شبنمی یادیں
الحمد اللہ۔۔۔ اللہ کا کرم ہے کہ رمضان المبارک کا بابرکت فضیلتوں اور رحمتوں وسعتوں والا مہینہ پھر اک بار ہم گناہگار اور حقیر بندوں پر سایہ فگن ہوا ہے۔ اب ماشااللہ رحمت اور معفرت کا دوسرا عشرہ بھی ختم ہو نے کو ہے، دو دن بعد انشا اللہ جہنم سے نجات کا تیسرہ عشرہ بھی شروع ہو جائیگا۔۔۔ صدف کے لیے شروع ہی سے تیسرا عشرہ بہت معنی رکھتا، ان دنوں سے اس لیے بھی اسے بےحد لگاؤ تھا کہ اس عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنا اسے بہت پسند تھا۔۔۔ آج بھی اسے وہ دن اچھی طرح یاد تھے، جب وہ تین دن یا دو دن یا ایک دن کا بھی اعتکاف کر لیتی تو اس کے ابو اس کی خدا سے محبت اور ذکر الٰہی میں دلچسپی کو دیکھتے ہو ئے کتنے خو ش ہو جاتے تھے۔۔۔ صدف کی زندگی میں وہ پر نور راتیں اور وہ دن آج بھی کافی اہم تھے۔ کبھی نہ بھولنے والے۔۔۔
اور اب تو ایسی یا دیں بھی تاحیات رمضان المبارک اور تیسرے عشرہ کو لے کر اس کے ساتھ جڑ سی گئی تھیں۔ جو وہ چاہے بھی تو ان یادوں کے حصار سے باہر نہ نکل پائے۔۔۔ آج پھر ایک بار اس کی آنکھیں ان خوبصورت اور شبنمی یادوں سے نمنا ک ہو رہی تھیں۔۔۔ مگر وہ اپنے بچپن لڑکپن اور بانکپن کے دنوں میں اپنے والدین کے سائے میں بیتے خوبصورت اور پر بہار دور میں کہیں کھو سی گئی۔۔۔ اسے آج بھی یاد آنے لگے وہ دن جب اس کے ابو نے صدف کے لیے ”تفہیم القرآن“ کی دو جلدیں منگوا کر دیئے اور کہا تھا، اس قرآن پاک کو ترجمہ اور تفیسر کے ساتھ پڑھو اور سمجھو۔۔۔ اس وقت صدف نے ہائی اسکول میں داخلہ لیا تھا۔ اس نے ”تفہیم القرآن“ کو دیکھا پسند کیا اور بہت خوش بھی ہوئی ابو کی اس عنا یت پر۔۔۔ مگر پابندی سے اور گہری دلچسپی کے ساتھ تلاوت نہیں کر پائی۔ شاید وہ کچھ اس کی ناسمجھی کا دور تھا، اسکول کی پڑھائی لکھائی اور کھیل کود قصے کہا نیوں میں گذرتا ہوا۔۔۔ مگر آج جب وہ سوچتی تو اس وقت کی اپنی نادانی پر اسے کافی ندامت ہوتی۔۔۔ پھر اس کے ابو نے اس میں کلام پا ک کو پڑھ کر سمجھنے میں خاص دلچسپی نہیں دیکھی تو اپنی لاڈلی سے انداز برہمی میں یہ کہہ کر خاموش ہو گئے، کہ جو جلدیں میں نے منگوا کر دی ہیں انہیں پہلے پڑھو اور سمجھو تو پھر آگے کی جلدیں منگوانے میں کچھ بات بنے (ورنہ بیکار میں منگواکر طاق میں سجا کر رکھنے سے کیا فائدہ) ابو کی یہ تلخ و ترش بات صدف کے معصوم دل میں جیسے گھر کر گئی پھر دھیرے دھیرے اس نے قرآن کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی (کچھ دیر سے ہی سہی) اللہ کے کلام اور اس کے حکم اور ہدایت کو پڑھنے اور سمجھنے میں صدف کو گہری دلچسپی لیتے ہو ئے دیکھ کر اُس کے ابو بےانتہا خو ش ہوئے۔۔۔ ابو کے دیئے اس بیش بہا عظیم الشان تحفہ کو پاکر ہی تو اُسے خدا کی ذات پاک اور قرآن کے نزول کی عظمت کا اور تاحیات اس کی رہنمائی اور مضبو ط سہارے کا اور احسانِ کبریا کا احساس نمایاں ہو ا تو اسے فخر بھی ہونے لگا کہ یہ خدا کا کرم ہی تو ہے کہ ہم نبی ﷺ کی امت میں سے ہیں ماشااللہ۔۔۔ صد ف کو جب سے شعور حاصل ہوا اُس نے اپنے ابو سے شرک سے بچے رہنے کا درس پایا، سوا ئے اللہ تعالیٰ کے کسی کے آگے جھکنے اور منتیں مانگنا انہیں بالکل بھی پسند نہیں تھا، وہ اکثر کہتے جو بھی مانگنا ہے اپنے خدا سے مانگو جو دونوں جہاں کا مالک ہے، جس نے ہمیں اشرف المخلوقات بناکر بھیجا وہ ہمارا خا لق ہے ہمیں اسی کی پاک ذات پر یقین رکھنا ہے۔۔۔ وہ ایک نیک انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب تاجر تھے، ہر کامیاب انسان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آ تے ہیں انہوں نے پریشانیوں الجھنوں اور مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، کبھی پیچھے کی طرف مڑکر دیکھنا ان کی مستحکم شخصیت کو گوارہ نہیں ہوا۔۔۔
وہ ایک رعب دار شخصیت کے مالک تھے، ان کی آواز پر سارے خاندان والے کانپ اٹھتے تھے، وہ کوئی بھی غیرفطری غیرمہذب بات پر بہت جلد برہم ہو جاتے۔۔۔ اسی لیے سبھی ان کے سامنے ٹہر کر بات کر نے سے بھی گھبرا تے۔۔۔ اس کے برعکس وہ بہت نیک بہت ہی پرخلوص دوسروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ اپنے دل میں پنہاں رکھتے تھے۔ خاندان میں ہو یا پھر دوست احباب میں سب کے ہر چھوٹے بڑے کاموں میں امدا د ضرور کر تے۔۔۔ سبھی ان سے رائے مشورہ کر تے ہو ئے ہی کو ئی بھی کام انجام دیتے۔۔۔ ہاں چاہے آدھی رات ہو اور گہری نیند میں کیوں نہ ہوں کوئی بیمار یا پریشان حال دروازے پر دستک دیتا تو گہری نیند سے بیدار ہوکر فوراً اس کی مدد کے لیے نکل پڑتے۔۔۔ جب سے صدف نے ہو ش سنبھالا انہیں ہمیشہ ہی سفید رنگ کے لباس میں زیب تن دیکھا انہیں سفید رنگ بےحد پسند تھا، صدف کو ارما ن ہوتا کہ دوسرے بچوں کے ابو جس طرح رنگین لبا س پہنتے ہیں وہ بھی اپنے ابو کو رنگین لبا س میں دیکھے۔ وہ اکثر اُن سے پو چھتی کہ آپ ہمیشہ سفید رنگ کو ہی تر جیع کیوں دیتے ہیں، میں نے کبھی آپ کو رنگین کپڑوں میں ملبوس نہیں دیکھا۔۔۔ تو مسکرا کر یوں ٹال جاتے کہ ہم بھی پہنتے تھے مگر وہ جوانی کے دن تھے اب تو یہی اچھے لگتے ہیں۔۔۔ ان کی ایک عادت یہ بھی بڑی پیاری تھی جو دل سے نہیں مٹتی، رات میں سو نے سے پہلے اپنے بستر پر بیٹھتے اور دونوں ہاتھ اٹھاکر آنکھیں موند لیتے اور بارگاہ الٰہی میں دعا کر تے۔۔۔ صدف ان سے پو چھتی ابو آپ روزانہ رات میں سونے سے پہلے کیا دعا مانگتے ہیں، تو وہ کہتے میں اپنے مرحوم والدین کے حق میں اور ساری امت کے لیے دعا کرتا ہوں۔۔۔ اور کسی کی بھی موت ہوتی تو وہ یوں کہتے کہ زندگی خدا کی عطا کردہ ہے اس پر صرف اسی کا حق ہے جب چاہے جسے چاہے اپنے پا س بلالے، آج ان کی باری تھی کل ہماری باری ہوگی۔۔۔ صدف چھوٹی ہو نے کے ناطے سبھی کی لاڈلی تھی، مگر بےحد حساس اور جذباتی۔۔۔
اچانک اس معصوم کی زندگی میں ایک دن ایسا بھی قیامت خیز آیا جب اس کی پیار ی سی بہت ہی بھولی بھالی نیک امی جو اس کی شفیق ساتھی بھی تھیں داغ مفارقت دے کر اس دارفانی سے ناطہ توڑکر رخصت ہو گئیں۔۔۔ صدف کی خوشحال زندگی میں وہ بہت ہی بڑا کربناک وقت تھا، اس کے معصوم دل کو بہت گہرا صدمہ پہنچا۔۔۔ بڑی مشکل سے وہ مہینوں بعد سنبھل پائی جب اس نے اپنے ابو کے رعب دار چہرے پر اپنی لاڈلی کے لیے مایوسی کے بادل چھائے تو وہ برداشت نہیں کر پائی بڑے صبر و رضا کے ساتھ اس نے اپنے ابو کو اپنی زندگی کا نصب العین بناکر جینا سیکھا۔۔۔ وقت کسی کے جانے سے کب ٹہرتا ہے، وقت گذرتا رہا زندگی آگے بڑھتی رہی۔۔۔ صدف نے اپنے ابو سے بہت کچھ پایا، دینی تعلیم اور دنیاوی تر بیت حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بھی وہ اکثر درس دیتے رہتے۔۔۔ اس نے دیکھا کہ وہ اسلام کے پانچ ارکان بخوبی انجام دینے کی بھرپور کو شش کرتے توحید پر قائم رہے، نماز پابندی سے ادا کرنے کی کو شش کرتے۔۔۔ اسے حیرت ہوتی آج بھی جب وہ سوچتی کہ کبھی اس نے اپنے ابو کو فجر کی نماز ناغہ کرتے نہیں دیکھا چاہے بارش ہو یا تھنڈ۔
وہ اٹھتے اور تھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھوکر وضو کرتے ہو ئے مسجد کے لیے نکل پڑتے۔۔۔ اکثر وہ اصرار کرتی کہ کا فی تھنڈ ہے گرم پانی کیے دیتی ہوں۔ تو اپنی لاڈلی کو یہ ہدایت کر تے ہو ئے چل دیتے کہ گرم پا نی کی ضروت مجھے نہیں تمہیں ہے تم پانی گرم کرکے وضو کر لینا۔۔۔ ہاں ماہِ رمضان المبارک میں کبھی بھی صدف نے اپنے ابو کو روزہ چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور زکوٰۃ اور صدقہئ فطر وغیرہ بھی بڑے ہی جوش و خرو ش کے ساتھ اپنی لاڈلی کے ہا تھوں ادا کر تے اور سبھی کو اس کے بارے میں سمجھاتے اور ادا کر نے کی ہدایت بھی کرتے۔۔۔ غریبوں، مسکینوں، ضرورت مندوں کی بھر پور مدد کرتے ہو ئے یہ ادا بھی ان کی بہت پیاری تھی، جو صدف کو بہت پسند تھی، وہ یوں کہتے اور کرتے بھی بالکل ویسے ہی کہ جب کسی کی مدد کرو تو ایسے کہ دائیں ہا تھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔۔۔ جزاک اللہ۔۔۔ کتنا بڑا دل تھا۔۔۔ اور فریضۂ حج کا بھی دل میں ارمان اور فکر لیے ہو ئے تھے، مگر صدف کے فرض سے سبکدوش ہو نے کی فکر انہیں اس فرض کو ادا کر نے میں روکے ہو ئے تھی۔۔۔ باوجود کسی کے کہنے پر بھی صدف کی شادی سے پہلے حج کے لیے روانگی انہوں نے منا سب نہیں سمجھی اور نہ ہی ان کا دل اس با ت کے لیے گواہی دے پایا۔۔۔ صدف کے ابو کو پر وردگار کے حضور دعا سے بڑا عقیدہ تھا، جو آج بھی صدف کے دل میں حوصلا بن کر زندگی کے ہر موڑ پر جوان اور روشن تھا۔ بچپن سے دعا مانگنا اور اپنے مالک حقیقی سے شرف قبولیت پر یقین رکھنا اس نے انہیں سے سیکھا تھا۔۔۔ جب وہ بہت معصوم تھی، تبھی سے اس کے ابو اس سے کہا کرتے جو چاہیے اپنے ہاتھ اٹھا کر یا سر بسجود ہو کر اپنے رب سے مانگو وہ بڑا کارساز ہے ضرور تمہارے سنےگا۔۔۔
وہ صدف کی حساس طبیعت کو سمجھتے ہوئے اکثر اسے سمجھاتے کہ تمہیں یوں چھوٹی سی چھوٹی پریشانی پر اس طرح مایوس نہیں ہو نا چاہیے، مایوسی کفر ہے، تمہیں زندگی میں ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔۔۔ تم نہیں جانتی کہ ہماری زندگی میں کتنے نشیب و فراز آئے ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے تبھی تو کامیابی قدم چو مےگی، تم ہماری بہت ہی ذہین اور کامیاب بیٹی ہو، پریشانیاں اور مایوسیاں تو سبھی کی زندگی میں آتی ہیں، جیسے آئیں گی ویسے ہی مایوس ہوکر لوٹ بھی جائیں گی۔۔۔ ہمیں چاہیے کہ صبر کا دامن تھامے رکھیں پھر دیکھو خدا کیسے صبر کر نے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔۔۔ ان اللہ مع الصابرین۔۔۔ وہ جب بھی کسی بھی پریشانی میں مبتلا ہو تے تو صدف سے کہتے کہ تم دعا کرو اللہ ضرور قبول فرمائےگا اور ہماری پریشانی دور ہو جائےگی۔۔۔ ایک وقت کی بات ہے کہ صدف کے ابو کے ایک گہرے دوست تھے ان کی بیوی اچانک کافی بیمار ہو گئیں اسپتال میں اڈمیٹ کر دیا گیا بات تو یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ بیچاری زندگی اور مو ت سے لڑ رہی تھیں، بچنے کی کم ہی امیدیں وابستہ تھیں۔۔۔ صدف کے ابو ایک دن جیسے ہی گھر میں داخل ہو ئے ان کا ہمیشہ کا رعب دار چہرہ کچھ اترا ہو ا سا لگنے لگا۔۔۔ صدف کو اپنے پاس بلاکر بٹھایا اور کہنے لگے کہ ہمارے فلاں دوست کی بیوی سخت بیمار ہے، بیچاری کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔۔ ان کی صحت و تندرستی کے لیے اور ان کی عمردرازی کے لیے تم دعا کرو تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔۔۔
یہ سن کر صدف کے حساس دل کو بہت دکھ ہوا کیونکہ وہ بھی ان انکل آنٹی سے اچھی طرح وا قف تھی، اس نے فوراً اپنے ابو کے حکم کے مطابق بارگاہ الٰہی میں گڑگڑاکر دعائیں مانگیں۔۔۔ اور پھر خدا کی قدرت کا کرشمہ یوں ہو ا کہ دو چار دنوں میں ہی اسے ابو نے یہ خو شخبری سنائی کہ اب ان کی طبیعت میں سدھار آ رہا ہے، تمہاری دعا اوپر والے نے سن لی۔۔۔ ابو کا چہرہ یہ کہتے ہو ئے خوشی سے دمک رہا تھا اور انہیں دیکھ کر صدف بھی کھل اٹھی۔۔۔ یہ خدائے برتر کا کرشمہ ہی تو تھا، وہ کچھ دیر کے لیے یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کے ابو اور وہ خدا کی قدرت پر زیادہ خوش ہیں یا دعا کی شرف قبو لیت پر۔۔۔ پھر اس نے سو چا جو بھی ہے ایک ہی تو بات ہو ئی۔۔۔ اور صدف نے بارگاہ الٰہی میں شکر ادا کیا کہ تو بڑا ہی عظیم ہے اے میرے خدا تونے میری دعا قبول فرماکر میرے اور میرے پیارے ابو کے عقیدہ کی لاج رکھ لی۔۔۔ سبحان اللہ اسی طرح تاحیات ہمارا سا تھ دینا۔۔۔ پھر آنٹی دھیرے دھیرے بالکل صحت یا ب ہو گئیں اور کافی عرصہ تک حیات بھی رہیں۔۔۔ ہاں صدف کے ابو کی خوش قسمتی دیکھئے کہ اپنے نیک بندے کا ارمان تو خدا کو پورا کر نا ہی تھا۔ فریضۂ حج کا موقع بھی انہیں جلد ہی نصیب ہو گیا۔ ان کی چاہت کے مطابق ان کی نگرانی میں صدف کی شادی کا فرض بھی انہوں نے بخوبی انجام دیا پھر ”ماشا اللہ“ ایک نہیں دو مرتبہ انہیں حج نصیب ہوا۔
صدف اپنے ان سہانے دنوں سے پرلطف ماضی سے نکل آئی تو اسے پھر ایک بار اس کے ابو کا آخری رمضان اپنے دامن میں لپٹتا ہوا شدت سے یاد آنے لگا جو بڑا ہی دردناک بیتا۔۔۔ ان دنوں بھی رمضان المبارک کی آمد ہوئی تھی، مگر ان دنوں ابو کے مزاج میں کچھ نر می سی پیدا ہوگئی تھی، صحت ساتھ چھوڑنے لگی تھی، اچا نک ان کا کھانا پینا بالکل کم ہونے لگا ان کے لیے دو نوالے بھی ہضم کرنا محال ہو رہا تھا۔۔۔ صدف نے پہلی بار انہیں نہ چاہتے ہو ئے بھی روزہ چھوڑتے ہو ئے دیکھا یہ دیکھ کر صدف کو بہت تکلیف پہنچی تھی بہت دکھ ہوا تھا ان کے لیے۔۔۔ معا ئنہ کے بعد ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ان کے ہاضمہ کی نالی سکڑنے کی وجہ سے انہیں کھانے میں اور ہاضمہ میں تکلیف ہو رہی ہے کچھ نرم و ملائم غذا وغیرہ دیجئے۔۔۔ ان کی مزاج پرسی کے لیے ہر دودنوں میں صدف اپنے ابو کے گھر آتی۔۔۔ اس درمیان رمضان میں جو بھی وہ ترجمہ قرآن کی تلاوت کرتی باپ بیٹی میں جب بھی ملتے اکثر یہی باتیں ہوتیں، حکم الٰہی اور ہدایا ت خدا وندی، سورتوں میں دیے گئے نبیوں کے تو سط پیغامات۔۔۔ یہی سب فرمانِ الٰہی جب وہ اپنے ابو کو سناتی تو وہ سنتے اور اپنی بیٹی کی ذہانت پر ان کا سینہ فخر سے کشادہ ہوتے نظر آتا اور ان کا چہرہ ایمان کے نور سے دمکنے لگتا اپنے معبود کی وحدت کی روشنی ان کے ماتھے پر چمکتی ہوئی نمایاں نظر آتی۔۔۔ وہ کمزور ضرور ہو گئے تھے مگر آخری دم تک نماز نہیں چھوڑی نماز اور تراویح کے لیے بھی جاتے رہے۔۔۔ رمضان کے تیسرے عشرہ کا وہ چو بیسواں (۲۴) روزہ تھا۔
وہ دن خدا نے صدف کے ابو کے لیے متعین کر رکھا تھا۔۔۔ خدا کے اس فیصلے سے انجان صدف عصر سے پہلے تین اور چار بجے کے درمیان اپنے ابو کے پاس آ ئی، ساتھ میں ہمیشہ کی طرح تلاوت کلام پاک کا دم کیا ہوا پانی بھی لے آئی تھی۔ آنے پر پتہ چلا کہ ابو آرام فرما رہے ہیں، ظہر کے بعد اکثر وہ کچھ آ رام کر لیتے تو عصر کی اذان کی آواز کے ساتھ ہی اٹھتے اور پھر نماز کے لیے مسجد کو نکل پڑتے۔۔۔ صدف نے انہیں جگاکر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔ ہمیشہ سے ہی وہ اپنے ابو کو نیند سے جگانے میں پرہیز کرتی (جو اسے پسند نہیں تھا) صدف کے ساتھ اس کی سہیلی بھی آ ئی ہوئی تھیں عصر سے پہلے انہیں اپنے گھر بھی پہنچنا تھا۔۔۔ اس لیے صدف نے دم کیا ہوا پانی بہن کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا کہ ابو کے اٹھنے پر انہیں ضرور دے دینا اور اُن سے کہنا کہ میں کل پھر آؤنگی تو با ت بھی کرلونگی۔۔۔ اور وہ اپنے گھر کے لیے نکل پڑی جو دس پندرہ منٹ کا پیدل راستہ تھا۔۔۔ وہ مشکل سے اپنے گھر کے گیٹ تک ہی پہنچ پائی تھی گھر کے دروازے تک پہنچنے میں ابھی اسے سیڑھیاں چڑھنا باقی تھا جو کہ فرسٹ فلور پر واقع تھا، اچا نک کیا دیکھتی ہے کہ پیچھے سے اس کے شوہر آٹو سے اترکر جلدی جلدی اس سے آگے سیڑھیاں چڑھنے لگے ہیں، اس نے سوچا کچھ ارجنٹ کام نکل آیا ہوگا جو رمضان میں بنا وقت گھر چلے آ رہے ہیں۔۔۔ پھر وہ بھی پیچھے پیچھے جلدی سے جاتی ہے دونوں اپنے گھر کے اندر پہنچتے ہیں، صدف کے شو ہرصدف سے کہتے ہیں ابو کے گھر جانا ہے تم بھی ساتھ چلو۔۔۔ تو فوراً صدف کہتی ہے ابھی تو میں وہیں سے آ رہی ہوں۔۔۔ تو پھر وہ کہنے لگے کہ ابو کی طبیعت اچانک کچھ ناساز ہو گئی ہے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے، صدف یہی دہرا تی ہے کہ میں تو ابھی آ رہی ہوں وہ تو آرام سے سو رہے تھے میں نے انہیں جگانا منا سب نہیں سمجھا اور بات کیے بغیر ہی چلی آئی۔۔۔ وہ صدف کی باتوں کو سنی ان سنی کر تے ہوئے کہی، اچھا تو ابھی اچا نک کچھ طبیعت ناساز ہو گئی ہو شاید۔۔۔ مجھے فون آیا تھا چلو ڈاکٹر کے پاس لیے چلتے ہیں تم بھی ساتھ چلو۔۔۔ کسی طرح صدف کو سمجھا کر ساتھ لیے آٹو میں پھر سے ابو کے گھر کی طرف نکل پڑ تے ہیں۔۔۔ مگر اس وقت صدف کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، یہ اچا نک آرام کرتے ہو ئے ابو کی طبیعت کیسے خراب ہو گئی اس کا ذہن ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔ مگر وہ اپنے شوہر کی بات بھی تو ٹال نہیں سکتی تھی، وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی اور نہ جانے کیا کیا کہے جا رہی تھی۔۔۔ اس کے شوہر خاموشی سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔۔۔ اسی کشکمش میں گھر آ گیا اور وہ آٹو سے اتر کر جلدی سے دہلیز کی جانب بڑھنے لگی تو اچانک اس کے دل کو دھکا سا لگا کیونکہ ابو کی پہچان کے دوچار لو گ دروازہ کے باہر ٹہرے ہوئے تھے اور دروازہ بند تھا، وہ جانے لگی تو اسے روکا گیا کسی نے کہا تھوڑی دیر رک جاؤ بیٹی وہ برہم سی ہو گئی کہ اسے اپنے ابو کے گھر کے اندر جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔۔۔ پھر جلدی سے بغل والے گھر سے پڑوس کی آپا نے آکر اس کا ہاتھ تھا متے ہو ئے اسے اپنے گھر لے گئیں، پریشان حال صدف ان سے پو چھنے لگی یہ کیا ہو رہا ہے آپا میں ابھی ابھی آکر گئی تھی ابو تو بڑے آرام سے سو رہے تھے پھر اچانک ان کی طبیعت کیسے بگڑ گئی اور یہ لوگ مجھے اندر جانے سے منع کیوں کر رہے ہیں۔۔۔ وہ سوالوں کی بوچھاڑ کیے جا رہی تھی۔۔۔ پھر انہوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے تمہارے ابو سو رہے تھے یہ سچ ہے، مگر جیسے سو رہے تھے، ویسے ہی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اب ان کی روح اس دنیا سے پرواز کر چکی ہے تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا۔۔۔ صدف کے تو ہوش اڑ گئے بےخیالی میں دونوں ہاتھوں سے وہ اپنے سر کو پیٹنے لگی۔۔۔ شاید یہ اس کے سرسے پدر کے سا ئے کے اٹھ جانے کا غم تھا جو اس طرح جانے انجانے میں عیاں ہو رہا تھا۔۔۔ وہ رو ئے جا رہی تھی اور کہے جا رہی تھی کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، وہ ہمیشہ میری آمد پر کھل اٹھتے اور مجھ سے ڈھیر ساری باتیں کرتے۔۔۔ آج مجھے یہ کیا ہو گیا مجھے انہیں جگا نا چاہیے تھا، ہو سکتا ہے وہ میرے جگانے سے جاگ جاتے۔۔۔ پھر انہوں نے اسے لپٹ کر تسلی دیتے ہوئے سمجھانے لگیں، صدف بیٹی یہ قدرت کے راز ہیں اگر تم انہیں جگاتی ہو سکتا ہے اس وقت ان کی روح ان کے جسم سے آزاد ہو کر پرواز کر رہی ہو وہ منظر تم دیکھتی تو کیا برداشت کر پاتی۔۔۔ یہی وجہ ہوگی جو تم ان کے اتنے قریب چند لمحے پہلے آئی تو تھی، تم ہی سوچو زندگی اور موت کے بیچ کی چند سانسیں جب ٹوٹیں تمہارے ابو نے جب اجل کو لبیک کہا ہوگا کس لیے یہ منظر تم سے پوشیدہ رکھا ہوگا، یہ قدرت کا راز ہے جو وہی بہتر جانے۔۔۔ کچھ دیر بعد صدف کو اپنے ابو کے گھر لے جایا گیا تو وہ کیا دیکھتی ہے ہمیشہ اپنے کمرے میں سونے والے آج ہال کے درمیان میں دیوان پر انہیں لٹایا گیا ہے، ان کی روح تو آن کی آن میں عزرائیل کے ساتھ بنا چوں و چراں کے ہولی۔۔۔ مگر نور بھرا دمکتا ہوا چہرہ ابھی بھی مسکراتا ہو ا نظر آ رہا تھا۔۔۔ یہ مسکراہٹ ہی تو تھی جو صدف کو ہمیشہ حوصلا دیا کر تی تھی۔۔۔ وہ پچیس ویں طاق رات تھی دوسرے دن پچیس ویں روزے کو ظہر میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔۔۔ وہ نور سے منور چہرہ آخری سفر تک بھی ترو تازہ مسکان بھر ا چہرہ چمکتا رہا۔۔۔ جو آج بھی صدف کی آنکھوں میں بالکل ویسا ہی بسا ہوا تھا۔۔۔ ان کے چہرے کی تازگی کے بارے میں آج بھی وہ سوچتی تو اس کا دل بےساختہ یہی کہتا کہ وہ چہرہ کا نور یقینا ان کے فجر کی نماز کی پابندی کا ہی نعم البدل رہا ہو۔۔۔ اس سال اس مبارک مہینہ میں اس ماہ مبارک میں وہ نماز پڑھتی تلا وت قرآن پاک کرتی اس کے علاوہ گھر کے کاموں کے وقت یا پھر جو بھی فرصت کا وقت مل جاتا اللہ کی تسبیح اور زیادہ سے زیادہ استغفار پڑھنے کی عادی تھی۔۔۔ اس کے ابو کے وداعی ما ہ رمضان میں یہ ورد کر تے ہو ئے کچھ عجیب سی حرکت ہوتی رہی اس کے ساتھ۔۔۔ ہوتا یہ تھا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب اچانک تسبیح اور استغفار کا ورد چھوڑکر اس کے لب خدا سے دعا اور التجا کی طرف راغب ہو چکے ہو تے اور وہ لمبی سی دعا مانگنے لگتی جیسے نماز کے بعد طو یل دعا مانگتے ہیں پھر دعا کے آخر میں اسے اس بات کا علم ہوتا کہ وہ تو استغفار وغیرہ کا ورد چھوڑ کر خدا سے دعا مانگنے لگی ہے، پھر وہ خاص ابو کی صحت و تندرستی کی دعا مانگتے ہو ئے ہی دم لیتی۔۔۔ اس بات پر اسے حیرت بھی بہت ہوتی کہ ایسا اس کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے، دن میں تین چار مرتبہ تو اس کے لب انجانے میں ہی دعا کی طرف راغب ہو جاتے۔۔۔ اس بات کا ذکر اس نے اپنے شوہر سے بھی کہا تھا۔۔۔ یہ سلسلہ اس کے سا تھ اس کے ابو کے اس دنیا سے رخصت ہونے تک بھی برابر چلتا رہا، یہ قدرت کا راز خدا ہی بہتر جانے۔۔۔ بےشک جو عالم الغیب ہے۔۔۔ جس دن اس کے ابو کو سپرد خاک کے لیے لے جا رہے تھے تو سبھی کی حالت غیر ہو رہی تھی اشک تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔ ایسے میں بڑی بزرگ عورتیں صدف کو سنبھالتے ہو ئے کہنے لگیں، اب چپ ہو جاؤ اس طرح آنسو بہانے سے طبیعت پر اثر پڑےگا اور تمہارے ابو کی روح کو بھی تکلیف پہنچےگی تم ان کی لاڈلی ہو۔۔۔ چلو اٹھو باوضو ہوکر ان کے حق میں دعا کرو تاکہ ان کا آخری سفر آسان ہو جائے۔۔۔ صدف کی حالت ایسی بالکل بھی نہیں تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح دعا مانگ پائےگی، اس نے کہا مجھ سے یہ کیسے ہو سکےگا۔۔۔ تو اس کی سہیلی جو اس دن اس کے ساتھ اس کے برابر اشکبار آنکھوں کے ساتھ اسے سنبھالے ہوئے آخر تک رکی رہیں اس نے صدف سے کہا سبھی صحیح کہہ رہے ہیں چلو صدف وضو کرلو اور دعا کے لیے بیٹھتے ہیں، تم ہی دعا کروگی۔۔۔ صدف نے اشکبارا آنکھوں سے اپنی سہیلی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی کیا اس وقت میر ے لب اور الفاظ میرا ساتھ دے پائیں گے جو تم بھی یہی کہہ رہی ہو۔۔۔ تو اس نے صدف کو وضو کے بعد دلاسہ دلایا کہ تم دعا شروع کرو، اگر الفاظ تمہارا ساتھ نہیں دے پائیں تو میں تمہارا ساتھ دوں گی۔۔۔ پھر صدف نے بڑے ہی صبر و رضا کے ساتھ اپنے کانپتے ہو ئے دونوں ہاتھ بارگاہ الٰہی میں دعا کے لیے جیسے ہی اٹھا ئے اسے ایسا لگا ہمیشہ کی طرح اس کے ابو اس سے کہہ رہے ہوں، تم دعا کرو خدا تمہاری ضرور سنےگا۔۔۔ اچانک اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے یہ سوچ کرکے بچپن سے لیکر آج تک ساری حیات وہ صدف سے یہی تو کہتے رہے۔۔۔ صدف نے تو ان سے بہت کچھ پایا اچھی تعلیم و تربیت، دین و دنیا کی حکمت، ہر قدم پر حوصلا افزائی اور ہر طرح کی خوش حالی۔۔۔ مگر اس کے ابو نے التجا کی بھی تو اکثر اپنی لاڈلی سے دعا کی التجا کی۔۔۔ ان کی وہی درخواست اور التجا کی آواز اس کے کانوں میں ایک دم سے گونجنے لگی۔۔۔ یہ دعا سے ان کا کیسا رشتہ تھا۔۔۔ جو صدف کے دل میں بھی شروع ہی سے یقین پیدا کر گیا ان کی وہ آواز صدف کے ذہن میں، دل میں اس کے ناتواں وجود میں اس وقت حوصلا بنکر رو شن ہو نے لگی۔۔۔ اسے خود ہوش ہی نہیں تھا کہ کب اور کیسے اُس نے دعا کی شروعات کی اور کا نپتے ہاتھوں لرزتے ہونٹوں سے صدف نے اپنے پیارے ابو کے حق میں اور ساری امت مسلمہ کے لیے دعا مانگنے لگی اُس وقت اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کے ساتھ اس کی اشکبار آ نکھوں سے نکلنے والے ایک ایک اشک بھی اس کی دعا ؤں پر آمین کہہ رہے ہوں۔۔۔ اس کے بغل میں بیٹھی اس کی سہیلی کو صدف کی دعا میں ساتھ دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔۔۔ صدف اس وقت اس دنیا و مافیھا سے بےخبر بارگاہ الٰہی میں اپنے ابو کی شفقت میں ڈوبے دعا کے ساتھ محو التجا ہو کے کہیں کھو سی گئی تھی۔۔۔ جب اذان کی آ واز کانوں میں گونجی تو صدف اپنے ابو کی یادوں کے حصار سے باہر نکل آئی اس کا بس چلتا تو انہیں یادوں کے حصار میں مقید ہوکے رہ جاتی۔۔۔ مگر ایسا کہاں ممکن تھا۔۔۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کے ابو کے حیات کا سفر کتنا خوبصورت تھا، صبر و رضا کے ساتھ یقین خدا وندی سے ان کی ساری زندگی کے تجربات و حوادث، نشیب و فراز سبھی کہیں پر دہ نشین ہو کے رہ گئے ہوں۔۔۔ حالانکہ وہ اب نہیں رہے، مگر یہ خدا کی ذات پاک سے عقیدہ اور یقین جو ان سے صدف کو ملا تھا، سدا اس کے ذہن کو تازگی بخشتا اور اس کے دل کو ایمان کے نور سے منور کیے ہو ئے تھا اور سب سے بڑ ھ کر اس کے پاس دونوں جہاں کی رہنمائی کا خزانہ اس کے ابو کا دیا ہوا بیش بہا تحفہ ”تفہیم القرآن“ تھا۔۔۔ صدف کے ابو اس کا حوصلا تھے، اس کے رہنما تھے، اس کے ذہن کی تسکین اور اس کے دل کا قرار تھے۔۔۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے اپنے پر عزم ابو کی یاد تڑپا کے رکھ دیتی۔۔۔ وہ اکثر سوچتی کہ کچھ نیک اور عظیم ہستیاں کار نمایاں انجام دے کر چپ چاپ عالم بالا کی طرف لوٹ جاتی ہیں، مگر اپنے پیچھے کبھی نہ مٹنے والی یادیں چھوڑ جاتی ہیں۔۔۔ ان کے چلے جانے سے ایک خلاء سا پیدا ہو جاتا ہے۔۔۔ اسے کبھی نہ پر ہونے والے خلاء کے شدت احساس سے ”صدف کی آ نکھیں شبنمی موتیوں سے لبریز ہوگئیں“ اور پھر ایک بار اس کے دونوں ہاتھ عرش بریں کی جانب اٹھ گئے۔۔۔ خدا سے وہ یوں التجا کرنے لگی کہ اے میرے رب میر ے پیارے والدین کو جنت الفردوس میں سیراب فرما اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی نیک توفیق عطا فرما۔ (آمین)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.