپنی پلکوں پر سجانے لگتی ہے۔ خواب جو صحرا میں سراب کی طرح ٹھنڈے اور سکون پہونچانے والے ہوتے ہیں۔ تشنگی میں لبریز جام کی طرح حسین اور یہی خواب اس کیلئے حقیقت میں ڈھل گئے تھے۔
کتنی خوش نصیب تھی وہ؟
مسٹر یعقوب نے اسے بھرپور پیار دیا تھا اور شوہر کا پیار ہی تو عورت کیلئے سب کچھ ہوتا ہے۔
ان کا وہ خوبصورت دو منزلہ بنگلہ۔ دو نئی جگمگاتی کاریں، نئے ماڈل اور ایر کولر کے ساتھ اور بے شمار دولت جسے وہ دردی سے خرچ کر تی تھی لیکن یعقوب نے اسے کبھی نہ ٹوکا۔ کبھی اس کے اخراجات پر گہری نظر نہیں رکھی۔
زندگی تلخیاں کبھی محسوس نہ ہونے دیں۔ دونوں بچے شہر کے سب سے اچھے اور مہنگے بورڈنگ ہاوز میں رہتے تھے۔
اسے بےشمار پارٹیوں میں شرکت کرنی پڑتی۔ دعوتوں، جلسوں اور کلب کی رنگین شاموں کے بعد اتنا وقت ہی کہاں بچ پاتا کہ وہ بچوں میں دو گھڑی بیٹھ کے ہنس بول سکے۔ بچے یاد آتے تو وہ جاکے ان سے مل آتی۔ بچے ہفتہ بھر میں ڈیڑھ دن کیلئے گھر آتے بھی تو وہ اتنی مصروف ہوتی کہ بچوں کے سو جانے کے بعد گھر لوٹتی۔ سوتے ہوئے بچوں کا ما تھا چوم کے اپنے بڈ روم میں آ جاتی۔
دبیز ایرانی قالین، قیمتی ڈبل بڈ، دروازوں پر پڑے ہوئے بھاری پردے گلدانوں میں صبح کے رکھے ہوئے نڈھال پھول اور ہلکی سبز روشنی میں مسٹر یعقوب کے ہلکے ہلکے خراٹوں سے اڑتی ہوئی وہسکی کی مہک، بڈ روم میں الف لیلیٰ کی کہانیوں کاچ ماحول پیدا کر دیتی۔
اور وہ سارے دن کی تھکی ہاری، گداز بستر پر گر کے ریشمی لحاف میں اپنی عریاں باہیں چھپا لیتی۔
زندگی گذرتی جا رہی تھی۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو مصروف رکھنے لگی تھی مسٹر یعقوب ایسی بیوی کو پاک کے اپنی تقدیر پر ناز کرتے۔ وہ جس محفل میں بیٹھ جاتی وہ محفل یادگار ہو جاتی۔ کلب کی گہماگہمی اور رونق اس کے دم سے بڑھ گئی تھی۔ والز، رمبھا سمجھا ہو یا ٹوئیسٹ، وہ انتہائی خوبصورتی سے ڈانس کرتی۔ برج کھیلنے، فینسی ڈریس کے مقابلے میں اول آنے اور نیا فیشن ایجاد کرنے میں اس کا جواب نہ تھا۔ اس کے سامنے اونچی سوسائٹی کی فیشن ایبل عورتیں بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتیں اور وہ ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لئے گردن اٹھائے ان کے سامنے سے گذر جاتی۔
لوگ اس یعقوب کے ساتھ کلب میں داخل ہوتے دیکھ کے کھسر پھسر شروع کر دیتے ہیں۔
اس گینڈے کے ساتھ یہ ہرنی کچھ جچتی نہیں۔
’’ایسی نازک عورت اس توندیل انسان کو کیسے پسند کر سکتی ہے۔’‘
مسٹر یعقوب کی پہلی بیوی زندہ ہوتیں تو اتنی ہی بڑی ان کی اپنی لڑکی ہوئی۔ مگر کل رات۔
اس نے دوسری کروٹ بدلی تپائی پر چائے رکھی تھی۔ اس سے اٹھتی ہوئی گرم بھاپ، لہراتا ہوا، پیالی سے اٹھتا ہوا دھواں جیسے اس کے اپنے دل سے اٹھا ہو۔
اس نے اپنے دل کی بات ہمیشہ سنی ان سنی کر دی تھی۔ اس نے اپنے دل کے تمام تقاضے اس آفیسر کی طرح نظر انداز کر دیئے تھے جو ضرورت مندوں کی عرضیاں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ اس نے اپنے جذبات کو کبھی سمجھنا نہ چاہا۔
وہ اپنے آپ کو زندگی کے ہنگاموں میں کھو دینا چاہتی تھی۔ اس نے باہر دیکھا کھڑکی سے باہر لان کے اطراف کیاریوں میں ڈیزیز کے کاسنی اور سفید پھول دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ بڑے بڑے گملوں میں پام کی چھتریاں قطار میں کھڑی تھیں۔ گلاب کے تختوں میں بےشمار تتلیاں اڑتی پھر رہی تھیں لیکن اس کے دل کی اداسی بڑھ رہی تھی اور وہ اس اداسی کے طوفان میں غرق ہوتی جا رہی تھی۔
اس نے پھر ایک بار کل رات کے بارے میں سوچا کلب میں چاروں طرف تیز روشنی بکھری ہوئی تھی۔ خوشی سے دمکتے ہوئے چہروں پر تیز لائٹ اور خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔ رنگ بہ رنگے آنچل اور چست بلاوز تنگ اسکرٹ اور کھلے گریباں سے نکلی ہوئی نازک گردنیں۔ پتلی ننگی کمریں اور مرمریں باہیں چکنے گلابی گال اور شاداب سرخ ہونٹ اور پھر تیز نشہ شراب کا نشہ!
اس نے ’’حنائی ہاتھی’‘ کا انعام جیت لیا تھا۔ اسٹیج پر پردے کے پیچھے سے جو حنائی ہاتھ سب سے خوبصورت دکھایا گیا تھا وہ ’’اسی’‘ کا تھا اس نے مہندی سے ہتھیلی پر بہت فنکارانہ انداز سے دل بنایا تھا جس میں چبھے ہوئے تیر سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
جب وہ انعام لینے کیلئے پردہ ہٹا کر اسٹیج پر آئی تو تالیاں بجانے والوں میں شوکت بھی تھا۔
اس کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہو گئی۔ وہ جلدی سے نیچے اتر آئی اور خالی سیٹ دیکھ کر پیچھے جا بیٹھی۔ اس کا سر چکرا رہا تھا۔
شوکت یہاں؟ اس نے دونوں ہاتھوں میں سرتھام لیا۔ مقابلہ ختم ہو چکا تھا۔ اب والز کی دھن دلوں کو بیقرار کر رہی تھی۔ لوگ مست ہوئے اس نے وحشی ہرنی کی طرح چاروں طرف دیکھا۔ مسٹر یعقوب ایک میز پر شوکت کے ساتھ بیٹھے اسے شراب پینے پر مجبور کر رہے تھے اور وہ انتہائی شائستگی سے معذرت کر رہا تھا۔
’’تو یعقوب اسے جانتے ہیں۔ کیسے؟ کب سے؟ او خدا!‘‘
اس نے اپنا سرکرسی کی پشت سے ٹکا دیا۔ اس کے ذہن میں گرم لاواسا پک رہا تھا۔ چہرہ اس کی تپش سے تمتما اٹھا تھا اور دل جیسے پکے پھوڑے پر کوئی بار بار انگلی رکھ دیتا تھا۔ وہ سراپا جل رہی تھی۔
آپ میرے ساتھ رقص کرنا پسند کریں گی۔؟
’’نو آئی ایم سوری’‘ وہ کتنوں سے انکار کر چکی تھی، کتنوں کی چمکتی آنکھوں کو مایوسی سے بھر دیا تھا۔
آپ میرے ساتھ رقص کریں گی؟ کوئی جانی پہچانی گمبھیر آواز بہت نرمی سے پوچھ رہی تھی اس نے اس آواز کو زندگی بھر سنا تھا۔
’’جی۔۔؟’‘ اس نے چونک کے دیکھا۔
’’یہ میرے بہت ہی پرانے دوست ہیں مسٹر شوکت، نیوی میں کیپٹن ہیں اور آج کل لمبی چھٹی پر آئے ہوئے ہیں اور یہ تمہاری بھابھی مسز یعقوب!‘‘
مسٹر یعقوب اس سے شوکت کا تعارف کروا رہے تھے۔
بھابھی؟ اس نے آہستہ سے دہرایا۔ اس کی آنکھوں سے دنیا جہاں کا درد جھانک رہا تھا۔
ہاں بھی ان ہی کے بارے میں میں نے تمہارے بڑے بھائی کو لکھا تھا کہ میرا سونا گھر پھر آباد ہو رہا ہے۔ تمہارے بڑے بھائی میرے کلاس فیلو رہ چکے ہیں اور اس زمانہ میں تم سے بھی روز ملنا ہوتا تھا۔ جب تم شپ لے کر سمندر میں چلے گئے تو ہم دونوں تمہیں بہت یاد کرتے تھے۔ تمہارے بارے میں باتیں زیادہ ہوتیں۔ ا سی زمانے میں شریمتی جی آ گئیں۔ انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا اور اس کی طرف دیکھا۔
کیا بات ہے کیسی طبیعت ہے تمہاری؟ یعقوب پریشان ہو گئے میرا سر چکرا رہا ہے۔ وہ مردہ آواز میں بولی۔
رقص ہی ساری تکلیفوں کا علاج ہے۔ جاؤ شوکت کب سے تمہارے لئے کھڑا ہے۔
مسٹر یعقوب بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے بولے اور اسے لڑکھڑا تے قدموں سے اٹھنا پڑا۔
شوکت اسے سہارا دے کے ڈانس فلور پر لے آیا۔
’’چمکتے ہوئے چکنے فرش پر جوان جسم ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھرک رہے تھے۔ چہرے پر شراب کے نشہ نے سرخی پیدا کر دی تھی۔ نیم وا آنکھیں اپنے سامنے دو آنکھیں پا کے متوالی ہو رہی تھیں۔ مضبوط باہوں کا سہارا لئے چوڑے چکلے سینے پر سر رکھے وہ ایک ایسی دنیا میں پہونچ گئی جس کا گرد و پیش سے کوئی تعلق نہ تھا۔ دل جیسے سینے سے نکلا جا رہا تھا۔ دھڑکن کی صدا گونج بن گئی تھی۔ ان باہوں میں آکے بھی وہ مسٹر یعقوب کی باہوں کا حلقہ نہ توڑ سکتی تھی جو اس کے چاروں طرف آہنی قلعہ کی طرح مضبوط تھا۔
ثمو۔ ادھر دیکھو۔ میری طرف’‘ شوکت جیسے سرگوشی کے انداز میں بولا۔ اس کے ماتھے پر پڑا ہوا بالوں کا گچھا اس کے رخسار چھونے لگا اس نے آنکھیں کھول دیں۔ دو اداس خوبصورت آنکھیں اس کو مسلسل دیکھ رہی تھیں۔
’’کیسی ہو؟ شوکت نے اپنے مخصوص نرم لہجہ میں پوچھا۔‘‘
ثمینہ کی آنکھوں میں آ نسو تیر گئے۔ ایسی غمگساری، ایسی اپنائیت۔
اچھی ہوں۔ تم دیکھ رہے ہو۔
دیکھ رہا ہوں مگر ان آنکھوں میں تیرنے والے آنسو ایسا نہیں کہتے سنو۔۔۔ یہ اپنے ہاتھ پر میرا دل کیوں بنا ڈالا تم نے؟
تمہارا دل؟
ہاں ایسا ہی خون رستا ہے میرے دل سے اور یہ تیر تمہارے ستم کاہے ایسا تیر کیوں چلایا کہ میں زندگی بھر زخمی دل لئے گھومتا رہوں اور کہیں چین نہ ملے۔ اس کی آنکھوں کی اداسی گہری ہو گئی۔
شوکت۔۔۔ تم نے مجھے غلط سمجھا ہے۔وہ بمشکل کہہ سکی۔ فرط جذبات سے اس کا گلہ رندھ گیا۔
تو کیا آج بھی!
ہاں میں نے اپنے سارے غم چھپانے کیلئے اس زندگی کو اپنایا ہے۔ سارا دن مصروف رہتی ہوں۔ یعقوب کو یہی کچھ پسند ہے اور پھر اس زندگی میں میری اپنی پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب رات کو سونے کیلئے لیٹتی ہوں تو میرے تصورات، میرے خیالات اور میری سونچیں، سب ماضی کی طرف دوڑتے ہیں۔ ماضی کی روشنی سے حال کے اندھیروں کو روشن رکھتی ہوں۔ شوکت۔ شوکت نے اسے اور قریب کر لیا۔
رقص جاری تھا کلب میں اور کلب کے باہر۔ مجبوریوں ومایوسیوں کا رقس تشنہ آرزوؤں اور ادھوری تمناؤں کا رقص۔
محروم جوانیوں اور ناکام حسرتوں کا رقص۔
دوسرا راؤنڈ شروع ہو چکا تھا۔ وہ ہم رقص تھے۔ تم نے یعقوب سے شادی کیسے کی۔
میں نے یعقوب سے شادی کیسے کی۔
میں نے یعقوب سے نہیں، اس کی دولت سے شادی کی ہے۔
کیوں؟
حالات یہی چاہتے تھے۔
مجھے سب کچھ بتا دو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔ وہ جھجھلا کے بولا اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
جب تم جہاز کے ساتھ سمندر میں چلے گئے تو مجھے ایک نئے طوفان کا مقابلہ کرنا پڑا میرے ڈیڈی دق کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے۔ ان کا منی آرڈر ہمارے نام آنا بند ہو گیا۔ ان کی نوکری چھوٹ گئی اور ہم انہیں شہر لے آئے انہیں کسی بھی سینی ٹوریم میں داخل کرانے کی کوشش بیکار گئی۔ وہاں بھی سفارشیں چلتی ہیں۔ بڑے بڑے ذریعے کام میں لائے جاتے ہیں ورنہ جگہ نہ ہونے کا بہانہ کام آتا ہے۔
اب انہیں قیمتی دواؤں اور ٹانک کی ضرورت تھی۔ اچھی غذا کی ضرورت تھی اسی لئے مجھے تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایک پرائیوٹ فرم میں نوکری کرنی پڑی ان دنوں میرا دولت مند باس روز ڈیڈی کی عیادت کیلئے ہمارے چھوٹے سے مکان پر آتا تھا۔ ڈیڈی سے دور بیٹھ کے باتیں کرتا۔ میں نے دو ایک بار ناک پر دستی رکھے ڈیڈی سے جھک کے باتیں کرتے دیکھا۔ وہ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔
پھر۔ پھر کیا ہوا؟
ایک دن میں ساری پریشانیوں اور بیماریوں سے اکتائی ہوئی بیٹھی تھی۔ میرے آگے ڈیڈی کی دواؤں کیبل، قرض دینے والوں کے خطوط اور چھوٹے بھائیوں کے اسکول سے فیس کے لئے آئے ہوئے آخری نوٹس پڑے تھے اور اس گھور اندھیرے کو دور کرنے والی صرف ایک کرن میرے آگے اجالا پھیلا رہی تھی۔ وہ کرن تھی میرا باس۔ مسٹر یعقوب۔
یعقوب ہی تمہارا باس ہے۔ شوکت نے حیرت سے پوچھا اور اس کی کنول جیسی آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو اپنے رومال میں جذب کر لئے۔ اس کے چہرے پر کرب تھا۔ آنکھوں میں خزاں رسیدہ شام کی ویرانی تھی۔
پھر کیا ہوا۔ پھر میں حالات سے شکست کھا گئی۔ میں نے تم سے کئے ہوئے سارے وعدے بھلا دیئے۔ کالج کے ماضی کو دفن کر دیا۔ پھولوں سے بھرے کنج میں تمہارے کندھے پر سر رکھ کر مستقبل کے جتنے خاکے بنائے تھے، ان میں رنگ نہ بھر سکی تمہاری واپسی کا انتظار بھی نہ کر سکی میں نے تمہیں اپنے دل کی گہرائیوں سے چاہا لیکن وقت کے تیز رو دھارے نے مری زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ اب مجھے پتہ چلا کہ مجبوریاں مستقبل کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں دیتیں۔ ہم منصوبے تو بہت بناتے ہیں مگر حالات سے بے خبر رہ کر، وہ سرجھکا کے اداس ہو گئی۔ کاش میں جہاز کے ساتھ نہ گیا ہوتا تم نے کتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ یہ مجھے آج اندازہ ہوا میں نے تمہیں بےوفا سمجھا۔ یہ غلط فہمی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم لوگ اسی انداز میں سوچتے ہیں ثمو۔ اس نے دھیمے دکھ بھرے لہجے میں بتایا۔
’’ہر انسان مجبوریوں کے ہاتھوں لٹ جاتا ہے۔ میرا جہاز کے ساتھ جانا ضروری تھا اور اس مجبوری نے تمہیں مجھ سے چھین لیا۔ تم جو میری زندگی تھیں اور آج میں زندگی سے خالی جسم لئے زخمی دل کے ساتھ زندہ ہوں لیکن آج وہ بوجھ میرے دل سے ہٹ گیا کہ میں نے ایک بے وفا کو چاہا’‘
پھر ہال کی روشنی گل ہو گئی۔ اسے اپنے گال پر دو دہکتے انگاروں کا احساس ہوا۔۔۔ اور جب پھر ہال روشنی ہوا تو وہ شوکت سے الگ ہو چکی تھی۔ آرکسٹرا کی لہریں رک گئیں۔ لوگ اپنے رقص کو تھا مے کلب کے بار میں جانے لگے۔
رقص نے نہ جانے کتنوں کو نئی زندگی دی کتنوں کو ماضی کو خوشگوار یادوں کا تحفہ دیا۔۔۔
کس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔۔۔ کسی کو بھی اس کا اندازہ نہ تھا۔ مسٹریعقوب ایک اینگلو انڈین لڑکی کے ساتھ بیٹھے بیئر پی رہے تھے۔
’’چلئے گھر چلیں۔۔۔’‘
’’شوکت کہاں ہے۔۔۔؟‘‘ وہ اپنی خمار آلود نگاہوں سے اس لڑکی دیکھ رہے تھے۔
’’ہوں گے کہیں۔۔۔ آپ اٹھیئے نا۔۔۔’‘ وہ ضد کر رہے تھی۔
جب یعقوب اپنی ساتھی لڑکی کو گڈ نا ئٹ کہہ رہے تھے تو شوکت اُس کے بالکل پیچھے آکے آہستہ سے بولا۔
’’آج تک تم نے زندگی دوسروں کے لئے گذاری ہے۔ اب تمہیں اپنے لئے جینا ہو گا صرف اپنے لئے۔۔۔ کل یہیں ملوں گا۔۔۔’‘
’’گڈ نائٹ’‘
’’گڈ نائٹ‘‘ کا راسٹا رٹ کر کے ریورس میں لیتے ہوئے انھوں نے سوچا آج ثمینہ کو کیا ہو گیا ہے۔ اتنی شوخ د شنگ، اتنی چنچل عورت یوں اکتا ئی ہوئی سنجیدہ سی کیوں ہے۔۔۔؟ جو ان عورتوں کی یہی انتہاپسند ی اور جذباتیت اُنھیں اچھی لگتی تھی۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے رخساروں پر جلتے ہوئے انگارے اسے تڑپا رہے تھے، رُلا رہے تھے۔ اس کا جی چاہتا تھا آج تنہائی میں دل کھول کر رو لے، آنسوبہالے، بہت دن ہو گئے اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکا تھا۔ ڈیڈی کی موت کے بعد اس نے آنسو بہائے۔ اپنی محبت اپنے جذبات واحساسات کی موت پربھی وہ نہیں روئی۔ اس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھیں۔ وہ دوسروں کے لئے جینا چاہتی تھی۔ اس نے ایک لمحہ بھی اپنے لے نہیں گذارا۔ اپنے لئے کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش نہ کی اور آج جب شوکت افسے اپنے لئے جینے کی ترغیب دینے آیا ہے۔ اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے آیا ہے۔ اپنی خوشیوں کے لئے اس کے سامنے دامن پھیلا نے آیا ہے تو وہ پر کٹے ہوئے پنچھی کی طرح ہانپ رہی ہے۔ اب وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں اڑ سکتی۔۔۔ اب وہ ایک بیوی ہے۔ ایک ماں ہے اور ایک ماں کبھی اپنی محبت حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ دو ننھے منے بچے اس کے پیروں کی بیڑیاں بن گئے ہیں۔
اس نے اپنے جلتے ہوئے رخسار پر آہستہ سے ہاتھ پھیرا۔۔۔ میں ان انگاروں پر اپنی بے رخی د لاپروائی کی اوس ٹپکا دوں گی۔۔۔ میں صرف اپنے لئے نہیں جی سکتی۔ دوسروں کی راہ میں دور تک پھول بکھیرتی آئی ہوں۔۔۔ اب دامن میں کیا رہ گیا ہے۔
شام کو مسٹر یعقوب بن سنور کر اسے کلب لے جانے کے لئے اس کے کمرے میں آئے تو وہ بچوں کے درمیان بیٹھی بڑے چاوسے ان کے بال بنا رہی تھی۔
’’ارے بچے کب آئے’‘ انھوں نے دونوں بچوں کو لپٹا لیا۔ میں صبح جاکے دونوں کے لئے آئی ہوں۔ اب یہ یہیں رہیں گے۔ ماں کے ہوتے ہوئے دونوں بورڈنگ باوز میں رہیں۔ یہ میں برداشت نہیں کر سکتی اور دیکھئے نا ہمیں کتنی آسانیاں میسر ہیں۔ صبح کا رسے اسکول جائیں گے اور شام لوٹ آئیں گے۔ سونا گھر ان کی پیاری باتوں سے جنت بن جائے گا اور دیکھئے آپ اکیلے ہی کلب ہو آئیے۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ شام گذار دوں گی وہ چہک چہک کے حسین مسکراہٹ کے ساتھ انھیں سمجھا رہی تھی اور مسٹر یعقوب پھر سوچنے لگے۔
یہ جوان عورتیں۔۔۔ ان کی یہ انتہا پسند ی اور جذباتیت۔۔۔ اف خدا اور ان کے چہرے پرمسرت کی شعاعیں جھلملانے لگیں۔
اور ننھے بٹو نے دوڑ کر ماں کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے گرم انگاروں پرجسے شبنم پڑ گئی ہو!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.